اپنی اپسٹیم کا جھٹکا۔ تحریر: عاطف حسین

 In تاثرات

رعایت اللہ فاروقی صاحب کی ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ قرآن کے ساتھ سب بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ مدارس سے نکلنے والوں کو اگلے مفسرین کے تابع رہنے اور اپنی عقل لڑانے سے باز رہنے کی ہدایت کی گئی جس سے معدودے چند کے علاوہ باقی تمام نئی تفسیریں اگلوں سے کاپی پیسٹ ہی کی گئی ہیں۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ قرآن کی بعض آیات بگ بینگ کے متعلق کے تھیں جن کے معنی تک رسائی 1936ء کے آس پاس ہی ہوئی۔ پھر وہ تفصیل سے بتاتے ہیں کہ کونسی کونسی آیات بگ بینگ کا بتاتی ہیں اور کیسے ان کا مکمل مفہوم ہبل جیسے کائنات کا مشاہدہ کرنے کے وسائل کی عدم موجودگی میں اگلے مفسرین کی رسائی سے باہر رہا۔ آخر میں وہ یہ کہتے ہوئے قرآن پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے بعد بھی ابن عباس (رض) کی ضرورت تھی اور ابن عباس (رض) کے بعد بھی رازی (رح) کی ضرورت تھی۔ اس پوسٹ کو دیکھیں اور پھر اس پر دل والے ری ایکشنز، توصیفی تبصرے اور شیئرز دیکھیں۔ اس سرگرمی میں ملوث تمام بھائیوں کو ایک طرف خوشی ہے کہ قرآن میں کیسے کیسے راز ہیں جنکی سچائی اب سائنس سے ”ثابت“ ہو رہی ہے اور دوسری طرف انہیں کاپی پیسٹ والے مولویوں پر غصہ ہے کہ کیسے جاہل اور ظالم ہیں کہ اگلے وقتوں کے مولویوں کے مقلد بنے رہنے پر مصر ہیں اور لوگوں کو قرآن پر خود ”غور“ کرنے سے روکتے ہیں۔ ایسی تحریریں اب جابجا دیکھنے کو ملتی ہیں اور ان کی پذیرائی بتائی ہے کہ رسد کے ساتھ طلب بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ ضرور بڑی نیک نیتی سے لکھی جاتی ہوں گی لیکن انتہائی مضر ہیں کیونکہ یہ عین اسی چیز کی جڑ کاٹتی ہیں جس کی بزعم خویش glorification کیلئے لکھی جاتی ہیں۔ سائنسی تھیوریوں سے قرآنی آیات کی حقانیت ثابت کرنے کا مطلب نفسیاتی سطح پر پہلے ہی یہ تسلیم کرلینا ہے کہ سائنس برتر ہے اور قرآنی آیات کو اس کی validation کی ضرورت ہے۔ بعض سادہ لوح اصرار کرتے ہیں کہ نہیں ہم سائنس کو قرآن پر حکم نہیں بنا رہے بلکہ ہم تو یہ دکھا کر کہ سائنسی اکتشافات جو اب ہو رہے ہیں وہ قرآن نے پہلے ہی بتا دیے تھے قرآن کی برتری ثابت کررہے ہیں۔ یہ ایک نادانی پر مبنی بات ہے کیونکہ اس میں بھی implied یہی ہے کہ سائنس تو لازماً درست ہے (اور سائنسی تھیوری بھی آفاق و انفس کے انہی حقائق کی طرح ہے جن کا قرآن مجید بار بارذکر کرتا ہے) اور چونکہ قرآن نے پہلے بتا دیا تھا تو قرآن بھی درست ہے۔ پیمائش اب بھی میز کے بجائے مسطر کی ہی ہو رہی ہے۔ اس بنیادی surrender کے بعد باقی تمام surrenders خود بخود ہوتے ہیں۔ چونکہ modernity کی epistemic برتری تسلیم کرلی گئی ہے تو روایتی اسلامی طریقہ کار بھی فروتر ہونے کی وجہ سے dispensable ہوگیا۔ کسی شے کے علماء کی نسل در نسل اسناد کے ذریعے قرونِ اولیٰ، صحابہ (رض) یا خود رسول کریم (ص) تک trace ہونے کے بعد ہی قابل جواز قرار دینے کا طریقہ (جس کے تحت ”عقل لڑانے“ کی ممانعت تھی) جو کہ عین خوبی تھا قابلِ مذمت بن گیا اور ان تمام واسطوں کو پھلانگ کر سیدھا قرآن کو ”غور” کا ہدف بنانا قابلِ تحسین اور مطلوب بن گیا۔ قرآن بھی اب ایک عام کتاب بن گیا ہے جس کے ساتھ ویسے ہی engage کیا جا سکتا ہے جیسے کسی بھی کتاب کے ساتھ۔ اس کو رازی (رح) و قرطبی (رح) کی قرآن کے ساتھ engagement جیسا سمجھنا نادانی ہے۔ ایسی engagement ان بزرگوں کیلئے unimaginable تھی۔ یہ نیک نیت دوست سائنس سے قرآن کی validation لانے کی desperation میں اپنی episteme کا جو جھٹکا کرتے ہیں اس کے بعد قرآن کی حیثیت تو کجا اس کا وجود ”ثابت“ کرنا ہی ممکن نہیں رہتا۔ اور ظاہر ہے اس کے بعد مسلمان ہونے کی کوئی معنویت بھی باقی نہیں رہتی۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search