مرزا ہادی رسوا کا ناول ’اختری بیگم‘ اور اصلاحِ معاشرت (تحریر: برہان حسن)

 In تاثرات

مرزا ہادی رسوا کا ناول اختری بیگم اردو ادب کے ابتدائی ناولوں میں کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اگر اس ناول کی کہانی پر مختصراً گفتگو کی جائے تو اس ناول کا مرکزی کردار ایک لڑکی کا ہے جس کا نام ”اختری بیگم“ ہے جس کے گرد کہانی گردش کرتی ہے ۔ ”اختری بیگم“ کو اس ناول میں صاحبِ جائیداد کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اختری کی والدہ ” خورشید بیگم“ کو اس کا شوہر چھوڑ کر جا چکا ہے، مرنے سے قبل اختری کی والدہ یعنی خورشید بیگم خورشید مرزا سے ملتی ہے۔ وہ کچھ پل ان لمحات کو یاد کرتے ہیں جو انھوں نے نوعمری میں ایک ساتھ بسر کیے تھے۔ اب خورشید بیگم کہ جسے معلوم ہو چکا ہے کہ وہ دنیا میں کچھ دنوں کی مہمان ہے چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی (اختری بیگم) کی کفالت کی ذمہ داری خورشید مرزا ادا کریں، جائیداد جو اختری کے حصے میں آتی ہے اس کو بھی خورشید مرزا سنبھالیں اور جب اختری سنِ نکاح کو پہنچے تو اس کی شادی کسی اچھے گھرانے میں کر دیں اور جائیداد اس کے حوالے کر دیں۔ ساتھ ہی  خورشید بیگم  خورشید مرزا کو اختری کی جائیداد کو صیغہ راز میں رکھنے کی تاکید بھی کرتی ہے۔

 خورشید مرزا اس ذمہ داری کو نبھانے کی حامی بھر لیتے ہیں اور اختری کو اس کی والدہ کے حکم کے مطابق اپنے ساتھ لے آتے ہیں ۔ اس قدم کے اٹھانے سے خورشید مرزا کو اپنی ہی بڑی بیٹی ”جعفری بیگم“ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن خورشید مرزا اپنے اس عہد کو جو انھوں نے خورشید بیگم کے ساتھ کیا تھا پر قائم رہتے ہیں۔ وقت گزرتا چلا جاتا ہے اور خورشید مرزا کے عزیز و اقارب میں اختری کو لے کے چہ میگوئیاں زور پکڑ لیتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب مراد علی کو اختری کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ صاحبِ جائیداد ہے، وہ مال و دولت کے حصول کی خاطر اختری پر ڈورے ڈالنے لگتا ہے۔

مراد علی اپنے عزائم میں ناکام ہو کر بھی مایوس نہیں ہوتا اور غیر مناسب طریقوں سے اختری کے مہنگے زیورات چُرا لے جاتا ہے۔ ”نواب مرزا“ اور ”حکیم جعفر علی“ دو ایسے کردار ہیں جو عین اس وقت کہانی میں وارد ہوتے ہیں جب وہ مراد علی کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہوتے ہیں، یہ اختری کو اس کا حق دلانے کا عہد کرتے ہیں اور آخر کار ان کی کوششوں سے اختری بیگم کو اس کے زیورات مل جاتے ہیں۔ خورشید مرزا جو پہلے افسردہ تھا کہ وہ اختری کے مال و دولت کی حفاظت نہیں کر سکا اب خوش ہے کہ اختری نقصان سے بچ گئی۔ کہانی میں جن نسوانی کرداروں سے اختری کا واسطہ پڑتا ہے اور جن کی مدد سے اس کا کردار پھلتا پھولتا ہے ان میں جعفری بیگم، ہرمزی بیگم، اور نادری بیگم شامل ہیں۔

یہ ناول بنیادی طور پر لکھنوی تہذیب و ثقافت کے انہدام کا نمائندہ ہے کہ معاشرے میں موجود مجبور عوام سے بیشتر صاحبِ حیثیت لوگ کس طرح کا سلوک روا رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر ریاض ہمدانی اس ضمن میں رقمطراز ہیں کہ

”یہ ناول لکھنو کی تہذیب کے زوال پذیر طبقے کا نمائندہ ہے جہاں سماجی اقدار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں۔ ناول نگار نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک مخصوص معاشرے میں جہاں ثروت مند طبقے کو اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے، وہاں تمام لوگ ان کے زوال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔“ 

ناول کے مرکزی کردار ”اختری بیگم“ اور ”خورشید مرزا“ ہیں لیکن اِن کے ساتھ ”جعفری بیگم“، ”نادری بیگم“، ”مراد علی“، ”حکیم جعفر علی“ اور ”نواب مرزا“ بھی ایسے کردار ہیں جن کی اہمیت مسلم ہے۔ مرزا ہادی رسوا نے اختری بیگم کی کردار سازی کرتے ہوئے انسان کے فطری جذبات کی عکاسی کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔ آئیے ان کرداروں پر روشنی ڈالتے ہیں ۔

اختری بیگم :

” اختری  بیگم “ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے ناول کا مرکزی کردار ہے ۔ یہ ایک ایسا پِسا ہوا کردار ہے جسے کم سنی میں دنیا  نے روندنے کی کوشش کی ، جس سے اُسے اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ دنیا بازیچئہ اطفال نہیں ہے۔ اختری کہانی میں داخل ہوتی ہے تو ایک معصوم سادہ لوح لڑکی ہوتی ہے لیکن اس کی مضبوطی یہ ہے کہ ناول کے آخر تک وہ اپنی معصومیت کو زمانے کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیتی۔ یوں لگتا ہے اس کردار کی وساطت سے مرزا ہادی رسوا نے صبر و انکسار کی تلقین کی ہے۔ اختری کا کردار خواندہ، ہنر مند، سیر چشم اور نفاست پسند ہے۔ خدا پر یقینِ کامل رکھتے ہوئے طمع و لالچ سے دور بھاگتا ہے۔ اس کردار سے ہنگامہ امروز و فردا سے ایک خاص بے رخی کا احساس ہوتا ہے جو کہ زندگی گزارنے کے لیے اشد ضروری سمجھا جاتا ہے۔

خورشید مرزا:

خورشید مرزا بھی ناول کا مرکزی کردار ہے۔ یہ کردار مثبت و منفی دونوں پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جس کے سبب کہانی وجود میں آتی ہے کیوں کہ یہی وہ کردار ہے جو انسانیت و بھائی چارے کی خاطر اختری کو اپنے گھر لے کر آتا ہے اور پھر معاشرے کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوتا ہے۔خورشید مرزا ایک سادہ لوح کردار ہے جس کی ماضی کے ساتھ گہری وابستگی ہے۔ وہ دولت کی اہمیت کو سمجھتا ہے لیکن انسان اور معاشرتی اقدار کو اس پر فوقیت دیتا ہے، جب غلطی کرتا ہے تو اُسے اپنی غفلت اور اس ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے جسے وہ پورا نہیں کر پایا ۔ علاوہ ازیں اس کردار کے زریعے رسوا نے معاشرے کی یہ تربیت کی ہے کہ وہ اپنے بچوں اور خاص طور پر تعلیم نسواں کی حوصلہ افزائی کریں۔ (یاد رہے کہ جس دور میں یہ ناول لکھا گیا اس دور کے برِصغیر میں تعلیمِ نسواں ایک عیب سمجھا جاتا تھا، تب ایک ایسا کردار تخلیق کرنا رسوا کا ہی خاصّہ ہے۔)

جعفری بیگم :

جعفری بیگم ناول کا ایک اہم کردار ہے ۔ اسی کے دم قدم سے کہانی میں اتار چڑھاؤ  آتے ہیں جس سے قاری متجسس رہتا ہے۔ یہ کردار نرگسیت کی ایک عمدہ مثال ہے ۔ جعفری بیگم جلد باز ، جھگڑالو اور حاکم مزاج ہے ، اپنے والد سے اس قدر محبت رکھتی ہے کہ یہ محبت تعمیر کی بجائے تخریب کا باعث بننے لگتی ہے ۔رسوا نے بھی شاید اس کردار کو پیش کر کے یہی دکھانا چاہا ہے کہ یک رخہ انسان زندگی میں کس قدر تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جلد بازی و حاکم مزاجی انسان کی آنکھوں پر حجاب ڈال دیتی ہے جس سے آخر پر ندامت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ جعفری آخر پر اپنی غلطی کا اقرار کر لیتی ہے جس سے یہ دکھایا گیا ہے اگر کبھی انسان غلط سمت چل رہا ہو یا اس سے کوئی حماقت سرزد ہو جائے تو اسے قبول کر لینا چاہیئے۔

مراد علی :

اس ناول میں مراد علی ایک منفی کردار کے طور پر ہمارے سامنے آیا ہے۔ منفی ہونے کے باوجود یہ ایک دل چسپ کردار ہے ، قاری کا جی چاہتا ہے کہ وہ مراد علی کے زیادہ سے زیادہ مکر و فریب جان سکے ۔ یہ ایک دھوکے باز ، بناوٹی ، جلدباز و بدکار کردار ہے۔ اس کردار کو پیش کر کے مرزا ہادی رسوا نے معصوم و سادہ لوح افراد کی تربیت کرنا چاہی ہے جو اس دنیا میں چال بازوں کی بُنی چالوں سے نا آشنا ہیں۔ اس کے علاوہ ”رسوا“ نے یہ بتایا ہے کہ جہاں اچھے لوگ موجود ہوں وہاں بُرے بھی ہوتے ہیں کہ یہی قدرت کا اصول ہے، تاریکی سے ہی روشنی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔

ہرمزی بیگم :

ہرمزی بیگم ناول میں ثانوی حیثیت کا حامل کردار ہے۔ ہرمزی کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے وہ اپنی ماں کی کفالت کرتی ہے جس کے دوران اسے مختلف قسم کی مصیبتوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ کسی کے سامنے دستِ سوال بلند نہیں کرتی ہے ۔ اس جذبہ خودداری سے ہم ہرمزی کی تربیت کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں جو کہ یقیناً اس کی ماں کی بدولت ہوئی۔ ہرمزی کی والدہ ایک جگہ پر کہتی ہے

”نہیں بیٹا ہم لوگ غریب آدمی ذرا سی آبرو رکھتے ہیں۔ اس ذرا سی آبرو کا ہم کو بڑا خیال ہے۔“

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہرمزی بیگم کے وجود سے کہانی میں ہمت و حوصلے کی فضا جنم لیتی ہے۔

نادری بیگم:

اس ناول میں ” نادری بیگم“، ”خورشید مرزا“ کی چھوٹی بیٹی اور ”جعفری بیگم“ کی چھوٹی بہن کے روپ میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ یہ ایک ذیلی کردار ہے جو مرکزی کرداروں کے مکالمات میں رنگ بھرتا ہے۔ یہ کردار سراپا محبت ہے۔ نادری ایک کم سن لڑکی ہے جو ہر کسی سے محبت کرتی ہے اور بیشتر کردار نادری سے بھی شفقت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اس کردار سے یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ مرزا ہادی رسوا کس قدر تعلیم اور ہنر کے قائل تھے کہ نادری کو علم کی پیاس کی وجہ سے ناول میں پسند کیا گیا ہے۔ یقیناً اس کردار کے ذریعے ”رسوا“ عورت کی تعلم اور ہنر مندی کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرنا چاہتے تھے۔

نواب مرزا ، حکیم جعفر علی :

نواب مرزا اور حکیم جعفر علی دو ذیلی کردار ہیں لیکن کہانی میِں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انھی دو کرداروں کی وساطت سے ”خورشید مرزا“ کی شرمندگی و خجالت دور ہوتی ہے اور اختری کو اپنا حق ملتا ہے۔ نواب مرزا ایک مصور ہے اور اپنے کام سے سنجیدہ کردار ہے۔ جو کام اسے سونپا جاتا ہے اُسے خوش اسلوبی سے انجام دیتا ہے اور یہی مزاج حکیم جعفر علی کا بھی ہے۔ یہ دونوں خدا ترس کردار ہیں ، طمع و لالچ سے بالاتر ہیں ، قانونی پیچ و خم ، اور معاشرتی نشیب و فراز سے خوب واقف ہیں۔ ان کرداروں کے ذریعے مرزا ہادی رسوا نے بتایا ہے کہ سماج میں ایسے خدا ترس، انسانیت رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں بس انھیں پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یقیناً ایسے حقیقی کرداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

المختصر !

ناول ” اختری بیگم “ میں کردار نگاری کے زریعے مرزا ہادی رسوا نے معاشرے کی اصلاح کا بیٹرا اٹھایا اور اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچایا ہے ۔ انھوں نے معاشرتی خدو خال کو جہاں واضح کیا ہے وہاں معاشرے کے ناسوروں کو بھی منظرِ عام پر لانے کی کوشش کی ہے ۔

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search