عہدِنوَ کا اس سے بڑھ کر سانحہ کوئی نہیں – سلیم کوثر
عہدِنوَ کا اس سے بڑھ کر سانحہ کوئی نہیں
سب کی آنکھیں جاگتی ہیں بولتا کوئی نہیں
رات بھر سڑکوں پہ اب تاریکیاں چنتےپھرو
سو گۓ سب لوگ دروازہ کھُلا کوئی نہیں
تُوکہاں لایا ہے مجھ کو ذات کے اندھے سفر
اپنی جانب لوَٹنے کا راستہ کوئی نہیں
شہرِ دِل میں جم گئی آوارہ سناّٹوں کی گرد
ایک مدّت سے یہاں آیا مگرکوئی نہیں
آلبوں کو سونپ دیں رُوح وبدن کے ذائقے
اِن بدلتے موسموں کا آسرا کوئی نہیں
ہم سفر سے لوٹ کے آۓ تو یہ عُقدہ کھُلا
اپنی بستی میں ہمیں پہچانتا کوئی نہیں
صرف صورت آشنا کچھ لوگ باقی ہیں سلیمؔ
ورنہ گھر والوں سے اپنا واسطہ کوئی نہیں
ماخذ: اوراق
سنِ اشاعت: ۱۹۷۶
مدیر: وزیرآغا