کوئی سانس لینے والی – نسرین انجم بھٹی
گونج کو دہرا کرکے زمین کے نیچے اتاردیاگیا
کیاوہ محبت کا غم برداشت نہ کر سکی ہوگی تبھی تو۔۔۔۔
زمانوں کے آگے اور پیچھے کوئی زمانہ نہ تھا۔۔۔میں اپنے زمانے سے الگ اکیلی ہوگئی
جس میں تم تھے۔۔۔تمہیں تو تھے
تخت لاس کے نیچے سے گزرنے والے خون کے ہڑ کو دیکھ کر
تم نے اپنے پائینچے تو سمیٹ لئے تھے
مگر ہاتھ
وہ تو رنگے گئے۔۔۔وہ پل گھڑی بول کر بتاتی تھی
کہ ہوگیا
میرے اندر کون کوکتاہے،کیا یہ بھی بتانا پڑے گا
سیدھا ادھر آنے والا دکھ ٹوٹ ٹوٹ کر ادھر اُدھر بکھرنے لگے تو کیا کروں
دنیا بہت بڑی ہے
ایک بڑے دروازے سے چھوٹے دروازے کے کمرے میں پوری آجاتی ہے
جیبوں میں لپیٹ کر رکھی چھوٹی بڑی سڑکیں کھول دو پھر بھی
دنیا بہت دور نہیں جاتی
سامنے رہتی ہے
نرم اور ملوک لوگوں کی تندی مجھے نہ دکھانا۔۔۔میری انگلیوں میں اُسکے نین نقش ہیں
جو شہر پناہ پر مجھ سے ملاتھا
اوربہت سے لوگوں جیسانہیں تھاکسی جیسا بھی نہیں تھا
میں نے پوچھا تم کہاں تھے؟
یہیں تھا میں تو۔۔۔اور گونج رہاتھا
تمہیں ہی صدیاں سمیٹنے کی پڑی تھی جو آگے نکلتی چلی جاتی تھی
گونج نے دل کو دوبالا کردیا
اور لہو بجنے لگا
دل کے اندر ایک اور دل کی کمان داری تھی
جو کہتی تھی نہ ڈر،دھڑکنے دے دھڑکنے دے
زمین کے نیچے کیا
اور زمین کے اوپر کیا
سفر نہیں کٹتا تو فاصلہ کیسے کٹے۔۔۔سوال بڑاہوتاجاتاہے میں چھوٹی پڑتی جاتی تھی
دیکھے ہوئے درودیوار کو پھر سے دیکھتے رہنا اچھا لگتاہے
جیسے ہر سو کوئی سانس لیتاہے
اور میں سانس لوں تو اُڑ کر اندر آتاہے
جیسے دھنک چاندنی اور ڈھول کا کھیل کھیلتی ہو۔۔۔
کوئی سانس لینے والی