ہماری ہم نفسی کو بھی کیا دوام ہوا – احمد جاوید
ہماری ہم نفسی کو بھی کیا دوام ہوا
وہ ابرِسرخ تو میں نخلِ انتقام ہوا
یہیں سے میرے عدد کا خمیر اٹھا تھا
زمین دیکھ کے میں تیغِ بے نیام ہوا
رہے نہ گھر میں کبھی اور گھر سے باہر بھی
ہمیشہ خانۂ زنجیر میں قیام ہوا
عجب سفر تھا عجب تر مسافرت میری
زمیں شروع ہوئی اور میں تمام ہوا
خبر نہیں ہے مِرے بادشاہ کو شاید
ہزار مرتبہ آزاد یہ غلام ہوا
وہ کاہلی ہے کہ دل کی طرف سے غافل ہیں
خود اپنے گھر کا بھی ہم سے نہ انتظام ہوا
ہوئی ہے ختم درو بام کی کم اسبابی
میّسر آج وہ سامانِ انہدام ہوا
ماخذ :روایت
سنِ اشاعت : ۱۹۸۳
مرتب: محمدسہیل عمر
Recommended Posts