جون ایلیا کے بارے میں جناب احمد جاوید صاحب کی گفتگو (مرتب: عاصم رضا)
نوٹ: سال 2019ء میں جناب احمد جاوید صاحب نے معروف شاعر جون ایلیا پر کراچی میں گفتگو فرمائی جس کو اس لنک سے سنا جا سکتا ہے۔ مذکورہ گفتگو اپنی علمی و ادبی اہمیت و معنویت کے پیش نظر ، بڑی عرق ریزی کے ساتھ تحریری قالب میں منتقل کی گئی ہے ۔ یاد رہے کہ مذکورہ گفتگو اس سلسلے کی پہلی نشست پر مبنی ہے ۔ قوسین، واوین، رموزِ اوقاف اور پیراگراف کی نسبت مرتب کی جانب ہے اور اس ضمن میں فاضل مرتب ہی ہر قسم کی غلطی کا ذمہ دار ہے۔
سلیم احمد کے بارے میں جو جانتا ہے ، وہ تو جانتا ہی ہے ۔ جو نہیں جانتا ، اُس سے عرض ہے کہ سلیم احمد کسی ذاتی ردعمل پہ رائے نہیں بناتے تھے ۔ وہ اپنی رائے پرسنل(personal) ہو کے نہیں بناتے تھے ۔ ایسا ممکن نہیں تھا کہ وہ کسی شخصیت کو ناپسند کرتے ہوں اور اس ناپسندیدگی کو اس شخص کے افکار کی ناپسندیدگی کا سبب بنا لیں ۔ ایسا بالکل نہیں تھا سلیم احمد کے ساتھ ۔ سلیم احمدتو کفر سے نفرت اور کافر سے محبت کرنے والے آدمی تھے ۔ وہ بالکل impersonal آدمی تھے ۔ تو ان کی رائے یہ تھی کہ ان (جون ایلیا) کے پاس ایک کمیاب سچ ہے ، ان کو ایک کمیاب تخلیقی صداقت حاصل ہے جس کو یہ کھیل کود کے ذریعے ڈھانپ لیتے ہیں ۔ یہ اُس سچ کو ، اس کے اندر موجود سچائی کے ساتھ اظہار دینے کی بجائے اُس میں کچھ ایسی کاری گری کر دیتے ہیں کہ وہ سچ ، سچائی کی طرح اظہار پا کر اپنے مخاطب میں منتقل نہیں ہوتا ۔ان (سلیم احمد ) کے خیال میں یہ کر کے وہ اپنی شاعری کا نقصان کرتے ہیں –
یہ ان کا ایک مختصر سا (موقف) میں نے عرض کیا اور میں ان کی اس رائے کو آج بھی مانتا ہوں ۔ ان کی یہ رائے صحیح ہے ، اس بات پہ آج بھی کچھ دلیلوں کے ساتھ یقین رکھتا ہوں ۔
اب ہم باضابطہ آغاز کر دیتے ہیں ۔
شاعروں میں دو قسم کے شاعر ہوتے ہیں ۔ ایک وہ کہ جن کے شعر کی تفہیم کے لیے ان کی شخصیت کا علم ضروری نہیں ۔ دوسری قسم کے شعرا وہ ہوتے ہیں جن کی شاعری کو سمجھنے کے لیے ان سے واقفیت بہت ضروری ہے اور بہت decisive(فیصلہ کن ) ہے ۔ جون ایلیا ، شعراء کی اس دوسری قسم میں ہیں کہ اگر آپ ان کی شخصیت کو جانتے ہیں تو ان کے شعر کی appreciation (تحسین ) میں ، ان کے شعر کے درست فہم میں ، اور ان کی شعریات کی تشکیل کے مراحل کو دیکھنے میں آپ کو آسانی ہو جائے گی ۔ جون ایلیا کے معاصرین میں شاید کوئی شخص ان کی طرح نہ ہو کہ جس کی شاعری کا مادۂ معنویت اور جوہرِ کیفیت خود وہ (شخص) ہو ۔ ان کی شاعری کو ان کی شخصیت سے الگ کرنے کے نتیجے میں ہم اُسے واہ کرنے کے لیے بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکتے اور آہ کرنے کے لیے بھی اچھی طرح گرفت میں نہیں لا سکتے ۔
میں ان کی شخصیت کے چند بہت ضروری اجزاء کا بیان کر دوں جو ان کی شاعری کے ستون ہیں ۔ اِن کے بارے میں جب بھی خیال آتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ایک نم خوردہ شعلہ ہے جس نے دھویں کو اپنا لباس بنا رکھا ہے ۔ اگر میں کہوں کہ میں ان کی شخصیت کو اس طرح دیکھتا ہوں تو وہ یہ ہے کہ دھویں میں ملفوف ایک نم خوردہ شعلہ جس کو بھڑکنے کی اجازت نہیں یا تجربہ نہیں یا مہلت نہیں ۔ خواہش شاید تھی ۔ وہ شوقِ انکار رکھتے تھے ، ذوقِ انکار کی گہرائی نہیں رکھتے تھے ۔ یہ ان کی شخصیت کی بات کر رہا ہوں ۔ جذبۂ انکار تھا لیکن انکار کے لیے درکار سنجیدگی ، کمٹ منٹ ، اخلاقی بلندی اور گہرائی انہیں حاصل نہیں تھی ۔ کیونکہ یہ ہو سکتا ہے کہ آدمی ہاں کہہ دے ؛ آدمی ایمان لے آئے غائب دماغی کے ساتھ ، ناواقفیت کے ساتھ ، غیر سنجیدگی کے ساتھ ، عامیانہ پن کے ساتھ ۔ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آدمی انکار کرے سنجیدگی کے بغیر، گہرائی کے بغیر ، کمٹ منٹ کے بغیر، اخلاقی مضبوطی کے بغیر ۔ منکر کی اخلاقی grounding(بنیاد) ، مومن کی بنیادوں سے زیادہ قوی ہونی چاہیے ۔ منکر کی شخصیت زیادہ قوت کے ساتھ مکمل ہوتی ہے ۔مومن کی شخصیت کا ادھورا پن ، اُس کے ایمان کے mechanics (میکانیات)اور اس کے ایمان میں موجود forces(قوتوں) کے ساتھ چھپ جاتا ہے ۔ لیکن انکار آدمی کو بے سپر کر دیتا ہے ۔ انکار میں شخصیت زیادہ کامل اورزیادہ مضبوط ہونی چاہیے ، شخصیت کی تکمیل اور استحکام کے معروف اجزاء کے ساتھ ، مسلمہ عناصر کے ساتھ ۔ شخصیت کبھی منفرد ہو کے مکمل نہیں ہوتی ۔ شخصیت ہمیشہ اپنے سے باہر موجود set of references(نسبتوں کے مجموعہ )سے مکمل ہوتی ہے ۔ اپنے سے باہر موجود معیار پہ مکمل ہوتی ہے ۔ اصل کامل وہ ہے جو میرے اور آپ کے مانے ہوئے کمال پہ پورا اترے ، اپنے مفروضہ تکمیل کو عمل میں لا کر مطمئن نہ ہو ۔
جیسے ایک ہوتا ہے ناں ، ایک آدمی آگ کی زمین پہ موم کے پتلے بنا رہا ہو ، ایک آدمی ’ہاں‘ کی کھیتی میں ’ نہیں‘ کی فصل کاشت کر رہا ہو، ایک آدمی ’اثبات‘ کے گلیشئر پہ ’نفی‘ کی چنگاریاں چھڑک رہا ہو ۔ یہ ہیں جون ایلیا !! اب یہ ان کی پوری شخصیت ہے کہ انکار کرنا بھی ہے اور انکار کی ذمہ داریوں سے بچنا بھی ہے ۔ اور انکار کی قیمت چکانے سے اپنی حفاظت بھی کرنی ہے ۔یہ انکار کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہو سکتا ۔ اقرار کرنے والا ہو سکتا ہے کہ وہ اقرار بھی کرے اور اقرار کے نتیجے میں مصیبت جو آئے ، اُس سے بھاگے بھی تو اس سے اس کا اقرار متاثر نہیں ہوتا ۔ لیکن انکار کرنے والا ، انکار کے نتائج سے اگر گریز اور پسپائی اختیار کرے تو اُس سے اس کا انکار متاثر ہو جاتا ہے ۔ اقرار، مقر(اعتراف کرنے والا) کی شخصیت پر منحصر نہیں ہے ، انکار کا دارومدار منکر کی شخصیت پر ہے تو انکار بڑی ذمہ داری ہے ۔یہ وہ شخصیت ہے جنھوں نے انکار کا ناگ پھنی اُگا رکھا ہے اور وہ انکار کا پودا ایسا ہے کہ جس کے لیے زہریلی ہوا بادِ نسیم ہے ، اس کے لیے مسموم چشمہ جو ہے وہ آبِ سیرابی ہے ۔ اس کے نتیجے میں یعنی انکار کا پورا منظر سامنے لا کر ، جن چیزوں کا وہ انکار کر رہے ہیں اس پورے منظر کو آپ ایک کینوس پہ ثبت کرکے ، اب اگر ان سے مطالبہ کریں کہ بڑائی کے انکار کرنے والے کے پاس جو متبادل بڑائی ہونی چاہیے ، وہ کہاں ہے ؟ تو اس کو جون ایلیا اپنے nihilism(گاڑھی تشکیک/عدمیت)سے انکار کے بودے پن کو (بودا پن یہ کہ انکار مضبوط شخصیت چاہتا ہے ۔ شخصیت مضبوط نہ ہو تو انکار کی لوجیکل تنظیم یا انکار کے جذباتی اسباب خلا میں بننے والی تصویروں سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتے ۔) ، وہ ایک طرح کے nihilism سے ، ایک طرح کے absurdism(مہملیت )سے ، ایک طرح کے anarchism(نراجیت) سے چھپاتے ہیں ۔ یعنی وہ انکار کو qualify کروانا چاہتے ہیں منکر ہونے کے آداب بجا لائے بغیر ۔
Nihilism (گاڑھی تشکیک/عدمیت پسندی) کسے کہتے ہیں ؟ حقیقت کے بارے میں’ نہیں‘ کہنا زیادہ بڑا عمل ہے ، ’ہاں‘ کہنے کے مقابلے میں ۔ absurdism(مہملیت) کہتے ہیں ،معنی کے وجود کو ریزہ ریزہ کرنا ، معنی پر سے اعتماد اٹھا دینا ۔دھیان رہے کہ میں فلسفیانہ تعریف نہیں کر رہا، یہاں گفتگو میں آسانی کے لیے ایک تعریف اپنی طرف سے عارضی طور پر وضع کر رہا ہوں ۔ جیسے nihilism (عدمیت پسندی )سے آدمی لفظ میں کام کرتا ہے ، (nihilist) ہے ۔ absurdism(مہملیت) میں معنی کو نابود کرتا ہے اور anarchism(نراجیت) میں وہ پورے نظامِ وجود کو ایک معدومیت کی بھینٹ چڑھا تاہے ۔ انارکسٹ کون ہے ؟ جو موجود کو معدوم بنانے کی ضد کر لے ۔ ابسرڈسٹ (absurdist) کون ہے ؟ جو شعور کو خلا کا حامل بنا دے ، شعور کو اس کے تمام content(لوازمات/سازوسامان ) سے خالی کر کے خلا کا حامل بنا دے اور انارکسٹ کون ہے کہ جو وجود کے پورے نظام کو معدومیت کی باڑ پر بننے والے بلبلوں کی طرح کر کے دکھا دے ۔ ان تینوں رجحانات میں حقائق کے بارے میں کوئی علمی تناظر اختیار کرنا ضروری نہیں ہے ۔ ان میں حقائق کی طرف کھلنے والے روزن کا اخلاقی ہونا ضروری نہیں ہے ۔ اِن تینوں میں basic qualification(بنیادی شرطِ اہلیت ) یہ ہے کہ آپ مزاجاً nihilist (عدمیت پسند )، anarchist(نراجیت پسند )، absurdist (مہملیت پسند ) ہیں ۔ جو تھکی ہوئی یا مفروضہ انفرادیت ہوتی ہے وہ ان تینوں رجحانات کو اپنا قلعہ بنا تی ہے ۔ یعنی جس کی انفرادیت اس کے مفروضٔہٌِ انفرادیت سے پیدا ہو ، وہ اس کی حفاظت کرتا ہے ایک مزاجی عدمیت پسندی اور نفسیاتی نراجیت یا مہملیت سے ۔ یہ جون ایلیا کا پورا نظامِ معنی ہے ۔
کسی بھی شاعری کو دیکھنے کے ، مثال کے طور پہ دو طریقے ہو سکتے ہیں ۔ کسی بھی شاعر کو دیکھنا ہو تو دو چیزوں کا تعین کرنا اچھا ہو تا ہے ۔ ایک یہ کہ اِس کا اندازِ معنویت کیا ہے ، اس کا مغزِ معنی کیا ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ اس کا اسلوبِ کیفیت کیا ہے ۔ معنویت اور کیفیت ، یہ شعر کے مائی باپ ہیں ۔ ان دونوں کے تال میل سے شاعری وجود میں آتی ہے ۔ طرزِ احساس اور اسلوبِ فکر یعنی اندازِ تخیل ۔ یہ اگر آپ کسی شاعر کو دیکھتے وقت اس سے مخصوص تخیل ، فکر اور طرزِ احساس کو دریافت کر لیں تو اس کی شاعری اپنی کلیت کے ساتھ ، اپنے تمام تر تنوع سمیت ہمارے احاطے میں آ جاتی ہے ۔ کیونکہ شاعری کا کوئی مجموعہ یا کسی کی بھی شاعری اگر اپنے کلِ کیفیات اور اپنی تمامِ معنویت کے ساتھ میرے ذہن میں نہیں آئی تو اس کے جز بہ جز فہم کی زیادہ حیثیت نہیں ہے ۔ اگر یہی انداز، یہی طریقہ ہم جون ایلیا صاحب کی شاعری پر apply(لاگو) کریں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ یہاں فکر، اور اس کی ماہیت و نتائج کیا ہیں ؛ ان کے یہاں تخیل ،اس کا قماش ، اس کا طریق اور اس کی پراڈکٹ (حاصلِ تخیل ) کیا ہے ؛ اور یہ کہ یہاں کیفیات اور احساسات کا کوئی مربوط ، بامعنی اور پُر تاثیر کُل جو بنتا ہے ، وہ کیا ہے ۔ تو گویا ہم جون ایلیا کے مجموعی شاعرانہ مرتبے کو دریافت کرنے میں آسانی محسوس کریں گے ، وہ زیادہ آسانی سے ممکن ہو جائے گا ۔ چوتھی ایک چیز اور ہے ، حُسنِاظہار جو شاعری کی روح ہے ۔ یعنی جون حُسنِ اظہار کی تشکیل کے لیے لفظوں کو استعمال کیسے کرتے ہیں ۔ اب یہ گویا چار چیزیں ہو گئیں ۔
اگر ہم اظہار کی جہت سے دیکھیں یعنی شاعری نوے فیصد اظہار ہے ، پانچ فیصد ادراک ہے ، اور بقیہ پانچ فیصد احساس ہے ۔ اگر ہم شعر کے غالب قانون کو جون ایلیا صاحب پر apply کریں اور یہ دیکھنا چاہیں کہ ان کے اسالیب کیا ہیں ، ان کے اظہار کے بننے کا میکانزم کیا ہے تو امیدہے کہ ہم جون ایلیا کے نظامِ معنی اور جون ایلیا کے مراحلِ احساس سے بھی نزدیک ہو جائیں گے ۔ کیونکہ اظہار ہمیشہ احساس اور ادراک کا صورت گر ہوتا ہے ، ادراک اور احساس کی پیداوار نہیں ہوتا ۔ یعنی اظہار کا flow(روانی) ، اظہار کا شکوہ اور اظہار کی تاثیر ، یہ گویا احساس اور ادراک کی صنف طے کردیتا ہے ۔ اس پہلو سے میں عرض کرتا ہوں کہ جون ایلیا ، ایک اصطلاح جیسی phrasing(ترکیب وضع ) کر رہا ہوں ، اُفقی اظہار کے چیمپئن ہیں۔ لیکن ایک عمودی اظہار ہوتا ہے وہ ان کے ہاں کمزور ہے ، گنجلک ہے ۔ جہاں وہ فکر سے یعنی فکر کی برتر سطح سے مناسبت رکھنے والا اظہار خلق کرتے ہیں وہاں ان کے شعر میں ژولیدگی ، پیچیدگی ، کاری گری اور دھندلاہٹ سی آ جاتی ہے ۔ جہاں وہ بڑے معنی سے match(مطابقت)کرنے والا بڑا اظہار وجود میں لاتے ہیں تو بڑے معنی سے ان کے ذہن اور قلب کی مناسبت کے محدود ہونے کی وجہ سے ، ان کا اظہار بڑے معانی کو نہ سہار سکنے کے سبب سے ژولیدہ ، پیچیدہ اور گنجلک ہو جاتا ہے ۔ لیکن جہاں وہ مضامین کو بیان کرتے ہیں تو ان کے ہم عصروں میں ان جیسی روانی ، ان جیسی سبکی ، ان جیسا بہاؤ، اور ان جیسی رنگارنگی کہیں نہیں ہے ۔ ان کے تمام ہم عصروں میں ، سینئر یا جونیئر معاصر ہیں وہ مضامین میں جون ایلیا سے بہت پیچھے ہیں ۔ لیکن اظہارِ معانی میں جون ایلیا اپنے کئی ہم عصروں سے پسماندہ ہیں ۔
کیونکہ مضامین کا تعلق ذہن کے منطقی دروبست اور ذہن و واقعہ کی نسبت سے زیادہ ہوتا ہے ۔ معانی کا انحصار ذہن اور حقیقت کے تعلق پر ہے یعنی وہ حقیقت جو ماورائے تجربہ ہے ، وہ حقیقت جو واقعیت کے مظاہر میں سموئے جانے سے ماورا ہے ۔ اس کو ہم کہہ رہے ہیں معانی ۔ ذہن اور حقیقت کے نتیجے کو معانی کہتے ہیں۔ اور ذہن اور واقعہ کے نتیجے کو مضمون کہتے ہیں ۔ جیسے مضمون میں ایک historicity(تاریخیت) ہوتی ہے اور معانی میں ایک beyond historical situation(ماورائے تاریخ صورت حال ) ہوتی ہے ۔ معانی میں تاریخیت کا عنصر نہیں ہوتا ۔مضمون میں تاریخی پن غالب ہوتا ہے ۔ معانی کے لیے طرزِ احساس میں passion(جذبہ) غالب ہوتا ہے ۔ مضمون کے لیے احساسات ایک دوسرے سے مربوط اور تصدیق ہو سکنے والی حالت کو پہنچ جائیں ، اتنا کافی ہوتا ہے ۔ معانی کے لیے درکار احساس qualified(اہل ) مخاطب ہی کے ساتھ clear(واضح ) ہو سکتا ہے ۔ مضمون کی تشکیل میں کارفرما احساس کی کوئی pre-qualification(شرطِ اہلیت ) نہیں ہے ، وہ ہر آدمی اپنے حسیاتی نظام میں اس کو شیئر کر لیتا ہے ۔ اِس میں جو احساس تک ، اظہار کی تشکیل میں احساس، کیفیات اور جذبات (یہاں جذبات میں عام معانی میں نہیں استعمال کر رہا) ۔ جذبات کا مطلب ہے passionsنہ کہ sentiments یعنی جس پر قلب کا نظام چلتا ہے ۔ احساس پر نفس اور جذبات پر قلب کا نظام چلتا ہے ۔ جذبات میں معنی صورت پر غالب ہے ۔ احساس میں صورت معانی پر حاوی ہے ۔)۔ جون ایلیا کا ایک بہت بڑا اور ندرت رکھنے والا شاعرانہ وصف یہاں پر ہے ۔ وہ یہ ہے کہ خیالات میں نئی نئی نسبتیں ، نئے نئے پیچ ڈالنا آسان ہے ۔ خیال میں ، فکر میں paradoxes(متناقضات) کو جمع کرنا ، نقیضین کو یکجا کرنا آسان ہے یعنی ذہن کے لیے رات اور دن کی یکجائی کا ماحول پیدا کرنا آسان ہے ۔ لیکن احساس میں ایک finality(حتمیت) ہوتی ہے ۔ احساس میں غصے اور محبت کو یکجا کرنا، نفرت اور عاجزی کو اکٹھا کرنا مشکل ہے ۔ یہ وہ مشکل ہے کہ جس مشکل سے عہد برآ ہو کر بیدل جیسا شاعر وجود میں آتا ہے ۔ بیدل احساسات میں نئی نسبتیں پیدا کرتا ہےاور ایسی پیچیدگی پیدا کرتے ہیں کہ احساس میں پیدا ہونے والی پیچیدگی کی appreciation(تفہیم ) کے لیے اعلیٰ درجے کا عقلی ذوق درکار ہے ۔ جون ایلیا ، اس لحاظ سے بیدل کی روایت کے ، وارث تو نہیں کہنا چاہیے ، متاثرین میں سے ہیں ۔ انہوں نے احساسات میں ، ان کے pattern(اسلوب) میں بھی اور ان کے میکانزم میں بھی پیچیدگی پیدا کر کے دکھائی ہے یعنی انہوں نے دو چار اَن مِل احساسات کو جوڑ کر ان کے نتیجے میں وہ کامیابی حاصل کی ہے کہ جس احساس کو محسوس کرنے کے لیے ہمیں اپنے دستیاب احساسات میں کچھ تبدیلی اور ترمیم کی حاجت ہو جاتی ہے ۔ یہ بہت کمال کی بات ہے جون ایلیا میں ، جو ان کے معاصرین میں کہیں نہیں ہے ۔ جون ایلیا کا نظامِ احساس ایسا ہے کہ ہمارا جو محسوساتی دروبست ہے وہ اس کے لیے ناکافی سا لگتا ہے ۔ اس کےلیے ہمیں جیسے اپنے احساسات کو کھنگالنا پڑتا ہے یا ہمیں اپنے احساسات کی شدت یا قوت کو بڑھانا پڑتا ہے ۔ ہمیں اپنے محسوساتی حدود میں توسیع کرنی پڑجاتی ہے ۔ یہ بہت بڑا کام ہے اور جون ایلیا اس میں اپنےہم عصروں میں ممتاز نہیں ہیں بلکہ شاید واحد ہیں ۔ یہ ان کی شاعرانہ خصوصیت کا ، میری رائے میں ، ایک بہت بڑا حصہ ہے ۔
اظہار کا carrier (ذریعۂ ترسیل)، اظہار کی بنیاد چونکہ زبان پر ہےیعنی کہ جو آدمی زبان میں جتنا ترقی یافتہ رسوخ رکھتا ہو گا، اتنا ہی اس کے اظہار کی سطح بلند ہوتی چلی جائے گی ۔جب ہم کہتے ہیں کہ جون ایلیا اظہار کی ایک بہت ہی unnoticed (لطیف یا نظرانداز کی گئی)عظمت کے گویا ایک طرح سے وارث ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے یہاں زبان پر گرفت کے کچھ ایسے مظاہر ہیں یا کچھ ایسے شواہد ضرور ہونے چاہییں جس میں وہ ممتاز ہوں ، منفرد ہوں اور اس کی روشنی میں ان کا لفظ کے ساتھ ، زبان کے ساتھ تعلق درست زاویے سے سمجھا جا سکے ۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ جون ایلیا کے اظہار کا نتیجہ مضمون ہوتا ہے، معانی نہیں۔ کیونکہ higher expression(اعلیٰ اظہار) اور higher perception(برتر ادراک ) کی یکجائی سے بڑی شاعری وجود میں آتی ہے تو وہ کیونکہ higher perception (برتر ادراک) کے آدمی نہیں ہیں لہذا وہ اپنے higher expression(اعلیٰ اظہار) کو احساسات تک محدود رکھتے ہیں ، معانی اور حقائق سے ان کی نسبتوں کے فقدان کو ڈھانپتے رہتے ہیں۔ یہ کاری گری ہے ان کی ۔
زبان کے دو حصے ہوتے ہیں ۔ ایک حصہ expression (اظہار) ہے ، ایک حصہ perception(ادراک ) ہے ۔ ایک حصہ الفاظ کی تکنیکی نسبتیں ہیں اور دوسرا حصہ لفظ کی معنوی بنیادیں ہیں ۔یعنی لفظ اور معانی ایک نسبت ہے ، لفظ اور کیفیات دوسری نسبت ہے ۔ جو زبان احساسات اور کیفیات کے عمدہ اظہار کے لیے درکار ہے ، اُس زبان کے جون ایلیا منتہیٰ تھے ۔ زبان دانی کی وہ سطح جو مضمون کی تشکیل میں لازماً مطلوب ہے ، اس جہت سے زبان دانی کے خاتم تھے جون ایلیا ۔ ان کے بعد کوئی نہیں ہے ۔ لیکن جو دوسرا پہلو ہے کہ لفظ اور معنی کے درمیان ایک functional interaction(دو طرفہ عملی تفاعل )کہ جہاں معانی لفظ کو متاثر کرے اور لفظ معانی میں اضافہ کرے ۔ یہ جو لفظ و معنی کی نسبت ہے اس میں جون ایلیا کا کردار نہ صرف یہ کہ نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ اپنی بعض چیزوں کو چھپانے کے لیے destructive(مہلک ) ہے ۔ جون ایلیا ، بیدل کی طرح انکشافِ معنی نہیں کرتے ، التباسِ معنی پیدا کرتے ہیں ۔ ان کے معانی التباسات ہیں ، realization(جانکاری) کا نتیجہ نہیں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جون ایلیا زبان کی روزمرہ اور محاوراتی سطح کو جس مہارت ، چابک دستی اور ندرتِ اظہار کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ، وہ پرانے اساتذہ کی یاد دلا دیتی ہے بلکہ ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم زباں دانی کے لیے خصوصیت رکھنے والے اساتذہ کے برابر جون ایلیا کو بھی بٹھائیں ۔ یعنی جون ایلیا ان معنوں میں استاد شاعرہیں ، کسی بھی استاد شاعر کی برابری کرنے والے استاد شاعر ہیں جو زبان کے روزمرہ اور محاوراتی language structure(ساختِ زبان ) پر پورا تسلط اور غلبہ رکھتا ہے ، جو زبان میں مضمون دینے کی جتنی سکت ہے اس سکت کو exhaustively(کامل طور سے )استعمال کر دیتا ہے بلکہ اس سکت میں اضافہ کر دیتا ہے ۔ اس وجہ سےجون ایلیا کے برابر نئے الفاظ، نئی تراکیب ، نئے phrases(کلمات) پاکستان بننے کے بعد کسی بھی شاعر کے ہاں نظر نہیں آتے ۔جون ایلیا نے اردو شاعری کو جتنے نئے الفاظ اور نئے phrases(کلمات) اور لفظوں کو برتنے کے نئے اسالیب دیے ہیں ، وہ ستر اسی برس کی تاریخِشعر میں کسی نے نہیں دیے ۔ کوئی ان کے قریب بھی نہیں ہے ۔ یہ بہت بڑا وصف ہے ۔
لیکن زبان اپنے منتہیٰ پر لفظ اور ذہن کی مشترکہ معنی آفرینی کا عمل ہے یعنی معنی آفرینی کا وہ عمل جس میں لفظ اور ذہن ایک دوسرے سے اتحاد پیدا کرکے شریک ہوتے ہیں ۔ معنی آفرینی کہتے ہی اس کو ہیں ۔ خسرو نے کہا کہ معنی آفرینی ، شعر کا آخری درجہ ہے اور میں اس درجے سے نیچے رہ گیا ہوں ۔ معنی آفرینی کا شائبہ بھی جون ایلیا کے ہاں نہیں ہے جو مثال کے طور پر ان کے ہم عصروں میں عزیز حامد مدنی میں تھا(کراچی کے ہم عصروں میں ) ۔ اس بات کو ہم ثبوت فراہم کرنا چاہیں کہ بھئی ، جون ایلیا اپنے شعر کی عبارت تو بہت پختہ بنا لیتے ہیں لیکن اس عبارت میں کوئی ایسا stress word(خصوصی لفظ) نہیں ہوتا جو علامت کے درجے پر پہنچ جائے ، جو معنی کا گھر بن جائے یا جس کی تحلیل اور تجزیہ بہت ضروری ہو جائے جیسے اقبال کے ہاں ہے کہ ان کے یہاں ہر شعر میں یا ہر اچھے شعر میں کوئی ایک لفظ ہوتا ہے جو علامت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس لفظ کی وجہ سے شعر میں معنوی اٹھان اور تکمیل پیدا ہوتی ہے ۔ وہ لفظ گویا اس شعر میں موجود یا موجود ہو سکنے والے تمام معانی کا container(ظرف) ہوتا ہے اور وہ لفظ شعر کی بقیہ عبارت سے بڑا ہوتا ہے ۔ جون ایلیا کے یہاں یہ نہیں ہے ۔ دوسرا اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں نے جون ایلیا کی، جوپانچ کتابیں چھپی ہیں ، غور سے دیکھی ہیں ۔ ان کے یہاں کوئی بڑا شعر نہیں ہے ۔جو چھوٹے ہیں وہ اس کو چیلنج سمجھ لیں ، بڑے اس پر شفقت کی نگاہ ڈالیں کہ جون ایلیا کے یہاں کوئی بڑا شعر نہیں ہے ۔ کوئی ایک بھی بڑا شعر!!! بڑا شعر یعنی وہ شعر جو world of discourse(دنیائے کلام)ہو یا کائناتِ کلام ہو ۔ مثال کے طور پر
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے میری رفتار سے بھاگے ہے ، بیاباں مجھ سے (غالب)
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا (میر تقی میر)
وہ حرفِ راز جو مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں خدا مجھے نفسِ جبرئیل دے تو کہوں (اقبال)
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے (رئیس فروغ)
یہ بڑے اشعار ہیں ۔ بڑا شعر ، شاعری کے مجموعے میں اس جزو کی طرح ہوتا ہے جو کُل سے زیادہ مکمل ہوتا ہے ۔ جون ایلیا کے یہاں مشہور شعر بہت ہیں ۔ ان کے شعروں میں تکنیک کی سہولت ، روانی ، ایک خوشگوار پیچیدگی اور pun(ذومعنویت)ہونے کی کیفیت ایسی ہے کہ اسے یاد رکھنا آسان ہوجاتا ہے ۔شعر تو یاد بہت لوگوں کو ہیں کہ
حاصلِ کُن ہے یہ جہانِ خراب یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں (جون ایلیا)
اے خدا جو کہیں نہیں موجود کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں (جون ایلیا)
یا اس طرح کے بہت سے شعر جو کھلواڑ کی طرح کے ہیں ، جو فقدانِ معانی کو چھپانے کی بڑی شاطرانہ کوششیں ہیں ۔ اس طرح تو مل جائے گا ۔ لیکن یہ کہ جو بڑا شعر ہو تا ہے مثلا سراج اورنگ آبادی کا یہ شعر دیکھیے
خبرِ تحیرِ عشق سُن ، نہ جنوں رہا ، نہ پری رہی نہ تو تُو رہا ، نہ تو میں رہا ، جو رہی سو بے خبری رہی
اب اس میں ہر لفظ ایسا ہے کہ معنی کے بارے میں تمام تصورات کو ایک ایک لفظ میں آپ کھپا سکتے ہیں ۔ آپ کا تصورِِ معانی اس شعر میں برتے گئے لفظوں میں بھر بھی جائے تو اس لفظ کا اپنا ذاتی خلا برقرار رہے ۔ بڑا شاعر لفظ کو اس طرح استعمال کر دیتا ہے ۔ اس وجہ سے جون ایلیا نے نئے الفاظ ، نئی تراکیب ، عربیت رکھنے والی بھی ، فارسیت رکھنے والی بھی اور اردوویت رکھنے والی بھی بہت ساری دی ہیں لیکن ایسا لفظ نہیں دیا جو میرے شعور کی کفالت کرسکے ، جو میرے passion(جذبے) کی پرداخت کا ذمہ لے سکے ۔ یعنی انہوں نے کوئی علامت create(تخلیق ) نہیں کی ۔ زبان کی تین سطحیں ہوتی ہیں : ایک لفظ سادہ معنوں میں ، پھر وہ لفظ ترقی کر کے استعارہ بنتا ہے یعنی اپنی صوری form(شکل) میں توسیع کرتا ہے ، پھر وہ استعارہ عروج پکڑ کے علامت بنتا ہے ۔ وہ اپنی معنویت کو غیرمحدود بنا تا ہے ۔ لفظ اپنی صورت کومکمل کرتا ہے استعارہ بن کر ، لفظ اپنی معنویت کو کامل بناتا ہے علامت بن کے اور علامت بننے کے بعد لفظ پورے بیان پر حاکم کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے ۔ یعنی ایک شعر میں ایک علامت آتی ہے تو اس شعر کا پورا نظامِ معنی گویا اس علامت کی تحویل میں چلا جاتا ہے ، اس علامت کی محتاجی میں چلا جاتا ہے ۔ نظامِ معنی بھی اور احساساتی و جذباتی دروبست بھی۔ اس طرح کا کوئی ایک لفظ بھی جون ایلیا کے ہاں نہیں ملتا جس کو یہ کہا جا سکے کہ دیکھو ، انہوں نے لفظ کو اس کی آخری اٹھان کے ساتھ علامت بنا دیا جیسے اقبال کے ہاں شاہین ہے ، گلِ لالہ ہے ۔ اقبال تو علامتوں کا گھر ہیں ، رومی کی ’نے‘ ہے ، غالب کے یہاں’برق‘اور ’آئینہ‘ ہے ۔ہر شاعر کے ہاں ہے اور ایک لائن لگی ہوئی ہے لیکن جون ایلیا کے یہاں نہیں ہے ۔
جون ایلیا کی زبان دانی vertical(عمودی) نہیں ہے ، horizontal(افقی) ہے ۔ جون ایلیا کی زباں دانی لفظ اور معنی کے رشتوں میں پیچیدگی اور وسعت پیدا کرنے کا tool(آلہ) نہیں ہے ، بلکہ لفظ اور شے کے درمیان تعلق کے چونکا دینے والے نتائج ہیں ۔ وہ بھی بہت بڑی بات ہے ، چھوٹی بات نہیں ہے ۔ لیکن ہم یہ بات اس لیے کہہ رہے ہیں کہ جون ایلیا کا اچھا شاعر ہونے کے باوجود ، بڑا شاعر نہ بن سکنے کا سبب کیا ہے ۔ جیسے ہمارے یہاں کراچی کے، اُس زمانے کے، شعراء میں ایک شاعر ہیں جن میں بڑائی کے فعال عناصر نظر آتے ہیں ۔ وہ عناصر آپس میں مربوط ہو کر ایک کُل نہ بن سکے ، وہ الگ بات ہے ۔ لیکن وہ عناصر نظر آتے ہیں ۔ اور وہ ہیں عزیز حامد مدنی ۔ ان کے ہاں شاعرانہ عظمت کے عناصر نظر آتے ہیں جو کسی وجہ سے اس طرح مر بوط نہ ہو سکے کہ ان سے بڑائی کا مجسمہ تکمیل کو پہنچ جاتا ۔
میں نے چند شعروں کے حوالے نکالے ہیں ، جس میں جو بات ابھی تک ہوئی ہے اس کے شواہد اور ثبوت بھی آ جائیں گے اور زیادہ پیشِ نظر یہ ہے کہ ان کا معنی گری کا نظام اور احساسات کی تشکیلِِ نو ، جس کے وہ چیمپئن ہیں ۔ اگر مجھ سے کوئی پوچھے تو میں کہوں گا ، احساسات کی تشکیلِ نو کرنے والا شاعر ۔ یہ بہت بڑا لقب ہے اگر دیا جائے تو ۔ چنانچہ احساسات کی جہت سے بھی دیکھ لیں گے کہ وہ کیسی کیسی پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں ۔ گہرائی ان میں نہیں ہے کیونکہ انکار اخلاص کے ساتھ ہو تو گہرائی پیدا ہوتی ہے ۔ نفرت اور تمسخر کے ساتھ ہوتو اُتھلا ہوتا ہے ۔ شدید زیادہ ہوتا ہے لیکن اُتھلا ہوتا ہے ۔ جیسے ہم ان کا نظامِ معانی دیکھیں اورنظام معانی ہی کیا ، ان کا نظامِ معانی تو ہے ہی نہیں ۔یعنی بڑا معنوی دروبست رکھنے والے موضوعات بھی یہ کس طرح کلام کرتے ہیں ۔ یعنی بڑے معنی کے حامل حقائق کو یہ کس پہلو سے اپنا ہدف بناتے ہیں اور ان کی معنویت سے کنی کترا کر انہیں من پسند احساس سے محسوس کرنے کے لیے کیسی خلاقی اور چابک دستی کا استعمال کرتے ہیں ۔ جیسےدیکھیں ناں ، کچھ چیزیں بھری ہوئی ہوتی ہیں کہ ان کے بارے میں ایک معراجِ معنویت پر پہنچے بغیر کلام کرنے کا حق نہیں ہوتا ، جیسے مسلمات میں سے ہیں ۔ اس طرح کے بڑے معانی رکھنے والے themes(موضوعات) پر ، built-In(خلقی اعتبار سے) بڑے معانی رکھنے والےthemes(موضوعات) ہیں ۔ جون ایلیا ان کو کس طرح برتتے ہیں ، ایک شوقِ انکار کے ساتھ ۔ شوقِ انکار ان کا مستقل وصف ہے جس سے ان کے خیالات کی پرداخت بھی ہوتی ہے اور احساسات کی نشوونما بھی ہوتی ہے ۔ اس طرح کی شخصیت نایاب ہے کہ اس کا شوقِ انکار اس کی شخصیت کے تمام گوشوں کی مکمل کفالت کر کے دکھائے ۔ اس طرح کی شخصیت نایاب ہے ، یہ بڑی بات ہے ۔ میں دو کتابوں سے مثالیں دوں گا کیونکہ دو کتابیں اس لیے مستند ہیں کہ وہ جون ایلیا نے خود ترتیب دی تھیں ۔ ایک ’شاید‘ اور دوسرا’ یعنی‘۔ باقی تو لوگوں نے اکٹھے کر دیے ۔ ان کے بارے میں ہم زیادہ اعتماد سے کہہ سکتے ہیں ۔ جیسے سب سے بڑا character for meaning (بامعنی کردار/لفظ) ہے ’خدا‘ ۔چاہے انکار کرنے کے لیے دیکھو ، تو بھی وہ generator of meaning(خالقِ معانی) ہے ۔ چاہے اقرار کرنے کے لیے سوچو ، تب بھی وہ ماخذِ معانی ہے یعنی سب سے زیادہ مکمل معنی ’خدا‘ ہے ۔ منکر کےلیے اور اقرار کرنے والے کے لیے بھی ۔ وہ منکر چھوٹا رہ جائے گا جو ’خدا‘ کے اس معنوی مرتبے سے لاتعلق رہے گا ۔اور وہ ماننے والا بھی گھٹیا رہ جائے گا جو ’خدا‘ کی اس خاصیت کو چاہے وہ تصور کی حیثیت سے ہے ، وہ قبول نہ کرے ۔’ خدا‘ نہ ہونے کی حالت میں بھی ’ہونے‘ کے پورے نظام سے زیادہ بامعنی ہے ۔ تمام معانی کی تشکیل اس سے ہوتی ہے ۔ اگر ’خدا‘ تصور ہے تو انسان کے مجموعی شعور نے اتنا بڑا تصور کبھی پیدا نہیں کیا ۔ اور ’خدا‘ اگر کوئی حقیقت ہے تو حقائق کے پورے structure(ڈھانچے ) میں ، معلوم اور غیرمعلوم دونوں میں اتنی بڑی حقیقت کوئی نہیں ہے ۔ اِس پہ منکر اور مومن دونوں متفق ہیں ۔ ناموجود ’خدا‘ تمام موجودات سے زیادہ بامعنی ہے حتی کہ معدومات سے بھی زیادہ بامعنی ہے ۔ معدوم میں لفظ نہیں پیدا ہو سکتا ۔ ’خدا‘ کے انکار کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے عدم بامعنی ہو جاتا ہے ۔ منکر بھی اس بات پہ مجبور ہے کہ انکارِ وجودِ باری تعالیٰ کو وہ عدم کے بامعنی بنانے کا واحد سبب بنائے ۔ جیسے ’خدا‘ ہے ، تصورِ خدا ۔ میں ’شاید‘ سے کچھ دیکھ رہا ہوں اور اس میں میرامقصد یہ ہے کہ انہوں نے ’خدا‘ کے نہ ہونے کے معنوی زلزلے کو ، جیسے عام محسوسات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی طغیانی تک محدود کر دیا ہے ۔ وہ دیکھتے ہیں یعنی مجھے جس طرح کا جوش، غضب اور جیسی احساس کی تندی جیسے چنگیز خان کے انکار کے لیے درکار ہے ، ہٹلر کے انکار کے لیے درکار ہے ، اسی جذباتی تندی پر اکتفا کیا گیا ہے یہاں ’خدا‘ کا انکار کرنے کے لیے ۔ تو آپ نے ’خدا‘ کو misread کیا (درست نہ پڑھا )، اُسے نہ ماننے کے لیے بھی misread کیا ۔ و ہ جو جون ایلیا کے مشہور ترین ، ہمارے خیال میں بدترین، شعر سنائے تھے
حاصلِ کُن ہے یہ جہانِ خراب یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں (جون ایلیا)
طنز کا اعلیٰ نمونہ ہے یعنی جون ایلیا طنز نگاری میں اکبرالہٰ آبادی کے ہم پلہ تھے (مجھے اس میں شبہ نہیں ہے ) ۔ وہ طنز میں جیسی بلاغت پیدا کرتے ہیں ، وہ ان کے سوا آپ کو نہیں ملے گی ۔ وہ ہجو، طنز اور تعلی، اس کے امامِ حاضر ہیں ۔ اس کا ایک مرکب بناتے ہیں ۔ طنز ان کا dark satire ہوتا ہے ، وہ thrashing satire نہیں ہوتا ۔ اور اس طنز کا مقصود اپنی تعلی ہوتا ہے اور طنز کے شکار کی تحقیر واجب ہو جاتی ہے ۔
’’حاصلِ کُن ہے یہ جہانِ خراب‘‘ ، شاعرانہ صناعی کے معیار پہ دیکھیں تو اس کو آپ سہل ممتنع کہہ سکتے ہیں ، یہ سہلَ ممتنع ہے ۔ سہلِ ممتنع کی جو بھی تعریفیں لکھی گئی ہیں ، یہ شعر اُس پر پورا اترتا ہے ۔ میں یہ کہوں کہ اس کو میں کہہ سکتا ہوں اور کہنے بیٹھوں تو نہ کہہ سکوں ، یہ سہلِ ممتنع ہے ۔ یعنی جہاں پانے کا اعتبار ، پانے کی صلاحیت سے زیادہ ہو جائے وہ سہلِ ممتنع ہے ۔ اس میں ضروری تھا ۔ مثال کے طور پر جیسے ڈیوڈ ہیوم ہے ۔ ڈیوڈ ہیوم ، خدا کا انکار کرنے والوں میں سب سے طاقت ور آدمی ہے جس نے کبھی واضح طور پر انکار نہیں کیا ۔ لیکن اس نے انکار کا جو ماحول پیدا کیا ہے وہ تمام انکار کے لیے نرسری ہے آج بھی ۔ وہ ’خدا‘ کو ماننے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا منتہائی تصور ، ’خدا‘ کو ماننے والے بہترین ذہن سے بھی زیادہ جانتا تھا۔ وہ ’خدا‘ کو ماننے والے ڈسکورس (مباحث) کو ’خدا‘ کے مومنوں سے بہت زیادہ سمجھتا تھا ۔ اب آپ یہ دیکھیے کہ ، فرض کیا ، یہاں تخلیقِ کائنات کا انکارہےکہ اللہ خالق نہیں ہے ، کائنات مخلوق نہیں ہے ۔ اور اللہ اگر ہوتا اپنی معروف صفات کے ساتھ تو اس دنیا میں شر نہ ہوتا ، نقص نہ ہوتا، مصیبتیں نہ ہوتیں وغیرہ وغیرہ ۔ تو یہ دنیا جو ہے مصیبتوں کا گھر زیادہ ہے ، راحتوں کی جگہ کم ہے ۔ تو گویا اس میں کوئی اندرونی نقص ، بگاڑ اور انتشار ہے ناں ۔ تو یہ دنیا اپنے مادۂ خلقت میں ناقص ہی نہیں ہے ، معیوب ہے ، بلکہ قابلِِنفرت ہے ، بلکہ لائقِ خوف ہے ۔ جسے تم ’خدا‘ کہتے ہو ، اُس نے اگر اسے بنایا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس نے زیادہ غور نہیں کیا ، جلد بازی میں بنا دیا ۔ تو جلدی جلدی میں اسی طرح کی کائنات بن سکتی تھی ۔ جلدی کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے potentials(امکانات) کو actualize(بروئےکار) نہیں کیا ۔ اس نے اپنی شانِ خلاقی کو صرف نہیں کیا وغیرہ وغیرہ ۔ اب یہ سطح انکارِ باری تعالیٰ کے لیے ، بہت عامیانہ اور سوقیانہ ہے ۔ تم ایسی خرابی ہی تخلیق کر کے دکھا دو ۔ اس جہانِ خراب کو ہی بنانے کا ڈول ڈالو ذرا ۔ تم شر کو پیدا کر کے دکھا دو ۔ اب اس میں وہ فلسفیانہ مباحث ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ تخلیقِ خیر ایک کمال ہے ، تخلیقِ شر اُسی طرح کا دوسرا کمال ہے ۔ اب اس مصرع کو جو پڑھے گا اور فرض کیا جو ’کُن‘ کو جانتا ہو گا ۔ کلمۂ کُن کو جانتا ہو ، کلمۂ کُن کا معروف علم رکھتا ہو اور کُن کے اندر جو معانی کا نقطۂ اولین بھرا ہوا ہے ، اس نقطے کو چاک کر کے اس نقطے کی کچھ تفصیلات برآمد کر سکتا ہو ۔وہ کبھی یہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ وہ کلمۂ کُن کو عجلت کا مظہر سمجھے، کلمۂ کُن کی حرفیِ قلت کو وہ زمانی عجلت کا مترادف جانے گا ۔ ویسے فنکاری ہے ۔ ’کُن‘ بہت جلدی ادا ہو جاتا ہے ۔ اس سے زیادہ جلدی ادا ہو سکنے والا کوئی کلمہ ہی نہیں ہے ۔ تو ایک سبب ہے ناں ۔ جب کہا ’کُن‘ تو اتنی جلدی سے کہے ہوئے کلمے سے یہ نہ ناپی جا سکنے والی کائنات وجود میں آ گئی ۔ اپنی زوداحساسی کی بنیاد پر یہ غیر متناہی تفصیلات اُس توازن سے محروم ہیں جو اس کی اخلاقی justification(جواز) کر سکے، اس کا جمالیاتی جواز فراہم کر سکے یا اس کا عقلی استناد فراہم کر سکے ۔ اب باتیں تو یہ نکل آئیں گی لیکن یہ کہ اس میں سب سے پہلے یہ لگتا ہے کہ یہ کہنے والا کلمہ کُن کے ابتدائی ترین مفاہیم سے نابلدِمحض ہے ۔ یہ ’عجلت‘ کا لفظ بتا دیتا ہے ۔ ’عجلت‘ نے کلمۂ کُن کی metaphysicality(مابعد الطبیعیاتی ) کو ایک vulgar(بھونڈے) انداز میں physicalize(مادی) کر دیا ہے۔ اب یہ کیا ہوا کہ آپ نے کُن کے انکار کے معنوی سامان سے خالی ہونے کی حالت میں اُسے محض اپنے شوقِ انکار کے وفور میں نشانہ تحقیر بنا دیا ۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ میں چنگیز خان کے بارے میں یہ تصور رکھ کے اس پر حملہ آور ہو جاؤں کہ اس کے دونوں بازو شل ہیں ، یا اُسے تلوار چلانی نہیں آتی ۔ اب یہ اگر میں چنگیز خان کے سامنے کروں تو اس کا جو نتیجہ ہو گا ، وہ اِس شعر کے نتیجے میں جون ایلیا کا ہوا ۔ یہ شعر لطف لینے کی طرح کامیاب ہے لیکن ذوقِ معنی رکھنے والی طبیعت کو مکدر کر دینے کا بھی یہ بڑا سبب ہے ۔ جون ایلیا کے اس طرح کے اشعار میں معنی سے مانوس طبیعت میں تکدر پیدا ہوتا ہے اور صورت سے تربیت پانے والی طبیعت کو تسکین اور فرحت حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے شعر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے یا تکنیک میں اور شاعرانہ جو باتیں ہوتی ہیں کسی شعر کو اچھا بنانے والی ، وہ اس میں موجود ہیں ۔ شعر کے شعر ہونے سے کسی کو انکار نہیں ہے ۔ لیکن کیونکہ جون ایلیا بار بار اصرار کرتے ہیں کہ ان کے شعر کو عارفانہ معیار سے نیچے نہ اتارا جائے ، ان کے شعر کو جیسے اخذِِمعنی کے لیے ماخذ بنایا جائے تو ہم انہی کے claim(دعویٰ) کیے ہوئے معیار کو اس پر منطبق کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اِس پہلو سے وہ یہاں ناکام ہیں لیکن یہ ناکامی بہرحال فکری ہے ، شاعرانہ نہیں ہے ۔ شعر ہے اور پر لطف شعر ہے ، مزے کا شعرہے ۔ اس لحاظ سے بھی کامیاب ہے کہ یہ کسی طبیعت میں جھنجھلاہٹ پیدا کرنے میں بھی کامیابی رکھنے والا شعر ہے ۔ یہ بھی شاعرانہ کامیابی ہے ۔ اس سے ہمیں پتہ چل جائے گا کہ ان کا تصورِ خدا اپنی معنویت میں کتنا ناپختہ ہے اور اپنی کیفیت میں کتنا شدید ہے ۔ تو ایک پہلو کو تو ہم مان رہے ہیں ناں ۔
اس قطعہ کا آخری شعر ہے کہ
اے خدا جو کہیں نہیں موجود کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں (جون ایلیا)
اس میں اگر خدا کا انکار بھی مطلوب ہے تو یہ خدا کے مرتبے کی رعایت کیے بغیر ہے ۔ خدا کا انکار کرنے والا بھی خدا کے حقیقی یا مفروضہ مرتبے کی رعایت ضرور کرے گا جیسے نطشے نے کی ، جیسے تمام بڑے لوگوں نے ۔ انہوں نے خدا کے مفروضہ یا حقیقی ہونے ، کسی جہت سے بھی کلام کیا تو اس کے مرتبے کا ، اس کی effectivity (تاثیر) کا، اس کی کلیت کا ، یا اس کی کسرِ شان نہیں کی ۔ اس کی شان پوری بیان کر کے اُسے رد کر دیا ، اُسی شکوہ کے انکار کے ساتھ ۔ ان کے انکار میں شکوہ نہیں ہے ۔ اب اگر اجازت دیں تو میں کہوں کہ ان کے انکار میں چالاکی اور ایک طرح کی ملمع سازی اور ایک طرح کی احساساتی پیچیدگی تو ہے لیکن یہ کہ وہ انکار میرے شعور میں جگہ بنا سکے یا میرے شعور کے پہلے سے موجود قصدِانکار میں تقویت کا سبب بن سکے ۔ ایسا انکار جون ایلیا کا نہیں ہے ۔
اسی طرح جیسے ’’شاید‘‘ میں ہی ہے ۔ اب یہ ایک دوسری جہت ہے ۔ کیونکہ’ خدا‘ ان کا بہت محبوب موضوع ہے ، اس پر تو کئی ، دسیوں شعر نکل آئیں گے ۔ میں بدل بدل کے بات کر رہا ہوں کہ ان کے تصورِ خدا کے مختلف شیڈز (رنگ) ہیں تو وہ کیسے ہیں ۔ کہیں یہ دماغ بن کے ’خدا‘ کے نہ ہونے کو طربیہ (comedy) بناتے ہیں اور کہیں یہ اپنے احساسات کی گہرائیوں میں اتر کر کے ’خدا‘ کے نہ ہونے کو المیہ (tragedy) بناتے ہیں۔ یہ جون ایلیا کی ایک خصوصیت ہے ۔ ’خدا‘ کا نہ ہونا کہیں ان کے لیے طربیہ و رزمیہ ہے اور کہیں ان کے لیے المیہ ہے ۔ تو جہاں وہ اپنے موجود ذہن پر بھروسہ کر کے انکار کرتے ہیں وہاں طربیہ ہے ۔ اور جہاں وہ اپنے موجود احساسات میں ’خدا‘ کے نہ ہونے کو realize(جانکاری) کرتے ہیں وہاں وہ المیہ بھی بن جاتا ہے ۔’خدا‘ کا نہ ہونا بہت بڑا المیہ ہے ، تو اب یہ المیہ دیکھیں (مرتب: گویا پہلی مثال طربیہ کی تھی اور ’’شاید‘‘ سے المیے کی مثال پیش کی جا رہی ہے ):
بڑا بے آسرا پن ہے سو چپ رہ نہیں ہے یہ کوئی مژدہ خدا نئیں (جون ایلیا)
اس میں دیکھیے ، یہ المیاتی رنگ میں انکار ہے ۔ کیونکہ المیے کا تعلق احساسات سے زیادہ ہے تو جہاں احساسات پہ انکار وغیرہ یا تعلق کی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے وہاں جون ایلیا کمالات پر کمالات دکھاتے ہیں ۔
(ایک اور شعر کو دیکھ کر بات ہو رہی ہے ) اب یہ ان کے تصور خدا یعنی وہ تصورِ خدا جس کی تردید اور انکار ، ان کے وجود اور شعور کا مرکزی مسئلہ ہے ، تو اس میں یہ غالباً مکمل ترین شعر ہے ۔
ہم نے خدا کا رد لکھا، نفی بہ نفی ، لا بہ لا ہم ہی خدا گزیدگاں تم پہ گراں گزر گئے (جون ایلیا)
اس میں دوسرا مصرع تو طنازی ہے ۔ یہ دوسرا مصرع ان کی قدرتِ کلام ، قوتِ طنز اور ایک ماہرانہ تعلی میں صرف ہوا ہے ۔ لیکن مصرعِ اول میں بڑی تکنیکی تہہ داری ہے ۔ اس میں زباں دانی کا ایک نادر مظاہرہ ہے ، وہ میں عرض کرتا ہوں ۔ ’’نفی بہ نفی‘‘ ، نفی در نفی یعنی ’خدا‘ کی ایک نفی کر کے اس کے ناکافی ہونے کا ازالہ کر کے اس نفی کو مسمار کر کے نفی کے نئے structures(سانچے) بنائے ۔ یہ بڑا کمال ہے ، ’’نفی بہ نفی‘‘ کا جواب نہیں ہے ۔ اور اسی طرح ’’لا بہ لا‘‘ کا جواب نہیں ہے کہ ’خدا‘ کے انکار کے عمل کو ، ’خدا‘ کے انکار کے عزم کو ہم نے کسی بھی مرحلے پر ضعیف اور ناقص نہیں رہنے دیا یعنی ہم اپنے شعور میں نفیِ مسلسل میں رہے اور ہم اپنے وجود میں ’’لا بہ لا‘‘ تسلسل کے ساتھ دمِ آخر تک مصروف اور مشغول رہے ۔ تو ’نفی‘ کہتے ہیں اللہ کو شعور سے نکال دینا ۔ ’لا‘ کہتے ہیں اللہ کو وجود سے خارج کر دینا ۔ یہ ایک طرح کی کلیت انہوں نے اپنی زباں دانی سے پیدا کی ہے ، اپنی فلسفہ دانی سے نہیں ۔ یہ ان کی زباں دانی کا بڑا اچھا نمونہ ہے ۔
(سامعین میں سے ایک صاحب درج ذیل شعر پڑھتے ہیں )
منکرانِ خدائے بخشندہ اس سے تو اور اک خدا مانگو (جون ایلیا)
(جناب احمد جاوید صاحب تبصرہ فرماتے ہیں ) یہ بہت زبردست ہے ۔ کیونکہ ’خدا‘ کے نہ ہونے کا قائل ہو کر بھی ’خدا‘ کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ ہے صحیح روحِ انکار ۔ لیکن یہ ہے کہ ان کی جو معنوی رفعتیں ہیں اس سے انہیں طبعی مناسبت نہیں ہے تو اس (شعر) کو بھی عوامی سا بنا دیا۔ ورنہ آدمی ’خدا‘ کے انکار میں بھی اس کو لاشریک رکھتا ہے ۔اس میں کسی کو بھی بیچ میں نہیں آنے دیتا ۔ اس کو theatrical(تھیٹریکل ) نہیں بناتا ۔ اس (شعر) میں انہوں نے اس کو تھیٹریکل بنا دیا ۔اس (شعر) میں ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی خطابت کی جا رہی ہے ۔ مطلب ہے کہ اس کی سطح کو گرایا جا رہا ہے ۔ لیکن بہرحال ، یہ اپنے اصل معنی میں یہ قیمتی شعر ہے کہ ’خدا‘ کا نہ ہونا ’خدا‘ کے ہونے کی طلب کو مجروح نہیں کرتا ۔ تو جس ’خدا‘ کی سب کو ضرورت ہے وہ موجود نہیں ہے ، اب یہ جملہ اُس سیاق میں درست ہے کہ ’خدا‘ ثابت نہیں ہے (لیکن ) ضروری بہت ہے ۔
جیسے ایک شعر اور بہت مزے کا ہے ۔ اس میں ایک طنز ہے ، ایک پھکڑ پن ہے ۔ مطلب ہے کہ جون ایلیا پھکڑ بازی میں بھی جواب نہیں رکھتے ۔ ان کی ایک پیچھے موجود(پس پردہ) نفرت ہوتی ہے جو بڑے حقائق کے تمسخر پر ختم ہوتی ہے ۔ وہ انکار میں فیل ہو جاتی ہے ، تمسخر میں کامیاب ہو جاتی ہے ۔ (اس نکتے کی مثال درج ذیل شعر ہے ۔)
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا (جون ایلیا)
شعر بڑا خوبصورت، بہت چُست اور جتنا طنز یہ دکھانا چاہ رہے ہیں وہ پورا طنز ظاہر کرنے پر قادر ، سب کچھ ہے اور آدمی اگر تھوڑا سا کمزور لمحے میں ہو تو بہت پُرلطف اور بہت نشاطیہ شعر ہے ۔ تو طنز جس پر کیا جائے اس کے لیے وہ چیز نشاط بن جائے ، یہ بڑی فنکاری ہے ۔ طنز کے مخاطب کو بھی یہ جھومنے پہ مجبور کر رہے ہیں اس شعر میں ۔(سامعین میں سے ایک صاحب درج ذیل شعر سناتے ہیں )
اپنا رشتہ زمیں سے ہی رکھو کچھ نہیں آسمان میں رکھا (جون ایلیا)
(جناب احمد جاوید تبصرہ فرماتے ہیں کہ ) یہ شعر تھوڑا loud(اونچا) زیادہ ہو گیا ہے ، اس میں فنکاری نہیں ہے ۔ اس میں جیسےایک سرمن (sermon) دے رہے ہیں۔ لیکن (اوپر والے شعر) میں فنکاری بہت ہے ۔ جس کا انکار کر رہے ہیں ، اُس کا نام نہیں لے رہے ۔ (جناب احمد جاوید صاحب فرماتے ہیں کہ ان کے پاس حوالے تو بہت سارے ہیں لیکن سارے تو بیان نہیں ہو سکتے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ تصورِ خدا کے بعد ایک تھیم اور دیکھتے ہیں )۔
جون ایلیا کے یہاں تکرارِ لفظی ، تکرارِ معنوی اور تکرارِ احساسات بہت زیادہ ہے ۔ بہت ہی زیادہ ہے ۔ بعض مرتبہ تھوڑا سا پُر لطف ہوتی ہے لیکن بعض مرتبہ اکتاہٹ ہوتی ہے ۔ ان کے یہاں احساساتی یکسانی اور معنوی سپاٹ پن بہت زیادہ ہے ۔ کرافٹنگ میں بھی تکرار ہے ، کیفیات میں بھی بہت تکرار ہے اور خیالات میں بھی ۔
ایک چیز ، میں یہاں عرض کر دوں ۔ جیسے اقبال نے مرزا غالب پر ایک نظم لکھی ، مرزا غالب کی شان میں ۔ اُس میں پوری poetics(شعریات) بتا دی ۔ (جناب احمد جاوید صاحب درج ذیل شعر کا حوالہ دیتے ہیں )
فکرِ انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہُوا ہے پرِ مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا (اقبال)
اب دیکھیے ، یہ پوری تھیوری(theory) شعر کی بیان کر رہے ہیں دو مصرعوں میں ۔ ہمیں اس بات پہ تحسین پیش کرنی چاہیے کہ poetry(شاعری) کی تھیوریز جتنی اقبال کے ہاں ملتی ہیں ، اتنی کہیں اور نہیں ملتی ۔ کہیں بھی نہیں ۔ (ایک اور شعر سناتے ہیں کہ )
لطفِ گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں ہو تخیل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہم نشیں (اقبال)
لطفِ گویائی کا مطلب حُسنِ اظہار ہے ۔تو اب انہوں (اقبال ) نے شاعری کے تین اجزاء بتا دیے : حُسنِ اظہار، فکر اور تخیل ۔ اگر ہم اقبال کے بتائے ہوئے ان معیارات کوجون ایلیا میں کھوجنے کی کوشش کریں تو ہم یہ بات بہت اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ لطفِ گویائی ان کے یہاں اپنی ایک خاص محدودیت کے ساتھ انتہا پر ہے ۔ لیکن فکر اور تخیل : فکر کا وہ التباس پیدا کرتے ہیں کیونکہ وہ سوچنے والا ذہن نہیں ، سوچنے والے اعصاب لے کر آئے ہیں ۔ ان کی سوچ کا عمل ذہنی نہیں ہے ، اعصابی ہے ۔ فکر میں وہ ادھورے ہیں ۔ تخیل ان کے یہاں بہت کم ہے ۔ تخیل کہتے ہیں صورت کی meaningful transformation(بامعنی تحویل ) کو یعنی دیکھی ہوئی صورت میں ان دیکھے کو مصور کر دینا۔ دیکھے ہوئے میں ایسا وفور پیدا ہو جائے کہ ان دیکھے کے لیے دیکھنے کے تجربے سے گزرنے کا عمل شروع ہو جائے ۔ یہ تخیل ہے ۔ اب اس طرح کا تخیل ناپید ہے جون ایلیا کے ہاں۔ فکر بھی کمیاب ہے ۔ تھوڑے پاپولر افکار ہیں ، وہ پاپولر افکار جو فضا میں ہوتے ہیں ، ان کے ذہن میں نہیں ہیں ۔ اِ س اعتبار سے فکر کا پہلو بھی ناقص ہے ۔
اس بات کو ہم ایک اور طرح کہتے ہیں کہ شاعری میں تین چیزیں ضرور دیکھنی چاہییں ۔ ایک یہ کہ اس کی آواز کیسی ہے۔شعر کی آواز کیسی ہے ۔ دوسرا یہ کہ شعر سے جو تصویر بنتی ہے وہ کیسی ہے ۔ امیجری کیسی ہے ، امیج کیسا ہے ، image making(تصویر سازی) کا عمل کیسا ہے ۔ تیسرے یہ کہ اس میں معنوی تہہ داری ایک جمالیاتی شکوہ کے ساتھ کیسی ہے یعنی اس میں معنی کی تشکیل کا جمالیاتی عمل ہوا ہے یا نہیں ۔ معنی دو طرح کے ہوتے ہیں : معنی as such(جیسے کہ وہ ہیں ) عقلی تشکیل کا تقاضا کرتے ہیں ۔ لیکن معنی میں کشش پیدا کرنے کا عمل، معنی کی تاثیر کو ذہنی سے بڑھا کر وجودی کر دینے کا عمل ، جو ہے وہ جمالیاتی ہے ۔ یعنی معنی کی absence(عدم موجودگی) کو کم کر دینے کا عمل جمالیاتی ہے ۔ معنی کے اخفاء کو اظہار میں ڈھال دینے کا عمل جمالیاتی ہے ۔ غیاب کو قائم رکھتے ہوئے ایک جذبۂ شہود کے ساتھ اس کی طرف متوجہ کردینے والی قوت ، یہ جمالیاتی ہے ۔ تو اس کو کہتے ہیں معنی کی جمالیاتی تشکیل یعنی معانی میں hiddenness(اخفاء پن ) کو ختم کیے بغیر اسے مغلوب رکھنا اور اس کی presence(موجودگی ) کو کُلی بنائے بغیر hiddenness پر غالب رکھنا ، یہ معنی کی جمالیاتی تشکیل ہے ۔ اِس کی شاید ہوا بھی جون ایلیا کے تمام مادۂ شعر میں نہیں چلی، اِس حُسنِ اظہار کی ۔ اب جون ایلیا کے ہاں آواز کا شعور بہت اچھا ہے۔ خاص طور پر ان کی جو بڑی نظم ہے ’’درختِ زرد‘‘ ، وہ میری رائے میں اردو کی دس پندرہ بڑی نظموں میں شامل کرنے کے لائق ہے ۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جون ایلیا کی ساری تخلیقی قوت ، اگر ان کی کسی ایک چیز میں پوری طرح صرف ہوگئی ہے تو وہ ان کی یہ نظم ہے ۔ اور اتنی زیادہ منفرد نظم ، اردو میں کم ہے ۔ انفرادیت سے چھلک رہی ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے جون ایلیا خود کو ، بے خود ہو کر express(بیان) کر رہے ہیں ۔ بہت بڑی نظم ہے وہ ۔ جون ایلیا نے صرف ایک بڑی چیز لکھی ہے اور وہ ہے ’’درختِ زرد‘‘ ۔ آوازوں کی تشکیل کا لسانیاتی structure(ڈھانچہ) ہوتا ہے ۔ آواز کی ایک فضا ہوتی ہے کہ اردو فضا، یہ ہندی فضا ، یہ فارسی فضا ، یہ عربی فضا ۔ جون ایلیا ، اس طرح کی تمام صوتیاتی فضائیں خلق کرنے میں بہت اچھی طرح کامیاب ہیں ۔ تو آواز ان کے یہاں بہت زبردست ہے گو کہ آواز میں اس طرح کی گہرائی جو پانی کی تہہ میں چلنے والے flow(بہاؤ) میں ہوتی ہے ، وہ ان کے یہاں نہیں ہے ۔ یعنی خاموشی سے مناسبت رکھنے والی آواز ، ان کے یہاں نہیں ہے ۔ لیکن آوازجو اُبل پڑنے والی آواز یں ہے یا، crafted(گھڑی ہوئی) آوازیں جو ہیں اس میں جون ایلیا اپنے معاصرین میں ممتاز ہیں ۔ لیکن یہ جو دوسری قسم ہے ، یہ جو دوسری سطح ہے کہ وہ تصویر کیسی بناتے ہیں ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ شاعر بڑا ہو اور وہ مصور چھوٹا ہو ۔ کوئی بڑا شاعر ایسا نہیں ہے جو بڑا مصور نہ ہو ۔ جیسے ایزرا پاؤنڈ (Ezra Pound)نے کہا ہے کہ ایک امیج create(تخلیق) کر دینا ، دیوانوں کے دیوان لکھ دینے سے بہتر ہے ۔ امیج میں آپ کو کچھ سناتا ہوں ۔ یہ اس لیے سنا رہا ہوں کہ ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ ہم کیا چیز جون ایلیا کے ہاں ڈھونڈنا چاہتے ہیں ۔
- فردوسی نے ایک لشکر کا بیان لکھا ہے ۔ کچھ نہیں بتایا کہ اس میں دو لاکھ سپاہی ہیں ، دس لاکھ فوجیں ہیں ۔ بس اتنا لکھا ہے کہ ایک بڑا لشکر ہے جو صحراؤں اور پہاڑوں سے گزرتا ہوا پیش قدمی کر رہا ہے ۔ ایک شعر میں پورے لشکر ، اس کے ماحول ، اس کی ہیبت ، اور اس کی طاقت کو مجسم کر دیا ہے ۔
ز سمّ ستوران کوہسار و دشت زمين شش شد و آسمان ھشت گشت (فردوسی)
ترجمہ: گھوڑوں کی ٹاپوں سے زمین سات تھی ، چھ رہ گئی ۔ آسمان سات تھے ، آٹھ ہو گئے ۔
- فردوسی کا پیش کردہ امیج تو ایک complex(پیچیدہ) امیج ہے ۔اب ایک سادہ امیج دیکھیے جس کو appreciate(تفہیم) کرنے کے لیے تخیل سے کام نہیں لینا پڑ رہا ۔ بس ظاہری آنکھوں کی بینائی اچھی ہونی چاہیے ۔
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا (میر انیس)
اس کے لیے صرف یہ جو آنکھوں میں موجود بینائی ہے ، یہی کافی ہے ۔ لیکن یہ کہ خوبصورتی کتنی ہے ۔ ایسی خوبصورتی کہ آنکھ جس پہ فدا ہوجائے تو یہ ایک امیج ہوتی ہے ۔ لیکن ایک امیج ہوتی ہے کہ ایسا حُسن جس پر دماغ اور دل دونوں متحد ہو کے فنا ہو جائیں ۔ وہ حُسن ، اصل حُسن ہے ۔ وہ فردوسی کے ہاں ہے ۔
- (ایک اور شعری مثال پیش کرتے ہیں )
دیکھ کر تجھ کو چمن بس کہ نمو کرتا ہے خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس (غالب)
یہ image-making(مصوری) ہے ۔ تو اس طرح کی images(تصاویر) جو شعر کے معانی سے بڑی ہوں ، شعر کی آواز سے زیادہ کامل ہوں ۔ وہ image(تصویر) ہوئی ناں ۔ یعنی شعر کا مفہوم اتنا بڑا نہ ہو جتنا اس سے بننی والی تصویر ہو ۔ یا کم از کم اتنا تو ہو کہ شعر کا مفہوم اور شعر کی آواز کی سطح کی تصویر بنتی ہو ۔ یعنی لفظ جیسی آواز produce(ترتیب دینا) کر رہا ہے ، اُسی درجے کی تصویر اور اُسی سطح کا مطلب بھی produce کر رہا ہے ، یہ image-making(مصوری) کا ایک standard(معیار) ہے ۔ تو جون ایلیا کے ہاں ایسی امیجری نہیں ہے ۔ فریش امیجز (تروتازہ تصاویر) نایاب ہیں جیسے میر انیس کا طرۂ امتیاز ہے ، بالکل فریش امیج ۔ جیسے ( برطانوی مصور ) جوزف ٹرنر تھا ناں، لینڈ اسکیپ بنانے کا امام تو میر انیس شاعروں کا ٹرنر ہے ۔ یا (انگریز مصور) جان کونسٹیبل (John Constable) تھا ۔ لینڈ اسکیپنگ (Landscaping) ، امیجری کاپہلا درجہ ہے ۔ اس کے بعد منظر internalize(داخل میں جذب) ہو کے خارجی منظر سے زیادہ خوبصورت ہو جائے ، اصل امیج یہ ہوتی ہے ۔ یہ میر انیس کے ہاں بھی نہیں ہے ۔ یہ جیسے میر تقی میر کے ہاں ہے ، غالب کے ہاں ہے ، اقبال کے ہاں ہے ۔ (کلامِ اقبال سے ایک مثال دیتے ہیں )
قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں (اقبال)
ایسے لگتا ہے کہ کائنات میں اس سے بڑی کوئی تصویر نہیں ہے اور قلب کی نگاہوں کے لیے اِس سے اچھوتا کوئی منظر نہیں ۔ یعنی جو آدمی ذہن ، دل اور آنکھوں کو ایک ہی بینائی سے روشن کر دے ، وہ بڑا خلاق image-maker(مصور) ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ ہمارے ہاں غالب ہے ، اقبال ہیں ، میر تقی میر ہیں ۔ (کلامِ میر سےچند مثالیں پیش کرتے ہیں )
جائے حیرت ہے خاکدانِ جہاں تو کہاں سر اٹھائے جاتا ہے (میر تقی میر)
جائے عبرت ہے خاکدانِ جہاں تو کہاں منھ اٹھائے جاتا ہے (میر تقی میر)
دیکھ سیلاب اس بیاباں کا کیسا سر کو جھکائے جاتا ہے (میر تقی میر)
جب نسیمِ سحر ادھر جا ہے ایک سناٹا گذر جا ہے (میر تقی میر)
میر تقی میر کے امیج میں وہ کمال ہے جو غالب اور اقبال کو نصیب نہیں ہوا کہ میر کی امیج میں صورت پن کم سے کم ہوتا ہے ۔ اور پھر امیج ہوتی ہے ۔ تو خیر، امیج کے ابتدائی معیارات بھی جون ایلیا کی شاعری میں پورے نہیں ہوتے ۔
تیسرا یہ کہ معنی ، تو معنی میں یہ کہ ان کےیہاں احساسات میں جو چیزیں پیدا کر کے ان سے معنی آفرینی کے خلا کو بھرا گیا ہے ، وہ اتنا طاقت ور ہے کہ ان پر تنقید کی نظر سے یہ کہنے کو دل نہیں چاہتا کہ وہ معنی آفریں نہیں تھے ۔
(سوال و جواب کے آغاز سے پہلے جناب احمد جاوید صاحب آخری تبصرہ یوں فرماتے ہیں کہ ) جون ایلیا بہت قابلِ توجہ اورناقابلِ تائید شاعر ہیں ۔
سوال و جواب
سوال: شاعری کے اندر معنویت ہونی چاہیے ، یہ ایک اصول ہے شاعری کے اندر یا رائے ۔
جواب : principle(اصول)
سوال: اچھا، اور یہ across-the-board (ہر جا) ہوتا ہے کہ ہر شاعری کے اندرایک معنویت ہونی چاہیے
جواب: بڑی شاعری میں ، اہم شاعری میں ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ جمالیات کیا ہوتی ہے ۔ جمالیاتی شعور کا کردار کیا ہوتا ہے ۔ انسان کے مجموعی شعور کی تشکیل میں جمالیاتی شعور کی ذمہ داریاں کیا ہیں ۔ جب ہم شاعری کو یہ کہیں گے کہ یہ جمالیاتی شعور کی سرگرمی ہے تو یہ کہتے ہی لازم ہو جاتا ہے کہ ہم شاعری میں معنی کی جمالیاتی تشکیلات پر اصرار کریں ۔ تین generators of meaning (معانی کو پیدا کرنے والے) ہیں : حُسن ، خیر اور حق ۔ حُسن ماخذِ معنی ہے ، یہ جمالیات کا دعویٰ ہے ۔ جمالیات کے اس بنیادی ترین سببِ وجود کو نظرانداز کر کے شاعری کا وجود میں آنا ، یہ ممکن نہیں ہے یا ممکن نہیں ہونا چاہیے ۔
سوال: احساسات کی جو dimension(جہت) ہے جون ایلیا صاحب کی شاعری میں ، اس پر ان کو بہت کمال حاصل ہے ۔ کیا ہم اس کو modern form of poetry(شاعری کی جدید صورت) کہہ سکتے ہیں ؟ جو انہوں نے خود اپنی ایک نئی dimension(جہت) نکالی اور اب اس dimension(جہت) کو ایک بہت بڑا حلقہ follow(پیروی) کررہا ہے ۔ یا پھر نئے principles laid out کیے (اصولوں کی بنیاد رکھی) ؟ اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ہوا جو شاید پچھلی traditions(روایتوں ) سے ہٹ کے تھا ؟
جواب: آپ نے جن لفظوں میں سوال کیا ہے ، یہی جواب ہے ۔ جون ایلیا ایک طرح سے post modern(مابعد جدید) شاعر ہیں۔ post modernism(مابعد جدیدیت) میں شعور کی ساخت بھی بدلی ہے اور وجود کے احوال بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ انہوں نے شعور کے بدلے ہوئے structures(سانچوں ) اور وجود کے تبدیل شدہ احوال کو اپنی بنیاد بنایا ، اپنا content(مادہ) بنایا ۔
سوال: (انیق احمد دریافت کرتے ہیں ) کیا یہ کام شعوری طور پر کیا ؟
جواب: اب میں یہ تو نہیں کہہ سکتا۔
سوال : (انیق احمد) کیا محسوس ایسا ہوتا ہے کہ انہوں نے اسی بات کو deliberately(جانتے بوجھتے) عمل کیا اور انہی کے الفاظ میں اگر میں کہوں کہ ایک نیا طرزِ احساس اجاگر گیا ، coin(وضع) کیا اور اس کے امام ٹھہرے ۔
جواب: نہیں ۔ یہ کسی منصوبے کا حصہ نہیں ہے ۔ ان کی شخصیت اس میں زیادہ اہم ہے ۔
سوال : چونکہ ان کی شخصیت ایسی تھی ، زندگی انہوں نے ایسی گزاری چنانچہ شاعری بھی اس کے حساب سے ہوتی چلی گئی تو یہ شعوری تو، ظاہر ہے ،نہیں تھا ۔
جواب: ہاں ۔ ان کا فطری تھا لیکن ایک بات میں عرض کر دوں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ کچھ نئی principlization(اصول بندی) ہر چیز کی ہو سکتی ہے ۔ پرانے اصول رد ہوتے ہیں ، نئے اصول پیدا ہوتے ہیں ۔ پرانا context(پس منظر) ٹوٹتا ہے ، نئے سیاق و سباق پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ سب ہے لیکن ایک قانون ہوتا ہے جس کو تبدیلی میں بھی محفوظ رکھا جاتا ہے یعنی ذہن بدلتا ہے ، تصورِِِ معنی نہیں بدلتا ۔ آنکھ بدلتی ہے ، منظر نہیں بدلتا ۔ میرے جو شعوری اور احساساتی structures(سانچے) ہیں اور ان کے provocateurs(محرکات) تو بدل سکتے ہیں لیکن محسوسات کا جو ایک پورا جہان ، اس کے objects(عناصر) اور characters(کردار) نہیں بدلتے ۔ تو کسی بھی modernity(جدیدیت) کو اپنے جواز کے لیے ، اپنے وجود کے قیام کے لیے ، بعض مسلمہ کلاسیکل اقدار کی لازمی ضرورت ہوتی ہے ۔ modernity(جدیدیت) مکمل انحراف کا نام نہیں ہے ۔ یہ ایک ترمیم شدہ تسلسل کا نام ہے ۔ تو اس میں یہ ہوتا ہے کہ تسلسل کے وہ اجزاء جو زیادہ permanence(دوام) رکھتے ہوں ، وہ زیادہ مضبوط معنویت اور احساساتی دروبست کے ساتھ جاری رکھے جاتے ہیں ۔ تو اگر کلاسیکل human(انسانی ) احساسات یا مسلّم تصورات ، اگر مکمل طور پر negate(منہا) ہو جائیں تو پھر اس کے رد میں وجود پانے والی جدیدیت کے پیدا ہونے کا عمل شروع بھی نہ ہو سکے گا۔ ہم تکنیک کی بات نہیں کر رہے ۔ ہم perspective(تناظر) کی بات نہیں کر رہے ۔ تکنیک اور perspective(تناظر) بدل جاتا ہے لیکن یہ کہ شعور اور معنی کی نسبت ، طبیعت اور احساسات کے تعلق کی صورت میں ، یہ اس طرح کی نہیں ہیں کہ جو میرے ارادوں اور میری پسند ، ناپسند کے بدل جانے سے متاثر ہو جائیں۔ تو انسانی شعور کے مستقل اجزاء کے دباؤ سے پیدا ہونے والے معیارات کو پورا کرنا ، یہ جدیدیت کے اپنے وجود کے لیے لازم ہے ۔
دوسرے اینگل (زاویے) سے میں ایک بات اور عرض کروں کہ ایک اور مکتبہ فکر ہے جو کہتے ہیں کہ تبدیلی کے mechanics(میکانیات) کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہم شاعری وغیرہ پر جامد معیارات اور اصول و ضوابط apply(لاگو) کرتے ہیں ۔ ہم یہ نہیں کر رہے کیونکہ جیسے ’’درختِ زرد‘‘ کی ہم تعریف کر رہے ہیں ، وہ روایتی تکنیک کی حفاظت کرنے والے قوانینِشعری سے پوری طرح منحرف ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ کلاسیکل معیار پہ بھی اگر اسے دیکھا جائے تو وہ بڑی نظم ہے ۔ تاریخ محض تبدیلی کے جواز کو establish(قائم ) کرنے والی قوت نہیں ہے ۔ تاریخ ثبات کے قیام کی کسوٹی بھی ہے ۔ جو ہمارے وجود اور شعور میں ثبات کے عناصر ہیں ،ان کے تسلسل کو اگر ملحوظ اور محفوظ نہ رکھا جائے تو تبدیلی کے عناصر لغو ہو جاتے ہیں یا ان کی سطح گر جاتی ہے ۔
سوال: شاعری کا جو سچ ہوتا ہے اور ایک فلسفے کا سچ ہے تو کیا ان دونوں کے اندر آپ کو ئی difference(تفریق) مانتے ہیں یا کہتے ہیں کہ ان کو ایک ہی ہونا چاہیے ۔ یا ، آیا کہ poetic truth(شعری صداقت) کو ہم الگ طریقے سے define(تعریف) کر سکتے ہیں یا اس کے اوپر بھی فلسفیانہ سچ کی کسوٹی کو apply(لاگو) کرنا پڑے گا ۔
جواب: سچ ، شاعری کا موضوع نہیں ہے ۔ شاعری سچ اور جھوٹ ، حق و باطل کی آویزش میں نہیں ہوتی ۔
سوال: میں اپنے سوال کو ذرا clear(واضح ) کر دیتا ہوں ۔ سچ سے مراد میری یہ ہے کہ اس نے اپنا جو system of thought(نظامِ فکر) جو کسی صنفِ شاعری کے اندر تخلیق کیا ہے ۔ ایک فنکار ہے اس نے اپنا ایک جہان بنایا ہے ، اپنی ایک دنیا تخلیق کی ہے ۔اور اس کے اندر اپنے سچ اور اپنے جھوٹ اس نے لازم کیے ہیں اس کے اوپر ۔ تو آیا جب ہم اس کو تنقیدی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں تو totally logical sense (مکمل منطقی مفہوم ) کے اندر objective world(معروضی دنیا ) کے اصول اس کے اوپر لاگو کرنا ضروری ہوں گے یا جو ہم تخیلاتی سطح کے اوپر یا اس کا جو poetic sense(شعری فہم ) کے حوالے سے دیکھیں گے ۔
جواب: بالکل ، اس پہ logic(منطق) apply(لاگو) نہیں کی جائے گی ۔ logic(منطق) apply )لاگو) کرنا شاعرانہ فکر پر ، بدذوقی ہے اور بے عقلی بھی ۔ بار بار معنی کی جمالیاتی تشکیل اسی وجہ سے کہہ رہے ہیں ۔ فلسفیانہ فکر اور شاعرانہ فکر ، یہ بالکل الگ الگ چیزیں ہیں ۔ شاعرانہ فکر object(شے ) کو internalize کرتی(یا داخلی بناتی) ہے اور فلسفیانہ فکر subject(فاعل ) کو externalize کرتا (یا خارجی بناتا ) ہے ۔ شاعرانہ فکر ، ماننے اور نہ ماننے کا تقاضا نہیں کرتی ۔ فلسفیانہ فکر ، ماننے اور نہ ماننے کا تقاضا کرتی ہے ۔ تو اگر آپ شاعرانہ فکر کی اسی تعریف پہ رہیں کہ یہ میرے تخیل کے تجربات ہیں ، یہ میرے تخلیقی experiences(تجربات) کے نتائج ہیں تو میں اس کو ماننے اور نہ ماننے کی category(نوع) میں نہیں رکھ رہا ۔ تو اس پہ کوئی بھی لاجک apply(لاگو) کرنا بے ذوقی ہے ۔ لیکن اگر شاعر خود یہ دعویٰ کرے کہ میں اسے ماننے اور نہ ماننے کے poles(قطبین) میں رکھے ہوئے ہوں تو پھر اس پر لاجک بھی apply(لاگو) ہو گی ، اس پہ مذہب بھی apply(لاگو) ہوگا ، اس پہ اخلاق بھی apply(لاگو) ہوں گے ۔ اس پہ ہر وہ order(ضابطہ) apply(لاگو) ہو گا جو سچ اور جھوٹ کے امتیاز کے لیے ضروری ہے ۔ یہ صرف شاعر کے دعویٰ پر ہے ۔
سوال: عدالت میں بھی ہوتا ہے کہ جب تک اس کے شواہد نہ ملیں ، تو ہم جون ایلیا کو بری کر دیتے ہیں یہ سوچ کر کے کہ انہوں نے ایک غلط جرم کا اقبال کر لیا ۔
جواب: کٹہرے میں تو ہم ہیں ، جون ایلیا صاحب تو نہیں ہیں ۔
سوال: کسی بھی عہد میں شاعر کی قبولیت اور مقبولیت ہے ، وہ اس زمانے کے بارے میں کیا بتاتی ہے ۔ اورجون بھائی کے حوالے سے ذرا اس پر بات فرمائیے ۔
جواب : بہت کچھ بتاتی ہے ۔ اس پر بحث تو تفصیلی ہے مگر میں اس پر ٹکڑوں میں بات کر دیتا ہوں ۔ ایمان بے رس ہو جائے تو کفر پرکشش ہو جاتا ہے ۔ ’ہاں‘ کہنا ایک روبوٹک سرگرمی بن کے رہ جائے ، تو ’نہیں‘ میں حرارت پیدا ہو جاتی ہے ۔ ہم نے اپنا یہ ماحول پیدا کر لیا ہے ۔ اس کی وجہ سے ایک پوشیدہ جرم بغاوت ہے ۔ یہ جذبۂ انکار نہیں ہے ۔ یہ ایک روحِ بغاوت ہے جو پیدا ہو گئی ہے اور اِس روحِ بغاوت کو اپنی تسکین کے جو بھی ذرائع میسر آتے ہیں ، وہ مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں ۔ کیونکہ ہماری ’ہاں‘ fulfilling(اطمینان بخش) نہیں ہے اور ’نہ‘ کہنے سے ہمارا قد بڑھ جاتا ہے ۔ ’ہاں‘ کہنے سے ہم بے معنی ہو جاتے ہیں ۔ تو ہم نے ’ہاں‘ کہنے کو بے معنی پن کا ذریعہ بنا لیا ہے ، تو اس کے نتیجے میں آدمی کی تلاشِ معنی اور جذبۂ تلاشِ معنی ، انکار سے گویا مشروط ہو کر رہ گیا ہے ۔ یہ کسی تہذیب میں زوال کی یا کسی تہذیب کے اختتام کی سب سے بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ فرض کیا ، ہم بہت ٹھوس اصطلاح میں کہتے ہیں ۔ حق میں کشش اگر نہ ہو تو حق کو ماننا ایک ناگوار بوجھ بن جاتا ہے ۔ باطل کو باطل سمجھتے ہوئے بھی کشش پیدا ہو جائے تو اس کی طرف لپکنا طبیعت کا تقاضا بن جاتا ہے ۔ طبیعت میں اور ذہن میں جب اس طرح کے تضاد اور تصادم کا ماحول پیدا ہو جائے تو سارے channels of fulfillment(ذرائع تسکین )طبیعت میں گھلے ہوں ، ذہن بنجر صحرا سے زیادہ کچھ نہ رہ گیا ہو ،تو صحرا میں گڑے ہوئے جھنڈے کو دیکھنے کی ورزش کرنا بے معنی ہو جاتا ہے ۔ جنگل میں گناہ کی رنگینیاں دیکھنے کا تجربہ بھی محبوب ہو جاتا ہے ۔
سوال: کیا انہوں نے بڑے شعر کہے ہیں ؟
جواب: نہیں ۔ بڑے شعر کہنے والے آخری آدمی عزیز حامد مدنی تھے ۔ بڑی نظم لکھنے والے آخری آدمی ن م راشد تھے ۔
سوال: لیکن دونوں کے ہاں ابلاغ مشکل ہے ۔ چند شعر ہی ہوں گے عزیز حامد مدنی کے ہاں جو شاید کسی کو یاد ہوں یا کوئی دلچسپی لیتا ہو۔ کوئی ایک آدھ غزل ان کی ہو گی ۔ کوئی شوق سے ڈھونڈ کے ان کی غزل پڑھے ، ایسے لوگ تو کم ہوں گے ۔
جواب: اُس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ ہوتا یہ ہے کہ بلندیاں مقبول نہیں ہوتیں ، گہرائیاں مقبول نہیں ہوتیں ۔ مقبولیت کا سارا کھیل جو ہے ، وہ پردے پر ہے ، سطح پر ہے ۔ن م راشد کی نظمیں ایسی ہیں بعض کہ مجھے لگتا ہے ، میرے ذہن اور میرے passion(جذبہ) میں جو لازمی فاصلہ ہے وہ بھی ختم ہو گیا ہے ۔ ن م راشد کوئی ادبی موضوع نہیں رہے حتی کہ ادیبوں ، شاعروں اور نقادوں میں بھی ۔
(جاری ہے)
مکمل مبسوط اور بہترین سر شکریہ
احمد جاوید صاحب کا انتہائی اعلیٰ درجے کا کلام……ایک بلند پایہ تبصرہ جون ایلیا پر……ایک پرمغز ……بامعنی…..جامع اور…….دل کو چھو لینے والا تجزیہ…. میں نے چند دیگر موقعوں پر بھی احمد جاوید صاحب کی گفتگو سنی ہے…….میرے خیال میں اتنی اعلیٰ گفتگو…… اس وقت صرف جناب احمد جاوید صاحب کا ہی خاصہ ہے….. اور کسی کے بس کی بات نہیں ہے.
ارے واہ ۔۔بہت پرمغز گفتگو ۔مزہ آ گیا ۔