کارگل۔ شہزاد نیّر

 In نظم

قدم معتبر ہیں

کہ سارے بدن کو اُٹھائے چلے ہیں

زمیں کی جبیں سلوٹوں سے بھری ہے

اِنہیں سلوٹوں پر قدم، چلتے چلتے

کہیں آکے ٹھہرے

تومغرور دھرتی کی اونچی

تنی ناک تلووں کے نیچے!

 

ہوائیں غضب ناک ہو ہوکے آیئں

تو قدموں پہ استادہ جسموں نے روکا

جونہی غول سیسے کے اُڑتے ہوئے آئے

سینوں نے وہ اپنے اندر پروئے!

شکم میں کئی بھوک لقمے اُتارے

بدن اپنے کمزور بازُو سے

برفانی طوفاں سے لڑتا رہا

آنکھ نے نیند کو برف میں دفن کر ڈالا

بیداری پہروں کھڑی ہی رہی!

سرحدیں جاگتی تھیں

عقَب سو گیا تھا!!

 

ماخذ: نظموں کا در کُھلتا ہے

انتخاب: نعمان فاروق

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search