فردا کے پھول: محمد عمر میمن (مرتب: عاصم رضا)
نوٹ: یہ افسانہ ادبی جریدے ’نقوش‘ سے لیا گیا ہے اور محمد عمر میمن مرحوم کے خاندان کی اجازت سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ ایم خالد فیاض صاحب کا شکر گزار ہے جنکی مہربانی سے یہ افسانہ دستیاب ہوا۔
صبح کا سورج روشنی اور سائے کی عجیب عجیب شکلیں بناتا ہوا، جھونپڑی کی مٹی اور گارے سے لپی پتی دیواروں پر رینگنے لگا ۔ سورج کی کرنیں ، جھونپڑی کی متعفن ، بوسیدہ نیم روشن فضا میں دھیرے دھیرے بکھرنے لگیں ، یہاں تک کہ دو محوِ خواب چہروں نے ان کی چبھتی حدّت کو محسوس کیا اور بغیر کسی خواہش کے یونہی خالی الذہن ہو کر اپنے صدیوں کے ماندے، تھکے تھکے سے جسموں کو کھجور کے پتوں کی کھّری چٹائی پر حرکت دی۔
کھڑکی کے نزدیک لیٹا ہوا آدمی ، مضبوط، گھٹے ہوئے جسم کا مالک تھا ۔ اس کے بازوؤں کی تڑپتی مچھلیاں تنی ہوئی تھیں اور گردن سے لیکر شانوں سے ہوتی ہوئی کلائیوں اور پھر مشقت سے گھائل ، کھردرے ہاتھوں کے بالائی حصے تک موٹی ستلی (رسی) سے مشابہ رگیں اُبھری ہوئی تھیں ۔ اس نے نیند سے چونکتے ہوئے گہری سانس لی ، اور اپنے تھکے ہوئے سیاہ فام جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا ۔ گھٹی گھٹی سی فضا میں اس کے گہرے تنفس کی بازگشت چند لمحوں تک چکراتی ہوئی بتدریج ڈوب گئی ۔ اس کے پہلو میں نو دس سال کا ایک لڑکا لیٹا ہوا تھا، جس کے چھوٹے گھنے کالے اور خشک بال بے ترتیبی سے باہم اُلجھے ہوئے تھے اور موٹے بھدّے ہونٹ ایک موہوم سی مسکراہٹ پر آ کے جُدا ہو گئے تھے ۔ اس مدہم ابہامی ابتسام (مسکراہٹ) کے عقب میں کون ملائم جذبے اور خواب اس کے محّرک بن کر کارفرما تھے — یہ کون جانے!
’’کلّو ! کلّو! ابے او کلوے ! ‘‘ ، خواب آلود آواز خاصی کرخت ہو گئی ۔ لڑکے کے پپوٹے تھرتھرائے اور کُھل گئے یوں جیسے کسی میکانکی عمل کے ذریعے ان کا سلسلہ کرخت آواز سے ملا دیا گیا ہو ۔ اس نے یوں ہی ، ایک خالی سی نظر پھونس کی چھدری چھت پر ڈالی اور پھر جلدی سے کھڑا ہو گیا ۔ بالکل مشینی انداز میں تیزی سے چٹائی لپیٹ کر کونے میں کھڑی کی اور ٹاٹ کے بھاری بھرکم بورے کو جو پردے کا کام دیتا تھا ، سِرکا کر دوسرے حصہ میں نکل گیا جہاں ایک کونے کھدرے میں تین اینٹوں کو جوڑ کر چُولہا بنایا گیا تھا ۔ جس پر اب ایک مٹی کے برتن میں کوئی چیز کھول رہی تھی ۔ اس نےایک آدھ جلی لکڑی اُٹھا کر راکھ کریدی اور اس میں سے دو دہکتے ہوئے انگارے نکال کر ان پر پانی کے چھینٹے دینے شروع کیے تاآنکہ وہ مدہم سے دھوئیں کے نم غبار کے سائے میں بالکل سرد ہو کر رہ گئے ۔ وہ انہیں اپنی ننھی سی ہتھیلی پر رکھ کر اس دوسرے حصے میں نکل آیا جہاں سے دونوں باپ بیٹے کنویں پر پہنچے ، باپ نے ڈول بھر کر پانی سینچا اور کچی جگت سے لگ کر دونوں مل مل کر دانت مانجھنے لگے ۔ پھر پانی سے منہ پر چھینٹے دیے اور ایک چیتھڑے سے چہروں کی نمی کو خشک کر کے گھر لوٹ آئے ۔ اس تمام عرصہ میں دونوں نے کوئی بات نہ کی یوں جیسے ہر ایک کو پہلے ہی سے معلوم ہو کہ زندگی کے اس چوکھٹے میں اس کے ذمہ کون سے کام ہیں ! جیسے دونوں کے مابین پہلے ہی سے کوئی خاموش معاہدہ ہو ۔
چُولہے کے نزدیک ایک بڑھیا بیٹھی بڑے دھیان سے اوپر چڑھے برتن کو گھور رہی تھی ۔ اس کا چہرہ جھریوں سےاٹا پڑا تھا ۔ ملگجا دھندلا دھندلا سا دھواں کمرے کی کثیف فضا میں تیرتا ہوا ، چھت کے سوراخوں سے نکلتا ہوا باہر ہوا میں منتشر ہو رہا تھا ۔ قدموں کی چاپ سُن کر اس نے اپنے سوکھے ہاتھوں سے دو پیالے اُٹھائے اور انہیں چولہے پر کھولتی ہوئی چائے سے بھر دیا ۔ باپ بیٹا دونوں آگے پیچھے کمرے میں داخل ہوئے اور اکڑوں بیٹھ کر پیالیاں اپنے مدّت کے تشنہ کام ہونٹوں سے لگا لیں ۔
’’کلّو ! آج بھی رات گئے گھر لوٹوں گا ۔ مالک چاہتا ہے کہ فصل جلد کٹ جائے تاکہ مارکیٹ میں پہلے پہنچنے پر دام اچھے ملیں ۔ دیکھو! تم وقت پر اسکول پہنچ جا نا —- سمجھے! ‘‘
بوڑھی عورت زندگی کا بارِ گراں لیے اُٹھی ، کانپتی لرزتی ۔۔۔دھیرے دھیرے چلتی ہوئی ایک ٹوٹے پھوٹے نعمت خانے تک پہنچی ۔ اس نعمت خانے میں کوئی نعمت کاہے کو کبھی رکھی گئی ہو گی ۔ یہاں تو بس باسی روٹی کے سوکھے ٹکڑے یا کسی ٹوٹے پیالے میں بچا رات کا سالن ۔۔۔ وہ بھی شاذ ہی نظر آجاتا ۔ نعمت خانہ تین ٹانگوں پر کھڑا تھا ۔ چوتھی ٹانگ کی کمی تلے اوپر دو اینٹیں رکھ کر پوری کی گئی تھی ۔
کتھئی ساڑھی کا پلّو بڑھیا کے شانوں سے پھسل کر نیچے آ رہا ۔ اس نے پلّو سیدھا کیا اور نعمت خانے کا پٹ کھول کر ایک چھوٹی سی پوٹلی نکالی جس میں روٹی کے کچھ سوکھے ٹکڑے اور پیاز کی ایک گانٹھ تھی ۔ اس نے بنا کچھ کہے بوٹلی آدمی کے ہاتھ میں تھما دی ۔
’’ دیکھو ماں، ذرا خیال رکھنا کہ کلّو وقت پر اسکول پہنچ جائے‘‘۔ گویا وہ کلّو کو اتنی اہمیت صرف اس لیے دے رہا تھا کہ اس چھوٹے سے گھروندے کا تمام تر مستقبل اس سے ہی وابستہ تھا ۔ چلتے چلتے ایک الوداعی نظر اس نے کلّو پر ڈالی ۔ سناٹے میں جاتے بھاری قدموں کی آواز تسلسل سے گونج رہی تھی ۔ پھر بتدریج مدھم سے مدھم تر ہوتی ہوئی وہ فاصلوں میں ڈوب گئی ۔۔۔۔
کلّو نے جلدی جلدی پیالہ ختم کیا ۔ جوں ہی بڑھیا نے اس کے خالی ہونے کی آواز سُنی ۔ اس نے پھر اسے چائے سے بھر دیا اور اب برتن میں باقیماندہ چائے اس قدر ناکافی تھی کہ اس سے بڑھیا کی پیالی بمشکل آدھی بھر سکتی تھی ۔ دونوں صبروشکر سے چائے اپنے سینوں میں انڈیلتے رہے اور جھونپڑی کی اُداس فضا ، خاموشی کے اتھاہ ساگر میں ڈوبتی گئی یہاں تک کہ ماحول کی اس غمناک تیز سنسناہٹ کو توڑتے ہوئے بڑھیا کی نحیف آواز گونجی ۔۔۔
’’تمہیں اسکول کے لیے بہت دُور تک چلنا ہو گا ۔۔۔ بیٹا، اب جاؤ۔۔۔‘‘
’’دادی ، میں بہت تیز چلتا ہوں ۔۔۔ یوں‘‘، یہ کہہ کر کلّو نے کمرے کی محدود فضا میں دو تین لانبے لانبے ڈگ بھرے ۔ دادی مسکرا دی ۔ ’’مجھے اسکول پہنچنے میں بس پندرہ منٹ ہی لگیں گے ! ہاں‘‘ ، وہ بڑے فخر سے بولا ۔ بڑھیا اس کی آنکھوں میں گہری خوداعتمادی کی جھلک دیکھ کر نہال ہو گئی۔
’’مجھے یقین ہے ایک روز تم بہت تیز دوڑنے والے بن جاؤ گے! تم مضبوط بھی ہو اور تندرست بھی! ‘‘
’’میں اپنی کلاس میں سب سے تیز دوڑتا ہوں دادی ، ہاں ‘‘۔ کلّو یقین دلاتے ہوئے بولا ۔
’’پھر بھی اچھا ہے کہ تم بس ابھی سے چل دو‘‘۔ یہ کہتی ہوئی وہ نعمت خانے کی طرف بڑھی ۔ جہاں اب صرف روٹی کے چند ٹکڑے اور ذرا سا اچار پڑا تھا ۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے کسی گہری فکر میں ڈوب گئی جیسے سوچ رہی ہو کہ یہ مقدار کلّو جیسے گٹھیلے جسم کے لڑکے کے لیے ناکافی تھی ۔ پھر اس کا ہاتھ اس کی ساڑھی سے پھسلتا ہوا پلّو کی ایک گرہ پر آ کر رُک گیا ۔ اس نے گرہ کھولی اور وہ واحد چوّنی جو اس کے پاس تھی ، کلّو کو د ے دی ۔
’’یہاں آؤ بیٹا۔۔۔ سُنو ، اس چوّنی سے دوپہر کو اپنے لیے کوئی کھانے کی چیز خرید لینا۔۔۔‘‘
وہ تقریباً بھاگتے ہوئے بڑھیا کی آغوش میں آ سمایا اور جھول سا گیا ۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ دُنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر چمٹے رہے ۔ تھوڑی دیر بعد علیٰحدہ ہوئے ۔ ’’پاری دادی ۔۔۔ پاری دادی ‘‘ کہتے ہوئے وہ اپنی کتابیں سنبھالتا ہو اسکول بھاگا ۔ بھاگتے ہوئے وہ جلد ہی نیم تاریک گلی کے نکڑّ کو اپنے بہت پیچھے چھوڑتا ہوا کشادہ سڑک کی چمکیلی فضا میں نظر آیا ۔ ایک کتاب اور دو کاپیاں دائیں ہاتھ میں اور چوّنی مضبوطی سے بائیں ہاتھ میں دبائے وہ بڑی تیزی سے اپنی راہ میں حائل ہر چھوٹے بڑے پتھر کو ٹھوکر مارتا ہوا یوں بڑھا جا رہا تھا کہ اگر پلٹ کر دیکھا تو پتھر کا ہو کر رہ جائے گا ۔
وہ پھِرکی کی طرح تیزی سے گھوما اور گھومتے ہوئے بڑے الہڑ پنے سے ایک کِک سامنے پتھر کو لگا دی ۔ پتھر دُور تک سڑک پر گیند کی طرح لڑھکتا پڑھکتا چلا گیا ۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا ۔ پتھر چند قدم کے فاصلے پر رُک گیا ۔ لیکن وہ ۔۔۔ جسےکہانیاں سُننے کا بیحد شوق تھا ، جادو کی اس گیند کے پیچھے بے خیالی میں چلا جا رہا تھا جس کا تذکرہ کہیں حاتم طائی کے قصّے میں آیا تھا ۔ آٹھویں سوال کے جواب کی تلاش میں !
تیزی سے ایک سبز رنگ کی دو منزلہ بس دندناتی ، شور مچاتی ہوئی زن سے اس کے پاس سے گزر گئی ۔ وہ ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا اور مشتاق نظروں سے بس کو گھورنے لگا ، یہاں تک کہ وہ سامنے والے موڑ کو عبور کر کے نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔ لاشعوری طور پر چوّنی پر اس کی گرفت مضبوط تر ہو گئی ۔ ایک چھچلتی سی نظر میں اس نے دیکھ لیا تھا کہ بس کی بالائی منزل کی اگلی نشستیں بالکل خالی تھیں ۔ اگر وہ چاہتا تو صرف دو آنے میں اسکول کے گیٹ تک پہنچ سکتا تھا ۔ یکایک اُسے خیال آیا ، پچھلے سال ہی کی تو بات ہے ۔ عید کے موقع پر وہ اپنے چچا کے ساتھ بس کی بالائی منزل کی اگلی نشست پر بیٹھا تھا ۔ کتنی عجیب عجیب چیزیں اس نے اوپر بیٹھے بیٹھے دیکھی تھیں ۔ وہ چیزیں جن کے متعلق اس کی متعلق اس کی معلومات بالکل محدودیا تقریباً نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ اسے ہر چیز بدلی بدلی نظر آئی تھی ۔ عجیب حیرت انگیز ، ناقابل یقین ، خاص طور پر اونچی اونچی عمارتوں کے کشادہ، ستھرے ، اُجلے اُجلے فلیٹ میں صاف ستھرا چمکیلا فرنیچر اس کے باپ کے قد سے بھی نکلتی ہوئی اونچی الماریاں جن پر بیضوی آئینے جڑے تھے اور ستھرے لوگ، جو اس قدر آسائش اور کیف سے زندگی بسر کرتے تھے کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر انسانی زندگی کے لکھوکھا آلام اور دکھوں میں سے کسی ایک کا ہی سایہ اُسے نظر آیا اور ننّھی منّہ سے وہ گڑیا لڑکی ۔۔۔ اتنی مّنی اتنی پیاری ۔۔۔جو ایک آئینوں والی میز کے نزدیک ہی چھوٹے سے اسٹول پر بیٹھی طرح طرح کی بوتلوں اور ڈبوں سے کچھ نکال نکال کر اپنے چہرے پر لگا رہی تھی ۔ تب اس چھوٹے سے لمحے کے ہزارویں حصے میں عجیب اضطراری طور پر کسی تیز رو بادل کی طرح اس کے دل میں ایک خیال آیا ۔۔۔ وہ چپکے سے جا کر اس گڑیا شہزادی کے پیچھے کھڑا ہو جائے ، پھر تیزی سے شہزادی کی آنکھوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہے ۔۔۔ ’’ بوجھو، تو کون ہے؟ لو ۔۔ شہزادی تمہارا شہزادہ آ گیا ہے! ‘‘ پھر وہ اسے اپنے سفر کی صعوبتوں کا حال سنائے اور کہانیوں کی شہزادی کی طرح یہ شہزادی بھی کھِل کھِلا کر ہنس دے ۔۔۔ لیکن بس اتنی تیزی سے آگے بڑھ چکی تھی ۔ یہ دُنیا اس کی اپنی دُنیا سے کتنی مختلف تھی ۔ بدلی بدلی ۔۔۔ اسے یوں محسوس ہوا ، وہ جادو کے قالین پر بیٹھے بیٹھے ہی کسی دوسری دنیا میں نکل گیا ہے ۔
اکثر اس نے بجلی کے کھمبوں کے نیچے کھڑے ہو کر حیرت سے سوچا تھا ۔ آخر ان چمکتے ہوئے شیشے کے مرتبانوں میں کیا ایسی چیز ہے جو رات کو اتنی تیز روشنی پھینکتی ہے؟ ہاں ۔۔۔ مرتبان ہی ! اس کی ننھی عقل اور کچے شعور میں اس سے بہتر کوئی اور تشبیہ ہی نہ تھی کہ وہ بلب کے ان شیڈس (shades) کو مرتبانوں کے ماسوا کسی اور چیز سے تعبیر کرتا ۔ تب اس روز چچا کے ساتھ بس میں سفر کرتے سمے اس پر یہ راز آشکار ہوا کہ ارے! یہ تو وہی بلب ہیں جن سے رات کو اس قدر تیز روشنی پھوٹتی ہے بس فرق یہ ہے کہ ان پر مرتبان اوندھا دیے گئے ہیں ۔ تو اس نے چاہا بس کی کھڑکی سے ذری سا جھک کر انہیں چھو ئے ۔ اُنہیں محسوس کرے ۔۔۔ لیکن اس کے چچا نے اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے اس کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی مگر اس روز اس نے اپنے ننھے سے دل میں پوری سچائی سے عہد کیا ، ایک نہ ایک روز وہ انہیں ضرور چھوئے گا ۔
کونونٹ اسکول کی دراز، سروقد دیواروں کے پیچھے کیا؟ بارہا اسکول جاتے وقت اس نے یہ راز سمجھنے کی کوشش کی تھی کہ آخر ان دیواروں کے عقب میں کس سنہری اجنبی دیس کی کہانیاں پروان چڑھتی ہیں ؟ آیا یہ کوئی پرستان ہے ؟ یا کوئی انوکھا دیس؟ پر یہ بات تو اسی روز اس پر ظاہر ہوئی جب وہ چچا کے ساتھ بس میں بیٹھا جا رہا تھا کہ یہ بھی ایک اسکول ہے لیکن اس کے اسکول سے قدرے مختلف ! یہاں اس کے اسکول کے بچوں کے برخلاف نہایت صاف ستھرے بچے تھے ۔ چاندی اور دودھ کی نہروں سے جیسے نکل کر نتھرے نتھرے چلے آئے ہوں ۔ اور کھیل کود کا ایسا سامان جو اس کے اسکول میں نہ تھا ۔ تب اس نے اسکول کے بیچوں بیچ کنواری میڈونا کے نصب مقدس بُت کو بڑی حیرت سے دیکھا جس کے چاروں طرف لمبی لمبی سپید پوشاکیں پہنے ہوئے پجاریوں کا ایک وسیع غول سمٹ آیا تھا ۔ اس غول میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی تھیں ۔ جب اس کی نگاہ مریم کے منصوب بت کے عقب میں گئی تو وہاں اسے دو بے حد چمکیلے سنہری پَر دکھائی دیے ۔ وہ حیرت زدہ رہ گیا ۔ ’’ تو کیا یہ کوئی پری ہے؟‘‘ اس نے یونہی اپنے آپ سے پوچھا ۔ بڑھیا دادی کی سنائی ہوئی پریوں کی تمام کہانیاں یکے بعد دیگر ے اس کے تصور میں گھوم گئیں ۔ اور وہ شہزادے بھی جو شب و روز قریہ قریہ پربت پربت ان کی تلاش میں سرگرداں تھے ۔ ’’ ہونہہ ، یہ نیلم پری ہی ہے۔ کتنی معصوم اور پیاری لگ رہی ہے ۔ نیلم پری بھی تو ایسی ہی تھی ‘‘ ۔ لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکا ۔ دادی کی سنائی ہوئی کہانیوں میں تو ایک پری کے ایک یا حد سے حد دو چاہنے والے شہزادے ہوا کرتے تھے۔ لیکن یہاں اس ایک پری کے اتنے ساری چاہنے والے شہزادے کہاں سے آ گئے؟ اور پھر ان میں تو کئی ایک شہزادیاں بھی ہیں؟ بھلا شہزادیاں پری کو کیوں چاہنے لگیں ۔ یہ شہزادیاں تو پری سے شادی نہیں کر سکتیں ۔۔۔ شہزادے ۔۔ بیچارے جانے کتنے دُور دیسوں سفر کی سختیاں برداشت کر کے یہاں آئے ہوں گے ۔ راستے میں انہیں دیو اور خوفناک جانور بھی ملے ہوں گے اور وہ اژدہا بھی ملا ہو گا جو اُلٹی سانس لے کر آدمیوں کو ہڑپ کر جاتا ہے اور وہ جادوئی محل بھی ملا ہو گا جس میں بیچارے شہزادے پھنس کر قید ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔ دیکھیں اب یہ پری کس کو ملتی ہے؟ شہزادوں کے لیے جذبہ ترحم اس کی آنکھوں میں اُمڈ آیا ۔ یہ سب اس قدر جلدی ہوا کہ پلک جھپکتے ہی بس کونونٹ کی سرحد کو چھوڑ چکی تھی اور وہ جی بھر کر کونونٹ کا منظر بھی نہ سکا تھا لیکن اس نے ارادہ کیا کہ کونونٹ کی ان عظیم سروقد دیواروں کے عقب میں پلتی ان حیرت انگیز کہانیوں کی حقیقت کو ضرور معلوم کر کے رہے گا خواہ اس کے لیے اسے جادوئی چراغ یا جادوئی آئینہ ہی کیوں نہ حاصل کرنا پڑے!
وہ سوچتا چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس کے خیالات کی رَو ایک اور دو منزلہ بس کی گھڑگھڑاہٹ سے بہک کر منتشر ہو گئی جو اس کے عقب سے تیزی سے نکلی ، اسٹاپ پر رُکی اور پھر چل دی لیکن وہ پھر اپنے خیالات کے اس سرے کو نہ پا سکا جو بس کی اس بے ہنگم گڑگڑاہٹ میں کہیں گم ہو گیا تھا ۔
وہ تیز تیز بڑے بڑے ڈگ بھرتا چلا جا رہا تھا اور جلد ہی دو منزلہ بس کے متعلق سب کچھ بھول گیا یہاں تک کہ اس کے کانوں میں مٹھائی والے کی گھنٹی کی تیز جھنجھناہٹ گونجی ۔ مٹھائی والا اپنی چھوٹی سی گھنٹی لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے بجاتا جا رہا تھا ۔ اس کے گلے سے ایک شیشے کا بڑا سارا ڈبہ لٹکا ہوا تھا جس میں طرح طرح کی رنگ برنگی ٹافیاں خوشنما رنگین اور شفاف کاغذوں میں لپٹی ہوئی تھیں ۔ مٹھائی والے کی شخصیت اس کے لیے قطعاً اجنبی نہ تھی ، وہ روز کہیں نہ کہیں اسے اسکول کے راستے میں مل جاتا تھا ۔ مٹھائی والا ایک آنہ لے کر ایک چھوٹا سا ڈبہ آگے کر دیتا جس میں لاتعداد پرچیاں ہوتیں جن پر مختلف تعداد درج ہوتی ۔ خریدنے والا اپنے ہاتھ سے ایک پرچی نکالتا اور اس پر درج شدہ تعداد کے مطابق اسے ٹافیاں مل جاتیں ۔ اسے یاد آیا کہ ایک بار اس کے ہم سبق مسعود نے ایک پرچی نکالی تھی ، اور اسے بیس ٹافیاں ملی تھیں ۔ اور مسعود نے اسے بھی نارنجی رنگ کی ٹافیاں کھانے کو دی تھیں جن کا کھٹا میٹھا ذائقہ اسے آج بھی یاد تھا ۔۔۔۔۔ اس کے منہ میں پانی بھر آیا اور وہ تصور ہی تصور میں مٹھائی کا مزہ لیتا ہوا آگے بڑھنے لگا ۔ گھنٹی کی نغمہ بار سریلی آواز لمحہ بہ لمحہ نزدیک تر آ تی گئی اور اس کی نظریں اسی رفتار سے نیچی ہوتی گئیں ۔ اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ نظریں اونچی کر سکتا ۔ یہ بڑا مشکل کام تھا کہ وہ ایک آنہ خرچ کر دیتا ۔ اور قبل اس کے کہ اس کے ذہن و دل میں ٹافیوں کا لالچ اور انہیں حاصل کرنے کا دبا دبا سا جذبہ سر اُبھارتا ۔۔۔ وہ کنّی کاٹ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا مٹھائی والے کو اپنے بہت پیچھے چھوڑ دیا ۔ چوّنی پر اس کی گرفت بہت سخت تھی ۔
وہ باغ میں گھس گیا جو اسکول کے راستے میں پڑتا تھا اور رنگ برنگے سنگریزوں کے چکنے اور دلآویز فٹ پاتھ پر چلنے لگا ۔ کیاریوں میں کینے کے زرد، گلابی اور گہرے سُرخ پھول سورن کی چمکیلی روشنی میں عجیب کیف انگیز منظر پیش کر رہے تھے ۔ گہرے شوخ گلاب کے کنوارے پھولوں پر رنگ برنگی تتلیاں منڈلا رہی تھیں اور سورج کی روشنی میں ان کے ہزارہا رنگ بے طرح چمک رہے تھے ۔ وہ پارک کو عبور کرتا نکل آیا ۔ سامنے اسکول کا بڑا سا آہنی دروازہ روایتی دیو کی طرح مضبوطی سے کھڑا تھا ۔ اس کے کانوں میں مزدور اور شاگرد پیشہ لوگوں کے بچّوں کی بے ہنگم گالی گلوچ سے پُر آوازیں گونجنے لگیں جو وہاں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے ۔ دروازے سے ذرا ہٹ کر لاؔلو حلوائی گھی سے لبریز کڑاہی میں سے گرم گرم تازی جلیبیاں نکال نکال کر شیرے بھرے تھال میں ڈال رہا تھا ۔ وہ دھیان دیے بغیر ہی آگے بڑھ گیا ۔ مبادا ۔۔۔ مبادا ۔۔ اس نے چوّنی مضبوطی سے تھام لی ۔ لیکن اس کا ارادہ کچا ثابت ہوا ۔ جلیبیوں کی میٹھی میٹھی اشتہا انگیز خوشبو نے اس کے قدم جکڑ دیے ۔ وہ لوٹا۔۔۔ اور بڑی حسرت سے لاؔلو کو جلیبیاں بنانے تکنے لگا ۔ ذہن و دل میں پھر جنگ چھڑ گئی ، اور قبل اس کے کہ اس کے ہاتھوں میں چوّنی کی گرفت ڈھیلی پڑتی ، وہ آنکھیں بڑی قوت سے مِیچ کر یوں تیزی سے آگے بڑھنے لگا جیسے وہ کسی بات کو، کسی جذبہ کو اور آرزو کو بڑی کوشش سے بھلانے کی کوشش کر رہا ہو ، جو ہر ہر قدم پر اس کا پلّو پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹ رہے ہوں!
عین دروازے کے سامنے اسے روز کی طرح آج بھی پتنگ والا نظر آیا جس کے پاس طرح طرح کی پتنگیں تھیں ۔ گہرے رنگوں والی ، اژدھے کی مانند ، عقاب کی طرح ، جھنڈے والی اور سفید کور والے سبز پرچم والی پتنگیں جن کے درمیان سبز سبز پس منظر سے اُبھرتا ہوا ہلال اور تارہ تھا ۔ پیسے کی ایک سے لے کر تین آنے کی ایک تک ، لیکن اسے سفید کور والی سبز پتنگ بے حد پسند تھی جس کے اوپر ہلال اور تارہ بنا ہوا تھا۔ اور جب کہیں وہ بچوں بالوں کو یہ پتنگ اڑاتے دیکھتا تو اس کے ایک ایک رنگ سے حسرت و ابتہاج کی لہریں پھوٹ پڑتیں ۔ وہ دعا کرتا، ’’ خدایا ۔۔۔۔ یہ یونہی فضا میں سربلند رہے‘‘ ۔
ہلالی پرچم والی سبز پتنگ سے اس کی یہ دیوانہ وار اُنسیت بلاسبب تھی ، روز ہی اسکول لگنے سے ذرا پہلے ہلالی پرچم کے نیچے کھڑے ہو کر جب سب طلباء قومی ترانہ گاتے تو اس کا دل مسّرت سے بلّیوں اُچھلنے لگتا ۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں لیکن کم از کم اس کا دل قومی ترانے کے ان بولوں ’’ پاک سرزمین شاد باد‘‘ تک آتے آتے کسی انجانی مسّرت سے لبریز ہو جاتا ، اُسے اپنے سینے میں دودھ اور شہد کی ٹھنڈی ٹھنڈی دھاریں پھوٹتی محسوس ہوتیں اور اس کی آواز بے انتہا جوشیلی ہو جاتی ۔۔۔۔۔ سب سے نمایاں اور واضح ۔۔۔ جانے کیوں! حالانکہ وہ ان بولوں کا مقصد اور مطلب سمجھنے سے یکسر قاصر تھا ۔ پھر بھی اس کو تو قومی ترانے اورہلالی سبز پرچم سے وہ والہانہ محبّت اور شیفتگی تھی ۔۔۔ جو ماں کو اپنے بچّے سے ہوتی ہے ۔۔۔ بے لوث ۔۔۔ بے غرض اور جس کے لیے کوئی منطقی دلیل نہیں قائم کی جا سکتی ۔۔۔
’’آج کیوں نہ پتنگ لے ہی لی جائے‘‘، اس نے دل میں سوچا! ،’’ صرف تین آنے‘‘۔ مگر اس جذباتیت کا بڑھ کر اس کے ذہن نے گلا گھونٹ دیا جو جانے کب سے کسی ادھیڑ بن میں لگا تھا ۔۔۔ وہ اس احساس سے دور ہی رہنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ کیونکہ پتنگ خریدنے کے بعد اس کے پاس ایک ہی آنہ رہ جائے گا ۔۔۔ اور۔اور۔۔وہ بنا آگے سوچے بسرعت کلاس میں گھس گیا اور چوّنی احتیاط سے جیب میں رکھ لی ۔
بعض اوقات حیاتِ انسانی ایسے لمحات سے بھی ہمکنار ہوتی ہے جب انسان فوری طور پر کھلی صداقت کو قبول کرنے سے اپنے کو معذور پاتا ہے اور اس کا ذہن شک و ارتیاب کی اس درمیانی کیفیت میں مسلسل یہی سرگوشی کرتا رہتا ہے، ’’ کیا یہ سچ ہے؟ کیا زمانے میں یوں بھی ہوتا ہے؟اور کیا بسااوقات دل کی عمیق ترین گہرائیوں میں پرورش پاتے سپنے سہانے یوں مجروح بھی ہو جاتے ہیں ؟‘‘ اس کا ذہن اس بھیانک حقیقت کو فوری طور پر قبول نہیں کرتا اور اپنی دلیلوں اور شبہات سے اس کی صداقت کو جھٹلانے کی مسلسل سعی کیے جاتا ہے ۔۔۔۔ کچھ یہی کیفیت کلّو کی بھی تھی جب اس نے باری باری اپنی ساری جیبوں کی تلاشی لے ڈالی ۔ اس نے اپنے ڈیسک اور اس کے نزدیک کی ہر ہر شے کو بار بار اُلٹا پلٹا لیکن چوّنی کا کوئی اور (سراغ؟ پڑھا نہیں جا سکا) نہ ملا ، شاید وہ کہیں کھوئی یا چُرائی جا چکی تھی ۔ اس نے غصّہ اور شبہے سے اپنے نزدیک بیٹھے لڑکوں کو عجیب دُزدیدہ نظروں سے گھورا لیکن وہ اسے اتنے مطمئن اور پُرسکون دکھائی دیے کہ اس کی آواز نطق کی سرحد میں اُلجھ کر رہ گئی ۔۔۔ وہ اُن سے کچھ بھی تو نہ پوچھ سکا ۔ بے سود! اسے یقین نہ آیا ۔ چوّنی جسے بحفاظت یہاں تک لانے میں اسے اپنی کتنی ہی معصوم خواہشوں کا خون کرنا پڑا تھا ، کھوئی یا چُرائی جا چکی ہے! اور بھلا یہ کیسے ممکن تھا ۔ وہ اسے اتنی حفاظت سے اسکول تک لایا تھا ، اپنی ہر ہر اُمید کو ٹھوکر مار کے ۔۔۔ اپنے دل میں مدّت سے پرورش پاتی آرزوؤں کو قربان کر کے!
وہ اسکول کے گیٹ تک ، اور پھر وہاں سے کلاس تک کئی بار آیا گیا ۔ زمین کے چپے چپے کو بغور دیکھتے ہوئے ۔آخر اس نے اپنی یہ امید بھی چھوڑ دی ۔ آخر وہ کیسے اس موہوم سی اُمید کے سہارے اپنی تلاش جاری رکھ سکتا تھا کہ کھوئی یا چُرائی ہوئی چوّنی اسے پھر مل جائے گی ۔ اور اب ماسوا اس کے کوئی سبیل نہ تھی کہ اس بھیانک حقیقت کو اس کی تمام تر المناکیوں کے ساتھ قبول کر ہی لیا جائے !
مضمحل ، مضمحل ، بوجھل بوجھل اور تھکا تھکا وہ کسی ہارے ہوئے جواری یا شکست خوردہ شکاری کی طرح ایک خالی کمرے میں نکل آیا ۔ غم و اندوہ کی شدت کا ردعمل آنسوؤں کی شکل میں اس کی موٹی موٹی معصوم آنکھوں میں جھلکنے لگا ۔
آنسوؤں کی دھند میں ڈوبی آنکھوں کو اس نے اٹھایا تو سامنے اسے اپنا استاد نظر آیا جو اپنی بھولی ہوئی کتاب تلاش کرتا اس کمرے میں نکل آیا تھا ۔ ننھے بچے کو یوں بلک بلک کر روتے دیکھا تو اس کا دل بھر آیا ۔
’’کیوں بیٹا! کیا بات ہے؟‘‘ ، و ہ نہایت نرمی سے بولا اور جواب نہ پا کر سوالات کی بھرمار کر دی ۔ ’’کیا تم بھوکے ہو ، بچے؟ کیا تمہیں کسی سے خوف محسوس ہوتا ہے؟ کیا تمہیں موٹے سکندر خاں نے مارا ہے؟‘‘وہ سوالات کے ساتھ ساتھ اس کے سر پر شفقت اور محبّت سے ہاتھ پھیر رہا تھا ۔’’ کیا گھر پر کوئی بات ہو گئی ہے؟ تم رو کیوں رہے ہو؟ اکیلے گھر جاتے گھبراتے ہو؟ کہو بیٹا، رو نہیں ، کیا بات ہے؟ میں تمہاری مدد کروں گا ۔ اچھے بچے یوں بھلا کہیں روتے ہیں؟‘‘
اس نے بہت دھیمے سے اپنا سر ہلایا اور چند ناقابل فہم ، مبہم سے انمل بے جوڑ الفاظ نہایت مدھم آواز میں ادا کیے جن سے استاد کوئی قطعی فیصلہ نہ کر سکا ۔ پیار سے، ڈر دھمکا کر۔۔ غرض ہر ممکن طریقے سے اُستاد نے اس گہری اداسی کا راز معلوم کرنا چاہا لیکن بے سود ۔ اس کے بند لبوں میں ہلکی سی جنبش بھی نہ ہوئی ۔ آخر کلّو کھڑا ہو گیا ۔ اس کی تھکی تھکی معصوم آنکھیں غم کے بوجھ سے بندسی ہوئی جا رہی تھیں ۔ سفید سے گالوں پر ڈھلکے ہوئے آنسوؤں کے شفاف قطرے خشک ہو گئے تھے اور ان کی بجائے اب صرف ایک ہلکی سی دھند لی لکیر نظر آ رہی تھی جس طرح رات کے دھندلکے میں سفید بادل کا ایک باریک سا نشان آسمان پر پھیل جاتا ہے ۔ اس نے گال پر پھیلی ہوئی خشک آنسوؤں کی اس لمبی لکیر کو قمیض کی میلی پھٹی آستین سے پونچھا ، اور آہستہ سے کہا ۔
’’کچھ نہیں ماٹ صاحب۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں ! ‘‘جواب دیکر اس نے کمرے سے نکلنے کی جستجو میں قدم بڑھایا ہی تھا کہ اُستاد کی آواز گونجی:
’’ٹھہرو۔۔۔ بیٹے تم تنہا نہیں جا سکتے ، چلو میں تمہیں گھر چھوڑ آؤں ۔ لال کنویں کے سامنے لوہاروں والی گلی میں رہتے ہو نا؟‘‘ اس نے پیارے کلّو کے شانوں پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔ اس نے سر ہلا کر مبہم سے لہجے میں ہاں کر دی ۔ پھر اُستاد کو کچھ یاد آیا اور اس نے اِدھر اُدھر کچھ تلاش کرنا شروع کر دیا ۔ ٹیبل کے نیچے اسے اپنی کھوئی ہوئی کتاب مل گئی ۔ کلّو نے عجیب کسک اوربے بسی کا پہلو لیے کتاب کو دیکھا ۔۔۔۔تو کیا کھوئی ہوئی چیز بھی مل جاتی ہے ؟۔۔۔ پھر نادانستہ اس کے ہاتھ ایک بار پھر جیب تک اُٹھ گئے ۔ ہاتھ خالی تھے ۔۔۔ غم کی شدّت سے آنسو ایک بار پھر آنکھوں کی جھیلوں میں کنول کی طرح تیرنے لگے جنھیں اس نے بڑی صفائی سے اپنی میلی آستین میں جذب کر لیا ۔آنسو تو اس کی کم ہمتی اور شکست کی نشانی تھے اور وہ استاد کے سامنے اپنے آپ کو کیسے کم ہمت یا شکست خوردہ دیکھ سکتا تھا ۔۔۔ دھیرے قدموں سے چلتے ہوئے وہ دونوں پھاٹک تک پہنچے ۔۔۔ دیر ہوئی لڑکے گھروں کو جا چکے تھے ، اِکّا دُکّا اِدھر اُدھر آپس میں الجھ رہے تھے اور گالیوں کے درمیان ایک دوسرے کو زمین میں رگڑ دینے کے درپے تھے ۔ اچانک انہوں نے کلٗو کے ساتھ اُستاد کو جو دیکھا تو جھگڑا ٹنٹا بھول، دھول میں اٹی کتابیں کاپیاں اُٹھا اِدھر اُدھر گول ہو گئے ۔ فضا میں ہلکی ہلکی سی گرد جو اسکول کے بچے اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے ، گھل مل کر دھیمے دھیمے بیٹھ رہی تھی ۔ تھوڑی دور ہی وہ پہنچے ہوں گے کہ انہیں مٹھائی والا نظر آیا جو گھنٹی بجا بجا کر لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا رہا تھا ۔ کلّو کی نظریں غیرارادی طور پر جھک گئیں لیکن جہاں دیدہ استاد اُس کی کمزوری بھانپ گیا اور بڑے پیار سے بولا۔
’’ ٹھہرو بچّے ! ایک پرچی تو نکالو ۔۔۔ دیکھیں تو سہی کتنے قسمت کے دھنی ہو‘‘۔
خالی خالی نظروں سے وہ زمین کو گھورنے لگا اور دائیں پیر کے انگوٹھے سے مسلسل زمین کھودے گیا ۔۔۔ اسے چُپ دیکھ کر اُستاد نے خود اس کے لیے ایک پرچی نکالی ۔
’’ آ ۔۔۔ ہا ۔۔۔ دیکھو بچے تم کتنی دھنی رام ہو ۔۔۔ ‘‘ وہ مسکرایا ، ’’ صرف ایک آنے میں سات (7 )ٹافیاں ۔۔۔‘‘
’’ اوہو ۔۔۔ اگر تم جیسے دو چار اور آ جائیں تو اپنا پاٹیا ہی گل ہو جائے ۔۔۔ خوانچہ ہی لُٹ لٹا کر رہ جائے ‘‘۔ مٹھائی والا ہنستے ہوئے بولا ۔ وہ ہمیشہ ہر جیتنے والے سے یہی کہتا تھا لیکن اس کی ننھی منّی گشتی دکان جوں کی توں سالم تھی ، کبھی لٹنے کی نوبت نہ آئی تھی ۔ اس صریح جھوٹ پر کلّو کو عجیب سا لگا ۔ لیکن اس نے ان تمام باتوں میں کوئی دلچسپی نہ لی اور نہ ہی اس مذاق سے محظوظ ہوا ۔ اس نے ٹافیاں قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن استاد نے زبردستی جیب میں ٹھونس دیں ۔ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی ۔ دونوں خاموشی سے چلتے رہے یہاں تک کہ بس اسٹاپ آ گیا ۔ اُستا د اس کا شانہ ہلاتے ہوئے بولا:
’’ بہتر ہے ہم لوگ بس پر چلیں ۔ کیوں، ٹھیک ہے نا؟‘‘
وہ گُم صُم بے تعلق کھڑا رہا ۔ جیسے وہ بغیر ارادے اور رائے کا بُت تھا ۔ نہ اس نے بس میں سوار ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ، نہ بیٹھنے سے انکار! محبوب، دو منزلہ بس گھڑگھڑاتی ہوئی اسٹاپ پر آ رُکی ۔ وہ دونوں بالائی منزل کی اگلی نشستوں پر بیٹھ گئے ۔ بس چل دی اور اب کھمبوں پر لگے ہوئے ’’مرتبان ‘‘ اس کے بائیں ہاتھ کی پہنچ سے بہت نزدیک تھے مگر اس نے عجیب بیزاری سے نگاہیں پھیر لیں ۔ اگر وہ چاہتا تو بآسانی اُستاد سے نظریں بچا کر اپنی دیرینہ خواہش پوری کر سکتا تھا ۔ لیکن نہیں ۔ بس سڑک پر پھیلے ہوئے اژدہام ، انبوہ میں سے راستہ بناتی ہوئی آگے اور آگے بڑھتی ہی رہی۔ صاف ستھرے فلیٹ اس کے سامنے تھے ۔ لیکن اس نے ایک نگاہِ غلط انداز بھی ان پر نہ ڈالی ۔ بس وہ اُداس سا گہرے سکوت کے اتھاہ ساگر میں ڈوبا ہوا دُور خلاؤں میں خالی خالی نظروں سے گھورنے لگا ۔
اُستاد اس کی اس بے نام اداسی کی وجہ نہ جان سکا اور اس کا دل بہلانے کے لیے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتا رہا لیکن اس نے کسی دلچسپی یا خوشی کا اظہار تک نہ کیا سوائے اس کے کہ کبھی ہلکے سے سر جھٹک دیتا یا نہایت ہی مبہم انداز میں مسکرا دیتا ۔ بس نیلم پری کے دیس ۔۔۔ کو نونٹ کی عظیم سروقد دیواروں کے نزدیک سے بھی گزری مگر ایک طائرانہ سی نظربھی اس نے نہ ڈالی ۔
منزل ِ مقصودپر پہنچ کر بس رُکی تو وہ دونوں اُتر آئے ۔ وہ سر جھکائے اُستاد کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا ۔ اب اُستاد بھی شاگرد کی اداسی کے سبب اداس ہو گیا تھا اور اس لیے کہ وہ اس اُمیدوں اور آرزوؤں سے بھرپور جوان دل میں گہری اداسی کی جگہ دلچسپی اور خوشیوں کی جوت جگانے میں سراسر ناکام رہا ہے اور لڑکے کے چہرے سے عیاں تھا وہ اداس ضرور ہے لیکن اس اداسی کا محرّک خوف ہرگز نہیں اور نہ چوّنی کے کھوئے یا چرائے جانے کا ہی غم ہے ، نہ تمام تمام دن اپنے بھوکے رہنے کی تکلیف!بلکہ اس اداسی کے عقب میں تو وہ عوامل کارفرما ہیں جنھوں نے غلط وقت پر ایک حادثے کو جنم دیا ہے اور یوں اس کے معصوم منصوبے کو تکمیل سے پہلے ہی تہہ و بالا کر دیا ہے ۔ وہ منصوبہ جس کے لیے اس نے اپنی دیرینہ معصوم خواہش کو پسِ پشت ڈال دیا تھا ۔ وہ منصوبہ جو اس نے گھر سے لیکر اسکول تک راستہ میں بہت سوچ سوچ کر بنایا تھا ، وہ تو کچھ اور ہی تھا ۔ اسے اپنے بھوکے رہنے کا کوئی غم نہ تھا بلکہ اس کے تصور میں تو بوڑھی دادی کا جنم جنم سے بوجھل چہرا گردش کر رہا تھا جو رات بھر بھوکی سوئی تھی اور صبح اپنے حصے کی چائے بھی اسی کی پیالی میں انڈیل دی تھی ۔۔۔ اور اب اس حادثے نے اس کے شیش محل چکنا چُور کر دیے تھے ۔۔۔۔ یوں جیسے منزل کی جانب آخری قدم رکھتے سمے کوئی طاقتور ہاتھ مسافر کو اُٹھا کر پھر اس جگہ لا ٹپکے جہاں سے اس نے آغازِ سفر کیا تھا یا جیسے راستے کے تمام خطرات طے کر کے کوئی کشتی ٹھیک ساحل سے ذرا پہلے ٹوٹ پھوٹ جائے!
اب کیا ہو گا؟ اس کی آرزو کیسے پوری ہو گی۔۔۔؟ اور وہ منصوبہ؟
’’ لو، اب میں چلتا ہوں ۔۔ تم سڑک پار کرتے وقت ذرا چوکنّے رہنا ‘‘۔
لڑکے نے نیچی نظروں سے سر ہلا کر اُستاد کے احسان کا شکریہ ادا کیا ۔
استاد جانے کے لیے مڑا ۔ چند قدم چلا ، لیکن کسی فوری جذبہ سے مغلوب ہو کر پلٹا ، اپنے بٹوے سے ایک چوّنی نکالی اور اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے نہایت نرمی سے بولا۔
’’ یہ تم لے لو ، مجھے کلاس کے باہر پڑی ملی تھی ۔ نہ جانے کس لڑکے کی ہو گی ، بہرحال ابھی تو تم رکھو ۔ کل میں معلوم کر کے دیدوں گا‘‘۔
’’ جی ، جی ۔ یہ میری ہے! ‘‘، اس نے فرطِ مسّرت سے ہکلاتے ہوئے کہا، ’’ صبح کھو گئی تھی ‘‘۔ اس کے لبوں پر طویل چمکیلی مسکراہٹ پھیل گئی جیسے اسے اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی ہو ۔ اس نے گھوم کر احسانمندی اور تشکر سے استاد کو دیکھنا چاہا مگر وہ بھیڑ میں کہیں گم ہو چکا تھا ۔
استاد کی نصیحت کے باوجود اس نے سٹرک تقریباً دوڑ کر عبور کی ۔ سامنے سے وہی پتنگ والا آ رہا تھا ۔ نزدیک پہنچتے ہی پتنگ والے نے اسے رُکنے کا اشارہ کیا ۔ مگر وہ اپنی ترنگ میں آگے دوڑ گیا ۔۔ یکلخت وہ کسی فوری جذبے سے مغلوب ہو کر پلٹا اور پتنگ والے کے پاس آ کر بولا: ’’کیا؟‘‘
’’میں تمہیں یہ ہلالی پرچم والی پتنگ صرف دو آنے میں دے سکتا ہوں! ‘‘
اس نے عجیب نظروں سے اپنی محبوب پتنگ کو دیکھا اور چھُوا بھی ۔ اور اسے محسوس بھی کیا ۔ لیکن پتنگ والا حیران تھا ۔ اس وقت اس کی آنکھوں میں پتنگ کے لیے ایک دبی سی خواہش کے علاوہ کچھ نہ تھا ۔ اس کی جوان آنکھیں کسی لازوال، اندرونی مسّرت سے سرشار تھیں۔
’’نہیں ۔۔۔۔ نہیں نہیں نہیں ۔۔۔ آج تو میں اسے ایک پیسے میں بھی نہ لوں گا‘‘ ، یہ کہتے ہوئے وہ بڑی تیزی سے بھاگا اور سُرعت سے سامنے والے ملباری کے سستے سے ہوٹل میں گھس گیا ۔۔ واپسی پر اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ سا جھول رہا تھا ۔ اور آنکھیں بے حد چمک رہی تھیں ۔
گھر پہنچتے ہی وہ تقریباً دوڑتے ہوئے باورچی خانے میں پہنچا ۔ دادی اس کے کومل قدموں کی مانوس آہٹ پا کر اس سے ملنے کے لیے اٹھی ۔ پیکٹ دادی کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے اس نے بڑی شدّت سے دادی کو بھینچ لیا ۔ جیسے صدیوں کے انتظار کے بعد سعادت کا یہ ایک لمحہ جس کے لیے اس نے تپتے صحرا میں کڑے کوس طے کیے ہیں ، اس کی پہنچ سے دور نہ پھسل جائے ۔ دونوں ایک دوسرے میں گم چمٹے رہے ۔
پیکٹ کھولنے پر جب دادی کو گرم گرم کھانے کی سوندھی سوندھی اشتہا انگیز خوشبو آئی تو وہ چونک اٹھی!
’’ارے۔۔۔ یہ کیا۔۔۔؟‘‘
’’ماں۔۔ تمہارے لیے کھانا ۔۔۔ تم بھوکی ہو نا۔۔ بولو ۔۔۔ وہ چوّنی تھی نا ۔ میں نے اس سے ۔۔۔۔‘‘
وہ جملہ مکمل کیے بنا ہی پھر دادی سے چمٹ گیا ۔ دادی نے محبّت سے اس کی پیشانی چوم لی ۔ اس وقت اس کی بوڑھی آنکھوں میں بھوک، افلاس اور غربت کے لرزاں سایوں کے عقب میں مسّرت اور خوشی کا انوکھا نُور تھا ۔