اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفِیل سے – احمد جاوید
اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفِیل سے
لنگر سے روٹی لیتے ہیں پانی سبِیل سے
دنیا کا کوئی داغ مرِے دل کو کیا لگے
مانگا نہ اک درم بھی کبھی اس بخیل سے
کیا بوریا نشیں کو ہوس تاج و تخت کی
کیا خاک آشنا کو غرض اسپ و فیِل سے
دل کی طرف سے ہم کبھی غافل نہیں رہے
کرتے ہیں پاسبانیِ شہر اس فصیِل سے
گہوارۂ سفر میں کھُلی ہے ہماری آنکھ
تعمیر اپنے گھر کی ہوئی سنگِ میل سے
اک شخص بادشاہ تو اک شخص ہے وزیر
گویا نہیں ہیں دونوں ہماری قبیِل سے
دنیا مِرے پڑوس میں آباد ہے مگر
میری دُعا سلام نہیں اس ذلیِل سے
جاویدؔ ایک غم کے سوا دل میں ہے بھی کیا
ہم گھر چلا رہے ہیں متاعِ قلیل سے
ماخذ :روایت
سنِ اشاعت : ۱۹۸۳
مرتب: محمدسہیل عمر