میں گیا تھا اُس گلی میں کئی خواہشیں پہن کر – امجد اسلام امجد
میں گیا تھا اُس گلی میں کئی خواہشیں پہن کر
وہ جو تھیں بہت شناسا
اُنہی کھڑکیوں کی جانب
کسی رُخ کی روشنی سے نہ کوئی چراغ لرزا
نہ ہوا کی دستکوں سے کوئی پردہ سرسرایا
کسی خواب سے اُلجھ کر نہ تو چوڑیاں ہی چھنکیں
نہ کوئی ستارا چمکا نہ ہی پھول کوئی آیا
دلِ منتظر کی جانب
نہ اُٹھائی کوئی چلمن کسی دستِ پرُ حنا نے
کسی آنکھ میں سمٹ کر نہ ہی چاند مسکرایا
میں گیا تھا اُس گلی میں کئی خواہشیں پہن کر۔!!
ماخذ : فنون
سنِ اشاعت : ۱۹۹۱
مدیر: احمد ندیم قاسمی
Recommended Posts