گٹر کے ایک انقلابی کیڑے کا ترانہ۔ روش ندیم
نعرے ردی میں پھینکے ہوئے چند کنڈوم ہیں
حکمرانوں کی جوئے میں ہاری ہوئی داشتاؤں کے
چھوڑ ے ہوئےزیرجاموں کا اک ڈھیر ہے
یہ نظامِ کہن چوک میں بک رہی اک طوائف تو ہے
جس کا بھاؤ چکانے کو کتنے وڈیروں کی بازار میں بھیڑہے
اور جمہوریت ایک اُترن ہے لنڈے میں بکتی ہوئی
پوری آتی نہیں جسمِ بے جان پر
اور اس کی حفاظت پہ بیٹھا ہوا ایک جرنیل ہے
(جس کے بوڑھے مثانو ں کے اندر بھی بارود ہے)
ریڈیو اور ٹی وی دو کتے ہیں
جو بھونکتے ہیں مگر انکی زنجیر کھلتی نہیں
’’دین خطرے میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیس خطرے میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
کیسٹوں میں فقط ایک ہی گیت ہے
بوڑھا بابا جو دو وقت کی روٹیوں کے لئے
عمر ساری کسی بیل کی طرح سے گھومتا ہی رہا
اس کو کیا تھا پتہ؟
پھول کلیاں بھی، خوشبوبھی جیون کے رستے کا اک موڑ ہیں
وہ تو جرنیل کے اردلی کی طرح خود میں ہی گم رہا
سر جھکائے ہوئے ہر قدم چپ رہا
ماخذ: نظموں کا در کُھلتا ہے
انتخاب: نعمان فاروق