خیالِ ذہن شکن سے زبان بھّرا جاۓ – محب عارفی
خیالِ ذہن شکن سے زبان بھّرا جاۓ
یہ ہو تو ہاتھ مرے کوئی شعرِ تر آ جاۓ
میں اپنے آپ سے محروم ہو کے رہ جاؤں
جو زندہ رہنے کا مُجھ کو یہاں ہنر آ جاۓ
ہمارے مٹنے سے دُنیا ہوئی ہے ایسی نہاں
کہ جیسے بیج سے باہر کوئی شجر آ جاۓ
بنائی میں نے جو بےصورتی کے پتّھر سے
میں کیا کروں اُسی مورت پہ دل اگر آ جاۓ
چمن تمام توآہٹ پہ اُس کی جھوم اُٹھا
یہاں یہ خبط، وہ سیلِ ہَوا نظر آ جاۓ
بھنور مُصر ہے کہ آغوشِ تنگ میں دریا
تمام وسعتِ نخوت سمیٹ کر آ جاۓ
کشش بھی اس کی غضب،رعبِ حسن بھی ایسا
کہ سامنا ہی نہ کر پاؤں، وہ اگر آ جاۓ
اَب آرزو ہے کہ ہر آرزو سے باز آ جاؤں
یہ آرزو بھی تو ایسی نہیں کہ بر آ جاۓ
رہو گے پھر بھی محبؔ سطحِ بحر ہی سے دو چار
اگر تمہارے لۓ تہہ بھی سطح پر آ جاۓ
ماخذ : فنون
سنِ اشاعت : ۱۹۹۱
مدیر: احمد ندیم قاسمی