فنِ کتاب نویسی: واشنگٹن ارونگ (ترجمہ: مولوی محمد یحییٰ)
نوٹ: بیسیویں صدی کے بڑے اردو نقادوں اور لکھاریوں سے اگر ان کی پسندیدہ کتب کے بارے میں پوچھا جائے تو ایک کتاب کا ذکر لازماً آئے گا اور وہ ہے معروف افسانہ نگار غلام عباس کی کتاب ’’الحمرا کے افسانے‘‘۔ جناب حسن عسکری کے مطابق انہوں نے اپنے بچپن میں اس کتاب کو کوئی پندرہ بیس مرتبہ پڑھا ہو گا ۔ صاحب طرز قلم کار محمد خالد اختر کے بقول ، اردو کے صاحب اسلوب ادیب شفیق الرحمن کو سب سے اچھی لگنے والی کتاب ، غلام عباس کی ’’الحمرا کے افسانے‘‘ تھی ۔شمس الرحمن فاروقی اور مستنصر حسین تارڑ بھی واشنگٹن ارونگ اور پھر غلام عباس کی کتاب کے گھائل ہیں ۔ مایہ ناز افسانہ نگار نیر مسعود کے مطابق ان کو اس کتاب سے زیادہ کسی دوسری کتاب نے مسحور نہیں کیا ہے ۔سلیم الرحمن صاحب کو مذکورہ افسانے آج بھی پر کشش لگتے ہیں ۔ الطاف فاطمہ کہتی ہیں کہ انہوں نے غلام عباس کی کتاب سے پہلے امریکی مصنف واشنگٹن ارونگ کو انگریزی میں پڑھا ۔ جی ہاں ، غلام عباس نے اٹھارویں صدی کے اخیر میں جنم لینے والے امریکی مصنف واشنگٹن ارونگ کی کتاب ’’Tales of the Alhamra‘‘ میں سے ہی چند منتخب کہانیوں کو1930ء کے لگ بھگ اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ اردو دان طبقہ غلام عباس کے اس ترجمہ کی ہی بدولت واشنگٹن ارونگ سے متعارف ہوا ۔ کہتے ہیں کہ شفیق الرحمن صاحب نے بھی اس انگریزی کتاب کی چند کہانیوں کا اردو ترجمہ کیا ۔ اس کتاب کا ایک ترجمہ معروف نقادوقار عظیم نے ’’قصص الحمرا‘‘ کے عنوان سے بھی کیا ہے ۔
تاہم غلام عباس کے مذکورہ ترجمہ سے دو برس قبل 1928ء میں جامعہ ملیہ پریس دہلی سے واشنگٹن ارونگ کے چند مضامین کا بامحاورہ ترجمہ شائع ہوا۔ فاضل مترجم جناب مولوی محمد یحییٰ صاحب تنہاؔ (بی اے ، ایل ایل بی ) نے ارونگ کی کتاب ’’The Sketch book of Geoffrey Crayon‘‘ سے چھ منتخب مضامین کو اردو زبان کے خوبصورت پیرائے میں ڈھالا ۔ زیرِ نظر تحریر ، مولوی محمد یحییٰ صاحب کے ترجمہ پر مشتمل ہے ۔ اصل انگریزی مضمون کا عنوان ( The Art of Book Making)ہے ۔
اگر سینی سیس (Synesius) کا یہ سخت ریمارک تسلیم کر لیا جائے کہ ’’مُردوں کے مضامین کا سِرقہ اُن کے کفن کھسوٹ لینے سے زیادہ مذموم فعل ہے‘‘، تو بہت سے مصنفین کا کیا حال ہو گا؟
مجھے کتابوں کی افراط پر اکثر تعجب ہوا کرتا تھا اور میں دل میں کہا کرتا تھا کہ وہ اشخاص جن کو خدائے تعالیٰ نے کتاب لکھنے کے لیے پیدا نہیں کیا تھا کس طرح مجلّد اور ضخیم کتابوں کے مصنّف بن جاتے ہیں ؟ مگر جس قدر آدمی سفرِ زندگی طے کرتا جاتا ہے اُسی قدر تعجب خیز اشیاء کا وجود اُس کی نظروں میں کم ہوتا جاتا ہے اور اُسے رفتہ رفتہ معلوم ہو جاتا ہے کہ نہایت تعجب خیز امر کی سیدھی سادی وجہ ہوا کرتی ہے ۔ مجھے اِس بڑے شہر (لندن ) جب کہ میں اِدھر اُدھر سیر کرتا پھر رہا تھا ایسا ہی اتفاق ہوا ؛ میں غلطی سے ایک مقام پر جا پہنچا جہاں فن ِ کتاب نویسی کے کچھ راز مجھ پر منکشف ہو گئے اور فوراً میری حیرت کا خاتمہ ہو گیا ۔
میں ایک موسم گرما میں برٹش میوزیم کے بڑے کمروں میں اُس خاموشی کے ساتھ جس سے ایک شخص گرمی کے د ن ایک میوزیم کے گرد اِدھر اُدھر پھر سکتا تھا ، ٹہل رہا تھا ۔ بعض اوقات اُن معدنیات کو جو شیشے کی الماریوں کے اندر بند تھیں جھک کر دیکھنے لگتا تھا، بعض اوقات قدیم مصری خط کوجو ممی پر کندہ تھا پڑھنے لگتا تھا ، اور بعض اوقات تقریباً اسی کامیابی کے ساتھ فرضی نتیجہ خیز تصاویر کو جو بلند چھتوں پر منقش تھیں ، سمجھنے کی کوشش کرنے لگتا تھا ۔ جب کہ میں اِس بے پروائی کے ساتھ اِدھر اُدھر تک رہا تھا ، میری توجہ ایک دور کے دروازے کی طرف منعطف ہو گئی جو کمروں کی قطار کے اُس سرے پر واقع تھا ۔ یہ دروازہ بند تھا لیکن کبھی کبھی کھلتا تھا اور کوئی نہ کوئی اجنبی مگر دلچسپ شخص، عموماً سیاہ لباس میں ملبوس ، کمروں میں ہوتا ہوا ، اردگرد کی چیزوں پر نظر ڈالے ہوئے بغیر ، آہستگی کے ساتھ داخل ہو جاتا تھا ۔ اس کیفیت میں کچھ رازِ سربستہ کی شان پائی جاتی تھی جس نے میری دوررس نظر اپنی طرف کھینچ لیا ۔ چنانچہ میں نے دل میں ٹھان لیا کہ میں ضرور اِس آبنائے میں داخل ہو کر اُن نامعلوم ممالک کا جو اُس طرف واقع ہیں ، پتہ لگاؤں گا ۔
دروازہ ہاتھ لگاتے ہی اُس آسانی کے ساتھ کھل گیا جس آسانی سے مسحور(طلسمی ) قلعوں کے دروازے باہمت اور بہادر شہزادوں کے لیے افسانوں میں کھل جایا کرتے ہیں ۔ میں نے اپنے آپ کو ایک وسیع کمرے میں پایا جس کے چاروں طرف پرانی کتابوں کی الماریاں رکھی ہوئی تھیں ۔ الماریوں کے اوپر اور ٹھیک کارنس کے نیچے قدیم مصنفوں کی بہت سی سیاہ رنگ کی تصویریں سجی ہوئی تھیں ، بیچ میں لمبی لمبی میزیں پڑی ہوئی تھیں اور لکھنے پڑھنے کے لیے علیحدہ میزیں بچھی ہوئی تھیں جن کے چاروں طرف کتب بین اشخاص جن کے چہرے کثرتِ مطالعہ سے زرد پڑ گئے تھے ، بیٹھے ہوئے تھے اور گرد سے اٹی ہوئی کتابوں کو غور سے جھک جھک کر دیکھتے جاتے تھے اور خاک آلودہ قلمی کتابوں کو تلاش کر رہے تھے اور اُن کے مضامین سے بے شمار نوٹس لے رہے تھے ۔ اِس پُراسرار کمرے میں چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی چھائی ہوئی تھی ، بجز اِس کے کہ کاغذ کے تختوں پر قلموں کی تیز رفتاری کی آواز سنائی دیتی تھی ، یا کبھی کبھی اِن بزرگوں میں سے کسی کی گہری سانس سے جب وہ اپنی نشست کو کسی پرانی کتاب کی اوراق گردانی کے لیے بدلتے تھے ، آواز پیدا ہو جاتی تھی ۔ ایسی گہری سانس علمی تحقیقات کے وقت بلاشبہ خلائے معدہ کی وجہ سے پیدا ہو جایا کرتی ہے ۔
کبھی کبھی اِن بزرگوں میں سے ایک بزرگ کاغذ کے پرزے پر کچھ لکھ دیتا تھا اور گھنٹی بجاتا تھا ، جس کی آواز پر ایک چپراسی حاضر ہوتا تھا اور کاغذ کو نہایت خاموشی کے ساتھ اٹھا کر آہستگی سے غائب ہو جاتا تھا اور فوراً ضخیم جلدوں سے لدا ہوا واپس آتا تھا جن پر دیگر صاحبان بھی بے حواس ہو کر اِس طرح گرتے تھے جس طرح دو تین روز کا فاقہ کش کھانے پر گرتا ہے ۔ مجھے اپنے اِس خیال میں ذرا بھی شک نہیں تھا کہ میں ساحروں کے مجمع میں آ پھنسا ہوں جو محض علوم کی تحصیل میں مشغول ہیں ۔ اِس نظارے نے مجھے الف لیلہ کے اُس پرانے قصے کو یاد دلا دیا جس میں ایک حکیم پہاڑ کے بیچ میں اپنے طلسمی کتب خانے میں رہا کرتا تھا اور جس کا دروازہ سال میں صرف ایک مرتبہ کھلتا تھا ، وہاں وہ جنوں کے ذریعے سے ہر قسم کے مخفی علوم کی کتابیں منگاتا تھا اور جب سال کے آخر میں ایک مرتبہ دروازہ کھلتا تھا تو وہ پوشیدہ علوم میں اس قدر ماہر ہو کر نکلتا تھا کہ انسان اُس کے اسرار سمجھنے سے قاصر رہتے تھے اور اُس کے حکم سے تمام مخلوقات میں سے ایک شے بھی سرتابی نہیں کر سکتی تھی ۔
چونکہ اب میری حیرت اور بھی بڑھ گئی تھی ، میں نے اُن ملازموں میں سے ایک کے کان میں کچھ کہا اور اُس سے دریافت کیا کہ اِس موجودہ نظارے کی حقیقت کیا ہے ؟ اُس کے چند الفاظ سے مجھ پر تمام واقعہ کا انکشاف ہو گیا ۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ پُراسرار اشخاص جن کو میں غلطی سے ساحر سمجھا ، مشہور مصنفین میں سے ہیں اور کتابیں تیار کرنے کے کام میں مشغول ہیں اور میں دراصل بڑے برٹش کتب خانہ کے پڑھنے کے کمرے میں بیٹھا ہوا ہوں ، جہاں بے انتہا کتابیں ہر زمانے اور ہر زبان کی موجود ہیں جن میں سے اکثر کا تو کوئی نام بھی نہیں جانتا اور اکثر شاذونادر پڑھی جاتی ہیں۔ قدیم علم و ادب کے علیحدہ اور پوشیدہ سرچشموں میں سے یہ بھی ایک منبع ہے جہاں موجودہ مصنف جاتے ہیں اور اُن میں سے قدیم زبان کے ڈول کھینچتے ہیں ، یا بالفاظِ دیگر ٹھیٹھ انگریزی (جو مخلوط نہیں ہے ) حاصل کرتے ہیں اور اپنے خیالات کے کم آب نالوں کو اُن سے اس قدر لبریز کرتے ہیں کہ وہ کناروں سے بھی اُبل پڑتے ہیں ۔
چونکہ اب مجھ پر رازِ سربستہ کا انکشاف ہو گیا تھا ، اِس لیے میں ایک کونے میں جا بیٹھا اور کتابیں تصنیف کرنے کی کارروائی کو غور سے دیکھنے لگا ۔ میری نظر ایک لاغر اور زردی مائل شخص پر جا پڑی جو نہایت کرم خوردہ اور موٹے حروفوں کی کتابوں کے سوا اور کسی کتاب کی تلاش ہی نہیں کرتا تھا ۔ وہ بظاہر کسی نہایت عالمانہ کتاب کی تیاری میں مصروف معلوم ہوتا تھا جس کو ہر شخص جو اِس بات کی خواہش رکھتا ہو کہ دوسرے لوگ اُسے قابل سمجھیں ، ضرور خریدے گا ۔ اور جو اُس کے کتب خانہ کی الماری کے ایک کتابوں سے بھرے ہوئے خانے میں رکھی رہے گی یا اُس کی میز پر کھلی رہے گی لیکن کبھی پڑھی نہیں جائے گی ۔ میں نے دیکھا کہ وہ کبھی کبھی ایک بسکٹ اپنی جیب میں سے نکال لیتا تھا اور اُس کو کھانے لگتا تھا ۔ معلوم نہیں کہ یہ اُس کا دوپہر کا کھانا تھا یا وہ اِس طریق سے جوع البقر کی تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو خشک کتابوں کے دیکھنے سے پیدا ہو گئی تھی ۔ میں اِس امر کی تحقیق اپنے سے زیادہ متجسس طالب علموں کے لیے چھوڑتا ہوں ۔
اُن لوگوں میں ایک چست و چالاک اور کوتاہ قامت آدمی بھی نظر پڑا جو بھڑکیلے کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھا اور جس کے چہرہ سے مترشح ہوتا تھا کہ وہ گپ شپ اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کا زیادہ شوقین ہے ۔ اُس میں تمام باتیں ایک ایسے مصنف کی پائی جاتی تھیں جو کتب فروشوں کی فرمائش پر کتابیں لکھا کرتے ہیں اور اپنی جگر کاوی کو اونے پونے فروخت کر دیا کرتے ہیں ۔ اُس کو غور سے دیکھنے کے بعد میں نے یہ رائے قائم کی کہ وہ محنت سے کام کرتا ہے اور مختلف کتابیں لکھ چکا ہے جو تجارت کے اصول کے لحاظ سے تیار کی گئی تھیں اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئی تھیں ۔ چنانچہ میری دلی تمنّا تھی کہ میں اِس بات کا پتہ لگاؤں کہ یہ شخص کس طرح کتابیں تصنیف کرتا ہے ۔ وہ دوسروں کی نسبت زیادہ کام کرنے والا معلوم ہوتا تھا اور اُس میں اوروں سے زیادہ چستی پائی جاتی تھی ، مختلف کتابوں کو پڑھتا تھا ، قلمی کتابوں کے اوراق اُلٹا پلٹتا تھا ، ایک لقمہ اِس کتاب سے اور دوسرا لقمہ دوسری کتاب سے لیتا تھا ۔ سطر بہ سطر، ضرب المثل بہ ضرب المثل ، تھوڑا یہاں سے ، تھوڑا وہاں سے نقل کرتا جاتا تھا ۔ اُس کتاب کے مضامین اس قدر مختلف تھے جتنے (شیکسپیئر کے ڈرامے ) میکبتھ میں اُن جادوگرنیوں کی دیگ میں مختلف جانوروں کے اجزائے بدنی تھے۔ کسی کا انگوٹھا ، کسی کی انگلی ، مینڈک کے پیر کی اُنگلی ، ایک کیڑے کا ڈنک ، جس میں اپنی گپ شپ بھی مِلی ہوئی تھی جیسے لنگور کے خون سے وہ تمام مرکب غذا ذائقہ دار بنائی جاتی تھی ۔
بہرحال میں نے خیال کیا ، ممکن ہے اِس سرقہ کی عادت سے جو مصنفوں میں پائی جاتی ہے بارآور نتائج مرتب ہوتے ہوں ۔ ممکن ہے اِس طریقے کو قادرِ مطلق نے کتابوں کے ناگزیر تنزل کے باوجود ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک علم و حکمت کے بیجوں کو قائم رکھنے کا ذریعہ قرار دیا ہو ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قدرت نے عقل مندی کے ساتھ گو کسی قدر بے پروائی سے ایک ملک سے دوسرے ملک تک بیجوں کے پہنچنے کا انتظام بعض پرندوں کی شکم پروری کے ذریعے کیا ہے ۔ کیونکہ وہ جانور یا پرند جو درحقیقت مضعۂ گوشت سے کچھ زیادہ نہیں ہیں اور بظاہر باغوں یا غلّہ کے کھیتوں کے ناجائز لٹیرے معلوم ہوتے ہیں ، دراصل فطرت کے حمال ہیں تاکہ اُس کی رحمتوں کو پھیلائیں اور اُن کو دیرپا بنائیں ۔ اسی طرح متقدمین کے نازک خیالات اور اُن کی خوبیاں یہ لٹیرے مصنف اپنی تصنیفات کے بازوؤں میں لے اڑتے ہیں اور وقت کے نہایت دراز خطے میں اُن کو گرا دیتے ہیں تاکہ وہ بڑھیں اور پھولیں اور بارآور ہوں ۔ اُن کی بہت سی کتابیں آواگون کے پھیر میں آ جاتی ہیں اور نئی شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔ جو پہلے ایک مستند تاریخ تھی ، وہ ایک فسانے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے ۔ ایک پرانا قصہ ، حال کے ناٹک کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور ایک خشک اور متین فلسفہ کا رسالہ عمدہ اور دلچسپ مضامین کے سلسلے کا ذخیرہ بن جاتا ہے ۔ امریکہ کے جنگلوں کی صفائی کے وقت بھی اس بات کا ثبوت ملا ہے کہ جب شاندار صنوبر کے درختوں کا جنگل خاکستر کر دیا جاتا ہے تو اُس کی جگہ بہت سے چھوٹے چھوٹے شاہ بلوط کے درخت پیدا ہو جاتے ہیں اور ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ایک درخت کی بریدہ شاخ جو زمین پر پڑی ہوئی ہے ، مٹی میں مل کر مٹی ہو گئی ہے بلکہ اُس سے بے انتہا سانپ کی چھتریاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔
پس ہم کو متقدمین کے زوال اور اُن کی یک قلم فراموشی پر افسوس نہیں کرنا چاہیے ۔ وہ اُس زبردست قانون ِ قدرت کی متابعت کرتے ہیں جو صاف الفاظ میں یہ ہے کہ تمام مادہ کی دنیاوی شکلیں ایک زمانۂ خاص تک قائم رہیں گی لیکن وہ اِس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ اُن کے عناصر کبھی فنا نہ ہوں گے ۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل ، حیوانی ہو یا نباتی ، گزرتی جاتی ہے مگر یہ مضبوط اصول آئندہ نسلوں کو پہنچتا رہتا ہے کہ اُن کی نسلیں پھلیں اور پھولیں گی ۔ پس اسی طرح مصنف کے بعد مصنف پیدا ہوتا رہے گا اور جب اُس پر بڑھاپا آ جائے گا اور بہت سی اولاد پیدا کر چکے گا تو وہ قبر میں جا کر اپنے بزرگوں کے ساتھ سو رہے گا یعنی اُن مصنفوں کے ساتھ جو اُس سے پیشتر گزر چکے ہیں اور جن کے خیالات کا سِرقہ اُس نے کیا تھا ۔
جب کہ میرا دماغ اِن پریشان خیالات سے چکرا رہا تھا ، میں نے اپنے سر کو پرانی کتابوں سے کمر لگا کر آرام پہنچایا ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اِن کتابوں کے خواب آور اثر کی وجہ سے یا کمرے کی خاموشی کی وجہ سے یا اُس تکان سے جو بہت پھرنے کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے یا اُس خراب عادت کے سبب سے یعنی بلالحاظ موقع و وقت سونے کی عادت کے باعث جس سے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے ، میری آنکھ جھپک گئی ۔ تاہم قوت متخیلہ برابر کام کرتی رہی اور بالکل وہی منظر پھر دماغ کی آنکھوں کے سامنے آ موجود ہوا ۔ البتہ کہیں کہیں تھوڑی سی تبدیلی واقع ہو گئی ۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑا کمرا قدیم مصنفوں کی تصویروں سے ویسا ہی آراستہ تھا لیکن تعداد میں کچھ زیادتی ہو گئی تھی ۔ لمبی میزوں کا نشان تک نہیں تھا اور عقل مند ساحروں کی بجائے مجھے ذلیل اشخاص پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے دکھائی دیے ، جیسے گزری میں اُترے ہوئے کپڑوں کے دکان دار کے پاس پھٹے کپڑے پہنے ہوئے لوگوں کی صورت میں خریدار نظر آیا کرتے ہیں ۔ جس کتاب کو وہ ہاتھ میں لیتے تھے ، مجھے معلوم ہوتا تھا (جیسا کہ اکثر خواب میں ناممکن باتیں بھی عمل میں آ جاتی ہیں ) کہ وہ کتاب غیرملکی یا قدیم فیشن کے لباس میں بدلتی جاتی ہے اور اُس سے وہ اپنے آپ کو ملبوس کرتے جاتے ہیں ۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک شخص ایک خاص جوڑے کو نہیں پہنتا تھا بلکہ ایک کی آستین ، دوسرے کی ٹوپی ، تیسرے کے دامن ، الغرض اسی طرح وہ اشخاص اپنے آپ کو مختلف کپڑوں سے مزین کر رہے تھے اور اُن کے پھٹے پرانے چیتھڑے بھی اس عمدہ اور مستعار لباس میں سے دکھائی دیتے تھے ۔
اِن اشخاص میں ایک شاندار ، سُرخ سپید ، اور موٹا تازہ پادری بھی تھا جس کو میں نے دیکھا کہ وہ ترچھی نظر سے بعض گردآلود مناظرہ کرنے والوں کی تصویریں عینک سے دیکھ رہا تھا ۔ اُس نے جلد پرانے مقدس پادریوں میں سے ایک کی بہت سی پوشاک کو قبضہ میں کر لینے کی ترکیب کی اور دوسرے پادری کی بھوری داڑھی چُرا کر اپنے آپ کو نہایت عقل مند معلوم کرانے کی کوشش کی مگر اُس کے چہرے پر جو معمولی بناوٹ کی مسکراہٹ نمایاں تھی، اُس نے اُس کی عقل مندی کے تمام فریب کو ظاہر کر دیا ۔ ایک پژمردہ شکل کا آدمی کلابتوں (سونے چاندی کے تار یا دھاگے) سے جو ملکہ الزبتھ کے زمانہ کی خلعتوں سے نکال کر جمع کیا تھا ، ایک بہت پھٹے پرانے کپڑے پر کارِ چوبی کا کام بنا رہا تھا ۔ دوسرے صاحب نے اپنے آپ کو ایک مطّلا قلمی کتاب سے تزک و احتشام کے ساتھ آراستہ کیا تھا اور اپنے سینے پر ایک پھول لگایا تھا جس کو انہوں نے ڈینٹی ڈیوس (Daintie Devices) کی بہشت سے اُڑا لیا تھا اور بانکپن کے ساتھ سر فلپ سڈنی (Sir Philip Sidney)کی ٹوپی کو سر پر ایک طرف رکھے ہوئے اور ایک شاندار صورت بنائے ہوئے جس پر کچھ شرافت اور کچھ گنوار پن برستا تھا ، اکڑتے ہوئے پھر رہے تھے ۔ تیسرے صاحب جو کوتاہ قامت تھے ، فلسفہ کی پھٹی پرانی کتابوں سے جو دقائق اور غوامض سے پُر تھیں ، بڑی جرات کے ساتھ تکیہ لگائے بیٹھے تھے جس سے اُس کی روکار شاندار بن گئی تھی لیکن عقب پر نہایت بوسیدہ لباس تھا ۔ میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اُس نے اپنے چھوٹے سے کپڑوں میں کسی لاطینی مصنف کے پیوند لگا رکھے تھے ۔
یہ سچ ہے کہ اُن میں بعض شرفاء اچھا لباس بھی پہنے ہوئے تھے جنھوں نے صرف جواہرات مستعار لے رکھے تھے اور اگرچہ یہ اُن کے زیورات میں خوب چمکتے دمکتے تھے لیکن اُن کے زیور کی اصلی چمک کو ماند نہیں کرتے تھے ۔ بعض صرف پرانے مصنفین کے لباس کو اِس خیال سے پیش ِ نظر رکھے ہوئے تھے کہ اُن کے مذاق کے اصول کی نقل اڑائیں اور اُن کی وضع کی روح اُن میں آ جائے ۔ مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کثرت سے وہ لوگ تھے جو ازسرتاپا دوسروں کے لباس کو اُس طریقہ سے پہنے ہوئے تھے جس کو میں بیان کر چکا ہوں ۔ تاہم میں ایک طباع شخص کے حالات بیان کرنے میں تامل نہ کروں گا جو خاکستری برجِس اور گیٹس میں تھا اور محراب دار ٹوپ لگائے ہوئے تھا جس کی طبیعت کا میلان گاؤں کے قدرتی سین کی طرف معلوم ہوتا تھا مگر جس کی سیروتفریح ، پِرم روزہِل تک محدود تھی اور ریجنٹس پارک ( Regent’s Park) کی تنہائی اور خاموشی تک اُس کی رسائی تھی ۔ وہ اپنے آپ کو اُن ہاروں اور رنگین فیتوں سے (جن کو اُس نے اُن تمام پرانے شاعروں سے جنھوں نے گاؤں کی سینری (scenery) لکھی ہے حاصل کیا تھا ) آراستہ کیے ہوئے تھا اور اپنے سر کو ایک طرف جھکائے ہوئے ، اپنے خیال میں محو، شاید کچھ سبز کشت زاروں کا خیال کر رہا تھا ۔ مگر وہ بڑا شخص جس نے میری توجہ کو سب سے زیادہ اپنی طرف مبذول کیا ، ایک بڈھا کاروباری اور دنیادار شخص تھا جو پادریوں کی پوشاک پہنے ہوئے تھا اور جس کا سر بہت بڑا اور گول تھا لیکن بال ندارد تھے ۔ وہ کمرے میں زور زور سے سانس لیتا ہوا اور سگریٹ کا دھواں اڑاتا ہوا، مجمع کو چیرتا پھاڑتا ، اپنی مدد آپ کرنے والی نظر کے ساتھ ایک موٹی یونانی کتاب کو ہاتھ میں لے کر، سر کے ایک طرف جس پر ایک خوفناک مصنوعی بالوں کی پیچ دار ٹوپی رکھی ہوئی تھی ، سیٹی بجاتا ہوا شان کے ساتھ نکل گیا ۔
اِس ادبی کمرے میں ’’چور، چور‘‘ کی آواز ہر طرف سے کانوں میں آنے لگی ۔ میں نے دیکھا کہ وہ تصاویر جو چاروں طرف دیواروں پر لٹک رہی تھیں ، زندہ ہو گئیں ۔ قدیم مصنفوں نے تصویر کے کپڑے سے پہلے سر نکالا اور پھر بازو، اور کچھ دیر تک تعجب کی نظروں سے اپنے نیچے کے مختلف رنگوں کے کپڑے پہنے ہوئے آدمیوں کو دیکھا اور پھر غیض و غضب کے ساتھ اپنی محنت سے کمائی ہوئی ملکیت پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے نیچے اُتر پڑے ۔ شوروغل اور پکڑ دھکڑ کی کیفیت جو اِس کے بعد پیش آئی ، احاطۂ بیان سے باہر ہے ۔ بدقسمت مجرموں نے مالِ غنیمت کے ساتھ فرار ہونے کی کوشش کی ۔ ایک طرف آدھے درجن پرانے فقراء ، ایک موجودہ پروفیسر کے کپڑے اتار رہے تھے ، دوسری طرف موجودہ ڈرامانویسوں کی قطار میں عجب تباہی اور لوٹ مار کے آثار ہویدا تھے ۔ بومینٹ اور فلیچر (Beaumont and Fletcher) پہلو بہ پہلو ،کیسٹر اور پالکس (Castor and Pallux) کی طرح میدان میں حملہ کرتے ہوئے پھر رہے تھے اور مضبوط و قوی بین جانسن (Ben Jonson) نے فلانڈرس (Flanders) کی فوج کے ایک رضاکار سے زیادہ گُل کھلائے ۔ وہ چست و چالاک اور کوتاہ قامت شخص جس نے اپنے آپ کو دلِق مرقع سے آراستہ کر رکھا اور جس کا ذکر پہلے کہیں ہو چکا ہے کہ وہ مختلف چیزوں کو جمع کرتا پھرتا تھا ، اُس کے چاروں طرف اس قدر دعوے دار جمع تھے جس قدر پیٹروکلس کی لاش کے گرد جمع ہو گئے تھے۔ میں نے افسوس کے ساتھ بہت سے ایسے لوگوں کی حالت کو دیکھا جن کی عزت میں دل سے کرتا تھا اور جن کی قابلیت کا سکہ مجھ پر بیٹھا ہوا تھا کہ ذرا سا کپڑا چرانے کے لیے مجبور ہو گئے تاکہ اپنے برہنہ جسم کو ڈھانپ لیں ۔ اتفاق سے اُسی وقت میری نظر اُس کاروباری بڈھے پر جا پڑی جو یونانی اون کی ٹوپی پہنے ہوئے تھا اور تیزی کے ساتھ وحشت زدہ حالت میں بھاگ رہا تھا اور نصف کوڑی مصنف اُس کے پیچھے چلاتے ہوئے جا رہے تھے ۔ وہ اُس کے قریب جا پہنچے اور ذرا سی دیر میں اُس کی اُون کی ٹوپی غائب ہو گی ۔ ہر منٹ میں اُس کے کپڑوں کا کوئی نہ کوئی ٹکڑا اُس سے چھین لیا جاتا تھا ۔ یہاں تک کہ چند لمحوں میں وہ اپنی شان و شوکت کے درجے سے گِر کر وہی چھوٹا سا گنجا آدمی رہ گیا اور کچھ چیتھڑے جو لوٹ کھسوٹ سے بچ رہے تھے ، انہیں لے کر غائب ہو گیا ۔
اس علامہ تھیبان (Theban) کی افسوس ناک حالت میں مسخرا پن کا ایسا عنصر تھا جس نے مجھے غیرمعمولی طور پر قہقہہ لگانے کے لیے مجبور کیا ۔ میرا ہنسنا تھا کہ اِس تمام خیالی سین کا خاتمہ ہو گیا ۔ شوروغل اور جھگڑے کا پتہ نہ رہا ۔ کمرے میں پھر وہی تمام خاموشی پھیلی ہوئی نظر آئی ۔ قدیم مصنف پھر تصویروں کے چوکھٹوں میں واپس چلے گئے جو تاریکی میں متانت کے ساتھ دیواروں کے گرد لٹکے ہوئے تھے ۔ قصہ مختصر ، میں نے اپنے آپ کو ایک کونے میں بالکل جاگتا ہوا پایا اور دیکھا کہ کتاب کے کیڑوں کی تمام جماعت تعجب کے ساتھ مجھے دیکھ رہی ہے ۔ میرے خواب میں سے کسی واقعہ کی اصلیت کا پتہ نہیں چلتا تھا ۔ البتہ میری ہنسی وقوع میں آئی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اُس متبرک اور قابل احترام جگہ میں اُس سے پہلے ایسی آواز کبھی نہیں سنی گئی ہو گی ۔ بہرحال میری ہنسی اُن عقل مندوں کے کانوں میں اس قدر ناگوار گزری کہ سب کی پیشانی پر بل پڑ گئے ۔
لہذا لائبریرین صاحب میری طرف بڑھے اور مجھ سے داخلہ کا کارڈ طلب کیا ۔ پہلے تو میں اُن کا مطلب نہ سمجھا مگر فوراً مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ کتب خانہ ایک قسم کا محفوظ ادبی مقام ہے ؛ جیسے انگلستان میں شکار کے میدان ہوتے ہیں جن میں کوئی شخص مالک کی اجازت کے بغیر شکار نہیں کھیل سکتا۔ الغرض میں ایک چور کی طرح مجرم کھڑا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ کسی طرح جلد یہاں سے نکلوں کیونکہ مجھے خوف تھا کہ تمام مصنف کہیں بھیڑیوں کے غول کی طرح مجھ پر حملہ نہ کر بیٹھیں ۔