خلاصۂ فاؤسٹ: سید عابد حسین (مرتب: عاصم رضا)
نوٹ: گوئٹے کی تصنیفات میں سے ’’فاؤسٹ‘‘ کے پہلے اردو مترجم کی حیثیت سے سید عابد حسین کا نام کسی قسم کے تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ڈاکٹر سید عابد حسین نے سب سے پہلے 1931ء میں فاؤسٹ کے پہلے حصے کا نثری ترجمہ کیا نیز گوئٹے کے پورے ناٹک کا خلاصہ تحریر فرمایا جس کی علمی، ادبی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر، اس کو ازسرنو پیش کیا جا رہا ہے۔ فاضل مرتب نے صرف اس قدر تصرف کیا ہے کہ موجودہ قاری کا لحاظ کرتے ہوئے مشکل الفاظ کے معانی، رموز اوقاف اور املاء کو استعمال کیا ہے۔
فاؤسٹ کے مختلف حصے برسوں کے تفاوت سے لکھے گئے اور بعض ایسے اجزاء بھی اس میں شامل کر دیے گئے جو قصے میں کسی طرح نہیں کھپتے ۔ اس سب سے علاو ہ اور پیچیدگیوں کے ایک دِقت یہ پیدا ہو گئی کہ واقعات میں تسلسل قائم نہیں رہا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پڑھنے والے قصے کو اچھی طرح نہیں سمجھتے اور ان کی طبعیت اس کی صوری بے ترتیبی سے اس قدر الجھتی ہے کہ وہ معنوی خوبیوں کا پورا لطف نہیں اٹھا سکتے ۔ اس کے علاوہ ہم (مصنف ) فی الحال صرف پہلے حصے کا ترجمہ شائع کر رہے ہیں جسے ختم کرنے کے بعد انجام معلوم کرنے کی خلش باقی رہتی ہے ۔ اس لیے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ دونوں حصوں کے مضامین اس طرح بیان کر دیں کہ پورے قصے کا ایک مسلسل اور مربوط خاکہ پڑھنے والے کے پیش ِ نظر رہے ۔ اس میں ہم حتی الامکان اختصار کو مدنظر رکھیں گے ، لیکن فاؤسٹ بہت بڑی نظم ہے اور پھر فلسفیانہ نظم ، جس کا خلاصہ لکھنے میں اہم مطالب کی تفسیر کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس لیے اگر کسی قدر طول ہو جائے تو امید ہے کہ پڑھنے والے صبر سے کام لیں گے ۔
کتاب کی ابتدا میں ایک دل نشیں اور دل گداز تہدیہ (تحفہ) ہے جس میں شاعر (گوئٹے) اپنے جوانی کے دوستوں کو یاد کرتا ہے ، جنہیں وہ فرینکفرٹ میں اور وائمار (Weimar)کے قیام کے ابتدائی زمانے میں فاؤسٹ کا پہلا مسودہ سنایا کرتا تھا ۔ 1897ء میں جب اس نے ’’ تہدیہ ‘‘لکھا ، یہ پیار اور اخلاص کی صحبتیں منتشر ہو چکی تھیں ۔ اس کے اکثر دوست ’’ چین کی گھڑیوں کی آرزوئیں کرتے کرتے تقدیر سے مایوس ہو کر ‘‘ اُسے جدائی کا داغ دے چکے تھے ۔ اس لیے بندۂ محبت ، پیکر ِ وفا، گوئٹے کو پہلا حصہ ختم کرتے وقت بے اختیار وہ روحیں یاد آتی ہیں جنہیں وہ’’جوانی میں اپنا گیت سناتا تھا ‘‘ اور جو اب ’’اس نغمے کے آخری سروں کو نہیں سن سکتیں ‘‘۔ ان ہی کے نام پر وہ اپنی شاعری کے سب سے بڑے کارنامے کو معنون کرتا ہے ۔ تقدیر کا کھیل دیکھیے کہ فاؤسٹ اب بھی شائع نہ ہو سکا اور گیارہ برس بعد (1808ء میں ) جب اس کے چھپنے کی نوبت آئی تو گوئٹے کا آخری دلی دوست ’’شلر ‘‘ (Schiller: 1759 – 1805)بھی دنیا سے رحلت کر چکا تھا ۔ جب بوڑھے شاعر نے کتاب کو مطبع (چھاپہ خانے/پریس ) میں بھیجنے سے پہلے اس تہدیے (تحفے) پر نظرثانی کی ہوگی تو اس کے قلب کے لیے اِن الفاظ کا سوزوگداز اور بھی بڑھ گیا ہو گا، ’’جو چیزیں میرے پاس ہیں وہ دور نظر آتی ہیں اور کھوئی ہوئی چیزیں حقیقی معلوم ہوتی ہیں‘‘ ۔
’’تہدیے‘‘ کے بعد تماشاگاہ کا تمہیدی سین (منظر) ہے جس میں گوئٹے ظریفانہ انداز میں اپنے ناٹک کی تقریب کرتا ہے ؛ منیجر ، شاعر اور مسخرے تینوں کے پردے میں خود گوئٹے گفتگو کر رہا ہے ۔ وہ اپنی طبیعت کے تین پہلو دکھاتا ہے جن کے اتحادِ عمل سے یہ ناٹک انجام کو پہنچا ۔ منیجر کی حیثیت سے گوئٹے اُن لوگوں کو خوش کرنے کی فکر میں ہے جو تماشے میں محض دل بہلانے آتے ہیں ۔ وہ انہیں ’’لکڑی کے تنگ گھروندے(گھر) کے اندر ساری کائنات کا نقشہ دکھانا ‘‘ اور ’’آسمان سے زمین ، زمین سے پاتال تک کی سیر کرانا‘‘ چاہتا ہے ۔ شاعر کی حیثیت سے وہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ عوام کے مذاق کی پروا نہ کرے اور اُن ’’اچھوتے ‘‘ مضامین کو جو اُس کے ’’قلب کی گہرائی ‘‘ میں پیدا ہوتے ہیں ، ’’موجودہ لمحے کی اشتہا(بھوک) کا لقمہ ‘‘ نہ بننے دے بلکہ ’’برسوں کے ریاض کے بعد مکمل صورت میں ظاہر کرے ‘‘ ۔ اُسے آرزو ہے کہ’’ربابِ زندگی کے الجھے ہوئے تاروں کو سلجھا کر اور کَس(باندھ) کے نغمہ حیات میں روانی پیدا کرے اور انفرادی روح کے سُر کو کائنات کے مہاسُر(عظیم ترین سر) سے ملا کر ایک ہم آہنگ اور دل کش راگ سنائے‘‘ ۔ مسخرے کی زبان سے وہ منیجر اور شاعر کی بحث کا فیصلہ کرتا ہے ۔ یہ دونوں عناصر ضروری ہیں لیکن انہیں شعوری مقاصد کی حیثیت سے پیش نظر رکھنے سے سچا ڈرامہ وجود میں نہیں آ سکتا ۔ صحیح راستہ یہ ہے کہ شاعر اپنے فطری وجدان کی مدد سے انسانی زندگی کا مشاہدہ کرے اور اسے اپنا موضوع بنا لے ۔ پھر ’’ عاشقی کے سودے‘‘ کی طرح ’’ شاعری کا دھندا‘‘ خود بخود چل نکلے گا اور ایسا مرقع تیار ہو جائے گا ، ’’جس میں گوناگوں تصویریں ہوں مگر روشنی کم ؛ غلطیوں کا انبار(ذخیرہ) اور حقیقت کی ذرا سی چنگاری‘‘ ۔ ’’اسی نسخے سے وہ نادر شراب بنتی ہے جس سے سرور اور تقویت حاصل ہو‘‘ ۔
اصل قصے کے شروع ہونے سے پہلے ’’ آسمان کا تمہیدی سین (منظر)‘‘ ہے ۔مقربین ملائکہ ، کائنات کی تعریف اور خالق کائنات کی تہلیل(لا اِلہ الاّ اللہ کہنا) میں مصروف ہیں۔ شیطان بھی بارگاہ ایزدی(دربارِ خداوندی) میں حاضر ہے اور انسان کی خود پسندی اور گمراہی پر خندہ زن (ہنستا) ہے ۔ صدائے غیبی اُس کی سرزنش (ڈانٹ ڈپٹ)کے لیے فاؤسٹ کا ذکر کرتی ہے جو باوجود شک اور تاریکی میں مبتلا ہونے کے خدا کی بندگی کرتا ہے ۔ شیطان جواب دیتا ہے کہ یہ شخص تو اوروں (دوسروں)سے بھی بدتر ہے ۔ اس کے حوصلوں کا تو کچھ ٹھکانا ہی نہیں ۔ ’’وہ تو آسمان سے اُس کے روشن ترین ستارے مانگتا ہے اور زمین سے بہترین روحانی نعمتیں ۔ قریب و بعید کی کوئی چیز ایسی نہیں جس سے اس کے اضطراب ِ قلب کو تسکین ہو‘‘ ۔ شیطان کا دعویٰ ہے کہ اگر اسے اجازت ہو تو وہ فاؤسٹ کو بہت آسانی سے بہکا سکتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ، ’’جب تک وہ دنیا میں ہے تجھے بہکانے کی ممانعت نہیں ۔ جب تک انسان راہِ طلب میں ہے اس کا بھٹکنا لازمی ہے‘‘ ۔(نیز) ’’انسان کا دستِ عمل جلد سو جاتا ہے اور اسے آرام کی ضرورت ہوتی ہے ، اس لیے ہم اُسے تیرا سا مصاحب(ساتھی) دیتے ہیں ، جو اسے بہلائے ، ابھارے اور آسمانی قوت ِتخلیق دے‘‘ ۔
اب اصل ناٹک شروع ہوتا ہے ۔ پہلا منظر فاؤسٹ کا کمرہ ہے ۔ فاؤسٹ ایک ادھیڑ عمر کا پروفیسر ہے جس نے اپنی جوانی طلبِ علم میں صرف کی ہے، لیکن علم سے اُسے تسکین حاصل نہیں ہوئی ۔ وہ نہ حسن و عشق کے مزے سے واقف ہے نہ مشاہدۂ فطرت کے کیف سے اور نہ لذت ِ عمل سے ۔ ان فطری رجحانات کے رکنے کا نتیجہ یہ ہے کہ اُس کی زندگی بجائے ہم آہنگِ وحدت کے، ہنگامۂ انتشار بن کر رہ گئی ہے ۔ اُس کے دل میں اب تک صرف ایک آرزو تھی اور وہ یہ تھی کہ علمی تحقیق و تجربے کے ذریعے کائنات کی حقیقت معلوم کرے ۔ اُس نے اپنی آدھی عمر اس میں صرف کر دی ، راحت و مسرت کو اس پر قربان کر دیا لیکن آخر میں یہ معلوم ہوا کہ ’’علم انسان کی پہنچ سے باہر ہے‘‘ ۔ اب اس کے دل پر یاس و حرمان (ناامیدی و اداسی ) کا دہرا بوجھ ہے : ایک تو یہ کہ طلبِ علم میں اُس کی سعی لاحاصل ثابت ہوئی ، دوسرے یہ کہ محض علم، انسان کی روحانی تسکین کے لیے کافی نہیں ۔ اب اُس کی روح، اصل میں عقیدت اور عمل کے لیے تڑپ رہی ہے لیکن اُسے خود اس کا احساس نہیں ۔ اُسے شعوری حیثیت سے صرف یہ خلش (بے چینی) محسوس ہوتی ہے کہ کائنات کا بھید معلوم کرنے کے لیے کوئی نزدیک کا راستہ ڈھونڈے ۔ جو کام ادراک سے نہ ہو سکا، وہ اب فاؤسٹ تخیل سے لینا چاہتا ہے ۔ یوں تو تخیل کا موضوع آرٹ بھی ہے جس میں انسان وجدانی قوتوں کی صحیح تربیت کر کے شاہدِ حقیقت کا مشاہدہ ایک پیکر ِ جمال کی حیثیت سے کرتا ہے ۔ لیکن اُس کی بے صبر طبیعت بجائے تخیل کی اُس دور دراز راہ کے جہاں وہ عقل کو رہنما بنا کر چلتا ہے ، اس دلفریب پگڈنڈی کو اختیار کرتی ہے جس سے انسان بظاہر چشمِ زدن میں منزل ِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے یعنی وہ بجائے آرٹ کے، جادو کی مدد سے کائنات کا بھید معلوم کرنا چاہتا ہے ۔ وہ کہتا ہے ، ’’میں اب فنِ ساحری کا مطالعہ کرتا ہوں ۔ شاید اسی طرح میں کائنات کے اندرونی نظام سے واقف ہو جاؤں ، مبدائے حیات (زندگی کی اصل ) اور قوت ِ خلق کا مشاہدہ کروں اور الفاظ کی خردہ فروشی پر لعنت بھیجوں ‘‘۔ وہ ایک جادو کی کتاب میں ’’ کائناتِ اکبر‘‘ کا نقش دیکھتا ہے ۔ اس کا اثر فوری اور حیرت انگیز ہے ۔ اُس کی آنکھوں سے پردے اٹھ جاتے ہیں اور سارا نظامِ کائنات چلتی پھرتی تصویروں کی طرح نظر آتا ہے ۔ وہ بے اختیار چلا اٹھتا ہے ، ’’ سبحان اللہ ! ہر جزو کس ترتیب کے ساتھ کُل کی تعمیر میں صرف ہوا ہے اور ہر ذرے کی حرکت اور زندگی کس خوش اسلوبی سے دوسرے ذروں سے وابستہ ہے ۔ وہ دیکھو اجرام سماوی(ستارے اور سیارے) کس طرح تگاپو(دوڑدھوپ) میں مصروف ہیں اور ایک دوسرے سے کسبِ نور کر رہے ہیں۔ ا ُن کی روشن کرنیں آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہیں اور شبنمِ سعادت برسا رہی ہیں ۔ ہر ایک کی نوائے زندگی نغمۂ کائنات سے ہم آہنگ ہے ‘‘۔ لیکن معاً (ایک دم ) اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ طلسمی منظر ، یہ تخیل ِمحض کا کارنامہ، ایک سراب ہے جسے ایک لمحے سے زیادہ قرار نہیں ۔ اس کی تشنہِ دیدار (دیدار کی پیاسی)روح اس کو دیکھ کر بجائے تسکین پانے کے، اور ( مزید ) بے قرار ہو جاتی ہے ۔ وہ یاس و حسرت کے لہجے میں کہتا ہے ، ’’کتنا دلفریب تماشا ہے ! مگر افسوس محض تماشا! اے نامحدود(لامحدود) فطرت ، میری نظر میں تیری بساط بس اتنی ہی ہے ۔ اے حیاتِ کائنات کے سرچشمو! جن پر زمین و آسمان کا دارومدار ہے ، میں تمہیں سینے سے لگاؤں ۔ بتاؤ، تم کہاں ہو ؟ میرا تشنہ ِ وصال سینہ تمہاری طرف کھنچ رہا ہے ۔ ہائے ! تم اُبلو ، تم سیراب کرو، اور میں یوں پیاسا رہوں؟‘‘
اب ’’فاؤسٹ ‘‘ بے دلی سے (جادو کی ) کتاب کے ورق اُلٹتا ہے ۔ دفعتاً روحِ ارض کا نقش نظر آتا ہے ۔ اس کا خود فریب دل اسے یہ سمجھاتا ہے کہ اگر ساری کائنات کا بھید معلوم کرنا انسان کے بس کی بات نہیں تو کم سے کم کرۂ ارض اور انسانی زندگی کی حقیقت ضرور کھل جائے گی ۔ اس کی دبی ہوئی امید پھر اُبھر آتی ہے ، وہ’’روحِ ارض‘‘ کو مخاطب کر کے کہتا ہے : ’’ اے کرۂ ارض کی روح ، تو مجھ سے زیادہ قریب ہے ۔ تجھے دیکھتے ہی میری قوتیں اُچھلنے لگیں اور مجھے ایک نئی شراب نے مست کر دیا ۔ میرے دل میں یہ ہمت پیدا ہوگئی کہ دنیا کی جوکھم (تکلیف) اپنے سر لے لوں اور زندگی کے راحت و الم کا بوجھ اٹھا لوں ، طوفانوں کا مقابلہ کروں ، کشتی کے ڈوبنے کی آواز سے نہ ڈروں ‘‘ ۔ لیکن تخیل کے نشے میں زندگی کے راحت و الم کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار ہو جانا اور بات ہے اور طوفانِ حیات کو دوبدو دیکھنے کے بعد اُس کا مقابلہ کرنا اور چیز ہے ۔ فاؤسٹ کا خام کار (ناتجربہ کار) ذہن جو ابھی زندگی کی خیالی تصویروں سے کھیل رہا ہے، جو ہنوز عقیدت کے مزے سے ، محبت کی چاشنی سے ، عمل کے ذوق سے ناآشنا ہے ، روحِ ارض کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ۔ جب وہ آتشیں پیکر یکایک ظاہر ہوتا ہے تو فاؤسٹ تاب ِ نظارہ نہیں لا سکتا ۔ پھر بھی اُسے دھندلا سا احساس ہے کہ اُس کے اور روحِ ارض کے مابین کوئی رشتہ ضرور ہے ۔ وہ اس کی طرف خطاب کر کے کہتا ہے ، ’’اے وسعت ِ کائنات میں پرواز کرنے والی ، اے سرگرمِ عمل روح ، مجھ میں اور تجھ میں کتنی مشابہت ہے! ‘‘۔ ’’روحِ ارض ‘‘ جانتی ہے کہ اس مغرور انسان کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اس کی روح میں بالقوہ (potentially)وہ تمام عناصر موجود ہیں جو ’’روحِ ارض‘‘ میں ہیں ، لیکن ان عناصر کو قوت سے فعل میں لانے کے لیے اُسے اپنے نفس کی توسیع اور تہذیب کرنا ہے ، زرِ خام (نخالص سونا) کو زندگی کی آگ میں تپا کر کندی ( خالص ) بنانا ہے ، تب جا کر وہ مخفی مشابہت جو دونوں روحوں میں ہے ، ظاہر ہو سکتی ہے ۔ ابھی تک فاؤسٹ کی روح نامکمل اور اُس کی نظر نارسا (بے تاثیر) ہے ، اس لیے اُسے جو چیز دکھائی دیتی ہے وہ ’’روحِ ارض‘‘ کا جلوۂ ناتمام ہے ۔ یہ پراسرار تصویر، فاؤسٹ کی نظر کو خیرہ کر کے ، اُس کی خودپسندی کو پامال کر کے یہ کہتی ہوئی غائب ہو جاتی ہے ، ’’ تو اُس روح سے مشابہ ہے جس کا تو ادراک کر سکتا ہے ، مجھ سے نہیں ‘‘ ۔ فاؤسٹ اس تلخ جواب کو سن کر مایوسی ، شرم اور ذلت سے بدحواس ہو جاتا ہے ۔ ابھی وہ سنبھلنے بھی نہیں پاتا کہ اُس کا مددگار شاگرد واگنر(Wagner) داخل ہوتا ہے ۔ یہ ایک سیدھا سادا طالب علم آدمی ہے جو دن رات مطالعے میں غرق رہتا ہے اور محنت ، دیدہ ریزی (باریک بینی) ، صبرواستقلال سے پرانی کتابوں کو چھان کر علمی مواد اکٹھا کرتا ہے جس سے وہ خود کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا لیکن کوئی اور شخص جو بہتر دل و دماغ رکھتا ہو ، اُسے اعلیٰ مقاصد کے لیے استعمال کر سکتاہے ۔ واگنر صرف محقق ہے ۔ اسے نہ حکیم ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ اس کی آرزو ۔ وہ اسی پر قانع (مطمئن )ہے کہ بالواسطہ سرِ کائنات (رازِ کائنات) کے حل کرنے میں جو حقیر خدمت اس سے بن آئے ، اسے انجام دے ۔ آگے چل کر معلوم ہو گا کہ اس وفادارانہ مدد سے فاؤسٹ کو کتنا فائدہ پہنچا ۔ وہ اپنے استاد کا بے حد معتقد ہے اور اس سے استفادہ کرنے کے کسی موقع کو ہاتھ سے دینا نہیں چاہتا ۔ اس نے فاؤسٹ کو ’’روحِ ارض‘‘ سے باتیں کرتے سنا تو سمجھا کہ وہ کوئی یونانی المیہ پڑھ رہا ہے ۔ اگرچہ اب آدھی رات گزر چکی ہے اور درس و تدریس کا کوئی وقت نہیں لیکن اسے خطابت کا اتنا شوق ہے کہ تحت ِ لفظ کا طریقہ اپنے استاد سے سیکھنے چلا آیا ۔ فاؤسٹ کو اس کا آنا نہایت ناگوار ہوتا ہے ۔ دونوں میں فنِ خطابت اور علمی تحقیق کے متعلق جو گفتگو ہوتی ہے اس میں فاؤسٹ بے چینی اور اصطراب کے عالم میں اُسے جھڑکتا ہے اور چاہتا ہے کہ کتابی علم کی طرف سے جو بے اعتمادی اسے پیدا ہو گئی ہے ، وہ واگنر کے دل میں بھی پیدا کرے ۔ لیکن واگنر اپنے محدود خیالات کے حلقے میں اس قدر مطمئن ہے کہ اُس پر اس تلخ نوائی(بدکلامی ) کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ وہ سمجھتا ہے کہ استاد کی طبیعت اس وقت بے کیف(بدمزہ) ہے اس لیے دوسرے دن صبح آنے کی اجازت لے کر چلا جاتا ہے ۔
اب فاؤسٹ اکیلا ہے ۔ اُس کے دل پر حرمان و یاس کے خیالات نرغہ(گھیراؤ) کر لیتے ہیں ۔ مایوسی موت کا دروازہ ہے ۔ فاؤسٹ کی نظر ایک شراب کی پرانی شیشی پر پڑتی ہے ، جس میں آب ِزہر(زہر یلا پانی) بھرا ہے ۔ اسے دیکھ کر اس کے دل میں اطمینان و مسرت کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے چند قطرے اسے کشمکش ِ حیات سے نجات دے دیں گے اور مرنے کے بعد اُس پر رازِ کائنات خو د بخود منکشف ہو جائے گا ۔ وہ شیشی کو اٹھا کر ہونٹوں سے لگاتا ہے ۔ قریب ہے کہ زہر اُس کے حلق سے اتر کر رگ و پے میں سرایت کر جائے کہ دفعتاً گھنٹوں کی آواز اور فرشتوں کا نغمہ سنائی دیتا ہے ۔ صبح ہو گئی ، ایسٹر(Easter: 12 April) کا دن شروع ہو گیا ۔ ارض و سما (دنیا اور آسمان) میں مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے کی یادگار میں خوشی منائی جا رہی ہے ۔ فاؤسٹ کے دل میں عقیدت کی کھیتی سوکھ چکی ہے ، لیکن جڑیں ابھی باقی ہیں ۔ اس نغمۂ جانفزا (مسرت بخش گیت) کو سن کر بچپن کی بھولی بھالی خوش اعتقادی اور مذہبی درد کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔ اس کے دل کی بے چینی دور نہیں ہوتی ، مگر کچھ دیر کے لیے رک جاتی ہے ۔ وہ زہر کے شیشے کو یہ کہہ کر رکھ دیتاہے ، ’’ بجے جا، اے آسمان کے نغمۂ شیریں کی گت(سازوں کے بجنے کی طرز)! میری آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ، مجھے پھر زمین نے اپنا کر لیا ‘‘ ۔
جو عارضی سکون فاؤسٹ کے دل میں پیدا ہوا ہے وہ دن بھر باقی رہتا ہے ۔ وہ واگنر کے ساتھ شہر کے باہر سیر کرنے جاتا ہے ۔ سارا شہر ایسٹر کی تعطیل (چھٹی )منا رہا ہے ۔ مردوں اور عورتوں کے گروہ تنگ و تاریک گلیوں سے نکل کر میدان میں سیلاب کی طرح اُمڈ آئے ہیں ۔ گاؤں والے درختوں کے نیچے جمع ہیں اور ناچ رنگ کا لطف اٹھا رہے ہیں ۔ واگنر، کتاب کا کیڑا، انسانوں کے مجمع سے گھبراتا ہے ۔ خصوصاً دیہاتیوں کے بھدے ناتراشیدہ (غیرمہذب) مذاق سے اُسے سخت کوفت ہوتی ہے ۔ مگر فاؤسٹ کے دل میں شک اور اضطراب کی تہوں کے نیچے انسانی ہمدردی کا جذبہ تھوڑی دیر کے لیے بیدار ہو گیا ہے ۔ اُسے اپنا بچپن کا زمانہ یاد آتا ہے جب وہ وبا ءکے زمانے میں اپنے باپ کے ساتھ یہاں آ کر بیماروں کا علاج اور ان کی خدمت کیا کرتا تھا ۔ گاؤں والے احترام و محبت سے اس کا استقبال کرتے ہیں ، اس کے اور اس کے باپ کے احسانوں کا اعتراف کرتے ہیں ۔ تھوڑی دیر ان لوگوں کے مجمع میں ٹھہر نے کے بعد وہ واگنر کو ساتھ لے کر آگے بڑھتا ہے ۔ واگنر اُسے اس کی ہردلعزیزی پر مبارک باد دیتا ہے ۔ لیکن فاؤسٹ کے دل میں دھوکوں کا طلسم ٹوٹ چکا ہے ۔ وہ واگنر کو بتاتا ہے کہ نہ اُس کا باپ اُن تعریفوں کا مستحق تھا اور نہ وہ خود ہے ، بلکہ ان دونوں کے سر(ذمہ) ہزاروں غریبوں کا خون ہے ۔ اُس کا باپ الکیمیا کے مرکبات سے بیماروں کا علاج کرتا تھا، جس سے بہت سے لوگ بے موت مر جاتے تھے مگر بیچارے گنوار(ان پڑھ) سادگی اور جہالت کی وجہ سے اُس کے معتقد تھے اور آج تک ہیں ۔ اُن کی تعریف فاؤسٹ کے کانوں کو طعن و تشنیع(لعنت ملامت) معلوم ہوتی ہے ۔
کچھ دورچلنے کے بعد دونوں ایک پتھر پر بیٹھ کر سستاتے ہیں ۔ فاؤسٹ کے دل میں انسان کی ظلمت اور جہالت کا احساس تازہ ہو گیا ہے اور یہ آرزو پھر اُبھر آئی ہے کہ پرندوں کی طرح فضا میں پرواز کرے اور فطرت کے رنگا رنگ جلوؤں کا قریب سے مشاہدہ کرے ۔ واگنر کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جب انسان گھر بیٹھے صفحۂ کتاب پر ساری کائنات کی سیر کر سکتا ہے تو اُس کے دل میں یہ وحشت کی لہر کیوں اُٹھے ۔ فاؤسٹ کو اس کی سادگی اور یک رنگی پر رشک آتا ہے ۔ وہ کہتا ہے ، ’’ تمہارے دل میں ایک ہی لہر ہے ؛ خدانہ کرے دوسری اٹھے ۔ آہ! میرے سینے میں دو روحیں ہیں اور ان دونوں میں نہیں بنتی ، ایک تو کثیف لذتوں کے شوق میں دنیا سے چپٹی (چمٹی) ہوئی ہے اور دوسری کو کد(ضد) ہے کہ مجھے خاک سے اُٹھا کر اُس عالم ِ پاک میں لے جائے جو میرے بزرگوں کی روحوں کی جلوہ گاہ ہے‘‘۔ یہ باتیں ہو ہی رہی ہیں کہ دور سے ایک کالا کتا دکھائی دیتا ہے جو قدم قدم پر چکر کھاتا ان دونوں کی طرف آ رہا ہے ۔ فاؤسٹ کو شبہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی بھوت ہے مگر واگنر اسے مطمئن کر دیتا ہے کہ یہ معمولی کتا ہے۔
اب شام ہو چکی ہے ۔ استاد اور شاگرد گھر کی طرف لوٹتے ہیں ۔ کتا پیچھے پیچھے چلا آ رہا ہے ۔ فاؤسٹ اپنے مطالعے کے کمرے میں بیٹھتا ہے ۔ کتا جو اُس کے ساتھ آیا ہے ، آتش دان کے پیچھے ایک گد ے پر لیٹا ہے ۔ ایسٹر کی برکت سے فاؤسٹ کو جو جمعیت ِ قلب(تسکین) نصیب ہوئی تھی ، وہ اب تک باقی ہے ۔ شام کی تاریکی اُس کی روح کے اعلیٰ جذبات کو اُبھار رہی ہے ۔ مگر کتے کے غرانے سے اُس کا سکونِ قلب غارت (برباد) ہو جاتا ہے اور اضطراب اور بے چینی کا طوفان پھر اُمڈ آتا ہے ۔ باوجود بے اعتنائی (بے پروائی) کےفاؤسٹ کے دل کو اکثر ایسے موقعوں پر انجیل کی تلاوت سے تسکین ہوتی ہے ۔ اس وقت اُسے یہ خیال آتا ہے کہ انجیل کا یونانی متن پڑھ کر معنوی صحت کا خیال رکھتے ہوئے اُس کا ترجمہ جرمن زبان میں کرے۔ وہ ’’ کتابِ تخلیق‘‘ (Genesis) کی پہلی آیت کو پڑھ کر اُس کے ترجمے پر غور کر رہا ہے ۔ کتا زور شور سے بھونکنا شروع کرتا ہے اور اس کا جسم پھول کر بڑھنے لگتا ہے ۔ فاؤسٹ کو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی خبیث روح ہے ۔ وہ جادو کی کتاب سے منتر پڑھتا ہے جس کے اثر سے سارے کمرے میں کہر(دھواں) چھا جاتا ہے اور اس کہر کے اندر سے وہ روح جو اب تک کتے کی شکل میں تھی ، ایک بلا کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے ۔ فاؤسٹ پوچھتا ہے تو کون ہے ۔ وہ پراسرار پیکر جواب دیتا ہے ، ’’اس قوت کاایک جزو جو ہمیشہ بدی کرنا چاہتی ہے اور ہمیشہ نیکی کرتی ہے ۔۔۔وہ روح جو ہر چیز کا انکار اور ہر چیز کی نفی کرتی ہے‘‘۔
یہ وہی شیطان ہے جو درگاہِ ایزدی سے اجازت لے کر فاؤسٹ کو بہکانے آیا ہے (مترجم: گوئٹے کا میفسٹو ، ابلیس نہیں ہے بلکہ اُس کا نائب ہے جو اس کی طرف سے انسانوں کو بہکانے کی خدمت پر مامور ہے ۔ ابلیس سے تمیز کرنے کے لیے ہم اسے شیطان کہیں گے۔) ۔ یہ اصل میں عشرتِ حیات (سرورِ زندگی) اور قوتِ عمل کی روح کا ایک جزو ہے اور روحِ ارض کا مددگار ہے ۔ اس کا کام یہ ہے کہ انسان کے دل میں زندگی کی محبت اور عمل کا ولولہ پیدا کرے ۔ مگر چونکہ اُس کی خلقت جوہرِ ناقص سے ہے اس لیے وہ دونوں باتوں میں حد سے گزر گیا ہے ۔ عشرتِ حیات کے سرور (نشے) نے اسے بے قید جسمانی لذتوں کا پرستار اور قوتِ عمل کے نشے نے اُسے تخلیق ِ ایزدی کا حریف(مخالف) بنا دیا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر انسان کو نفس پرستی میں مبتلا کر کے ’’آسمانی نور کی پرچھائیں‘‘ یعنی عقل سے محروم کر دے اور رفتہ رفتہ ساری نوعِ بشر کو انسانیت کے درجے سے گرا دے۔ اس کی آرزو ہے کہ تہذیب و تمدن کا خاتمہ کر کے انسانی روحوں کو اپنا غلام بنا کر خدا کے سامنے لے جائے اور کہے : دیکھ تو نے دنیا کو پیدا کیا تھا ، میں نے برباد کر دیا ۔ تو نے انسان کو عقل دی تھی ، میں نے عیش و عشرت کا طلسم دکھا کر اس سے چھین لی ۔ لیکن ہزارہا سال کوشش کرنے پر بھی وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا ۔ وہ اپنے زعم (خیال) میں انسان کو اس لیے اُبھارتا ہے کہ سیلابِ فنا میں بہا لے جائے ، مگر انسان تھوڑے دن اس سیلاب کے ساتھ بہتا ہے اور آخر میں اسی کی قوت سے فائدہ اٹھا کر ساحل پر آ لگتا ہے ۔ بہرحال اُسے تو اپنی سی کوشش کرنا ہے انجام چاہے جو کچھ ہو ۔ فاؤسٹ کے معاملے میں اُسے پورا یقین ہے کہ وہ اس کے انتہائی اضطراب اور اُس کے بے پایاں حوصلے کا رخ جسمانی لذتوں کی طرف موڑ کر اُس کی روح کو اپنے قبضے میں کر لے گا ۔
اِس وقت وہ جادو کے قوانین کے مطابق فاؤسٹ کا قیدی ہے ۔ مطالعے کے کمرے کے دروازے پر ایک کامل مخمس (پانچ گوشوں کی شکل ) کی شکل بنی ہوئی ہے جس میں سے وہ کتا بن کر آیا تھا ؛ اس نے مخمس کو نہیں دیکھا اور جست (چھلانگ )کر کے اندر چلا آیا ۔ لیکن اب اس کی نظر اس نقش پر پڑ گئی ہے اور جان بوجھ کر وہ ضابطہ سحر(جادو ئی قانون) کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا ۔ فاؤسٹ کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اس وقت اس کے قابو میں ہے تو وہ اجازت دینے سے انکار کرتا ہے کہ ’’ جو شیطان کو پکڑ پائے اسے اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہیے‘‘ ۔ مگر شیطان مکروفریب کا استاد ہے ۔ فاؤسٹ کو جادو کا تماشا دکھانے کے بہانے اپنی ماتحت روحوں کو بلاتا ہے جو ایک دلفریب گیت سنا کر فاؤسٹ کو مئے نغمہ کے نشے میں مدہوش کر دیتی ہیں ۔ شیطان اسے خوابِ غفلت میں دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے ۔ ’’اے فاؤسٹ تو کتنا ہی کچھ ہو مگر وہ انسان نہیں جو شیطان کو جکڑ کر رکھ سکے ‘‘۔ وہ چوہوں کو بلاتا ہے جو مخمس کا ایک کونا کتر (کاٹ)ڈالتے ہیں اور وہ نکل کر چلا جاتا ہے ۔
دوسری بار شیطان ایک رئیس زادے کے بھیس میں آتا ہے ۔ وہ فاؤسٹ کو دعوت دیتا ہے کہ اُس کے ساتھ عہد ِ رفاقت کرلے اور چل کر دنیا کی سیر کرے اور زندگی کے عیش و عشرت کا لطف اٹھائے ۔ مگر فاؤسٹ کی زیست (زندگی) بیزاری انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔ اُس کے دل کی آگ اُس کی ہڈیوں تک کو پھونک ڈالتی ہے ۔ وہ آتش نوائی پر مجبور ہے ، چاہے ساری زندگی ساری دنیا جل کر خاکستر ہو جائے ۔ وہ بے اختیار چلا اٹھتا ہے ، ’’ لعنت ہو اُن بلند خیالات پر جن سے ہمارا ذہن اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے ؛ لعنت ہو مظاہر کی نظر بندی پر جو ہمارے حواس پر قبضہ کر لیتی ہے ؛ لعنت ہو شہرت اور بقائے دوام کے فریب پر جو ہمیں خواب میں خوشامد کی لوری دیتے ہیں ؛ لعنت ہو مال و حشم (شان و شوکت) پر جو ہمیں منچلے پن (بے باکی)کے کاموں پر اُبھارتا ہے یا عیش و عشرت میں مدہوش کر دیتا ہے ؛ لعنت ہو انگور کے آبِ حیات پر ، لعنت ہو محبت کے رازونیاز پر ، لعنت ہو اُمید پر ، لعنت ہو عقیدے پر اور سب سے بڑھ کر لعنت ہو صبر پر‘‘۔
’’افسوس! صد افسوس!
تو نے مسمار کر دیا
خوبصورت دنیا کو
اپنے زبردست گھونسے سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے زمین کے سورما بیٹے
اسے نئی شان سے تعبیر کر
اپنے سینے میں ، اپنے دل میں
اس کی پھر سے بنیاد رکھ
زندگی کا ایک نیا دور
روشن ضمیری سے شروع ہو
اور اُس کی تہنیت میں
نئے گیت گائے جائیں‘‘
خدا جانے اس گیت میں کیا تاثیر ہے کہ فاؤسٹ کا ڈوبا ہوا دل لجۂ ہلاکت (وادیِ موت ) کی گہرائی سے پھر اچھلتا ہے ۔ اُس کی رگوں میں زندگی کا سوکھا ہوا خون دوبارہ گردش کرنے لگتا ہے ۔
یہ روحیں جنھوں نے یہ اعجازِ مسیحائی دکھایا ، کون ہیں؟ یہ شیطانی روحیں ہیں جنھوں نے شیطان کے حکم سے فاؤسٹ کا دل موت سے زندگی کی طرف پھیرا ہے ۔ مگر یہ یاد رہے کہ یہ روحیں اور خود شیطان ، روحِ ارض کے آلۂ کار ہیں ۔ یہ اپنے زعم (خیال) میں انکار اور نفی ، ہلاکت اور تباہی کے علم بردار ہیں ؛ لیکن تقدیر الہٰی اِن پر ہنستی ہے اور ان سے اپنا کام لیتی ہے ۔ یہ اس پر مجبور ہیں کہ فاؤسٹ کو قعرِ عدم(فنا کے گڑھے) میں گرنے سے روکیں ۔ یہ چاہتی ہیں کہ اُسے حرمان و یاس (اداسی اور مایوسی) سے برباد نہ ہونے دیں ، بلکہ عیش و عشرت سے ہلاک کریں ۔ ان کی پہلی خواہش تو پوری ہو گئی ، اب دیکھنا ہے کہ دوسری بھی پوری ہوتی ہے یا نہیں ۔ ابھی تو فاؤسٹ کو ان روحوں نے صرف مرنے سے روکا ہے ، تڑپنے سے نہیں۔ وہ زندہ ہے مگر نیم بسمل (نیم مردہ) ۔ اس کا اضطرابِ قلب کم نہیں ہوا بلکہ اور بڑھ گیا ۔ وہ شیطان کی دعوت قبول کرتا ہے اور اُس کے حسبِ خواہش معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے ، لیکن دنیا کی سیر اور زندگی کے مشاہدے میں اُسے راحت و مسرت کی تلاش نہیں بلکہ دردوالم کی جستجو ہے ۔ وہ زندگی کے بلند سے بلند اور پست سے پست جلوے کا مشاہدہ کرنا اور نوعِ انسانی کے رنج و راحت میں شریک ہونا چاہتا ہے تاکہ اس کا ’’انفرادی نفس وسعت پا کر نوعی نفس(اجتماعی وجود) بن جائے اور آخر ایک دن اپنی نوع کے ساتھ فنا ہو جائے‘‘۔
شیطان اس کی اس خواہش کو شیخ چلی کا منصوبہ سمجھ کر اُس پر ہنستا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ انفرادی نفس کا اتنی وسعت پانا کہ وہ ’’ کائناتِ اصغر‘‘ بن جائے، ناممکن ہے ۔ بہرحال اس کا اور فاؤسٹ کا معاہدہ ہوتا ہے اور فاؤسٹ خون کے حرفوں میں اس پر دستخط کرتا ہے ۔ شیطان اقرار کرتا ہے کہ ’’ زندگی کے سفر میں رفیق بلکہ غلام کی حیثیت سے فاؤسٹ کے ساتھ رہے گا‘‘۔ وہ اس دنیا میں فاؤسٹ کی خدمت کا بیڑا اٹھاتا ہے ، اس کی پلکوں کے اشارے پر کام کرنے کا وعدہ کرتا ہے بشرطیکہ فاؤسٹ دوسری دنیا میں اس کے ساتھ یہی کرے ۔ فاؤسٹ اس پر راضی ہے مگر وہ معاہدے کے الفاظ کو زیادہ واضح کرنا چاہتا ہے ۔ ’’ اگر تو کبھی بہلا پھسلا کر مجھے میری زندگی سے مطمئن کر دے اور عیش و عشرت سے دھوکا دیدے ۔اگر میں کسی لمحے کو مخاطب کر کے یہ کہہ دوں : ذرا ٹھہر جا ،تو کتنا حسین ہے ۔ تب تجھے اختیار ہے کہ تو مجھے طوق و سلا سل(ہتھکڑی اور زنجیروں) میں جکڑ کر قعرِ ذلت (ذلت کے گڑھے) میں دھکیل دے۔ تب میری موت کا گھنٹہ بجے ، تب گھڑی رک جائے ، سو ئی گِر جائے ؛ تب میرے لیے وقت کا خاتمہ ہے ‘‘ ، یعنی اگر دنیا کی ’’لذتیں ‘‘ فاؤسٹ کے دل کو لبھائیں تو اس کی روح پر شیطان کا قبضہ ہو جائے گا ۔
شیطان فاؤسٹ سے اصرار کرتا ہے کہ فوراً سفر کے لیے تیار ہو جائے ۔ اتنے میں ایک طالب علم جو یونیورسٹی میں نیا نیا داخل ہوا ہے ، فاؤسٹ سے ملنے آتا ہے ۔ فاؤسٹ چاہتا ہے کہ اُس سے ملنے سے انکار کر دے ، لیکن شیطان کی تجویز ہے کہ جتنی دیر فاؤسٹ سفر کی تیاری کرے وہ خود فاؤسٹ بن کر طالب علم سےگفتگو کرے۔ فاؤسٹ راضی ہو جاتا ہے اور سفری کپڑے پہننے کے لیے چلا جاتا ہے ۔ شیطان اور طالب علم کی گفتگو میں گوئٹے نے شیطان کی زبانی اپنے زمانے کی جرمن یونیورسٹیوں کے مختلف شعبوں پر بلکہ اصل میں بنی نوع انسانی کی علمی جدوجہد پر طنز آمیز تنقید کی ہے ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ علم ، الفاظ کے گورکھ دھندے میں پھنس کر واقعی زندگی سے بے تعلق ہو گیا ہے ؛ وہ بے جان چیزوں کی تحلیل کر سکتا ہے ، جیتی جاگتی چیزوں کو نہیں سمجھ سکتا ۔ ’’ نظری علم خشک اور بے رنگ ہیں اور عملی زندگی ایک ہرا بھرا درخت‘‘ ۔ طالب علم شیطان کی تنقید کے اصلی مفہوم کو نہیں پہنچ سکتا ۔ وہ تو بس اتنا سمجھتا ہے کہ یہ شفیق استاد اسے طلب ِ علم کی زحمت و مشقت سے بچانا چاہتا ہے اور لطفِ زندگی حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ شیطان کا مشورہ کہ طب پڑھنا چاہیے کیوں کہ اس میں عیاشی کا خوب موقع ملتا ہے ، طالب علم کو بہت پسند آتا ہے ۔ وہ (مصنوعی ) پروفیسر فاؤسٹ سے درخواست کرتا ہے کہ اُس کی خاندانی بیاض (ڈائری) پر کوئی مقولہ لکھ دے جسے وہ زندگی میں اپنا دستور العمل بنا سکے ۔ شیطان یہ الفاظ لکھتا ہے : ’’ تم دیوتاؤں کی طرح نیکی اور بدی دونوں کا علم حاصل کرو‘‘ ۔ طالب علم خوش خوش اپنے گھر کو جاتا ہے ۔ اس کے جانے کے بعد شیطان کہتا ہے ، ’’ بس اس مقولہ پر عمل کر اور میری خالہ ناگن کے پیچھے چل (سانپ کی طرف اشارہ ہے جس کی بدولت حضرت آدم علیہ السلام بہشت سے نکلے ) ۔ ایک دن تیرے شبیہ ایزدی (صورتِ خداوندی: Imago Dei)ہونے کی حقیقت کھل جائے گی‘‘ ۔
وہ جانتا ہے کہ اسے ایک نیا شکار مل گیا ۔
اب شیطان ،فاؤسٹ کو ایک طلسمی چوغہ پہناتا ہے اور آگ جلا کر بخارات پیدا کرتا ہے جو دونوں کو اُڑا کے دوشِ ہوا (اونچائی) پر لے جاتے ہیں ۔
اس کے بعد کا منظر(سین) ’’ لائپزش‘‘ (Leipzig)میں ہے ۔ ’’ آؤایرباخ‘‘ (Auerbach) کے مشہور شراب خانے میں یارانِ بے تکلف جمع ہیں ، شراب کا دَور چل رہا ہے اور آپس میں بازاری مذاق ہو رہا ہے ۔ شیطان ، فاؤسٹ کو لے کر وہاں پہنچتا ہے تاکہ ان لوگوں کی صحبت میں اس کا جی بہلائے ۔ وہ ان لوگوں کو جادو کی آتشیں شراب پلاتا ہے ؛ شراب کے چند قطرے زمین پر گرتے ہیں اور شعلہ بن کر بھڑکتے ہیں ۔ شرابیوں پر غصہ اور خوف طاری ہوتا ہے اور وہ شیطان سے اس مذاق کا انتقام لینا چاہتے ہیں ۔ شیطان ایسا جادو کر دیتا ہے کہ شراب خانہ انہیں انگور کا باغ نظر آتا ہے اور و ہ ایک دوسرے کی ناک کو انگور کا خوشہ (گچھا) سمجھ کر چاقو سے کاٹتے ہیں ۔ اس عرصے میں شیطان ، فاؤسٹ کو لے کر چل دیتا ہے ۔ طلسم کا اثر زائل (ختم) ہونے کے بعد یہ لوگ اپنی حالت دیکھتے ہیں اور غصے سے بوٹیاں چباتے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہ سین تہذیب کی شان سے گرا ہوا ہے اور قصے میں بھی نہیں کھپتا (صرف ہوتا) ۔ گوئٹے کا فاؤسٹ ایسا بدمذاق نہیں کہ اُس بازاری صحبت میں اس کا دل بہلے اور نہ شیطان اتنا بے وقوف ہے کہ وہ اس قسم کی خفیف حرکات سے فاؤسٹ کو پرچانے(راضی کرنے) کی کوشش کرے۔ اصل میں یہ فاؤسٹ کے پرانے قصے کا ایک حصہ ہے جسے گوئٹے نے بھی لے لیا ہے ۔ ابتدائی مسودے میں اُس نے خو د فاؤسٹ کو ان لغو (بے ہودہ) حرکتوں کا فاعل قرار دیا ہے مگر بعد میں اُسے احساس ہوا کہ یہ باتیں فاؤسٹ کی سیرت سے مناسبت نہیں رکھتیں ۔ اس لیے اُس نے اتنی تبدیلی کر دی کہ بانی کار شیطان کو رکھا اور فاؤسٹ کو محض تماشائی ، جو اس سارے کھیل سے بیزار ہے ۔ اس سین کو گوئٹے نے غالباً دو وجوہ سے قائم رکھا: ایک یہ کہ وہ اس پردے میں اپنی ’’ لائپزش‘‘ کی زندگی کے تلخ تاثرات بیان کرنا چاہتا تھا ۔ دوسرے یہ کہ وہ تھیٹر کے اُن تماشائیوں کو خوش کرنا چاہتا تھا جو نظرفریب (خوشنما ) مناظر دیکھنے کے شائق ہیں ۔
اس کے بعد فاؤسٹ اور شیطان جادوگرنی کے باورچی خانے میں نظر آتے ہیں۔ اس سین میں گوئٹے نے جادو کے سفلی (گھٹیا) پہلو کو نمایاں کیا ہے۔ ایک زمانے میں وہ سحر و نیرِنجات (جادو اور شعبدے) کا قائل تھا مگر بہت جلد اس خام خیال سے نجات پا گیا ۔ یہاں وہ دکھانا چاہتا ہے کہ جادو کے شوق کی بدولت انسان کے ادنیٰ جذبات اُبھر آتے ہیں اور وہ بدمذاقی اور نجاست کے ان گڑھوں میں گرتا ہے جنہیں شیطان بھی اپنی شان سے پست سمجھتا ہے ۔ ناٹک کے اس قصے میں اس سین کی اہمیت یہ ہے کہ فاؤسٹ کی عمر زیادہ ہونے سے جو دقت پیدا ہوتی تھی وہ دور ہو جاتی ہے ۔ فاؤسٹ ادھیڑ عمر کا آدمی ہے ، اس لیے وہ عیش و عشرت کی زندگی کا پورا لطف نہیں اٹھا سکتا ۔ آنے والے عشق و عاشقی کے معاملات کو واقعیت کا رنگ دینے کے لیے فاؤسٹ کو نئے سرے سے جوان کرنا ضروری ہے ۔ یہ ممکن تھا کہ شاعر، شیطان ہی کی مدد سے فاؤسٹ کو جوانی بخش دیتا لیکن جادوگرنی کا واسطہ پیدا کرنے میں یہ مصلحت تھی کہ جادو کی ذلت اور پستی دکھانے کا موقع ہاتھ آئے ۔
فاؤسٹ ، شیطان کے ساتھ جادوگرنی کے باورچی خانے میں آتا ہے ، جہاں بوڑھوں کو جوان بنانے کے لیے ماء الالحم (گوشت کا شوربہ) تیار ہوتا ہے۔ فاؤسٹ کو اس ناپاک مکان میں قدم رکھتے گھن (کراہت) آتی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ شیطان جوانی حاصل کرنے کی کوئی دوسری تدبیر بتائے ۔ شیطان کہتا ہے: دوسری تدبیر یہ ہے کہ انسان کسانوں کی سادہ اور صحت بخش زندگی بسراختیار کرے ۔ وہ جانتا ہے کہ فاؤسٹ کی سی طبیعت کا آدمی اس پر کبھی راضی نہ ہو گا ۔ اور واقعی فاؤسٹ باوجود انتہائی کراہت کے، وہاں ٹھہر کر جادوگرنی کا انتظار کرتا ہے ۔وہاں جادو کے آئینے میں اُسے ایک عورت کی شکل نظر آتی ہے جس پر وہ ہزار جان سے عاشق ہو جاتا ہے ۔ اس آئینے میں یہ صفت ہے کہ ہر شخص کو اُس میں اپنے حسن کا نصب العین مجسم (ٹھوس صورت میں ) نظر آتا ہے ۔ شارحین میں سے بعض کا یہ خیال ہے کہ فاؤسٹ نے یہاں جو تصویر دیکھی ، وہ گریچن کی ہے جس پر وہ آگے چل کر عاشق ہوتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ نہیں ، یہ ہیلن کی صورت ہے جسے فاؤسٹ (دوسرے حصے میں ) عالمِ مثال میں بلاتا ہے اور اس سے شادی کرتا ہے ۔ ہمارے خیال میں فاؤسٹ اس ’’ ابدی جوہر انوثیت‘‘ (جوہر تانیثیت / نسوانیت Femininity: ) کا عکسِ رخ (چہرہ) دیکھتا ہے جو گوئٹے کے فلسفہِ عشق کی جان ہے ۔
یہی عکس اسے گریچن کے حسن ِ المانی (جرمن) میں بھی نظر آیا اور ہیلن کے جمالِ یونانی میں بھی ۔ اس لیے دونوں میں سے کسی کے ساتھ اس کی تخصیص نہیں کی جا سکتی ۔ ’’ ابدی جوہر انوثیت‘‘ (نسوانیت) کی تشریح ہم آگے چل کر کریں گے ۔ یہاں کہہ دینا کافی ہے کہ گوئٹے کے نزدیک کائنات میں ایک ابدی حسین جوہر کارفرما ہے جو انسان کو پست مادی زندگی سے بلند روحانی حیات ِ سرمدی(ابدی) کی طرف کھینچتا ہے ۔ اسی کی جھلک عاشقِ صادق کو اپنی معشوقہ کے حسن میں نظر آتی ہے اور اگر انسان کی زندگی شہوانی لذات میں پھنس کر نہ رہ جائے تو اس مجازی عشق کے زینے سے وہ بامِ حقیقت تک پہنچ سکتا ہے ۔ غرض ، جادوگرنی آتی ہے اور فاؤسٹ کو عرقِ شباب پلاتی ہے۔ فاؤسٹ اور شیطان رخصت ہو جاتے ہیں ۔
آئندہ منظر( سین میں) فاؤسٹ جوان نظر آتا ہے ۔ ایک دلربا دوشیزہ گریچن گرجے سے لوٹ کر اپنے گھر جا رہی ہے ۔ فاؤسٹ اسے راہ میں دیکھتا ہے ، اُسے لڑکی کے بھولے بھالے چہرے میں اپنے پیکرِ خیال کی جھلک نظر آتی ہے اور وہ اس کے دامِ الفت (محبت) میں اسیر ہو جاتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ گریچن سے گفتگو چھیڑے لیکن وہ عصمت مآب (پاک دامن ) اُسے جھڑک کر چلی جاتی ہے ۔ فاؤسٹ ، شیطان سے اپنی محبت اور بیزاری کا حال کہتا ہے اور اُسے حکم دیتا ہے کہ جلد سے جلد اُس لڑکی سے ملاقات کی صورت نکالے ۔ شیطان کہتا ہے کہ وہ لڑکی اب تک خلشِ آرزو سے بیگانہ ہے ۔ اس لیے اُسے قابو میں لانا سہل نہیں ۔ آخر جب فاؤسٹ کا اصرار حد سے گزر جاتا ہے تو وہ وعدہ کرتا ہے کہ کوئی تدبیر کرے گا ۔ فاؤسٹ اِس شرط پر کچھ دن صبر کرنے کے لیے تیر ہے کہ شیطان اِس عرصے میں اُسے اُس کی محبوبہ کی خواب گاہ کی زیارت کردے اور اُس کے لیے کوئی قیمتی تحفہ لا دے ۔
شام کو شیطان ، فاؤسٹ کو گریچن کی خواب گاہ میں لے جاتا ہے ۔ فاؤسٹ کچھ عرقِ شباب کے اثر سے اور کچھ شیطان کی صحبت کی بدولت شہوانی خواہشات سے مغلوب ہے ۔ لیکن گریچن کی خواب گاہ کی معصومانہ فضا میں اس کے لطیف جذبات بیدار ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی محبوبہ کی پاک اور بھولی گھریلو زندگی کے تصور کے مزے لیتا ہے ۔ گریچن کے قدموں کی آہٹ سن کر دونوں اُس کی الماری میں ایک زیور کا صندوقچہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔ گریچن داخل ہوتی ہے اور الماری میں زیور دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے ۔ وہ اپنی ہمسائی مارتھا کے گھر جاتی ہے اور زیور پہن کر اُسے دکھاتی ہے ۔ شیطان بھی ایک مسافر کی صورت بنا کر وہاں پہنچتا ہے اور مارتھا کو اس کے شوہر کے مرنے کی جھوٹی خبر سناتا ہے ۔ مارتھا یہ خبر سن کر دل میں بہت خوش ہوتی ہے مگر جھوٹ موٹ کے ٹسوے (آنسو) بہاتی ہے ۔ شیطان اس عورت کے چہرے سے بھانپ لیتا ہے کہ یہ کُٹناپے (لگائی بجھائی کرنے) کے لیے بہت موزوں ہے اور اس کے ذریعے سے گریچن بہکائی جا سکتی ہے ۔ وہ اپنی خبر کی تصدیق کے بہانے دوسرے دن فاؤسٹ کو ہمراہ لانے کی اجازت لے کر چلا جاتا ہے ۔ چلتے چلتے گریچن سے اصرار کرتا ہے کہ وہ بھی اس موقع پر موجود رہے ۔
گریچن کے کردار (character) میں گوئٹے نے جرمن عورت کی روح کا دلکش مرقع (نمونہ) دکھایا ہے ۔ اُسے آب و رنگ و خال و خط کے طلسم یعنی حسنِ ظاہری میں بہت کم حصہ ملا ہے لیکن اُس کی روحانی خوبیوں کا رنگ اس کے چہرے پر جھلکتا ہے اور اربابِ نظر کے دل کو کھینچتا ہے ۔ وہ سادگی اور نیکی ، عقیدت اور دینداری ، محبت اور خدمت ، سوز اور درد ، صبر اور تخیل کی جیتی جاگتی تصویر ہے اور ’’ اپنی جوہر انوثیت‘‘ (جوہرنسوانیت) کی سچی مظہر ۔ وہ اپنے نسوانی وجدان کی بدولت بے (بغیر) جانے بوجھے شیطان سے کراہت رکھتی ہے اور شیطان کو بھی خود بخود اس سے وحشت ہوتی ہے ۔ شیطان ، فاؤسٹ کو مادیت ، لذت پرستی ، سرکشی ، انکار اور ہلاکت کی طرف کھینچتا ہے اور گریچن اسے روحانیت ، عبودیت ، ایمان اور بقائے ابدی کی طرف لے جانا چاہتی ہے ۔
دوسرے دن مارتھا کے گھر پر عاشق و معشوق ملتے ہیں ۔ ایک طرف مارتھا ، شیطان پر بوڑھے غمزوں (اداؤں) کا جال ڈال رہی ہے اور دوسری طرف فاؤسٹ اور گریچن میں پیمان ِ وفا باندھا جا رہا ہے ۔ان ہی باتوں میں وقت گزرتا ہے ۔ رات گئے مارتھا جسے ’’ نقصان مایہ‘‘ (مالی نقصان)سے زیادہ ’’ شماتتِ ہمسایہ‘‘ (ہمسائے کی ملامت ) کا خوف ہے ، فاؤسٹ اور شیطان سے اصرار کرتی ہے کہ وہ اب رخصت ہو جائیں ورنہ محلے کے لوگوں کو بدگمانی کا موقع ملے گا ۔
فاؤسٹ کو خارِ محبت کی خلش (تڑپ) چین نہیں لینے دیتی ہے ۔ وحشتِ دل اُسے کھینچ کر صحرا میں لے جاتی ہے ۔ یہاں وہ روحِ ارض کے فیض سے فطرت کے حسنِ پنہاں کا مشاہدہ کرتا ہے اور درختوں کے سبز پتوں میں معرفت کردگار (معرفت الہٰی ) کے دفتر دیکھتا ہے ، ’’ حیرت کی سردمہری سے نہیں بلکہ ایسی گرم جوشی سے جیسے کوئی اپنے دوست کے قلب کی گہرائیوں میں نظر ڈالتا ہے‘‘۔ اس سعادت بخش تنہائی میں شاید اُسے سکونِ قلب حاصل ہوتا لیکن شیطان آتا ہے اور روحِ ارض کی بخشی ہوئی نعمتوں کو، ’’ ایک لفظ میں ، ایک سانس میں معدوم کر دیتا ہے ‘‘۔ وہ فاؤسٹ کے دل میں گریچن کی محبت کی آگ جو بجھی نہیں مگر کجلا (مدھم)گئی ہے ، پھر بھڑکا دیتا ہے ۔ اب فاؤسٹ عجب کشمکش میں مبتلا ہے ۔ اس کا دل عشق کے پاک جذبے اور شہوانی لذات کی ناپاک خواہش کی رزم گاہ (میدان جنگ) بن گیا ہے ۔ آرزو اُسے لذت کی طرف کھینچتی ہے اور لذت میں اُس کا دل آرزو کے لیے تڑپتا ہے ۔
اس حالت میں ایک شیطان آتا ہے اور گریچن کا حالِ زار سناتاہے ۔ وہ فاؤسٹ کی محبت میں طائر رشتہ برپا(قیدی پرندے) کی طرح تڑپ رہی ہے اور دن رات اُس کی راہ دیکھا کرتی ہے ۔ شیطان کا اصرار ہے کہ فاؤسٹ بستی میں چل کر غریب گریچن کو اس کی محبت کا انعام دے ۔ فاؤسٹ اس شیطانی ترغیب سے بچنے کے لیے بہت کچھ ہاتھ پیر مارتا ہے مگر کچھ بن نہیں پڑتی ۔ آخر وہ بستی میں جا کر گریچن سے ملنے پر راضی ہو جاتا ہے ۔
مارتھا کے پائیں باغ (گھر کے ساتھ والے باغیچہ)میں فاؤسٹ اور گریچن دوبارہ ملتے ہیں اور معشوقہ اپنے عاشق کو دردِ ہجر کی داستان سناتی ہے ۔ وہ دل و جان سے فاؤسٹ پر فدا ہے مگر ایک تو اُسے فاؤسٹ کی دینداری کی طرف سے اطمینان نہیں ۔ دوسرے وہ اس کے ساتھی سے ڈرتی ہے اور نفرت کرتی ہے ۔ وہ اپنے دل کی الجھن دور کرنے کے لیے فاؤسٹ سے سوال کرتی ہے کہ اُسے خدا پر عقیدہ ہے یا نہیں ۔ فاؤسٹ کا جواب گوئٹے کے مذہبی عقائد کا آئینہ ہے: ’’ کس میں یہ تاب ہے کہ خدا کا نام لے اور اس پر ایمان لائے ! تو پوچھتی ہے کہ میں اُسے مانتا ہوں یا نہیں ؟ کس احساس رکھنے والے دل کی مجال ہے کہ کہے ، میں اُسے نہیں مانتا۔ وہ محیطِ کل ! وہ قادرِ مطلق ! کیا اُس کی قدرت ، اُس کی ذات مجھے ، تجھے اور خود اُسے محیط نہیں؟ کیا اوپر آسمان کا گنبد نہیں؟ کیا نیچے زمین کا فرش نہیں؟ کیا ابدی ستارے محبت کی نظریں برساتے سیر میں مصروف نہیں؟ کیا میں تجھے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے نہیں دیکھ رہا ہوں؟ کیا تیرے دل و دماغ میں وجودِ محض بسا ہوا نہیں؟ کیا تیری آنکھوں میں رازِ آشکارا چھایا ہوا نہیں ؟ اُس وسعتِ نامحدود سے اپنے دل کو معمور کرلے اور جب اس واردات سے تجھ پر وجد طاری ہو جائے تو اُس کا جو نام چاہے رکھ لے : سعادتِ دل ، عشق یا خدا ۔ میرے پاس اس کے لیے کوئی نام نہیں۔ جو کچھ ہے ، وجدان ہے ۔ نام ایک آواز ہے ، ایک دھواں ہے جو کہر بن کر آسمانی نور کو چھپا لیتا ہے‘‘۔
گریچن کو اس جواب سے ایک حد تک اطمینان ہو جاتا ہے مگر اس کے دوسرے شبہ کو دور کرنے میں فاؤسٹ کامیاب نہیں ہوتا ۔ اسے شیطان سے روحانی نفرت یا بقول فاؤسٹ کے للہی (اللہ واسطے) بغض (دشمنی) ہے۔’’ جیسے ہی وہ دروازے میں قدم رکھتا ہے حقارت کی ہنسی کے ساتھ اِدھر اُدھر دیکھتا ہے اور کچھ بیزار سا نظرآتا ہے ، صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسے کسی چیز سے لگاؤ نہیں ۔ اس کے ماتھے پر لکھا ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ اسے نہیں بھاتا ۔اس کے ہوتے مجھ سے دعا بھی نہیں مانگی جاتی ۔ اس سے میرے دل میں ناسور(زخم) سا پڑ گیا ہے‘‘۔ فاؤسٹ یہ تمنا ظاہر کرتا ہے کہ گریچن کو آغوش میں لے کر گھڑی بھر جسمانی اور روحانی وصل کا لطف اٹھائے ۔ بھولی لڑکی اسے رات کو اپنے گھر بلانے پر تیار ہے مگر اپنی ماں کی موجودگی کے سبب سے معذوری ظاہر کرتی ہے ۔ فاؤسٹ اسے بے ہوشی کی دوا (جو غالباً شیطان کا تحفہ ہے) دیتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ رات کو سوتے وقت اپنی ماں کو پلا دے ۔ وہ گریچن کو یقین دلاتا ہے کہ اس میں کسی نقصان کا خطرہ نہیں ۔
بدنصیب گریچن اپنے دلدار کی خواہش کو پورا کرتی ہے ۔ وہ اتنی معصوم ہے کہ اسے اس کے نتائج کی خبر نہیں ۔ اتفاق سے وہ اپنی ایک سہیلی سے کسی دوسری سہیلی کی تباہی کا حال سنتی ہے ۔ اب اُس پر یہ بات کھلتی ہے کہ ایک گھڑی بھر کی لغزش سے بیچاری لڑکیوں کی ساری زندگی عذاب میں پڑ جاتی ہے ۔ اِدھر تو وہ اس سے سہم جاتی ہے اور اُدھر اُس کی ماں بے ہوشی کی دوا کے اثر سے گزر جاتی ہے ۔ غریب گریچن ، احساسِ گنا ہ اور ماں کے صدمے سے بدحواس کنواری مریم کے طاق میں پھول رکھنے جاتی ہے اور اس ’’ درد بھری دکھیاری بی بی ‘‘ کو اپنا دردِ دل سناتی ہے ۔
اس عرصے میں اس کے بھائی ’’ والینٹن‘‘ (Valentin)کوجو فوج میں نوکر ہے ، اپنی ماں کی موت اور اپنی بہن کی ’’ آوارگی ‘‘کی خبر پہنچتی ہے ۔ وہ سیدھا سادا سپاہی جو موت کو جان سے بڑھ کر سمجھتا ہے ، یہ سن کر اپنے آپے میں نہیں رہتا ۔ اس کے قلب میں اتنی وسعت اور اس کی نظر میں اتنی گہرائی نہیں کہ عارضی لغزش اور بدچلنی میں فرق کرے اور اپنی بدنصیب بہن پر قہر توڑنے کی جگہ اُس کے ٹوٹے ہوئے دل کو تسکین دے ۔ پھر اُس کے دوست مزید اُس کے کان بھرتے ہیں ۔ وہ اپنی بہن کو سزا دینے اور اس کے عاشق سے انتقام لینے کا قصد سے وطن کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ تقدیر کی کرشمہ سازی دیکھیے کہ جب وہ رات کے وقت اپنے گھر کے پاس پہنچتا ہے تو فاؤسٹ سے اُس کی مڈبھیڑ ہو تی ہے جو شیطان کو ساتھ لیے گریچن سے ملنے کی فکر میں کھڑا ہے ۔ والینٹن اور فاؤسٹ میں تلوار چلتی ہے اور شیطان، فاؤسٹ کی مدد کرتا ہے ۔ والینٹن زخمی ہو کر گرتا ہے ۔ محلے کے لوگ ان لڑنے والوں کی آوازیں سن کر دوڑ پڑتے ہیں ۔ شیطان، فاؤسٹ کو لے کر بھاگ جاتا ہے ۔ والینٹن کے گرد ایک مجمع اکٹھا ہے ۔ گریچن بھی شوروغل کی آواز سن کر باہر آتی ہے اور اپنے بھائی کو خاک و خون میں تڑپتا دیکھ کر چیخ اٹھتی ہے ۔ والینٹن سب کے سامنے گریچن کے واقعی اور فرضی گناہوں کا اعلان کرتا ہے اور اسے بددعائیں دیتے دیتے دم توڑتا ہے ۔
اب گریچن کی جو حالت ہے وہ بیان نہیں ہو سکتی ۔ عاشق سے چھوٹنے کا قلق (دکھ) ، ماں اور بھائی کے مرنے کا صدمہ ، بدنامی کی شرم اور سب سے بڑھ کر گناہوں کی ندامت ۔ ان چیزوں سے اس کے دل پر مایوسی اور اس کے دماغ پر جنوں کا تسلط ہو گیا ہے ۔ اسی حالت میں اس کے لڑکا ہوتا ہے جسے وہ تالاب میں غرق کر دیتی ہے ۔ اس جرم میں وہ قید کر دی جاتی ہے اور سزائے موت کے انتظار میں زندگی کی گھڑیاں گزارتی ہے ۔
فاؤسٹ مفرور ہے ۔ اُسے ان واقعات کی خبر نہیں ۔ شیطان چاہتا ہے کہ عیش و عشرت کے دلفریب مناظر دکھا کر گریچن کے خیال کو اس کے دل سے نکال دے اور اس کی روح کو اپنے قابو میں لے آئے ۔ وہ اسے ’’ والپرگس‘‘ (Walpurgis) کی رات کا جشن دکھانے کو لے جاتا ہے (مترجم: یہ جشن جرمن کہانیوں کے مطابق یکم مئی کی شب کو بروگن(Brocken) پہاڑ پر ہوتا ہے ۔ اس میں ساری چڑیلیں اور جادوگرنیاں ابلیس کے دربار میں جمع ہوتی ہیں اور عیش پرستی کی داد دی جاتی ہے ۔)۔
شیطان کا خیال ہے کہ شیطانی لذتوں کے ہیجان (جوش) اور تلاطم (بہاؤ)میں فاؤسٹ کی عقل معطل ہو جائے گی ، اُس کی روح میں عالم ِ بالا کی طرف پرواز کرنے کی طاقت نہ رہے گی اور وہ مادی زندگی پر قناعت کر کے معاہدے کے مطابق شیطان کا مرید ہو جائے گا ۔ اس لیے شیطان اسے عام مجمع سے ہٹا کر اپنے خاص حلقے میں لے جاتا ہے ۔ وہاں جا کر فاؤسٹ میں تاب ِ مقاومت(قوت ِمزاحمت) گھٹنے (کم ہونے) لگتی ہے اور وہ جادوگرنیوں کے مجنونانہ رقص میں شریک ہو جاتا ہے ۔ لیکن دفعتاً (اچانک) یہ طلسم ٹوٹ جاتا ہے ۔ اِدھر اس کے ساتھ ناچنے والی چڑیل کے منہ سے ایک سرخ چوہیا نکلتی ہے جس سے فاؤسٹ کے دل میں سخت کراہت پیدا ہوتی ہے ۔ اُدھر اُسے دور سے گریچن کا پیکرِ خیالی نظر آتاہے اور اس کے دل میں ’’ ابدی جوہر انوثیت‘‘ (جوہر نسوانیت) کی سوئی ہوئی آرزو کو بیدار کر دیتا ہے ۔ سچے عشق کے چھینٹے سے شہوانی عشق کا نشہ اُتر جاتا ہے اور فاؤسٹ کی روح، شیطان کے دامِ فریب سے تڑپ کر نکل جاتی ہے ۔ اس کے بعد گوئٹے ، شیطان کے سردار ابلیس کے دربار کا منظر دکھانا چاہتا ہے جہاں فاؤسٹ کو مادی لذتوں کے سیلاب سے آخری مقابلہ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا ۔ اس کے بجائے اس نے روحوں کے تھیٹر کا سماں باندھا جس میں اپنے عہد کے ادیبوں ، نقادوں اور فلسفیوں پر طنز آمیز تنقید کی بوچھاڑ کر دی ۔یہ منظر ( سین) بھی قصے میں کسی طرح نہیں کھپتا مگر یہ تو گوئٹے کے آرٹ کی عام کمزوری ہے کہ جن خیالات سے کسی خاص زمانے میں اُس کا دل متاثر ہوتا ہے ، انہیں وہ بغیر ترتیب اور تسلسل کا خیال کیے اپنی تصنیف میں خواہ مخواہ ٹھونس دیتا ہے ۔
’’ والپرگس‘‘ کی رات کا خمار دور ہونے کے بعد فاؤسٹ کو گریچن کی یاد ستاتی ہے ۔ جب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ گریچن پر کیا مصیبتیں گزریں اور گزر رہی ہیں تو وہ اپنی بے وفائی اور تغافل(بے پروائی) پر بہت پچھتاتا ہے اور شیطان پر لعنت ملامت کی بوچھاڑ شروع کر دیتا ہے کہ اس کی بدولت وہ اپنی معشوقہ کے حال سے بے خبر رہا ۔ اس کے انتہائی اصرار کے بعد شیطان اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ اسے گریچن کے قید خانے میں لے جائے گا اور اس کی رہائی میں مدد دے گا ۔
قید خانے کا منظر فاؤسٹ کے پہلے حصے کا آخری منظر (سین) ہے ۔ شیطان محافظوں کو بے ہوش کر دیتا ہے اور فاؤسٹ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتا ہے ۔ گریچن جنون کی حالت میں فاؤسٹ کو جلاد سمجھتی ہے لیکن فاؤسٹ کے بار بار سمجھانے کے بعد وہ اُسے پہچانتی ہے ۔ اس کی حالت اور اس کی گفتگو دھوپ چھاؤں کا عجیب حسین اور دل گداز منظر ہے ۔ اس کے دماغ پر جنوں کی تاریکی چھائی ہوتی ہے جس میں کبھی عقل کی روشنی چمک اُٹھتی ہے ۔ مگر دیوانگی اور ہوشیاری دونوں کی لوح پر گریچن کی بھولی ، نیک اور سراپا درد سیرت کا نقش نہایت دلکش ہے ۔ گفتگو کے آخری حصے سے اس کا کچھ تھوڑا سا اندازہ ہو سکتا ہے:-
فاسٹ: اگر تجھے یہ احساس ہے کہ میں ہی تیرا چاہنے والا ہوں، تو میرے ساتھ چلی آ!
مارگریٹ: کہاں؟
فاؤسٹ: آزادی کی کھلی ہوا میں !
مارگریٹ: اگر وہاں قبر ہے اور موت میری راہ دیکھ رہی ہے تو چلتی ہوں ۔ یہاں سے ابدی خواب میں مگر وہاں سے آگے ایک قدم راہ میں بھی نہیں۔ کیا تو جاتا ہے؟ ’’ ہائنرش‘‘، کاش میں تیرے ساتھ چل سکتی !
فاؤسٹ: چل کیوں نہیں سکتی! چلنے پر راضی تو ہو ۔ دروازہ کھلا ہے ۔
مارگریٹ: میری مجال نہیں کہ یہاں سے جاؤں ۔ میری رہائی کی کوئی صورت نہیں ۔ بھاگنے سے کیا فائدہ؟ لوگ میری تاک میں ہیں ۔ یہ کیا کم مصیبت ہو گی کہ بھیک مانگتی پھروں اور وہ بھی دل میں چور لیے ہوئے ؟ یہ کیا کم مصیبت ہو گی کہ پردیس میں ٹھوکریں کھاتی پھروں ؟ اور پھر ایک نہ ایک دن پکڑا جانا ضروری ہے ۔
فاؤسٹ: تو پھر میں بھی تیرے پاس رہوں گا ۔
مارگریٹ: جلدی جا! جلدی جا! اپنے معصوم بچے کی جان بچا ۔ بس دیر نہ کر؛ چشمے کے کنارے کنارے سیدھا چلا جا اور پل سے گذر کر جنگل میں بائیں طرف مڑجا نا ، جہاں تالاب میں ایک تختہ رکھا ہے ۔ دوڑ! اسے تھام لے! دیکھ وہ اُبھرا! ابھی تک ہاتھ پاؤں مار رہا ہے ۔ بچالے! بچا لے!
فاؤسٹ: خدا کے لیے ہوش میں آ؛ بس جہاں ایک قدم اٹھایا، پھر تو آزاد ہے ۔
مارگریٹ: کاش ہم اس پہاڑ کے پاس سے جلد گذر جاتے ! وہ دیکھ، میری ماں ایک چٹان پر بیٹھی ہے ۔ مجھےڈر سے ٹھنڈا پسینہ آتا ہے ۔ میری ماں چٹان پر بیٹھتی ہے اور اس کا سر ہل رہا ہے ۔ وہ نہ بلاتی ہے نہ اشارہ کرتی ہے ؛ اس کا سر بھاری ہے ۔ وہ اتنی دیر سوئی کہ اب کبھی نہ جاگے گی ۔ اُسے میں نے سلا دیا تھا کہ ہم بے کھٹکے (بغیر کسی خوف کے ) ہم آغوشی کا لطف اٹھائیں ۔ ہائے ، و ہ بھی کیا اچھے دن تھے!
فاؤسٹ: نہ خوشامد سے کام چلتا ہے نہ سمجھانے سے ۔ اب چاہے جو کچھ ہو ، میں تجھے زبردستی اٹھائے لیے چلتا ہوں ۔
مارگریٹ: خبردار، مجھے ہاتھ نہ لگانا! مجھے اس زبردستی کی برداشت نہیں ۔ تو مجھے کیوں جلاد کی طرح گھسیٹتا ہے؟ کیا میں نے تیری نازبرداری نہیں کی؟
فاؤسٹ: دن نکلا چاہتا ہے ۔ میری پیاری، خدا کے لیے مان جا!
مارگریٹ: دن؟ ہاں، دن ہونے والا ہے ۔ آخری دن آ رہا ہے ۔ یہ دن میری شادی کا تھا۔ کسی سے یہ نہ کہنا کہ تو مارگریٹ (گریچن) کے پاس تھا ۔ ہائے ، میرا سہرا! جو ہونا تھا ، ہو گیا ۔ اب ہم پھر ملیں گے مگر ناچ میں نہیں ۔ لوگوں کا ہجوم ہے سب خاموش ہیں ۔ گلیوں میں اور چوک میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ۔ موت کا گھنٹہ بج رہا ہے ۔ بانس ٹوٹ گیا ۔ لوگ میری مشکیں کس رہے ہیں(گرفتار کر رہے ہیں) اور مجھے کھینچتے ہیں ، قتل گاہ میں لے جا رہے ہیں ۔ جلا د کی تیز تلوار جو پہلے اور(دوسروں کی ) گردنوں پر چمکی تھی اب میری گردن پر چمک رہی ہے۔ دنیا قبر کی طرح خاموش ہے۔
فاؤسٹ: آہ، کاش میں کبھی پیدا نہ ہوتا!
شیطان: (دروازے کے باہر نظر آتا ہے ) اُٹھو! ورنہ تمہارے بچنے کی کوئی صورت نہیں ۔ آخر یہ فضول حیص بیص (تکرار) کب تک؟ یہ شش و پنج ، یہ قیل و قال ! میرے گھوڑے سردی میں کانپ رہے ہیں ۔ صبح کی روشنی نمودار ہے ۔
مارگریٹ: یہ زمین کے اندر سے کون سی شکل ظاہر ہوئی؟ یہ وہی ہے ! وہی ہے ! اسے یہاں سے نکال دے ۔ پاک زمین میں اس کا کیا کام؟ یہ میری روح چاہتا ہے!
فاؤسٹ: تو زندہ رہے گی۔
مارگریٹ: اے داورِ حقیقی ! میں اپنی روح تجھے سونپتی ہوں ۔
شیطان : چل ! چل ! ورنہ میں تجھے بھی اسی کے ساتھ چھوڑ جاؤں گا ۔
مارگریٹ: میں تیری ہوں اے آسمانی باپ! مجھے نجات دے ۔ اے فرشتو! اے عالم قدس کے لشکرو! میرے گرد جمع ہو جاؤ اور میری حفاظت کرو ۔ ہائنرش (Heinrich)تجھے دیکھ کر میرا دل لرزتا ہے ۔
شیطان : اب یہ نہیں بچتی ۔
عالم بالا کی صدا: بچ گئی!
شیطان: (فاؤسٹ سے) آ میرے ساتھ (اور فاؤسٹ کے ساتھ غائب ہو جاتا ہے)
قیدخانے کے اندر سے آواز آ رہی ہے : ہائنرش ، ہائنرش
فاؤسٹ اور گریچن کا قصہ ختم ہو گیا ۔ گریچن کے نسوانی وجدان نے اُس پر یہ راز کھول دیا تھا کہ فاؤسٹ کے ساتھ جانا گویا اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کرنا ہے ۔ اُس نے ایسی رہائی پر موت کو ترجیح دی اور اپنے گناہوں کا کفارہ دے کر نجات ِ ابدی حاصل کی ۔ اس وقت وہ فاؤسٹ کو نہیں بچا سکی لیکن اب وہ ایک روحانی شمع بن کر اس کو راہ دکھائے گی اور آگے بڑھاتی جائے گی ،یہاں تک کہ عالمِ حقیقت کے پراسرار پردوں میں دونوں نظر سے غائب ہو جائیں ۔
یہاں پہلا حصہ ختم ہوتا ہے اور فاؤسٹ اور گریچن کا واقعی افسانہ بھی ۔ اس قصے میں دونوں کی حیثیت معمولی انسانوں کی ہے ۔ البتہ کہیں کہیں اس بات کی ذرا سی جھلک نظر آ جاتی ہے کہ فاؤسٹ نوع ِ انسانی کا نمائندہ ہے اور گریچن ’’ ابدی جوہر انوثیت‘‘ (جوہر نسوانیت) کی مظہر ۔ دوسرے حصے میں رنگ بالکل بدل جاتا ہے ۔ فاؤسٹ کی انفرادی حیثیت بالکل چھپ جاتی ہے ؛ وہ جدید مغربی تمدن کے انسان کی مثال (ٹائپ) بن کر رہ جاتا ہے اور گریچن تو جسم کی قید سے آزاد ہو کر روح انوثیت میں جذب ہو چکی ہے ۔ مختصر یہ کہ دوسرا حصہ اول سے آخر تک ایک طویل استعارہ ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ شک اور اضطراب اور مادی خواہشات کی زنجیروں میں جکڑا ہوا انسان کس طرح ذوقِ جمال اور محبت ِ بنی نوع کی منزلوں سے گذر کر عرفان و عقیدت کی سرحد میں داخل ہوتا ہے ، جہاں اس کی زنجیریں خود بخود ٹوٹ کر گر جاتی ہیں ۔
گوئٹے کی طبیعت میں شک بھی ہے اور یاس بھی ، لیکن امید ان سب چیزوں پر غالب ہے ۔ اُسے یہ گوارا نہیں کہ فاؤسٹ کے قدیم افسانے کی تقلید میں اپنے ہیرو کو شیطان سے مغلوب ہو جانے دے ۔ اُس کا فاؤسٹ جدید تمدن کا نمائندہ ہے ۔ گوئٹے کو یقین ہے کہ عہدِ جدید کا انسان شدید کشمکش کے بعد ایک دن ضرور نجات پائے گا ۔ اس نجات کی بنیاد اس نے گریچن کی شخصیت سے ڈال دی ہے ۔ دوسرے حصے میں وہ اس بنیاد پر ایک پوری عمارت کھڑی کر دیتا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭
ہم نے صرف پہلے حصے کا ترجمہ کیا ہے ، اس لیے دوسرے حصے کے مضامین تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ہم ایک مختصر سا خاکہ محض اس غرض سے کھینچتے ہیں کہ پڑھنے والوں کو پورا قصہ معلوم ہو جائے ۔
فاؤسٹ کے جانے کے بعد گریچن سزائے موت پا کر قید ِ حیات سے رہا ہو جاتی ہے ۔ فاؤسٹ فراق کے صدمے سے تڑپتا ہے ۔ دوسرے حصے کے پہلے منظر(سین) میں وہ حسنِ فطرت کے نظارے میں محو نظر آتا ہے ۔ مناظرِ قدرت کا سکون اُس کے دل کے زخموں کے لیے مرہم کا کام دیتا ہے۔ لیکن وہ شیطان کا حلیف ہے جو ذوق عمل اور آرزوئے لذت کی روح ہے ۔ شیطان کو گوارا نہیں کہ فاؤسٹ دم بھر چین سے بیٹھے ۔ وہ اُس کے دل میں قوت و اقتدار کا شوق اُبھارتا ہے اور اُسے لیکر شہنشاہ کے دربار میں پہنچتا ہے ۔ شیطان کے مشورے سے وہ سلطنت کی مالی مشکلات دور کرنے کے لیے کاغذ کا سکہ جاری کرتا ہے اور شہنشاہ کی تفریح ِ طبع کے لیے نیرنجات (شعبدہ بازی) کا تماشا دکھاتا ہے ۔ شہنشاہ ، فاؤسٹ سے فرمائش کرتا ہے کہ وہ قدیم یونان کی مشہور حسینہ ہیلن کی روح کو بلوائے ۔ فاؤسٹ اس معاملے میں شیطان سے مدد چاہتا ہے مگر وہ معذوری ظاہر کرتا ہے ۔ اُس کی رائے میں اس مہم کے سرانجام کے لیے خود فاؤسٹ کو عالمِ مثال میں جانا پڑے گا ۔ فاؤسٹ ہمت کر کے عالم ِ مثال کا سفر اختیار کرتا ہے اور ’’امہات‘‘ کی دستگیری سے جو صورواعیان(امکانی موجودات) کی تخلیق کرتی ہیں ، وہ ہیلن کی روح کو ساتھ لاتا ہے ۔ شہنشاہ اور اُس کے درباری ، ہیلن کے حسنِ کامل کی قدردانی سے قاصر ہیں ۔ ان پر اس کے نظارے سے کوئی اثر نہیں ہوتا مگر فاؤسٹ دل و جان سے ہیلن پر عاشق ہو جاتا ہے ۔ وہ وارفتگی کے عالم میں اس پیکرِ مثالی سے ہم آغوش ہونے کے لیے بڑھتا ہے کہ دفعتاً ایک دھماکے کی آواز آتی ہے ، روحیں غائب ہو جاتی ہیں اور فاؤسٹ بے ہوش ہو کر گِر پڑتا ہے ۔ شیطان اسے کندھے پر لاد کر لے جاتا ہے اور اس کے پرانے مکان میں مطالعے کے کمرے میں پہنچا دیتا ہے ۔
شیطان جانتا ہے کہ فاؤسٹ کو ہیلن کا وصال حاصل کرنے کے لیے ایک انسانی پتلے کی مدد کی ضرورت ہے ۔ فاؤسٹ کا شاگرد واگنر جو اب ایک مشہور عالم ہے ، کیمیائی ترکیب سے ایک ’’ انسانی پتلا ‘‘ بنانے میں مصروف ہے ۔ شیطان ،واگنر سے مل کر اس مصنوعی انسان کی تخلیق میں اُس کی مدد کرتا ہے ۔ چشم ِ زدن (آنکھ جھپکنے کی دیر ) میں ایک شیشے کے اندر ایک چھوٹا سا انسان پیدا ہوتا ہے اور شیطان و واگنر سے باتیں کرنے لگتا ہے ۔ شیطان اس شیشے کو اٹھا کر فاؤسٹ کے پاس لاتا ہے جو اب تک بے ہوش پڑا ہے ۔ ’’ انسانی پتلا‘‘ اپنی مخفی بصیرت سے یہ معلوم کر لیتا ہے کہ فاؤسٹ اس وقت یونان کا خواب دیکھ رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ فاؤسٹ کو بیدار کرنا مناسب نہیں بلکہ اُسے اسی طرح اٹھا کر یونان لے چلنا چاہیے تاکہ جب اس کی آنکھ کھلے تو اپنے آپ کو اُس ملک میں پائے جس کا وہ آرزومند ہے اور جہاں اُسے ہیلن کا وصال حاصل ہو سکتا ہے ۔ شیطان تھوڑی دیر انکار کرنے کے بعد ساتھ چلنے پر راضی ہو جاتا ہے ۔ واگنر بھی ساتھ جانا چاہتا ہے مگر وہ پتلا اُسے ساتھ لے جانے سے انکار کرتا ہے اور اُسے مشورہ دیتا ہے کہ وہ بدستور اپنی عملی تحقیق میں مصروف رہے ۔
جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ، اس تمثیل میں گوئٹے کو عہدِ جدید کے انسان کا ذہنی اور روحانی ارتقا دکھانا منظور ہے ۔ اُس نے فاؤسٹ کو اپنے زمانے کے یورپی انسان کی ’’ رومانی‘‘ روح قرار دیا ہے اور ہیلن کو قدیم یونانی انسان کی’’ کلاسیکی‘‘ روح ۔ رومانی روح میں جوش ، قوت اوروسعت ہے نیز کلاسیکی روح میں ترتیب و ہم آہنگی ۔ ان دونوں روحوں کے ملنے سے مکمل انسان بن سکتا ہے ۔ فاؤسٹ کے شہنشاہ کے دربار میں جانے ، وہاں ہیلن کے روح کو بلانے ، اُس کے عشق میں مبتلا ہونے اور ہم آغوشی کی آرزو میں ناکام رہنے سے یہ مراد ہے کہ جب جدید یورپی انسان مدنی زندگی کی گتھیوں کو سلجھانا چاہتا ہے تو وہ اپنے تمدن اور خود اپنے نفس کے اندر انتشار سا پاتا ہے اور اُسے یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ قدیم یونانی تمدن کا مطالعہ کرکے صحیح اور ستھرا ذوق ِ جمال حاصل کرے ،جس کے بغیر ترتیب اور ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی ۔ لیکن اُسے محض تخیل کی مدد سے کلاسیکی تہذیب کا جو نقش نظر آتا ہے وہ خیالی اور بے بنیاد ہے ۔ اُس کا گہرا مشاہدہ بغیر ’’ تاریخی نظر‘‘ کے ناممکن ہے ۔ اسی تاریخی نظر کو گوئٹے نے استعارے میں ’’انسانی پتلا‘‘ کہا ہے ، جسے فاؤسٹ کا تخیل اور تفکر پیدا نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لیے واگنر کے صبرواستقلال اور محققانہ مطالعے کی ضرورت ہے ۔ البتہ اس سے کام وہی لے سکتا ہے جو تخیل کے پردوں پر اُترے ۔ بے چارہ محقق اس سے محروم رہتا ہے ۔ غرض ، ’’ انسانی پتلا‘‘ ، فاؤسٹ اور شیطان کو لے کر یونا ن پہنچتا ہے اور یہ سب کلاسیکی والپرگس کے جلسے میں شریک ہوتے ہیں جہاں تمام قدمائے یونان کی روحیں جمع ہیں ۔ یہاں ’’ انسانی پتلے‘‘ کا شیشہ ٹوٹ جاتا ہے اور اُسے موت آ جاتی ہے جو اصل میں اُس کی ولادت ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تاریخی نظر ،تخیل کے ساتھ مل کر علمی تحقیق کے تنگ دائرے میں محدود نہیں رہ سکتی بلکہ شاعرانہ مشاہدے کی وسیع فضا میں گم ہو جاتی ہے ۔
فاؤسٹ یونان میں ایک جرمن طرز کا قلعہ بناتا ہے اور جرمن سرداروں کے جھرمٹ میں وہاں رہتا ہے ۔ شیطان ، ہیلن کو بہکا کر اس قلعے میں لاتا ہے ۔ فاؤسٹ اور ہیلن کی شادی ہوتی ہے ، جس سے ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے ۔ جب یہ لڑکا پل کر بڑا ہوتا ہے تو ایک دن جوانی کے جوش میں دوشِ ہوا پر اڑتا ہوا نامحدود (لامحدود) فضا میں گم ہو جاتا ہے ۔ ہیلن بھی اُس کے پیچھے پیچھے چلی جاتی ہے مگر دونوں کے لبادے فاؤسٹ کے پاس رہ جاتے ہیں جنھیں لے کر وہ شیطان کے ساتھ جرمنی کو لوٹتا ہے ۔
یہاں گوئٹے نے رومانی اور کلاسیکی روح کے امتزاج کی حدود دکھائی ہیں ۔ عہدِ جدید کا انسان ، عہد قدیم کے تمدن کے مطالعے سے اتنا ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ اس کا ظاہری رنگ اختیار کر لے ۔ اُس کا اصلی پیکر رومانی ہی رہے گا ۔ البتہ اُس نے اوپر سے کلاسیکی روح کا لباس پہن لیا ہے ۔
مگر یہ فائدہ بھی کم نہیں۔
فاؤسٹ جب ہیلن اور اُس کے بیٹے کے لبادے(کپڑے) لیے ہوئے لوٹتا ہے تو اس میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ تمدنی زندگی کو ہم آہنگی کے ساتھ ترتیب دے سکے ۔ شیطان اسے عیش و عشرت اور عزت و شہرت کی طرف مائل کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے دل میں محض قوتِ عمل اور انسانی ہمدردی کا جذبہ ہے ۔ وہ را ہ میں سمندر کے کنارے ایک زمین کا خطہ دیکھتا ہے جسے پرشور سیلابوں نے کا ٹ کر ناہموار کر دیا ہے۔ اُسے عناصر کی اس تاخت و تاراج پر غصہ آتا ہے اور اس کے دل میں ولولہ اٹھتا ہے کہ یہاں پشتے بندھوا کر پانی کے زور کو توڑے اور اس زمین کو سمندر کے پنجے سے نکال کر اس پر ایک بستی بسائے ۔ شیطان کے مشورے سے وہ بادشاہ کی ایک لڑائی میں مدد کرتا ہے اور اس سے یہ زمین جاگیر میں لے لیتا ہے ۔ فاؤسٹ کی تجویز کامیاب ہوتی ہے ۔ شیطان کی مدد سے سمندر کے کنارے پشتے باندھے جاتے ہیں ، نہریں بنائی جاتی ہیں ، گودیاں(بندرگاہیں) تعمیر ہوتی ہیں ،جہازوں کی آمدورفت ہونے لگتی ہے ۔ تھوڑے ہی دن میں ایک بڑی بستی آباد ہو جاتی ہے جو فاؤسٹ کی حکومت میں مکمل تہذیب کا نمونہ بن جاتی ہے ۔
مگر گوئٹے کی نظر سے جدید تمدن کا تاریک پہلو بھی مخفی نہیں ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ یوروپی انسان کے عمل کی محرک ایک حد تک انسانی ہمدردی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ قوت و سطوت کا جذبہ ۔ وہ نوع انسانی کی خدمت نہیں بلکہ اُس پر حکومت کرنا چاہتا ہے اور ترقی کے نشے میں کمزوروں کے جذبات کو پامال کرتا ہے بلکہ اُن کے سروں کو پھر سے ٹھکراتا ہے ۔
فاؤسٹ کی بستی میں پرانے زمانے کی یادگار ایک جھونپڑی رہ گئی ہے جو ایک بوڑھے مرد اور اس کی بڑھیا بیوی کا مسکن ہے ۔ یہ دونوں اپنی جھونپڑی فاؤسٹ کے موعودہ محل کے بدلے بھی دینے کو تیار نہیں ۔ فاؤسٹ کی نظر میں یہ چیز کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے ۔ وہ شیطان کو بھیجتا ہے کہ ان لوگوں کو زبردستی یہاں سے ہٹا دے ۔ وہ جا کر جھونپڑی کو آگ لگا دیتا ہے جس میں بوڑھا اور بڑھیا بھی جل کر خاک ہو جاتے ہیں ۔ فاؤسٹ جب یہ خبر سنتا ہے تو اسے بہت افسوس ہوتا ہے لیکن وہ اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتا ہے کہ تمدن کی ترقی کے لیے یہ ظلم ناگزیر ہے ۔
وہ اپنے محل میں کھڑا آگ کے شعلوں کو دیکھ رہا ہے ۔ اتنے میں چار روحیں داخل ہوتی ہیں ۔ ان میں ایک یعنی ’’تشویش کی روح‘‘ اُس کے چہرے پر دَم کرتی ہے اور وہ اندھا ہو جاتا ہے ۔
اب وہ پھاوڑا چلنے کی آواز سنتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ پشتے باندھنے کے لیے زمین کھودی جا رہی ہے لیکن اصل میں ، شیطان اس کی قبر کھدوا رہا ہے ۔ فاؤسٹ اس وقت اپنی بستی کی ترقی کی نئی تجویز سوچ رہا ہے ۔ بستی پہاڑ کے دامن میں ہے اور اس کے قریب دلدل اور نم(گیلی) زمین ہے ۔ فاؤسٹ اپنے خیال میں محو اپنے آپ سے باتیں کر رہا ہے ۔ اگر یہ زمین خشک کر لی جائے تو یہاں ایک اور بستی بسائی جا سکتی ہے ۔ یہاں رہنا خطرناک ہو گا کیونکہ ہر وقت یہ اندیشہ رہے گا کہ کہیں سمندر کا سیلاب پشتوں کو توڑ کر ساری آبادی کو غرق نہ کر دے ۔ مگر اس میں کوئی ہرج نہیں کیونکہ اگر لوگ ہمیشہ خطرے میں رہیں تو ہر وقت ہوشیار اور مستعد بھی رہیں گے ۔ فاؤسٹ جب چشمِ تصور سے ان آزاد لوگوں کو اس آزاد کی ہوئی زمین پر دیکھتا ہے تو اس کا دل جوشِ مسرت سے لبریز ہو جاتا ہے اور وہ بے اختیار گزرنے والے سے کہتا ہے ، ’’ ذرا ٹھہر جا ، تو کتنا حسین ہے ! ‘‘ ۔
اب فاؤسٹ معاہدے کی رُو سے شیطان سے مغلوب ہو گیا ہے ۔ ارضی زندگی نے اُس کے دل کو لبھا لیا ہے ۔ اُس کا طائرِ روح جو فضائے حقیقت میں پرواز کرنے کی آرزو میں ہر وقت تڑپا کرتا تھا ، تھوڑی دیر کے لیے قفسِ مجاز (مجازی قید خانے یعنی دنیا)سے مانوس ہو گیا ہے ۔ لیکن یہ شکست محض ظاہری ہے ۔ واقعی شکست تو جب ہوتی کہ وہ مادی لذتوں پر پھسل پڑتا یا اپنی قوت پر مغرور ہو کر قدرتِ کاملہ سے سرکشی اختیار کرتا ۔ بخلاف اس کے ، وہ ’’ ابدی جوہر انوثیت‘‘ کے عشق کی بدولت شہوانی خواہشوں کی قید سے آزاد ہو چکا ہے ، انسان ہمدردی کے جذبے میں سرشار ہے اور اپنی قوت کو اپنی بصیرت کے مطابق تہذیب و تمدن کی ترقی میں صرف کرتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ابھی اُس کی ارتقا میں بہت سے مراحل باقی ہیں۔ ابھی وہ اُس بے خودی کی لذت سے واقف نہیں جس سے خودی کی تکمیل ہوتی ہے ۔ ابھی اُس میں اتنی پختگی نہیں پیدا ہوئی کہ نوعِ انسانی کی خدمت میں اپنی انفرادیت کو کھو کر اپنی شخصیت کو پا لے اور تسلیم و عقیدت کے بحرِ ذخار میں ڈوب کر ’’ قطرے‘‘ سے ’’ گوہر‘‘ بن جائے ۔ جس میں بہ قول ِ غالب کہ د ریا کا اضطراب محو ہو جاتا ہے ۔ لیکن رحمتِ ایزدی انسانی کوششوں کی محدودیت سے واقف ہے ؛ وہ نیت کی پاکی اور سعی کی استواری کو دیکھتی ہے اور نتائج کی ناتمامی سے چشم پوشی کرتی ہے ۔ وہ فرشتوں کی زبان سے کہتی ہے ، ’’ جو روح سرگرمِ سعی(جدوجہد کر رہی ) ہے اُسے ہم نجات دے سکتے ہیں‘‘۔
عالمِ ارضی میں فاؤسٹ کی سعی اپنی حد کو پہنچ چکی ہے ۔ اُس کا ’’ وقت‘‘ پورا ہو گیا ہے اور معاہدے کے الفاظ کے مطابق، ’’ گھڑی بند ہو جاتی ہے، سوئی گر جاتی ہے‘‘، یعنی اُس کی روح جسم سے جدا ہو جاتی ہے ۔ شیطان سمجھتا ہے کہ یہ روح اُس کی ہو گئی لیکن فرشتوں کا گروہ آتا ہے ، اُسے اپنے حسن سے مسحور کر دیتا ہے اور فاؤسٹ کی روح کو لے کر طبقاتِ سماوی (آسمانی مراحل) سے گذرتا چلا جاتا ہے ۔ راہ میں گریچن کا مثالی پیکر اپنی ماں کے گلے سے لپٹا نظر آتا ہے ۔ یہ ’’ ابدی جوہر انوثیت‘‘ کا ایک جلوہ ہے جو فاؤسٹ کی روح کے لیے شمع ِ راہ کا کام دیتاہے ۔ اب یہ روح اُس سرحد میں داخل ہو گئی ہے جہاں فروغِ تجلی سے مرغِ خیال کے پر چلتے ہیں ۔ فقط قدسیوں کی سنگت کی آواز آ رہی ہے:-
سب فانی چیزیں
محض مجازی نقوش ہیں ؛
عالمِ حقیقت میں سعیِ ناتمام
واقعہ بن جاتی ہے ،
یہاں ارادۂ ناگفتہ
پورا ہو جاتا ہے ؛
ابدی جوہر انوثیت
ہمیں آگے کھینچے لیے جاتا ہے