شرمناک جنسی واقعات کا تفہیمی تناظر۔ محمد دین جوہر
لاہور کی دینی درسگاہ میں ہونے والے شرمناک اور انسانیت سوز واقعے پر ہمارے مذہبی طبقات بالعموم خاموش رہے ہیں۔ لیکن لبرل طبقات اس سے بڑے بڑے فلسفے اور نظریے برآمد کر کے اسلام، اسلامی اقدار، اسلامی تاریخ اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ لبرل ردِ عمل ہم عصر دنیا میں تصورات کی تشکیل، تبدیلی کے محرکات اور سسٹم کی میکانکس کو سمجھنے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ واقعات سے تصورات کی تغلیط پروپیگنڈے کا جزو اعظم ہے۔ پاکستانی لبرلز اسلامی تاریخ کو جس طرح اسلام کے خلاف صف آرا کرتے ہیں، اسی طرح انفرادی اعمال سے دینی تصورات کی تغلیط و تردید کا کوئی موقع بھی وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لاہور کے واقعے پر پاکستانی لبرلز کے رد عمل سے اصلاح کا کوئی پہلو وابستہ نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ معاشرے میں موجود خرابیاں مسلمانوں کے مذہب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور مسلمانوں کی تاریخ بھی ایسے ہی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جدید معاشرت نج سے مکمل منقطع ظاہر داری پر مبنی ہے جس میں ساکھ بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور کسی بات کے رد و قبول میں دلیل سے زیادہ مؤثر ہے۔ لاہور کے واقعے سے مذہبی طبقے کی کمزور ہوتی ہوئی ساکھ کو غیرمعمولی دھچکا لگا ہے اور لبرل طبقات نے نہایت سفاکی سے اسے مذہب اور اس کے نمائندہ طبقے کے خلاف صف آرا کیا ہے۔ بہرحال اس واقعے سے کچھ مذہبی افراد کے عمل کی گندگی اور لبرل طبقے کے ذہن کی گندگی جس طرح یکساں شدت سے سامنے آئی ہے، وہ معنی خیز ہے۔ جونہی ایسا کوئی مخرب اخلاق واقعہ ہوتا ہے لبرل طبقات کے ذہنی گٹر کا ڈھکن بھی کھل جاتا ہے اور غلاظت کا ایک بڑا ریلا ادھر سے بھی بہنا شروع کرتا ہے، اور پورا معاشرہ ہی گندگی میں لتھڑ جاتا ہے۔
دینی تناظر میں ایسا واقعہ اولاً گناہ اور ثانیاً جرم ہے۔ گناہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ، حصولِ تقویٰ کی کوشش اور استعانت باللہ کا تقاضا کرتا ہے، اور عین اسی معاشرے میں توبہ اور استعانت باللہ کے رویے ایک روزمرہ مظہر کے طور پر عام ہیں۔ انسان جن ارضی اور تاریخی حالات سے دوچار ہے، اس میں گناہ سے مفر نہیں۔ لیکن گناہ سے پیدا ہونے والی مایوسی انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی، اور توبہ اور استعانت باللہ مایوسی سے لڑنے اور انسان رہنے کی کوشش کو بامراد بناتی ہے۔ گناہ کا پہلو لبرلز کے نزدیک قطعی غیر اہم ہے، کیونکہ ان کی اقدار جنم ہی ایسے معاشرتی اور تاریخی واقعات سے لیتی ہیں، یعنی لبرل اقدار انسانی افعال اور رویوں کی normalization سے پیدا ہوتی ہیں۔ لبرلز کی کوشش ہے کہ ایسی اقدار ہی کا خاتمہ ہو جائے جن کے مطابق گناہ کا تصور باقی ہے اور ان کا اصرار ہے کہ ایسے واقعات کو صرف جرم کے طور پر دیکھا جائے۔ اس واقعے میں جرم کا سنگین پہلو بھی شامل ہے جو عدل کا تقاضا کرتا ہے اور جس کا براہِ راست تعلق ریاست اور طاقت کے قانونی نظام اور سیاسی انتظام سے ہے۔ اس طرح کے واقعات لبرل طبقات کے لیے دہرے مفاد کے حامل ہوتے ہیں۔ گناہ کے پہلو سے وہ ہماری دینی اقدار پر حملہ آور ہوتے ہیں، اور جرم پر انصاف کی عدم فراہمی ان کو ریاست پر حملہ آور ہونے کا زریں موقع فراہم کرتی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اس طرح کے واقعات ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی سامنے آتے ہیں، اور اگر وہ سیکولر اداروں میں سامنے آئیں تو لبرل خاموش رہتے ہیں اور وہاں ان کو جبر اور جرم کا پہلو بھی دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس میں شامل افراد کی نمائندہ علامتی حیثیت کو وہ مذہب اور ریاست کے خلاف بیک وقت استعمال نہیں کر سکتے۔
لاہور واقعے کا نہایت اہم اور قابلِ غور پہلو اس وقت سامنے آیا جب شیخ الحدیث مفتی صاحب نے ایک پبلک بیان میں قرآن مجید پر حلف دے کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جدید دور میں مذہب کی آلاتی جہت کس حد تک راسخ ہو چکی ہے۔ معاشرے کی سیکولرائزیشن اور انسانی زندگی سے مذہب کی بتدریج لاتعلقی میں ان رویوں کا رول بنیادی ہے۔
ایسے واقعات کا ایک قابل ذکر پہلو ہمارے سیاسی طبقے اور خاص طور پر مذہبی سیاسی طبقے کی خاموشی ہے جسے بالعموم ’منافقت‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں انسانی عمل کے قابلِ اشارہ، قابلِ رسائی اور قابلِ فہم تضادات کو فوراً ہی منافقت قرار دینا ایک عام منفی روش ہے جو علمی گفتگو کو ناممکن بنا دیتی ہے۔ منافقت عقیدے کا موضوع ہے جبکہ تضادات علم کا موضوع ہیں، اور ہمارا سروکار تضاد سے پُر رویوں اور واقعات کے علمی تجزیے تک محدود ہوتا ہے۔ منافقت، عقیدے کے کچھ خاص ارادی احوال کا نام ہے اور دوسرے کی نیت کی طرح اس کا جاننا ممکن نہیں جبکہ تضادات فطری، تاریخی، تجربی اور قابلِ ادراک ہوتے ہیں۔ علم میں رہتے ہوئے منافقت پر ججمنٹ ممکن نہیں ہوتی لیکن تضادات کو ضرور زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ یعنی منافقت کی تصدیق علم میں ممکن نہیں جبکہ تضادات علم میں قابلِ توثیق ہیں۔
جامعہ منظور الاسلامیہ لاہور میں ہونے والے واقعے کے تجزیے سے کئی طرح کے نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ میری رائے میں مندرجہ ذیل پہلو اہم ہیں:
(۱) لاہور واقعے کی شدتِ سکتہ انگیزی کا بڑا سبب واقعے کی نوعیت نہیں ہے بلکہ ایک دینی اور ملی ذمہ داری کو اپنی آزاد مرضی سے اختیار کرنے کے بعد اس میں سنگین کوتاہی کا مرتکب ہونے کی وجہ سے ہے۔ مذہبی اور عصری تعلیم کے حوالے سے ہمارا معاشرہ اپنی بساط سے بڑھ کر بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ لیکن تعلیمی اور علمی حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے سنگین کوتاہی و ناکامی اہلِ علم اور اساتذہ میں اب امر عام کی حیثیت رکھتی ہے، اور اس میں اخلاقی کوتاہیاں شامل ہو جانے سے ان ذمہ داریوں کے پورا ہونے کا امکان بتدریج کم ہو رہا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی اور علمی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ہے کہ ہمارے اہل علم ایک سماجی اور تہذیبی betrayal کے مرتکب ہوئے ہیں۔ قومیں اہلِ امر اور اہلِ علم کی مشترکہ کوششوں سے ہی بنتی بگڑتی ہیں، اور اس معاملے میں اہلِ امر، ہمارے اہل علم سے کہیں بہتر ہیں۔ اہل علم نہ روایت کو سنبھال سکے ہیں، نہ ہم عصر تاریخ کا سامنا کرنے کی سکت پیدا کر سکے ہیں، اور نہ مستقبل کا کوئی شعور ہی رکھتے ہیں، اور نہ انہیں کسی انسانی اور دینی ذمہ داری کا کوئی خیال باقی رہا ہے۔ لیکن ہمارے اہلِ امر بھلا برا ملک تو گھسیٹ ہی رہے ہیں، جبکہ مقابلتاً اہلِ علم کے حالات کہیں شرمناک ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں جو چیز سب سے زیادہ تشویشناک ہے وہ ہر طرح کی کرپشن کا ہر طرح کے تعلیمی عمل میں در آنا ہے۔ اگر ہم ملت اسلامیہ پاکستان کے اسلامی اور تہذیبی مستقبل پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں فوری طور پر تعلیم پر توجہ دینا ہو گی۔
(۲) روایتی معاشروں میں اسلامی اور غیراسلامی کے زمرہ جات واضح تھے، اور ان کا تعلق انسانی اعمال و افعال و گفتار سے براہ راست تھا۔ جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں نئے گفتار بارش کی مسلسل بوندوں کی طرح آتے ہیں اور اس سے پہلے کہ ان کے اسلامی/ غیر اسلامی ہونے کی بابت کچھ پتہ چلے وہ بخارات میں تحلیل ہو کر غائب ہو جاتے ہیں اور نئے خیالات ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ نئے گفتار کی طرح، عین اسی دنیا میں جدیدیت پے بہ پے ایسے واقعات سامنے لاتی ہے جو فطرت کو displace کرتے ہیں، معاشرت کی جگہ لے لیتے ہیں اور انسانی عمل کو اپنے آپ میں متضمن کر لیتے ہیں۔ جدیدیت کے کثیر پیداواری اعمال institutional ساخت اختیار کر کے معاشرے میں مستقل اور فعال وجود بن جاتے ہیں، اور ان کی اسلامی اور غیراسلامی حیثیت کے تعین کا کام دینی تناظر میں ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔ آرگنائزیشن انسانی عمل کی تقویم کو مکمل طور پر بدل دیتی ہے۔ اس لیے مذہبی تعلیم کی پست ادارہ جاتی تشکیل کو اسلامی نہیں کہا جا سکتا اور عصری تعلیم کی ادارہ جاتی تشکیل کو غیراسلامی نہیں کہا جا سکتا جب تک ان کی نوعیت معلوم نہ ہو جائے اور ان کے عمل کی انسانی اور فطری جہت کا تعین نہ ہو جائے۔ لیکن نئی ادارہ جاتی ساختیں انسانی عمل کی ایک نئی تقویم قائم کرتی ہیں، اور ہمارے مدارس بھی چونکہ آرگنائزیشن کے اصول پر ڈھل گئے ہیں اس لیے وہاں بھی انسانی اعمال کے وہ نمونے سامنے آ رہے ہیں جو جدید معاشروں کا خاصہ ہیں۔ جدید تنظیمی ساخت کے لحاظ سے مدارس کو اسلامی کہنا اسی طرح محل نظر ہے جس طرح تنظیمی ساخت کی وجہ سے سکولوں کو سیکولر کہنا محل نظر ہے۔ یاد رہے کہ برصغیر میں سیکولر تعلیم ایک بہت ہی واضح ”طریقۂ کار“ رکھتی ہے اور جسے برطانوی استعمار نے طویل عمل اور نہایت محنت سے یہاں قائم کیا تھا، اور نہایت دیانتداری سے اس کے مقاصد کو بھی بیان کیا ہے۔ عجلت میں اس طریقۂ کار کو اسلامی یا غیراسلامی کہنا علمی دیانت کے خلاف ہے کیونکہ ہم نے اس طریقۂ کار کو کسی علمی تناظر میں زیر بحث لانے کی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ ہم صوابدید اور ضرورت کے مطابق اس کو ”اسلامی“ اور ”غیراسلامی“ کہتے آئے ہیں اور یہ علمی دیانت کے صریحاً خلاف ہے۔ ہم پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ انگریزوں کے قائم کردہ ”طریقۂ کار“ کو استعمال کرتے ”اسلامی“ مقاصد کا حصول خیال است و محال است و جنوں۔
ہم نے اپنی تہذیبی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے نئے سماجی اور تاریخی مظاہر کو سمجھنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ اجتماعی، معاشرتی، ثقافتی اور تعلیمی دائروں میں شرعی امر اور امتثال امر کی روایتی اور فطری تقویم مکمل طور پر بدل چکی ہے، اور جدیدیت ان کی مابینی نسبتوں پر مکمل طور پر استیلا حاصل کر چکی ہے۔ یعنی مذہبی امر اور امتثال امر دو چیزیں ہیں، اور ان کی مابینی نسبتیں تیسری چیز ہے۔ گزارش ہے کہ انسانی عمل کے زمانی اور مکانی کو آرڈی نیٹس (co-ordinates) سے فطرت کا مکمل خاتمہ ہو گیا ہے اور وہ مکمل طور جدیدیت کی شرائط پر منتقل ہو چکے ہیں۔ جدید تاریخ نے جو صورت حال پیدا کر دی ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہمیں ”امر“ کا مذہبی ہونا معلوم ہے اور وہ ہمارے ایمان کا جزو ہے، لیکن امر کے امتثال کی شرائط و حالات مکمل طور جدید ہو چکے ہیں۔ مذہبی امر اور امتثال امر کی باہمی انسانی اور فطری نسبتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے اور جدیدیت کے پیدا کردہ میکانکی تعینات نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ مثلاً اجتماعی عدل کا قیام مذہبی امر ہے، اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے امتثال کا ارادہ بھی، لیکن یہ امتثال جس معاشرے اور تاریخ میں واقع ہونا ہے وہ مکمل طور پر جدیدیت کی عملداری میں ہے۔ اب انسانی عمل بھی انسانی نہیں رہا، کجا یہ کہ وہ مذہبی ہو۔ عین یہی صورت حال علم اور تعلیم کے ساتھ ہے۔ مذہبی تعلیم کا ”اسلامی ہونا“ اور ”تعلیم ہونا“ دونوں مضطرب ہیں۔ یعنی ہمیں ابھی یہ طے کرنا ہے کہ جدیدیت کے پیدا کردہ کسی میکانکی عمل کے ”اسلامی“ ہونے سے کیا مراد ہے؟
(۳) زیر بحث واقعہ ایک چیز کو بلا شک و شبہ ثابت کر دیتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا فرد نہایت تیزی سے بدل رہا ہے۔ تبدیلی کے مؤثرات فرد کی اخلاقی اور مذہبی خودی میں نہیں ہیں بلکہ اس سے باہر تاریخ میں منتقل ہو چکے ہیں۔ تبدیلی کے مؤثرات عالمگیر معاشی اور سیاسی نظام سے پیدا ہوتے ہیں، اور ہمارا قومی معاشی اور سیاسی نظام اس عالمگیر نظام کا جز ہے۔ یعنی فرد پر تبدیلی کے لیے جو دباؤ ہے وہ سسٹم سے پیدا ہوتا ہے اور اس تبدیلی کی ترجیحات بھی وہی متعین کرتا ہے۔ اس تبدیلی کا ہدف انسان کی اخلاقی خودی ہے جو جدیدیت کی پیدا کردہ قوتوں کے زیر اثر تحلیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں مذہبی سیاست کے حالات، مدارس کے بارے میں سرکاری اقدامات، اور مذہبی طبقے کے اخلاقی رویوں کے پبلک اظہار سے اندازہ ہوتا ہے عالمگیر نظام کی پیدا کردہ قوتیں اب کس حد تک مؤثر ہو چکی ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مذہب اور مذہبی طبقہ اب کسی تبدیلی کا نمائندہ ہے نہ کسی تبدیلی کی قیادت کر رہا ہے، بلکہ عالمگیر قوتوں کی شرائط اور ترجیحات پر وہ خود تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ تبدیلی کے ہم عصر اور جدید تاریخی مؤثرات کس قدر طاقتور ہیں، اور یہ مؤثرات علی الاطلاق ہیں۔ مذہبی درسگاہ میں اس طرح کے واقعے کا ظاہر ہونا سنگین شناعت لیے ہوئے ہے، لیکن اس سے تجزیے میں کوئی تخصیص نہیں پیدا ہو جاتی کیونکہ اعلیٰ جدید تعلیم گاہیں اب اس تبدیلی کی نمائندہ جگہیں ہیں۔ انفرادی اور سماجی تبدیلی کے جدید مؤثرات اس قدر شدید ہیں کہ اب دیواریں بھی ساتھ ہی گر رہی ہیں، اور اندر کا منظر نامہ سامنے آ رہا ہے۔ اہم پہلو یہ ہے کہ اس واقعے سے مذہبی درسگاہوں کے بارے میں ہمیں کسی نئی بات کا پتہ نہیں چلا اس لیے کوئی نیا فلسفہ بھی اس سے برآمد نہیں کیا جا سکتا۔
برصغیر اور پھر پاکستان میں قائم سیاسی اور معاشی نظام مکمل طور پر استعماری رہا ہے اور تاریخی طور پر ہماری تہذیبی اور دینی اقدار اس اجتماعی نظام سے اول روز ہی سے مکمل طور پر بے دخل چلی آتی ہیں۔ جبر اور استحصال اس کے خمیر میں داخل ہیں، اور حریت انسانی اور عدل اجتماعی کا کوئی پرتو بھی اس نظام میں باقی نہیں ہے۔ اس کا بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کی اخلاقی اور تاریخی ایجنسی کے اظہار کے امکانات معدوم ہوتے چلے گئے، اور روایتی دینی معاشرت بھی نظام کی شرائط پر ڈھلتے ڈھلتے ڈھے گئی۔ فرد تہذیب کا آخری مورچہ ہوتا ہے اور اس کے ڈھینے کا منظر اب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، اور اگر ہماری آنکھیں یہ منظر صرف مدرسے میں دیکھتی ہیں تو پھر وہ بینائی میں بھی خیانت کار ہیں۔ یہ ابھرے ہوئے نئے معاشرے کا منظر نامہ ہے، اور اسے صرف مدرسے سے متعلق کرنے کی کوشش عین انہی حالات کا ساتھ دینے کی روش ہے۔ افلاطون کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ فرد polis کا ننھا منا عکس ہوتا ہے۔ جنسی جرائم سے فرد کے جو احوال سامنے آ رہے ہیں وہ اس اجتماعی نظام کے بالکل مشابہ ہیں۔ وہ جبر جو اس طرح کے جرائم کو ممکن بناتا ہے ہمارے نظام کی فعال روح ہے۔ کیا آج تک پتہ چل سکا ہے کہ زینب کے ساتھ کیا ہوا؟ اس طرح کی ہزاروں بچیوں اور بچوں کے انجام کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر جبر کے ساتھ وسائل شامل ہوں تو جرم چھپ جاتا ہے، ورنہ عبرت کے لیے سب کو میسر آتا ہے۔ زینب کا واقعہ روح کھینچ لینے والا تھا، اور اگر اس سے قوم کو کچھ نہیں ہوا تو اب بھی کچھ نہیں ہو گا۔
(۴) کردار انگریزی لفظ character کا ترجمہ ہے، اور مغربی ادب کے کلاسیکل اور جدید ڈراموں میں مشخص کردہ اور سٹیج پر دکھائے گئے فرضی اشخاص کو کردار ہی کہا جاتا ہے۔ بتدریج یہ لفظ معاشرتی زندگی میں واقعاتی افراد کے ظاہری رویوں اور اعمال کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔ کردار صرف ظاہری شخصیت کا بیان ہے جبکہ تقویٰ اولاً احوالِ ذاتی کا نام ہے جس میں ظاہری مذہبی اعمال اور سماجی رویے بھی شامل ہوتے ہیں۔ بدلتی ہوئی معاشرت کی شرائط پر انسان کی تشکیل کا نام کردار ہے جبکہ دینی اقدار اور مکارم الاخلاق پر انسان کے ڈھلنے کا نام تقویٰ ہے۔ جدید معاشرت میں کردار اور تقویٰ کے تغایرات میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ جدید معاشرت کا تشکیلی اصول حرکت ہے جبکہ دینی معاشرت کا اساسی اصول جغرافیائی مقامیت ہے۔ کردار کی توثیق انسانی ہے، اور اس کا سرٹیفیکٹ بھی لیا جا سکتا ہے جبکہ تقویٰ خدا مرکز ہے۔ اچھا کردار لازمی تقویٰ پر دلالت نہیں کرتا، جبکہ تقویٰ میں اچھے کردار پر لازمی دلالت شامل ہے۔ کردار اپنے افعال و اعمال کی ایسی مینجمنٹ ہے جو انسان کی نجی اور پبلک زندگی میں ایک لازمی دوئی پیدا کر دیتی ہے۔ تقویٰ اس دوئی کو بھی رد کرتا ہے۔ زیربحث واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی افراد بھی اب تقویٰ کے احوال سے خالی ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی زندگیاں بھی کردار کے جدید تصورات کے مطابق بنتی جا رہی ہیں۔
(۵) برصغیر میں گزشتہ دو سو سالہ مسلم تاریخ سیاسی طاقت کے بغیر ہے، اور اس کے ہماری علمی روایت پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہماری خوش فہمی نہیں جاتی کہ طاقت کی عدم موجودگی میں طاقت کے تصورات ٹھیک کام کرتے رہے۔ اس عرصے میں سیاسی طاقت اور شریعت کے زندہ تعامل کا خاتمہ ہو گیا، اور ترکِ شریعت عملاً واقع ہو گیا۔ اس عرصے میں مسلم معاشرے میں علم کا ایک نیا زمرہ (category) سامنے آیا جسے بالعموم ”فکر اسلامی“ سے معنون کیا جاتا ہے۔ ”فکر اسلامی“ کے دو پہلو اہم ہیں: ایک طرف یہ ترک شریعت کو ایک مبہم فکر کے ذریعے مستحکم کرنے کی کارروائی ہے، اور دوسری طرف تاریخ سے مکمل حالتِ انکار قائم کرنے کی علمی کوشش ہے۔ اس فکر اسلامی نے سیاسی عمل کو بھی جنم دیا ہے۔ گزشتہ دو سو سالہ ”فکر اسلامی“ (مثلاً خلافت کے وہابی تصورات، پین اسلامزم، حکومت الہیہ، اقامتِ دین، خاکسار فسطائیت، ”اسلامی“ تجدد، جہاد کے داعشی تصورات، وغیرہ) کے اثرات کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مسلم ذہن کی سیاسی طاقت سے نسبتیں بالکل مسخ ہو کر رہ گئی ہیں، اور ان مسخ شدہ نسبتوں کی فعال موجودگی میں انسان کی اخلاقی تشکیل بھی ممکن نہیں رہتی۔ پاکستان ایک مسلم معاشرہ ہے اور اس میں قائم طاقت کا نظام فطرتِ معاشرہ کا مظہر ہے، بھلے اس میں کتنی ہی خرابیاں موجود کیوں نہ ہوں۔ ”فکر اسلامی“ کا پروردہ ذہن طاقت کے اس نظام کے وجود ہی کو قبول کرنے سے انکاری رہا ہے، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام کی اصلاح کے لیے ثقہ علم سامنے لا کر اسے مرادات شریعت کے مطابق بنایا جائے۔ یہ وقت ہے کہ ہم تکلیف اور استعداد کو بنیاد بناتے ہوئے شریعت کو لازم پکڑیں، اور ”فکر اسلامی“ کی آڑ میں شریعت کے انہدام کے خلاف مزاحمت کا آغاز کریں۔ مسخ شدہ سیاسی تصورات کی موجودگی میں درست عقیدے اور مکارم الاخلاق کی بنیاد پر فرد کی تشکیل ممکن نہیں رہتی۔ ہمارے معاشرے میں سیاسی اور اخلاقی کی جو مکمل دوئی پیدا ہو چکی ہے، اس طرح کے کردار اسی کا اظہار ہوتے ہیں۔