ہم اکیلے ملیں گے۔ سرمد سروش
معذرت چاہتا ہوں!
تجھے میں کسی دوسرے دن اکیلا ملوں گا
میں خلوت پسنداور بجھیل آدمی ہوں
سو بالائی بالائی باتیں نہیں کر سکوں گا
سمندر کے لیول سے لازم گروں گا
گراں بار پتھرکے مانند، گہرائیوں میں اُترنے کی کوشش کروں گا
بہت عامیانہ سی باتوں میں، علم و ادب اور دانش کے مضبوط تر لاسٹک کو پرو کر
میں قطبِ شمالی سے قطبِ جنوبی تلک،
طول و عرض البلد کی لکیروں کے مدمقابل کَسوں گا
میں باتوں کا پورا تناظر سمجھنے کی کوشش کروں گا
سو بہتر یہی ہے تجھے میں کسی دوسرے دن اکیلا ملوں گا
یہ کیسے عجب لوگ تیرے تقرب میں ہیں
ایسے لسان و بسیار گو، بھڑبھڑیوں کے آگے،
میں مورت بنا ایک عجمی دکھوں گا
کہ میں عورتوں اور مردوں کے کپڑوں کے نو سو چوالیس
جوتوں کےدوسوبیالیس، آرائیشِ مو کےپن سو چھیالیس
اور گاڑیوں کی کئی ایک نسلوں وغیرہ کےاسماء سے ناآشنا ہوں
میں آدم کی اولادِ ناخواندہ ہوں
سو ترے مقرب فرشتہ صفت دوستوں میں خجل خوار ہوں گا
تجھے میں کسی دوسرے دن اکیلا ملوں گا
ماخذ: نظموں کا در کُھلتا ہے
انتخاب: نعمان فاروق