دسمبر کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟ – ذوالقرنین سرور
درخواست برائے تشریح:
ہمارے حال پر رویا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر
گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر
بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر
وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر
یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر
جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
مری تنہائی اور میرا دسمبر
دراصل میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ دسمبر کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟؟؟؟
تشریح:
ہمارے حال پر رویا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر
شاعر دسمبر کی اوس کو بھی اغیار کی طعنہ زنی سمجھ رہا ہے۔ کتابی باتوں نے شاعر کا دماغ اتنا خراب کر دیا ہے کہ وہ یہ بھی بھول بیٹھا ہے کہ ساون دسمبر میں نہیں آتا۔ اصل میں شاعر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے انکی کوئی وجہ تلاش کرنے کے چکر میں ہے۔ اب اور کوئی نہ ملا تو یہ الزام اس نے مہینے کے سر منڈھ دیا۔
گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر
کوئی اللہ کا بندہ پوچھے کہ جہاں سارا سال گزرا وہاں ان اکتیس دنوں کو کیا بیماری ہے۔ مگر نہ جی۔ اصل میں شاعر نے یہاں استعارے سے کام لیا ہے۔ کہ اپنے گھر والوں کے سامنے شادی کا ذکر کس طرح کرے۔ سو اس نے دسمبر کا کاندھا استعمال کرنے میں رتی بھر رعایت نہیں کی۔
بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر
اسی موضوع کو شاعر نے جاری رکھا ہے۔ جب پہلے شعر پر کوئی ردعمل نہ ہوا اور گھر والوں کی طرف سے کسی قسم کی پذیرائی حاصل نہ ہوئی۔ تو شاعر کا لہجہ ذرا بیباک ہو گیا۔ اور اس نے کھلے الفاظ میں وصل کی تمنا ظاہر کرنی شروع کر دی۔ شاعر کو اخلاقی سدھار کی اشد ضرورت ہے۔
وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر
یہاں پر شاعر نے اپنی نام نہاد محبت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اگر اسے محبوب سے الفت ہوتی تو اسے وقت اور دن یاد ہونا چاہئے تھا۔ مگر شاعر کو تو عشرہ بھی یاد نہیں۔ کہ شروع تھا درمیان یا پھر آخر۔۔۔ ۔ اس کو صرف مہینہ یاد ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محبوب شاعر کی نسیانی سے تنگ تھا۔ اوریہی وجہ بنی اس کے چھوڑ کر جانے کی۔ شعر کے الفاظ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ شاعر کو بھی کوئی دکھ نہیں ہے۔
یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر
اب شاعر نے یکدم پلٹی کھائی ہے۔ اور محبوب کے ذکر سے سیدھا غم روزگار پر آ پہنچا ہے۔ شاعر کسی ہوٹل میں پیاز کاٹنے کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ اور انکی وجہ سے جو آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے اس کو بھی دسمبر کے سر تھوپ دیا۔ حالانکہ دسمبر اک خوشیوں بھرا مہینہ ہے۔ اور خاص طور پر مغربی ممالک کے لیئے خوشیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ مگر اسے شاعر کی مغرب بیزاری کہیں یا پھر دسمبر سے چڑ کے اس نے پورے دسمبر کو ہی نوحہ کناں قرار دے دیا ہے۔
جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
مری تنہائی اور میرا دسمبر
شاعر اک فضول خرچ آدمی ہے یا پھر بے روزگار۔ کہ اس کے پاس تنہائی کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں۔ اوپر سے اس نے اس کڑکی کے دور میں جب کچھ اور ہاتھ آتا نہ دیکھا تو دسمبر کو ہی اپنی ملکیت قرار دے دیا۔ دسمبر نے یقینا اس دعوے پر اچھے بھلے ناشائستہ لہجے میں اظہار خیال کیا ہوگا۔ واللہ اعلم
اک اور وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ شاعر اک بدزبان آدمی تھا۔ اور اسی وجہ سے کوئی بھی اس سے ملنا یا بات کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ اب تنہائی میں بیٹھا اکیلے میں باتیں کرتے ہوئے دسمبر کو کہنے لگا کہ یار تم تو میرے ہو۔ سنا ہے دسمبر نے اسکا دل رکھنے کو حامی بھر لی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دسمبر نے صاف انکار کر دیا تھا۔ خیر ہم اندر کی تفصیلات میں نہیں جاتے۔
’’دراصل میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ دسمبر کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟؟؟؟‘‘
دسمبر کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ شاعر کے ساتھ ہے جس نے دسمبر کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اور آخر میں اسے اک تھپکی بھی دے کہ
’’تو تو یار ہے اپنا۔ فکر مت کر۔۔۔‘‘
غیر تصدیقی ذرائع سے یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ دسمبر اس کے خلاف احتجاج کرے گا۔ اور قانونی چارہ جوئی کے لیئے بھی کوئی دعوی دائر کرے گا۔
Recommended Posts