خلاصہ یہ مرے حالات کا ہے – سیدّ ضمیر جعفری
خلاصہ یہ مرے حالات کا ہے
کہ اپنا سب سفر ہی رات کا ہے
اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے
جو میری والدہ کے ہاتھ کا ہے
انا کیا۔ عجز کو گرداب سمجھو!
بڑا گہرا سمندر ذات کا ہے
خدا اشعارِ رسمی سے بچاۓ
یہ قتلِ عام سچّی بات کا ہے
تپش کتنی ہے ماں کے آنسوؤں میں
یہ پانی کون سی برسات کا ہے
مجھے بہتر ہے کچی قبر اپنی
کسی گنبد سے، جو خیرات کا ہے
ماخذ : فنون
سنِ اشاعت : ۱۹۹۱
مدیر: احمد ندیم قاسمی
Recommended Posts