انسان ہار گیا ہے: عاصم رضا
(سلیم احمد کی نظم کے تسلسل میں)
انسان انسان ہے
اور ٹیکنالوجی ٹیکنالوجی ہے
اور دونوں کا ملنا ناممکن ہے
لیکن ٹیکنالوجی انسان کے من مندر میں آ پہنچی ہے
میرا نوکر وٹس ایپ، ٹویٹر اور انسٹاگرام سے خبریں سنتا ہے
میں بیدل اور حافظ کی بجائے
نیٹ فلیکس کو دیکھتا اور سنتا ہوں
فیس بک پر ٹیکنالوجی کے کارناموں کی خبریں اور تصویریں چھپتی ہیں
مجھ کو مولوی کی ہنسی پر رحم آتا ہے
مذہب کی باتیں (گستاخی ہوتی ہے)
مجذوب کی بڑ ہیں (اس کا ٹیکنالوجی سے کیا لینا دینا ہے)
رائے احمد کھرل، عالمگیر، محمد بن قاسم؟
چلیے جانے دیجے ان باتوں میں کیا رکھا ہے
انسان ہار گیا ہے!
یہ بکسرؔ اور پلاسیؔ کی ہار نہیں ہے
ٹیپوؔ اور جھانسی کی رانی کی ہار نہیں ہے
سن ستاون کی جنگ آزادی کی ہار نہیں ہے
ایسی ہار تو جیتی جا سکتی ہے (شاید ہم نے جیت بھی لی ہے)
لیکن انسان اپنی روح کے اندر ہار گیا ہے
انسان کیا تھا؟
جسم سے اوپر اٹھنے کی اک خواہش تھی
شہوت اور جبلت کی تاریکی میں
اک دیا جلانے کی کوشش تھی!
میں سوچ رہا ہوں، الگورتھم اور کوڈنگ انسان سے نکلے تھے
(انسان سے جانے کتنے الگورتھم نکلے تھے)
لیکن ٹیکنالوجی ہر الگورتھم کو نگل گئی ہے
’’میں ہار گیا ہوں‘‘
میں نے فیس بک کی دیواروں پر لکھا ہے
’’میں ہار گیا ہوں‘‘
میں نے اپنی کمپیوٹر سکرین پر کالک مل دی ہے
اور تصویروں پر تھوکا ہے
ہارنے والے چہرے ایسے ہوتے ہیں
میری روح کے اندر اک ایسا گہرا زخم لگا ہے
جس کے بھرنے کے لیے صدیاں بھی نا کافی ہیں
میں اپنے بچے کو سکریچ اور روبوٹکس سکھاتا ہوں
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک نفرت دے دو
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک غصہ دے دو
ایسی نفرت ایسا غصہ
جس کی آگ میں سب جل جائیں
۔۔۔۔۔میں بھی!!