کارل ژونگ کی آرکی ٹائپس – تعارف اور جائزہ۔ تحریر: سید احمر نعمان
نفسیات اور بشریات میں پروفیسر کارل گسٹاف ژونگ کے حوالے سے ایک اصطلاح آرکی ٹائپ (ARCHETYPES) استعمال کی جاتی ہے۔ یہ اصطلاح انہوں نے اپنے انیس سو دو میں شائع شدہ شہرہ آفاق مضمون On the Psychology & Pathology of so-called Occult Phenomena میں ہسٹیریا کے مریض کی فینٹیسیز بیان کرتے استعمال کی تھی، بعد ازاں ژونگ کے لٹریچر میں اسکی مزید تفصیلات نظر آتی ہیں جو کئی دہائیوں تک محیط سلسلہ ہے ۔
سوئس پروفیسر کارل ژونگ، سگمنڈ فرائیڈ کے ایک طرح سے شاگرد بھی تھے- دونوں نے تحلیل نفسی یا سائیکو انالسز میں ایک ساتھ کام بھی کیا، مگر فرائیڈ کے نظریات خاص طور پرلاشعور کو ہمیشہ انفرادی تجربات خصوصاً جنسی محرکات سے جوڑنے پر اختلاف کی بنیاد پر الگ ہو گئے تھے۔ ان کے آرکیٹائپس کے تصور پہ بات کرنے کا ارادہ ہے کیونکہ اس موضوع کو اردو لٹریچر تو کیا انگریزی لٹریچر میں بھی اکثر غلط اورغیر حقیقی طور پر پیش کیا جاتا ہے ، بتانے والے بھی سمجھ نہیں پاتے کہ یہ سائینس اور نفسیات سے زیادہ فلسفہ کا تصور مانا جانا چاہیے۔
سگمنڈ فرائیڈ نے انسانی دماغ کو ایک آئس برگ کی طرح قرار دیا جس کا ایک چھوٹا سا حصہ پانی سے باہر ہوتا ہے اور زیادہ حصے پانی کے اندر۔ اس فرائیڈین تصورِ دماغ کے تین بنیادی اجزا تھے۔
1- شعور (Conscious): وہ چیزیں جن سے ہم ہر وقت آگاہ ہوتے ہیں اور یاد ہوتی ہیں۔ (جو پانی سے باہر نظر آ رہا ہے)۔
2- قبل شعوری (Preconscious): وہ باتیں یا ’چیزیں‘ جو ہم جانتے ہیں مگر فوری طور پر مجھ سے بھلکڑ یاد نہیں کر پاتے جیسے مدت بعد ملنے کے بعد کافی کچھ یاد ہوتا ہے مگر بہت سی باتیں یاد نہیں کر پاتے جو اگلا یاد کراتا ہے یا کسی اور وقت یاد آجاتی ہیں۔ (یہ پانی میں ڈوبی ہوئی تو ہیں مگر کسی بھی وقت اچھل کر باہر آ سکتی ہیں)۔
3- لاشعور: (Unconscious): وہ بھولی بسری یادیں جو ہم دانستہ یا نادانستہ چھپاتے یا دباتے ہیں مگر وہ انسانی لاشعور کے خانوں میں پنہاں رہتی ہیں اور مختلف اشکال میں اپنی جگہ بنا لیتی ہیں یا کسی مختلف طریقے یا شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔
کارل ژونگ نے فرمایا کہ انسانی شعور اور ذاتی لاشعور کے علاؤہ ایک اور شئے بھی موجود ہے جسے اجتماعی لا شعورکہنا چاہیے۔ (Collective Unconscious)
یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ لاشعور انہی دونوں (یعنی انفرادی لاشعور اور اجتماعی لاشعور) کا مرکب ہے جس میں اجتماعی لاشعور ، انفرادی لاشعور پر اپنا اثر ڈال چکا ہوتا ہے، اسی کی ایک تشریح کروں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ بچہ گویا کلین سلیٹ لے کر دنیا میں نہیں آتا بلکہ اجتماعی لاشعور جینیاتی طور پر ساتھ لے کر دنیا میں آتا ہے۔
تاریخی پس منظر- نوفلاطونیت، سناتن دھرم، ویدانیت اور شاخ زریں
Neo-platonism, Sanàtana & the Golden Bough
آرکیٹائپ کی اصطلاح کا پس منظر جاننے کے لیے تاریخ، فلسفہ اور ادب سے مدد لینا پڑتی ہے کیونکہ ژونگ نے ازخود بیان فرمایا کہ یہ اصطلاح انہوں نے فیلو یہودی (Philo Judaeus) اور اسکندر افرودیسی Alexander Aphrodite کے فلسفہ سے مستعار لی تھی۔ فیلو علم کلام کے علاوہ ابراہیمی مذاہب کی روحانیت سے متعلق تمام شاخوں کے جد امجد بھی ہیں جن کے اثرات نہ صرف یہودیت بلکہ اسلام اور عیسائیت پر اتنے گہرے ہیں کہ ان کے افکار نکال دینے سے مسلم اور عیسائی تصوف کافی حد تک ختم ہو جاتی ہیں۔
فیلو کا دور حضرت عیسی کی پیدائش سے چند برس قبل کا ہے، فیلو کی وفات کے دو سو سال بعد، اسکندرافرودیسی نے شرح ارسطو لکھی، جو ارسطو کے علاؤہ فیلو کے نظریات سے متاثر تھی، نوفلاطیت کے بانی فلاطینوس Plotinus نے فیلو کے یہی نظریات باقاعدہ مذہب کے طور پر پھیلائے، جونوفلاطونیت Neo-platonism کے نام سے معروف ہوا۔
ابن رشد کے بقول عرب فلسفیوں تک ارسطو کی اصل کتب کبھی پہنچ ہی نہیں پائیں تھیں بلکہ عرب فلسفی فلاطینوس اور اسکندر افرودیسی کی لکھی شرح ارسطو، ارسطوکی کتابیں سمجھ کر پڑھتے رہے۔ یہ نوفلاطونیت عرب احیا کے دنوں میں ابو نصر فارابی نے عروج پر پہنچائی جس کے اثرات ابن عربی پہ ہوئے تو وحدت الوجود نامی نظریہ منظر عام پہ آیا۔
فیلو کا تصور، افلاطون کے عالم امثال سے اخذ کردہ تھا جس میں فیثاغورث کا اثربھی شامل تھا۔ فیلوکے بقول افلاطون اور ارسطو حضرت موسی کے نام لیوا تھے ، سو فلسفہ کو مشرف با یہودیت کرنے کا کارنامہ بھی فیلو کے کریڈٹ پہ موجود ہے۔ فیلو نے خدا کے شخصی تصور کے علاوہ خدا اور انسان کے ربط اور ان کے تعلق کا تصور دیا۔ اس تناظر میں اس اصطلاح کو دیکھا جائے تو آرکیٹائپس سے فیلو کی مراد (انسان میں) خدا کے عکس (یا پیکر) کی موجودگی تھی۔ عیسائیت میں یہ تصورپہلی صدی عیسوی میں سینٹ پال کے ہاتھوں عیسائیت قبول کرنے والے سینٹ دیوجانس Dionysius the Areopagite کے ہاں بھی ملتا ہے-مگر عیسائیت کے حوالے سے اسکی بہترین تشریح چھٹی صدی عیسوی میں سینٹ ارینیاوس نے کچھ یوں کی؛
The creator of the world didn’t fashion these things directly from Himself but copied them from ARCHITYPES outside Himself. (Saint Irenaeus)
اس کا مفہوم کچھ یہی سمجھ آتا ہے کہ خدا نے اپنے عکس (کے سانچوں) سے یہ نور، روشنی یا جیوتی ہر آنے والے انسان میں ڈالی ہے۔
یہاں یہ ذکر بھی دل چسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ہندوستان، جو آج بت پرستی کے باعث بدنام ہے، ہزاروں سال قبل شاید واحد خطہ تھا جہاں وحدانیت کا تصور آب و تاب سے قائم تھا جب کہ آج دنیا میں بس یہی ایک شاید قابل ذکر بت پرست خطہ بچا ہے ۔ ہندوستانی توحیدی مذہب، سناتن دھرم کی مسخ شدہ اشکال آج ہم ہندو مت کے نام سے جانتے ہیں، سناتن کا شمارچار سے چھ ہزار سال قبل دینا کے اولین توحیدی مذاہب میں تھا، یہاں بتانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہندوستان میں اب سے پانچ ہزار برس قبل بھی بچے میں خدا کے روپ کا تصور موجود تھا۔
ویدک مہا رشی انسانی وجود میں خدا کے جیوت (روشنی) کی بات کرتے تھے۔ جبکہ جیوت (بمعنی آتما) بھی اس تناظر میں آرکی ٹائیپس سے آپ جوڑنے میں آزاد ہیں، بہت سے ہندوستان کے علاقے ابھی بھی خدا کے لیے جیو کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں۔ شروتیوں کی تمام اقسام ،تری وید، پران یا اپ نشد، اس جیوتی کی مختلف انداز میں تشریحات کرتے نظر آتے ہیں۔ ستاروں کے علم، براہت پراشرا ہورا شاستر سے منسوب مہارشی پراشرا ، جنکا گیان آج استعمال کر کے پنڈت جنم کنڈلی بنایا کرتے ہیں، وہ اسی نور(جیوت) کی مناسبت سے جیوتشی کہلاتے ہیں۔
ژونگ کا نظریہ دیکھنے سے پہلے آخری چیز جو سمجھنا ضروری ہے، وہ سر جیمز فریزر کی لکھی معرکتہ الآرا کتاب دی گولڈن باؤہ The Golden Bough ہے، جس کا اردو ترجمہ شاخ زریں کے نام سے ملتا ہے۔ یہ چند حوالوں سے ڈارون کے بعد شاید پچھلی ایک دو صدیوں کی اہم ترین کتاب بھی ہے جسکے قابل ذکر اثرات باقی دینا کی طرح فرائیڈ اور ژونگ پہ بھی ہوئے اور ایسے ہوئے کہ انکے بہت سے نظریات کا ماخذ اصل میں سر جیمز ہی ہی نکلتے ہیں۔ اٹھارہ سو نوے میں اس لافانی کتاب کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی، جسکا تھیم اور مرکزی خیال نسل انسانی کا ارتقا اور تقابل ادیان تھا۔
پہلی جلد میں دور اول یعنی جب دنیا صرف سحر اور جادو ٹونے پہ یقین رکھتی تھی، اس جادو کی علامات ، سمبلز اور ان کی ایشیا ، یورپ اور افریقہ کے دور دراز جنگلات میں پائی جانے والی حیران کن مماثلت جیسا کہ سحر کا بیان دیکھیے جہاں وہ سحر مشارک کی دو اقسام بیان کرکے فرماتے ہیں کہ سحر بالمثل یا صوری سحر جسے دشمن کا نام و نشان مٹانے کے لیے اس کی شبیہہ یا پتلا بنا کر کیا جاتا تھا، ہندوستان، بابل ، نینوا ، مصر، یونان، روما کے تمام جادوگر یہی سحر کیا کرتے تھے۔ آج آسٹریلیا، افریقہ، شمالی امریکا اور سکاٹ لینڈ کے قبائل میں یہی سحراب بھی اسی طرح کی شکل میں جاری ہے۔ سر جیمز نے بیماریوں کے روک تھام کے ایسے تمام سحر بیان کیے جو آج (سر جیمز) کے دور میں نئی دریافت شدہ تہذیبیں جیسے آسٹریلیا یا شمالی امریکا کے قبائل بھی اسی طرح کرتے نظر آتے ہیں جس طرح سے ہزاروں سال سے ان گنت تہذیبیں کرتی آئیں ہیں ۔ جبکہ ہر ایک کے پیش نظر ایک دلچسپ کہانی، اساطیر یا واقعہ بھی ہوتا تھا جو ملتا جلتا نظر آتا ہے چاہے وہ ہزارہا سال سے چلی آ رہی جنگوں میں عورتوں کا رقص ہو یا دشمن کو نیست و نابود کرنے کے طریقے۔
سر جیمز اسی ارتقا کی بات کرتے دور سحر سے دور مذہب پر جا نکلتے ہیں اور انکے خیال میں انسانی ارتقا بھی ہمیشہ سے اسی طرح رہا ہے ۔ بارہا وہ آسٹریلیا کے قبائل کی مثالیں صدیاں پرانی مصری اور یورپی تہذیبوں سے دے کر اپنا مقدمہ قائم کرتے ہیں کہ یہ ارتقا ضرور فطری رہا ہو گا کہ اول جادو، پھر ہمیشہ اس نتیجہ پر پہنچنا کہ جادو کی کوئی حقیقت نہیں، پھر اگلے قدم میں جادو سے مذہب پر جانا اور پھرآخر میں سائینس پر پہنچ جانا۔ وجوہات نامعلوم مگر مذہب میں جا کر پھر وہی اساطیر جو ہر مذہب میں یکساں رہیں، قربانی کا ایک جیسا تصور، پچاری، پروہت سے ملا اور پادری کے کرداروں کا ارتقا، وہی رسوم ،یا عبادت کے طریقے جو مشترک رہے۔ سر جیمز نے تقریبا ثابت کیا کہ مذاہب کا ارتقا بھی سب قوموں میں ایک ہی طرح ہوا، راستہ بھی وہی اور منزل بھی وہی۔ ایک جیسے پیٹرن ،سمبلز یا علامات۔بلکہ چند مذاہب کی رسوم نے اگلی نسلوں کے مذاہب میں مزید ترقی کی اور اشکال بدلیں مگر اس ارتقا کو پہچاننا زیادہ مشکل نہیں ۔ اصل نکتہ اس ارتقا کا عمل سمجھنا ہے۔ اسے ذہنی ارتقا سے زیادہ عمرانی ارتقا کہنا چاہیے۔
سر جیمز نے زراعت کے ضمن میں درج کیا کہ مصر اور یونان میں زرعی سال کی رسمیں ایک جیسی تھیں۔ کٹائی پر خوشی کے ساتھ کسان غم میں گانے بھی ایک ہی طرح کے گاتے تھے۔ یونان میں مانیروس نامی گیت ہو یا مصری اوسائی رس ، دونوں ہی ایک دیوتا کو قتل کر کے اپنی فصل کی کٹائی کا آغاز کرتے تھے، یہی رسم وسطی امریکہ کے ’چیروکی‘ قبائل میں آج نظر آتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان تمام گیتوں کا ردھم بھی ایک ہی ہے۔ تیوہار تو ہمیشہ ہی ملتے جلتے ہیں۔ اسی کتاب کے آخری والیم میں مذہب سے سائینس تک جانا ، ان ادوارکے تقابل اور مماثلتیں ایسا کام تھا جو ان سے پہلے تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ ٹی ایس ایلیٹ سے لے کرارنسٹ ہہیمنگوے تک بیسویں صدی کا ادب جدید اس سے بڑی حد تک متاثر نظر آیا۔
ژونگ نے بھی سرجیمز کے قدموں پرچلتے امریکہ ،افریقہ ، ہندوستان کے دورے کیے اور ان تمام بر اعظموں اور مختلف ثقافتوں پر تحقیق کے بعد سر جیمز کے نتائیج کی تصدیق کی کہ قدیم روایات ، علامات اور تمثیلات کی شکل میں نسل انسانی میں آگے منتقل ہوتی آئی ہیں اور یہ عمل جاری رہے گا۔یہ نشانات، علامات اور خیالات و واقعات مختلف اساطیر، لوک کہانیوں ، روایات میں حیران کن حد تک ملتے جلتے ہیں جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اجتماعی لاشعور نسل انسانی کے مختلف ادوار میں مختلف اقوام میں یکساں رہا ہے اور نسل انسانی ہمیشہ سے جڑی رہی ہے۔
مجھے یقین ہے آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ تناظر اور ماخذات سمجھے بغیرسیدھے سبھاؤ ژونگ اور فرائیڈ کی نفسیاتی تھیوریاں سمجھنا ناممکنات میں سے ہے اور انہیں پڑھے، سمجھے اور تفکر کیے بغیر اپنی کوئی تھیوری پیش کردینا محض حماقت ہوگی۔
آرکی ٹائیپس
ژونگ کے خیال میں پرانی دیومالا، اساطیر میں سائیکی کے حقائق پنہاں ہیں کیونکہ ان کا تعلق تمدن کی شروعات سے ہے۔ جنگل میں رہنے والے انسان کا شعور محدود تھا مگر فطرت کے قریب ہونے کے باعث وہ جسمانی، روحانی اور نفسیاتی اعتبار سے مضبوط ہوا کرتا تھا۔ لوک کہانیوں کا بھی سائیکی سے گہرا ناطہ ہے, یہ تمثیلات، علامات اور نشانیاں وہ آفاقی حقائق ہیں جو ہمارے لاشعورمیں محفوظ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ژونگ مشرقی افکارخاص کر ویدک گیان سے متاثر ہوتا گیا، آتما کا پرماتما سے ملن ہو یا خود شناسی، ژونگ کے آخری دور کے آرکیٹایپس، زیادہ تر شنکر اچاریہ، ویدک یا سناتن دھرم پہ مبنی نظر آتے ہیں۔
ژونگ افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ اساطیر سے عقائد تک کے سفر میں اجتماعی لاشعور کی (اچھی) اشکال عقیدہ کی شکل میں موجود رہیں، مگراحیا یا ریفارمیشن کی تحریک ،عقل (بمعنی ریزن) اور پروٹسٹنٹ تحریک کی کامیابیوں نے کلیسا کو جہاں نقصان پہنچایا وہیں ان عقائد میں موجود اجتماعی لاشعور کے اجزا جیسے تثلیث کی علامات ، کرسمس ٹری، صوفیہ، ایسٹر ایگ جیسی مذہبی تشبیہات کو ناقابل تلافی نقصانات بہم پہنچایا۔ ان تشبیہات و علامات (آرکیٹائپس) میں معنویت سمیت صدیوں کے تاریخی تجربات مقیٌد تھے، اسی وجہ سے دنیا کو ان نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے جو اس سے پہلے کبھی موجود نہیں رہا۔ (یہاں آپ شاخ زریں اور سرجیمز سے تعلق جوڑ سکیں گے )اسی طرح ژونگ پروٹسٹنٹ تحریک کےپیدا کردہ اخلاقی بحران کا ذکر کرتے تاسف کا اظہار کرتے ہیں کہ اس کا نتیجہ پھر نطشے کے ماورائے خیر و شر (Beyond Good and Evil) کی طرح کا ہی نکل سکتا ہے۔ اسی طرح ژونگ کے مطابق، نطشے کی بقول زرتشت (Thus Spoke Zarathustra) محض شاعری نہ تھی، بلکہ اعترافات تھے، خدا اور عیسائیت ترک کر کےاندھیروں میں کھو جانے کے بعد (نطشے کے اجتماعی)لاشعورنے Hermes Trismegistus کی زبان استعمال کی ہے۔
(ہرمز کی تفصیلات اساطیر میں بے شمار جگہوں پہ مختلف مگر ملتی جلتی نظر آتی ہے، ایک جگہ ہرمز ایک یونانی خدا اورمصری چاند کے خدا تحوت کے ملاپ سے بننے والا خدا ہے، ہرمیٹزم میں یہ ہرمز نامی ایک پیمبر کے پوتے تھے، مسلمانوں کے کچھ گروہ بشمول بہائی، ہرمز کو حضرت ادریس بھی کہتے ہیں۔ واللہ علم)۔
ژونگ عیسائیت کا مشرق سے موازنہ کرتے ہیں اور پھر تاسف کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم علامات ،تمثیلات اورتشبیہات (Iconoclasm) کھو بیٹھے ہیں۔ ہم سائینسی ایجادات اور ترقی تو کیے جا رہے ہیں مگر یہ مایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہم روحانی طور پر غریب ہوچکے۔غریب، کہ خواہشات تو رکھتا ہے مگر وہ، جو تباہی لاتی ہیں۔اس روحانی غربت کے ذکر کے ساتھ ہی وہ ایک خوبصورت سوئیس محاورہ استعمال کرتے ہیں جسے پڑھ کر آپ کو بھی شاید میری طرح ہمارے مائی باپ (گاڈ فادر) فیم چیف جسٹس یاد آ جائیں گے۔ (Behind every rich man stands a devil, and behind every poor man two۔ (C. J. Jung)
ابتدا میں ذکر کیا گیا تھا کہ فرائیڈ کے ہاں انفرادی لاشعور، عموما ان ناگوار یادوں کا نتیجہ تھا جو زبردستی دبائی گئی ہوں اور جنسی محرکات، فرائیڈین لاشعور کے بنیادی خصائص تھے۔ تاہم ژونگ نے یہیں بنیادی اختلاف رکھا، ان کے مطابق فرائیڈ کا تحلیل نفسی کا طریقہ جوہری طور پر منفی ہے جو ایک محدود شئے یعنی جنسی محرکات یا libido کو بنیاد بنا کر ساری شخصیت کا تجزیہ کرتا ہے۔ شخصیت کے مثبت اور روحانی پہلو فرائیڈ کے ہاں عنقا ہیں۔ یاد رہے یہ یہ وہی ژونگ تھے جنہیں جدید نفسیات کے موُجد فرائیڈ نے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا اور اپنا جاں نشین کہا کرتے۔
ژونگ کا یہ ماننا تھا کہ شعور، لاشعور سے ابھرتا ہے مگر کسی فرد کا انفرادی لاشعور خود، اجتماعی لاشعور کے زیر اثر ہوتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ انفرادی لاشعور، کبھی شعوررہا ہو (جیسے فرائیڈ کا بیان کردہ لاشعور) مگر اجتماعی لاشعور اس سے الگ ہے اور یہ آرکیٹائیپس پر مشتمل ہے، یعنی ہزارہا برس کے تجربات علامات، سمبلز، تصویریں، تشبیہات وغیرہ،، ایک بچہ وراثت میں جو آرکی ٹٓائیپس لے کر دنیا میں آتا ہے، اسکے پیچھے لاکھوں برس کی نسل انسانی کے قدیم اور مشترک تجربات ہیں نہ کہ بچپن کی دبائی یادیں۔ اسی طرح انسان کسی بھی صورت حال میں ایک ہی قسم کے انداز میں عمل کرنے کا جو جبلی رجحان رکھتا ہے، یہ بھی آرکیٹائیپس کے ہی پیٹرن ہیں جو جبلت پہ اثر انداز ہوتی یے۔
فرائیڈ نے لیونارڈو دا ونچی کی معروف پینٹنگ جس میں مریم اورسینٹ اینا ایک ساتھ موجود ہیں، پر ایک مضمون لکھا اور اسکی نفسیاتی تاویل یہ بیان کی تھی کہ لیونارڈو کی دو مائیں تھیں، وہی اس نے لاشعوری طور پر اس پینٹنگ میں دکھایا ہے۔ مگر ژونگ نے اس کے جواب میں لکھا کہ یہ صریحا غلط ہے، اسکی وجہ ایک آرکیٹائیپ ہے جو تقابل ادیان یا اساطیرپڑھنے والے سبھی جانتے ہیں۔ ایک مثال یونان میں زیوس کے بیٹے، ہیراکلیس اور ہیرا کا اسطور تھا، جس کے مطابق ہیراکلیس کو ہیرا نے جب گود لیا تو اسے امر بنا دیا۔ یہی کہانی جب مصر پہنچی تو رسم بن گئی، فرعون مصر انسان بھی ہوا کرتے اور الوہیت بھی ورثہ میں پاتے۔ انکے محل میں ”دوہری پیدائش“ (twice born) کا الگ سے درج کیا جاتا جس کی وجہ یہی آرکیٹائپ تھا۔ اسی طرح ژونگ کے بقول عیسی کا بھی دوہرا جنم ہوا تھا۔ مقدس پانی سے ہوئی بپتیسا، انکا دوسرا جنم تھی۔
ان کے بقول ترقی اور ارتقا کے ساتھ انسان فطرت سے دور ہوتا چلا گیا ،جسکا منفی اثر سائیکی پر پڑا کیونکہ یہ اب پیچیدہ، گنجلک اور الجھتی جا رہی ہے۔ ارتقا کےساتھ ان کے خالص پن میں فرق آتا جا رہا ہے ۔ ژونگ اس نظریہ کا حامی تھا کہ انسان جیسے جیسے فطرت سے دور ہوا ہے ، اسکی شخصیت کے روحانی اور مثبت پہلو کمزور ہوئے ہیں اور اس کا آرکی ٹائیپس کا نظریہ اور تحقیق کی ایک وجہ اس کمزوری کو دور کرنا بھی تھی۔ ژونگ کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ انسان اپنے رحجان کے مطابق شعور اور لاشعور کو ہم آہنگ کر کے اپنی شخصیت کی تکمیل کر سکے، جب انسان اپنا یہ پوٹینشل پا لے گا تو اس سے اجتماعی لاشعور بھی بہتر انداز میں سمجھ سکے گا اور اس پر مثبت اثر ڈال سکے گا۔ ژونگ کے خیال میں لاشعور سے شعور تک کی صرف کچھ یادیں یا اجزا ہی ڈھل سکتے ہیں، چاہے وہ انفرادی لاشعور سے آ رہے ہوں یا اجتماعی لاشعور(آرکیٹائیپس) سے۔ خواب اور تخیلات (فینٹیسیز) ان آرکیٹائپس کو جاننے کے اہم ترین ذرائع ہیں، خصوصا خواب جو ان فینٹیسیز کی شکل میں شعور کی حالت میں تبدیل ہو جاتے ہوں۔
ژونگ کے نزدیک انسانی جسم کے تمام افعال مخالفانہ نظاموں کی صورت میں ہوتے ہیں جو مثبت اور منفی فیڈ بیک کے ذریعہ توازن میں رکھتے ہیں۔ اور نفسیاتی خصوصیات اپنے متضاد بھی ساتھ رکھتی ہیں، مثلاً خیر و شر، محبت و نفرت، مردانہ و زنانہ۔
چار بنیادی آرکیٹائپ
جدیدیت، صنعتی انقلاب، فطرت سے دوری، مذہب کے کردارکے حدود کے تعین نے جہاں انسان کو ترقی دی، وہاں بیگانگی ، تنہائی ،سماجی عدم مطابقت، تصنع جیسے نفسیاتی مسائل بھی ملے۔ ژونگ نے اپنے لٹریچر میں ذہن اور ذہنی فعل کی جگہ سائیکی اور سائیکک کی اصطلاحات استعمال کیں- ذہن کا تعلق صرف شعور سے ہے، مگر سائیکی کا تعلق شعوراور لاشعور، دونوں سے ہے سو یہ ذہن سے زیادہ پیچیده اور گنجلک ہے۔
تصویر میں آپ ژونگ کے چار آرکیٹائپس دیکھ سکتے ہیں۔
1- ذات Self
ذات کو ژونگ کے نظریہ کا بنیادی آرکی ٹائپ مانا جاتا ہے۔ ذات ہمارا مرکز اور کُل ہے، ہمارے شعور اور لاشعورکا مجموعہ ہے جس میں انا ( ego )شعور کا مرکز ہے، اور پرچھائی (shadow) لاشعور کا۔ذات ہماری شخصیت (Personality) کا مرکزبھی ہے۔یہاں دو مختلف سرحدوں یعنی شعور اور لاشعورکا ملاپ ہو رہا ہے یا یہ دونوں ہم آہنگ ہو رہی ہیں۔ یہ ہم آہنگی ذات میں بہتری لا سکتی ہے۔اس ذات کو ہم آرکیٹائپ کی تعریف والے حصہ دوئم سے ملا کربھی دیکھ سکتے ہیں جہاں خدائی عکس کی بات ہوئی تھی۔ انہیں آئندہ تفصیل سے دیکھا جائے گا۔
2- نقاب Persona
پرسونا( یا نقاب) لاطینی لفظ ہے ، پرسنیلٹی اسی لفظ سے نکلا ہے۔ یہ ہمارا وہ چہرہ (یا چہرے پہ اوڑھا نقاب ہے) جو ہم نے باہر کی دنیا کو دکھانے کے لیے رکھا ہے۔ باہر کی دنیا کے ساتھ انٹرفیس (interface) کہہ لیجیے مگر اسے منفی مت سمجھیے کہ یہ صرف دھوکہ یا فریب دینے کے لیے اوڑھا جاتا ہو۔ ژونگ کی مراد سماجی نقاب سے ہے جو حالات اور وقت کے مطابق ہم اوڑھتے ہیں اور انکا مقصد سماجی مطابقت لانا ہے( نہ کہ دھوکا دہی)۔ جیسے ایک استاد کا اصل چہرہ یا شخصیت کچھ بھی ہو، اس نے باہر کی دنیا کے لیے الگ نقاب اوڑھا ہوتا ہے، ڈاکٹر خود حفظان صحت کے خلاف چلتا ہو، باہر کی دنیا میں اسکی مختلف شخصیت ہو گی۔ ہمارے معاشرے میں ایک ماں اصل میں خود کتنی بھی چنچل اور کھلنڈری ہو گی، اس کا چہرہ دنیا کے سامنے ایک سنجیدہ قسم کی ماں کا ہو گا جو سماج سے مطابقت رکھتا ہو۔ماں تو دور کی بات ہے ایک بچے تک کو گھر میں ماں باپ یا بہن بھائیوں سے مطابقت پانے کے لیے پرسونا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ گویا ایک سماج میں ہر ایک کو ہی مطابقت یا قبولیت پانے کے لیے کسی قسم کا نقاب استعمال کرنا ہی پڑتا ہے جو اس سوسائیٹی میں فٹ رہنے کے لیے ضروری ہو۔
بعض اوقات ہم اپنے ماحول سے یا کسی جگہ سے مطابقت نہیں رکھتے یا شاید ہمارے پاس درست نقاب موجود نہیں ہوتا۔ایک اور مسئلہ جو پرسونا کے ساتھ متعلق ہے جب ہم اپنے نقاب کو ہی اپنی ذات تصور کرنا شروع کر دیں۔ یہاں نفسیاتی مسائل درپیش ہوں گے۔ اس کے کیسز شاید آپ نے اپنے ارد گرد دیکھے ہوں،جنہیں سماجی عدم مطابقت کے مسائل پیش آتے ہوں۔ اسکی ایک وجہ ان کی (سماج سے)مطابقت کی (شدید اور شاید) ناکام کوشش ہوتی ہے کہ سماجی مطابقت رکھنے کے لیے جب ہم زیادہ کوشاں ہو، یا ہر وقت ہی نقاب چڑھائے رکھیں تو ممکن ہے اصل شخصیت دب جائے، تصنع اور بناوٹ ایک حد تک چلتا ہے مگر ژونگ کے خیال میں جب پرسونا اصل ذات کی جگہ لے جائے تو نتیجتا جونفسیاتی بیماری لاحق ہو گی اسے Enantiodromia کہیں گے۔ یعنی اصل شخصیت کہیں گم گئی اور ایک فکشنل یا مصنوعی شخصیت نے مستقل جگہ لے لی۔
اچھی بری سے قطع نظر ، اصل شخصیت ممکن ہے اس کھوکھلی، مصنوعی پرسونا کے بالکل برعکس ہو۔ اس تصنع سے بچنے کے لیے ژونگ نے Individuation کا تصور دیا۔ ایسا نقاب یا پرسونا جسے اوڑھنے سے سماجی مطابقت بھی رہے مگر اصل شخصیت بھی برقرار رہے۔ پرسونا سے متعلق چند آرکیٹائپس کا پہلے ذکر کیا گیا جیسے ماں، استاد، ڈاکٹر، اسی طرح باپ، بیٹی ، فنکار، یہ سب بھی آرکیٹائپس ہی ہیں۔
3- پرچھائی Shadow :
یہ سائیکی کے ڈارک یا منفی پہلو ہیں۔ ان کا تعلق شخصیت کے ان جبلی پہلوؤں سے بھی ہے جنکا تعلق لاشعورسے ہو، ایک حد تک یہ فرائیڈ کے جنسی محرکات یا ناگوار،دبائی گئی یادوں (repressed memories )کمزوریوں اور تاریک پہلو پر مشتمل ہے۔ انکا اعتراف اور قبول کرنا تکلیف دہ اور مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ ان میں ایسی چیزیں بھی آ سکتی ہیں جنہیں ہم بھلانا چاہتے ہوں یا ہمارے لیے ناگواری کا باعث بنتی ہوں، مگر ہم اگر انہیں خود جان لیں اورسمجھ کر قابو پا سکیں تو ہم درست جگہ پر مناسب پرسونا ( نقاب )کا استعمال کر سکیں گے۔
ژونگ کے مطابق ایک مضبوط ذہن اور اچھے دماغ کی نشانی یہی ہے کہ انسان اپنے منفی پہلو سے آگاہی پائے اور انہیں قبول کرے۔ تمام منفی پہلو جیسے لالچ، حسد، نفرت، ایسی چیزیں جو باعث ندامت ہیں یا فرد کی وہ کمزوریاں ، ناکامیاں یا نا آسودہ خواہشات جنہیں فرد کمزوری یا کم ترسمجھتے ہوئے چھپانا چاہتا ہے۔
ڈاکٹر جیکال اور ہائیڈ اگر یاد کیجیے تو ڈاکٹر جیکال ایک سمجھدار، سلچھا ہوا اچھا سائینسدان ہے مگر ہائیڈ اسی کی تاریک اور منفی شخصیت ہے، جیکال اپنی آلٹر ایگو کو روکنے کی کوشش کرتا ہے مگرہائیڈ اس سے زیادہ طاقتور ثابت ہو کر اسکی موت کی وجہ بن جاتا ہے۔
ژونگ کے بقول اسکی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جیسے یہ خوابوں میں یا نظری التباس کی شکل میں بھی آتے ہیں۔ مگر اس سے آگاہی ایسی مثبت چیز ہو گی جو فرد کو بہت سی مشکلات اور (نفسیاتی) مسائل سے بچائے رکھتی ہے مگر لوگ اسے عموما قبول کرنے سے کتراتے ہیں۔ جیسے کسی نفرت کے سوداگر سے پوچھ لیجیے، وہ یہ ماننے سے ہی انکاری ہو گا کہ اسکی نفرت غلط ہو سکتی ہے۔
4- اینیما (Anima) اور اینیمس Animus) )
اینیما کا لاطینی لفظ میں مفہوم سانس یا روح ہے۔ ژونگ کی نفسیات میں یہ ہمارا وہ امیج ہے جسےاصل ذات (True self)یا ID کہا جاتا ہے۔ اینیما مردوں کے لاشعور میں موجود زنانہ خصوصیات ، جبکہ انیمس، عورتوں کے لاشعور میں پائی جانے والی مردانہ خصوصیات ہیں۔
تاؤازم میں yin/yang کا کچھ ایسا ہی ثنویت (dualism) کا تصور موجود تھا جہاں ین مردانہ اور یژونگ زنانہ خصائص رکھتے تھے۔ یہ بھی مانا جاتا تھا کہ ان کا توازن کسی فرد، معاشرہ اور کائینات کی صحت کے لیے بہتر ہے جیسے دن رات، چاند سورج، دھرتی، آسمان وغیرہ۔ یہ تضاد اورانکی ہم آبنگی قدیم فلسفیانہ تصور ہے۔
یونان میں ارسطو نے بتایا کہ اضداد اصل میں ایک ہی ہوتی ہیں، ان سے بھی پرانے فلسفی جیسے اناکسی مینڈر مانتے تھے کہ متضاد اشیا ہمیشہ ساتھ آتی ہیں یا مارکسی جدلیاتی انداز کو لیا کرتے ہیں؛ یا ویسے ہی ہر چیز کو جوڑوں میں گنا جاتا ہے۔
ویدک دھرم میں شیو مردانگی اور طاقت سے برائی کو اکھاڑتا ہے تو اس کی مادہ شکتی، پاربتی تولید کے علاوہ کائیناتی توانائی توازن میں رکھنے کے فرائض سر انجام دیتی ہے۔ یہ دو ملا کر شیو شکتی ین ،یژونگ کی طرح توازن کے سے فرائض انجام دیتے ہیں۔
ژونگ کے بعد سے شاید ان دونوں کو ایک ساتھ استعمال کرنے کے لیے szygy کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ وجہ تسمیہ یہی تصور ہے جیسے چاند سورج، دن رات وغیرہ۔
جنسی محرکات کا باعث یہ اینیما یا اینیمس ہی ہے۔ یہی تخلیق کا سبب بھی ہے، اور کسی فرد کے مخالف جنس سے رویے، بات چیت کے انداز کو بھی طے یہی کرتا ہے۔ مرد کے مطابق دیکھا جائے تو تخلیق کے علاوہ، جذبات، محبت، حساسیت، تخیل کا سبب یہ اینیما ہی ہوتا ہے اور عموما اس کی ایک وجہ ماں اور اسکا ایام طفولیت کا پیار ہوتی ہے۔اگر یہ توازن مفقود ہویا درست نہ ہو تو ایسے شخص کے مخالف جنس سے صحتمندانہ تعلقات رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ شعور اور لاشعور کی یہاں کش مکش ہوتی رہتی ہے۔اسی طرح اگر پورے معاشرہ پہ اس کا عمل دیکھا جائے تو جدید معاشرہ میں مخصوص تشخص اور اس سے متعلق خصوصیات اپنانے کا کہا جاتا ہے، اسی وجہ سے یہاں نفسیاتی مسائل زیادہ ہیں جیسے آج کے مردانہ معاشرہ میں،رحم دلی، محبت ، حساسیت کو کمزوری سمجھ کر دبا دیا جاتا ہے ( یا دوسری طرف زنانہ معاشرہ میں مردانہ خصوصیات جیسے بہادری کو بےرحمی مانا جائے وغیرہ)۔
اختتام سے پہلے ژونگ کے اپنے الفاظ شیئر کرنا چاہوں گا جو نکسی صاحبہ کے بارے میں کہے گئے۔
آپ جھیل کے پانی میں اپنا عکس دیکھتے ہیں مگراس کے پیچھے کیا ہے، آپ نہیں جانتے، اس میں نکسی ہو سکتی ہے۔
The nixie is an even more instinctive version of a magical feminine being whom I call the anima. She can also be a siren, melusina (mermaid), wood-nymph, Grace, or Erlking’s daughter, or a lamia or succubus, who infatuates young men and sucks the life out of them
(ARCHETYPES of the Collective Unconscious , C. J Jung)
اسکا ترجمہ شاید مفہوم واضح نہ کر پائے، سو اصل الفاظ سے لطف اندوز ہویئے۔ ژونگ پھر یہ بتاتے ہیں کہ یہ کوئی فینٹیسیز یا تخیلاتی باتیں نہیں بلکہ ایک اور دل چسپ بات کرتے ہیں؛
An alluring nixie from the dim bygone is today called an “erotic fantasy,” and she may complicate our psychic life in a most painful way
ژونگ نے ان بینادی چارآرکیٹائپس کے بعد شخصیت کی مختلف خصوصیات اور پہلوؤں کو سامنے رکھ کر ۱۲ مزید آرکیٹائیپس بتائے جنہیں نفسیات کے علاوہ ادب، لٹریچر، ہر جگہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے ہیرو، باغی، دانشور، عاشق، ضعیف دانشمند وغیرہ۔ ان میں اضافہ اس وقت سے جاری ہے اور ان کی بنیاد پر شخصیت کو جانچا بھی جاتا ہے، بہت سے پرسنیلیٹی ٹیسٹ آرکیٹائپس کا تصور استعمال کرتے ہیں۔ شخصیت جانچنے کے لیے (PMAI® (Pearson-Marr Archetype Indicator کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں اس موضوع کا اختتام کرتے ہیں،ہمارا ماننا یہ ہے کہ ژونگ کا نظریہ فلسفہ، تصوف، روحانیت ،ادب کے ساتھ نفسیات کے دائرہ کار میں آتا ہے، مگر شاید یہی اس کا نقصان بھی رہا ہے، خانے یا کمپارٹمنٹس بنا کر کوئی نظریہ سمجھنا بھی اکثر مشکل ہو جاتا ہے۔