فنِ تلاوت اور مقاماتِ موسیقی- قدسیہ جبین
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے اپنی کتاب ” محاضراتِ قرآنی ” میں ڈاکٹر حمید اللہؒ سے روایت کرتے ہوئے ایک فرانسیسی موسیقار کے قبول اسلام کا واقعہ تحریر کیا ہے جسے کسی عرب سفیر کے ہاں تلاوت قرآن سننے کا اتفاق ہوا۔پہلے پہل وہ اسے فن موسیقی کے پیمانوں پر پرکھتے ہوئے موسیقی ہی کی کوئی صنف سمجھا اور کلام حکیم کی جانب متوجہ ہوا۔یہی توجہ بعد ازاں اسکے قبول اسلام کا باعث بن گئی۔ دورانِ روایت جہاں ڈاکٹر صاحب نے جابجا اپنے تحیر و تعجب کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ قرار دیا ہے وہیں قارئین کی اکثریت کے لیے بھی بیانِ قرآن کی تمام تر روانی ، موسیقیت اور ردھم کے باوجود یہ واقعہ کئی پہلوؤں سے تعجب و تجسس انگیز ہے۔ کلام اللہ کا ایک ادنیٰ قاری بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ اسکا اسلوب پڑھنے والے کو اپنے ساتھ بہائے چلے جاتا ہے لیکن اگر اسے حسنِ صوت اور ترتیل سے آراستہ کر لیا جائے تو یہ قاری و سامع کو جکڑ کر اسکی روح تک کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ خود قرآن حکیم میں ترتیل کے اہتمام کی تاکید کی گئی ہے ۔
آواز کے اتار چڑھاؤ اور ادائیگی کی اسی اثر آفرینی کے پیشِ نظر تمام تہذیبی ادوار میں مذہبی مناجات ، پاٹھ اور گیت گانے کے لیے سُر کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ ہندومت میں تو سنگیت کی باقاعدہ مذہبی معنویت ہے ۔اسی طرح داود علیہ السلام کی پر سوز اور دلکش آواز میں زبور کی تلاوت ایسا سماں باندھ دیتی کہ تو رات کی روایت کے مطابق چرند پرند تک مبہوت ہو کر سنا کرتے۔ آواز کی یہی اثر انگیزی رہتی دنیا تک کے لیے ” لحنِ داودیؑ” کی صورت میں ضرب المثل بن گئی۔ قرآن حکیم نازل ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوبصورت اور پر سوز لب و لہجہ میں اسکی تلاوت کی تلقین کی ۔ حدیث میں سیدنا ابو موسی اشعری کی خوبصورت تلاوت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکی تحسین فرمانے کا ذکر موجود ہے۔
عہد نبوی اور دورِ صحابہ میں دورانِ تلاوت یہ اہتمام آوازکی خوبصورتی اور سوز کے ساتھ ساتھ قواعد و ضوابط کی صحت تک محدود رہا تا آنکہ اسلام حدود حجاز سے نکل کر شرق و غرب میں اپنی روشنی پھیلانے لگا اور حجاز کے معروف لہجوں کے ساتھ ساتھ عجمی لہجوں کی آمیزش سے تلاوت قرآن کے نئے لہجے اور اسالیب سامنے آنے لگے۔
امام زرکلیؒ نے اپنی کتاب ” الاعلام” میں لکھا ہے کہ 32ھ میں عبیداللہ بن ابی بکرہ الثقفیؒ( جو تابعین کے گروہ میں شامل ہیں اور انکے والد راویانِ حدیث میں سے ہیں ) نے پہلی بار قرآن کی ترتیل اور اذان کے لیے الحان کو متعارف کروایا۔ ڈاکٹر طہ عبدالوہاب کے مطابق عبیداللهؒ نے جب دیکھا کہ لوگ اذان میں بتکرار اور اقامت اور نماز کے دوران پڑھی جانے والی تکبیروں میں فرق ملاحظہ نہیں رکھ پاتے تو انہوں نے ہر دو کے لیے حسنِ صوت کے الگ الگ پیمانے اور اسلوب متعارف کروائے اور یہیں سے تلاوت قرآن میں” مقامِ حجاز” کو بطور لحن پڑھنے کا آغاز ہوا۔ جو بعد ازاں ہمارے دور تک پہنچتے پہنچتے” مقامات “کی شکل اختیار کر گیا۔
اس سے قبل کہ ہم ” مقامات ” کی وضاحت اور تفصیل میں جائیں ہمیں موسیقی کی بعض بنیادی اصطلاحات کو سمجھ لینا چاہیے اس کام کے لیے ہم عربی موسیقی کی اصطلاحات کے بالمقابل برصغیر کی موسیقی کی اصطلاحات استعمال کریں گے تاکہ بات سمجھنے میں سہولت ہو۔ دنیا کے کسی بھی نظامِ موسیقی کی طرح عربی موسیقی کی بنیاد بھی سُر اور لَے پہ قائم ہے۔ سُر موزوں آواز کو کہتے ہیں اور ہر سُر دراصل ایک مخصوص فریکونسی ہوتا ہے۔ فرض کیجیے کہ آپ ایک آواز پیدا کرتے ہیں جس کی فریکونسی 240 ہے۔ اب آپ اس فریکونسی کو بڑھاتے جائیں تو آواز اونچی اور پتلی ہوتی جائے گی۔جب اس آواز کی فریکونسی 480 ہو جائے تو یہ پہلے مقام سے دگنی ہو گئی۔ان دونوں مقامات کے درمیان ریاضیاتی حساب سے تو ہزاروں مقامات موجود ہیں لیکن ظاہری بات ہے کہ ہمارے کان ان تمام مقامات کو نہ تو شناخت کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہر مقام ہمارے کانوں کو بھلا معلوم ہو گا۔ پس ماہرین نے پہلے مقام کو پہلا سُر (کھرج یعنی سا ) مانا ہے اور دوسرے مقام کو اوپر والی سپتک کا پہلا سُر(سا) مانا ہے اور ان دونوں کے درمیان سات مقامات پر سُر مانے گئے ہیں ۔ اس درمیانی فاصلے کو سپتک یا استھان بھی کہتے ہیں۔ انسانی گلا بالعموم تین سپتک کے اندر رہتا ہے لیکن کئی فنکار اس سے اوپر بھی جا سکتے ہیں مثلا بیگم پروین سلطانہ ساڑھے چار سپتک کا گانا گا سکتی ہیں۔ نچلی سپتک کو مندر، درمیانی کو مدھ، اور اوپر والی کو تار سپتک کہتے ہیں۔ سات سُروں کے نام بالترتیب یہ ہیں۔ کھرج (سا)، رکھب (رے)، گندھار (گا)، مدھم (ما) ، پنچم (پا)، دھیوت (دھا)، نکھاد (نی) ۔ سات سُروں میں پہلا (سا) اور پانچواں (پا) ایسے ہیں جو اپنی جگہ نہیں بدلتے اور اَچل سُر کہلاتے ہیں۔ جبکہ باقی کے پانچ سُر ایسے ہیں جن کی دو دو صورتیں ہیں۔ اس طرح یہ بارہ سُر ہو جاتے ہیں۔مزید تفصیل میں جائیں تو ایک سپتک میں بائیس شُرتیاں ہوتی ہیں۔ عربی موسیقی میں بھی بنیادی سر سات ہیں جنہیں سات بنیادی آوازیں ( سبعة أصوات أساسية ) کہتے ہیں البتہ انکی علامات” سا ، رے ، گا ، ما ، پا ، دھا، نی ” کی بجائے ” دو ۔ ری ۔ می ۔فا ۔صول ۔لا ۔سی” کے طور پر لکھی جاتی ہیں۔ جس طرح ہمارے ہاں سُروں کی صعودی اور نزولی ترتیب کے ساتھ خاص اصولوں کی مدد سے راگ تشکیل دیا جاتا ہے اسی طرح عربوں کے ہاں “مقام “تشکیل دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں راگ کا ایک مزاج یا رَس ہوتا ہے اور جب اس راگ کو صحیح طریقے سے گایا اور سنا جائے تو وہ اپنے رَس کے مطابق جذبات کو انگیخت کرتا ہے۔ مثلا ہمارے ہاں ایک روایت کے مطابق راگوں کے چھ رَس ہو سکتے ہیں یعنی چنچلتا، گھمبیرتا، غم، شانتی، خوبصورتی اور بہادری۔ اسی طرح عربی مقامات کے بھی اپنے اپنے رَس ہوتے ہیں۔ سُروں کی تعداد مخصوص ہے اور گھٹائی یا بڑھائی نہیں جا سکتی۔ لیکن ان سُروں سے بننے والے راگ سیکڑوں ہو سکتے ہیں۔ لیکن مقبول راگوں کی تعداد چند درجن ہے اسی طرح عربی مقامات میں بھی چند درجن ہی مقبول ہیں۔البتہ تلاوتِ قرآن کے لیے آٹھ مقامات مخصوص کیے گئے ہیں۔ ہر مقام کم سے کم دو اجناس پر مشتمل ہوتا ہے ۔
مقام میں آواز کا صعودی ارتفاع جواب کہلاتا ہے جبکہ اسی انداز میں آواز کی نزولی کیفیت اس جواب کا قرار کہلاتی ہے ۔ ہر مقام میں جواب و قرار موجود ہوتا ہے البتہ اس میں آواز کے درمیانی فاصلوں میں باہم مغایرت پائی جاتی ہے ۔ ان ” مقامات ” کے فردا فردا تفصیلی تعارف سے پہلے ہم دوبارہ واپس تلاوت قرآن میں بطور فن انکے آغاز اور تاریخ کی جانب پلٹتے ہیں۔
عبیداللہ نے جو الحان متعارف کروائے وہ مختلف راگوں پر انحصار کرتے تھے جن میں سے کوئی رنج و الم کا نغمہ کہلاتا تھا کوئی انذار و وعید کا، کسی سے فرحت و انبساط کے جذبات جھلکتے تھے تو کسی سے حسرت و پشیمانی کے۔ بعد ازاں ابو النصر الفارابی نے عبیداللہ کے متعارف کردہ انہی الحان کو بنیاد بناتے ہوئےموسیقی کے باب میں دو بنیادی کتابیں تالیف کیں۔ جن میں سے ایک “الایقاعات” اور دوسری “الموسیقی الکبیر” کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ فارابی کی یہ دونوں تصانیف علمِ موسیقی میں بنیادی مصادر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور یہیں سے وہ مقامات جو تلاوت قرآن میں مستعمل تھے عجمی نغموں اور گیتوں میں بھی استعمال ہونے لگے۔تلاوت قرآن کے یہ الحان بعدازاں مختلف خطوں کے لہجوں کے ساتھ مخصوص ہوئے اورفن ترتیل اور تلاوت قرآن کے مستقل مدارس کی شکل اختیار کر گئے۔ مثلا مقامِ عراقی پر انحصار کرنے والے عراقی مدارس اپنے لہجے اور انداز میں اندلسی مدارس سے مختلف تھے جن کا زیادہ تر انحصار شمالی افریقا کے لہجوں اور اسالیب پر ہوتا تھا۔ جبکہ مقام حجاز اپنے انداز و اسلوب میں ان دونوں مدارس سے الگ تھا۔ البتہ یہ سب مدارس تلاوت قرآن کے صوتی مقامات سکھانے میں مقاماتِ موسیقی کے بنیادی اصول و قواعد کو ملحوظ نظر رکھتے تھے ۔ گویا بنیادی تعلیم تو ایک ہی ہوتی تھی مگر بعدازاں تخصص میں اپنا اپنا رنگ آ جاتا تھا۔
سلطنت عثمانیہ نے اس فن کو نئی جہتیں دیں اور اذان کہنے کے بڑے بڑے فنکار پیدا کیے ۔ ( اسکا تفصیلی بیان کسی اور موقع پر اٹھا رکھتے ہیں) سلطنت عثمانیہ کے کمزور ہونے ، اور مسلم خطوں کے تار و پود بکھرنے کا اثر اس فن پر بھی پڑا ۔مصر میں سب سے پہلے شیخ محمد زکریا نے تلاوت قرآن کے ضمن میں اس فن کے ضیاع کے خدشے کے پیش نظر ایسے مدارس کے قیام کی تجویز پیش کی جہاں آلات موسیقی کے بغیر مقامات موسیقی سکھا کر مقامات قرآنی کے اس فن کو بچانے کے صورت پیدا کی جائے ۔ اس تجویز کو جامعہ ازہر نے رد کر دیا لیکن بعد میں مصر میں فرانسیسی استعمار کے پاوں جمتے ہی ایسے مدارس کا قیام عمل میں آ گیا ۔ یہاں تک کہ یہ مصری مدارس اس فن میں پوری مسلم دنیا میں ممتاز حیثیت اختیار کر گئے۔ اوریہ مشہور مثل سامنے آئی :” قرآن حجاز میں نازل ہوا اور مصر میں پڑھا گیا “۔
ان مصری مدارس کا امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں مقاماتِ شرقی ( جو مدرسہ عراقی اور حجازی سے منسوب ہیں مثلا رست، بیات، سیکا ، صبا) اور مقاماتِ غربی ( جو مدرسہ اندلسی سے منسوب ہیں مثلا عجم ، نہاوند ، کرد وغیرہ) دونوں کے اجتماع سے وجود میں آنے والے آٹھوں مشہور مقامات سکھائے جاتے ہیں۔ مصر میں موجود یہ مدارسِ فن بسا اوقات کسی ایک یا دو مقامات کی بنیاد پر مشہور ہوتے ہیں یا وہاں سے نکلنے والے قاری / ماہر فن کے اپنے ذاتی ذوق اور رجحان پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس خاص مقام کو زیادہ پسند کر کے اس میں مہارت پیدا کرلے۔ مثلا شیخ صدیق المنشاوی نہاوند میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور یہی انکی بڑی پہچان ہے۔یاد رہے کہ ان مدارس میں فنِ ترتیل اوران مقامات کے سکھانے کا انحصار صرف آواز اور راگ کی مشق ہی کی صورت میں ہے نہ کہ آلات موسیقی کے ذریعے۔
یہ آٹھ مقامات، جنہیں عرف عام میں مقاماتِ صوتی یا مقاماتِ موسیقی اور فن تلاوت میں مقاماتِ قرآنی کا نام دیا جاتا ہے ، مختصراً ” صنع بسحرك ” کے علامتی مجموعے میں اکٹھے کر دیے گئے ہیں ۔جس کا ہر کلمہ ایک خاص مقام کی جانب اشارہ کرتا ہے ( صبا ، نہاوند، عجم ، بیات، سیکا، حجاز ، رست، کرد)۔ ان میں سے ہر مقام آواز کے اتار چڑھاؤ ، انداز و اسلوب اور آواز کے درمیانی فاصلوں کے بُعد یا قرب کی بنا پر مزید کئی ذیلی شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ۔عربی زبان کا مشہور مقولہ ” لکل مقام مقال ” ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ ہر مقام ہر آیت کی تلاوت کے لیے نہیں ہوتا بلکہ آیات کے معانی اور مضامین کے اعتبار سے مختلف مقامات ہو سکتے ہیں۔ پس قاری، دورانِ تلاوت ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل ہو سکتا ہے مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ ۔ سو یہ مہارت ہر قاری کے بس کی بات نہیں ۔ بہت سے حضرات اس میں چوک جاتے ہیں ۔
آٹھ مقامات کا مختصر تعارف:
1۔مقامِ بیات:۔
یہ سب سے آسان اور ابتدائی مقام ہے اسکی تاثیر پرسکون گہرے سمندر کے مماثل ہے ۔ بیات کو مقامات میں بنیادی حیثیت حاصل ہے جس سے بقیہ مقامات پھوٹتے ہیں ۔ قراء حضرات اپنی قرآت کا آغاز و اختتام عموما اسی مقام سے کرتے ہیں۔ ایک عام آدمی بھی عام طور اپنی تلاوت میں اسی مقام کی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔
2۔مقامِ رست:۔
یہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی استقامت اور جماو کے ہیں ۔ اسے بہت قوت اور شدت سے ادا کیا جاتا ہے شیر کی دھاڑ اسکی عمومی مثال ہے جس میں ایک مخصوص شدت اور زور پایا جاتا ہے۔ عام طور پر قراء حضرات تلاوت کا آغاز بیات سے کر کے فوراً رست پر چلے جاتے ہیں۔ سعودی قراء خصوصا سدیس، حذیفی اور محیسنی وغیرہ عموما اسی مقام کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ رست کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ قاری تلاوت کا آغاز بہت قوت و شدت سے کرے پھر آہستہ آہستہ اپنی آواز اور لہجے کو سکون اور ٹھہراؤ کی طرف لے آئے۔
شیخ منشاوی کی ” الم تر كيف فعل ربك بأصحاب الفيل” کی تلاوت اور قاری عبدالباسطؒ کی زبانی “إذا الشمس كورت ” مقام رست کو سمجھنے کیلیے مددگار ہیں ۔
3۔عجم:۔
یہ مقام بیک وقت حزن ، شدت ، نرمی اور امید کے تاثرات کا مجموعہ ہے ۔ قاری عبدالباسطؒ عجم کے تحت درج ذیل آیات کی تلاوت کرتے ہیں :
” و مريم عمران التى احصنت فرجها …………… …….الخ ”
پاکستان میں مروج محافل حسن قرات میں بھی زیادہ تر یہی مقام سننے کو ملتا ہے۔
4۔ مقامِ نہاوند:۔
ایران کے شہر نہاوند سے منسوب یہ مقام خوشی و غم ، خوف و رجا، محبت و عاطفت کے جذبات کی ادائیگی کیلیے موزوں ترین ہے۔ قاری عموما اس میں آواز کی پہلی سیڑھی پر چڑھتا ہے اور آخری تک جا پہنچتا ہے پھر اسی رفتار سے آواز کا سفر نیچے کی جانب شروع کر دیتا ہے ۔قاری عفاسی اور شاطری اپنی تلاوت میں اسی مقام کو پیش نظر رکھتے ہیں ۔
قاری عبدالباسطؒ نے زندگی بھر کوئی ایک آیت بھی اس مقام کی پیروی میں نہیں پڑھی جبکہ شیخ منشاوی کا اسکی جانب شدید جھکاو کی وجہ سے پہچان ہی یہی مقام ہے۔
5۔مقامِ صبا:۔
یہ درد و غم اور آنسوؤں میں ڈھالنے والا مقام ہے اسکی سب سے خوبصورت ادائیگی شیخ عبدالباسط عبدالصمد کے ہاں ملتی ہے جو ایک ہی نشست میں بار بار اس مقام کی جانب پلٹتے ہیں۔قیامت کی ہولناکیوں کے ذکر پر مشتمل آیات کی تلاوت کیلیے یہ مقام بہترین سمجھا جاتا ہے۔خالد القحطانی کے علاوہ شیخ محمد رفعت اور شیخ المنشاوی کے ہاں بھی اسکی پیروی بکثرت ملتی ہے۔
6۔مقامِ سیکا:۔
یہ مقام آہستہ روی اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں تلاوت کیلیے مخصوص ہے ۔ عموما قاری ان آیات کی تلاوت میں اسکی پیروی کرتا ہے جن میں دو متضاد چیزوں کا ذکر ایک ہی جگہ پر ہو۔
جیسے ایک جانب خوشی کا ذکر ہے اور ساتھ ہی غم کا ۔ اگر قاری اسکی ادائیگی مہارت سے کرنے پر قادر ہو تو یہ سامع کا دل چیر کر رکھ دیتا ہے ۔قاری عبدالباسط نے پوری زندگی میں صرف ایک مقطع اس مقام کی پیروی میں پڑھا ہے ۔
” قدأفلح من زكاها و قد خاب من دساها……………. الخ”
7۔ مقامِ حجاز:۔
یہ خوبصورت ترین اور مشکل ترین مقام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بقیہ مقامات کے برعکس ( جو عجمی الاصل ہیں) یہ مقام عربی الاصل ہے۔یہ شدید حزن و الم ، آواز کی پوری قوت لیکن انتہائی عاجزی سے ادا ہونے والا مقام ہے۔ اسکی ادائیگی میں جو مشقت اور مہارت درکار ہے وہ ہر قاری کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے عموما بڑے بڑے قراء بھی اس مقام کی بلا تکلف پیروی سے پرہیز کرتے ہیں ۔ ایک ایک گھنٹے کی تلاوت کے دوران میں قاری اسے صرف ایک آدھ آیت کی تلاوت میں برتتے نظر آتے ہیں سوائے شیخ عبدالباسط کے جو سورہ مریم کی تلاوت کے دوران پہلے ” و حنانا من لدنا و زكوة……….. و يوم يبعث حيا” کی تلاوت میں اسکی پیروی کرتے ہیں اور پھر آگے “فحملته فانتبذت به مكانا قصيا…………. نسيا منسيا ” کی تلاوت میں پھر اسی کی جانب لوٹ آتے ہیں۔
8۔ مقامِ کرد:۔
ادائیگی اور مشق کے لحاظ سے یہ بھی سہل ترین مقامات میں سے سمجھا جاتا ہے ۔ اندلس کی موسیقی میں یہ بنیادی راگ کی حیثیت رکھتا تھا۔
جواز و عدم جواز:
مقامات کے بنیادی تعارف اور یہ جان لینے کے بعد کہ قراء کرام الل ٹپ اپنی آواز کے زور اور تجوید کے اصولوں ہی پر محض اکتفا نہیں کرتے بلکہ باقی فنون کی طرح فنِ تلاوت بھی باقاعدہ ایک فن ہے جس میں مہارت کے لیے مختلف دیگر متعلقہ علوم و فنون کے ساتھ ساتھ موسیقی کے ” مقامات صوتیہ “کی باقاعدہ اور مسلسل مشق اور انکی پیروی ضروری ہوتی ہے ۔ذہنوں میں یہ سوال اٹھنا قابل تعجب نہیں کہ کیا قرآن کی تلاوت کے لیے اصولِ موسیقی کی پیروی کا جواز موجود ہے یا نہیں ۔ آغاز سے ہی علماء نے تلاوت قرآن میں اس فن کے جواز اور عدم جواز پر بحث کرتے ہوئے مختلف آراء پیش کی ہیں ۔
علماء کا پہلا گروہ:
علماء کا ایک بڑا گروہ اس فن کو ترتیل اور تلاوت قرآن کے ساتھ منسلک کرنے کو درست نہیں سمجھتا۔انکی رائے میں قرآن کے نزول کا اصل مقصد اس پر تدبر و تفکر کر کے اس سے ہدایت اخذ کرنا ہےجبکہ:
1۔ مقامات قاری و سامع کو اپنے پیچ و خم میں الجھا کر اصل مقصد سے غافل کر دیتے ہیں ۔
2۔ علمِ مقامات کی مثال علم عروض کی سی ہے ۔ جس طرح شعر کا مخصوص وزن کے پیمانے پر پورا اترنا ضروری ہے اور شعر ان اوزان کے تابع ہوتا ہے اسی طرح قرآن کو مقامات کے تابع کرنے سے الفاظ ٹوٹتے ، اور مطلوب قواعد و ضوابط کی ادائیگی متاثر ہوتی ہے ۔
3۔ مقامات میں مبالغہ بسا اوقات قرآن کے درست الفاظ و اعراب میں کمی بیشی کا باعث بن کر معانی تک کو بدل دیتا ہے جو کسی طور بھی جائز نہیں۔
4۔موسیقی کی دھنوں پر قرآن کی تلاوت کلام الہی کے وقار اور احترام کے منافی ہے۔
5۔ تلاوت قرآن کا جو اہتمام رسول اللہﷺ اور صحابہ کے دور میں ہوا وہ اس طرح کے تکلفات سے پاک تھا سو ایسی تلاوت بدعت میں شمار ہو گی۔
علماء کا دوسرا گروہ:
پہلے گروہ کے بالمقابل علماء کا ایک دوسرا گروہ اس فن کو مطلقاً جائز قرار دیتا ہے ان کے نزدیک:
1۔ مقامات کے استعمال سے حسنِ صوت میں اضافہ ہوتا ہے جو قاری اور سامع دونوں کے خشوع میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور عین مطلوب ہے۔
2۔ مقامات کا استعمال قرآن کے معانی کے درست اور موثر ابلاغ میں مددگار ہوتا ہے۔
3۔ ڈاکٹر طہ عبدالوہاب کے مطابق یہ مقامات پہلے پہل عبیداللہ بن ابی بکرہ کے ہاتھوں قرآن کی تلاوت ہی کے صوتی مدارج کے طور پر مقرر کیے گئے تھے جس سے بعد ازاں موسیقی کی تانیں اور راگ وضع کرلیے گئے۔ لہذا مقاماتِ موسیقی، قرآنی مقامات کے تابع ہیں اور اسکا الٹ درست نہیں۔
4۔ مقامات کے تحت تلاوت قرآن کی مختلف الموضوع آیات کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتی اور ہر موضوع کے خاص تاثر کو نمایاں کرنے میں معاون ہوتی ہے ۔ اور اس سے تدبر میں مدد ملتی ہے۔
اصل معاملہ جو بھی ہو مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقاماتِ صوتی کا یہ فن تلاوت کے تینوں اسالیب ، تجوید ، حدر اور ترتیل کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ اور مسلم دنیا کے ہر طبقہ فکر کے ہاں قبول عام حاصل کر چکا ہے۔
پس جواز اور عدم جواز کی ان دو انتہاوں کے مابین علامہ ابن حجر عسقلانیؒ کی رائے معتدل اور متوازن معلوم ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اہل علم نے تلاوت قرآن میں الحان کی پیروی کو درج ذیل شرائط کا پابند بنا کر جائز قرار دیا ہے:
1۔ یہ الحان الفاظ کی درست ادائیگی اور تجوید کے قواعد میں کمی بیشی کا باعث نہ بن رہی ہوں ۔
2۔ یہ الحان قرآن کے وقار ، احترام اور جلال و عظمت سے متناقض نہ ہوں۔
3۔ قاری دوران تلاوت ترجیحاً ان الحان کو اختیار کرے جو قاری اور سامع ہر دو میں خشوع اور درد و الم کے جذبات ابھارے کیونکہ قرآن کی تلاوت کے سب سے موزوں مقامات یہی ہیں۔
4۔ الحان کی پیروی میں غیر ضروری تکلف اور مبالغہ سے پرہیز کیا جائے اور تلاوت قرآن کو زیادہ سے زیادہ اس سے پاک رکھ کر فطری بنایا جائے۔
-
[…] Ref: https://jaeza.pk/taasrat/art-of-quran-recitation/ […]
Leave a Comment
سبحان اللہ ۔ جزاک اللہ ۔ کیا ہی خوبصورت تحقیقِ عمیق پیش کی ہے ۔ جزاک اللہ ۔ بہت خوب ۔ ویری گڈ ۔ ایکسی لینٹ ۔ مار۔ولس
۔بہت خوب، اچھی معلوماتی تحریر ہے۔ لیکن عام قاری و سامعی شاید ان چیزوں سے نابلد ہی ہوتے ہیں۔ محمود غازی، ڈاکٹر حمید اللہ اور اس فرانسیسی مسلم موسیقار کا واقعہ پورا تحریر نہیں کیا گیا جو شای عام قاری کے لیے تشنہ ہو۔مگر قارعین کی معلومات کے لیے وہ نیٹ پر سرچ کرنے سے مل جاتا ہے۔
گو مضمون اچھا معلوماتی ہے لیکن قرآن کو موسیقی اور شاعری کے ساتھ نتھی کرنا اچھا نہیں لگتا ، جبکہ قرآن اور خود کفار مکہ اسکی تردید کرتے نظرآتے ہیں۔ میں اس سلسلے میں علماء کے پہلے گروہ کے نظریے سے متفق ہوں۔
ماشااللہ بارک اللہ فیک فن مقامات پر بہت زبردست تحریر تھی مگر بات یہاں قابل مزمت ہے کہ مقامات کی تفصیل میں جو قرآء کا انتخاب کیا گیا اس میں نہایت ناانصافی کا مظاہرہ کیا گیا الشیخ الشحات محمد انور جنہیں “امیرالنغمات” کا لقب دیا گیا الشیخ مصطفی اسماعیل جنہیں “سلطان القراء” کا لقب دیا گیا ان کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا
ماشاءاللہ۔۔۔ بہت خوب ۔۔ حضرت میں شیخ الحصری کے انداز میں پڑھتا ہوں۔ انکی وضاحت کریں۔ وہ کن انداز میں پڑھتے ہیں۔