حینا ایرنت: مطلق العنانیت کا فلسفہ۔ مصنف: موناشہ چوہدری (مترجم: عاصم رضا)
نوٹ: زیرِ نظر ترجمہ کا اصل انگریزی متن اس لنک سے حاصل ہو سکتا ہے۔
ہٹلر کے زیرِ تسلط جرمنی سے فرار ہونے نیز ہولو کاسٹ میں اپنی نسل کے کردار کی تفہیم کے پیشِ نظر جرمن یہودی حینا ایرنت بیسویں صدی کے مؤثر ترین سیاسی فلسفیوں میں شامل ہو گئی۔
ہم حینا ایرنت کو بیسیویں صدی کی انتہائی اہم فلسفی اور سیاسی نظریہ ساز کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے آخری برسوں میں خود کو فلسفی ماننے سے انکاری تھیں لیکن بیسیویں صدی کے فلسفے کے ذیل میں حینا ایرنت کی دو کتابیں ”مطلق العنانیت کی اصل“ (مطبوعہ 1961ء) اور ”ایشمان یروشلم میں: شر کے عامیانہ پن کی ایک روداد“ (مطبوعہ 1964ء) اہم تصانیف کی حیثیت سے پڑھی پڑھائی جاتی ہیں۔
حینا ایرنت کے معاصرین (بالخصوص) اور فلسفی حضرات (بالعموم) دونوں ہی حینا ایرنت کے مطالعے میں اکثروبیشتر اس غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں کہ ایک ترقی پسند جرمن خاندان میں اس کی پرورش کا ذکر گول کر جاتے ہیں۔ تاہم اسے بے دھڑک الفاظ کے استعمال پر اہل خانہ اور احباب کے سخت تبصروں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ خصوصًا ہفتہ وار میگزین نیویارکر میں چھپنے والی رودادِ ایشمان کے بعد، سبھی نے حینا پر ایک ایسے یہودی تشخص کا الزام دھرا جو نہ صرف خود نفرینی کا شکار تھا، بل کہ نازی جرمنی میں تکالیف اٹھانے والے یہودیوں سے یکسر لاپرواہ بھی تھا۔ نیویارکر میگزین میں شائع ہونے والی اس کی روداد کو ہنوز اس الزام کے روبرو اپنا دفاع کرنا ہے کہ یہودی اپنی تباہی کے خود ہی ذمہ دار ہیں۔ حینا ایرنت کے بقول، تفہیم ہی وہ (بنیادی) ذمہ داری ہے جو کسی موضوع پر قلم اٹھانے کی جسارت کرنے والے پر عائد ہوتی ہے۔ چنانچہ زیرِنظر مضمون ”مطلق العنانیت کی اصل“ اور ”ایشمان“ کو اس طور سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان دونوں کا تعلق حینا ایرنت نامی ایک ایسی یہودی شخصیت کے ساتھ ہے جس کو سوچنے سمجھنے کی جسارت پر اسی کی برادری نے باہر نکال دیا۔
حینا ایرنت کا پس منظر:
1906ء میں مغربی جرمنی کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والی حینا ایرنت کی پرورش ایک ایسے یورپی ماحول میں ہوئی جس کو ”یہودیت کا سوال“ درپیش تھا۔ اگرچہ حینا ایرنت مصلحین اور سوشل ڈیموکریٹس پر مشتمل ایک یہودی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، اس کی پرورش ایک سیکولر ماحول میں ہوئی جس نے اس پر دیرپا اثرات چھوڑے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سات برس کی عمر میں والد کی وفات نیز والدہ کی سیال طبیعت نے حینا ایرنت کی زندگی کے ابتدائی برسوں میں اس پر اثرات مرتب کیے۔
(از مترجم): حینا ایرنت نے ”یہودیت کا سوال“ نامی عنوان کے تحت باقاعدہ ایک مضمون بھی لکھا تھا جس کے چند منتخب فقرے بطور نمونہ درج ذیل ہیں:
The modern Jewish question dates from the Enlightenment; it was the Enlightenment — that is, the non-Jewish world — that posed it. Its formulations and its answers have defined the behavior and the assimilation of Jews.
..Thus the Jews have become a people without a history within history. Herder’s understanding of history deprives them of their past. Once again they stand face-to-face with nothing. From within a historical reality, from within a European secularized world, they are forced somehow to adopt themselves to this world, to form themselves. But for them formation is by necessity everything that is the non-Jewish world. Once they have been deprived of their own past, present reality begins to reveal its power. Formation is the only possible means they have to survive this present.
(اصل نام یوحنا ایرنت) حینا ایرنت نے فلسفہ، یونان اور (بعد ازاں) سیاسیات کو بطور مضمون اختیار کیا۔ 1920ء میں ماربرگ یونیورسٹی میں ایرنت کی ملاقات عظیم جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر سے ہوئی۔ اس وقت اٹھارہ سالہ حینا ایرنت پینتیس برس کے شادی شدہ ہائیڈیگر کی ایک شاگردہ تھی۔ ان کے علمی تعلق نے بہت جلدی انتہائی پیچیدہ مگر ایک ذاتی نوعیت کے تعلق کی صورت اختیار کر لی تھی۔ ہائیڈیگر کے نازی جماعت کے ساتھ وابستگی کی بدولت بھی ان کا رومانوی اور علمی تعلق گہرے تناؤ کا شکار ہوا۔ تاہم ایرنت کی زندگی کے بیشتر وقت میں دونوں ہی ایک دوسرے سے رابطے میں تھے۔
حینا ایرنت کی زندگی میں دوسری کلیدی شخصیت، وجودی فلسفی کارل جاسپر کی تھی۔ جاسپر، ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اس کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا نگران تھا جہاں سے اس نے فلسفی میں ڈاکٹریٹ حاصل کی تھی۔ ایرنت معترف ہے کہ جاسپر نے کئی مواقع پر اس کے اندازِ فکر اور بیان کو بے پناہ متاثر کیا۔ 1933ء تک جرمنی کی سماجی و سیاسی صورت حال پر وہ غیر سیاسی خیالات کی حامل تھی جس کو اسرائیلی پروفیسر شلومان (سلیمان) کے ساتھ اس کی خط و کتابت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شلومان نے 1931ء میں ہٹلر کے حکومت سنبھالنے پر ایرنت کوایک خط میں آئندہ حالات کے بارے میں خبردار کیا؛ جس کے جواب میں اس نے تاریخ یا سیاسیات میں اپنی عدم دلچسپی کی بابت لکھا۔ یہ سب کچھ اس وقت تبدیل ہوا جب 1933ء میں ایرنت کو چھبیس برس کی عمر میں صیہونی تنظیم سے وابستہ قریبی دوستوں کے ذریعے جرمنی سے بھاگنا پڑا۔ بعد ازاں، ایرنت نے اپنے انٹرویوز اور لیکچروں میں بارہا سیاسیات و تاریخ میں اپنی عدم دلچسپی کے خاتمہ پر کہا کہ ”1933ء کے جرمنی میں (سیاسی حالات سے) بے اعتنائی ناممکن تھی“۔
(بہرحال) ایرنت پیرس چلی گئی اور مارکسی فلسفی ہنرش بلوشر سے شادی کر لی؛ ان دونوں کو ہی جنگی قیدیوں کے کیمپ میں بھیجا گیا تھا۔ بلوشر اور جرمنی کی کمیونسٹ پارٹی کی مخالفت میں بلوشر کے کام نے ہی ایرنت میں سیاسی عمل سے متعلق جوت جگائی۔ 1941ء میں ایرنت اپنے خاوند کے ساتھ ریاست ہائے متحدہ امریکا چلی گئی۔ 1937ء میں اس کی جرمن شہریت منسوخ کر دی گئی اور پھر 1950ء میں وہ امریکی شہری قرار پائی جب کہ وہ چودہ برس تک کسی ملک کی شہریت کی حامل نہ تھی۔ 1951ء کے بعد ایرنت نے بطور وزٹنگ سکالر کیلی فورنیا یونیورسٹی، پرنسٹن یونیورسٹی، اور نیو سکول برائے سوشل ریسرچ میں پولیٹیکل تھیوری پڑھائی۔
فلسفہ اور سیاسی فکر:
ایک ٹی وی انٹرویو میں حینا ایرنت نے فلسفہ اور سیاسیات میں تفریق کی بنیاد موضوعاتی مواد پر رکھی۔ اسی انٹرویو کے آغاز میں اس نے خود کو ”فلسفی“ کہنے سے منع کر دیا تھا۔ حینا ایرنت کے مطابق، فلسفہ نے اپنے کندھوں پر روایت کا بوجھ لاد رکھا ہے جس سے وہ اپنے آپ کو دور رکھنے کی خواہاں تھی۔ وہ اس نکتے کو کھولتی ہے کہ فلسفہ اور سیاسیات کی باہمی کشمکش دراصل انسان کے فکری اور عملی وجود کے درمیان تناؤ سے عبارت ہے۔ وہ فلسفہ سے ہٹ کر سیاست پر نگاہ ڈالنے کی متمنی تھی۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اس کو شاذ و نادر ہی ”سیاسی فلسفی“ کہا جاتا ہے۔
ایرنت کے ہاں فلسفہ و سیاسیات کے ضمن میں مذکورہ تفریق کی جڑیں اس کے ہاں موجود عملی حیات (life of action) اور فکری حیات (life of contemplation) کی تقسیم میں جاگزیں ہیں۔ وہ اپنی کتاب ”انسانی صورت حال“ (دی ہیومن کنڈیشن: مطبوعہ 1959ء) میں محنت (لیبر)، کام (وَرک) اور عمل (ایکشن) سے وہ سرگرمیاں مراد لیتی ہے جو جانوروں کے مقابلے میں ہمارے انسان ہونے سے عبارت ہیں۔ (اور) اپنی کتاب ”ذہنی حیات“ (دی لائف آف دی مائنڈ: مطبوعہ 1978ء) میں فکری صلاحیتوں میں سوچ بچار (تھنکنگ)، ارادے (وِلنگ) اور فیصلہ سازی (ججمنٹ) کو شامل کرتی ہے۔ یہی کتابیں حینا ایرنت کی سب سے زیادہ خالص فلسفیانہ تصانیف ہیں (بحوالہ بن حبیب، 2003)۔
ایک جانب دستوریت (constitutionalism)، قانون کی عمل داری نیز (عمل اور رائے دہی کے حق سمیت) بنیادی حقوق کے ضمن میں حینا ایرنت کی کڑی حمایت اور دوسری جانب جمہوری نمائندگی اور سیاست میں اخلاقیات کی تنقید، دونوں جہات نے قارئین کو الجھا رکھا ہے کہ سیاسی منظر نامے میں وہ کہاں کھڑی ہے۔ بلاشبہ، ایرنت کی سب سے بڑی شناخت ایک لبرل مفکر کی ہے۔ اس کے نزدیک، سیاست انفرادی ترجیحات کے حصول کا ذریعہ یا مشترکہ تصورات پر محیط ایک تنظیمی طریقہ کار سے عبارت نہیں ہے۔ ایرنت کے نزدیک، سیاست فعال شہریت (active citizenship) پر مبنی ہے یعنی شہری ذمہ داری کے ساتھ سیاسی گروہ پر اثر انداز ہونے والے مسائل پر بحث مباحثہ میں بھرپور حصہ لیا جائے۔
اپنے بیش تر کام کی مانند، حینا ایرنت کی ذات کو بھی فکر و تصنیف (یعنی فلسفی و ادیب) یا محض ایک شخصیت جیسے مروجہ خانوں میں بانٹا نہیں جا سکتا۔ اب تک بے شمار فلسفی اور محققین اس کو روایتی پیمانوں میں جکڑنے کی بے سود کوششیں کر چکے ہیں۔ تاحال اپنے سُچے /کھرے افکار اور غیر متزلزل اعتماد کی بدولت ایرنت نے اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں فلسفیانہ روایتوں سے بچا رکھا ہے۔
تمہید: ”مطلق العنانیت کی اصل“ نامی کتاب کی تفہیم
”مطلق العنانیت کی اصل“ نامی کتاب کی بدولت حینا ایرنت کا شمار اس صدی کے اہم ترین سیاسی مفکرین میں ہوتا ہے۔ اس کتاب میں حینا معاصر عہد کے بنیادی ترین سیاسی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے یعنی نازی ازم اور سٹالن ازم کی تفہیم۔ آج مطلق العنانیت سےمراد ایک آمرانہ حکومت ہے جو اپنی عوام کو کامل اطاعت پر مجبور کرتی ہے۔ حینا ایرنت کے مطابق، انسانیت مطلق العنانیت کی مثال پیش کرنے سے قاصر تھی یعنی یہ ایک انوکھی حکومت تھی نیز جبرواستبداد کی انتہائی صورت بھی نہیں تھی جیسا کہ معروف ہے۔ چنانچہ، مذکورہ کتاب نے مطلق العنانیت جیسے سیاسی دائروں میں گرفتار انسانی صورت حال کی تفہیم کے لیے ایک فریم ورک پیش کیا۔ حینا ایرنت اس کتاب میں سہ گونہ تجزیے (analysis) کے ذریعے مطلق العنانیت کا ایک عمیق تجزیہ پیش کرتی ہے: یہود دشمنی، سامراجیت اور مطلق العنانیت۔
حینا ایرنت اپنے تجزیے کا آغاز اپنے اُستاد کارل جاسپر کے قول سے کرتی ہے کہ ”ماضی اور مستقبل کا شکار مت بنو۔ جو کچھ بھی ہے اس کا تعلق لمحۂ موجود سے ہے“۔
اس ابتدائی قول کا مقصد ایرنت کے عمر بھر کے استاد اور گرو سے انتساب تک محدود نہیں ہے۔ مذکورہ کتاب میں مطلق العنانیت کے مطالعہ کا مقصد اس کی وجوہات سے قطع نظر کارگزاری کی تفہیم ہے کہ یہ کیسے اور کیوں کر بروئے کار آتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ساری دنیا کو ہی ”یہودی سوال“ درپیش تھا جب کہ اسی اثناء میں ہٹلر کے ہاتھوں ہونے والی ہولناک تباہی کو بھولنا بھی تھا۔ ”یہودی ہی کیوں؟“۔ بہتوں کے مطابق یہود دشمنی (دراصل) دنیا کی ایک دائمی حالت (سچویشن) تھی اور کچھ حضرات کے نزدیک موجودہ حالات میں یہودی (درحقیقت) قربانی کا بکرا بنائے گئے۔ اس سب کے برعکس ایرنت سوال اٹھاتی ہے کہ ایسے ماحول ہی میں یہود دشمنی کیونکر بروئے کار آئی نیز اس نے فسطائیت جیسی آئیڈیالوجی کے ظہور میں کیسے حصہ ڈالا۔ لہٰذا جاسپر کے قول کو دہراتے ہوئے حینا ایرنت نہایت عمدگی کے ساتھ اپنی تفتیش و تحقیق کو (اس وقت کی اور) مطلق العنانیت کی موجودہ کارگزاری کے قلب میں اتار دیتی ہے۔
”ایک ہی نسل کے عینِ حیات میں برپا ہونے والی دو عظیم جنگیں جن کے درمیانی عرصہ میں علاقائی جھگڑوں اور انقلابات کا ایک مستقل سلسلہ جاری رہا نیز مفتوح کے لیے کوئی امن معاہدہ نہ تھا اور نہ ہی فاتح کے لیے کسی قسم کی عارضی مہلت، اور اس سب کا خاتمہ باقی رہ جانے والی دو عالمی طاقتوں میں ایک تیسری عالمی جنگ کی ممکنہ پیش بندی کی صورت میں ہوا ہے۔ اس پیش بندی کا دورانیہ ایسی خاموشی کی مثل ہے جو تمام تر امیدوں کے ملیامیٹ ہونے پر ہر سُو پھیل جاتی ہے۔ ہم اب کسی صورت پرامید نہیں ہیں کہ سابقہ عالمی نظام (ورلڈ آرڈر) اپنی تمام تر روایات کے ہمراہ حتمی طور سے بحال ہو پائے، یا پھر پانچوں براعظموں کے انسانوں کو ازسرنو یکجا کیا جائے جو جنگوں اور انقلابات کے ہاتھوں جنم لینے والے انتشار میں جا پڑے ہیں نیز آئے روز تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔ انتہائی متنوع شرائط اور بے جوڑ حالات و واقعات کے تحت وہی مظہر یعنی بے مثال بے گھری (ہوم لِیس نیس) اور انتہائی بے نظیر و عمیق خانہ بدوشی (رُوٹ لِیس نیس) ہماری نگاہوں کے سامنے ہے“ (بحوالہ، ایرنت، 1968)۔
”مطلق العنانیت کی اصل“ نامی کتاب کا دیباچہ قارئین کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ان حیرت انگیز گھاٹیوں میں فعال دلچسپی اور اشتغال سے کام لیں جن کی بدولت بیسیویں صدی کے واقعات نے دنیا کو تبدیل کر دیا ہے۔ ”بے مثال بے گھری اور انتہائی بے نظیر و عمیق خانہ بدوشی“ والے ٹکڑے میں ان دہشت ناک حالات کی گونج موجود ہے جو نازی جرمنی میں یہودیوں کو درپیش تھے جب کہ دنیا نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی۔
حینا ایرنت مذکورہ کتاب میں ”عوام“ (the people)، ”بلوائی“ (the mob)، ”بھیڑ“ (the masses)، اور ”مطلق العنان رہنما“ جیسے تصورات کو جابجا استعمال کرتی ہے۔ ”عوام“ سے مراد ہے قومی ریاست کے ملازم پیشہ شہری، ”بلوائی“ سے مراد سیاسی مقاصد کے لیے متشددانہ ذرائع کو استعمال کرنے والے سبھی گروہ، ”بھیڑ“ سے مراد اپنے ہم وطنوں سے تمام تر تعلقات ختم کر بیٹھنے والے افراد، اور ”مطلق العنان رہنما“ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا ارادہ ہی قانون ہے یعنی ہٹلر اور سٹالن جیسی شخصیات۔
یہود دشمنی میں بڑھوتری :
”مطلق العنانیت کی اصل“ نامی کتاب کے پہلے حصے بعنوان ”یہود دشمنی“ میں حینا ایرنت جدید زمانے میں یہود دشمنی میں بڑھوتری کو سیاق و سباق دیتے ہوئے بحث کرتی ہے کہ یہودیوں کو سماج سے ختم کرنے کے ساتھ ہی ساتھ مقتدر حلقوں میں جگہ بھی دی گئی تھی۔ جاگیردارانہ سماج میں یہودی مالیاتی عہدوں پر کام کرتے تھے یعنی مقتدر حلقوں کی مالیات کو سنبھالتے تھے۔ اپنی خدمات کے عوض وہ سودی رقوم اور مخصوص فائدے حاصل کرتے تھے۔ جاگیرداری کے خاتمے پر حکومتیں/ریاستیں بادشاہوں کی جگہ حاصل کر نے کے ساتھ ہی ساتھ متجانس معاشروں پر حاکم بن گئی تھیں۔ اس سب کی بدولت یورپ بھر میں قومی ریاست کہلانے والی مخصوص شناختوں کے حامل علاقے وجود میں آئے۔
یہودیوں نے اپنی حیثیت میں تبدیلی دیکھی کہ اب انہیں متجانس قومی ریاستوں کی مالیات سنبھالنی ہے۔ تاہم مقتدر حلقوں سے باہر رہنے کے باوجود انھوں نے دولت اور مخصوص مراعات حاصل کیں جس کے نتیجے میں وہ عملی اعتبار سے عمومی نظامِ ریاست سے لا تعلق ہو گئے۔
مذکورہ کتاب کے دوسرے حصے بعنوان ”سامراجیت“ میں حینا ایرنت بحث کرتی ہے کہ کیسے انیسیویں صدی میں سامراجیت نے یورپ بھر میں غلبہ حاصل کر لیا اور یہودی اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھے۔ اس عہد کے معاشی بحرانوں نے لوگوں کو ان کے قدیمی طبقات سے کاٹ دیا جس کے نتیجے میں غضب ناک بلوائیوں کا جنم ہوا۔ ریاست کے ساتھ پہلے سے موجود تصادم میں رہتے ہوئے بلوائیوں کا ماننا تھا کہ وہ درحقیقت یہودیوں کے ساتھ بھی تصادم میں تھے۔ اگرچہ یہودیوں کے پاس دولت تھی مگر وہ بمشکل ہی کسی قسم کی حقیقی قوت/طاقت کے حامل تھے۔لیکن ان بلوائیوں نے اس پروپیگنڈے کی نشرواشاعت کو یقینی بنایا کہ پس پردہ رہنے کے باوجود یورپی معاشرے کی باگ ڈور درحقیقت یہودیوں کے ہاتھ میں تھی۔
انیسیویں صدی کے یورپ میں میں یہود دشمنی کا سب سے بڑا مظاہرہ ڈریفس افیئر نامی سیاسی بحران تھا۔ فرانسیسی آرٹلری یعنی توپ خانے کے ایک افسر الفریڈ ڈریفس پر غداری کا الزام دھرا گیا نیز اس ناکردہ جرم کی سزا سنائی گئی جس کی بنیاد مذکورہ افسر کے یہودی پس منظر پر استوار تھی۔ اگرچہ ڈریفس مخالف جذبات نے دائیں اور بائیں دونوں طبقات کو یکجا کر دیا، کلیمینسو (جو کہ اس وقت کی ریڈیکل پارٹی کا لیڈر تھا) ایک غیر جانب دار قانون کے تحت برابری میں یقین رکھنے کا خواہاں تھا۔ اس نے انتہا پسندوں (ریڈیکلز) کو قائل کیا کہ حزب اختلاف بنیادی طور پر اشرافیہ کا ایک جھنڈ تھی جس کی بدولت اُسے ڈریفس کے لیے حمایت حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی۔ بالآخر، ڈریفس کو عمر قید کی سزا سے معافی مل گئی۔ لیکن کلیمینسو کے عزائم کے لیے خطرے کی بات یہ تھی کہ ڈریفس افیئر تو تیرتی ہوئی برفانی چٹان کا صرف ایک اوپری کنارہ تھا۔
سامراجیت کا ظہور:
”مطلق العنانیت کی اصل“ نامی کتاب کے دوسرے حصے بعنوان ”سامراجیت“ میں حینا ایرنت اس جانب توجہ مبذول کرواتی ہے کہ کیسے سامراجیت نے مطلق العنانیت کی بنیادیں استوار کیں۔ ایرنت کے نزدیک، (نوآبادیاتی علاقوں کے لیے) سامراجیت کی حیثیت قومی دائرے میں توسیع سے زائد ہے؛ بل کہ سامراجی قوم (metropol) کی حکومت کو متاثر کرنے کا ایک طریقہ کار بھی ہے۔ انقلابِ فرانس کے بعد، اشرافیہ کے متبادل کی حیثیت سے کوئی دوسرا طبقہ سامنے نہیں آیا لیکن بورژوا طبقے کو معاشی اعتبار سے برتری حاصل ہو گئی تھی۔ انیسویں صدی میں 1870ء کی دہائی تک رونما ہونے والی معاشی کساد بازاری کی بدولت لوگوں کی ایک بڑی تعداد طبقاتی تقسیم سے باہر ہو گئی نیز بورژوا طبقہ کی ایسی حالت ہوئی کہ اضافی سرمایہ تو موجود تھا لیکن مارکیٹ ندارد۔
اسی اثناء میں برٹش انڈیا کی تقسیم کے ساتھ ہی یورپی اقوام کے غیر ملکی تسلط کے خاتمے کی شروعات ہوئی۔ بورژوا طبقہ کو آخری دھکا دینے کی غرض سے جداگانہ حیثیت کی حامل قومی ریاستیں ضرورت سے زائد سرمائے کا کوئی مصرف مہیا نہیں کر سکتی تھیں۔ غیر ملکی معاملات کو سنبھالنے اور کسی قاعدے قانون میں ڈھالنے کے ضمن میں قومی ریاست کی نااہلی کے علاوہ یہ صورت بھی سامنے آئی کہ قومی ریاست بورژوا طبقے کے روبرو موم ہو گئی۔ لہذا انھوں نے دنیا بھر کے غیر سرمایہ دار معاشروں میں اس طور سے پیسہ لگانا شروع کر دیا کہ سرمائے کی برآمد کے ساتھ ہی ساتھ کسی بھی قسم کے ممکنہ خطرے سے بچاؤ کے لیے سیاسی فوج کھڑی کی جائے۔ یہی وہ شے ہے جس کو حینا ایرنت ”بورژوا طبقہ کی سیاسی خلاصی“ اور سامراجیت کا آغاز کہتی ہے۔ اس کے بقول، سامراجیت سے قبل ”عالمی سیاست “ کا تصور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
یہ بات لائق توجہ ہے کہ ایرنت کی تحاریر میں بورژوا طبقہ کی نیچر سے متعلق استخراج کا ماخذ ٹامس ہوبس کی کتاب ”لُووائتھن“ ہے جسے حینا ”بورژوا طبقے کا مفکر“ سمجھتی ہے۔ ہوبس لُووائتھن میں طاقت کو انسانی زندگی میں مرکزی جگہ دیتا ہے نیز انسان کو کسی قسم کی ”اعلیٰ صداقت“ یا معقولیت کا اہل نہیں سمجھتا۔ حینا ایرنت اسی تعین کو کام میں لاتی ہے کہ معاشرے میں بورژوا طبقے اور اس کے کردار کو سمجھنے کی غرض سے طاقت کی تفہیم بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ حینا ”سامراجیت“ نامی حصۂ کتاب میں بورژوا سے متعلق جو کراہت محسوس کرتی ہے اس کو جواز دینے کے لیے بھی ہوبس بطور جملہ معترضہ کام آتا ہے۔
حینا ایرنت کے مطابق، (استعماریت اور سامراجیت باہم مختلف ہیں۔ استعماریت (کالونائزیشن) اور سامراجیت دونوں کے تحت سرمائے کا جال غریب ملکوں (peripheral nations) تک پھیلایا جاتا ہے۔ لیکن استعماریت کے برعکس، سامراجیت میں غریب ممالک تک قانونی دائرے کو وسعت نہیں دی جاتی ہے۔ کسی غریب ملک میں محسوس ہونے والے اس اہم غیر ملکی سیاسی اثر و رسوخ کو کسی مناسب قانون کے تحت باقاعدہ صورت نہیں دی جاتی ہے لہٰذا ”بلوائیوں اور سرمائے کے مابین سمجھوتہ“ ہی واحد قانون بن جاتا ہے جیسا کہ حینا ایرنت بیان کرتی ہے۔ اپنی طبقاتی تقسیم سے اوپر نہ اٹھ سکنے والے اور بپھرے ہوئے بلوائی بورژوا طبقے کے مقاصد میں شریک ہو جاتے ہیں تاکہ انہیں کسی ایک طبقے کا حصہ بنا لیا جائے۔ پس سامراجیت کے ایسے معاشی اور سیاسی اثرات قومی سطح پر اس نوعیت کے سمجھوتوں/ الائنسوں کے ظہور میں سہولت کاری کرتے ہیں جب کہ اسی اثناء میں عالمی سطح پر گلوبل سیاست کے لیے ذرائع پیدا کرتے ہیں۔
”سامراجیت کی ابتدائی دہائیوں میں سیاسی تنظیم اور دوسری قوموں پر حکومت کے لیے دو نئے حربے ظاہر ہوئے۔ ایک تو سیاسی ہیئت (body politics) کے لیے نسل بطور اصول اور دوسرا، غیر ملکی تسلط کے لیے بیوروکریسی بطور اصول “ (ایرنت، 1968)۔
پھر حینا ایرنت جدید نسل پرستی اور بیوروکریسی کی بنیادوں کو سامراجیت کے ساتھ جوڑتے ہوئے زیرِ بحث لاتی ہے۔ وہ ”نسلی تفکر“ کے بغور جائزے سے آغاز کرتی ہے جو کہ آئیڈیالوجی کی بجائے زیادہ تر سماجی رائے پر مبنی ہے۔ نسلی تفکر وہ حربہ تھا جس کو فرانسیسی اشرافیہ نے انقلاب سے اپنی جان بچانے کی غرض سے استعمال کیا۔ نیز اس بات کو جواز دینے کی غرض سے نادرست انداز میں تاریخ اور ارتقاء کو استعمال کیا کہ کسی متجانس معاشرے میں ایک خاص نوع سے وابستہ لوگ کیونکر مختلف رویوں کے حامل ہوتے تھے۔ نسلی تفکر کے اس غیر قومی وصف کو بعد ازاں نسل پرستی کے ساتھ منسوب کر دیا گیا۔
نسلی تفکر کو سمجھنے کی غرض سے جنوبی افریقہ کی مثال پڑھی پڑھائی جاتی ہے۔ (ولندیزی اور ہنگری نسل سے تعلق رکھنے والے) بوئرز جنھیں حینا ایرنت یورپ کے ”فالتو“ (سُوپر فلوئس) کہتی ہے، وہ لوگ تھے جو اپنے ساتھی انسانوں کے ساتھ تعلق کھو بیٹھے تھے نیز معاشرے کے لیے غیر ضروری سمجھے جاتے تھے۔ انیسیویں صدی میں یورپ کے اِن فالتو انسانوں نے جنوبی افریقہ میں نوآبادیات قائم کیں۔ سماجی تفہیم اور سمجھ بوجھ سے یکسر عاری یہ ولگ افریقی زندگی کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ (افریقہ کے) ”قدیم“ (primitive) لوگوں کی عدم تفہیم یا ان کے ساتھ تعلق قائم نہ کر سکنے کی اہلیت نے نسل پرستی کے تصور کو دن بہ دن زیادہ پُرکشش بنا دیا۔ قدیم لوگوں سے ممتاز کرنے کی کاوش کے نتیجے میں انھوں نے نسلی بنیادوں پر مقامی لوگوں کے روبرو اپنے آپ کو بطور دیوتا پیش کیا۔ بوئرز سب سے زیادہ مغرب زدگی (ویسٹرنائزیشن) سے خوف زدہ تھے کیوں کہ ان کا اعتقاد تھا کہ اس کے نتیجے میں وہ مقامی لوگوں کے مقابلے میں اپنی طاقت کھو بیٹھیں گے۔
دوسری جانب، بیوروکریسی کے مطالعے میں لارڈ کرومر کے روابط کا ذکر ملتا ہے۔ وائسرائے ہند لارڈ کرومر ایک سامراجی بیوروکریٹ بن گیا تھا۔ اس نے ہندوستان میں بیوروکریسی کو استوار کیا نیز رپورٹس کے بل بوتے پر حکومت کرتا تھا۔ وہ اپنے طرزِ حکمرانی میں سیسل رہوڈز کے انداز برائے ”پس پردہ اقتدار“ کا پیروکار تھا۔ علاقائی توسیع کو لارڈ کرومر کے ہاتھوں تجسیم میسر ہوئی اور انھی خواہشات نے بیوروکریسی کے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ اس توسیعی تحریک کی منزل صرف ایک تھی یعنی پہلے سے زیادہ پھیلاؤ۔ بیوروکریسی کے نظام میں قانون کی جگہ فرمان کو مل جاتی ہے اور یہی کچھ نوآبادیات میں ہوا۔ قانون کی جڑیں عقل و استدلال میں پیوست ہوتی ہیں نیز وہ انسانی صورت حال سے وابستہ ہوتا ہے۔ لیکن فرمان کا محض ایک ہی مطلب ہے یعنی ”ہونا“۔ چنانچہ سامراجیت کے لیے فرمان (یا بیوروکریسی) کے ذریعے حکومت ہی کامل طریقہ کار ہے۔
نسلی تفکر بعد ازاں نسل پرستی میں ڈھل جاتا ہے جب کہ بیوروکریسی سامراجیت کی سہولت کار بنتی ہے اور دونوں باہم مل کر ”مطلق العنانیت“ کے لیے بنیادیں استوار کرتے ہیں۔ ”سامراجیت“ نامی حصے کے آخری ابواب میں حینا ایرنت مطلق العنانیت کے پیش رو عناصر میں ایک اور چیز کا اضافہ کرتی ہے یعنی ”پان“ کے لاحقہ کو استعمال کرنے والی (لسانی، صوبائی، اور مذہبی) تحریکیں۔ ایسی تحریکوں کا بنیادی مقصد جغرافیائی اعتبار سے کسی قوم، لسانی گروہ، نسل یا مذہب کو یکجا کرنا ہوتا ہے۔ ایسی تحریکوں کی ابتداء براعظمی سامراجیت کے ہاتھوں ہوئی تھی یعنی اس اعتقاد کے ساتھ کہ کسی قوم اور نوآبادیات کے مابین کسی قسم کی جغرافیائی تفاوت نہیں ہونی چاہیے۔ اس قسم کی سامراجیت ڈھکے چھپے انداز میں قانون سے اعراض نہیں کر سکتی تھی کیوں کہ وہ باہم مماثل آبادی کو ایک بنانے کی کھوج کرتی تھی۔
وہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے کی غرض سے کھلم کھلا قانون کو نظر انداز کرتی تھی۔ جرمن پسندی (پان جرمن ازم) اور سلاؤ پسندی (پان سلاؤ ازم) (جیسی لسانی تحریکیں) اس قسم کی آئیڈیالوجیز کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ایسی تحریکوں کو باقاعدم منظم کیا گیا تھا نیز وہ ببانگ دہل ریاست دشمن /اینٹی سٹیٹ (اور جماعت دشمن/اینٹی پارٹی) تھیں۔ نتیجتاً، بھیڑ کو ورغلایا گیا کہ وہ ان تحریکوں کے آئیڈیلز کو اپنے وجود میں کھپا ئیں۔ ایسی پان-نما تحریکوں کی دیدہ دانستہ مخالفت نے کثیر جماعتی سسٹم کے زوال کا آغاز کر دیا؛ نیز قومی ریاستوں کو پہلے سے بھی زیادہ کمزور کر دیا۔ ایرنت مفروضہ قائم کرتی ہے کہ ایسی تحریکوں اور ”مطلق العنان ریاست“ جو کہ صرف بظاہر ایک ریاست ہے، دونوں میں ظاہری مماثلت موجود ہوتی ہے۔ بالآخر، ایسی تحریکیں عوامی ضروریات کی نشان دہی کرنے سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اور اپنی آئیڈیالوجی کی خاطر ریاست و عوام دونوں کی بھینٹ دینے پر آمادہ ہوتی ہیں (ایرنت، 1968، ص 266)۔
سامراجیت نے قومی ریاست کے نقائص کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے خاتمہ کے لیے کام کیا۔ تاہم ایرنت کے نزدیک، پہلی جنگ عظیم کے ساتھ ہی قومی ریاستوں کا کلی انہدام ہو گیا۔ لاکھوں افراد پناہ گزین بنے جس کے نتیجے میں پہلی مرتبہ ایسے لوگ پیدا ہوئے جو کسی ریاست سے تعلق نہ رکھتے تھے (stateless persons)۔ دوسری جانب، پناہ گزینوں کو زیادہ سے زیادہ ”معاہدہ برائے اقلیت“ (مائینوریٹی ٹریٹیز) کے تحت تحفظ دیا گیا۔ پھر حینا ایرنت آفاقی انسانی حقوق یا بالخصوص انسانی حقوق (rights of men) پر اپنی تنقید کا آغاز کرتی ہے۔ ان حقوق کو ”نیچرل“ حقوق کا درجہ حاصل تھا لہٰذا ان سے روگردانی ناممکن تھی۔ لیکن جنگی پناہ گزینوں کو کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں تھا کیوں کہ وہ کسی بھی ریاست کے شہری نہ تھے۔
حینا ایرنت نتیجہ برآمد کرتی ہے کہ حقوق سے محرومی سے قبل معاشرت/گروہ سے محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی انسان کسی صورت محفوظ نہیں ہے۔ وہ اپنے استدلال کو مزید آگے بڑھاتی ہے کہ بیسیویں صدی میں انسان تاریخ اور نیچر دونوں سے کٹ گئے تھے؛ لہٰذا ان دونوں کو ہی تصورِ ”انسانیت“ کو بنیاد فراہم کرنے کی غرض سے استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دونوں عالمی جنگوں نے ثابت کیا کہ ”انسانیت“ انسانی حقوق (رائٹس آف مَین) کو نافد نہیں کروا سکتی تھی کیوں کہ مذکورہ تصور تجریدی حیثیت کا حامل تھا (یعنی صرف ذہنی تشکیل پر مبنی تھا جب کہ حقیقی دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا)۔ حینا ایرنت کے مطابق، وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اس قسم کی بےریاستی (statelessness) لوگوں کو ایک ”عمومی“ گروہ کا پابند کر سکتی تھی۔ نیز، حینا ایرنت کے بقول، بعض صورتوں میں لوگوں کو صرف ”وحشی“ بن کر زندگی گزارنی پڑے گی۔ (اس) ”سامراجیت“ نامی حصے کا اختتام لوگوں پر سرمایہ داریت اور عالمی سیاست کے اثرات کی بابت ایک تلخ تبصرے پر ہوتا ہے۔
مطلق العنانیت کی میکانیات کی تفہیم:
مطلق العنانیت کے نسل پرستی، بیوروکریسی، سامراجیت، بے ریاستی، اور خانہ بدوشی کے ایک مظہر کی حیثیت سے وجود میں آنے سے متعلق صورتِ احوال پر بحث کے بعد، آخرکار حینا ایرنت اپنی کتاب کے تیسرے حصے میں نازی ازم اور سٹالن ازم کو تفصیل سے بیان کرتی ہے۔ تیسرے باب جس کو جائز طور پر ”مطلق العنانیت“ کا عنوان دیا گیا، اس کے آغاز میں حینا ایرنت راتوں رات پھیلنے والی شہرت اور عجیب و غریب متلون مزاجی / عدم استقلال جیسے اوصاف کے ذریعے مطلق العنان رہنماؤں (ہٹلر اور سٹالن) کے کردار کو بیان کرتی ہے۔ رہنماؤں کے ایسے اوصاف کا سہرا ہجوم کی متلون مزاجی اور ایک قسم کے ”تحریکی خبط“ (مَوشن مینیا) کے سر باندھا جاتا ہے۔ یہ تحریکی خبط اساسی طور پر مستقل بھاگ دوڑ کے ذریعے طاقت کے باب میں مطلق العنان تحریک کو برقرار رکھتا ہے۔ رہنما کی موت کے ساتھ ہی مذکورہ تحریک اپنا زور کھو بیٹھتی ہے۔ اگرچہ ہجوم اپنے رہنما کی موت کے ساتھ ہی تحریک کو برقرار نہیں رکھتا لیکن حینا ایرنت کے بقول، یہ مفروضہ غلطی سے کم نہیں ہو گا کہ وہ ”مطلق العنان ذہنیت“ کو بھول جاتا ہے۔
ایسی مطلق العنان تحریکیں بڑی تعداد پر مشتمل فالتو ہجوم کو منظم کرتی ہیں اور صرف ایسے ہجوم کے بیچ ہی کارگر ہو سکتی ہیں۔ ان تحریکوں کی بدولت ہجوم اس بات پر یقین کر لیتا ہے کہ وہ کسی ایسی اقلیت پر اثرانداز ہونے کی اہلیت رکھتا ہے جو سیاست کا انتظام و انصرام/ کنٹرول سنبھالتی ہے (نازی ازم کی صورت میں، یہودی وہ اقلیت تھے)۔ ”ایسی تحریکیں کیسے طاقت میں آئیں؟“ ہم یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں جیسا کہ ہٹلر اور سٹالن اپنی قوم میں جمہوریت کو تباہ کرنے سے قبل جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے تھے۔ ایسے مطلق العنان رہنما ایک ہیئت مقتدرہ کی تجسیم کر دیتے ہیں جو بظاہر جمہوری دکھائی دیتی ہے لیکن عملی اعتبار سے ایسی اقلیت کو اپنا ہدف بناتی ہے جو ایک مثالی متجانس معاشرے سے موافق نہیں ہوتی۔ ایسے جمہوری فریب تحریک کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ حینا ایرنت لکھتی ہے کہ نازی جرمنی میں یہ سب یورپ میں طبقاتی نظام کے انہدام کا نتیجہ تھا جس نے غیر طبقاتی اور فالتو ہجوم کو جنم دیا۔ اور چونکہ جماعتیں طبقاتی مفاد کی ترجمان بھی تھیں، تو جماعتی نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا یعنی ریاست نے تحریک کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
”جوہر کاری/کسریت سازی“ ایک اور عنصر ہے جس کی بدولت مطلق العنانیت ہر شے کو اپنے دائرے میں کھینچ لیتی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس میں کسی فرد کو معاشرے سے الگ کرنے کے بعد اسے معاشرے میں محض (خود مکتفی ) ”جوہروں/ایٹموں“ (یعنی ایک کسری جزو) کی حیثیت بخشی جاتی ہے۔ حینا ایرنت کا اصرار ہے کہ مطلق العنان ہجوم انتہائی درجہ کی جوہریت (یا کسریت) کے حامل معاشروں میں ہی پروان چڑھتا ہے۔ ایسے ہجوم کے ارکان میں صرف دو چیزیں باہم مشترک ہوتی ہیں یعنی ”غیر منصفانہ تجربہ“ (جوہریت/کسریت) اور ”بے نفسی“ (سماجی شناخت یا معنویت یا احساس سے محرومی کہ ان کا متبادل بآسانی ممکن ہو سکتا ہے نیز وہ محض آئیڈیالوجیکل آلات / کُل پرزے ہیں)۔
پروپیگنڈا ہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ایسے ہجوم کو رام کیا جاتا ہے۔ مطلق العنان پروپیگنڈے کی ممتاز خوبی کسی بھی (من مانی) دلیل یا استدلال کی گواہی کے سہارے مستقبل کی پیشین گوئی ہے۔ کیوں کہ ان کے بیانات کی تائید میں کوئی قابل اعتماد گواہی موجود نہیں ہے۔ ہجوم خود اپنی حقیقت پر بداعتمادی کرتے ہوئے اس قسم کے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہٹلر کی صورت میں نازیوں نے ہجوم کو قائل کر لیا تھا کہ یہودی عالمی سازش جیسی کوئی شے تھی اور بطور اعلیٰ نسل آرین قوم کا مقدر پہلے ہی سے طے شدہ تھا کہ وہ دنیا بھر کو یہودیوں کے چنگل سے بچائیں جیسا کہ پروپیگنڈا ہوا تھا۔ یہ کوئی استدلال نہیں تھا بل کہ تکرار تھی جس نے ہجوم کو قائل کر لیا۔ جتنی دیر میں ہجوم نے تحریک کو تسلیم کیا، اس وقت میں اشرافیہ نے جنگِ عظیم کے بعد لبرل دشمن مؤقف اپنایا نیز مزے سے دیکھ رہی تھی کہ تحریک سابقہ نظام کی جڑوں کو ہلا رہی ہے۔
مطلق العنان تحریکوں کی تنظیم کا محور رہنما کی ذات ہوتی ہے کیونکہ وہی ریاست میں قانون کا اعلیٰ ترین ماخذ ہوتے ہیں۔ رہنما کی یہ برتری منظم ارکان پر مبنی گمنام ہجوم کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایسے منظم ارکان رہنما کے اشارے کے منتظر ہوتے ہیں، وہ اپنے انفرادی افعال کی ذمہ داری قبول نہیں کر سکتے یا پھر ان کو بطور دلیل پیش نہیں کر سکتے ہیں۔ چنانچہ، ارکان اپنا اختیار کھو بیٹھتے ہیں اور مطلق العنان ریاست کے محض آلہ کار بن کر رہ جاتے ہیں۔ لہذا مطلق العنان رہنما کو لازمًا غلطیوں سے پاک ہونا چاہیے۔
تاہم مطلق العنان حکومت (رجیم) اپنی جگہ پیچیدگیوں سے آزاد نہیں ہے۔ جماعت (پارٹی) اور ریاست کے مابین تناؤ مطلق العنان رہنما کی حالت (پوزیشن) کو مزید گنجلگ بنا دیتا ہے۔ دو مختلف عناصر کے ہاں موجود حقیقی (ڈی فیکٹو) اور قانونی (ڈی جُور) طاقت کے ساتھ انتظامی نااہلی جنم لیتی ہے۔ بدقسمتی سے اس (یعنی انتظامیہ) کی ہیئتی ناکامی تحریک کی شدت میں مزید اضافہ کرتی ہے۔
مطلق العنان تحریک اپنی بقا کی غرض سے ایک ”معروضی دشمن“ تلاش کرتی ہے۔ ایسے دشمن نری ریاست کے ہی مخالف نہیں ہوتے، بل کہ ان کے وجود کی بنیاد پر ہی انھیں تحریک کے دشمن کی حیثیت دی جاتی ہے۔ حینا ایرنت کے بقول، نازیوں نے درحقیقت یقین نہیں کیا تھا کہ جرمن قوم ایک اعلیٰ و برتر نسل تھی۔ بل کہ ان کا اعتقاد تھا کہ وہ (یعنی جرمن قوم) دنیا پر حکومت کرنے والی اعلیٰ نسل بن جائے گی (ایرنت، 1968، ص 416)۔ اس سے مراد ہے کہ حقیقی مقصد اعلیٰ و برتر نسل بننا تھا، نہ کہ یہودیوں کے خطرے کا بندوبست کرنا۔ یعنی تاریخ اور روایت کے ضمن میں یہودی (دراصل) قربانی کے بکرے تھے۔
مطلق العنان تحریک نے انسانوں کو ”اشیاء“ میں مقید کر دیا تھا جیسا کہ عقوبت خانوں میں دکھائی دیے۔ حینا ایرنت یہ مؤقف پیش کرتی ہے کہ نازی جرمنی میں افراد کو جانوروں سے کم تر سلوک ہوتا تھا،ذہن سازی کی جاتی تھی (indoctrined)،تجربوں میں استعمال ہوتے تھےنیز انھیں بے ساختگی،اختیار یا آزادی سے محروم کر دیا جاتا تھا۔ تحریک کے اجتماعی جذبے کے ساتھ مطابقت کی غرض سے ایسے افراد کی زندگیوں کی ہر ایک جہت کو تروڑ مروڑ دیا جاتا تھا۔
مطلق العنانیت یا استبداد؟:
سامراجیت کا بطور تحریک ظہور ایک اختلافی سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیا یہ واقعی استبداد سے مختلف کوئی شے ہے ؟ حینا ایرنت قانونی (جیورس پروڈنشل) نقطہ نگاہ سے مطلق العنانیت اور حکمرانی کی دیگر اقسام میں فرق کرتی ہے۔ اگرچہ ایک مطلق العنان حکومت میں قانون نیچرل اور تاریخی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے کہ نیچر اور تاریخ دونوں ہی قانون ہیں۔ ایسی حکومتیں لوگوں کو ڈرا دھمکا کر بے کاری (inaction) پر مجبور کر دیتی ہیں۔ لہٰذا ایک مطلق العنان تحریک آئیڈیالوجی اور دہشت کو باہم جوڑتے ہوئے کُلی اخلاقی انہدام کی اہل ہو جاتی ہے جو مطلق العنانیت کی گاڑی کے پہیوں کو حرکت میں رکھتے ہیں۔
حینا ایرنت کے بقول، آئیڈیالوجیز کا تعلق ”ہونے“ (to be) کی بجائے ”بننے“ (becoming) کے ساتھ ہے۔ چنانچہ مطلق العنان آئیڈیالوجی درج ذیل خصائص کی حامل ہے: اول، اس عمل کی مفصل تشریح کہ کیا بنے گا (تاریخ میں ’پیوست‘/rooted)؛ دوم، دعوی کی تجربے سے علیحدگی (تاکہ وہ بناوٹی بن جائے)؛ اور سوم، دعوی کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی عدم صلاحیت۔ یہ اذعانی (dogmatic) طریقہ کار حقیقت کا مترادف نہیں ہے اور تاریخ کی ”منطقی حرکت“ کا ایک التباس پیدا کرتا ہے۔ یہ ”منطقی تاریخ“ فرد پر بہت زیادہ بوجھ لاد دیتی ہے،ایک خاص اندازِ حیات میں جکڑ لیتی ہے نیز ان کی آزادی، بے ساختگی اور انفرادیت کو چھین لیتی ہے۔ حینا ایرنت کے نزدیک،آزادی ہی شروعات کی اہلیت ہے جس کا تعین اس سے پہلے آنے والی چیزوں کی بدولت نہیں ہوتا ہے۔ آغاز کرنے کی یہ اہلیت ہی بے ساختگی ہے جو کسی فرد کے کسریت میں گرفتار ہونے پر گم ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ تاریخ کا آلہ کار بن جاتے ہیں جو انھیں عملی اعتبار سے اپنے معاشروں میں فالتو بنا دیتے ہیں۔ اختیار،ارادے،بے ساختگی اور انسانوں کو محض بے جان اشیاء سمجھنے جیسے اندیشے ہی مطلق العنانیت کو بحیثیت مجموعی ایک دہشت ناک تحریک بنا دیتا ہے۔
”مطلق العنانیت کی اصل“ نامی کتاب باریک بینی کے ساتھ متنوع سکالرز سے مستعار پیچیدہ سیاسی تصورات کو باہم جمع کرتی ہے جس کی بدولت اس کتاب کو پڑھنے میں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تجزیے اور اوریجنل ذمہ داری پر مبنی اس مخصوص طریقہ کار کی بدولت ہی مذکورہ کتاب بیسیویں صدی کی نمایاں ترین تصانیف میں شامل ہے۔
حینا ایرنت اور ایشمان کا مقدمہ
ہولوکاسٹ، دوسری جنگِ عظیم،اور ایڈولف ہٹلر کی موت کے بہت بعد، 1961ء میں آسٹریائی نژاد جرمن افسر ایڈولف ایشمان گرفتار ہوا جس پر یروشلم کی عدالتوں میں مقدمہ چلایا گیا۔ ایشمان ہولوکاسٹ کے کرتا دھرتا بڑے افسران میں سے ایک تھا اور (اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ /داؤد بن گوریان بضد تھے کہ یہودیوں کو ”شوہ“ (یعنی قتل عام) کے ذیل میں صرف اسرائیلی عدالتیں ہی انصاف مہیا کر سکتی ہیں۔
جب حینا ایرنت کو پتہ چلا تو اس نے فی الفور نیویارکر میگزین کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تاکہ وہ اس کو بطور رپورٹر یروشلم بھیجیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا خود حینا ایرنت کے لیے غیر متوقع تھا۔ ”ایشمان یروشلم میں“ کے عنوان سے اس کی رپورٹ یکسر غلط وجوہات کی بنا پر آج بھی بیسیویں صدی کی متنازعہ ترین تحاریر میں سے ایک ہے۔
رپورٹ کا آغاز کمرۂ عدالت کے مفصل بیان کے ساتھ ہوتا ہے جو نمائشی سٹیج جیسی معلوم ہوتی ہے یعنی ایک ایسی شے جس کی بابت حینا ایرنت کو توقع تھی کہ سماعت (ٹرائل) ایسی صورت اختیار کرے گی۔ حاضرین کے غیض و غضب سے بچنے کی غرض سے ایشمان خصوصی طور پر تیارہ کردہ شیشے کے ایک بند کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ حینا ایرنت لکھتی ہے کہ سماعت انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے لیکن یہ تقاضہ اس وقت مذاق کا نشانہ بنتا ہے جب مدعی کا وکیل (پراسیکیوٹر) تاریخ کو سماعت کا حصہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ حینا ایرنت کو اسی بات کا ڈر تھا کہ ایشمان کو ہولوکاسٹ، نازی ازم اور یہود دشمنی کے خلاف الزامات کاتنِ تنہا ہی دفاع کرنا پڑے گا۔ ٹھیک ویسا ہی ہوا۔ استغاثہ (پراسیکیوشن) نے نازی جرمنی سے زندہ بچ نکلنے والوں اور پناہ گزینوں کو ایشمان کے خلاف گواہی دینے کے لیے مدعو کر رکھا تھا۔ لیکن بادی النظر میں ایشمان اپنی (سرکاری) ذمہ داری کے اثرات کی گہرائی و گیرائی دونوں کو سمجھنے سے قاصر معلوم ہوتا تھا۔ وہ بے حس،پریشان کن حد تک خاموش اور یکسر لاپروا تھا۔
(اول تو) ایشمان کو اغوا کیا گیا تھا اور (دوم) عالمی عدالت کی بجائے یروشلم کی عدالت میں انسانیت دشمن جرائم کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا تھا۔ چنانچہ حینا ایرنت سمیت کئی دانشور اس مقدمے (ٹرائل) کے ضمن میں تشکیک میں گرفتار تھے۔ حینا ایرنت لکھتی ہے کہ وہاں کوئی آئیڈیالوجی اور ازم،یہاں تک کہ یہود دشمنی بھی نہیں تھی۔ البتہ ایک بے حد سطحی (mediocre) آدمی موجود تھا جس کے کندھے اسی کے حیران کن افعال کے بوجھ سے جھکے ہوئے تھے۔ حینا ایرنت اس آدمی کی بے کم و کاست ناعاقبت اندیشی پر ہنستی ہے کیوں کہ اس نے ہٹلر کے ساتھ اپنے اتحاد کا بارہا اعتراف کیا۔
ایشمان درست معنوں میں ایک بیوروکریٹ تھا۔ اس نے ایک آمر رہنما (جرمن لفظ فیورر) کے ساتھ تعاون کا عہد و پَیمان باندھ رکھا تھا اور اسی کے بقول، صرف احکامات پر عمل کیا تھا۔ ایشمان نے یہاں تک کہا کہ اگر فیورر اس کے باپ کو بھی بدعنوان کہتا اور ثبوت فراہم کر دیتا تو وہ بذات خود اپنے باپ کو قتل کردیتا۔ اس پر استغاثہ نے تلخی سے دریافت کیا کہ آیا فیورر کے فراہم کردہ ثبوتوں کی صورت میں یہودیوں کو قتل کرنا لازمی تھا۔ ایشمان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس بابت دریافت کرنے پر کہ آیا اس نے کبھی سوچا کہ وہ کیا کر رہا تھا اور اگر اس نے دیانت داری کے ساتھ اعتراض کیا، تو ایشمان کا جواب تھا کہ اس کے ضمیر (conscious) اور حکم بجا لانے والی ’ ذات ‘ کے درمیان ایک خلیج حائل تھی۔ وہ معترف تھا کہ بطور بیوروکریٹ اپنے فرض کو نبھاتے ہوئے اس نے اپنے ضمیر کو پس پشت رکھا۔ جب نازی جرمنی سے بچ نکلنے والے ایشمان کے سامنے پھٹ پڑے،تو وہ کسی فکر یا احساس ذمہ داری کے بغیر ایک بے رونق چہرے کے ساتھ شیشے کے باکس میں بیٹھا رہا۔
سماعت کے دوران ایشمان کہتا ہے کہ اس نے کبھی بذات خود قتل نہیں کیا یا کسی یہودی یا غیر یہودی کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا۔ ایشمان کا پیہم اصرار تھا کہ وہ (یعنی عدالت) اس کو صرف فائنل سیلوشن (حتمی علاج) کے تحت اعانتِ جرم کی سزا سنا سکتی تھی۔ کیوں کہ وہ کسی قسم کے ”مخفی مقاصد“ کا حامل نہیں تھا۔ ایشمان کی جانب سے اپنے جرائم کو قبول کرنے میں مستعدی کا مظاہرہ خصوصی دلچسپی کا حامل ہے کیوں کہ وہ بہرطور یہودیوں سے نفرت نہیں کرتا تھا کیوں کہ اس کے پاس کوئی ایسی وجہ نہیں تھی۔
”ایشمان کی ایسی عادات نے دورانِ سماعت خود اس کی بجائے اُن لوگوں کے لیے زیادہ دشواریاں پیدا کیں جو اسے سزا سنانے، اس کا دفاع کرنے،اس کا فیصلہ سنانے یا پھر اس کی روداد لکھنے آئے تھے۔ اس سب کے لیے ضروری تھا کہ کوئی شخص اس کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھے اور یہی کام سب سے زیادہ مشکل تھا۔ تاوقتیکہ مجرمانہ افعال کی ناقابل بیان دہشت اور ناقابل تردید مضحکہ خیزی سے پھوٹنے والے تذبذب میں سے نکلنے کا آسان ترین راستہ نہ دریافت کر لیا جائے نیز اس کو چالاک اور عادی جھوٹا (calculating liar) نہ ٹھہرایا جائے، جو کہ وہ یقیناً نہیں تھا“ (ایرنت، 1963)۔
حینا ایرنت کے مطابق شر کا عامیانہ پن (banality of evil)
حینا ایرنت کے مطابق، ”شر کے عامیانہ پن“ سے مراد ہے کہ برے افعال لازمًا عفریت صفت لوگوں کے ہاتھوں سرزد نہیں ہوتے، بل کہ وہ لوگ سر انجام دیتے ہیں جن کا کوئی مقصد/مفاد نہیں ہوتا؛ (نیز) وہ لوگ جو سوچنے سمجھنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس قسم کی شیطنت کے اہل ترین لوگ وہ ہیں جو ”انسان“ ہونے سے ہی انکار کر دیتے ہیں کیوں کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ حینا ایرنت کے بقول، ایشمان اس فہم سے ہی انکاری تھا کہ وہ بطور افسر کسی بے ساختگی کا حامل تھا جب کہ محض قانون پر عمل کر رہا تھا۔ مقدمے کے بعد جلد ہی ایشمان کو پھانسی دے دی گئی۔
حینا ایرنت کی رپورٹ کو بہت زیادہ توجہ دینے کی بجائے وہ چند صفحات نسبتاً زیادہ موضوع بحث ٹھہرے جو ”حتمی علاج“ میں یہودیوں کے کردار پر بات کرتے تھے۔ اسرائیلی استغاثہ نے ایشمان سے پوچھا تھا کہ اگر یہودیوں کو اپنے دفاع کا حق دیا جاتا تو معاملات کوئی دوسرا رنگ اختیار کر لیتے۔ حیران کن طور پر ایشمان کا جواب تھا کہ وہاں تو اِکا دُکا مزاحمتی واقعات ہوئے۔ حینا ایرنت نے آغاز میں اس سوال کو بے وقوفانہ قرار دیا لیکن جوں جوں مقدمے کی کاروائی آگے بڑھی، یہودی رہنماؤں کے کردار پر بار ہا سوال اٹھتا رہا۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ حینا ایرنت نے بطور رپورٹر لکھا کہ اگر (سب کی بجائے) کچھ یہودی رہنما ہی تعمیل نہ کرتے، مزاحمت کرتے، تو ”شَوہ“ (یعنی قتل عام) میں ہلاک ہونے والی یہودیوں کی تعداد بے حد کم ہوتی۔
کتاب اپنی اشاعت سے قبل ہی متنازعہ ٹھہری کیوں کہ حینا ایرنت پر خود نفرینی پر مبنی یہودی شخصیت کا الزام عائد ہوا، جو یہودیوں کو ان کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرانے سے زیادہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ اس پر حینا ایرنت کا مؤقف تھا کہ ”تفہیم کی کاوش معافی کے برابر نہیں ہے“۔ حینا ایرنت نے اپنے مؤقف کی بدولت بہت زیادہ تکلیف اٹھائی۔ ذاتی حیثیت سے حینا ایرنت معترف تھی کہ وہ صرف اپنے دوستوں کے ساتھ محبت کرنے کی اہل تھی؛ وہ کسی خاص گروہ کے ساتھ اپنے تعلق کو محسوس نہیں کرتی تھی جو کہ خلاصی کا ثبوت ہے۔ حینا ایرنت کو اپنے یہودی تشخص پر فخر تھا۔ اگرچہ اس کا مؤقف سمجھا جا سکتا ہے مگر اس کے سیکولر رنگ ڈھنگ اور یہودیوں کے لیے جدوجہد کے سبب یہ سوال ہنوز قائم ہے: کیا کسی شخص کو اس وجہ سے قوم سے باہر نکال دینا چاہیے کہ وہ پوری دیانت داری کے ساتھ کسی شے کی تفہیم کی غرض سے خالصتاً علمی کاوش کا خواہاں ہے؟
یہودی دانشوروں کے درمیان حینا ایرنت کی بے گناہی کا ثبوت ہنوز باقی ہے۔ اپنے آخری برسوں میں وہ خیر و شر کے تصورات میں الجھی رہی۔ حینا ایرنت کو شدید افسوس تھا کہ اس کی رپورٹ کا صحیح مطالعہ نہیں ہوا کیوں کہ اس کی تحریر میں کانٹ کے بیان کردہ radical evil کا استعمال موضوعِ تنقید نہیں بنا۔ کانٹ کے بقول، شَر(evil) انسانوں کی فطری خاصیت ہے اور radical evil نامی تصور نے انسانوں کو کلیتاً جکڑ لیا۔ ایشمان کے واقعہ کے چند برسوں بعد حینا ایرنت نے اس بات کو سمجھا کہ radical evil کبھی موجود نہیں ہو سکتا : شر کی صرف انتہائی شدت ہو سکتی ہے لیکن radical good (انتہائے خیر) وجود رکھتا ہے۔ یہ چیز حینا ایرنت کی سیدھی سادی رجائیت (naïve optimism) کا ثبوت ہے، یعنی ایک ایسے دانشور کی (رجائیت) جو دنیا میں بے حد و حساب اعتقاد رکھتی تھی۔ (بل کہ) وہ ایسی ایک جانباز تھی جو دلیرانہ تحقیق کے باعث تنقید کا نشانہ بنی۔ غالباً جو کچھ ہوا تھا ابھی اس کو معقولیت میں ڈھالنے کا وقت نہیں تھا، اور اس کے ہم مذہب (کمیونٹی) متقاضی تھے کہ وہ یہودیوں کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کرے۔ لیکن حینا ایرنت جیسی عبقری دانشور کے لیے کبھی ایسا کوئی انتخاب نہیں تھا۔
دنیا حینا ایرنت کے ”ایشمان“ اور”مطلق العنانیت کی اصل“ کی جانب بارہا متوجہ ہوتی ہے تاکہ اکیسویں صدی میں ٹوئیٹر پر انصاف کے لیے لڑنے والے ہجوم سے لے کر مطلق العنان ریاستوں کی تفہیم میں مدد ہو پائے۔ طالبان، شام اور روہنگیا بحرانوں کی آمد اور لاکھوں بے گھر لوگوں کے ترک وطن کی صورت میں ”بے مثال بے گھری (ہوم لِیس نیس) اور انتہائی بے نظیر و عمیق خانہ بدوشی (rootlessness) “ کی دردناک گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔
آج اگر حینا ایرنت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا کوئی طریقہ ہے، تو اپنی انفرادیت، اپنے اختیار، آزادی اور بے ساختگی کو قابو میں رکھنے کے فعال انتخاب میں ہے: یعنی تفکر سے کام لیا جائے۔ سب سے بڑھ کر یہ بات لائق غور ہے کہ حیران کن آفت کے روبرو اچھائی کو عمداً اس بات سے انکار ہے کہ وہ محض انسانی ہو۔
(ختم شد)