مغربی ٹیکنالوجی: کیڈ نیلسن (مترجمین: احمد جریر باجوہ، رضوان صدیق، اسامہ تاج)
نوٹ: 2009ء میں بلیک ویل پبلی کیشنز کے زیر اہتمام ’’ معاون برائے فلسفہ ٹیکنالوجی ‘‘(A Companion to the Philosophy of Technology) شائع ہوئی۔ اس کتاب میں درج ذیل سات (7) موضوعات کے تحت اٹھانوے(98) مضامین شامل ہیں : تاریخ ٹیکنالوجی ، ٹیکنالوجی اور سائنس ، ٹیکنالوجی اور فلسفہ ، ٹیکنالوجی اور ماحولیات ، ٹیکنالوجی اور سیاست ، ٹیکنالوجی اور اخلاقیات ، ٹیکنالوجی اور مستقبل ۔اس کتاب کے پہلے حصے میں سٹینو ڈیپارٹمنٹ برائے مطالعات ِ سائنس اور تدریسِ سائنس ، یونیورسٹی اوف آرہس (Aarhus)کے صدر ِ شعبہ اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کیڈ نیلسن (Keld Nielsen) نےمغربی ٹیکنالوجی (Western Technology) کو موضوع بنایا جس کو قارئین جائزہ اور اردو دان طبقے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے ۔
مغربی ٹیکنالوجی سے مراد مخصوص ٹیکنالوجیز اور ٹیکنالوجیکل افعال پر مشتمل وہ عظیم الشان ذخیرہ ہے ، جن کی زیادہ تر جڑیں یورپ اور شمالی امریکہ میں ہونے والی ایجادات اور ترقی میں پیوست ہے ۔ بالخصوص چونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ، بیشتر ٹیکنالوجیکل افعال دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں ، لہذا ’’مغربی ٹیکنالوجی‘‘ کے آثار کو دنیا کے تمام براعظموں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔
ٹیکنالوجی جدید مغربی تہذیب کی ترقی ، مغربی انداز ِ فکر اور پیداواری رجحانات کا ایک ناگزیر حصہ ہے جس نے چاردانگ عالم کو اپنے حصار میں لےرکھا ہے ۔
’’ مغرب‘‘ میں جنم لینے والے اوصاف ِ ٹیکنالوجی و ٹیکنالوجیکل افعال اور غیرمغربی کلچروں کے ہاں موجود ٹیکنالوجی کے مابین واضح امتیازات کو قائم کرنا آسان نہیں ہے ۔آئندہ سطور میں بیان ہونے والے مغربی ٹیکنالوجی کے اوصاف اور دنیا کے مختلف کلچرو ں (بشمول ناپید ہونے والے کلچر) کے ہاں ملنے والی ٹیکنالوجی کے مابین مشترکات ہیں ، جب کہ بعض اوصاف کا تعلق خاص مغربی ٹیکنالوجی سے ہے اورنسل انسانی کی کامیابیوں کے باب میں مغربی ٹیکنالوجی کو امتیازی شان عطا کرتے ہیں ۔
درحقیقت، ٹیکنالوجی کے بعض ایسے اوصاف جن کو خاص مغربی ٹیکنالوجی سے منسوب کیا جاتاہے ، وہ ایسے اوصاف ہیں جو دوسرے کلچروں کی ٹیکنالوجی کے ہاں بھی موجود ہیں ۔ ایسے اوصاف کی مثالیں کچھ یوں ہیں:ٹیکنالوجی کی وہ صلاحیت کہ اس کی بدولت شرائطِ زندگی میں کچھ اس طور تبدیلی واقع ہو کہ خوراک کے حصول میں زیادہ آسانی ہو ، نسبتاً زیادہ تحفظ میسر ہو اور زندگی بسر کرنے کے بہتر ڈھنگ کو خوب سے خوب تر بنایا جائے ؛ ان وسائل کی اہمیت جن کے ذریعے توانائی ، ذرائع نقل و حمل ، ذخیرہ اندوزی اور اجتماعی زندگی کے دوسرے بنیادی ڈھانچے ( انفراسٹرکچر ) کی ماہیت میں تبدیلی واقع ہو سکے ، نیز معاشرتی فلاح و بہبود اور اس کی خاطر بروئے کار آنے والی مناسب ٹیکنالوجیز کے مابین قریبی تعلق ؛ طاقت ور (افراد اور ریاستیں دونوں ) کے ہاتھوں اپنی دولت اور مقام و مرتبہ میں اضافے کی خاطر ٹیکنالوجی کا استعمال ، بشمول حکمرانوں یا حکومتوں کی جانب سےبڑے پیمانے پر ہونے والی ٹیکنالوجیکل پیش رفت ؛ طاقت و اختیار یا مذہبی بالادستی کے مظاہرے کی غرض سے ٹیکنالوجی کا علامتی استعمال ؛ ٹیکنالوجی کی متفرق انواع و اقسام کے مابین مسابقت اوراکثر وبیشتر ان کی بیک وقت موجودگی و استعمال ؛ اور دفاع، جارحیت اور تسخیر کے حوالے سے ٹیکنالوجی کا استعمال ۔ یہاں تک کہ ٹیکنالوجیکل ، سماجی اور کلچرل دائروں کے مابین قریبی ربط و ضبط جو جدید مغربی معاشرے میں صاف دکھائی دیتا ہے ، وہ بھی دوسرے کلچروں اور معاشروں کے ہاں ٹیکنالوجی کے ایک امتیازی وصف کی حیثیت سے دکھائی دیتا ہے ۔
تاہم بعضے اوصاف ایسے ہیں جو زمانہ قریب کی ’’ مغربی ‘‘ ترقی کے ساتھ مخصوص دکھائی دیتے ہیں ۔ مغربی ٹیکنالوجی کے سب سے زیادہ غیرمعمولی اوصاف میں سے کچھ درج ذیل ہیں: بھاپ سے چلنے والے سٹیم انجن اور حرارت سے چلنے والے انجن (combustion engine) کے ذریعے زمین میں مدفون رکازی ایندھن (fossil fuel) سے میکانکی توانائی کو اخذ کرنے کی صلاحیت ؛ ذرائع نقل و حمل ، پیداواری سہولیات اورصارفین کی بڑی تعداد تک مصنوعات کی ترسیل کی غرض سے وضع ہونے والے عمدہ سسٹمز کےساتھ خام مال کو جوڑنے کی بدولت بڑے پیمانے پر پیداوار کا حصول ؛ ٹیکنالوجیکل معیارات اور اشیاء کی قدروپیمائش کی خاطر یکساں سسٹم (نظام) کا بڑے پیمانے پر استعمال ؛ آلات سازی اور صنعت سازی کےحوالے سے میکانکی درستی میں روز افزوں اضافہ ؛ سرمایہ اور سرمایہ کاری کے ساتھ گہرا اور فعال تعلق ؛ مصنوعات (پراڈکٹس) اور صنعتی طریقہ ہائے کار کی ترقی میں سائنسی علم کا استعمال ؛ اور تحقیق و ترقی میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی بدولت اشیائے صرف کی تجدید ِ نو کو ترجیح دینا ۔ ٹیکنالوجی کے وسیع تر استعمال بالخصوص ’’ مغربی ‘‘ نتائج کے سبب ہی زمین کے موسمی اور ماحولیات نظام (سسٹم ) میں بڑے پیمانے پر خلل ڈالنے کی اہلیت بھی شامل ہے ، نیز جوہری یا حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کی بدولت بڑے پیمانے پر نسل ِ انسانی کو ملیامیٹ کرنے کی اہلیت بھی مغربی ٹیکنالوجی کے وسیع تر استعمال ہی کا شاخسانہ ہے ۔
معاصر کلچروں کے ٹیکنالوجیکل پس منظر کے تحت یہ ایک کھلا سوال ہے کہ تاریخ کے کس لمحے میں مغرب کے ہاں ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایک منفرد روپ دھار لیا ۔ قرون وسطیٰ(چھٹی صدی عیسوی تا چودھویں صدی عیسوی) کو اکثر بیشتر وہ زمانہ قرار دیا جاتا ہے جس میں جدید مغربی معاشرے کی ثقافتی، معاشی اور سیاسی بنیادیں موجود ہیں۔ تاہم قرون وسطیٰ کے دوران ہونے والی اہم ترین ٹیکنالوجیکل ترقیوں ، مثال کے طور پر بھاری ہل کے ذریعے زرعی طریقوں میں دور رس ترقی ،آبی قوت کےزیادہ استعمال ، یا عظیم الشان کیتھڈرل (گرجا گھروں) کی تعمیر کو دیکھا جائے تو دوسرے عظیم الشان ٹیکنالوجیکل کلچروں کے مقابلے میں صرف مقدار کا فرق محسوس ہوتا ہے ، نہ کہ جوہری اعتبار سے ۔ قرونِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی دوسری نمایاں اختراعات مثلاً چرغہ (spinning wheel)، کاغذ، عربی اعداد ، پرکار (کمپاس )، بندوقیں اور بارود جیسی اشیاء، باہر سے درآمد ہوئیں ۔ مقامی اعتبار سے غیرمعمولی ایجادات میں گھوڑے کے قلاوے (Horse Collar)(نویں صدی عیسوی میں ایجاد ہوا)، عینک (تیرھویں صدی عیسوی )، اور وزن کے بل بوتے پر چلنے والی میکانکی گھڑی (تیرھویں صدی عیسوی) شامل تھیں ۔ اس پس منظر کے تحت دیکھا جائے ، تو مغربی ٹیکنالوجی کے حوالے سے اہم ترین پیش رفت بڑے پیمانے پر تجارت و صنعت ِ دستکاری کو پروان چڑھانے والی خودمختار یا نیم خودمختار شہروں میں اضافہ تھا ۔ تنظیموں (گلڈز)، ہنرمند دستکار، سیاح اور شاگردوں جیسے نابغوں کی بدولت ہنرمندانہ تجارت میں اضافہ ہوا ۔ بعینہ ، اون اور رنگ سازی کی صنعتوں میں محنت و محنت کش کی تقسیم اور مرحلوں کو شامل کرتے ہوئے پیداوار کے نئے طور طریقوں کو عروج نصیب ہوا ۔تجارت ، تعمیر اور پیداوار کے حوالے سے ترسیل ِ زر کو آسان بناتے ہوئے بینکاری وجود میں آئی ۔ اور نئی تجارتی کمپنیوں نے ڈبل انٹری کھاتوں (double-entry bookkeeping) کو استعمال کرنے کا آغاز کیا ۔
تاہم ،(پندرھویں صدی تا سترھویں صدی عیسوی کے دوران ) نشاۃ ثانیہ میں ایسی اختراعات منظرِ عام پر آئیں جو عالمی تناظر میں بھی شاندار حیثیت کی مالک تھیں ۔ (ان میں سے )ایک ایجاد گردشی چھاپہ خانے کی مشین (movable type press) تھی جس کو 1450ٰ کے لگ بھگ یوحنا گوٹن برگ (Johannes Gutenberg) نے ایجاد کیا ۔ اس سے پہلے کوریا میں ایسی ہی ایک مشین استعمال ہو چکی تھی لیکن اس نے کلچر اور تکنیکی ترقی پر وہ اثر نہیں چھوڑا جو ہمیں یورپ میں نظر آ سکتا ہے ۔بعد ازاں ، کتابوں کی چھپائی نے ٹیکنالوجی کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا کہ اس کی بدولت ٹیکنالوجی کا علم خوب پھیلا ۔ سولہویں صدی عیسوی میں مشینوں اور تکنیکی افعال (پروسث) کو تفصیل مہیا کرنے والی کتابوں میں تصویروں اور دوسری اشکال بھی اکثروبیشتر استعمال ہوتی تھیں ۔ اس امر نے مخصوص ٹیکنالوجیکل تفاصیل سے متعلق جانکاری کی نشرواشاعت کو ممکن بنا دیا نیز انجیئنرون اور دوسرے ماہرین ٹیکنالوجی کے واسطے ایک نامعلوم علمی ذخیرے کو جنم دیا ۔ اس کی بدولت یہ بھی ممکن ہوا کہ جغرافیائی علم اور نیچر (فطرت) سے متعلق دوسرے علوم کو ایک مبسوط اور منظم انداز میں نشرواشاعت ہو سکے نیز ان کو محفوظ کیا جا سکے ۔ چنانچہ علم و تحقیق کے طریقہ ہائے کار جنھیں سائنسی انقلاب کہتے ہیں ، ان کی ترقی کو جانے والے راستہ کھلا ۔
سمندروں پر مغربی اقوام کی اجارہ داری ایک دوسرا عالمی سطح کا واقعہ تھا ، جس کی شروعات پرتگال اور اندلسی (سپینی) تاجروں اور کشتی رانوں کے ذریعے ہوئی ، ولندیزی اور انگریز بھی جلد ہی ان کے پیچھے پیچھے اس میدان میں کود پڑے ۔ تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ سب اس وقت ممکن ہوا جب بحری جہاز وں کے واسطے مستول کی تعداد و صلاحیت میں اضافہ ہوا ، وہ بارودی ہتھیاروں کے ساتھ لیس ہوئے ، اور پرتگالی فلکیات دانوں کی تحقیقات کے ذریعے جہاز رانی کے واسطے نئے فلکیاتی طریقہ ہائے کار وجود میں آئے ۔ مذکورہ واقعہ ،سائنسی علم کو ٹھوس شکل میں بدلنے اور دنیا بھر میں اس کو پھیلانے کے واسطے مغربی ٹیکنالوجی کی غیر معمولی صلاحیت کے حوالے سے ایک ابتدائی مثال کی نشان دہی کرتا ہے ۔
تعمیرات کے واسطے مخصوص ایجادات یا تکنیکوں کو استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھانےکا آغاز بھی پندرھویں صدی میں ہوا ، جس نے بعد ازاں ، پیٹنٹ (سند حقِ ایجاد) کی صورت اختیار کر لی تاکہ ٹیکنالوجیکل اختراعات کے مالکوں کو تحفظ دیا جا سکے ۔
نشاۃ ثانیہ کے دوران کا ن کنی کے طریقہ ہائے کار، دھاتوں کی کشیداور اخراج ،بارودی ہتھیاروں کے ڈیزائن و استعمال ، قلعہ بندی (fortification)، بحری جہازوں کے ڈیزائن و استعمال نیز بندرگاہوں ، نہروں اور پلوں کی تعمیر کے باب میں مختلف ٹیکنالوجیکل پیش رفت کا استعمال بتدریج ہوا ۔ بہت سی پیش رفت کا تعلق مستحکم قومی ریاستوں کی خاطر فوجی طاقت میں اضافہ کے ساتھ تھا جس کی بدولت سترھویں صدی میں بیشمار مستقل فوج کے حوالے سے خوب سرمایہ کاری ہوئی ۔ ترقی کی دیگر صورتیں بھی شبانہ روز ترقی پذیر عالمی معیشت کے ہمراہ منظرعام پر آئیں جس نے سترھویں صدی کے اختتام کے قریب نیدر لینڈ میں ایک نیا مرکز قائم کر لیا ۔ اجناس کی منتقلی نیز سٹاک ایکسچینج جیسی اختراعات اور جہازرانی میں پیش رفت پر استوار نیٹ ورک کی بدولت ، ولندیزی جمہوریہ عالمی تجارت کا مرکز بن گئی ۔
اٹھارویں صدی کے دوران تھامس نیوکومین (Thomas Newcomen)اور جیمز واٹ (James Watt) جیسے ماہرین صنعت نے بھاپ سے چلنے والے سٹیم انجن کو ایجاد کیا نیز اس کو بہتر بنایا ، جس نے لکڑی ، کوئلہ اور تیل کی صورت میں جمع ہونے والی شمسی توانائی کو میکانکی حرکت میں تبدیل کرنے کو ممکن بنا دیا ۔ اس کے بعد ہونے والی ایک پیش رفت بھاپ سے چلنے والی ٹربائنوں ، حرارت سے چلنے والے انجنوں اور جیٹ انجنوں کی جانب لے گئی جو توانائی کو میکانکی حرکت میں تبدیل کر نے کا ہی کام انجام دیتے تھے ۔حرارت سے چلنے والے ایسے انجنوں کے ظہور سے قبل ، توانائی کے حصول کا مرکزی ذریعہ انسانی یا حیوانی قوت کی صورت میں قیمتی ہوتا تھا کیونکہ ان کو خوراک مہیا کرنا لازم ہے ۔ علاوہ ازیں ، توانائی کے فطری ذرائع (آبی یا ہوائی ) بھی عملی مقاصد کے تحت محدود تھے ۔ پانی سے حاصل ہونے والی قوت کا تعلق مخصوص مقامات سے بندھا ہوتا تھا اور اس کو جغرافیائی اعتبار سے بڑے پیمانے پر نہیں پھیلایا جا سکتا تھا ۔ ہوا سے حاصل ہونے والی کتاب کو پن چکیوں (windmills) کے ذریعے حاصل کیا جاتا تھا لیکن اس کی پیداوارمستقل نہ تھی نیز بہت زیادہ سرمائے کی متقاضی تھی ۔ نئے انجنوں اور سستے رکازی تیل (فوسل فیول) کے ساتھ مغربی ٹیکنالوجی نے ٹیکنالوجیکل سرگرمیوں کے پھیلاؤ کی راہ میں حائل اس عالمی رکاوٹ کو ختم کر دیا ۔ انیسیویں صدی کے دوران حرارت سے چلنے والے انجن عظیم الشان ٹیکنالوجیکل ترقی کے باب میں مرکزی حیثیت کے حامل تھے ۔ فیکٹریوں اور دیگر پلانٹس میں بننے والی مصنوعات نے ریل گاڑی اور دخانی جہازوں کو نقل و حمل کے ذرائع کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ظہور اور بعض یورپی ممالک کو صنعتی پیداوار کے حوالے سے بڑی طاقتوں کی حیثیت کو ممکن بنا دیا ۔
ایسی تبدیلیوں کے اندر مغربی ٹیکنالوجی کے مخصوص امتیازی اوصاف موجود تھے ۔ بہت سی نئی مشینوں بشمول سٹیم انجن ، جو اس اعتبار سے خود کار تھے کہ ان میں آغاز ہی سے جیمز واٹ کے فیڈ بیک ریگولیٹر کی مانند ایک کنٹرو ل میکانزم موجود تھا ، وہ اپنے افعال کے انتظام و انصرام کی خاطر والوؤں (valves) کو بدلتے، لیور کو اوپر نیچے کرتے یا ٹریگر ز کو حرکت دیتے تھے ۔ انیسویں صدی کے نصفِ اول میں میکانکی کھڈی (loom) بن گئی ، جوخودنظمی (self-regulation)کے ذریعے وہ افعال سر انجام دیتی تھی جو اس سے پہلے صرف ایک ماہر دستکار کے ہاتھوں ہی انجام پاتے تھے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اناڑی مزدو ر ان مشینوں کو استعمال کر سکتے تھے ، ان مشینوں کی لاگت تھوڑی تھی ، اور تبدیل شدہ پیداواری ماحول کی نگرانی آسان تر تھی ۔
نئی مشینوں کی صناعت (تیاری) اس پیش رفت کی بدولت ممکن ہو ئی کہ ’’ مشینوں کو بنانے واسطے مشینیں ‘‘ وجود میں آ گئیں یعنی ڈرلنگ مشینیں ، خراد اور پرزوں کی تراش خراش کے واسطے مشینیں اور پیمائش کے واسطے نسبتاً زیادہ بہتر آلات ۔ پیچ کی چوڑی /گردش جیسا کہ جوزف وِٹورتھ نے 1841ء میں متعارف کروایا ، اس کے واسطے ایک مشترکہ معیار کی خاطر تجاویز بھی اسی منزل کی جانب ایک پیش رفت تھی کہ زیادہ سے زیادہ یکسانیت اور جزرسی (precision) حاصل ہو پائے ۔ ایک زیادہ منظم و مربوط ٹیکنالوجیکل علم کی ضرورت اس وقت پوری ہوئی جب یورپ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مخصوص ووکیشنل سکولوں اور انجیئنرنگ کالجوں کو بڑی تعداد میں قائم کیا گیا ۔
انیسویں صدی کے وسط ہی میں ایک تیسری پیش رفت ہوئی جو پہلے تو رائفل بنانے سے متعلق تھی ، اس کے ذریعے میکانکی آلے کے ایک جزو کو اس قدر صفائی (جز رسی) کے ساتھ بن سکتا تھا کہ ایک پرزے کی جگہ پر کوئی دوسرا پرزہ بھی نصب ہو سکتا تھا ۔ اس سے قبل ، ہر ایک پرزے یہاں تک کہ پیچ (screws) بھی الگ ہی بنتے اور نصب ہوتے نیز ایک پرزے میں استعمال ہونے والا پیچ کسی دوسرے پرزے میں تراش خراش کے بغیر نصب نہیں ہو سکتا تھا۔ مذکورہ نئے سسٹم کو ’’امریکن سسٹم برائے مینوفیکچر‘‘ کے نام سے شہرت ملی ۔ 1860ء کی دہائی میں اس کو سلائی مشین بنانے کی صنعت اور میکارمک کی بنائی ہوئی زرعی مشینری میں استعمال کیا گیا ، اور اب وسیع پیداوار کی تمام تر جدید صورتوں کے لیے اعلیٰ ترین جزرسی (precision) اور پرزوں کی ادلا بدلی ناگزیر ہے۔ اسی سمت میں ایک نمایاں پیش رفت اس وقت ہوئی جب فورڈ آٹوموبائلز نے 1914ء میں جمع کاری سلسلہ برائے پیداوار (assembly-line production)کو متعارف کروایا ۔ 1970ء کی دہائی کے اخیر سے صنعتی پلانٹس میں روبوٹس کو متعارف کروانے کی صورت میں ایک تیسری پیش رفت ہوئی ۔ 1950ء کی دہائی سے لیکر اب تک کارسازی کی صنعت میں جاپانیوں کی کمال مہارت کو ’’ Lean manufacture‘‘ منہاج کہتے ہیں ، جو عقلی اور منظم بہتری کی جانب پیش رفت کی ایک علامت ہے ۔ تاہم Lean manufacture اس امر کی یاددہانی بھی ہے کہ ’’ مغربی ‘‘ ٹیکنالوجی کی ترقی اب صرف مغرب تک محدود نہیں ہے ۔
تحریک ِ تنویر کی سائنسی اور ٹیکنالوجیکل بحث میں اس موضوع کا اعادہ ہوتا تھا کہ نئی ٹیکنالوجی کی ترقی میں سائنسی نتائج کے اطلاق کے ذریعے سائنس کو کارآمد بنایا جائے ۔ سترھویں اور اٹھارویں صدیوں کے دوران ، بہت سے سائنس دانوں کو انفرادی حیثیت سے تکنیکی منصوبوں کے لیے بطور مشیر اور مشینی پرزوں کے نقائص کو ٹھیک کرنے کے ماہر کے طور پر ملازمت پر رکھا جاتا تھا ، تاہم سائنس کو ایک منظم اور کارآمد طریقے سے شامل کرنے کی بابت کچھ معلوم نہیں ہوا ۔ فی زمانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مابین موجود مضبوط تعلق ، پہلی مرتبہ انیسویں صدی کے اندر صنعت کیمیا میں نہایت کارآمد طریقے سے بروئے کار آیا ۔ 1855ء کے بعد سے ، یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ماہرین کیمیا نے ٹیکسٹائیل کی صنعت کے واسطے رنگ سازی کرنے کے لیے مختلف طریقہ کار وضع کیے ، آغاز میں حادثاتی طور پر جب کہ بعد ازاں منظم انداز میں ۔ صدیوں سے رنگ سازی کا کام نامیاتی طریقے سے کیا جاتا تھا ، لیکن اب رنگوں کےبڑھتے ہوئے وسیع تر سلسلے کو کیمیائی فیکٹریوں میں نہایت ارزاں نرخوں پر بنایا جا سکتا تھا۔ کیمیا سازوں کے مابین ایک دوڑ چھڑ گئی اور اس حوالے سے جرمن کمپنیاں جلد ہی آگے نکل گئیں ۔ انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں انہوں نے یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ماہرین کیمیا کو ملازمت پر رکھنے کی بدولت اپنی سبقت کو برقرار رکھا نیز ان کو ایسے کمروں میں کام کرنے کی اجازت دی جو یونیورسٹیوں کی معمل گاہوں (لیبارٹریوں) سے مشابہ تھے ؛ صنعتی تحقیق اور پیدواری لیبارٹری متعارف ہو چکے تھے ۔پچھلے سو برسوں میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہونے والی اہم دریافتوں کی کثیر تعداد کی بنیادیں بیشمار تحقیقی اور پیداواری لیبارٹریوں پر استوار ہے ۔ بعض میں حکومتی تنظیمیں براہ راست سرمایہ کاری کرتی ہیں ، اور بعض میں بڑی کمپنیاں خود سرمایہ کاری کرتی ہیں ، خواہ ان کا تعلق الیکٹرونکس ، ادویات ، ہتھیار سازی یا کسی بھی قسم کی جدید ٹیکنالوجی سے ہو ۔
انیسویں صدی کے اخیر میں ’’جدیدیت‘‘ کی ایجاد کے ساتھ ہی ٹیلی فون ، برقی توانائی کی تقسیم ، ریڈیو، کار، ٹربائن سے چلنے والے سبک رفتار بحری جہازاور ہوائی جہاز جیسے نئی حیرت انگیز ٹیکنالوجیز بھی منظر ِ عام پر آئیں ۔ ہسپتالوں میں سائنس کے بل بوتے پر ایکس ریز، الیکٹروریڈیو گراف جیسی طبی ٹیکنالوجیز اور نئی ادویات متعارف ہوئیں ، جن کے ہمراہ مختلف بیماریوں کی جرثومی (bacteriological) اور وبائی (viral) بنیادوں کے بارے میں نئے تصورات بھی سامنے آئے ۔ سائنس ، ٹیکنالوجی اور ترقی ایک دوسرے کے کھرے ہمراہی دکھائی دیے۔ تاہم ، پہلی جنگ عظیم کے دوران زہریلی گیسوں ، مشین گنوں ، عمدہ توپ خانے ، آبدوزوں ، ریڈیو ٹیلی فونوں ، اور ہوائی جہازوں کی بدولت جدید ٹیکنالوجی نے اپنی تباہ کن جہت کو خوب آشکار کیا ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ، تمام فریقین نے ہتھیاروں اورحفاظتی اقدامات کی ایجاد اوران میں بہتری لانے کی غرض سے سائنس دانوں کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا ؛ جوہری بمبوں ، جیٹ جہازوں ، بیلسٹک میزائلوں ، ریڈار ، گندھک سے بنی ہوئی ادویات (Sulphur drugs) اور پنسیلین کو زیادہ شہرت نصیب ہوئی ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں فوجی مقاصد کی خاطر نئی ٹیکنالوجیز کو بنانے اورترقی دینے کے لیے ہونے والی سائنسی تحقیق میں کامیابی نے بڑے پیمانے پر فوجی اور سول آلات مثلاً سالڈ سٹیٹ الیکٹرونکس ، کمپیوٹر کنٹرول اعدادوشمار، ڈیجیٹل کمپیوٹر، انترنیٹ اور جوہری توانائی کے واسطے ٹیکنالوجیکل تحقیق و ترقی کے راستے کھول دیے ۔ امریکی دفاعی بجٹ کے بل بوتے پر چلنے والے ٹیکنالوجیکل مصنوعات کے منصوبوں نے پچھلے پچاس برسوں میں بننے والی مغربی ٹیکنالوجی پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے ۔
تیسرے ہزاریے (میلینیئم ) کے آغاز میں مغربی ٹیکنالوجی سے قربت کے حامل لوگوں کی زندگیاں ، بہت زیادہ ٹیکنالوجیکل سسٹم کے حصار میں اور ان پر انحصار کرتے ہوئی بسر ہوتی ہیں ۔ شہروں میں پینے کا پانی ، نکاسی آب(سیوریج) ، گیس و بجلی کی دستیابی اور ٹرانسپورٹ کے شانہ بشانہ ٹیلی فون ، ریڈیو، ٹیلی ویژن ا ور انٹرنیٹ جیسے انفارمیشن سسٹم بھی موجود ہیں ۔ موسمی صورتحال ، آلودگی پر نگاہ رکھنے والے، دوسرے ملکوں کے ساتھ ترسیلِ زر ، کریڈٹ کارڈ کے استعمال، کرنسی اور سٹاک ایکسچینج کے بارے میں معلومات کا تبادلہ ، ہوائی آمدورفت کی دیکھ بھال ، فضائی رقبہ (ایئر سپیس ) جیسے پس پردہ رہنے والے لیکن یکساں اہمیت کے حامل سسٹم بھی موجود ہیں ۔ مذکورہ نظام (سسٹم ) ایک دوسرے سے تعامل کرتے ہیں کیونکہ سبھی برقیات (electricity) کو توانائی کے حتمی ماخذ کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں ، اور اس وجہ سے بھی کہ سبھی اپنی اپنی دیکھ بھال اورتنظیم کے واسطے ایک دوسرے سے جڑے کمپیوٹر (نیٹ ورکس) پر انحصار کرتے ہیں ۔ اسی اثناء میں ہوائی آمدورفت کا عالمی نظام ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے ، راستوں پر کاریں لوگوں اور سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں ، اور بحری جہازشبانہ روز بڑھتی ہوئی تعداد میں سمندروں کے راستے خام مال اور تیار کردہ مصنوعات کوآجر سے مارکیٹ تک پہنچا تے ہیں ۔
جدید ٹیکنالوجی کے سب سے نمایاں اوصاف میں اس کا پھیلاؤ اور حجم ، نفوذ پذیری ، پیچیدگی اور اپنی آپ کو مستقل تغیر میں رکھنے کی صلاحیت کا شمار ہوتا ہے ۔مغربی ٹیکنالوجی کے بغیر جدید مغربی طرزِ حیات ، صحت اور فلاح و بہبود کا تصور محال ہے ۔ تاہم مغربی ٹیکنالوجی بیشمار نقصانات کی حامل بھی ہے ۔ ماضی میں اس کی نفوذ پذیری اور عالمی سطح پر پھیل جانے کی صلاحیت نے بڑے پیمانے پر غلاموں کی تباہ کن تجارت کی غرض سے ایک پس منظر کو جنم دیا ۔ بعد ازاں ، ٹیلی گراف ، دخانی کشتیوں ، کارآمد بندوقوں ، اور ریلوے نے مغربی سامراجیت کی معاونت کی ۔ اس نے معاشی اور انسانی استحصال کو ممکن بنایا نیز مغربی تہذیب و ثقافت کی برتری کے ناپسندیدہ احساس کو جنم دیا ۔ اور ، اگرچہ جنگ ایک ایسی تازہ سرگرمی نہیں ہے جس کا محرک یا جس کے امکان کو مغربی ٹیکنالوجی ثابت کرتی ہے ، تاہم جدید ’’ہمہ گیر ‘‘ (total) جنگ جس میں لڑنے والوں کے مقابلے میں عام آبادی زیادہ متاثر ہوتی ہے ، اس کے پس پردہ مغربی ٹیکنالوجی کا ہونا یقینی ہے ۔
عالمی سطح پر پھیل جانے والی مغربی ٹیکنالوجی کی بدولت سامنے آنے والا ایک بہت بڑا چیلنج (چنوتی ) دنیا کے مختلف علاقوں کے مابین شدید معاشی تفاوت ہے ، جن میں سے بیشتر علاقوں کے ہاں یکساں انفارمیشن سسٹم موجود ہے اور ایک جیسی معلومات تک رسائی بھی ہے ، تاہم معیارِ زندگی اور دولت میں وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ۔ذرائع نقل و حمل اور پیداوار کو آگے بڑھانے کے واسطے رکازی تیل کے بے تحاشا استعمال کے ذریعے وقوع پذیر خوفناک موسمیاتی تبدیلیاں ایک دوسرا تشویش ناک چیلنج ہے ۔