اے دلِ ناعاقبت اندیش ضبطِ شوق کر: محمد زبیر

 In تاثرات
کہتے ہیں کہ قلبِ انسانی  بھی  مثل پروانہ بے کلی و شتابی  کے ساتھ بوئے گل   کی جانب  لپکتا  ہے ۔ بعضوں کے نزدیک ، گل  و بوئے گل  دراصل مجاز ہی مجاز ہے اور بعض اس کو استعار ہ سمجھتے ہیں کہ آدمی دید است ۔ ہمارے فاضل دوست جناب محمد زبیر صاحب نے اپنے دل کی بے کلی کو اس طور سے صفحۂ قرطاس پہ اتارا ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں ۔  اگرچہ فاضل مصنف نے  اپنے قلبی خیالات کو  قلمبند کرتے ہوئے کسی قسم کی ترتیب کا خیال نہیں رکھا  مگر محب ِ مصنف  کے اس قول کہ ”نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا “ ،    کے ورد کے ساتھ ہمارے ہاتھوں     یہ ”  نقش “  کچھ اس طور سے مرتب ہوا ہے  کہ ”  کس “ کے پردے میں مخفی  قلبی وارداتوں کو  قدم بہ قدم  ، یم بہ یم ، جُو بہ جُو سامنے لایا جائے ۔  ہر ایک واردات  و احساس کو  دوسرے سے  ممیز کرنے  کے واسطے ستاروں کا استعمال کیا گیا ہے کہ گلستان  رنگ و بو میں ستارے ہی  منزلوں کا پتہ دیتے ہیں ۔ زبان و بیان  کی چاشنی  کے بارے میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ  ملکہ بہار جادو    کی دستک   سے پھوٹنے والا  ایک گلستان ہے جو   ذہن و دل ، قلب و نگاہ ، وہم و خیال الغرض کہ پورے انسانی وجود کو  جکڑ لیتا ہے ۔ مگر   دھیان رہے کہ  اب کی دفعہ ملکہ بہار نے وہ سحر پھونکا ہے جو اس نے شہنشاہ طلسم  افراسیاب جادو گر کے بجائے   ، درِ  اسد اللہ خان غالب کی خاک سے حاصل  کیا تھا ۔

یہ عجیب ماجرا ہے کہ بسا اوقات کثرتِ کار و ہجومِ مشاغل و ازدحامِ اشغال کے باوجود ذہنی یکسوئی و قلبی جمعیت حاصل ہوتی ہے اور گاہے فرصت و فراغت و بےشغلی و بے کاری کے باوجود ذہن منتشر اور خاطر پراگندہ رہتا ہے۔

نہ کلی ہے وجہ نظر کشی نہ کنول کے پھول میں تازگی

فقط اک دل کی شگفتگی سببِ نشاطِ بہار ہے

٭٭٭٭٭٭٭

اپنے مقدر پر مفتخر کیوں نہ ہوں،اپنے نصیب پہ نازاں کیوں نہ ہوں،اپنی قسمت پر فخر کیوں نہ کروں،اور اپنی سرنوشت پر کیوں نہ اِتراؤں؟

          کہ جن کے نام کی مالا جپتے جپتے میرے دن گزرتے ہیں اور سانسوں کی مالا پہ جن کا نام سِمرتے سِمرتے میری راتیں بسر ہوتی ہیں اور جن کی چند لمحوں کی دید میرے یومِ عاشوراء کو،روزِعید اور طالعِ واژگوں کو بختِ سعید بناتی ہے،آج وہ مجھ ستم رسیدہ و الم کشیدہ کے ساتھ دائمی وابستگی کی تمنا کر رہے ہیں۔امیر خسرو نے

کششے کہ عشق دارد نہ گزاردت بدینساں

بہ جنازہ گر نیائی بہ مزار خواہی آمد

کہہ کر پسِ مرگِ عاشق،جذبۂ عشق کی تاثیر کی پیشین گوئی کی تھی،مگر ہم نے زندگی ہی میں اپنے جذبۂ صادق کی کارفرمائی کا مشاہدہ کر لیا ہے۔

آج میں اوپر،آسماں نیچے

آج میں آگے،زمانہ ہےپیچھے

٭٭٭٭٭٭٭

میری عید کو ماتمِ حسرت سے جشنِ مسرت میں بدلنے والے!خدا کرے تیرا ہر روز،روزِعید ہو!

         میرے خارزارِحیات کو اپنی محبت کی نادیدۂ خزاں سے رشکِ گلزار بنانے والے!خدا کرےتیری ہر جائے قدم غنچہ زار ہو!

          میرے دل کی تیرہ و تار دنیا کو اپنےرخِ مطلعِ انوار کی تابانی و ضَوفشانی کے طفیل، روشن زار بنانے والے!خدا کی رحمت ہر دو سرا میں تجھ پر نور افشاں و ضَوبار رہے!

          میری سماعتوں کو اپنی گلفشانئ گفتار سے بار بار نغمہ زار بنانے والے!خدا کرے تیری بزمِ طرب ہمیشہ گلبانگِ محبت کے نغمہ ہائے جانفزا و زمزمہ ہائے دلربا سے آباد رہے!

           پردۂ عدم میں مستورمیری  مَسرّتوں کو اپنے زُہد شکن وتقویٰ ربا حسن کی اعجاز فرمائی سے وجود آشنا کرنے والے!خدا تیرے مقدر کی خوشیوں کو قوت سے فعل میں لے آئے!

٭٭٭٭٭٭٭

اے فراموش گارِ من!

آپ شاید مجھ سے بھی زیادہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مبداء فیاض نے مجھ پر اپنی فیض رسانیوں میں فیاضانہ اسراف سے کام لیا ہے…. گو کہ عشق نے اب نکما کردیا ہے، لیکن کسی زمانے میں ہم بھی کام کے آدمی ہوا کرتے تھے… مانا کہ مُرورِ زمانہ نے اب ہمیں اس حد تک گہنا دیا ہے کہ آپ کی ذات کے ساتھ اپنی دائمی وابستگی کا تصور کرتے ہوئے بھی غالب کی یہ نصیحت یاد آجاتی ہے کہ

چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسد

آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے

لیکن جب ہم جیا کرتے تھے تو خلقِ خدا ہمیں بھی ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھا کرتی تھی…. مولانا اعزاز علی مرحوم کا ایک شعر یاد آیا….

وہ ہماری وضع میں تھی کشش کہ نمازمیں بھی نہیں ہےاب

نہیں کچھ عجیب یہ رنگ ہے، وہ چڑھاؤ تھا یہ اتار ہے

           قدرت نے حلقہ احباب میں بھی ایسے تراشیدہ ہیرے جمع کر دیے ہیں جنہیں بجا طور پر ”  عالم میں انتخاب “ اور ”  منتخب روزگار کے “ کہہ سکتا ہوں…. اور خود بھی ایسی طبیعت و مزاج رکھتا ہوں کہ ہمیشہ ”یارِ شاطر “ ثابت ہوا ہوں نہ کہ ”بارِ خاطر “ …..

لیکن صاف اقرار کرتا ہوں کہ

تو  مری  زندگی  کا  محور   ہے

یوں تو مجھ کو حسیں ملے ہیں کتنے

میرےخارزارِحیات کو رشکِ صد گلستاں آپ ہی نے بنایا اور آپ ہی اس میں نکہتِ بادِ بہار بن کر آئے…. میری خزاں رسیدہ زندگی کو محسودِ بہار آپ ہی نے بنایا اور آپ ہی اس کے لیے بہار آفریں بن کر آئے….

      آپ کی آمد پر یوں لگا تھا کہ ازل سے مجھے جس ہستی کی تلاش تھی، وہ آپ ہی ہیں… آپ سے مل کر ہی ”  فما تعارف منہا ائتلف “ کا مفہوم سمجھ میں آیا تھا…. آپ کو وہ چودہویں کی شب یاد ہوگی، جو ہم نے فلک بوس پہاڑوں کے بیچ میں گزاری تھی، اور تم نے متعجبانہ استفسار کیا تھا کہ زبیر! ابھی ہمارے تعلق کی ابتدا ہے اور آپ میری ذات پر اس قدر زیادہ اعتماد کر رہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟…. تو سن اے گُلِ جنگجو سن! یہ وہی عالمِ ارواح کے تعارف کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ایتلاف تھا، جو مجھے کشاں کشاں تمہاری طرف لا رہا تھا اور یہ تو آپ اچھی طرح جانتے ہی ہیں کہ اعتماد محبت کی پہلی سیڑھی ہوا کرتی ہے….

اور پھر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا جب میں نے تمہیں کہہ دیا تھا کہ…… شاید آپ ہی کے دھوکے میں میری جبینِ نیاز، مختلف آستانوں پہ جھکتی رہی ہے، چنانچہ جب گوہرِ مقصود و جوہرِ مطلوب آپ کی صورت میں ہاتھ آگیا، تو آپ بھی جانتے ہیں کہ میں نے دیگر تمام علائق یک قلم منقطع کر دیے تھے… پھر کسی لیلی سے تعلق رہا نہ شیریں سے،  کسی عُنیزہ سے رشتہ رہا نہ سُعاد سے، کسی بُثینہ سے ناتا رہا اور نہ سلمی سے…..

      پھر جب تقدیرِ غالبہ کے نتیجے میں ہمارے مابین بُعد و مفارقت کی گھاٹیاں اور ہجر و جدائی کے ”  مفاوزُ تنقطع فیہا أعناق المطیّ “ حائل ہوگئے تو پھر بھی میں نے تندئ بادِ مخالف کے باوجود اپنے دل میں آپ کی محبت کے چراغ کو جس طرح روشن رکھا، وہ آپ پر مخفی نہیں…. مگر یا اسفا علی نفسی!!! کہ اس کے جواب میں آپ کا ”  حسن سلوک “ یہ کہ عید کا دوسرا دن اپنی آخری سانسیں لے رہا ہےاور ابھی تک آپ نے ہمارے قلبِ محزون و مجروح کے زخموں کا مداوا نہیں کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭

عین لطف و احسان کے زمانے میں قہرِ مجسم بن جانا اور عین قہر و غضب کے دوران میں پیکرِ الطاف بن جانا، ستم کے یہ جان لیوا انداز کہاں سے سیکھے ہیں تم نے؟

       میں کہ میخانہ عشق و محبت کا پیر مغاں سمجھا جاتا ہوں اور بہت سے نو گرفتارانِ زندانِ عشق مجھ ہی سے درس جنوں لیا کرتے ہیں، زعم یہ تھا کہ عشوہ و ناز ہائے خوباں و غمزہ و انداز ہائے پری چہرگاں کو خوب سمجھتا ہوں، مگر افسوس کہ آپ کے ناز و انداز شاید ابھی تک نہیں سمجھ سکا۔

         اگر لطفِ دم بہ دم کے ساتھ اس قہرِ گاہ سے مقصود ہمیں ہماری اوقات میں رکھنا ہے تو بے فکر رہیں کہ ہمیں اپنی بے وقعت اوقات خوب معلوم ہے اور اگر عنایاتِ خسروانہ و الطافِ مہربانہ سے غرض اپنی غلامی سے نہ نکلنے دینا ہے تو بھی نچنت رہیں کہ ”سپردم بتو مایہ خویش را “ ۔

        اور اگر لڑائی ہی مقصود ہے تو ہم شکست تسلیم کر لیتے ہیں۔

        ماسپر انداختیم اگر جنگ ست

٭٭٭٭٭٭٭

ہمارا اندازہ یہ تھا کہ تمہارے ترکشِ ستم کے سارے تیر ختم ہوچکے ہیں اور اب ہم تمہاری مشقِ ستم کا تختہ بننے کے اعزاز سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوچکے ہیں۔ اور ہم یہ اندازہ لگانے میں حق بجانب بھی تھے کیونکہ مجھ رہینِ ستم ہائے عشوہ و ناز کے قلب و جگر پر تم اتنے تیر برسا چکے ہو کہ زمینِ قلب و جگر میں نئے آنے والے تیرِ ستم کی نوک بوسی کے لئے جگہ ہی نہیں رہی اور ہرنیا آنے والا تیر پہلے سے پیوست تیروں کے ساتھ ٹکرا کر ہی گر جاتا ہے اور قلب و جگر تک رسائی حاصل نہیں کر پاتا۔

نیز جور و جفا ،اذیت ناکی و تکلیف دہی، دل آزاری و ستم گاری، تعدی وتطاول، بے داد و زیادتی، ایذا رسانی و ظلم شعاری اور انّیائے اور انّیتی کی جتنی صورتیں متصور ہو سکتی ہیں آپ کے ”رحم و کرم “ اور ”فضل و احسان “ کی بدولت وہ سب کی سب میں سہار چکا ہوں،اس لیے خدشہ تھا کہ شاید ہمارا دورِ صعوبت و زمانۂ کُربت بِیت چکا ہے۔

             علاوہ ازیں حالیہ عرصے میں آپ کی طرف سے عنایاتِ پیہم و نوازشاتِ پے در پے اس قدر تسلسل و تواتر کے ساتھ ہماری طرف متوجہ رہی ہیں کہ اس کے پیشِ نظر ہمارا ،مشقِ ناز کا ہدف بننے سے محرومی کے اندیشۂ بے جا میں مبتلا ہونا، بے جا نہیں رہتا۔

       لیکن بل بے تمہاری بے داد گری و ستم شعاری! کہ تمہارا سیلابِ جفا ہمارے ان تمام اندازوں،خدشوں اور اندیشوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا کیونکہ

 اے ستم ایجاد !اس بار آپ ایک ایسی طرزِ نو کے ساتھ آمادۂ پیکار اور اندازِ دگر کے ساتھ پرسشِ احوالِ دل و جگر پر مستعد و تیار ہوئے ہیں کہ سابقہ طرزِ ظلم وگزشتہ اندازِ ستم ”نقش و نگارِ طاقِ نسیاں “ ہو گئے ہیں اور آپ کو شمشیر بکف دیکھ کر قلب و جگر ”حریصِ لذتِ آزار ہو کر “   دمِ شمشیر کے سینہ شمشیر سے باہر ہونے کی مانند سینہ و گریباں چاک کرکے آپ کے قدموں میں آیا چاہتے ہیں۔

      لو سرکار!

 تحفۂ دل حاضرِ خدمت ہے ،مسل دیجئے!

 ارمغانِ جگر پیشِ خدمت ہے، کچل دیجئے!

       سچی بات تو یہ ہے کہ آپ کی عنایات و الطاف کی وجہ سے جادۂ محبت ہموار ساہو گیا تھا ،تو زندگی بے کیف سی ہونےلگی تھی،اب آپ کے اس تازہ ”  حسنِ سلوک “ کی بدولت یہ راہِ عشق ایک بار پھر پُرخار ہو گئی ہے تو جی خوش ہو گیا ہے

ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر

٭٭٭٭٭٭٭

اگر میں تمہاری ہر تتکار پر کسی نرتکی کی مانند نرت بھاؤ بتانے پر ہمہ وقت مستعد اور بارہ ماس تیار رہتا ہوں تو اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ میں ٹھالی ٹھلووں والی نِچَنت زندگی جی رہا ہوں…!!! اگر تمہاری قدم بوسی کی للک اور تمہاری دسراتھ کی ہڑک مجھے سیلانیوں کی طرح خدائی خواری پر مجبور کر دیتی ہے تو یہ مت سمجھیے کہ میں کوئی اتنا ہی نِرگُن ہوں کہ جسے کوئی کام کاج  ہی نہیں…!!!

        صاحب! یہ تو آپ کی کاکلوٹ  ہے جس نے ہم جیسے اجیت کو جیت لیا ہے… ورنہ ہم جیسے نرالے کینڈے کے ساونت یوں لہلوٹ میں پڑ کر جگ جگی، حین حیاتی نہیں کرتے!!!

٭٭٭٭٭٭٭

میں جذبہ دل کی یہ الٹی تاثیر دیکھ رہا ہوں کہ جتنا پاس کھینچتا ہوں آپ اتنے دورکھنچتے چلے جارہے ہیں، جوں جوں آپ کی طرف میرا التفات بڑھتا جاتا ہے توں توں آپ مجھ سے اجتناب و احتراز برتتے جاتے ہیں۔ جیسے جیسے میں قرب کی منازل طے کرتا آرہا ہوں ویسے ویسے آپ بُعد کے مراحل طے کرتے جارہے ہیں۔

       اگر کاتب تقدیر نے میری خوشیوں کو آپ کے التفاتِ ناز سے وابستہ و مشروط کر ہی دیا ہے تو مجھے اس ناکردہ گناہ کی اتنی بڑی سزا آپ کیوں دے رہے ہیں؟

          مانا کے ایک مجبور و مقہور و مہجور عاشق کی آہ بے اثر اور نالہ نارسا ہوتا ہے تاہم مکافات عمل کا قانون تو اٹل ہے فَاَیْنَ الْمَفَرُّ؟

        کیا آپ کو داور محشر کے حضور جوابدہی سے ڈر نہیں لگتا کہ وہ اس ستم کی مکافات پر قادر ہے۔

          ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہر ایرا غیرہ نتھو خیرا و ایں و آں تمہاری نظرِ عنایت کا حقدار ٹھہرتا ہے اور میں تیرہ بخت وسیہ نصیب و زبوں طالع تمہارے در کا ”  رشتہ در گردن افگندہ “ غلام ہوکر بھی تمہارے التفات و توجہ سے محروم رہتا ہوں اور پھر ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ اگر کبھی بموجبِ

”  دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں “

 میں شکوہ سنجِ بے التفاتی و عدم توجہی ہوتا ہوں تو یہ امر بھی آپ کی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے!

           میں ایک سے زائد بار یہ کہہ چکا ہوں کہ آپ وہ وقت نہ آنے دیں کہ آپ کی ناراضی کے ڈر سے بے شمار سخن ہائے گفتنی،ناگفتہ رہ جائیں،لیکن اب آپ نے انتہائی اہم معاملات میں بھی میرے لیے لب بستگی کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔

آپ ہی بتائیں کہ کیا کروں؟کچھ کہتا ہوں تو رہی سہی عزت خاک میں ملنے کا اندیشہ ہے اور چپ رہتا ہوں تو آپ کے نقصان کا خطرہ ہے۔

میں تو انتہائی غور و خوض کے بعد اس فیصلے تک پہنچا ہوں کہ معرضِ بیان میں بولنا ہی چاہیے،بھاڑ میں جائے عزت و وقار،یہ عاشقی کی توہین ہے کہ عزتِ سادات کے چلےجانے کے ڈر سے عاشقی کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں۔

٭٭٭٭٭٭٭

جس طرح کل تک تمہاری بے نیازی،بے التفاتی، بے پروائی، بے توجہی، بے لحاظی، بے مروتی بے اعتنائی، تجاہل پیشگی اور تغافل شعاری از حد گذشتہ تھی اسی طرح آج تمہارا التفات، توجہ ،سپاس،لحاظ، تعلقِ خاطر، دلی لگاؤ ،قلبی رغبت، رجحان ومیلان اور موانست بھی زائد الوصف ہے۔

         اگر میں آپ کےاغماض و اعراض برتنے پر نالہ ہائے آہ و فغاں بلند کرتا ہوں، تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تمہاری بندہ پروری، غلام نوازی، کرم گستری،حسن سلوک،مہربانی،رعایت اور عنایت پر اپنے دل میں موجزن تشکر و امتنان کے جذبات بھی علی رؤوس الاشہاد بیان کروں۔

 واقعہ یہ ہے کہ اگر کسی وقت آپ کی ستم شعاری اور بے داد گری میری قوتِ برداشت،مجالِ تحمل اور بساطِ صبر سے بڑھ کر ہوتی  ہے تو دوسرے وقت میں آپ کی عنایت ہائےپیہم،نوازش ہائے مسلسل اور کرم ہائے متواتربھی میرے استحقاق  سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں بحدیکہ آپ کے الطاف سمیٹتے ہوئے مجھے اپنی تنگ دامنی کا احساس ہونے لگتا ہے

                 گلچین بہارِتو زدامان گلہ دارد

        لیکن میں یہ حقیقت واضح کر دوں کہ آپ مجھ پر مشقِ ناز کریں،یا مجھے نیازمند بنائیں،بہر دو صورت آپ کی محبوبیت میں کمی نہیں آتی کیونکہ میرا نظریہ یہ ہے کہ اگر آپ ظلم و ستم کا مظاہرہ کرتے ہیں تو وہ آپ کا حق ہے اور اگر لطف کرم کا معاملہ کرتے ہیں تو وہ محض آپ کی عنایت ہے

                 کہ ہر چہ ساقئ ماکرد عین الطاف است

٭٭٭٭٭٭٭

چند ایک امور میں پسند و ناپسند کا ”  مشترک “ ہو جانا ”  عام “ سی بات ہے ،لیکن تمام معاملات میں زاویہ ہائےنظر کا مل جانا بڑی بات ہے اور یہی چیز ہم دونوں کو ایک دوسرے کے لئے ”  خاص “ بناتی ہے۔

       میری حالت تو یہ ہے کہ اگر آپ کا کوئی ”  منطوق “ کبھی ”  صریح “ طور  پر بھی ہمارے تعلق کے ”  اقتضا “ کے خلاف محسوس ہوتا ہے تو میں ”  مشکل “ ہی  سے سہی،لیکن اسے اس طرح ”مؤوّل“ کرتا ہوں کہ بطور ”مجاز“ ہی نہیں، بلکہ ”حقیقت“ میں اس کی ”دلالت“ کسی مناسب ”مفہوم“ پر ہو جاتی ہے، کیونکہ ”ظاہر“ ہے کہ جب آپ نے ”اشارۃً“ و ”کنایۃً “ ہم سے الفت کا اظہار کرلیا ہے تو اب آپ کے ہر قول و فعل کو درست محمل پر محمول کرنا میرے لئے ”  ماموربہ” کا درجہ رکھتا ہے۔

          جانتا ہوں کہ خوفِ فسادِ خلق سے آپ مافی الضمیرکا اظہار ”  مجمل “ طور پر کرتے ہیں اور حقیقی جذبات کو ”خفی “ رکھتے ہیں نیز ”محکم “ قلبی تعلق کے باوجودایسی ”عبارت “ لانےکو ”منہی عنہ “ کے درجے میں سمجھتے ہیں جو  اظہار الفت میں ”نص“ ہو۔ جب مفصل اور ”مفسَّر“ اسلوب سے احتراز کا سبب خوف فساد خلق ہے تو یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ واضح عبارت میں اظہار الفت کو ”قبیح لعینہٖ“ نہیں بلکہ ” قبیح لغیرہٖ “ سمجھتے ہیں جیسا کہ میں آپ کے ہر طرزِ عمل کو ”حسن لغیرہٖ “ نہیں بلکہ ”حسن لعینہٖ“ سمجھتا ہوں۔ گویا میری اور مجنوں کی حالت باہم ”متشابہ“ ہے کہ ہمیں محبوب کی ہر ادا میں حسن ہی دکھائی دیتا ہے۔

        مجھے تو  تمہاری محبت کی قید میں ”مقید“ رہنے کی کچھ ایسی عادت سی ہو چلی ہے کہ اب اس حسین قید سے ”  مطلق “ رہنا مطلقاً پسند نہیں

اتنے مانوس صیّاد سے ہو گئے

اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

کیونکہ اہل دل کا اس بات پر ”اجماع“ ہے کہ اس قید سے رہائی اندازہ و ”قیاس“ سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے، علاوہ ازیں عشاقِ کاملین کا طریقہ و ”سنت“ بھی یہی ہے کہ اگر محبوب محبت کے تقاضوں کو ” ادائے قاصر“ کے ساتھ ادا کر رہا ہو،تب بھی عاشق صادق کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے فرائض عاشقی ”ادائے کامل “ کے ساتھ ادا کرے کیونکہ نمازِ عشق وہ عبادت ہے جس کی کوئی ”قضا “ نہیں ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭

تم ستم گری کی معراج پر پہنچ جاؤ،مجھےمنظورہے،شیوۂ عاشق آزاری میں خوبانِ جہان کو پیچھے چھوڑ دو، مجھے گلہ نہیں ہوگا،دل تو بارہا توڑ چکے ہو،اپنی ذات سے وابستہ میری امیدیں تک توڑ ڈالو،زبان کو آلودۂ شکایت ہائے بےجا نہیں کروں گا،کیونکہ جور و جفا کا تاج تمہارے سر پر جچتا ہے،بیداد گری و سنگ دلی کا لباس تمہارے رشکِ چمن اور محسودِ ارم بدن پر سجتا ہے،یہ تمہارا حق ہے اور میں کسی حق دار سے اس کا حق کیونکر سلب کر سکتا ہوں؟

       ہاں مگر ایک گزارش ہے۔۔۔۔۔۔

 جب تم مجھ نیاز مند کو ادائے بے نیازی دکھلاتے ہوئےحد درجہ استغنا اور بے انت بےپروائی کا اظہار کرتےہو اور میں جوشِ جنون و وُفورِ وحشت سے مجبور ہو کر بسمل وار تڑپتا ہوں،اس اذیت کی کیفیت میں دیواروں سے سر ٹکراتا ہوں اور میری حواس باختگی و فتورِ عقل مجھے اپنا منہ پیٹنے پر اور اپنا آپ نوچنے پر مجبور کر دیتی ہے ،تو میری اس قابلِ رحم حالت اور لائقِ ترس کیفیت پر رحم کرنے اور ترس کھانے کی بجائے اس پر تکلف،تصنع،بناوٹ اور دکھاوٹ  کی بھپتی کس کر،میرے زخموں پر نمک پاشی نہ کیا کیجیے!بخدا بہت دکھ ہوتا ہے!

٭٭٭٭٭٭٭

غلطی میری ہی تھی کہ میں نے یہ حقیقت فراموش کر دی کہ تم میرے حق میں اول و آخر معشوق ہی ہو اور تمہاری دیگر تمام اچھائیاں،خوبیاں اور بھلائیاں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں،اور میں تمہارے لیے صرف ایک عاشق ہوں اور میری دوسری تمام حیثیتیں،جہتیں اور پہچانیں دوسرا درجہ رکھتی ہیں، اِذاکان الامرُ کذٰلک تو تمہارا حق یہ ہے کہ تم ہر تھوڑےعرصے کے بعد ظلم و ستم کے نئے نئے ابواب لکھتے رہا کرو اور میرا فرض یہ ہے کہ میں ضبط و تحمل سے کام لیتے رہا کروں،تمہاری شانِ بے نیازی کے لائق یہ ہے کہ تم وقتاً فوقتاً مجھےدھتکارتے رہا کرواور میری احتیاج کے مناسب یہ ہے کہ میں پھر بھی تمہیں پکارتے رہا کروں اور تم اپنی خو نہ چھوڑو،میں بھی اپنی وضع نہ بدلوں۔

کیے جاؤ میخوارو کام اپنا اپنا

سبو اپنا اپنا ہے،جام اپنا اپنا

      یہ میری نادانی،بھولپن اور مورکھ پن تھا کہ تمہارے التفات و عنایت کو شاید محبت سمجھ کر تم سے برابری کی سطح پر تعلقات کی امید لگا بیٹھا،لیکن یہ تم نے اچھا کیا____اورآپ ہمیشہ اچھا ہی تو کرتے ہیں____ کہ مجھے میری حقیقی اوقات اور واقعی حیثیت یاد دلا دی۔

       مگر میں بھی کیا کروں؟تم جب مہربان ہوتے ہو تو تمہارے مراحمِ بےپایاں و الطافِ بےکراں اس قدر بہتات اور وفور کے ساتھ ہوتے ہیں کہ مجھے میری حد میں رکھنے کے لیے کی گئیں آپ کی سابقہ تمام تنبیہات زینتِ طاقِ نسیاں ہو جاتی ہیں۔

          لیکن گزشتہ رات جس انداز سے آپ نے میری رات کو ”خاقانی “ کی ”دگر شب “ بنایا ہے اس سے امید ہے کہ مجھے اپنی حد میں رہنے کے سلسلے میں مدد ملے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭

صحرائے عشق کا رہ نورد اس راہِ پُر خطر و واجب الحذر میں پیش آنے والی تمام مشکلات خندہ پیشانی کے ساتھ جھیل سکتا ہے،بدخواہانِ بدباطن کی جانب سے کھڑے کیے گئے مصائب کے پہاڑوں کی چھاتیوں کو بآسانی اپنے قدموں تلے روند سکتا ہے حتی کہ خود محبوب کی طرف سے بے اعتنائیوں، بےتوجہیوں،بےالتفاتیوں اور بے نیازیوں کے ناوک  ہائے جگر خراش و دل شکن بھی اپنے قلبِ مجروح پر سہہ سکتا ہے، لیکن اگر محبوبِ کج ادا،وہ مقام و اعتبار،کہ عاشقِ صادق سالہاسال سے جس کاخواہاں اور طالب ہونےکےباوجود اس سے محروم ہو،وہ مقام و اعتبار اگر کسی رقیبِ رذیل و بدخواہِ رُوسیاہ کو بلامطالبہ اور بِن مانگے عطا کر دے، تو اس ستم کی سَہار مشکل ہو جاتی ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭

وحشی یزدی نے اپنے شعر

مریضِ طفل مزاج اند عاشقان ورنه

علاجِ رنجِ تغافل دو روز پرهیز است

میں سادہ اور سہلِ ممتنَع انداز میں ایک عظیم حقیقت بیان کی ہے۔کہتےہیں کہ محبوب کے تغافل اور بے نیازی کا علاج یہ ہے کہ مُحِب دو دن،پرہیزکرلے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مرضِ عشق میں مبتلا مُحِب اس بچے کے مانند ہوتا ہے جس کے لیے دو دن پرہیز کرنا بھی مشکل ہے۔

           کہنے کو تو یہ ایک پیش پا افتادہ حقیقت ہے کہ اگر  محبوب بےرخی،بےپروائی،بےتوجہی،بےلحاظی اور بےمروتی کا مظاہرہ کر رہا ہے تو مُحِب کو چاہیے کہ کچھ دن صبر کا کڑوا گھونٹ اور شکیب کا تلخ جام پی کر آہ و فغاں،نالہ و شیون اور شکوہ و شکایت سے پرہیز کر لے،اگر محبوب اصلی اور نسلی ہوا اور تمہارے باہمی تعلق کی اساس و بنیاد کسی سفلی جذبے یا مادی مفاد پر قائم نہ ہوئی، تو تمہارے جذبۂ عشق کی جاذبیت اسے ضرور ”مہر و وفا و لطف و عنایت “ پر مجبور کر دے گی۔

         لیکن اس ”  دو روز پرہیز “ کا جگرا اور حوصلہ پیدا کرتے کرتے عمریں بِیت جاتی ہیں، مگر حوصلہ پیدا نہیں ہو پاتا۔     

      میں اپنے جس بُتِ طناز و محبوبِ بےنیاز و نازنینِ دلنواز و صاحبِ صدہزار نخرہ و ناز کی تغافل شعاری و تجاہل پیشگی کا اکثر شکوہ کناں و شکایت بر زباں رہتا ہوں،ایک موقِع پر اس سے ”دو روز پرہیز “ کیا تھا ، تو صاحب اس قدر ”مائل بہ کرم “ ہو کر متوجہ ہوئے تھے کہ اس سے زیادہ عنایت و نوازش کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اور اس کے بعد — جیسا کہ میری نگارشات شاہد ہیں — بیسیوں بار ہمارے مابین شکررنجیاں،رنجیدگیاں،بدمزگیاں،ناچاقیاں ،چشمک زنیاں اورناراضیاں ہوئیں، اور جانتا ہوں کہ اگر میں چند دن از خود رابطہ نہ کروں تو صاحب کچی ڈوری سے بندھے،کھنچے چلے آئیں گے،لیکن چند روز تو درکنار چند ساعات کے لیے بھی صبر نہیں ہو پاتا۔اس کی جہاں اور کئی وجوہات ہوں گی،وہاں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسا کرنے سے مجھے خود اپنا عشق خام معلوم ہوتا ہے کہ وہ عشق ہی کیا جس میں عاشق محبوب کے معاملے میں صبر و شکیب سے کام لے سکے۔ سعدی شیرازی نے درست کہا تھا کہ

قرار در کفِ آزادگاں نگیرد مال

نہ صبردردلِ عاشق نہ آب در غِربال

٭٭٭٭٭٭٭

تمہاری محبت کا حلقہ، بگوش و طوق، بگردن ہونے کے بعد مجھے کسی اور کے سنگِ در پر ناصیہ فرسائی تو کجا کسی کے ساتھ مدارات سے زیادہ تعلق بھی روا نہیں لگا،اس لیے میں نے دیگرتمام علائق سے انقطاعِ کلی اور تجرُّدِ بحت اختیار کر لیا،سابقہ تمام بیڑیاں کاٹ ڈالیں،ساری بندشوں کو توڑ پھینکا،نئی راہ و رسم بڑھانے والوں پر اپنے دروازے بند کر دیے،دل کی جانب کھلنے والے دروازے پر تالا لگا کر اس کی چابی تمہاری محبت کے اس بحرِ عمیق میں پھینک دی کہ ”یغشاہ موجٌ من فوقہ موجٌ من فوقہ سحابٌ “ اور اس طرح اب میں صرف تمہاری الفت کا اسیر اور  تمہاری محبت میں پا بہ زنجیر ہو کر رہ گیا ہوں۔۔۔کیا کروں؟غیرتِ عاشقی کو گوارا ہی نہیں ہے کہ خود کو کسی اور کے ساتھ وابستہ تعلق میں گرفتار کر کے اسے آپ کا ساجھی دار بناؤں!

        یہ ہے اصل وجہ اور حقیقی سبب میری تنہائی اور اکیلے پن کا۔۔۔ اور آپ ہیں کہ بار بار اور لگاتار ہمیں یہ طعنہ دیے جا رہے ہیں کہ ”تمہاری تند خوئی،بد دماغی اور درشت مزاجی کی وجہ سے کوئی تم سے تعلق رکھتا ہی نہیں ہے “

لو وہ بھی کہتے ہیں کہ ”یہ بے ننگ و نام ہے “

یہ جانتا اگر تو لُٹاتا نہ گھر کو میں

           میرا یقین کیجیے کہ میری اس گوشہ گیری و عزلت نشینی و تنہائی پسندی کا باعث صرف اور صرف میرا خود کو آپ کے لیے مخصوص کر دینے کا التزام ہے،ورنہ اگر ہم مجلس بازیوں اور بزم آرائیوں پر آئیں تو شمعِ محفل بھی ہم خود ہوں گے اور میرِ مجلس بھی۔۔۔اگر ہم  دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ ربط وضبط،میل ملاپ اور مترتا کی اجازت دے دیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہمارا طواف کرنے والے پروانوں کی تعداد آپ کے گرد منڈلاتے بھنوروں سے بڑھ جائے گی۔۔۔لیکن وہ کیا ہے کہ ہم آپ سے آپ کا غُرور چھیننا نہیں چاہتے۔۔۔ہمیں ہر طرح کا طنز گوارا ہے، ہر طرزِ ملامت برداشت ہے اور اندازِ نکوہش کی تاب ہے،لیکن آپ کی محبت میں شرک کا شائبہ تک گوارا نہیں!

       آپ ہر روز ایک نئی طرزِ ستم ایجاد کیجیے! پھر اسے مجھ پر آزما کر مجھے برباد کیجیے! جس طرح سے ممکن ہو  مجھے ناشاد کیجیے!اس سب کے جواب میں،مَیں آپ کے ساتھ اپنی محبت کی داستان میں مہر و وفا کے نئے باب ہی رقم کرتا رہوں گا۔

٭٭٭٭٭٭٭

ازخود رفتگی کے عالَم میں بےخود ہو کر،تم از خود میرے اتنے قریب آ جاؤ کہ میں تمہاری عنبریں زلفوں کی عطربیزیوں اور مشک افشاں سانسوں کی مہکار سے اپنے دماغ کو مِجمرۂ عُود اور اپنے شامّہ کو طبلۂ عنبر بنا لوں۔

تمہارے قُرب و وصال کے اس مقام تک پہنچنے کے لیے ہم نے کیا کیا کچھ نہیں کیا؟

       گلۂ ملامتِ اعزّا و اقارب سنا کیے،شماتتِ اعدا و عقارب دیکھا کیے،طعنہ ہائے طنز آلودِ یاراں برداشت کیے اور نکوہش ہائے نفرین آلودِ رقیباں کی تاب لایا کیے۔

        ”  جویندہ،یابندہ “ وہ لمحۂ منتظَر آیا،لیکن اپنے جِلَو میں ایسی قیامت لایا کہ جس کے تحمّل کی تاب و تواں مجھ ناتواں کے بس کا روگ نہیں تھا۔

        میں اس ننگِ بِرہا مِلن،رسوائے فراق رفاقت اور آلودۂ جدائی ملاپ کو کیونکر برداشت کر سکتا تھا جبکہ تمہارا جسم تو میرے ساتھ تھا اور دل کی دھڑکنوں میں کوئی اور بسا ہوا تھا۔اگر میں حسن پرستی شعار کرنے والا کوئی بوالہوس ہوتا تو تمہارے اس لمس سے خوش ہو جاتا جس سے تم کسی اور کے دھوکے میں مجھے شاد کام کر رہی تھیں،لیکن میری غیرتِ عشق و حمیّتِ محبت کو تمہارے حسن کی یہ خیرات گوارا نہ ہوئی۔

           حیف اس نصیبوں کے مارے پر جس کے لیے وصال موجبِ ملال بن گیا اور افسوس اس قسمت کے ہارے پر جس کے لیے قُربت باعثِ کُربت ٹھہری!

٭٭٭٭٭٭٭

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search