آنسوؤں کی چُس-کی (تحریر: ذکی نقوی)
یومِ اساتذہ پر اپنے اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا حق ادا کرنے کی میری بساط نہیں، دودھ کی دھار اور پالنے پوسنے کے احسان کی طرح الف بے پڑھائے کا قرض بھی ادا نہیں ہوتا، اپنے اساتذہ کی خدمت میں بے پناہ ادب، محبت بھرا سلام، اس سے زیادہ کیا ہی کہوں… البتہ عالمی یومِ اساتذہ کا موقع ہے، تو موقعے کی کوئی گَپ ہی سہی، سو اپنے کولیگز میں ایک ٹیچر صاحب کا ہی ذکر ہو جائے جو جیسے بھی ٹیچر ہوں، میرے پسندیدہ کولیگ ہیں۔ ان کا نام ذکی نقوی ہے (انہیں حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ ان کا نام ”ز“ سے نہیں ”ذ“ سے ہے اور یہ موصوف اردو پڑھاتے ہیں) اور دس سال سے اس میدان میں گھاس کھود رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیمز ہلٹن کے ناول سے شوق پا کر تدریس کے شعبے میں آئے، سراسر بکواس ہے، انہیں زارِ روس کے زمانے کے لفٹینوں جیسا گھڑسوار فوجی بننے کا شوق تھا جو محبت میں جیے اور جنگوں میں مارا جائے یا پھر انہیں لڑاکا طیاروں کا وہ ہواباز بننے کا شوق تھا جو نوجوانی میں ہی اپنے گرتے ہوئے طیارے سے کسی شہری آبادی کو بچانے کی کوشش میں مَر جائے۔ یہ حضرت اس شوق میں نامراد ہوئے، ہونا ہی تھا کہ تعلیمی قابلیت، خود اعتمادی اور جذباتی پختگی کے اعتبار سے پچھلی صدی کے وہ دیہاتی تھے جو وہ کچھ نہیں بن پاتے تھے جو وہ بننا چاہتے تھے، سچ کہتا ہوں۔ سو جب کچھ نہ بنے تو استاد بنے۔ عین جوانی میں فوج چھوڑی اور پہلی سی وی سر جیفری ڈگلس لینگلینڈز کی خدمت میں پیش کی جنہیں پاکستان کا مسٹر چپس کہا جاتا تھا۔ صاحب بہادر نے انہیں اپنے کالج میں نوکری دینے سے پہلے اپنی مریدی میں لے لیا، اس سے پہلے کہ نوکری کی نوبت آتی، صاحب بہادر گزر گئے، مرید بے ہدایتا رہ گیا۔ اس بے ہدایتی کے ساتھ موصوف دس سال سے اردو پڑھا رہے ہیں، اُکتائی ہوئی جس نسل سے ان کا تعلق ہے، اُس پوری نسل کے دکھ کیا بیان کروں، یہ مولانا ضرور اس کام سے اُکتا چکے ہیں اور کوئی اور کام بھی اس لیے نہیں کرتے کہ اُس سے بھی تو اکتا ہی جائیں گے۔ جیسا کہ کئی سال قبل ڈیزل انجن مکینک بننے کی کوششوں میں نالائقیوں کی ایک داستان رقم کر چکے ہیں (جس کا اجمال زیانِ وقت ہی ہو گا)۔
اُکتائی ہوئی جس نسل سے ان کا تعلق ہے، اُس پوری نسل کے دکھ کیا بیان کروں، یہ مولانا ضرور اس کام سے اُکتا چکے ہیں اور کوئی اور کام بھی اس لیے نہیں کرتے کہ اُس سے بھی تو اکتا ہی جائیں گے۔
یہاں اس پیشے میں انہیں فقط یہ آسائش ہے کہ کتاب بینی کا شوق جملہ نالائقیوں پہ پردہ ڈالے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا ہے ”جس نسل کو میں اردو پڑھا رہا ہوں، اس کو کوئی فائدے کی چیز پڑھانا بھی مشکل ہے اور میں ہوں کہ اردو ادب جیسی ازکار رفتہ شے پڑھا رہا ہوں“ … اور باوجود تمام تذلیل کے، یہ بھی ایک حضرت بے حیا ہیں کہ نوٹس لگوانے کی طرف نہیں آتے، وہاں شڑاپ شڑاپ چائے کے خم لنڈھاتے ہوئے اردو اور عالمی ادب پڑھتے رہتے ہیں، اپنی نوٹ بک میں شذرے بناتے رہتے ہیں اور یہاں کلاس میں لیکچر دے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں ”بَخُدا جن اساتذہ کے کلام کو ہم پڑھ کر آنکھوں سے لگاتے ہیں، ان کا کلام اس نسل کو پڑھانا ذلت سے کم نہیں کہ ہم استاد ذوق، مومن یا جگر کا ایک شعر سُنا کر تختہ سیاہ کی طرف لکھنے کو مُڑیں تو پیچھے سے داد کی آواز آئے: چُسس سسس سسس سسس سسس سس“۔
بَخُدا جن اساتذہ کے کلام کو ہم پڑھ کر آنکھوں سے لگاتے ہیں، ان کا کلام اس نسل کو پڑھانا ذلت سے کم نہیں کہ ہم استاد ذوق، مومن یا جگر کا ایک شعر سُنا کر تختہ سیاہ کی طرف لکھنے کو مُڑیں تو پیچھے سے داد کی آواز آئے: چُسس سسس سسس سسس سسس سس
نقوی صاحب کہتے ہیں کہ پھر لونڈے قہقہے لگاتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ کر ٹھہر جاتے ہیں، وہ آنسوؤں کی ایک چُس۔کی سی لے کر مسکرا دیتے ہیں۔ ادب پڑھانے سے جی اُٹھ جانا الگ بات مگر ان کا ادب پر ایمان پختہ ہے۔ کچھ بارہ چودہ سال پہلے انہوں نے مولانا محمد حسین صاحب آزاد کی ”آبِ حیات “ پڑھ کر آنکھوں سے لگائی تھی، اور ایم اے اردو کرنے کا فیصلہ تب کیا جب ان کی پلٹن میں سبھی ان کی انگریزی اور چال ڈھال کی بنا پر انہیں ایم بی اے کرنے کا پرزور مشورہ دے رہے تھے۔ نقوی صاحب کو مختلف نوکریوں میں بیس سال ہو چکے ہیں، اب آ کر انہیں امید بندھی ہے کہ جلد ایک موٹر سائیکل خرید لیں گے اور اس دائمی مسافری کی ذلت میں کچھ اپنا اختیار ہونے کا احساس اچھا لگے گا، پبلک لاریوں سے جان چھوٹے گی… یہ ہرگز نہیں کہ وہ دیوجانس یا سقراط کی طرح اس میں مطمئن اور متشکر بھی ہیں۔ بس اس سے بڑے خواب ان کے خیال میں ٹیچر کا آشوبِ چشم ہوتے ہیں، ”فضلِ ربی“ نام کے اتفاقات کو ٹیچنگ پروفیشن کے فوائد بتانے والے اساتذہ فقط نئی نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں (مگر یہ نسل سمجھدار ہے۔ ان صاحب کا کہنا ہے کہ میں اپنے ہر شاگرد سے مستقبل کے ارادے پوچھتا ہوں، استاد بننے کا شوق کسی کو نہیں ہے) یہ قوم استاد پیدا کر ہی کہاں رہی ہے، چند بے لوث، قابل اور محنتی اساتذہ کے سہارے یہ دنیا قائم ہے ورنہ زیادہ تر تو ہمارے ان دوست جیسے نوسرباز ہیں۔ کسی کو شک ہو تو ان کا بورڈ کا ریزلٹ دیکھ لیں، بقول ان کی ایک شاگرد کی اماں (اور ان کی سینیر کولیگ، جن کے نوٹس ہاتھوں ہاتھ فوٹو اسٹیٹ کروائے جاتے ہیں) کے، ”ذکی صاحب بورڈ ایگزام میں اعلیٰ نمبر لینے کے طریقوں کے سوا اردو کی ہر غیر ضروری چیز بچے کو بتاتے ہیں“ (ذکی صاحب کا جواب دعویٰ: کاش میں ان بی بی سے کہہ سکتا کہ میری مداری سے میری روٹی وابستہ نہ ہوتی تو میں بتاتا کہ اردو پڑھانا ہی غیر ضروری ہے بلکہ بنی نوع انسان کی اس خاص نسل – بقولِ یاسر جواد ”ہومو پاکئنز“ – کے لیے تعلیم بھی کتنی غیر ضروری ہے) سو ہمارے ہاں پیشہء تدریس میں اتنے زیادہ لوگ ہیں کہ دو چار اصلی اساتذہ مل جانا بھی خوش قسمتی کی بات ہے۔ ذکی نقوی صاحب اس پیشے میں قدم رکھنے والے نئے لڑکوں کو (لڑکیاں عموماً اچھی ٹیچر اور بری لیکچرار ثابت ہوتی ہیں سو وہ ان جیسے سینیئرز کی ایک نہیں سنتیں) پیشگی مطلع کیا کرتے ہیں کہ یہ اس لیے پیغمبری پیشہ نہیں کہ اس میں پیغمبروں جیسی عزت ملتی ہے، بلکہ اس میں پیغمبروں کی طرح کبھی طائف کے لونڈوں سے پتھر کھا کر دعا دینی پڑتی ہے، کبھی آرے میں دو ٹکڑے ہو کر اور کبھی مچھلی کے پیٹ میں قید ہو کر بھی صبر کرنا پڑتا ہے۔ ان صاحب میں صبر و توکل کی یہ صفات نہیں ہیں اور جن اساتذہ میں یہ صفات ہیں، نقوی صاحب ان کی عزت بھی کرتے ہیں اور ان سے حسد بھی کرتے ہیں۔ سو، جہاں سب لوگ اپنے اچھے، مخلص، محنتی اور بے لوث اساتذہ کو سلام پیش کر رہے ہیں وہاں ذکی صاحب جیسے بے چارے اُکتائے ہوئے ماسٹروں کو بھی ”ست سری اکال“ ہے جو اس پیشے میں آ گئے ہیں اور زندگی کا جبر بھگت رہے ہیں، قوم انہیں بھگت رہی ہے۔ خدا ہم سب کے بچوں کو انکی صحبت اور تدریس کے مضر اثرات سے بچائے رکھے اور انہیں اپنے پیشے میں دلچسپی لینے اور اچھا ٹیچر بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔