واپسی: محمد عمر میمن (مرتب: عاصم رضا)
نوٹ: یہ افسانہ محمد عمر میمن مرحوم کی کتاب ’تاریک گلی‘ (ناشر: سنگِ میل) سے لیا گیا ہے اور انکے خاندان کی اجازت سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ
Theology is part of the traditions, is part of this world. Faith lies beyond theology, in the hearts of men. Truth lies beyond faith, in the heart of God (W. C. Smith: The Meaning and End of Religion)
گذشتہ 375 دن کی نم ہولناکی کے آثار پچکے ہوئے مینڈک کی طرح وادی میں پڑے تھے ۔ ریحان کے پودے — جن کی ساری تروتازگی اور عمودی زندگی کو شدّتِ آب نے ڈس لیا تھا — بے چارگی سے گارا گارا زمین پر بچھے تھے : کالے ، مرگیا(یا ہرگیا) ، پٹ سنی ، ریش ریش ۔ اپنے میں سمائے جاندار، کیا چوپائے ، پرند، کیا پھول ، پتّی ، درخت – پانی سب کو پاٹتا ہوا زمین میں اُتر گیا تھا ۔
ہمیں گمان بھی نہ تھا کہ اپنی تباہ کاری میں طوفان چل کر اِتنی دور نکل آئے گا ۔ میں نے اُجڑے ہوئے منظر پر ایک وحشت زدہ نظر ڈالی ۔ میرے قدم ناگاہ ٹھہر گئے ، اور زیتون کی خشک ٹہنی میرے ہاتھ سے پھسل کر گر پڑی ۔ میں جھکا، ٹہنی کو اُٹھایا ، اور بجھے ہوئے سرے کو توڑ کر علیحدہ کر دیا ۔ میں آگ کو بمشکل بچا پایا ۔
میں مڑا اور پیچھےنظر ڈالی ۔ تاحدِّ نظر چار قدموں کے نشان برابر پیچھے کی طرف رواں ، نمی کے مارے منظر میں کہیں دور جا کر پراسرار طور پر گم ہو رہے تھے ۔ پہلی بار، لمحہ بھر کے لیے ، میرا دل شک کی اوّلین یورش سے جھک گیا ۔ پھر میں نے جھرجھری لی ، خود کو سیدھا کیا ، اور زمین پر اُن کی توانا بدی ، ستم، اور اندھے پن کا تصور کیا ۔ شک کی وہ اوّلین لہر کُہر کی طرح چھٹ گئی ، لیکن کُہر چھٹ جانے کے بعد والی نمی اب بھی میرے دل سے چمٹی ہوئی تھی ۔
’’ ۔۔۔ تیرا شکر!‘‘ میرا ساتھی بڑبڑا رہا تھا ۔ پھر اُس نے مجھ سے کہا: ’’ مچھلیوں کی تازہ کھاد پڑی یہ سیاہ زمین دیکھ رہے ہو ، گندم کی آنے والی فصل کا جوبن اپنی مثال آپ ہو گا ‘‘ ۔
میں اُس کی آواز کی گہری ممنونیت اور آنے والی گندم کی بھرپور بالیوں سے دور اُن لاتعداد کھیتیوں کے انجام پر کانپ گیا جو 375 دن کے فاصلوں میں کہیں تباہ ہو چکی تھیں ۔
رباب کی آواز کہیں اوپر سے آ رہی تھی ۔ مجھے محسوس ہوا: انگلیوں کی مضراب کے نیچے خود میری ہی نبضیں ہوں ۔
نیلاہٹ میرے دل میں سمٹ آئی ۔ گندم کی بالوں نے کیا گناہ کیا تھا؟ اُنھیں بدی کے ہاتھوں نے جنم دیا تھا ۔ بدی کے ہاتھوں کو کس نے جنم دیا تھا؟ — میں تھک گیا ۔
جب ہم آگ لے کر چوٹی پر پہنچے تو بوڑھا ایک چٹان کے پاس بیٹھا نظر آیا ۔ اِس مدّت میں اُس کے بال برف کی طرح سفید پڑ چکے تھے ، چہرے پر جھرّیاں کٹ آئی تھیں ، اور اُس کی بائیں ٹانگ کسی بیچ سے ٹوٹی کمان کی طرح پڑی تھی ۔ دوسری پر اُس نے رباب سنبھالا ہوا تھا ۔ اُس کے ہاتھوں میں اُس کا دل تھا جس سے وہ رباب کے تار چھیڑ رہا تھا ، سر جھکائے ۔ جہاں زمین کو آ کر اُس کی آنکھیں چھو رہی تھیں ، وہاں ایک چھوٹی سی مچھلی مردہ پڑی تھی ۔ پھٹی پھٹی سرخ آنکھوں والی مچھلی کے روپہلے پروں پر پڑتے ہی سورج کی کرنیں رنگوں میں ڈھل رہی تھیں ، گویا دھنک یہیں ، اِنھی پر ٹوٹ کر بکھر گئی ہو ۔
ابھی کچھ دیر پہلے جب ہم آگ لینے وادی میں اُترے تھے تو اُسے اچھا بھلا چھوڑ کر گئے تھے ۔ اُس کے بالوں میں زندگی کا گہرا پن تھا ۔ چہرے پر ولولے کی پیدا کی ہوئی خوش گوا ر ہمواری ، اور اُس کی ٹانگوں میں جوش تھا ۔ یہی حال اُس وقت بھی تھا جب کوچ سے ذرا پہلے ہم اورو ہ مستعدی سے گھر کا اسباب اور مویشی اُ س کشتی میں بھر رہے تھے جس کے بنانے کا حکم ستّر دن پہلے ملا تھا ۔
طوفان بپھرتا ہوا ہمارے دائیں بائیں بہہ رہا تھا ، ہمارے سروں پر برس رہا تھا ، لیکن اُس کے چہرے پر سکون کی عجیب لامکاں ، دل کو مطمئن کر دینے والی نرم روشنی تھی ۔ جب قہر کو بزرگی نے آ لیا ۔ ایک سو پچاس دن کے بعد پانی زمین پر سے گھٹتے گھٹتے کم ہوا ، تو ساتویں مہینے کی سترھویں تاریخ کو کشتی پہاڑ پر آ کر ٹِک گئی ، اور دسویں مہینے کی پہلی تاریخ کو پانی میں پہاڑوں کی چوٹیاں نظر آئیں ۔ چالیس دن بعد اُس نے کشتی کی ایک کھڑکی کھول کر ایک کوّے اور ایک کبوتری کو اُڑایا اور کبوتری لوٹ آئی ۔ اُس کے سکون میں ذرا فرق نہ آیا تھا ، گو ہم سب کے چہرے وقتی طور پر ضرور لٹک گئے تھے ۔ سات دن بعد اُس نے پھر کبوتری کو اُڑایا ۔ شام پڑنے سے پہلے ہی کبوتری زیتون کی ایک پتّی چونچ میں دبائے لوٹ آئی ، جسے دیکھ کر اُس نے اندرونی مسرّت کی نرمی سے کہا : ’’ بھائیو! ہم نیکی کی سرزمین پر آ گئے ہیں ، اب اور زیادہ دن انتظار نہیں کرنا پڑے گا ‘‘ ۔
سات دن بعد جب اُس نے کبوتری کو پھر اُڑایا تو وہ لوٹ کر نہ آئی، جس کے بعد اُس نے کشتی کا دروازہ کھول کر باہر نتھری ہوئی پاکیزگی کی دل میں اتر جانے والی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہوئے کہا: ’’ آؤ – حمد و ثنا کرتے اُتر جائیں کہ یہی ارضِ موعود ہے ! ‘‘
کشتی سے اُترتے ہی تھکن نے ہمیں آ لیا ۔ وہ تھکن جو نامعلوم کے اندیشے کی وجہ سے اِن 375 دنوں تک ہمارے ذہنوں اور جسموں کی سرحد سے دو قدم کے فاصلے پر آ کر رک گئی تھی ، اور اب، سکون کی سرزمین پرہمارے پہلے قدم کے ساتھ ایکاایکی جست لگا کر ہمارے روم روم میں جاگزیں ہو گئی تھی ۔
لیکن وہ – کہ جس نے سب سے پہلی بار ہمیں ہماری بدی کے روبرو کیا تھا ، اور پھر، کئی سو برس بعد، آنے والے عذاب کی خبر دیتے ہوئے کشتی تیار کرنے کے لیے کہا تھا ، اور اُس وقت بھی جب ہم بہت ہی جوان شک سے جھولتے دلوں کے ساتھ اُس میں سوار ہوئے تھے — وہ خود اِس تمام مدّت میں ولولے اور یقین کی آنچ سے دمکتا رہا تھا ۔ اُس کی پوری زندگی توانائی کا ایک ہموار لمحہ تھی ، کہ اُس کے ساتھ تھکن کا تصور ہی بے معنی تھا ۔
ہمارا جی چاہ رہا تھا کہ سب کچھ بھول بھال کر سو جائیں ، لیکن اُس نے ہماری آنکھوں میں کسل مندی کو پڑھتے ہوئے کہا: ’’ بھائیو! یہ تسائل کیسا؟ ابھی تو ہم نے وہ معبد تک بنانا شروع نہیں کیا ہے جس کے لیے ہمارے دل میں تڑپ اور ہمارے ہاتھوں میں بے قراری تھی ‘‘ ۔
پھر ہم دونوں کو آگ لانے کی ہدایت کر کے وہ خود باقیوں کے ساتھ مل کر معبد کے لیے کسی مناسب جگہ کی تلاش میں لگ گیا تھا ۔
مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب دوآبے میں ہم لوگ ہاتھوں میں اپنی محنتوں کے نذرانے لیے جوق در جوق یعوق سے ملاقات کو جاتے تھے کہ اچانک اُس نے مجمع سے بچھڑ کر ہم سے توقّف کے لیے کہا تھا ۔ اگلے لمحے وہ کہہ رہا تھا : ’’ بھائیو! ہم لوگ بڑی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔ میں تم سے صرف اِتنا کہنا چاہتا ہوں: سوچو، یہ تمہارے ہاتھوں کی محنت ہی ہے جس نے یعوق کو اُس کا رنگ روپ دیا ہے ۔ یعوق تمہاری کھیتیوں کو پانی دے سکتا ہے ، نہ آنے والےمصائب کو ہی ٹال سکتا ہے ‘‘ ۔
اہل قوم ناعاقبت اندیشی سے مسکراتے، خوش، مگن ، لاابالی ، سبک دل آگے بڑھ گئے تھے ۔ ایک میرے لیے فضا کا آہنگ منتشر ہو چکا تھا ۔
اُس کی بات میں کاہنوں کی فصاحت تو نہ تھی ، لیکن لباس سے عاری اِس آواز میں پاس آنے، آ کر چھونے، اور چھو کر سما جانے والی لطیف گرمی ضرور تھی ۔ مجھے اچانک محسوس ہوا کہ پستیوں سے اُٹھ کر ، بلندی کے کسی نقطے پر ، ہمارے اندر کوئی چیز اپنی ہی آواز سے مل گئی تھی ۔ میں نے اُس کی طرف دیکھا تھا ۔ ایک نومولود غم اُس کے چہرے پر سانس لے رہا تھا ۔ اِس کے باوجود اُس کے سکون میں فرق نہیں آیا تھا ۔ وہ سکون جس میں دوسروں کو نہتّا کر دینے، تھکا دینے کی عجیب پراسرار قوّت تھی ۔
تب دوسری نظر، بے فکری سے رواں دواں ہجوم پر ڈالتے ہوئے مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ زمانوں کے ہمارے تعلق کو کوئی سچّائی آگے سے کاٹتی چلی گئی ہے ۔ میں اُس کے پیچھے ہو لیا تھا ۔ یہ 560 سال ، ایک ماہ اور ستّائیس دن پہلے کی بات ہے ۔ اِس مدّت میں ، میں ہمیشہ اُس کے ساتھ، اُس کے پیچھے چلتا رہا ہوں ۔
اُسے یوں چپ چاپ، بے بسی سے سر جھکائے دیکھ کر میرے قدموں میں ذرا سی لغزش آ گئی ۔ ہم اُس کے نزدیک کھڑے تھے ، لیکن اُس نے ہمیں سر اٹھا کر نہ دیکھا ۔ اُس کی نظریں تو بس مردہ مچھلی پر مرکوز تھیں ۔ زیتون کی خشک ٹہنی ، جسے وادی سے سلگا کر ہم یہاں تک لائے تھے، سرے سے خود اپنے آپ کو راکھ کر رہی تھی ۔ اُس کی دل گیر ، سب سے پہلی اداسی کو دیکھ کر مجھے زیتون کی جلتی ہوئی ٹہنی اور اُس میں بے حد مماثلت محسوس ہوئی ۔ میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا اور میں اِس اداسی کے ہم نشیں کی تلاش میں دھیرے دھیرے پیچھے زمانوں کی طرف چل دیا ۔
وہ اُن کی گذرگاہوں میں جا کھڑا ہوتا ۔ اُن کا راستا روک کر کہتا: ’’ میری بات مان لو ، میں تمہارا امانت دار ہوں ۔ مجھے ڈر ہے کہ تمہاری ناسپاسی اور گمراہی تمہاری فنا کا باعث بنے گی ۔ جب وقت آ جاتا ہے تو پھر تاخیر نہیں ہوتی ۔ کاش تم جانتے ہوتے ‘‘ ۔
’’ گمراہ تم خود ہو ‘‘ ، وہ جواباً کہتے ، ’’ اور پاگل بھی ۔ ایسی بات پہلے کبھی نہ سنی تھی ۔ تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے اجداد کا مسلک چھوڑ کر تمہارا کہا مان لیں ۔ خوب! اور اگر مان بھی لیں تو یہ سوال پھر سے باقی رہتا ہے کہ امانت داری کے لیے تمہارے خدا نے تم جیسے حقیر انسان کا انتخاب کیوں کیا ؟ کیا اُس کے پاس فرشتوں کی کمی تھی ؟ ‘‘
’’ جو امتیاز تم مجھ میں تلاش کر رہے ہو، مجھے اُس کا دعویٰ نہیں ۔ بے شک میں تم جیسا ہی آدمی ہوں ۔ تم انسان ہو، کیا تعجب کہ تمہاری ہدایت کے لیے انسان ہی کو بھیجا گیا ہے ۔ تم فرشتے ہوتے تو ہدایت کے لیے فرشتے آتے! ‘‘
’’ تم رتبے کے خواہاں ہو — ہر قلاش یہی چاہتا ہے ۔۔۔۔۔ ‘‘
’’ اے انسانو! میں اپنی نصیحت کے بدلے میں تم سے مال و زر کا جویا نہیں ‘‘ ۔
سٹرک کے یہ ناخوشگوار منطر دن بدن بڑھتے گئے ۔ قوم والوں کے اوّلین سبک دلانہ رویّے میں اب تندی آ گئی تھی ، اور اِسی تناسب سے اُس کا غمگین لیکن پریقین سکون بڑھتا گیا ۔ پھر ایک دن اُنھوں نے تنگ آ کر کہہ دیا : ’’ باز آ جا بدبخت ! سنگ سار کر دیا جائے گا ‘‘ ۔
’’ مجھے پروا نہیں ۔ میں سّچا ہوں ‘‘ ۔
’’ اگر سچّا ہے تو ہم پر وہ عذاب کیوں نہیں لے آتا جس کا ذکر کر کر کے زندگی اجیرن کر دی ہے ۔ ذرا ہم بھی تو دیکھیں ۔۔۔ تیرے پروردگار کے کس بل ! ‘‘
’’ ہاں – عذاب آ ئے گا، جلد آئے گا ۔ پھر میری ہمدردی بھی تمہارے لیے بے بس ہو جائے گی ۔ شاید تمہارا وقت آ پہنچا ہے ۔ کاش تم سمجھتے ہوتے! ‘‘
اُس رات وہ بڑی دیر تک سجدے میں گرا رہا تھا ۔ اُس نے اِس دل سوزی سے دعا مانگی تھی کہ آنے والی زیادتیوں کا احساس کر کے میں لرز گیا تھا ۔ پھر اُس نے ہم کو جمع کر کے گوپھر (سرو یا صنوبر) کے تختوں اور میخوں سے ایک کشتی تیار کرنے کے لیے کہا تھا ۔ ستّر دن تک ہم کشتی بناتے رہے ۔ بارہا ایک پراسرار خوف سے ہمارے ساتھیوں کے دل کانپ اُٹھے تھے ۔ شک کی توانا فصل شانوں شانوں اُن کے دلوں میں کھڑی تھی لیکن جس بات نے انھیں سہارے رکھا ، وہ اُس کا پسپا کر دینے والا خودکفیل سکون تھا ۔
’’ تم دیکھو گے تباہی عین تمہاری نظروں کے سامنے ہر اُس شے کو جس کے نتھنوں میں زندگی کا دم باقی ہے، نابود کرتی چلی جائے گی ، لیکن تمہارے جسموں پر ہلکی سی خراش بھی نہ آئے گی ۔ دل تنگ نہ ہو کہ اُسے تمہاری قربانیوں کا علم ہے ۔ وہ بڑا جاننے والا ہے، بھائیو! اُس کا ذکر کرو، وہ تمہاری شہ رگ سے زیادہ تم سے قریب ہے ‘‘ ۔
جب کشتی تیار ہو گئی تو ایک صبح اُس نے ہم سے کہا کہ کوچ کا وقت آ گیا ہے : ’’ جلدی کرو بھائیو! ‘‘
ہم حمدوثنا کرتے بمشکل کشتی میں سوا رہوئے تھے کہ تنّور سے پانی ابلنے لگا ۔ آسمان کا دہانہ کھل گیا اور سمندر کے سب سوتے پھوٹ بہے ۔ ہمارے اجداد کی بستیاں اپنے کناروں سمیت ہمارے سامنے بہہ گئیں ۔
چالیس دن اور چالیس رات تک پانی مسلسل چڑھتا رہا ، لیکن کشتی لہروں پر امن و امان سے آگے بہتی گئی ۔ میں نے دیکھا، اُس کے چہرے پر تاسّف یا حسرت کا شائبہ تک نہ تھا ۔ سکون کی جگہ بڑی دل موہ لینے والی بے قراری اُس کی حرکات میں آ گئی تھی ۔ ایک رات جب سب سو رہے تھے ، اُس نے میرا شانہ ہلا کر کہا:
’’ میرے ہاتھوں میں اُس معبد کے لیے، جسے ہم ارضِ موعود پر بنائیں گے ، بے قراری ہے، اور انگور کے اُن باغوں کے تصور ہی سے میری روح پر نشہ چھاتا جا رہا ہے جنھیں ، میرے عزیز، ہم وہاں اپنے ہاتھوں سے اُگائیں گے ‘‘ ۔
میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا اور میں نے گذرے وقتوں سے لوٹ آتے ہوئے کہا: ’’ ہم آگ لے آئے ہیں ‘‘ ۔
اُس نے جواب دیا ، نہ سر اٹھایا ۔ میں نے اپنے ساتھی کو زیتون کی جلتی ٹہنی خیموں کی طرف لے جانے کا اشارہ کیا ۔ جب وہ چلا گیا تو میں نے بوڑھے کا شانہ ہلاتے ہوئے پوچھا:
’’ کیا بات ہے؟ ‘‘
’’ کچھ نہیں ، عجیب سی تھکن محسوس ہو رہی ہے ‘‘ ۔
’’ تھکن – ‘‘
’’ ہاں ۔ عجیب، لامقام ۔ ایسی پہلے کبھی نہیں محسوس ہوئی ۔۔۔ ‘‘
’’ تھوڑی دیر پہلے خود کو مضمحل پا کر میں نے سوچا تھا شاید یہ وہ تھکن ہے جو ہیجان کا لمحہ گذر جانے کے بعد آپی آپ (خود بخود) چلی آتی ہے ‘‘ ۔
’’ نہیں ۔۔۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ آخر کیوں پیچھے رہ گیا؟ یہ سوچ مجھے تھکائے دے رہی ہے ‘‘ ۔
’’وہ ۔۔ کون؟ ‘‘
’’ یہ مچھلی دیکھ رہے ہو؟ ‘‘
’’ ہاں ۔۔ کیوں؟ نیچے وادی ایسیوں سے اَٹی پڑی ہے ‘‘ ۔
’’ جھک کر دیکھو ۔ پچھلے 375 دنوں کی ساری ہولناکی اِس کی پھٹی پھٹی سرخ آنکھوں میں اُتر آئی ہے ۔ اِسی طرح، پورے 375 دن پیچھے، دو آبے میں کہیں ’ اُس کی ‘ لاش بھی پڑی سڑ گل رہی ہو گی ۔ اُس کی آنکھیں بھی اِسی طرح پھٹی ہوں گی ، اور اُن میں بھی یہی سوال ہو گا: کیا تمام حسن، محبت اور ہمسائگی کا یہی انجام ہوتا ہے؟ ‘‘
’’ حسن سمجھ میں آتا ہے ، کسی حد تک محبت بھی ۔۔ لیکن ہمسائگی؟ ‘‘
’’ پہلی بار اِس خیال کو ذہن میں سر اُبھارتے ہوئے محسوس کر کے خود میں بھی سہم گیا تھا ‘‘ ۔
’’ تم ہی نے تو کہا تھا کہ بدی اور ہم میں کوئی ہمسائگی جنم نہیں لے سکتی ۔ اور شاید یہ ناخوشگوار ہمسائگی ہی تھی جس کو ختم کرنے ہم یہاں آئے تھے ‘‘ ۔
’’ کیا تم کبھی اُس شخص کا تصور کر سکتے ہو جو ساری زندگی اِس یقین کے سہارے ریگ زار کی جلتی ، خشک تنہائی کو کاٹتا ہوا آگے بڑھتا ہے کہ اِس کی انتہا پر ٹھنڈک ہو گی ، سایہ ہو گا، دل نوا ز نرمی ہو گی ۔۔ لیکن وہاں پہنچنے پر معلوم ہو کہ یہاں ٹھنڈک ہے نہ سایہ ۔ ۔۔ کہ ساری ٹھنڈک ، ساری خوب صورتی ، حسن ، ہمسائگی ، رفاقت اور سایہ تو پیچھے رہ گئے ہیں؟ ‘‘
میں نے دہل کر پوچھا: ’’ یہ خیال تمہیں کیوں کر آیا؟ ‘‘
’’ جب تم آگ لینے گئے تھے، میری نظر اچانک اِس مچھلی پر جا پڑی ۔ میں نے چاہا کہ آگے بڑھ جاؤں ، لیکن اِس کی آنکھوں کی وحشت زدہ حسرت میرے پیروں سے گوکھرو (گھنگھرو) بن کر چمٹ گئی ۔ میں اِسے دیکھتا رہا، دیکھتا ہی رہا ۔ ایک غم دبے قدموں میری روح پر چھا گیا ۔ مجھے کچھ یاد آ گیا ۔ میں پتھر پر بیٹھ گیا اور اُس کے لیے دعا مانگی کہ اے پروردگار! وہ میرے گھر والوں میں ہی سے ہے ، اُسے بخش دے ! آنسو میری آنکھوں سے بہہ پڑے۔ اِس قدر عجز ، لاچاری کے اِس سے زیادہ گمبھیر احساس کے ساتھ میں نے آج سے پہلے کبھی دعا نہ مانگی تھی ‘‘ ۔
’’ پھر! – یہ بے حد عجیب بات ہے ۔ مجھے بھول کر بھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ میری کوئی دعا باریابی سے رہ جائے گی ۔ مجھ سے کہا گیا کہ وہ میرے گھر والوں میں سے نہیں ، کہ وہ بداطوار ہے ۔ جو مجھے معلوم نہیں ، اُس کی بابت سوال نہ کروں ، جاہل نہ بنوں ۔ مجھے محسوس ہوا، میری روح کو ہاتھ میں بھر کر پوری شدت سے نچوڑ دیا گیا ہو ۔ جب درد کم ہوا تو میری نظر پھر مچھلی پر جا پڑی ۔ مجھے اِس کی حسرت میں عجیب، لامقام سچّائی نظر آئی ۔ پودے نے میری نظروں کے سامنے چٹان کو پھاڑتے ہوئے سر اُبھارا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی جسامت کو پہنچ گیا ۔ ناگ پھنی اُس کے بازوؤں پر اُگ آئے اور اِن میں سے ہر ایک ٹھیک میرے دل سے کن کھجورے کی طرح چمٹ گیا ۔ تب میں نے دہل کر اپنی اُس دعا کی بابت سوچا جو میں نے انتقام اور عذاب کے لیے مانگی تھی ۔ مجھے ناگاہ محسوس ہوا کہ میں بے حد کمزور ہوں ۔ 375 دنوں میں پہلی بار مجھے یہ خیال آیا کہ جیسے ’ وہ ‘ اپنے سارے تکبّر اور بدی کے باوجود مجھ سے اعلیٰ اور زیادہ رحم دل تھا ۔۔ وہ کیوں نہ آیا؟ وہ کیوں پیچھے رہ گیا؟ ‘‘
’’ کیوں پیچھے رہ گیا؟ ‘‘
’’ یہی میں سوچ رہا ہوں ۔ اِس سارے ہنگامے میں ، محسوس ہوتا ہے ، ایک سچّائی ایسی بھی تھی جو ٹھیک ہماری انگلیوں سے سرسراتی گذرتی رہی ، لیکن جس سے نظریں چار کرنے کا خیال بھی ہمیں نہ آیا ۔ تمہیں یاد ہے ، تم لوگوں نے پشتے سے رسّیاں کاٹ دی تھیں اور کشتی کو لہروں کے سہارے چھوڑ دیا تھا ۔ آبائی بستیوں کے آثار بڑھتے ہوئے پانی میں ڈوبنے لگے تھے ، اور ہماری کشتی ڈولتی ، جھولتی ہمیشہ کے لیے اُن سے دور جا رہی تھی ۔ تب میں نے چلّا کر کہا تھا: ’ بیٹا، آ جا! ‘ لیکن وہ اپنے تکبّر میں بلندوبالا وہیں کنارے پر اُن کے ہاتھوں میں ہاتھ دیے کھڑا رہا تھا ۔ اُس کے پاس ہی اُس کی ماں بھی کھڑی تھی ۔ زندگی کے لاتعداد دن میں نے اُس کی معیت میں گذارے تھے ۔ اِن میں وہ بیشتر دن بھی تھے جن میں ، میں نے اُس کے جسم کی نرمی اور حرارت کو محسوس کیا تھا ۔ لیکن جسموں کی رفاقت اور ہمسائگی کے باوجود مجھے اُس کے پیچھے رہ جانے کا ذرا ملال نہ تھا ۔ لیکن وہ – — تو اُس کے تکبّر میں بھی کوئی کشش تھی جسے میں اُس وقت پوری طرح نہ محسوس کرتے ہوئے، مگر اُس سے مجبور ہو کر ، ایک بار پھر پکار اٹھا تھا :
’’بیٹا! ہمارے ساتھ سوار ہو جا۔ دیکھ اِن میں شامل نہ ہو ‘‘ ۔ لیکن وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں ، تاآنکہ ایک موج ہمارے درمیان حائل ہو گئی ۔ مجھے محسوس ہوتا ہے، پھر میں نے ، ہماری طرف پشت کیے، دونوں ہاتھ پھیلائے، اُسے بستی کی طرف جاتے دیکھا تھا ، اور ٹھیک اُس لمحے سیلاب نے اُسے آ لیا تھا ۔ اور ۔۔۔ اور اب محسوس ہوتا ہے، نظر کا دھوکا ہی نہ ہو؛ وہ تکبّر نہ ہو؛ محبّت اور اپنائیت اور احساسِ رفاقت کی انتہا ہو ‘‘ ۔
مجھے ایسا لگا جیسے قیادت کے خمار میں اُس نے سچ مچ ہمیں اُس دراڑ کے منہ پر لا کر چھوڑ دیا ہو جو ہمیں نگل جانے کی منتظر بیٹھی ہو ۔ اور اب سامنے تنگ سی عنّابی موت میں پھنسے پھنسے گرنے کے سوا ہمارے لیے کوئی چارا نہ رہ گیا ہو ۔ اپنے سامنے، بے تھاہ، عمودی موت کی دراڑ کو دیکھ کر میرے قدموں میں لغزش آ گئی ، اور کس مپرسی کی موت سے نکل جانے کی آخری کوشش کرتے ہوئے میں نے کسی جذبے سے جلتے ہوئے چِلّا کر کہا: ’’ محبّت کی انتہا ؟— تم دیوانے ہو گئے ہو ۔ وہ بدکار تھا ! ‘‘
’’ ہم سبھی اپنے احساس کی آنکھ سے دوسروں کو دیکھتے ہیں ۔ خود میں ، تھوڑی دیر تک پہلے تک اُسے بدکار سمجھتا رہا ہوں ۔ میں نے جس قدر اُسے بدی سے باز آنے کی تلقین کی ، جس قدر عذاب سے ڈرایا ، جس قدر اُن سے رشتہ توڑ لینے کے لیے کہا، وہ اُسی تناسب سے اُن کے لیے اپنی محبّت میں نڈر ہوتا گیا ۔ محبّت تو میں اب کہہ رہا ہوں ، تھوڑی دیر پہلے تک میں اِسے بجز خودسری کے کوئی اور نام نہیں دے سکتا تھا ۔ لیکن یہاں اس پتھر پر بیٹھے بیٹھے یہ سوا ل اپنی تمام بے رحمی سے میرے دل میں گونجا کہ وہ آخر کیوں پیچھے رہ گیا؟ اور پھر مجھے عجیب مبہم طریقے پر محسوس ہوا کہ میں کسی حد تک اُن سے اُس کی وابستگی کا راز جان گیا ہوں ، کہ اگر وہ قیامت کی موج ہمارے درمیان نہ آ جاتی اور میں اُس کے چہرے کے آخری، بھرپور تاثر کو دیکھ لیتا تو شاید میں بھی اُس کے ساتھ وہیں رہ جاتا ۔ اُس کی لاش کا اب شاید نام و نشان بھی باقی نہ ہو گا ‘‘ ۔
’’ اگلے وقتوں کی یاد لے کر ہم کتنی دور جا سکتے ہیں؟ ‘‘ عجیب سی محتاجی میرے دل پر اُتر آئی تھی ۔
’’ اگلے وقتوں کی یاد نہ ہو تو راستے آگے جا کر کُہر میں کھو جاتے ہیں ‘‘ ۔
’’ کیا ہماری قربانیوں کا یہی مآل تھا؟ ‘‘
’’ شکر کرو ‘‘ ، اُس نے نقاہت سے اٹھتے ہوئے کہا ۔ ’’ وقت میرے لیے ابھی ختم نہیں ہو گیا ہے ‘‘ ۔
’’ وقت۔۔ ‘‘
’’ وقت سب سے بڑا تحفہ ہے۔ وقت نہ ہو تو ہماری حیثیت ۔۔۔۔ ‘‘
’’ تم کہاں جا رہے ہو؟ ‘‘
لیکن اُس نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ بس بڑھ کرمچھلی کو اپنی مٹھی میں بھر لیا ، پھر محبّت سے چمٹایا اور دھیرے دھیرے نشیب میں اترنے لگا ۔
’’ کم از کم یہ تو بتاتے جاؤ : وہ کیوں پیچھے رہ گیا؟ وہ سچائی کیا تھی؟ ‘‘
’’ سچائی ۔۔ ‘‘ فاصلوں سے اُس کی آواز آئی، ’’ ہم سب کو خود اپنے اپنے طور پر اُسے تلاش کرنا ہو گا ‘‘ ۔