جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا – علاّمہ طالب جوہری
جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا
کنڈلی مار کے بیٹھا سانپ خزانے کا
ہم بھی زخم طلب تھے اپنی فطرت میں
وہ بھی کچھ سچّا تھا اپنے نشانے کا
راہب اپنی ذات میں شہر آباد کریں
دیر کے باہر پہرہ ہے ویرانے کا
وقت کی قینچی اُس کے پروں کو کاٹ گئی
شمع سے رشتہ ٹوٹ گیا پروانے کا
بات کہی اور کہہ کر خود ہی کاٹ بھی دی
یہ بھی اک پیرایہ تھا سمجھانے کا
صبح سویرے شبنم چاٹنے والے پھُول!
دیکھ لیا خمیازہ پیاس بُجھانے کا
بنجر مٹی پر بھی برس،اے ابرِ کرم
خاک کا ہر ذرہ مقروض ہے دانے کا
طالبؔ اس کو پانا تو دشوار نہ تھا
اندیشہ تھا خود اپنے کھو جانے کا
ماخذ : فنون
سنِ اشاعت : ۱۹۹۱
مدیر: احمد ندیم قاسمی