صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں – امجد اسلام امجد
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آ جاۓ تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
انسانوں کے روپ میں جس دم ساۓ بھٹکیں سڑکوں پر
خوابوں سے دِل،چہروں سے آئینے ڈرنے لگتے ہیں
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے،جیتے جاگتے لوگوں کو
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں
عشق کی اپنی ہی رسمیں ہیں،دوست کی خاطر،ہاتھوں میں
جیتنے والے پتےّ بھی ہوں، پھر بھی ہرنے لگتے ہیں
دیکھے ہوۓ وہ سارے منظر نۓنۓ دکھلائی دیں
ڈھلتی عمر کی سیڑھی سے جب لوگ اُترنے لگتے ہیں
بیداری آسان نہیں ہے آنکھیں کھلتے ہی امجؔد
قدم قدم ہم سپنوں کے جرُمانے بھرنے لگتے ہیں
ماخذ : فنون
سنِ اشاعت : ۲۰۱۵
مدیر: نیّر حیات قاسمی