کوٹ سُکھے خان کا ’دانتے‘، چاچا ایلس کدوری (افسانوی خاکہ: ذکی نقوی)
کرم خان مرحوم کا عرفی نام ”ایلس کدوری“ بھی ہمارے ہی ذہن کی اختراع تھی جس کی وجہ اتنی ہی بچگانہ سی تھی۔ بات یہ ہے کہ بڑے بھائی صاحب قبلہ دُنیائے دیگر کی عجیب و غریب باتیں بتایا کرتے تھے۔ اپنے قومی مشاہیر میں سے کسی کا ذکر تھا، آپ نے بتایا کہ اُنہوں نے میٹرک ہانگ کانگ کے ایلس کدوری ہائی اسکول سے کیا، ہم نے پوچھا بھیا یہ اسکول کا نام کیسا عجیب سا ہے؟ بتلایا کہ ایلس کدوری اسکول کے ان پڑھ مالک کا نام تھا، ہم دیر تک اسی بات پر ہنستے رہے اور پھر کرم خاں صاحب کا نام چاچا ایلس کدوری رکھ دیا جو کہ اس وقت الکرم گرامر اسکول کے مالک اور پرنسپل تھے اور یہ کوٹ سُکھے خان بلوچ کا پہلا نجی اسکول تھا۔
کرم خان بلوچ ہمیشہ سے چاچا ایلس کدوری نہ تھے۔ ہم ایسے بدتمیز دیہاتی لونڈوں کی ہنسی کا نشانہ بننے سے کئی برس قبل وہ سردار کرم حسین خان بلوچ آف کوٹ سُکھے خان، سابق چئیرمین یونین کونسل کہلاتے تھے۔ اُن کا یہ نام ثقافتی میلوں پر نیزے بازی کے کھیل کے دوران لاؤڈ اسپیکر پر گونجتا تھا۔ نقابت کے فرائض پر ہمیشہ سے مامور مظہر عباس دُکھی اور فاروق پروانہ تھل اور بار کے ملے جُلے لہجے کی جھنگوچی زبان میں شہسواروں کی حوصلہ افزائی اور شائقین کی ضیافتِ طبع کے لئے جن جملہ شعراء کرام کے ماہیئے اور ’دوہڑے‘ سناتے تھے، ان میں کرم خان صاحب کا کلام بھی شامل ہوتا تھا۔ گھڑسواروں، نیزے بازوں کی بازی میں خاں صاحب کے کلب کے گھوڑے دوڑتے تو کرم خاں صاحب کا نام اور بھی آن بان سے لیا جاتا۔ پکھوُ، پُنوں، مکھنا اور بُلبل اُن کے لاڈلے گھوڑے تھے جو کسی الہڑ اور خوبرو دُلھے کی سی نخوت اور شان کے ساتھ، سجے سجائے میدان کے ایک سرے پر نمودار ہوتے تو شائقین مرعوب ہوئے بغیر رہ پاتے نہ ہی داد میں کمی کرتے۔
یہ علاقہ لسانی اعتبار سے سرائیکی اور پنجابی کی سرحد پر واقع ہے اور غریب اور پسماندہ ہونے کی وجہ سے اسے کسی زبان اور کسی سیاسی گروہ نے نہیں اپنایا، سو یہ ایک ثقافتی بھول بھلیاں ہے جس کے باسیوں کو خود پتہ نہیں کہ وہ کون ہیں؟ اس گمشدگی کا اپنا ایک کلچر ہے۔ یہاں زرعی اور سیاسی طور پر سیالوں کا رُسوخ سکھوں کے دورِ حکومت سے بھی پہلے سے تھا بلکہ سرداری تھی جبکہ موضع جات اور دیہاتوں کے بانی سبھی بلوچ تھے جو سر ڈینزل ابٹسن کے مطابق روہی اور بار میں پھیلی پنجاب کی سب سے بڑی ذات تھے۔ کوٹ سکھے خان واحد گاؤں تھا جس کے بانی بھی بلوچ تھے اور سردار بھی وہی۔ جب کوٹ نیازی خان بلوچ، ڈیرہ شاکر خان تتاری، ڈیرہ دریا خان بلوچ، ڈیرہ جلال خان لشاری، کوٹ نصرت خان سیال اور بستی علی خان سیال کے بلوچ زمینداروں اور سرداروں کو دو سے ذیادہ گھوڑے پالنے اور تین تو کیا، ایک دو موٹر کاریں رکھنے کی استطاعت بھی کم ہی ہوتی تھی، اُس زمانے میں بھی کرم خان کے گھوڑے، گھوڑوں کو میلے تک لانے والی لاری، موٹر کار اور پجارو موٹر کا کاروان نیزہ بازی کے میدان میں نوابی دبدبے کے ساتھ آ دھمکتا تھا۔
قد میانہ، رنگت سانولی، بال لمبے اور گھنگھریالے جن کی خوشنما کاکلیں بن جاتی تھیں، آنکھیں خوبصورت اور روشن، اور مونچھیں باریک اور سلیقے سے ترشی ہوئی ہوتیں۔ عام دنوں میں ایک زمیندار اور شاعر کی سی سادگی کے ساتھ ملبوس رہتے۔ لیکن نیزہ بازی کے کھیل کے دوران کئی میٹر کی طُرے دار اکڑی ہوئی پگڑی، چنٹوں والی آستینوں کی قمیص، لٹھے کی لُنگی اور پاؤں میں پیر محل کے کُھسے انہیں دیگر معزز مہمانوں کی صف میں، جہاں بلاشبہ سیاسی طور پر اُن سے بڑی سیاسی حیثیت کے سردار، اور زیادہ رسوخ کے نواب لوگ بھی ہوتے تھے، نمایاں رکھتے تھے۔ پنچایتوں میں منصفی کرتے اور ہر ایک کے خوشی غم میں دامے درمے شریک ہوتے مگر غرباء کے ساتھ برابری کی سطح پہ آ کر برتتے تھے۔
سردار موصوف کی وضعداری پھر بھی کمال تھی۔ نیزے بازی میں سرپٹ دوڑ کر میدان کے ایک سرے سے نمودار ہوتے ہوئے جھنگ، سرگودھے، خوشاب، میانوالی اور بھکر کے شہسواروں کی آن بان، اُن کا باری باری ہدف پر جھپٹ کر اس میں نیزہ گاڑنے کے لمحے کا رعب اور پھر اسے اکھاڑ کر نیزے کو گھڑیال کی بڑی سوئی کی طرح دوبار گھما کر، پھر بازو آگے پھیلا کر ’دکھاوا‘ کرنے کا منظر نہایت دلکش اور خون کو گرما دینے والا ہوتا تھا، لیکن جب ”سیکشن“ کی دوڑ میں بیک وقت ایک صف میں کرم خان کے چار گھوڑوں کا چھوٹا سا ’رسالہ‘ ایک ہی ہلے میں یہ مظاہرہ دکھاتا تو آنکھوں کے آگے قرونِ وسطیٰ کے شہسواروں کی شجاعت اور پامردی کا نقشہ کھنچ جاتا اور میلہ لُوٹ لیتا۔ اس پر نجانے کتنی دیر تک ڈھول بجتا رہتا اور داد کی واہ واہ ہوتی رہتی۔ کرم خان کا نیزہ گرفت کی جگہ چھوڑ کر، جس پر کَسی ہوئی رنگین ڈوریوں سے دستہ بنایا گیا تھا، اپنی نوک تک اور پیچھے کی ”ڈوڈی“ تک منڈھے ہوئے سنہری پیتل کی وجہ سے دور تک لشکارے مارتا تھا۔ خاں صاحب ہمیشہ چار کے سیکشن میں ہدف اکھاڑتے تھے اور ہمیشہ چار مصرعے کی مقامی صنف میں شاعری کرتے جسے ”دوہڑا“ کہا جاتا ہے۔ اُنہوں نے کئی اشعار نیزے بازی کے شہسواروں کی شان میں کہے اور ہر کھیل میلے کے اختتام پر شہسواروں کو نقد انعام دے کر رخصت کرتے تھے۔ سوار کے لئے الگ انعام اور گھوڑے کے نام کا الگ انعام۔
دلچسپ منظر ان کی اپنی رُخصت (اور آمد) کا بھی ہوتا تھا۔ جب اکثر سردار اور نواب اپنی ستر ماڈل کی ٹویوٹا کاروں، فوجی نیلام سے لی گئی موٹے ترپال کی چھتوں والی بدرنگ جیپوں اور شاہی ہاتھیوں کے جیسے پرتکلف انداز میں آراستہ ہودوں والے ٹریکٹروں پر سوار ہو کر روانہ ہوتے، کرم خان ان سواریوں سے اونچی اور لمبی ’پجارو‘ میں سوار ہو رہے ہوتے تھے اور ایک عالم انہیں رُخصت کرنے والا (یا استقبال کرنے والا) ہوتا۔ یہ ”پجارو“ لگ بھگ لاری کے جتنی بڑی گاڑی تو ہوگی جو فقط الیکشن کے دنوں میں شاہ جیونے کے مخدوموں کے کاروان میں نظر آیا کرتی تھی یا پھر ہمارے علاقے میں کرم خان کے پاس تھی۔ الوداع کہنے والوں کے ساتھ ساتھ ایک ہجوم بڑھ کر گاڑی کو قریب سے دیکھنے کے خواہشمندوں کا بھی دیکھنے کو ملتا۔ دوسرے علاقوں سے آنے والے شہسواروں کی مہمان نوازی اکثر کرم خان کے ڈیرے پر ہوتی تھی اور اس اہتمام سے ہوتی کہ مہمان سوار یاد رکھتے تھے اور دیکھنے والے مثالیں دیتے۔
خان صاحب کی ’پجارو‘ کی طرح ان کی مسکرانے کی ادا بھی ان کے مداحوں کے لئے ایک نظارہ تھی۔ یہ مسکراہٹ کبھی ان کے نیم وا ہونٹوں سے رُخصت ہوتی تھی نہ کبھی ان کے مداح اس سے سیر ہوئے تھے۔ بات کرنے کا لہجہ نہایت دھیما تھا اور بلا کی حسِ مزاح پائی تھی۔ پھر خاں صاحب شرمیلے بھی ایسے ہی تھے جیسے کمال کے شاعر تھے۔ مشاعروں میں وہ کبھی نہ گئے البتہ نجی محفلوں میں شعر کہہ کر محفلیں لوُٹ لیتے۔ ہمارے اُردو کے ایک اُستاد جناب ثاقب عثمانی صاحب انہیں جھنگوچی زبان کا اختر شیرانی کہا کرتے تھے۔ کرم خان کی شاعری کا کاتب ان کا دوست ریاض نائی تھا کیونکہ خان موصوف خود لکھنا نہ جانتے تھے۔ ریاض دس جماعتیں پاس تھا اور بہت خوبصورت جوان تھا۔ کوٹ سُکھے خان کا نائی تھا اور میں نے اسے ایک عرصے تک پٹھان سمجھا۔ خوش شکل ہی نہیں، خوش اطوار اور خوش کردار جوان تھا۔ یہی اوصاف کرم خان نے ہمیشہ اپنے دوستوں میں تلاش کئے لہٰذا کم ہی دوست بنائے، اگرچہ اس کی وجہ کچھ کرم خان کی سادہ مزاجی اور کم آمیزی بھی تھی۔ ان اوصاف کے ساتھ ان کا دولت مند ہونا فقط اس وجہ سے ممکن تھا کہ انہیں یہ سارا ٹھاٹ باٹھ اپنے والد، محمد خان بلوچ مرحوم اور نانا سردار سرخرو خان نواب آف کوٹ مبارک سیال سے ملا تھا۔ کرم خان کی سادہ مزاجی، مروت، دوست پروری اور دریا دلی ان کی دولت کے لئے ایک خطرہ تھی کیونکہ نئی صدی اب وقت کی دہلیز پہ دستک دے رہی تھی اور معزز ہونے کے میعارات بدل رہے تھے۔ آس پاس سے سادہ مزاجی، قناعت، بے لوث محبت، مروت اور بندہ پروری رخصت ہو رہی تھی اور سب سے بڑی بات حُسن، جو کرم خان کے نزدیک کائنات کا محور و مرکز تھا اور حسن کی پرستش مقصدِ حیات، یہ دونوں چیزیں اپنے مفہوم بدل رہی تھیں اور بڑے قاتل بہروپ بھر رہی تھیں۔
خان صاحب حُسن کے شیدائی تھے اور حُسن و عشق کی حد تک تو ذات پات کے قائل بھی نہ تھے۔ ایک دفعہ گلی میں سر پر چھابہ اٹھائے ایک بنجارن کو چوڑیاں بیچتے دیکھا۔ سانولے رنگ کی بنجارن کے دنداسے سے چمکتے دانتوں سے منور ایک ہی مسکراہٹ نے خان صاحب کو چونکا دیا۔ قریب آ کر دیکھا تو بلا کی حسیِن نکلی۔ ہم تھل باسیوں میں ابھی سانولے رنگ کی قدردانی کا زمانہ باقی تھا۔ کرم خان نے پوچھا،
”یہ سب چوڑیاں کتنے میں بیچو گی؟“
بنجارن بھی شاید مردم شناس تھی، بولی؛
”جب ساری کی ساری چاہیئیں تو دام کیسے؟“
خاں صاحب اس جواب سے بڑے خوش ہوئے مگر جب پاس سے گزرتی عورتوں نے مکالمہ سُنا تو رُک گئیں، خان صاحب بدحواس سے ہو گئے۔ جس زمانے میں وہ ساری کی ساری چوڑیاں ڈیڑھ سو روپئے سے زیادہ کی نہ ہوں گی، خان صاحب نے پانچ سو روپئے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھمایا اور ساری چوڑیاں اپنی ڈیوڑھی میں رکھوا لیں۔ ان کے اپنے گھر میں تو کوئی پہننے والا نہ تھا، سو اسی شام یہ چوڑیاں ہمسائے اور آس پاس کی بچیوں، کمسن لڑکیوں میں بانٹ دیں۔ عورتیں بھی چھیڑنے کو پوچھتی رہیں، ”بھائی کرم خان کتنے کی لیں؟ کہاں سے لیں اتنی پیاری چوڑیاں؟“
ہم، کہ کرم خان صاحب کے زوال ہی کو دیکھنے والی نسل ہیں، یہی سوچتے تھے کہ اپنی دولت اور رسوخ کے عروج کے زمانے میں خان صاحب خاصی شکل و صورت کے جوان ہوں گے اور یقیناً حُسن کی دیوی بھی ان پر مہربان ہوئی ہو گی۔ چاچا ریاض نائی کے بقول ”کیوں نہیں!!!“۔ اپنے عروج اور جوانی کے زمانے میں خان صاحب کو دریا پار کے ایک سردار قبیلے کی ڈاکٹرنی سے عشق ہو گیا۔ خان صاحب نے فقط اس کے دیدار کی خاطر خالق پور کے دیہی مرکزِ صحت کے اتنے چکر لگائے کہ وہاں کے لوگ ان کی ولیز جیپ کا وہاں اس تواتر سے آنا نظرانداز نہ کر سکے اور چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ وہاں کا نمبردار خان صاحب کا دوست تھا۔ اور بعد از خرابی بسیار ڈاکٹر صاحبہ سے ملاقات کی سبیل نکلی۔ خاتون بڑی باوقار اور بااعتماد تھی۔ جب دوسری ملاقات میں کچھ بے تکلفی کی فضا بنی تو کہنے لگیں؛
”خان صاحب میں امیر گھرانے سے تو ہوں مگر امیروں کے سے ٹھاٹ باٹھ مجھے متاثر نہیں کرتے، بلکہ“ ڈاکٹر صاحبہ ہنسیں، ”آپ کی جیپ سے تو مجھے ڈر لگتا ہے“
ڈاکٹر صاحبہ نے تو مذاقاً کہا مگر اگلی ملاقات میں بھولے بھالے کرم خان نے دریا تک گھوڑے پر سفر کیا، پھر اسے ملاحوں کے حوالے کرکے کشتی سے دریا پار کیا اور خالق پور تک چار پانچ میل پیدل چل کر گئے تو ڈاکٹر صاحبہ کا دل پسیجا۔ ڈاکٹر صاحبہ کا دل چند ایسے ہی واقعات میں خان صاحب پر لہرایا کہ شکل و صورت کا یہ بھولا بھالا سا امیرزادہ اندرون سے بھی کھرا اور مخلص آدمی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کے دل میں کرم خان کے لئے جو جگہ بن چکی تھی، اب وہ پختہ ہونے لگی۔ جب ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھا اور خان صاحب کے جذبہٗ دل کو قبولیت ملی تو اس خاتون نے بھی خوب نباہی۔ ڈاکٹر صاحبہ کا تبادلہ کرم خان کے اصرار اور اثر و رسوخ کی بدولت بآسانی کوٹ سُکھے خان بلوچ کے دیہی مرکزِ صحت میں ہو گیا جو کہ ”سرکاری ہسپتال“ کہلاتا ہے۔
ان دنوں کا ایک قصہ مشہور ہے۔ ایک روز جاڑے کی شدت عروج پہ تھی اور بارش بھی شدید تھی، ڈاکٹر صاحبہ گھر واپس نہ جا سکیں تو رات ہسپتال ہی ٹھہرنا پڑا۔ ہسپتال کی دایہ جو اُن کی ہم راز بھی تھی، رات ڈاکٹر صاحبہ کے پاس شب بسری پر مامور تھی، کرم خان کے پاس خبر لے کر آئی تو خان صاحب نے اُسی کے ہاتھ ڈاکٹر صاحبہ کو اپنے ہاں رات کے کھانے کی دعوت دے دی۔ خان صاحب کی اہلیہ وفات پا چکی تھیں اور ایک ننھی سی بیٹی تھی جو اکثر ننھیال میں رہتی تھی سو گھر پہ سوائے نوکروں کے کوئی نہ تھا۔ اُنہوں نے شام ہوتے ہی نوکروں کو چھٹی کروا دی اور باورچن سے کہا کہ وہ بھی کھانا پکا کر چلی جائے۔ رات پھیلے سے جب باورچن چلی گئی تو ساتھ ہی ڈاکٹر صاحبہ آ گئیں۔ خان صاحب نے خُود کھانا لگایا اور خود ہی آفتابے بھر بھر معزز مہمان کے ہاتھ پاؤں دھلوائے اور خُوب مدارات کیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کو بھی دلبری کے سارے انداز خوب آتے تھے، اُنہوں نے بھی خان صاحب کے والہانہ پن کا دل رکھا۔ اب پریشانی یہ لاحق ہوئی کہ ڈاکٹر صاحبہ شہر کی تھیں اور کھانے کے بعد اُنہوں نے چائے کی فرمائش کر دی جبکہ خان صاحب نے باورچن کو چائے کے لئے روکا ہی نہ تھا، اس طرف اُن کا دھیان ہی نہ گیا تھا۔ اب بارش بھی اتنی شدید تھی کہ کوئی اور چارہ نہ تھا، خان صاحب خُود توشہ خانے میں گئے، دودھ، چائے کی پتی اور گُڑ نکالا، چائے بنانے لگے تو دیکھا کہ چولھے میں راکھ بُجھ چُکی تھی اور نوکر جانے کی جلدی میں جلانے کا ایندھن اور اُپلے باہر کُھلے میں چھوڑ گئے تھے جو مکمل طور پر بھیگ چُکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بڑے بڑے زمینداروں کے گھر سادہ اور اکثر کچے ہوا کرتے تھے۔ وہ اپنی امارت کی نمود و ونمائش زیادہ تر ڈیرے، بیٹھک پر ہی کرتے تھے جس کا میعار عموماً مویشیوں کی تعداد ہی ہوتی اور یہ ڈیرے، تھان اکثر گھروں سے دور، کھیتوں زمینوں میں اور گاؤں سے ذرا ہٹ کر ہوتے تھے۔ ان کچے گھروں پر گارے کا لیپ اور نقش و نگار کا سلیقہ بھی ہر گھر کا اپنا ہی ہوتا تھا جس میں عموماً خاتونِ خانہ کی حسِ جمال کا اظہار ہوتا تھا۔ منڈیروں پر پھول بوٹے، طاقچوں کی کناریوں پر بنائے گئے نقش یا کبوتر، مور، تتلیاں وغیرہ عموماً مقامی طور پر تیار کئے گئے رنگوں سے رنگین کئے گئے ہوتے تھے۔ چونے کا استعمال ابھی یہاں عام نہ ہوا تھا۔ اب خان صاحب پکانے کے کمرے میں جلانے کے لئے کچھ تلاش کررہے تھے، کوئی خُشک اور جلانے کے قابل چیز نہ ملی، دو چار خشک پارچے تو ضرور ملے لیکن ان کے جلانے سے ان کی بدبو چائے میں مل جانے کا خدشہ تھا۔ بارش کی شدت نے باہر جا کر کچھ ڈھونڈنے کا امکان بھی خبط کر دیا۔ گھر میں کلامِ مجید کے سوا کوئی کتاب نہ تھی کہ خان صاحب موصوف ان پڑھ تھے۔ کاغذ کی مد میں فقط جائیداد کی دستاویزات ہوا کرتی تھیں مگر کچھ دنوں سے چوری وغیرہ کے ڈر سے امانتاً وہ بھی اُنہوں نے اپنے چچا برخوردار خان کے گھر رکھ چھوڑی تھیں۔ اب سوچا کہ کسی مونڈھے یا کرسی کو کاٹ کر جلا ڈالاجائے مگر بہت تلاش کے باوجود کلہاڑی نہ ملی۔ مسئلے کا کوئی اور حل بھی نکل سکتا ہوگا مگر اب جو کرم خان کے جذبہٗ محبت نے جوش مارا تو سامان کے کمرے میں آئے، اپنے ذاتی ٹرنک کا تالا کھولا۔ اس میں سو سو، پچاس پچاس، اور دس دس، پانچ پانچ روپے کے نوٹوں کی گڈیاں رکھی تھیں۔ یہ کل ہی بیچی گئی بھینس اور گیہوں غلے کی مد میں وصول ہونے والی بھاری رقم تھی اور ہنوز شہر جا کر بینک میں جمع نہیں کروائی گئی تھی۔ اُس زمانے میں سو پچاس بھی خاصی رقم کی رقم تھی۔ خان صاحب نے نسبتاً نئے نوٹوں کو جو دیا سلائی دکھائی تو وہ الگ الگ جلنے لگے۔ باورچی خانے کے کمرے میں آئے اور پھر خان صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، نوٹ جلنے لگے، چائے پکنے لگی۔ ادھر ڈاکٹر صاحبہ کو جو فکر لاحق ہوئی کہ خاں صاحب نے چائے منگوانے میں کیوں تاخیر کر دی؟ دیکھتی بھالتی توشہ خانے کے کمرے میں آئیں اور یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گئیں۔
”کرم خان، رُک جائیے، یہ کیا کر رہے ہیں؟“
ڈاکٹڑ صاحبہ نے انہیں منع کیا تو خان صاحب لمحے بھر کو رُکے پھر ہنس کر جواب دیا؛
”یہ غریب شاعر اپنے محبوب کی مہمان نوازی کے کہاں قابل ہو سکتا تھا، دیکھیئے، جلانے کی لکڑی تک نہ تھی آج گھر میں۔۔۔“
یہ کہہ کر دوبارہ چولہے میں نوٹ جھونکنے لگے۔ سو پچاس کی گڈیاں کم تھیں جلدی پھنک گئیں، اب دس اور پانچ والی گڈیاں تھیں۔ تب پانچ روپئے کا نوٹ آج کے ہزار والے سے چوڑا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ خاموش کھڑی دیکھنے لگیں۔ چائے غالباً دوسری یا تیسری دفعہ ’اُبھری‘ تو خان صاحب نے اُتار کر چینک میں ڈالی۔ ڈاکٹر صاحبہ مہمان داری کے کمرے میں آ بیٹھیں اور خموشی سے رنگین مونڈھے پر بیٹھی چائے پینے لگیں جو ساتھ ہی خان صاحب لے کر آن پہنچے تھے۔
”معاف کیجئے گا اگر اچھی نہ بنی ہو، مجھے چائے بنانے کا سلیقہ نہیں“
کرم خان نے محبت بھرے لہجے میں کہا تو ڈاکٹر صاحبہ کے ہونٹوں پر ایک دلبرانہ سی مسکراہٹ نمودار ہوئی مگر چُپ رہیں۔ اسی اثناء میں بارش تھمی اور ڈاکٹر صاحبہ کے جانے کا قصد ہوا تو کرم خان متفکر تھے اور ڈاکٹر صاحبہ بھی بدستور خاموش تھیں۔
”آپ چُپ کیوں ہیں میرے سردار؟“
کرم خان نے پوچھا۔ اس قصے کے راوی چاچا ریاض نائی بتاتے ہیں کہ خان صاحب کو جس کسی سے بہت محبت ہوتی اُسے ’میرا سردار؛ کہہ کر پکارتے تھے حتیٰ کہ گھوڑوں میں بھی ’دلبر‘ جو انہیں بیحد پیارا تھا اور کافی پہلے مر گیا تھا، اُسے بھی اکثر پچکارتے ہوئے کہتے تھے، ”مزاج کیسے ہیں میرے سردار؟“
”خان صاحب! دس ہزار تو جلا دئیے ہوں گے آپ نے۔۔۔ میں فقط پانچ ہزار کی تنخواہ دار سرکاری ملازم ہوں، مجھ پہ اس مظاہرے کا رعب طاری رہے گا!“ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی شال سمیٹ کر روانگی کا خاموش اعلان کرتے ہوئے مسکرا کر کہا تو کرم خان کی آنکھ میں آنسو بھر آئے۔
”اسے دولت کی نمائش سمجھیں یا عقیدت کا اظہار، آپ کو اختیار ہے میرے سردار۔۔۔“
یہ کہہ کر انہوں نے ڈاکٹر صاحبہ کے جوتے اٹھا کر ان کے پاؤں کے سامنے سیدھے کر دئیے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے جوتے پہنے اور اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ خان صاحب انہیں واپس ہسپتال چھوڑ آئے۔ اب اس سوال کا جواب چاچا ریاض کے پاس ہے نہ کسی اور شناسا کے پاس کہ اس واقعے کے بعد ڈاکٹر صاحبہ کا کرم خان سے نہ تو کوئی ربط کوئی تعلق رہا نہ کوٹ سُکھے خان آنا جانا ہوا تواس کی کیا وجہ تھی؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بے رُخی کا شکوہ کرم خان نے کبھی کسی دوست سے کیا نہ اپنی شاعری میں۔ البتہ اس کے بعد کی شاعری میں جو درد اور سوز ظاہر ہوا، کمال تھا۔ ہماری بولی کے ایک لوک گائیک جو ریڈیو اور ٹیلی وژن پر بڑے مشہور ہوئے اور لاکھوں میں ان کے کیسٹ ریکارڈ فروخت ہوئے، اکثر کرم خان کے اشعار گایا کرتے تھے جو فقط محبت، دوستی، جانثاری، وفا شعاری، تسلیم و رضا اور حُسن کی حکمرانی کے موضوع لئے ہوتے۔
ڈاکٹر صاحبہ کے چلے جانے کو کرم خان کے زوال کی وجہ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن ان کے زوال کی کرونالوجی وہیں سے شروع ہوتی ہے۔ اُنہوں نے وہ ولیز جیپ اور پجارو آئندہ دو ایک سالوں میں ہی بیچ ڈالیں اور سفر کے لئے کبھی کبھار وہی کار استعمال کرنے لگے جو ان کے چچا جان اور کم سن بیٹی کے لئے مختص تھی۔ دو تین موسم ایسے ہی گزر گئے تو جاڑوں کی کسی رات میں کوٹ سُکھے خان کے ایک دُکاندار حاجی یار محمد کمہار کی دُکان سے کچھ سامان چوری ہو گیا جس میں ریاض نائی کا چھوٹا بھائی حیات نائی ملوث تھا یا اس پر شبہ تھا۔
جب تھانے میں کارروائی ہونے لگی تو یار محمد کمہار نے کرم خان کا نام بھی درخواست میں ڈلوا دیا۔ برسوں پہلے کرم خان نے کسی پنچایت میں یار محمد کمہار کے خلاف فیصلہ سنایا تھا جس کا کینہ نکالنے کا موقع اب اسے حیات نائی کے ذریعے مل گیا تھا کہ حیات نائی اپنے بڑے بھائی ریاض کو بیحد عزیز تھا اور اسی وساطت سے کرم خان کا بھی خوب نیازمند تھا۔ پہلے تو تھانیدار نے پس و پیش سے کام لیا کہ اُس نے کرم خان کو ایم این اے اور ایم پی اے سطح کے لوگوں کے ہاں مہمان ہوتے ہوئے بھی دیکھ رکھا تھا لیکن پھر حاجی یار محمد نے میاں غفار شاہ کے توسط سے تھانیدار کو قائل کر لیا۔ حالیہ الیکشن کے بعد ایک کرم خان پر ہی کیا موقوف، سبھی بلوچوں کا اثر و رسوخ پہلے سا نہ رہا تھا۔ کرم خان اب مھض ایک ڈھلتے ہوئے زمیندار اور ایک ”عاشق مزاج“ شاعر کے سوا تھا ہی کیا، وہ مہمانداریاں اور وہ رسوخ اب قصہ ہائے پارینہ پن چکی تھیں۔ تھانیدار کو بات سمجھ آ گئی۔ حیات نائی نے تھانے میں ایک رات کی ”مہمان نوازی“ میں ہی چوری تسلیم کر لی اور اقبالی بیان کے لئے خالی کاغذ پر انگوٹھا بھی لگا دیا۔ اب ریاض نائی کی شامت آئی۔ غرض تھانیدار، محرر، تفتیشی اور ہر اس شخص جس کا تعلق تھانے کی کسی کارروائی سے تھا نے کرم خان کو اس تمام کھیل میں ناصرف خُوب رگیدا بلکہ پیسے بھی خُوب اینٹھے۔ خان صاحب کو ایک تو اپنی عزت ناموس کا خیال تھا کہ ایک کمہار کی مدعیت کی وجہ سے اگر ایک بار بھی کچہری جانا پڑ گیا تو بھلے بعد میں بری بھی ہو گئے تو بھی ساری ساکھ اور عزت کی فوج پلٹن ہو کر رہ جائے گی۔ دوسرا وہ نہیں چاہتے تھے کہ ریاض یہ سمجھے کہ اُس کے معاملے میں خان صاحب نے پیسے کو عزیز تر رکھا۔ تھانوں کی اکنامکس میں ایسے سفید پوشوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ خیر، تھانیدار صاحب کو بالآخر اندازہ ہو گیا کہ حاجی یار محمد کمہار کی دی گئی رشوت بہرحال ایک بے قصور اور معزز زمیندار کو تادیر رگیدنے کے لئے کوئی معقول معاوضہ نہیں ہے۔ اس نے فریقین کو پابند کیا کہ مسئلہ پنچایت میں حل کریں اور اور پرچہ کاٹنے کے بجائے خارج کر دیا۔
مسئلہ پنچایت میں فیصل ہوا، حیات نے چوری کا سامان لوٹا دیا، جرمانہ ہرجانہ بھی دینے پر رضامند ہو گیا۔ ریاض نے کلامِ مجید پر قسم دے دی جبکہ خان صاحب کو اور تو کچھ نہ کہا گیا مگر جب یار محمد کمہار کے مدعا علیہہ کے طورپر پنچایت میں بیٹھے تو پھر وہ وقار اور دبدبہ علاقے میں نہ رہا، جگ ہنسائی اور کاناپھوسیاں تو فطری امر تھیں۔ چھوٹی چھوٹی حیثیت کے ٹھگ، لُچے، مقدمے باز اور ٹاؤٹ بے تکلف ہونے لگے اور اُن پر سے خان صاحب کا رعب جاتا رہا۔ ڈاکٹرنی کا قصہ تو برسوں سے زبان ذدِ خاص و عام تھا اب نائیوں اور کمہاروں کے تنازعے میں پارٹی بن کر اور بھی سبک ہوئے۔ نائی تو اپنا یار تھا ان کا، رہی بات کمہار کی، تو وہ بھی ایسی تشویش کی بات نہ تھی مگر کمہاروں نے خود اس معاملے کی تشہیر کی۔
اصل خرابی یہ ہوئی تھی کہ دریا پار کے میدانی علاقے کا کوئی متوسط سا زمیندار کچھ سال قبل یہاں آکر صحرا نشین ہوا تھا۔ وہاں کے میراثیوں میں سے تھا مگر یہاں آ کر پہلے میاں کہلانے لگا اور سفید پوشی اور وضعداری اور معززینِ علاقہ کی خوشامد میں کمال حاصل کیا، پھر ہاشمی بن گیا۔ پہلے تو سال بھر خوب لعن طعن کا مورد ٹھہرا پھر لوگ طنزاً اسے شاہ صاحب کہنے لگے۔ اب جبکہ اس کا کاروبار بڑھا اور کسی سیاستدان کا چمچہ بنا تو پانچ سات سال کے اندر ہی پوری جلالت مآبی سے سید کہلانے لگا۔ یہاں کے جو نسبی سید اُردو بان مہاجر تھے، وہ تھے تو پڑھے لکھے مگر سیلانی سی طبیعتوں کے نیم پاگل سے لوگ ہونے کی وجہ سے اتنے غریب اور کنگال تھے کہ ڈٹ کر اس سے لڑ بھی نہ سکے، آخر لے دے کے ان کے پاس بھی تو وہی ناموس ہی بچی تھی۔ ان کے بڑے بزرگ باوا گُل حسین شاہ نے تھانے میں میاں غفار شاہ کے خلاف درخواست بھی دی لیکن بے سود۔ کرم خان نے ان کا ساتھ دیا کہ چار پشتوں سے انہی کے مرید تھے مگر اب ان کا سورج بھی ڈھل چُکا تھا؛ غفار شاہ کو اس بات کا غم و غُصہ تب سے تھا۔ مرحوم محمد خان بلوچ اور برخوردار خان بلوچ نے ایک معقول قطعہٗ اراضی باوا گُل حسین شاہ کو مدتوں پہلے نذرانہ کیا تھا جسے وہ تب سے کاشت کر رہے تھے اور ان کی گزران اسی آمدن سے تھی۔
بلدیاتی الیکشن ہوئے تو کرم خان صاحب نے ان الیکشنوں میں چئیرمین کی نشست کے لئے دوبارہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کروا دئیے کہ شاید اسی سے کچھ ساکھ بحال ہو۔ ان کے مقابلے میں کوئی ٹکر کے نواب زمیندار بھی ہوں گے مگر امید افزا بات یہ تھی کہ کوٹ سُکھے خان بلوچ کے آس پاس میں بلوچ آبادی کم نہ تھی اور سیاسی طور پر اب بھی بطور قبیلہ ان کا ووٹ بینک بھاری تھا۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا مگر پھر خرابی یہ ہوئی کہ میاں غفار شاہ نے عدالت میں یہ درخواست دے دی کہ کرم خان اکہتر کی جنگ میں فوج سے بھگوڑا ہو گیا تھا، اس کی اہلیت مشکوک ہے۔ کرم خان نے جج کے سامنے پیش ہو کر یہ بتایا وہ ایک امیر گھرانے کے اکلوتے بیٹے تھےاور ساری آسائشیں چھوڑ کر اور ماں کی مرضی کے خلاف سترہ سال کی کچی سی عمر میں بھرتی ہوئے تھے۔ بنگالے کی قید سے لوٹے تو ماں انتظار میں مرچکی تھی۔ بس اسی بات پہ دلبرداشتہ ہو کر دوبارہ نوکری پر نہ گئے اور یہ ان کی زندگی کا ایسا تلخ تجربہ تھا کہ اس کا ذکر کبھی کسی سے نہ کیا۔ رانچی میں ہلالِ احمر کے توسط سے ملنے والا ماں کا آخری خط جج کے سامنے رکھا تو اُن کی بھی آنکھ بھر آئی۔ جج صاحب نے کہا؛ بلوچ صاحب مجھے آپ کی نیک نیتی پہ کوئی شک نہیں، مادرِ وطن ہو یا مادرِ مہربان ہو، دونوں کی محبت میں انسان کچھ بھی کربیٹھتا ہے لیکن بہتر ہے کہ آپ کاغذاتِ نامزدگی واپس لے لیں ورنہ مجھے ویریفیکیشن کا کیس رجمنٹل سنٹر بھیجنا پڑے گا۔
خان صاحب نے میاں صاحب کو پیغام بھجوایا کہ وہ اس بے ہودگی کا بدلہ ضرور لیں گے۔ مشورہ دینے والوں نے کہا کہ میاں صاحب دھیان رہے، کرم خان کا غُصہ کئی برسوں میں ایک ہی دفعہ دیکھنے کو ملا تھا مگر کوٹ سُکھے خان کی ہر دیکھنے والی آنکھ کو آج بھی یاد تھا۔ خیر، گذشتہ را صلوات، الیکشن کے بعد میاں غفار شاہ ہاشمی جونہی یونین کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے، اُنہیں خیال آیا کہ اب ایک تیر سے دو شکار کیے جائیں۔ میاں صاحب نے اب باوا گُل حُسین شاہ کے قطعہٗ اراضی میں واقع کیکر کا ایک بڑا سا جھنڈ کٹوا کر راتوں رات اس پر ہل چلوا دئیے۔ صبحدم جب اس بر ’بِجائی‘ ہو رہی تھی تو فساد برپا ہو گیا۔ سید تو تعداد میں اتنے نہ تھے، مگر بلوچوں کے نوجوانوں نے ڈنڈے بلم کھینچ لئے اور خُوب سر پھٹول ہو گئی۔ سرفراز خان بلوچ علاقے کے آخری بلم بازوں میں سے تھا اور اس وقت بہتر سال کا بوڑھا تھا، اُن نے جو بلم کھینچا میاں غفار شاہ کے چھوٹے سالے کو اچار کی ڈلی کے مانند پرو کر رکھ دیا۔ اُدھر میاں غفار شاہ کو کچھ اور نہ سوجھی تو دفعہ سات اکیاون کی درخواست تھانے میں دے دی اور ساتھ ہی گرفتاری پیش کر دی۔ پولیس کو چارہ نہ تھا سو کرم خان اور باوا گُل حسین شاہ کو بھی گرفتار کر کے تھانے لے گئی اور دن بھر تھانے میں رکھ کر شام کو چھوڑ دیا کہ میاں صاحب خود ہی پنچایت کرنے پر راضی ہوگئے۔ پھر بھی زمین پر دعوے کی دیوانی کی کارروائی کئی سال عدالت میں چلتی رہی۔ پھر فوجداری بھی اس طرح شامل ہو گئی کہ میاں صاحب کا سالا زخموں سے وہ چُور ہوا کہ مہینہ بھر صاحبِ فراش رہ کر مر گیا۔ میاں غفار شاہ نے کسی مصلحت کی بنا پر اس کا پرچہ ریاض نائی پر کروا دیا اور کرم خان کو مشاورتِ قتل کے زمرے میں شامل کیا جس کی پیروی ریاض کی طرف سے بھی کرم خان کے وکیل نے کی۔ آئے روز کئی چھوٹے بڑے جھوٹے مقدمات میاں صاحب ان کے علاوہ کرواتے رہتے تاکہ خان صاحب دم نہ لینے پائیں۔ پنجابی زمیندار کی سب سے بڑی دشمن کچہری ہے۔ ان سالوں میں کرم خان کے گھوڑوں والی لاری بِکی، پھر گھوڑے بکے اور گائے بھینسوں کا باڑہ بھی گھٹتا گیا۔ پہلے کبھی جو لوگ کرم خان کی املاک خریدنے کی استطاعت رکھتے تھے مگر انہیں خریدنے کا حوصلہ نہ پڑتا تھا، اُنہی نے اب یہ تمام املاک بھی خرید لیں۔ پُنوں، پکھُو، مکھنا اور بُلبُل اب یا تو چھوٹے شوقینوں کی سواریاں تھے یا تانگوں کی مشقت میں ذلیل ہو رہے تھے۔
زمانے کا چلن بھی تیزی سے بدل رہا تھا۔ ہماری دیسی رہتل میں ذات پات کا نظام ختم تو ہرگز نہیں ہوا تھا لیکن غریب اور چھوٹی ذاتوں کے لوگوں میں اس بدبودار نظام کے طوق کو اپنے گلے سے نکال کر کسی اور ڈوبتے ہوئے کے گلے ڈال دینے کا حوصلہ آ رہا تھا۔ وہ تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے اور دن رات پیسہ جمع کرنے میں بھی جُتے ہوئے تھے۔ جہاں تعلیم انہیں چھوٹی ذاتوں والے فرسودہ خیال کی قید اور احساسِ کمتری سے نکال رہی تھی، وہاں کئی ایک کو دولت یہ اعتماد بخش رہی تھی کہ ماضی کے اشراف اور نجیبوں کی توہین و تضحیک کر کے یک گونہ سرور اور لُطف حاصل کریں اور اپنے آباء و اجداد کی توہین و تضحیک کے انتقام کا فریضہ بھی ادا کریں۔ شاید قدرت کا انصاف اسی میں مضمر تھا لیکن یہ جو کرم خان کی توقیر اور دبدبہ گھٹتا چلا گیا، وقت کی اس نا انصافی کا شکوہ اب اُن کے شعروں میں بھی ملتا تھا۔ اُن کے ایک چہار مصرع شعر کا مفہوم:
”اعلیٰ نسلوں کے گھوڑے گھائل ہوئے اور بِجُو اُن کے سروں پر سوار ہو گئے، نجیب ہار گئے اور بداصل لوگ حکمران بن گئے۔ لیکن کرم خاں! اُن سے کہہ دو کہ گیدڑ اگر شیر کا خُون پی بھی لے تو شیر کا خُون اس کی رگوں میں نہیں دوڑے گا!“
لیکن کرم خان کے ایک قدر دان، ہمارے اُردو کے اُستاد جناب عثمانی صاحب کے بقول کرم خان ٹھہرے بھولے آدمی، وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ اشراف اور کمین ہونا کوئی بائیولوجی کا سوال نہیں بلکہ سوشیالوجی کا سوال ہے۔ پروفیسر صاحب کے خیال میں انہی ٹُچوں، ٹاؤٹوں، مقدمے باز ٹھگوں، لُچوں اور بدمعاشوں کے پاس دولت آئے گی تو ان کی اگلی نسل کے پاس تعلیم بھی آئے گی تو تعلیم کی برکت سے اُن میں شرفاء والے اوصاف بھی آ جائیں گے پھر کسے خبر کہ کرم خان کی اولاد اور قبیلے میں سے غریبی اور تنگدستی کے باعث آئیندہ ایک دونسلوں میں لُچے اور کمینہ سوچ کے لوگ سر اُٹھا لیں۔
خیر کرم خان کی دولت، جاگیر جائیداد گھٹی تو میاں غفار شاہ ہاشمی صاحب کا ستارہٗ اقبال بلند تر ہونے لگا اور انہوں نے اپنے ٹُچے چمچے نوازنے شروع کر دئیے اور وہ بھی اب لٹھے اور دو گھوڑا بوسکی کے کپڑے پہن، طرے دار پگڑیاں باندھ پنچایتوں میں جھوٹی گواہیاں دینے لگے اور سَتھی سر پنچ بن کر جھوٹ کا ساتھ دینے لگے۔
قدرت نے ایک کرم بہرحال کرم خان پر ضرور کئے رکھا کہ اُن کی حسِ مزاح اور اعلیٰ ظرفی میں ان ابتلاء اور آزمائش کے برسوں میں بھی کوئی لغزش نہ آئی۔ ان دنوں ڈیرہ شاکر خان تتاری کے لونڈوں نے ایک بڑی سنجیدہ شرارت کی۔ ڈیرہ ایک بڑا قصبہ تھا جو کہ تقسیم سے پہلے تو شہر کا شہر رہ چکا تھا اور کوٹ سُکھے خان سے دس ایک میل کی مسافت پر تھا، وہاں کی ٹیم چند دن پہلے کبڈی کے ایک کھیل میں ہاری تھی اور ان کا خیال تھا کہ اس میں کوٹ سکھے خان والوں نے امپائر منصف کے ساتھ ساز باز کی تھی اور اس پر سخت نالاں تھے۔ ڈیرے میں انہی دنوں میں اچانک آوارہ کُتوں کی بہتات ہو گئی اور لوگ عاجز آگئے کہ آئے روز کسی بھیڑ بکری کو کاٹ لیتے یا راہگیروں کو ستاتے تھے۔ ایک رات وہاں کے لڑکے بالوں نے کیا حرکت کی کہ سارے آوارہ کُتوں کو پکڑ کر ایک لاری میں ڈالا اور کوٹ سکھے خان بلوچ چھوڑ کر واپس بھاگ گئے۔ اگلے ہی روز کوٹ سکھے خان کے لوگوں کو اس حرکت کا اندازہ ہوا اور یہ خبر بھی کہیں سے مل گئی کہ یہ حرکت کس کی ہے۔ کرم خان کے ڈیرے پر بات چھڑی تو لوگوں نے کہہ دیا کہ خان صاحب اس مسئلے کا حل نکالیں کہ ڈیرے کے عوام کو کیونکر سبق سکھایا جائے۔ خان صاحب نے کوٹ سکھے خان کے چند شریر لڑکوں کو بُلا کر حُکم دیا کہ ڈیرے سے آنے والے تمام آوارہ کُتوں کو بلکہ اپنے گاؤں کے بھی جو پکڑے جاسکیں، پکڑا جائے۔ خان صاحب نے ریاض نائی اور ایک دور کے بھانجے بھتیجے کی مدد سے گتے کے کئی بورڈ بالشت بالشت کے، بنوائے اور ان پر ایک خوشنما تحریر لکھ کر تمام کُتوں کے گلے میں لٹکانے کا حُکم دیا۔ رات ہوتے ہی ان سب کو ایک ویگن میں لاد واپس ڈیرہ شاکر خان تتاری بھجوا دیا گیا۔ اگلی صبح وہاں ہر گلی کوچے میں آوارہ کُتوں کے گلے میں یہ تحریر لٹکی نظر آئی،
”مژدہ ہو اہلِ ڈیرہ، ہم واپس آ گئے!“
اور جہاں ڈیرے کے لوگوں کو ہنسی اور شرم مل کر آئی، وہاں وہ کوٹ سُکھے خان والوں کی حسِ مزاح کے قائل بھی ہو گئے۔
اس سے ضمناً ایک اور قصہ بیچ میں آ پڑتا ہے جو کرم خان کے بھلے وقتوں کی یاد گارہے۔ باوا گل حسین شاہ کے ایک چچا زاد بھائی سید ببر علی شاہ صاحب کوٹ نیازی خان بلوچ میں رہتے تھے۔ سابق فوجی تھے اور نہایت ہٹ دھرم، ضدی اور فتنہ پرداز تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ کرم خان صاحب سے گائے خریدنی چاہی جو انہیں بقرعید کے لئے بہت پسند آئی تھی۔ سید صاحب لین دین کے بھی بڑے بد دیانت تھے، سو خان صاحب حیلے بہانے سے ٹرخا گئے۔ سید موصوف کو سخت غصہ آیا، رات کے اندھیرے میں کوٹ سکھے خان آئے اور گائے کی دُم کاٹ کر فرار ہو گئے۔ گائے کو شرعی عیب لگ گیا۔ خان صاحب کو اگلے ہی روز مخبری ہو گئی۔ آپ سادات کی عزت بھی خوب کرتے تھے، ناراض بھی بہت تھے۔ ریاض نائی کو بلایا، اس ظلم پر اردو میں ایک مرثیہ لکھا اور امام باڑے کے نوحہ خواں کو بلوایا، جلوس اکٹھا کیا اور لے کر کوٹ نیازی خاں پہنچے جہاں پورے گاؤں کی گلیوں میں گائے کو آگے آگے چلا کر سبھی نے ماتم کرتے ہوئے بآواز بلند یہ مرثیہ پڑھا؛
زمانے والو یہ اُمت پہ کیا ستم ٹُوٹا
کہ کاٹ لائے ہیں سادات ان کی گائے کی دُم
ہائے یہ دُم، گائے کی دُم، ہائے یہ دُم، گائے کی دُم!
کہتے ہیں کہ سید ببر علی کی اپنے سادات نے وہ گت بنائی کہ آج تک نہیں بھولے۔
اعلیٰ ظرفی کی بات کریں تو انہی دنوں میں کرم خان کو ایک اور پنچایت کا بھی سامنا ہوا۔ یارمحمد کمہار اب حاجی یار محمد کہلاتا تھا، اس کی دُکان اب اتنی پھل پھول چکی تھی کہ وہ گاؤں کا سیٹھ بن چکا تھا اور تھوک پرچون کے سودے سلف کا بڑا کاروباری تھا۔ اس کی بیٹی چند سال قبل دریا پار کے غریب کمہاروں میں بیاہی گئی تھی۔ اب وہ کسی گھریلو ناچاقی کی وجہ سے روٹھ کر مائیکے آن بیٹھی۔ ایک ہی ماہ گزرا تھا کہ دریا پار کے کمہاروں کا ایک وفد کوٹ سُکھے خان آ پہنچا اور کرم خان سے پنچایت کی ثالثی کرنے کا کہا۔ وہ لوگ آج بھی کرم خان کو میاں غفار شاہ صاحب سے بڑھ کر معزز گردانتے تھے۔ حاجی یار محمد نے اعتراض کیا کہ میاں صاحب اُس کے محسن ہیں، ثالثی وہ کریں گے تو پنچایت ہو گی۔ کرم خان نے میاں صاحب کی ثالثی تسلیم کر لی اور کہا کہ وہ پار والے کمہاروں کی طرف سے پنچایت میں بیٹھیں گے۔ ایسی پنچایتوں کا انعقاد ڈیرے پر نہیں بلکہ گھر کے آنگن میں ہوتا ہے۔ پنچایت ہوئی تو معاملہ کھلا۔ جیسا کہ ہم دیہاتیوں کا کلچر ہے کہ آغازِ رنج نہایت معمولی سی بات سے ہوا تھا۔ یار محمد کی لڑکی کے ہاں یکے بعد دیگرے تین بیٹیاں پیدا ہوئی تھیں، کسی دن بچوں کے لئے دودھ لیتے ہوئے ساس نے اُسے سُنا دی کہ ”جنتے ہوئے تو لڑکیوں کی قطار لگا دی، دودھ کے لئے یوں مٹکے بھر رہی ہے جیسے باپ کی بھینس کھڑی ہے اس کی!“ بحث جرح ہوئی تو پار کے کمہاروں نے اتنی بات تو تسلیم کر لی کہ ساس نے یہ کہا تھا مگر اُن کے خیال میں یار محمد کی لڑکی نے جو جواباً سب کے بخیے ادھیڑے تھے، وہ ناروا بات تھی اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ وہ معافی مانگ کر لڑکی کو واپس لینے آئے ہیں۔ یار محمد اس پر بھی راضی نہ تھا کہ لڑکی کو واپس بھیج دے۔ کرم خان کو معلوم تھا کہ یار محمد میں نودولتیوں کی سی انا ہے، لڑکی بے قصور اس کی بھینٹ چڑھے گی۔ وہ گھر بسانا چاہتی تھی اور یار محمد کے لہجے میں پیسے کا غرور بول رہا تھا۔ کرم خان نے بھری پنچایت میں کہہ دیا؛ ”حاجی یار محمد! میں تیری دریا پار والی برادری کی طرف سے تجھ سے معافی مانگتا ہوں اور تیری سماجت کرتا ہوں کہ بیٹی کا گھر بسنے دے، آئیندہ انہوں نے اسے کچھ کہا تو پھر یہ ناانصافی میں سمجھوں گا کہ میری بیٹی سے ہوئی ہے“ یار محمد لاجواب ہو گیا۔ اس کی بیٹی کو واپس بھیجے جانے کے لئے تیار کیا جانے لگا۔ پنچایت کے شرکاء کو ابھی چائے پانی پلایا جا رہا تھا کہ کرم خان نے ریاض نائی کو بھیج کر اپنے ڈیرے سے ایک بھوری گائے کھلوائی اور جب یار محمد کی بیٹی اپنی بچیوں کے ہمراہ تیار ہو کر رُخصت ہونے لگی تو کرم خان نے گائے کی راسیں اُسے تھماتے ہوئے کہا؛
کسی کی جرات ہے کہ کوٹ سُکھے خان کی بیٹیوں کو طعنہ دے! یہ گائے تیری ہے بیٹا، بیٹیاں بھی تیری ہیں۔۔۔ گائے بھی رب سوہنے نے دی ہے، بیٹیاں بھی رب سوہنے نے دی ہیں۔۔۔ بندہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔ ہم مٹی سے بھی کمتر ہیں۔۔۔ بڑے بول رب سوہنے کو پسند نہیں۔۔۔”
وہ لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتے جا رہے تھے اور سوائے میاں غفار اور حاجی یار کے، سب کی آنکھیں بھیگتی جا رہی تھیں۔ زوال کی اترائی پر بھی کرم خان کی اعلیٰ ظرفی اپنے کمال پر تھی۔
کچہری کے چکروں نے جب خان صاحب کو شہر کا مستقل مسافر بنا دیا تو ایک دفعہ خان صاحب بیمار پڑ گئے۔ اگرچہ گُردے کی تکلیف کی وجہ سے ایک مدت سے مے نوشی کا شغل بھی ترک کر چکے تھے لیکن اب پھر اس روگ نے سر اُٹھا لیا۔ کچھ پتھری سی تھی جو اُن دنوں ایک کڑا روگ سمجھی جاتی تھی۔ ایک روز کچہری سے نکلتے ہی شدید درد نے آ لیا۔ چاچا ریاض نائی انہیں شہر کے بڑے ہسپتال لے گئے۔ وہ انہیں سہارا دے کر تانگے سے اتار رہے تھے (کار ان دنوں چچا کی خدمت پر مامور تھی کہ وہ بہت ہی بیمار تھے) کہ بالکل پہلو میں ایک سرخ کرولا کار رکی اورسفید لیب کوٹ میں ملبوس ایک خاتون کار کا دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ اس شہر کی گہماگہمی میں ہزاروں اجنبی چہروں میں یہ ایک چہرہ کرم خان کا خُوب دیکھا ہوا تھا۔ اسی لمحے خاتون ڈاکٹر نے انہیں دیکھا تو قطعی غیر ارادی طور پر آگے بڑھ کر خان صاحب کو مخاطب کر کے بولیں؛ ”خان صاحب؟ آپ؟ کیا ہوا آپ کو؟“ خان صاحب تکلیف کی شدت یا کسی اور وجہ سے کچھ جواب نہ دے سکے۔ ڈاکٹر رابعہ نے کار پارک کی اور انہیں ہمراہ لے گئیں۔ ایمرجنسی سے انہیں طبی امداد دلوائی اور جب وہ اُٹھ بیٹھے تو انہیں اپنے دفتر لے گئیں جس کے باہر ”ڈاکٹر رابعہ عمر حیات“ کا بورڈ لگا تھا اور ریاض نائی نے آہستہ سے یہ تحریر اُن کے کان میں سُنا دی۔ اُن کا یہ نام پہلے نہ تھا۔ دفتر میں بیٹھے، احوال پرسی کا آغاز ہوا۔ خان صاحب کی ہلکی پھلکی سی نمی لئے حیران آنکھیں ڈاکٹر صاحبہ کو دیکھے جا رہی تھیں۔ فطرت حُسن اور نزاکت اگر انسان کو ودیعت کردے تو وہ ہر عمر میں کسی نہ کسی صورت میں باقی رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ اب بھی حسین تھیں، سر میں سفید بالوں کی ایک باریک سی لٹ کے باوجود پتلے نقش نین، ہونٹوں کی لالی اور مخروطی انگلیوں کی نزاکت ویسی ہی تھی۔ دُبلی ہو جانے میں پہلے سے بھی نازک لگ رہی تھیں اور آنکھوں میں کامیاب لوگوں کی سی پروقار تھکن کے ڈورے تھے۔ آنکھوں کا وہ حُسن باقی تھا جس پہ کرم خان کی شاعری میں تشبیہوں اور استعاروں کے لشکر قربان ہو چکے تھے۔ دوا دارو کی بات ہو چکی تو ڈاکٹر صاحبہ خالی خالی سی نگاہوں سے کچھ دیر کرم خان کو دیکھتی رہیں۔ چہرے کی جھریوں اور سر میں سفید اور سیاہ بالوں کی کھچڑی نے خان صاحب کی شخصیت کی متانت اور وقار کو بڑھا تو دیا تھا مگر رئیس زادوں والے رعب، دبدبے، صحت اور جوانی کی آخری رمق بھی اس چہرے سے رُخصت ہو چکی تھی۔ جو بھولپن کبھی اس چہرے پر تھا، وہ ایک بے چارگی سے بدل رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ان سے بیٹی کی خیریت کا پوچھا۔ خان صاحب نے مسکراتے ہوئے خداجانے کیا جواب دیا۔ چاچا ریاض نائی کے بقول ان کی آواز بہت دھیمی تھی۔ ”اب بھی شعر کہتے ہیں؟“ ڈاکٹر صاحبہ نے نرمی سے پوچھا۔
”اب اور بچا ہی کیا ہے کرنے کو؟“ خان صاحب نے مسکرا کر کہا تو ریاض نے انہیں کہنی ماری کہ ایسے مسکینی کا اظہار نہ کریں مگر وہ سیدھے آدمی تھے۔ ادھر اُدھر کی باتیں ہوئیں۔ خان صاحب نے اُن سے یہ ہرگز نہ پوچھا کہ وہ کہاں چلی گئی تھیں، اچانک اور اتنے سال کہاں غائب رہیں۔ دوا کی پرچی لے کر اُٹھنے لگے تو ڈاکٹر صاحبہ چونکیں،
”خان صاحب! آپ چائے پیے بغیر نہیں جا سکتے۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ ہم بلوچوں کی مہمان نوازی کو تو نہیں پہنچ سکتے لیکن آپ نے مجھ سے چائے نہ پی تو یہ میری نالائقی ہوگی“
خان صاحب سادگی سے مسکرا کر بیٹھ رہے۔ چائے کے دوران کچھ خاص بات نہ ہوئی، ڈاکٹر صاحبہ اپنے بچوں کے بارے میں بتاتی رہیں اور چاچا ریاض سے ان کے گھر بار کی خیریت پوچھتی رہیں۔ آخر پہ اُنہوں نے اپنے دفتر اور گھر کا ٹیلی فون نمبر ایک چٹ پر لکھ کر دیا اور تاکید کی کہ خان صاحب ان کے پاس چائے پینے ضرور آیا کریں، یہاں ہسپتال چاہیں یا ایس ایس پی عمر حیات دولتانہ کی رہائش پہ، وہ ہمیشہ ان کے معزز مہمان ہوں گے۔
چاچا ریاض نائی کا قول ہے کہ ڈھلتی عمر میں جوانی کی کسی محبت کا جاگ اُٹھنا کسی سمجھدار آدمی کو احمق اور معزز آدمی کو بے وقعت کرنے میں آخری کسر ہوتی ہے جس کے بعد نہ عقل رہتی ہے نہ وقار۔ کرم خان صاحب کو ڈاکٹر صاحبہ سے پہلے کون سا شکوہ تھا جو اب روا رکھتے، اُسی والہانہ پن سے اُن کی محبت کا دم بھرنے لگے۔ ہر دوسرے روز ڈیرہ شاکر خان تتاری والے پبلک کال آفس پہنچے ہوتے اور آپریٹر کے وارے نیارے ہو جاتے۔ ہفتہ بھی نہ ہونے پاتا تھا کہ ان کی پچاسی ماڈل کار کوٹ سُکھے خان کی صبح کے سکوت میں تیرتی ہوئی شہر روانہ ہو جاتی۔ چاچا ریاض نائی ڈرائیور ہوتا اور کرم خان صاحب ہسپتال کے لئے عازم ہوتے۔ گُردے کا عارضہ تو تھا ہی مگر کہتے تھے کہ ڈاکٹر رابعہ دولتانہ کی چائے سے بڑا میرے مرض کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا۔ یہاں سے اکثر شدید تکلیف میں روانہ ہوتے مگر ڈاکٹر صاحبہ کے دفتر میں وارد ہوتے ہی بھلے چنگے ہو جایا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحبہ بڑی مروت سے پیش آتیں، اُن کی سرائیکی شاعری پہ خوب داد دیتیں اور اُن کے لطائف پر خُوب کھلکھلا کر ہنستیں۔ شہر میں بڑا ریستوراں بن چکا تھا، کبھی وہاں دوپہر کے کھانے کا اہتمام ہوتا، کبھی لائل پور نکل جاتے جس کا نام تو بدل چکا تھا مگر ہم دیہاتیوں کو ابھی بھی فیصل آباد کہنے میں دقت ہوتی تھی۔ شہر کے سنیما گھروں میں نیا فلم آتا تو اکثر کرم خان صاحب منت سماجت کرکے ڈاکٹر صاحبہ کو فلم بھی دکھا لاتے۔ ایس ایس پی عمر حیات دولتانہ سے بھی شناسائی بن گئی جو کہ شاعری کا کمال ذوق رکھتے تھے اور کرم خان صاحب کے مداح ہو گئے۔ انہیں کسی قسم کا شک شائبہ یا اعتراض نہ تھا کہ وہ ڈاکٹر صاحبہ کے مہمان کیوں ہوتے تھے۔ دراصل انہیں اس طرح کے سوالات کی فرصت تھی نہ ضرورت۔ ڈاکٹر صاحبہ سے ان کی شادی باہمی محبت کی تھی اور آج تک ان کے درمیان کوئی بدگمانی نہ ہوئی تھی۔ پھر بھی کچھ عرصے بعد دفتر یا گھر کے بجائے صرف لائل پور میں ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں جن میں ڈاکٹر صاحبہ تو فقط دوستانہ مروت سے پیش آتیں مگر خان صاحب تو گویا ان کے قدموں میں بچھ جایا کرتے تھے۔
اب احوال یہ تھا کہ خان صاحب، ڈاکٹر صاحبہ کے لئے تحائف خریدنے کبھی لاہور پہنچے ہوتے تو کبھی راولپنڈی اور کوئی عید، تہوار قضا نہ کرتے۔ پھر جب ڈاکٹر صاحبہ نے شہر میں اپنی کوٹھی کی تعمیر کا کام شروع کروایا تو دفتر میں اس کا ذکر ہوا۔ خان صاحب جھٹ سے بولے، ”آپ کو جس طرح کا بلڈنگ میٹیریل درکار ہو، بتائیے گا، سرگودھے میں میں نے اپنا کاروبار آغاز کیا ہوا ہے، میری کمپنی کے ہوتے ہوئے آپ کا مکان کوئی اور بنائے گا تو آپ میرا دل توڑیں گی“ ڈاکٹر صاحبہ کو پیشکش پسند آئی۔ باہر نکل کر ریاض نائی سے کہنے لگے چلو سرگودھے، ملک شبیر، پُل گیارہ والے کے پاس!! ملک موصوف ان کے پرانے شناسا اور ایک کرشنگ پلانٹ اور ایک معمولی سی تعمیراتی کمپنی کے مالک تھے۔ الغرض ڈاکٹر صاحبہ کی کوٹھی کی تعمیر پر جو لاگت ہوئی اس کا نصف سے زیادہ انہیں اس لئے بچت میں رہا کہ خان صاحب کی ”کمپنی“ نے ان سے کمال رعایت کی تھی۔ ملک شبیر کو پورے پیسے مل گئے، اسے اس سے کیا فرق پڑتا تھا کہ ہمارے ضلعے میں اس کی مشینری کسی کے نام سے چلے۔ عمر حیات صاحب ایک دیانت دار افسر تھے، سو انہوں نے اس رعایت پر خان صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا ورنہ اس لاگت کا مکان اُن کی بچت اور تنخواہ کے بس سے ذرا باہر ہی تھا۔
خان صاحب نے جو لاکھوں روپیہ اپنی گرہ سے ادا کیا تھا، اس میں ان کے مویشی لگ بھگ سبھی بک گئے، پھر دریا کنارے والی زرعی اراضی بک گئی، پھر صحرا کی چنے کی کاشت والی بارانی زمین فروخت ہوئی۔ چاچا ریاض اکثر اُن سے الجھتے کہ یہ پاگل پن نہ کیجئے مگر خان صاحب کہاں سنتے تھے۔ ڈاکٹر صاحبہ بھانپ تو گئیں کہ سیدھا سادہ دیہاتی چالاکی و پرکاری دکھانے کی ناکام کوشش کررہا ہے مگر چُپ رہیں۔ خان صاحب کی نیت بھی تو صاف تھی۔ فقط بے لوث محبت کے سوا ان کا کوئی مدعا نہ تھا۔ جلد ہی ڈاکٹر صاحبہ بھی گھبرانے سی لگیں اور اگر نرمی سے منع بھی کرتیں یا تعمیراتی کام کی بقایا کی رقم ادا کرنے کا تذکرہ کرتیں تو خان صاحب کی آزردگی کا عالم دیدنی ہوتا۔
سال ہی گزرا ہوگا کہ ڈاکٹر صاحبہ کا تبادلہ لائل پور ہو گیا تو خان صاحب نے بھی لائل پور ٹھکانہ کر لیا۔ ایک سادہ سا مکان شہر کے مضافات میں خریدا اور اکثر وہیں قیام کرنے لگے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو اب اپنے نئے گھر سے لائل پور آنے میں دو گھنٹے کی مسافت طے کرنی پڑتی جو کہ پولیس کی جیپ میں تو اور بھی تھکا دینے والی ہوتی تھی۔ اپنی کار وہ گھر بنانے کے عمل میں فروخت کرچکی تھیں۔ سو ایک دفعہ پھر کرم خان کے جوشِ محبت نے کھولاؤ دکھایا اور کوٹ مبارک سیال والی زرعی زمین کا ایک قطعہ بیچ کر لاہور سےنئی کار خرید لائے اور ڈاکٹر صاحبہ کی سالگرہ کے تحفے کے طور پر اُن کی خدمت میں پیش کر دی جو اس اونٹ کی پیٹھ کا آخری تنکا ثابت ہوئی۔ اب ڈاکٹر رابعہ نے ناصرف سختی سے منع کردیا بلکہ ریاض سے کہا ”ریاض بھائی کار واپس لے جائیے اور کرم خان کو سمجھائیں کہ یہ حقِ دوستی ادا کرنے سے کہیں آگے کی حرکت ہے، مجھے مزید شرمسار نہ کریں“ چند روز بحث ہوتی رہی پھر ڈاکٹر صاحبہ نے حتمی طور پر کہہ دیا کہ وہ یہ تحفہ قبول نہیں کر سکتیں اور یہ کہ وہ خان صاحب کی سابقہ محبت اور والہانہ جذبات کی قدر کے طور پر یہ سب کچھ مروتاً کررہی تھیں اور ان سے مل جل رہی تھیں مگر اب خان صاحب معقول نہیں رہے۔ ”کرم خان، اس ڈھلتی عمر میں مجھے بھی رُسوا نہ کیجئے اور خُود بھی نہ ہوں۔ بہتر ہے واپس گاؤں چلے جائیں، میں آپ کی ایک چائے کا قرض نہیں اُتار سکی تھی، اس پاگل پن کو کہاں سہار سکوں گی۔ آئیندہ آپ میرے دفتر نہ آئیے گا، یہاں آپ کو چائے پلانے والا کوئی نہ ہوگا!!“ یہ کہہ کر ڈاکٹر رابعہ نے ٹیلی فون کریڈل پر گرا دیا۔ کرم خان نے بہت دل برداشتگی کے عالم میں کار اونے پونے فروخت کی، جو رقم ملی، اس سے چند مویشی خریدے اور گاؤں لوٹ آئے۔
کرم خان ایک مدت تک مضمحل اور بیمار سے رہے۔ اب مے نوشی بھی اس قدر بڑھا دی کہ جس بُری عادت کی آج تک گاؤں میں کم ہی کسی کو خبر تھی، کسی کے لئے ڈھکی چھپی بات نہ رہی۔ اب احوال یہ تھے کہ ہمہ وقت دو ایک ہم مشرب دوست یار ان کے ڈیرے پر آئے رہتے تھے، محفلِ میگساری چلتی، ساقی گری ریاض نائی کا فریضہ تھا۔ ریاض نے آغاز میں منع کیا کہ اس طرح مرض بڑھ جائے گا مگر وہ کہاں مانتے تھے۔ اپنی مشہورِ زمانہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنا ایک شعر سناتے جس کا مفہوم کچھ یہ تھا کہ ”اے نادان خیر خواہو، جس مریض سے چارہ گر روٹھ جائے، اسے دوا سے غرض؟ اب چارہ گر آئے تب بھی موت اور نہ آئے تب بھی موت ہے!“ اور اسی طرح ایک شعر میں کہا؛ ” خُدا نے تو بیماری کے عالم میں شراب بھی اپنے بندوں پر حرام نہ رکھی، میرے چارہ گر کی بے نیازی دیکھو جس نے مجھ پر دوا یعنی اپنا التفات بھی حرام کر رکھا ہے“
اس عشق کی بازگشت کے دو سالوں میں خان صاحب کی بے خُودی اور گم خیالی کا مادی فائدہ ان کے زمین کے تنازعے سے وابستہ لوگوں نے خُوب اُٹھایا۔ جو تنازعہ کیکر کے جھنڈ والی زمین سے آغاز ہوا تھا، اب اس سے کئی جھگڑوں کی کونپلیں اور بھی پھوٹ چکی تھیں۔ میاں غفار شاہ دیوانی معاملات میں بہت چالاک اور گرگِ باراں دیدہ تھا البتہ فوجداریوں میں ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھا۔ ان کے سالے کے قتل کے مقدمے میں صلح صفائی کی وجہ فقط یہی تھی کہ وہ فوجداریوں میں آگے بڑھنے سے ڈرتے تھے۔ اس خوف کی جڑیں شاید اس تنازعے کے آغاز کی ایک پنچایت میں پیوست تھیں۔ کوٹ سکھے خان کے بلوچ اگرچہ باقی ہر معاملے میں زبانی کلامی ہی کرم خان کے ہمدرد رہے مگر لڑائی جھگڑے کے معاملے میں آغاز کی کسی پنچایت میں ہی سرفراز خان بلوچ نے کہہ دیا تھا: ”میاں شاہ صاحب، آپ قانونی جنگ کسی سے بھی لڑ لیں، ایم پی اے آپ کا، وزیر آپ کا، تھانہ آپ کا۔۔۔ مگر کرم خان کی جان اور عزت کا خطرہ اگر پیدا کیا تو یاد رکھئے سادات میں آپ کی پیڑھی ابھی نئی اور بڑی مختصر سی ہے، اگر ایک کے بدلے دس بلوچ بھی پھانسی چڑھ گئے تو خسارہ آپ ہی کا ہے!“ اس پر ساری پنچایت ہنس پڑی تھی اور میاں صاحب کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا۔
ایک دن کرم خان کو نجانے کیا سوجھی کہ ریاض نائی اور چچا برخوردار خان کو ہمراہ لیا اور شہر جا کر کر اے سی دفتر کچہری میں سوائے اپنے گھر کے باقی ماندہ تمام جائیداد، جاگیر، اپنی بیٹی کے نام لکھوا آئے۔ کوٹ سُکھے خان، کوٹ نیازی خان اور ڈیرہ علی خان سیال میں کچھ زرعی زمین، کوٹ مبارک سیال کی بڑی جاگیر، تھل کی بارانی زمین کا ایک قطعہ، کوٹ سُکھے خان میں کچھ دُکانیں، خوشاب روڈ پہ ایک پٹرول پمپ اور مویشی۔۔۔ سبھی کچھ بیٹی کے نام کر دیا۔ مویشیوں میں اکثر گائیں بھینسیں سانجھے کی تھیں، پھر بھی بیس کے قریب گائیں بھینسیں، بچھڑے بدھیا خالصتاً ان کے اپنے تھے جو بیٹی کے نام کرنے کے بعد قانوناً اب کرم خان کے پاس ماسوائے اپنے گھر اور پرانی کھٹارا کار کے کوئی جائیداد نہ تھی۔ سال ہی گزرا ہوگا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح برخوردار خان کے بڑے پوتے سے کروا دیا اور رخصتی کے لئے اس کی بیس سال کی عمر ہونے کی مہلت مانگی۔ ثمینہ خانم اب دسویں میں پڑھتی تھی اور خان صاحب اسے اعلیٰ تعلیم کے لئے شہر بھیجنا چاہتے تھے۔ اگرچہ رشتے داروں نے بہت کہا کہ اس کی ضرورت نہیں کہ اس زمانے میں دس جماعتیں لڑکی کے لئے کافی تعلیم سمجھی جاتی تھی لیکن خان صاحب نے ایک نہ سنی۔ رُخصتی کے وقت تک ثمینہ خانم چودہ جماعتیں سر میلکم ہیلی کالج سے پڑھ چکی تھی۔ کرم خان نے بیٹی کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی اور حریفوں نے خوشی کے شادیانے بجائے کہ اُن کی تمام تر جائیداد برخوردار خان کی پیڑھی کو منتقل ہو چکی تھی۔ چند لوگ کرم خان کے گُن گا رہے تھے، زیادہ لوگ حیران تھے کہ اسی شے سے بچنے کے لئے تو لوگ بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہ دیتے تھے۔ خیر اب کرم خان اپنے آبائی گھر میں اکیلے رہتے، شعر کہتے اور ریاض نائی جیسے معدودے چند دوستوں کی صحبت میں وقت گزارتے۔
ایک مدت سے اُن کا معمول تھا کہ اڑوس پڑوس اور گاوں کے غریبوں کو اناج اور اجناس تحفہ کیا کرتے تھے، اب یہ بھی نہ رہا۔ مے نوشی کی محفلیں بھی برخواست ہو گئیں۔ تنگدستی نے نیکی اور بُرائی، دونوں کی بساط لپیٹ دی۔
ادھر میاں غفار شاہ اور اُن کے چیلے چمچے علاقے میں اتنے بارسوخ ہو چکے تھے کہ اب انہیں کسی کا لحاظ رہا، نہ ڈر۔ جب ریاض نائی کی بڑی بیٹی کی شادی ہوئی تو وہ پرانی کار بھی بک گئی۔ ریاض کی بیٹی اور ثمینہ بچپن کی سہیلیاں اور ہم جماعت تھیں، وہ کرم خان کو اپنی بیٹی کی طرح عزیز رہی سو اس کی شادی کے اخراجات بھی اپنا فرض گردانے۔ اسے دس جماعت تک تعلیم بھی خان صاحب نے اپنی بیٹی کے ساتھ ساتھ دلوائی۔ وہ شاید اسے اور بھی پڑھاتے مگر چاچا ریاض کو اس کا فرض ادا کرنے کی جلدی تھی۔ ایک ریاض کی بیٹی پہ ہی کیا موقوف، کوٹ سُکھے خان کے آٹھ دس لڑکے لڑکیوں کے پہلی جماعت سے تعلیمی اخراجات خان صاحب نے ہی اٹھائے تھے۔ ان میں سے چند لڑکیاں کالج اور دو ایک یونیورسٹی تک بھی پہنچ چُکی تھیں۔ خیر، خان صاحب کی وہ سُرخ کرولا ایک مدت تک ہم نے عالم قصائی سب انسپکٹر کے پاس دیکھی، پھر نجانے کہاں گئی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب خوشاب، مظفر گڑھ روڈ پر لاری سے اُتر کر نیچے ڈیرہ شاکر خان تتاری تک دو اڑھائی میل کا سفر پیدل طے کرتے ہوئے کرم خان صاحب کو ہم بھی دیکھا کرتے تھے۔ ہم اسکول کی خاکی وردی پہنے، گہرے سبز رنگ کے موٹے کپڑے والے بستے باندھے ننھے ننھے سپاہیوں کی طرح اسکول جا رہے ہوتے تھے تو ہمارا ٹکراؤ بابا بُدھو شاہ سرکار کے دربار والے جھُنڈ، قبرستان والے جنگل یا اس کے پاس جو سیلابی جھیل ہے، اس کے کنارے ہوتا تھا۔ اب اُن کے گنجے سر پر چند ہی بال باقی رہ گئے تھے جنہیں خضاب لگا کر سیاہ کرنے کی کوشش میں وہ اپنی چندیا پر بھی سیاہ داغ لگا بیٹھے جو ان کی سانولی رنگت پر بہت بھدے لگتے۔ چہرے پہ جھریاں نمودار ہو چکی تھیں جن سے لگتا تھا کہ وہ ہر وقت ہنستے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ جب کبھی اپنا کوئی شعر سناتے ہوئے روہانسے ہو جاتے، تب بھی لگتا کہ ہنس رہے ہیں۔ وہ مشہورِ زمانہ مسکراہٹ اب اس مضحکہ خیز سی ہنسی کے نیچے قابل رحم حد تک دب چکی تھی۔ بکثرت سگریٹ نوشی اور کبھی کبھار کی مے نوشی نے آنکھوں میں سُرخی اور پیلاہٹ کا ملا جلا سا مستقل رنگ بکھیر دیا تھا جن میں ہمہ وقت ایک نمی سی تیرتی رہتی تھی۔ قامت میں خم آ گیا تھا۔ کبھی کبھار کھانسی کی کھنک بھی شعروں اور گفتگو میں رموز واوقاف کے طور پرشامل ہو جاتی۔ لیکن آواز کی تندرستی باقی تھی۔ لہجے کی اُداسی نے وہ سوز و گداز پیدا کر دیا تھا کہ بولتے تو سننے والوں کو پرے سے یوں لگتا تھا کہ سندھی یا سرائیکی شاعری سُنا رہے ہیں۔
ہمیں تو خیر اس کا دماغ نہ تھا لیکن دیکھنے والے تاڑ گئے کہ خان صاحب کا اس تواتر سے ڈیرہ شاکر خان تتاری آنا جان کس کے لئے تھا؟
جب ڈیرے میں کئی سال قبل پہلا نجی اسکول بنا تھا تو مادام سائرہ جنہیں ڈیرے کے سبھی چھوٹے بڑے باجی سائرہ کہتے تھے دس سال اس کی ہیڈ ٹیچر رہی تھیں۔ مالک اسلام آباد منتقل ہوا تو ادارہ اونے پونے میں فروخت کر کے چلا گیا۔ نیا مالک کوئی احمق سا امیرزادہ تھا، مادام سائرہ، اُس کے ساتھ نہ چل سکیں اور نوکری چھوڑ دی۔ اُن کے حُسن کا شیدائی تو ایک عالم تھا لیکن شادی ایک وکیل صاحب سے ہوئی جو انہیں بڑی چاہ سے دلھن بنا کر لے گئے۔ وکیل صاحب موصوف جتنے خوش قسمت سمجھے جا رہے تھے، اس قدر خوش قسمت نہ نکلے۔ دو ہی سال گزرے ہوں گے کہ وکیل صاحب کسی بیماری میں گزر گئے اور ساس صاحبہ نے انہیں منحوس ٹھہرا کر گھر سے نکال دیا۔ وہ اپنی شیر خوار بیٹی کے ہمراہ واپس اپنے میکے آ گئیں۔ والدین کا سایہ بھی کچھ عرصے بعد سر پر نہ رہا۔ پھر ایک عرصہ انہوں نے مقامی سطح کا دستکاری کا سکول چلایا جس میں بچیوں کو ہنر سکھاتی تھیں۔ اب ان کی عمر پینتالیس کے لگ بھگ تھی لیکن حُسن میں آج بھی تیس تیس کی سہاگنوں کی ٹکر کی تھیں۔ خُدا جانے کرم خان صاحب کا اُن سے کیسے ٹکراؤ ہوا کہ اُن پر مر مٹے اور وہ بھی اس ڈھلتی عمر میں۔ ہمیشہ کی طرح ریاض نائی ان کے زخمِ عشق پر پھاہے رکھنے کے لئے حاضر تھا۔ چڑھتی جوانی اور ڈھلتی عُمر کا عشق جان لیوا ہو سکتا ہے اور خان صاحب کی حالت بھی کچھ بہتر نہ تھی۔ سُنا ہے کہ خان صاحب نے ایک منظوم خط مادام سائرہ کو بھیجا۔ استانی جی کی عزت تو ہر شخص کرتا تھا کہ گزشتہ بیس سال میں نجانے کتنی بیٹیاں اس بستی کی ان سے پڑھ چکی تھیں مگر پھر بھی کچھ لُچے لقندرے ان پہ ڈورے ڈال چُکے تھے اور وہ مردوں میں چُھپے حرامزادوں کو بہت جلد بھانپ لیتی تھیں۔ کرم خان کے بارے میں انہوں نے سُن تو رکھا تھا مگر ان کی دولت، شاعری اور حُسن پرستی کے قصوں نے اُن کا تاثر بہت خراب کر رکھا تھا، اُستانی جی نے کچھ دن تامل کیا اور پھر انگریزی میں ایک مختصر سی تحریر میں ایک چٹھی لکھی جس میں خان صاحب کو سخت ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اپنی عمر اور عزت و وقار کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ یقیناً یہ چٹھی انگریزی میں مشقی کاپی کے صفحے پر اس لئے لکھی گئی تھی کہ اگر غلطی سے راستے میں کھو جائے، کسی اور کے ہاتھ لگ جائے تو دیکھنے والا اس کاغذ کے ٹکڑے کو کسی بچے کی جماعت کی کاپی کا ایک ورق سمجھے۔ انگریزی سمجھنے والے تو شاید جھنگ سے خوشاب تک کے درمیان بھی کوئی ڈھونڈنے سے ہی ملتے۔ خان صاحب کے بارے میں ان کو یقین ہو گا کہ کسی سے پڑھوا لیں گے۔ سردار کرم خان بلوچ کے خط کا جواب نہ دینا بہرحال آج بھی کسی کے لئے آسان کام نہ تھا۔ چٹھی ریاض نائی کے پاس پہنچی تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ انگریزی میں کیا لکھ ڈالا۔ اتنا تو وہ بھی پڑھنے کے قابل نہ تھے۔ کرم خان نے اپنے ایک اور پرانے دوست کو بلوایا جو کہ ریٹائرڈ ایجوکیشن کلرک تھا اور خط پڑھنے کا کہا۔ کلرک موصوف نے خط پڑھ کر حرف بحرف سمجھایا تو چاچا ریاض کے ساتھ مل کر خان صاحب کو خوب چھیڑا البتہ وہ یہ نہ جان سکا کہ خط کس نے لکھا ہے۔ بعد میں بھی کئی دفعہ آمنا سامنا ہونے پر کلرک صاحب انہیں آنکھ مار کر گُڈ مارننگ کہتے تو خان صاحب کھسیانے سے ہو کر ”چخا چخا“ (دفع دفع) کہتے ہوئے کھسک جاتے۔ اس کے بعد کرم خان نے مادام سائرہ کو کوئی خط نہ لکھوا بھیجا البتہ ڈیرے آنے جانے کا سلسلہ قائم رہا۔ یہاں کی ایک درزن ان کی مرحومہ بیوی کی پرانی سہیلی تھی، اس کی خدمات حاصل کی گئیں تو کرم خان کو فقط یہ کامیابی حاصل ہوئی کہ مادام اس درزن کے گھر آ کر خان صاحب کی بات ایک دفعہ سننے پر آمادہ ہو گئیں۔
یہ ملاقات ایک رومانوی تجربہ ہرگز نہ تھا۔ سائرہ نے سیدھے سبھاؤ کہہ دیا کہ ان کی بیٹی اب کالج جانے کی عمر کو ہے۔ اور وہی اب ان کی زندگی کا سارا مرکز ہے تو وہ کیسے کسی ایسے قصے میں پڑ سکتی ہیں جس کی عمر ہی گزر چکی ہے۔ انہوں نے تو وکیل صاحب سے بھی تھوڑی ہی دیر آنکھ لڑائی تھی کہ وکیل صاحب نے رشتہ بھیج دیا تھا۔ کرم خان صاحب کو اندازہ ہوا کہ انہوں نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک ایسا قدم اُٹھایا ہے جس سے ہٹنا بھی بے توقیری ہے اور آگے بڑھنا بھی اچھا نہیں۔ سو جو کچھ انہوں نے بہت آگے کے لئے سوچ رکھا تھا، ابھی کہہ دیا یعنی شادی کی پیشکش کردی اور وعدہ کیا کہ کسی بھی جواب کی صورت میں مادام سائرہ کی بیٹی کو وہ اپنی بیٹی سمجھیں گے اور اس کی تعلیم کے لئے ہر طرح کی کاوش کریں گے۔ انہوں نے مادام کو سوچنے کی مہلت بھی دی۔
ابھی سوچنے کی مہلت کے دن چل رہے تھے اور درزن بھی مادام سائرہ کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ اس دنیا میں اکیلی ہیں اور بیوگی کی بیچارگی میں جو اتنے کٹھن سال گزرے ہیں، بیٹی کی شادی کے بعد مزید کٹھن ہو جائیں گے، بہتر ہے کہ ایک خاندانی آدمی کی اہلیہ بن جائیں تو بیٹی کو بھی کوئی شناخت مل جائے گی۔ انہی دنوں میں ایک چھوٹا سا لطیفہ بھی ہو گیا اور وہ یہ کہ خان صاحب کے کپڑے جو ثمینہ کے گھر دھلنے گئے تو مادام سائرہ کی انگریزی چٹھی ان کے قمیض کی جیب میں رہ گئی۔ نوکرانی نے کپڑے دھونے سے پہلے جیبیں دیکھیں جیسا کہ بی بیوں کا معمول ہے، چٹھی نکلی۔ ”چھوٹی بی بی، یہ خان صاحب کی دواؤں والی پرچی ہے شاید، سنبھال لیں“۔ ثمینہ کو نوکرانی نے پرچی دی تو پہلے تو وہ بوکھلا گئی کہ گردے کی تلکیف کی صورت میں تو وہ ایک ہی دوا لیتے ہیں جس سے افاقہ ہوتا ہے، اب یہ کون سا نیا مرض لاحق ہوا جو چھپا رہے تھے۔ پھر چٹ پڑھی تو حیران بھی ہوئی اور ہنسی بھی۔ نوکرانی سے باپ کو بلوا بھیجا۔
”ابا جی! مجھے نہیں پتہ تھا آپ اتنے پڑھے لکھے ہیں!“
ثمینہ نے مسکراتے ہوئے کہا تو کرم خان صاحب شرمندہ اور کھسیانے ہو کر ہنسنے لگے۔ پہلے تو چاچا ریاض پہ ڈالنے کی کوشش کی مگر ثمینہ نے تو خوب تنگ کیا، آخر پہ ضد کرکے باپ کے گلے میں بانہیں ڈال کر جھول گئی۔
”ابا مجھے ایک دفعہ دکھائیں تو!! ورنہ بابا بکھے (برخوردار) کو بتا دوں گی، پھر خیر نہیں ہونی آپ کی!“
ثمینہ نے خوب چہلیں کیں لیکن خان صاحب شرماتے لجاتے ہوئے وہاں سے اُٹھ آئے اور پھر ریاض کو بھجوا کر ثمینہ کو بتلایا کہ ”بھائی کرم خان باجی سائرہ کو تمہاری امی بنانے کے چکر میں ہیں۔۔۔“ ثمینہ یہ سُن کر پہلے تو مسکرا دی، پھر سنجیدہ ہو گئی۔
چونکہ پہلی مُلاقات میں کرم خان انہیں بھلے آدمی لگے تھے، اُستانی صاحبہ نے انہیں پھر درزن کے گھر بلوا بھیجا کہ جواب دینے سے پہلے کچھ معاملات معلوم کرنے تھے۔ خان صاحب خضاب لگا کر بلیوں اچھلتے ہوئے جا پہنچے۔ استانی صاحبہ نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا اُن کیلئے اس قدر آسان نہیں۔
”کون جانے کل بلوچ قبیلے، برادری میں ہی مجھے قبول نہ کیا جائے! آپ پر رشتہ داروں کا دباؤ یا ٹھٹھہ مخول اتنا ہو کہ آپ ہار ہی جائیں اور میں اپنی عزت کا جنازہ لے کر پھر یہاں آبیٹھوں“ گویا انہیں بھی خبر تھی کہ کرم خان کا رعب دبدبہ جاتا رہا ہے۔ ساتھ ہی مادام سائرہ نے عمرِ گذشتہ کی کٹھنائیوں کا جو ذکر چھیڑا تو رو رو کر چہرہ دھو ڈالا۔ وہ بڑی پختہ اعصاب کی خاتون تھیں مگر شاید کرم خان کی محبت کا جادو اس عمر میں بھی اپنی تاثیر دکھا رہا تھا۔ خان صاحب بھانپ گئے کہ اُن کا خوف کس نوعیت کے عدم تحفظ کی وجہ سے ہے، تاہم یہ ملاقات بھی نتیجہ خیز ہونے کی بجائے بڑے جذباتی انداز میں ختم ہوئی۔ خان صاحب نے انہیں دلاسہ دیا تو باہمی اپنایت کا ایک اٹل سا جذبہ سر اُٹھانے لگا۔ خان صاحب نے اس دن واپس آتے ہی ریاض نائی اور اپنے دوست ایجوکیشن کلرک سے صلاح مشورہ کیا۔ پروفیسر ثاقب عثمانی صاحب کو بھی چٹھی بھیج کر بلوایا اور انہیں ساتھ لے کر شہر میں جا درخواست جمع کروادی کہ پرائیویٹ اسکول قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہاں سرکاری دفتروں میں بھی کئی پرانے شناسا نکل آئے تو مہینوں کا کام دنوں میں ہوا۔ خان صاحب نے اپنے داماد اسلم کے ذمے لگایا کہ لائل پور میں ایک مکان کا پلاٹ جو ایک مدت سے اُن کے نام کا پڑا تھا اور کسی وجہ سے ثمینہ کے نام نہ ہو سکا تھا، اس کو فروخت کیا جائے۔ داماد صاحب لائل پور پہنچے تو پتہ چلا کہ پلاٹ پر قبضہ گروپ کے کوئی رانا صاحب قابض ہیں۔ کرم خان کی خوش قسمتی کہ جب ایم این اے کی چٹھی لے کر ڈی آئی جی صاحب کے پاس پہنچے تو وہ چھٹی پر تھے اور قائم مقام ڈی آئی جی صاحب پرانے شناسا نکلے؛ عمر حیات دولتانہ صاحب۔ خیر، اس پلاٹ کی قیمت رانا صاحب نے کرم خان کی توقع سے بھی ذیادہ ادا کر دی۔ مادام سائرہ کو پتہ چلا کہ کرم خان اپنے گاؤں میں اسکول کے قیام کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں تو اُنہیں بُلوا بھیجا کہ ماجرا کیا ہے؟ ادھر سرکاری رجسٹریشن نمبر ملنے سے پہلے اسکول کا فرنیچر پہنچ چکا تھا، خان صاحب کی آبائی حویلی جو ثمینہ کی شادی کے بعد عملاً سنسان پڑی تھی اس کے وسیع آنگن میں جماعت کے کمروں کی قطار کھڑی کر دی گئی تھی اور اب مستری پلستر چونے والے کام میں مشغول تھے اور باغیچے کے مالی کا کام چاچا ریاض نائی نے دھڑا دھڑ جاری رکھا ہوا تھا کہ کرم خان صاحب اُستانی جی سے ملنے کے لئے پہنچ گئے۔ یوں لگتا تھا جیسے ان کی ساری توانائیاں کہیں سے لوٹ آئی ہیں۔ اُنہوں نے ملتے ہی مادام سائرہ سے کہا کہ انہیں الکرم گرلز اسکول کی پرنسپل کے عہدے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ مادام سائرہ کو شک تو پڑ چکا تھا کہ کرم خان یہ سب اہتمام انہی کے لئے کر رہے ہیں مگر اب جو کرم خان کی زبانی سُنا تو یقین آ گیا۔
”سائرہ اب اگر آپ میری درخواست ٹھکرائیں گی تو خُدا کرے میرے مرنے کی خبر سُنیں!“
کرم خان کی التجا میں خلوص اور محبت واضح تھی اور اتنی تھی کہ سائرہ صاحبہ مان گئیں۔
اسکول کا شاندار افتتاح ہوا، مادام بھی مدعو تھیں۔ ان کے نام سے سبھی واقف تھے، سو اکثر لوگوں نے کرم خان کے اس فیصلے کی تعریف کی کہ اُنہوں نے ایک نہایت قابل اور شریف خاتون کا پرنسپل کے عہدے کے لئے انتخاب کیا ہے، بلکہ انہی خاتون کی وجہ سے پہلے روز ہی کئی نام داخلے کےلئے لکھوائے گئے۔ معلوم نہیں کرم خان جانے کہاں کہاں کی تقاریب میں عمر بھر مہمان اور مہمانِ خصوصی کے طور پر جاتے رہے تھے لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ لوگوں نے کرم خان کو باقاعدہ اسٹیج پہ بولتے دیکھا۔ تقریر مختصر تھی۔ انہوں نے ایک ہی بات کی؛
”لوگ کہتے ہیں کرم خان کے پاس دولت تھی مگر اس نے اس کی قدر نہ کی، میرے عزیزو! میرے پاس دولت تھی ہی کب؟؟ مجھے عمر بھر میں ایک ہی تو حسرت رہی کہ میرے پاس دولت ہوتی۔ علم کی دولت!“
اس پر لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں اور خان صاحب نے شرما کر دذدیدہ نظر سے مادام سائرہ کی طرف دیکھا۔ ثمینہ خانم بہر حال سب بھانپ گئی تھی۔
اسکول چلا تو کرم خان کےلئے موسمِ بہار کا آغاز ہو گیا۔ صبح دم جاگتے اور اسکول جاتے۔ رہائش اب مستقلاً ڈیرے پر تھی، مالی سے چھڑکاؤ کرواتے، تالے کھلواتے اور فرنیچر کی صفائی اپنی نگرانی میں کرواتے البتہ پرنسپل کی میز کرسی اور ان کے چھوٹے سے دفتر کی جھاڑ پونچھ خُود کرتے اور پھر پرنسپل صاحبہ کے آنے تک مختلف بہانوں سے وہیں منڈلاتے پھرتے۔ مادام سائرہ آ جاتیں تو خان صاحب ان کے پاس بیٹھ کر چائے منگوا لیتے۔ اُن کا سفر تھوڑا طویل تھا، سو وہ دیر سے آتی تھیں اور قدرے تھکی بھی ہوتیں سو یہ خُوب بہانہ تھا چائے پینے کا۔ اسی اثناء میں دیگر اُستانیاں جن میں ثمینہ خانم زبردستی، ضد کر کے شامل ہوئی تھی، آ جاتیں تو خان صاحب رُخصت ہو جاتے۔ مادام سائرہ نے نہ صرف محنت سے اسکول کو ایک میعاری ادارہ بنایا بلکہ اپنی خوش اخلاقی سے کوٹ سُکھے خان کی خواتین کے دل بھی جیت لئے۔ کرم خان کو قریب سے دیکھا تو بہت بھلا آدمی پایا اور اُن کی والہانہ محبت کا جواب عزت، مروت اور نہایت توجہ سے دیا۔ وہ کئی دفعہ خان صاحب سے اُن کی اپنی صحت اور حُلیے سے لاپروائی کی وجہ سے اُلجھ بھی پڑتیں جس میں کرم خان کو التفات کا وہ شائبہ نظر آتا کہ خُوش ہو جاتے مگر وہ شادی کا سوال انہیں دوبارہ اُٹھانے کی ہمت ہوئی نہ ہی مادام سائرہ نے اس موضوع پر بات کی۔ ثمینہ خانم بھی مادام سائرہ کو بہت پسند کرنے لگی لیکن ساتھ ہی ساتھ مستعد بھی رہتی کہ والد صاحب کوئی گُل نہ کھلا دیں لہٰذا وہ خان صاحب کو احساس دلاتی رہتی کہ وہ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ کرم خان اکثر ایسے سوال جواب کے دوران اسے پیار سے چپت رسید کرتے یا اس کی پیشانی چوم کر کہتے،
”تو گویا میں نے غلطی کی تمہیں تعلیم دلوا کر۔۔۔۔ باپ سے بھی ذیادہ سیانی ہو گئی ہو ثمینہ خانم۔۔۔“ اور بات ٹال جاتے۔
وہ ضرب المثل ہے کہ عشق اور مشک نہیں چھپتے۔ خان صاحب کا راز بھی کسی اناڑی کے ہاتھوں باندھے گئے غبارے کی ہوا کی طرح آہستہ آہستہ سے نکلنا شروع ہو گیا اور رفتہ رفتہ گاؤں میں طبل زیرِ گلیم بن گیا۔ کرم خان اس سب سے لاپروا مادام سائرہ کے حُسن و خُوبی میں یوں مگن تھے گویا انہیں دُنیائے دیگر کی پروا بھی نہ تھی۔ اس بے نیازی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب لوگوں نے بھی ان کی سرپرستی، کورٹ کچہری کے مسائل میں ہر کس و ناکس کی مدد، پنچایتوں کے منصفانہ فیصلوں اور معمولی کاشتکاروں پر ٹھیکوں، لین دین اور دیگر معاملات میں خاص رعایتوں کے وہ معاملات بُھلا دیئے تھے جنہوں نے انہیں علاقے والوں کا پسندیدہ زمیندار اور سردار بنایا تھا۔ اب ان باتوں کو پس پُشت ڈال کر ان کی خامی پر توجہ رکھنا شروع کر دیا تھا اور سرداری کی دستار اُن لوگوں کے سروں پر آ چکی تھی جن میں سب اخلاقی بُرائیاں تھیں۔ سو خان صاحب نہ صرف لاپروا ہو گئے بلکہ کسی بھی عام دیہاتی کی سی غیر ذمہ داری ان کے مزاج میں آ گئی تھی۔ اسکول کے معاملات میں بھی ان کی دلچسپی مادام سائرہ کی حد تک ہی تھی کہ تعلیم و تعلم کا یوں بھی اس بھلے مانس کو کیا پتہ تھا؟ کرم خان صاحب نے تمام اسکول، عمارت اور مالکانہ حقوق سمیت مادام سائرہ کے نام منتقل کرنے کا عندیہ دے دیا تھا لیکن مادام سائرہ نے ابھی تک اس بات کو بالائے طاق ہی رکھا کیونکہ اس طرح اُن پر ایک اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ کرم خان کو شریکِ حیات کے طور پر اپنا لیں۔
اب تک مادام سائرہ کے حُسن کے مدار سے باہر کی تمام کائنات کرم خان کےلئے خاموش تھی کہ اچانک اس میں ایک غلغلہ بلند ہوا۔ بلدیاتی انتخابات کی آمد آمد تھی اور علاقے میں ایک ہنگامہ اور چہل پہل تھی۔ میاں غفار شاہ کے ڈیرے پر انتخابی سرگرمیوں کے سلسلے میں اکثر لوگوں کا ہجوم رہنے لگا جس میں ذیادہ تر سیاسی چہ مگوئیوں کے شوقین لوگ آ موجود ہوتے۔ اب کی بار مقابل میں کوئی تگڑا اُمیدوار بھی نہ تھا، میاں صاحب کا مزاج عرشِ معلیٰ پر پہنچا ہوا تھا۔ اگلے ہی روز اس نے دھوم دھام اور طبل و علم کے ساتھ شہر جا کر کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے تھے۔ کسی نے بات چھیڑی کہ کیا اس دفعہ پھر کرم خان اُن کے مقابل انتخابات میں اُٹھے گا؟؟ میاں غفار شاہ اس وقت غرور کے نشے میں تھے، بولے؛
”ارے وہ اُس اُستانی کی رانوں کے بیچ پڑا ہو گا اس وقت۔۔۔ اُسے کیا لینا دینا سیاست سے!!“ لوگوں کو اندازہ تو خُوب تھا کہ میاں صاحب کس قدر بے ہودہ بات کہہ گئے تھے مگر خوشامدیوں، ٹاؤٹوں کا جو ٹولہ حاضر تھا، اُنہوں نے جو تالی پِیٹ کر قہقہہ بلند کیا، یوں لگا کہ صدی کا سب سے بڑا لطیفہ چھُوٹا تھا۔ خیر شام تک بات پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ کسی کو ہمت نہ پڑی کہ کرم خان سے کہتا، چاچا ریاض نائی اُس روز گاؤں میں تھا نہیں، لیکن ثمینہ جو ان دنوں اُمید سے تھی اور اسکول نہ جاتی تھی، اُس تک یہ بات پہنچ ہی گئی۔
رات کی روٹی کے وقت اسلم سے جو اس بات کا ذکر کیا تو ثمینہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ کرم خان کے بارے میں ایسی بیہودہ گفتاری کا کسی یہاں کے مخالف کو بھی کبھی نہ حوصلہ نہ پڑا تھا، ثمینہ کی بے چینی سمجھ آنے والی تھی، بولی؛
”میرا جو کوئی بھائی ہوتا، اُس میراثن کے بیٹے سے بدلہ تو لیتا میرے باپ کی توہین کا!“
ثمینہ کا یہ جملہ اسلم کے حلق میں تیر کی طرح اٹک گیا۔ اُس نے روٹی کا توڑا ہوا لقمہ رکھ دیا۔
”سمی! میں تیرا بھائی تو نہیں ہو سکتا، لیکن چچا کرم خان کا بیٹا تو ہوں، اور رہوں گا! کسی ماں کے یار کو شک ہے تو آج دیکھ لے گا!“
اسلم خان کسی بے چین پرندے کی طرح تڑپتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ وہ سرفراز خان بلوچ کے گھر پہنچا۔ خان صاحب ایک مدت ہوئی فوت ہو چکے تھے، ان کا ایک بیٹا ریٹائرڈ فوجی تھا۔ نیم پاگل اور دنگے فساد کا شائق بلکہ کافی حد تک جرائم پیشہ آدمی تھا۔ نام تو نجانے کیا تھا لیکن سب اسے چاچا فوجی کہتے تھے۔ اسلم چاچا فوجی کے گھر گیا اور اُس کے ابا جان کا بلم مانگا۔ فوجی نے کافی عرصہ پہلے سرکاری مال خانے اور تھانے کے لوگوں میں جان پہچان بنا کر وہاں سے اپنے باپ کا بلم واپس لے لیا تھا اور بڑا سینت سینت کر رکھا ہوا تھا کہ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اٹھارہ سو ستاون کے غازی، مردانہ بلوچ کا بلم ہے اور لیفٹنینٹ لین صاحب بہادر کے سینے میں بھی پیوست ہو چکا ہے، خُدا جانے اس میں کس حد تک سچائی تھی۔ اُس نے بلم اٹُھا کر اسلم کو دے دیا اور جب اسلم گھر سے نکل چکا تو چاچے فوجی کو عقل آئی کہ قرائن تو خطرناک تھے۔ خیر میاں غفار شاہ صاحب ابھی ڈیرے پر تھے اور کسی مہمان کی خاطر ہو رہی تھی، نوکر اور خوشامدی اب بھی کافی سارے حاضر تھے۔ اسلم خان جو بلم لہرا کر وہاں پہنچا تو سبھی تاڑ گئے لیکن شاہ صاحب نے انہیں چُپ رہنے کا اشارہ کیا کہ مہمان مذکور بھی سیاسی طور پر ان سے کم معزز نہ تھے۔
”میاں صاحب!!!“ اسلم نے نہایت درشتی سے آتے ہی کہا۔
”ہاں اسلم بیٹا، خیر تو ہے، آج بڑے غُصے میں لگ رہے ہو“ میاں صاحب نے بڑے تحمل سے جواب دیا۔
”شاہ صاحب! اپنی گندی سیاست کھُل کھیلو مگر خبردار، چچا کرم خان کے بارے میں دوبارہ غلیظ زبان استعمال کی تو یہ بلم پہچانتے ہو؟؟ نواز میراثی کے تو پہلو میں گھسیڑا تھا، تمہارے پچھواڑے۔۔۔۔“
ابھی اسلم یہی کہہ پایا تھا کہ میاں صاحب گرجے،
”بکواس بند کرو!“ اسلم بھی چونک سا گیا۔
”کرم خان اور میں ہم عمر ہیں! مجھ سے ایسے بات کرے تو وہ، تُم کب سے اتنے بڑے ہو گئے؟؟ دفع ہو جاؤ یہاں سے ورنہ!!“ میاں غفار شاہ بھی ابھی یہی کہہ پائے تھے کہ چاچا فوجی بھی وہاں آ دھمکا۔
ہوا یہ تھا کہ جونہی فوجی کو شک پڑا کہ ہو نہ ہو اسلم خان اپنے سسر کی توہین کے انتقام کے درپے ہے، اُسے فکر لاحق ہو گئی کہ کہیں لڑکے کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ اس کا فوجی لائسنس کا پستول اور رائفل خوش قسمتی سے اس کی بیوی نے بڑے صندوقوں میں کہیں بستروں کے نیچے دبا رکھے تھے کہ وہ بات بات پر اسلحہ تان لینے کا عادی تھا۔ آج چاچی فوجن گھر پہ نہ تھی، اسلحہ ڈھونڈنے کا وقت نہ تھا، سو فوجی نے لوہے کی ایک وزنی سلاخ پکڑی اور بھاگم بھاگ اسلم کے پیچھے۔ فوجی نے ڈیرے کا صحن چڑھتے ہی جو دیکھا کہ میاں صاحب اسلم خان کو دفع ہو جانے کا حُکم دے رہے ہیں، اُس کا پارہ کھول اُٹھا۔ اسلم تو شاید دو چار باتیں اور کڑوی کسیلی کر کے لوٹ آتا مگر فوجی نے تو چڑھتے ہی نعرہ لگایا،
”بکواس بند کر اوئے میراثن کے بچے!“ ایک دفعہ تو سبھی بوکھلا کر رہ گئے۔
”خبردار اگر تُو نے کرم خان کے خلاف نامزدگی جمع کروائی! تیرے پورے خاندان کے ہر بندے کے حصے میں میرے سو سو راؤنڈ بھی آئے تو میرا اسلحہ ختم نہیں ہوگا!!!“ فوجی نے میاں صاحب کو بولنے کا موقع ہی نہ دیا ”اور میں نسل ختم کر دوں گا اس کی جس نے ووٹ دیا اس میراثی کے نُطفے کو!!“ فوجی نے میراثی والا حوالہ دہرایا ہی تھا کہ میاں صاحب کے ہاتھ میں جو چائے کا کپ تھا، سیدھا کھینچ کے مارا جو فوجی کی بتیسی پہ کھٹاک سے آن لگا، پھر کیا تھا، فوجی نے جو باؤلا ہو کے لوہے کی بھاری سلاخ ماری تو وہ میاں صاحب کا سر بچا کر لگی مہمانِ گرامی کے بائیں کان پہ اور وہ کسی کٹے ہوئے درخت کی طرح چارپائی پہ لم لیٹ ہو گیا۔ پھر تو میاں صاحب کیا اور ان کے دیگر چیلے چانٹے کیا، وہ مارو مارو، جانے نہ پائے کا شور تھا اور وہ دونوں گویا معرکہ تو مار چکے تھے، بھاگ نکلے، اور سبھی ان کے تعاقب میں تھے۔
جونہی وہ دونوں بھاگتے ہوئے باوا گُل حُسین شاہ کی حویلی کے پاس اچانک مُڑ کر جنگل میں روپوش ہو ئے، مگر اس طرح کہ سبھی نے سمجھا کہ باوا جی کے گھر میں پناہ لینے کو جا گھُسے ہیں۔ ”گھُس جاؤ اندر!!“ میاں غفار شاہ دھاڑے تو سبھی باوا گُل حسین شاہ کی حویلی میں جا گھسے۔ وہاں کی مستورات نے آسمان سر پہ اُٹھا لیا، ادھر تعاقب کرنے والوں میں سے کسی کی آوازیں بھی آئیں، ”اوئے سیدوں کا گھر ہے، اندر مت جاؤ اوئے!“ مگر بے سود۔ ادھر سیدوں کے ہاتھ میں جو بھی آیا، پل پڑے میاں صاحب کے حواریوں میں ایک کا سر کھول دیا اور ایک کی پیٹھ میں سبزی کاٹنے کی چھُری اُتار دی۔ جب تک میاں صاحب کو اپنی حماقت کا اندازہ ہوا، اسلم اور فوجی کہیں دور نکل چکے تھے۔
کرم خان کو جو پتہ چلا تو اُن کے لئے پہلا سردرد یہ تھا کہ باوا گُل حسین شاہ کی حویلی کا جو تقدس پامال ہوا ہے، وہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ اُنہوں نے صبح منہ اندھیرے باوا گُل مرحوم کے بیٹے سید بُلبُل حُسین شاہ کو ہمراہ لیا اور تھانے میں جا کر میاں غفار شاہ اور دیگر کے خلاف چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرنے کا پرچہ جڑ دیا۔ اسی اثنا میں میاں غفار شاہ صاحب بھی اپنے حواریوں کو لے کر تھانے آپہنچے۔ نیا ایس ایچ او میانوالی کا کوئی پٹھان تھا اور اس تک ساری خبر رات ہی کو پہنچ چکی تھی، غُصے میں سُرخ ہوا بیٹھا تھا، چھوٹتے ہی بولا؛ ”پہلے تو مجھے یہ سارے بندے دیں جنہوں نے سیدوں کے گھر کی بے ادبی کی ہے ورنہ میں ابھی جا کر سارے کوٹ سکھے خان والوں کو ننگا کرکے سڑک پر کھڑا کر دوں گا۔۔۔“ میاں صاحب نے کئی برسوں میں کسی تھانے دار سے ایسی بات نہ سُنی تھی، سہم سے گئے۔ بُلبُل حسین شاہ نے بتایا کہ شاہ صاحب کے ہمراہیوں میں بھی کچھ لوگ درخواست میں شامل ہیں، تھانے دار نے فورا ان سب کو پکڑ لیا، بلکہ ایک میاں صاحب کو ہی باہر رہنے دیا وورنہ سبھی حوالات میں۔ عملے کو حُکم دیا گیا کہ ان سب کی یادگار چھترول کی جائے۔ میاں صاحب کا تو رنگ ہی اُڑ گیا۔ اب جو میاں صاحب سے ان کے آنے کا مقصد سُنا تو نرمی سے سیدھے سبھاؤ کہہ دیا، ”میاں صاحب، مجھے ڈی پی او صاحب کہہ دیں، میں سیدوں کے خلاف چھرا گھونپنے کا اور بلوچوں کے خلاف بھی پرچہ کاٹ دوں گا۔۔۔ اقدام قتل کا پرچہ کوئی مذاق نہیں ہے!“ میاں صاحب نے خونخوار نظروں سے دیکھا تو وہ انہیں ایک کونے میں لے گیا اور کچھ کھسر پھسر کرنے لگا۔
جب تک ڈی پی او صاحب کا حُکم آیا کہ دونوں پارٹیوں کو پابند کریں کہ پنچایت کر لی جائے کیونکہ چھرا گھونپنے کا کیس بالخصوص کمزور ہے، اس میں سیدوں کا کچھ نہیں بگڑنے کا البتہ بلوچوں کے ساتھ پنچایت کی جائے اور میاں صاحب کے بندے فوری رہا کئے جائیں۔ مہر جیون خان گوندل جنہیں اسلم خان کی ضرب لگی تھی، ان کا کوٹ مبارک خان کے بلوچوں سے خُوب تعلق تھا، اُن سے بلوچوں نے اُن کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگ لی اور فوجی کو ان کے سامنے پیش کر دیا کہ جو سزا چاہے دیں، اُنہوں نے کہا وہ میاں غفار شاہ سے مشورہ کریں گے۔
پٹھان تھانے دار نے میاں صاحب کے حواریوں کو جب چھوڑا تو بیچاروں کی کافی چھترول ہو چکی تھی۔ گاؤں میں پنچایت کا اہتمام ہوا تو ایس ایچ او صاحب بھی آ دھمکے۔ اُنہوں نے کہا کہ بلوچوں اور میاں صاحب کے جھگڑے کا جو فیصلہ ہو سر آنکھوں پر مگر اس پنچایت میں گاؤں والے سید بلبل حسین شاہ سے معافی مانگیں گے ورنہ جب تک وہ یہاں تھانے میں تعینات ہیں، کوٹ سکھے خان والوں کا جینا دوبھر کردیں گے۔ چند بوڑھوں نے پورے گاؤں کی نمائیندگی کی اور باوا جی سے معافی مانگی۔ پنچایت بھی باہمی معافی تلافی پر ختم ہو گئی اور فریقین نے درخواستیں تھانے سے واپس لے لیں۔ جو لوگ ملوث تھے، وہی کیا، سبھی شرمسار نظر آ رہے تھے۔ گاؤں میں پر زبان پر یہی تبصرہ تھا اور ہر شخص میاں غفار شاہ کو مورد الزام ٹھہرا رہا تھا، ضعیف العقیدہ عورتیں تو یوں سہمی ہوئی تھیں گویا پوری بستی پر کوئی عذاب آنے والا ہو۔ فوجی کے بارے میں افواہ پھیلی کہ اس نے بنوں سے پٹھان اور اسلحہ منگوا لئے ہیں کہ جو میاں صاحب کو ووٹ دے گا، اسے نشانِ عبرت بنا دے گا۔ یہ فقط افواہ تھی مگر خدشہٗ نقصِ امن کے تحت پولیس نے اسے چند ہی روز بعد گرفتار کر لیا اور الیکشن کے بعد چھوڑا۔ بلوچوں میں کسی نے ضمانت کی کوشش نہ کی کہ فوجی پر بھروسہ انہیں بھی نہ تھا۔
اب یہ تبصرے بھی ہونے لگے کہ اُستانی جی کی وجہ سے جھگڑے کا آغاز ہوا اور آخر پہ اتنا بڑا گناہ سرزد ہوا۔ ابھی اس بات نے پر نہ پکڑے تھے کہ مادام سائرہ نے کرم خان صاحب سے کہہ دیا کہ نکاح خواں بلوائیے۔ باوا سید بُلبل حسین شاہ صاحب نے کرم خان صاحب کا نکاح پڑھایا اور سادہ سی تقریب جو برخوردار خان مرحوم کی حویلی میں ہوئی، اس کے بعد کرم خان صاحب انہیں اپنے ڈیرے پہ لے گئے جس کی چار دیواری بلند کرکے اسے حال ہی میں گھر بنایا گیا تھا۔ یہ اب مادام سائرہ اور ان کی بیٹی کا گھر تھا۔ ابھی اس خبر کی گہماگہمی گاؤں میں چل رہی تھی کہ میاں غفار شاہ کے کاغذاتِ نامزدگی قبول ہونے کی خبر ملی لیکن خبر تب بنی جب اُن کے مقابلے میں اسلم خان کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا دئیے گئے۔
انتخابات تک کا عرصہ خُوب چہل پہل کا تھا جو کہ کرم خان نے تو عجیب سر خوشی میں گزارا۔ سوتیلی بیٹی انہیں بے حد عزیز تھی۔ وہ ماں کے ساتھ آئی تھی اور آتے ہی کرم خان اور ثمینہ کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ کرم خان اب بے حد خوش رہا کرتے تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ کرم خان کو دوسری شادی نے پھر سے جوان کر دیا ہے مگر کون جانے کہ شمع بجھنے سے پہلے بھڑکتی ہے۔
الیکشن کا دن کافی مصروف گزرا۔ کرم خان شام کو اسلم خان کا جشنِ فتح منا کر گھر آئے تو وہاں بھی مبارک باد دینے والوں کا ہجوم تھا۔ میاں غفار شاہ کو شکست ہو گئی تھی اور وہ بھی بدترین قسم کی۔ خان صاحب نے مدثر مصلی عرف اکشے کے ہاتھ میاں صاحب کو ایک چٹھی لکھوا بھیجی کہ لڑائی جھگڑوں کا انہیں افسوس ہے مگر یہ انتقام تھا جو وہ اُن سے گذشتہ الیکشن کے بعد لینا چاہتے تھے۔ خان صاحب نے جشن منانے والے دیگر لوگوں سے معذرت چاہی اور گھر آکر چارپائی پر لم لیٹ ہو گئے۔
”ذرا میرا سر دبا دو گے میرے سردار؟“
کرم خان نے نہایت محبت بھرے لہجے میں بیگم صاحب سے کہا۔ وہ اُٹھیں اور ان کے سرہانے آ کر بیٹھیں۔
”میرے سردار۔ اگر میرا سر اپنی گود میں رکھ لیں تو غُلام احسان مند رہے گا“ کرم خان صاحب نے ایک بیمار سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو پہلے تو مادام سائرہ نے چاچا ریاض کی طرف دیکھا جو قریب ہی کھڑے چارپائیوں کی ادوائین کھینچ رہا تھا مگر اس نے تاثر دیا کہ اس کی توجہ اس جانب نہیں ہے۔ اُستانی جی نے کرم خان کا سر اپنی گود میں رکھا اور دبانے لگیں۔ کرم خان نے آنکھیں بند کرلیں اور سونے کی اداکاری کرنے لگے۔ چاچا ریاض کام سے فارغ ہو چکا تو چپ کر کے کھسکنے لگا۔
”ریاضُو! حرامی! کدھر چُپ کرکے نکل رہا ہے؟“ کرم خان صاحب نے آنکھیں بند کرکے ہی کہا۔ چاچا ریاض مُڑا تو کرم خان نے اپنا ہاتھ ایسے بلند کیا جیسے کوئی ڈوبنے والا التجا میں اپنا ہاتھ اُٹھاتا ہے۔ چاچا ریاض نے گھبرا کران کا ہاتھ پکڑا۔ خان صاحب نے نرمی سے اس کا ہاتھ دبایا، آنکھیں کھول کر سائرہ کے گھبرائے ہوئے چہرے پہ نگاہیں گاڑیں اور ایک ہی جملہ زبان سے ادا کیا؛
”میری چھوٹی بیٹی کا خیال رکھنا!“
چاچا ریاض نے چند بزرگوں کو جانِ عزیز، جان دینے والے کے سپرد کرتے دیکھا ہوا تھا، سمجھ گئے۔ اُنہوں نے اپنی پگڑی سر سے اتاری اور زمین پر ڈھلکا دی اور سسکیاں لے کر رونے لگے۔ کرم خان بلوچ جس وقار سے اپنی دُھن میں مگن جیئے تھے، اسی سکون اور سکوت سے مر گئے۔
کرم خان کے بعد الکرم گرامر اسکول کبھی پہلے کی سی روانی کے ساتھ نہ چل سکا۔ بیگم کرم خان کو اب اس گاؤں میں تنہائی کا آسیب بہت ڈرانے لگا تھا ان کی بیٹی کا داخلہ بھی ایک میڈیکل کالج میں ہو چکا تھا، اُنہوں نے اسکول کے معاملات ثمینہ کے حوالے کئے اور سرگودھے چلی گئیں جہاں بیٹی ڈاکٹر بن رہی تھی۔ اسلم خان نے ہمیشہ دامے درمے ان کی مدد بھی کی کیونکہ اسکول کے مالکانہ حقوق مادام کے نام ہی تھے اور گھر کی جگہ بھی چھوٹی بیٹی کے نام ہو چکی تھی۔ کچھ بلوچوں نے کوشش تو کی اس پر جھگڑا پیدا کریں مگر اسلم خان وہی کرتا تھا جو اسے ثمینہ خانم کہتی تھی جو کہ ایک وسیع القلب خاتون تھیں۔
میاں غفار شاہ اس کے بعد پندرہ سال تک زندہ رہے۔ اس دوران انہوں نے چاچے فوجی کے قتل سے لے کر ثمینہ خانم کی کردار کشی کی مہم تک، علاقے میں ہر طریقے سے کرم خان کے خاندان کو زچ کرکے اپنی سیاسی و معاشی ساکھ کافی مضبوط کر لی جو اُن کے بعد ان کے بیٹوں نے سنبھالی۔ اسلم خان سیاست سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کش ہو گیا۔ حاجی یار محمد بھی میاں صاحب کی صحبت کے فیض سے بڑا سیٹھ بن گیا اور اس نے شہر جا کر اپنا تھوک کا کاروبار بڑھایا اور چند ہی سال میں سیٹلائٹ ٹاؤن میں ایک شاندار کوٹھی تعمیر کی۔ اس کے تینوں پوتے شہر کے اعلیٰ پبلک اداروں میں پڑھنے لگے۔ یہ لونڈے بہت پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے تھے، محنتی اور پبلک اسکول ڈسپلن کے کاربند۔ اُمید تھی کہ وہ ذات پات والے ذلیل نظام سے چھوٹ چکے ہیں تو اس پہ یقین نہ رکھیں گے مگر اُنہوں نے اپنے ناموں کے ساتھ ایک اور ذات کا لاحقہ لگا لیا جس کے تحفظ کے لئے وہ سر دھڑ کی بازی لگا دینے پہ مستعد رہتے تھے۔ یوں بڑے درست چال چلن کے تھے۔ سید بُلبل حسین شاہ صاحب کے پانچ بیٹے تھے، ایک کو چھوڑ سارے نااہل اور نکمے نکلے۔ ان کی آخری عمر میں ان لڑکوں نے بھی میاں صاحب کے ٹاؤٹوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔
کرم خان کا ورثہ مختلف راستوں سے آگے منتقل ہو گیا تھا مگر پھر بھی یہیں کا یہیں پڑا رہ گیا جس کا وجود اگر کوئی تھا تو الکرم گرامر اسکول کی خستہ حال عمارت تھی جس کے سامنے گلی میں سارا سال گندا پانی اکٹھا ہوا رہتا تھا اور جس میں اینٹیں رکھ کر پیدل چلنے والوں کے لئے آسانی پیدا کی گئی تھی۔ میاں غفار شاہ ہاشمی کا بیٹا مخدوم افتخار علی شاہ ہاشمی ایم پی اے بنا تو اسی گلی سے گزر کر ووٹ مانگنے آیا تھا۔ اس کی مدت کو پانچ سال ہونے کو آئے ہیں، آج کل میں دوبارہ آئے گا۔ یہ گلی اپنے کیچڑ اور تعفن کے ساتھ یہیں رہے گی؛ کہاں جائے گی؟ یا پھر اسی گلی کے اگلے موڑ پر وسیع و عریض میدان ہے جس کے دائیں طرف ٹیلے پر پیر کبیر شاہ بخاری کا میلا لگتا ہے، بائیں جانب پیر صاحب کا مزار اور قبرستان ہے۔ سڑک کے کنارے پر، میدان والی جانب ایک گھنا پیڑ ہے جو اس علاقے میں شیشم کے معدوم ہو جانے کے بعد علاقے کا واحد شیشم کا پیڑ ہے، اس کے نیچے چاچا ریاض نائی نے حجام والا پھٹا لگا رکھا ہے۔ وہ کرم خان کی وفات کے بعد سے ان کے اسکول کا چپڑاسی ہے مگر اس کی تنخواہ نہیں لیتا ماسوائے اس کے کہ ثمینہ یا اسلم اپنے پلے سے کچھ دے دیں، ورنہ وہ اپنے آبائی پیشے سے ہی روٹی کماتا ہے۔ اس پھٹے سے مخالف سمت قبرستان کی حدود میں پہلی نمایاں قبر کرم خان مرحوم کی ہے جس پر ہر شام چاچا ریاض نائی چراغ جلاتا ہے۔ اس نے اپنے دوست کو کوٹ سُکھے خان کا ’دانتے‘ بنا دیا ہے۔۔۔ دانتے، جس کی قبر پر اس کی موت سے آج تک اطالویوں نے چراغ کو بجھنے نہیں دیا۔
”چاچا ریاض! یہ چراغ کب تک جلاؤ گے؟“ کرم خان کا قصہ سُن چکنے کے بعد میں نے جو ریاض نائی سے پوچھا تو وہ ہنس دیا۔ ایک شکستہ سی ہنسی۔
”جب تک زندگی نے وفا کی۔۔۔ اتنا ہی ہوتا ہے یار۔۔۔ میرے دوست کو بھی تو اس چراغ کے سوا آخر بچتا ہی کیا ہے؟“ اس کی آنکھ تر ہو گئی۔ چاچا ریاض نے اپنے کام کے لئے اس جگہ کا انتخاب بلاوجہ نہیں کیا تھا۔
میری نظریں قبرستان کی جانب اُٹھیں جہاں سامنے ہی کرم خان صاحب کی قبر تھوڑے ہی فاصلے پر تھی۔ وہ مٹی کا دیا جسے ابھی کچھ دیر میں پھر روشن ہو جانا تھا، سنگِ مر مر کی سفید قبر کے پس منظر کے ساتھ ایسے نمایاں لگ رہا تھا گویا واقعی کسی بڑے شاعر، نوابی پیشہ زمیندار، عاشقِ باصفا اور دریا دل رئیس کی کُل زندگی کا اثاثہ ایک سیاہ نُکتے میں سما گیا ہو۔۔۔
سنِ تحریر: دسمبر 2020
ماخذ: لالٹین