’مولانا‘ فاؤسٹ کے رامشگر کی کلپنا (تیسری اور آخری قسط) ۔ تحریر: محمد دین جوہر

 In تنقید
[جناب عاصم بخشی کے ایک مضمون ”حریف جدیدیت کا فاؤسٹ اور تنقید کی گریچن“ کے جواب میں جناب محمد دین جوہر کی تحریر جائزہ کے صفحات پہ پیش کی جا رہی ہے۔ اس تحریر کی تیسری اور آخری قسط حاضر ہے۔ مدیر]

ضمیمہ دوم: حقائق سے دقائق تک

اگر یہ عنوان ناپسند ہو تو اسے ”اساسی تصورات/وجودی موقف/وجودیات سے ٹیکنیکل مباحث تک“ کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔ بخشی صاحب کا مضمون پڑھ کے مجھے جارج اسٹائنر کی کتاب Language               and               Silence یاد آ گئی جو یونیورسٹی کے زمانے میں پڑھی  تھی۔ اس کا exact حوالہ تو مجھے یاد نہیں، حافظے سے لکھ رہا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ:

Every         year         about         forty-five         thousand         doctoral         dissertations         are             written         in         the         West,         and         this         does         not         include         those         written         in         the         East.     And         they         are         not         worth         the         paper         they                 are         written         on.

یہ مقالہ جات بھی ویسے ہی ہوتے ہیں جیسا بخشی صاحب کا مضمون ہے۔ انہوں نے علمی جینیات اور طریقیاتی منہج کا کافی ڈھول پیٹا ہے، لیکن مجھے شبہ ہے کہ وہ ان فنون کو استعمال کرتے ہوئے کسی بنیادی تصور کے علوم میں جڑ پکڑنے، نمو پانے اور ثمرآور ہونے کے مراحل کو دکھانے کی استعداد رکھتے ہیں۔ وہ بنیادی اور اساسی تصور ہی کے چہرہ شناس نہیں ہیں جس کی تصریفاتی دُم کو وہ فنی چابک دستی سے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو حال انہوں نے فاؤسٹ کی تمثیل کا کیا ہے وہی حشر ٹیکنیکل مباحث کا کیا ہے۔

علمی جینیات ایک نئی چیز ہے اور اس کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب تہذیب کے اساسی تصورات، متداول علمی شعور اور اس کے حاصلات علم کے مابین نسبتیں طوالت زمانی کی حامل، تہہ در تہہ، پیچیدہ، اور مدھم یا اوجھل ہوتی چلی جائیں۔ علمی جینیات ان بنیادی تصورات کی جزیات میں استحضار آوری کا کام کرتی ہے۔ علمی جینیات کسی تہذیب کے بنیادی تصور کے انسانی شعور میں جڑ پکڑنے سے لے کر اس کے ہمہ قسم علوم میں بار آور ہونے تک کا قدم بہ قدم فلسفیانہ محضرنامہ ترتیب دیتی  ہے۔ ہر تہذیب کے بنیادی تصورات بدیہی معلوم کی حیثیت رکھتے ہیں، اور جدیدیت ایک ورلڈ ویو کے طور پر مغربی تہذیب کی اساس اور بدیہی معلوم ہے اور ہمارا جھگڑا اس کے بنیادی قضایا ہی سے ہے، جو ہماری رائے میں مذہب کی عین ضد ہیں۔ ہر تہذیب کا تاریخی اور ثقافتی سیاق و سباق، زبانوں کا عمومی مزاج اور ثقافتی افتاد و ضروریات، علمی جینیات میں بہت بنیادی رول ادا کرتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک ٹیکنیکل کارگزاری ہے اور یقیناً ہنرمندی اور کاریگری کا مظہر ہوتی ہے لیکن اس کے اطلاقات علمی دیانت کا تقاضا کرتے ہیں۔

گزارش ہے کہ تہذیب کے بنیادی تصورات، علم اور عمل میں بار آور ہوتے ہوتے اپنی مبادیات اور منتہی حاصلات میں ایک فاصلہ پیدا کر لیتے ہیں اور ان کا باہمی تعلق دھندلا جاتا ہے۔ مختلف شعبہ ہائے علوم میں علمی جینیات کی ذمہ داری یہ ہے علم کی جزیات میں اساسی تصور/تصورات کی موجودگی کی نشاندہی کرتی چلی جائے، تاکہ علم اور وجودی موقف میں نسبتوں کو آگہی کے دائرے میں زندہ رکھنا ممکن بنایا جا سکے۔ یہی صورتحال طریقیاتی منہاج کی ہے جو praxis کے دائرے میں وجودی موقف اور عمل کی نسبتوں کا مستقل استحضار رکھنے کے اسالیب سامنے لاتا ہے۔ علم اور عمل میں لاوارث جزیات تہذیب کی decadence کا اور آخرکار انہدامِ علم کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔

حقائق، اقدار یا اساسی تصورات کا علم اور عمل کے دقائق تک سفر ان کی تقدیر ہے۔ بنیادی تصورات پر قرار پکڑنے کے بعد یہ ہو نہیں سکتا کہ انسانی شعور ان کی دقیقہ رسی کے کام سے غافل ہو جائے۔ بنیادی تصورات سے وفاداری ہی کا تقاضا ہے کہ ان کو انسانی شعور کی ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی سرگرمی کی بنیاد بنا دیا جائے تاکہ حاصلاتِ شعور اس بنیادی تصور سے نہ صرف اپنی نسبتیں قائم رکھیں بلکہ ان کی حاکمیت سے باہر نہ نکل سکیں۔ یہی صورتحال عمل کے حوالے سے طریقیاتی منہج کی ہے، اور جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اس تہذیب میں واقع ہونے والا ہر انفرادی اور اجتماعی عمل اس بنیادی تصور سے جڑا رہے، اپنے ہر پہلو میں اس بنیادی تصور کو سموئے ہوئے ہو، اور کوئی انفرادی یا اجتماعی عمل اس بنیادی تصور سے باہر نہ جا سکے۔ ہمارا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ مغرب کی پیدا کردہ جینیات اور منہج کا ایک ضمنی مقصد ہمارے بنیادی مذہبی اور ثقافتی تصورات کو رد کرنا نہیں ہے، بلکہ ان کی گنجائش ہی کا خاتمہ کر کے ان پر گفتگو کے امکان ہی کو ناقابل تصور بنانا ہے۔ ٹیکنیکل مباحث تہذیب کے داخلی علوم میں رائج الوقت سکے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن اساسی تصورات کو نظرانداز کر کے فنی مباحث پر زور دینے سے مقصد اس قبیل کے لوگوں کے ہاں ردِ مذہب نہیں ہوتا کیونکہ رد کے لیے کسی چیز کا ہونا تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ ٹیکنیکل مباحث سے ان لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ غیر مغربی بنیادی تصورات پر گفتگو کے امکان کا خاتمہ ہو جائے۔

اساسی تصورات یا حقائق جب دقائق کی طرف سفر کرتے ہیں تو اس میں رطب و یابس سب شامل ہوتا ہے۔ اس میں یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہو سکتا ہے کہ سوئی کے ناکے پر کتنے فرشتے سما سکتے ہیں اور Sokal’s         Hoax جیسی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے، اور یہ قطعی معمول  کی باتیں ہیں۔ علم کے اندراس (obsolescence) کا مسئلہ بھی دقائق رسی اور فنی مباحث سے پیدا ہوتا ہے۔ علم اور عمل کے ٹیکنیکل مباحث بہت تیزی سے نمودار ہوتے اور مندرس ہو جاتے ہیں۔ علم کی ترقی اور توسیع میں بھی فنی مباحث بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن اس سے مفر نہیں کہ مغربی جینیات اور طریقیاتی منہج کا حاکمیتی تصور جدیدیت ہی ہے اور یہ اسی کے علمی ٹولز ہیں، اور اسی کی خدمت گار ٹیکنالوجیز ہیں۔ مغربی جینیات اور طریقیاتی منہج سے یہ توقع کرنا کہ وہ ہمارے عقائد اور شرعی احکام کی علم اور عمل میں actualization کے لیے بھی بروئے کار لائے جا سکتے ہیں، محض خود فریبی ہے۔ فنی مباحث کا بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسانی شعور کا کوئی گوشہ اور انسانی عمل کا کوئی جُزو اساسی تصورات کے سائبان سے باہر نہ چلا جائے اور ان کے تحت میں خود کو ظہور میں لائے۔ ہمارے ہاں فقہ میں عین یہی صورت حال سامنے آئی کہ شروع میں چند ایک کتابیں تھیں جبکہ متاخر زمانے میں فقہی کتابوں کے انبار کے انبار لگتے چلے گئے۔ علم اور عمل کے تاریخی میلان میں ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ علم کی ہر کل کو اور عمل کے ہر جز کو اساسی تصورات کے تابع رکھا جائے۔

جدیدیت کے معنوی تعینات کے ضمن میں بخشی صاحب نے ترجمے کی جن تحدیدات کا ذکر فرماتے ہوئے ہمارے خطیبانہ انداز پر چوٹ کرنے کی کوشش کی ہے اسے محض ان کی نادانی پر ہی محمول کیا جا سکتا ہے۔ فرماتے ہیں:منہج فکر یا طریقیاتی تناظر میں تصورات کی بحث اپنی اساس میں لسانیات ہی کی بحث سے جنم لیتی ہے۔ جدیدیت جیسے غیرمقامی سیاسی و سماجی تصورات دوسری زبانوں اور دوسرے معاشروں تک پہنچتے پہنچتے اپنی اصل سماجی اشتقاقیات سے کٹ جاتے ہیں۔ یوں ترجمہ صرف لسانی اعتبار سے ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقلی نہیں بلکہ تہذیبی اور سماجی اعتبار سے بھی اپنی اصل سے ایک فاصلے پر ہٹ جانے کا مظہر ہوتا ہے۔ تنقید کے وہ نابینا طریقیاتی منہج جو مقامی تہذیبوں میں ترجمے کے بعد غیرمقامی تصورات کی چنیدہ تعریفات کو ہدف بناتے ہیں دراصل اپنی تنقید کے لیے بھی انہیں غیرمقامی تتہذیبی کے علمیاتی ڈھانچوں [کے] آگے کشکول کھنکھناتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ تمام تنقیدوں کا مبسوط احاطہ اور ان پر جاری مباحث کا فوری مطالعہ ممکن نہیں ہوتا لہٰذا مخاطبین کو عمومی طور پر باور کروایا جاتا ہے کہ یہ تعریفات علم سیاسیات یا علم سماجیات میں ’مشہور و معروف‘ اور ’معلوم‘ ہیں۔ انہوں نے علمی مباحث، ان کے فنی پہلوؤں اور انتاجات کی ثقاہت کے مسئلے کو ”پیروی مغربی“ میں اور خاص اور نہایت جعلی مقامیت کی آڑ میں حل کرنے کی کوشش کی ہے، اور ساتھ ساتھ ہمیں گھرکنا فرض منصبی کے طور پر نبھاتے رہے ہیں۔ وہ مغرب کے وجودی اور اساسی افکار کی بات بھی سننے کے روادار نہیں۔ وہ اس بات سے کیوں انکاری ہیں کہ علم کے فنی مباحث یعنی دقائق، تہذیب کے بنیادی حقائق یا اساسی تصورات کی normalization  اور جزیات میں actualization کے لیے وضع کیے جاتے ہیں، اور اپنی تکمیل کے ساتھ ہی مندرس (obsolete) ہو جاتے ہیں اور نئے دقائق ان کی جگہ لے لیتے ہیں؟ انہوں نے فنی مباحث کے حوالے سے جو ارشادات فرمائے ہیں، ہمیں وہ مشق دیکھ کر خوشی ہوئی ہے، لیکن وہ بہت rudimentary         nature کے ہیں، اور اکثر نفخی ہیں۔ اس میں ہماری گزارش یہ ہے کہ مغرب کے اساسی اور وجودی تصورات کی درست تفہیم اور درست استحضار کے بغیر ہم ان فنی مباحث کو جوں کا توں اردو میں منتقل کرنا نہ صرف لغو بلکہ مضر خیال کرتے ہیں۔ تہذیب کی داخلی علمی روایت، فنی مباحث کی حیثیت  اپنی ضروریات اور مزاج سے متعین کرتی ہے، اور ہو سکتا ہے کہ ایک تہذیب کی داخلی روایت کے فنی مباحث اس سے باہر سرے سے کوئی اہمیت ہی نہ رکھتے ہوں۔  ہماری گزارش یہ ہے کہ جدیدیت مغربی تہذیب کا اساسی اور وجودی موقف ہے اور اپنے تمام قضایا میں یہ مذہب کی قطعی ضد ہے۔ جدیدیت کی حاکمیت میں  ظاہر ہونے والے مغربی فلسفیانہ اور علمی مباحث اور ان کی جزئیات کے فنی مسائل جدیدیت ہی کی احتوائے علمی اور عملی کی بحثیں ہیں۔ ایسی صورت میں یہ جاننا مشکل نہیں کہ بخشی صاحب کے پسندیدہ فنی مباحث کے بارے میں ہماری رائے کیا ہو سکتی ہے۔ یہاں فنی مباحث کی مزید وضاحت کے لیے میں بلوم اور سولو ٹیکسانومی کے انتہائی ٹیکنیکل مباحث کی جدیدیت کے اساسی افکار کے ساتھ نسبتوں کو عرض کر سکتا ہوں، لیکن چونکہ ایسی تصریحات میرے اس جواب سے فوری متعلق نہیں ہیں اس لیے ان کو چھوڑ رہا ہوں۔

ضمیمہ سوم: دقائق/ٹیکنیکل مباحث کی حوالہ جاتی آمریت

ہر تہذیب کے اساسی اور وجودی قضایا کا اظہار ایک سادہ بیانیے میں کیا جا سکتا ہے، اور اس بیانیے کے لیے فنی وسائل کی ضرورت کم سے کم ہوتی ہے۔ اساسی تصورات کا سادہ بیانیہ شعور، نفس اور عمل کو اپنی حاکمیت میں لانے کے لیے لپکتا ہے تو شاخ در شاخ پھیلتا چلا جاتا ہے، اور انسانی شعور، نفس اور عمل پر اپنی حاکمیت کو واقعاتی بنانے کے لیے اسے بڑی شاہراہوں سے اتر کر چھوٹی سڑکوں، گلیوں اور انچی دو انچی پگڈنڈیوں پر بھی محو سفر ہونا پڑتا ہے، اور علوم کے فنی مباحث سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جدید علم کی تیزتر، منظم اور کثیر الجہت پیداوار میں  دنیا بھر کی جامعات فیکٹریوں کی طرح کام کرتی ہیں۔ اساسی بیانیے کو شعور و عمل کی شَعریاتی بھول بھلیوں (capillary         maze) میں مستحضر رکھنے کے لیے ایک وسیع ترین حوالہ جاتی نظام بھی ترتیب دیا گیا ہے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ اساسی تصور کی رسائی کہاں کہاں اور کیسے کیسے ممکن بنائی گئی ہے۔ بعض اوقات ایک مختصر تحریر میں بیسیوں حوالے مل جاتے ہیں۔ ان حوالوں کے اندراج کا ایک طے شدہ نظام ہے، جس میں بڑی باریکیاں نکالی گئی ہیں۔ اگر کسی مصنف کے پاس کہنے کی کوئی واقعی نئی بات بھی ہے، تو بھی اسے بے شمار حوالوں میں اپنی بات ملفوف کرنا پڑتی ہے۔ ٹیکنیکل علوم کے عروج میں حوالہ جاتی پابندیاں اب ایک آمریت کی صورت اختیار کر چکی ہیں، اور اس آمریت کو خراج دیے بغیر آپ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ کچھ حوالے ہی معتبر ہوتے ہیں اور کتاب یا مضمون میں کچھ بھی نہیں ہوتا جیسا کہ بخشی صاحب کے مضمون کا معاملہ ہے۔ بعض اوقات تو یہ ہوتا ہے کہ ایک پروئی ہوئی مکھی کی بیچ والی ٹانگ کے درمیانی جوڑ کو  پچھلی طرف سے خراش زدہ دکھانے کے لیے حوالہ جاتی خوردبینیں ہاتھیوں پر لاد کے لائی جاتی ہیں۔ علم کے تمام مباحث اب بڑی حد تک ٹیکنیکل ہو چکے ہیں، اور معلومات کا حوالہ جاتی شجرہ اساسی تصورات سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ کتابوں میں معلومات کی جو ریزگاری اکٹھی کی جاتی ہے اس کو بامعنی بنانے کے حوالہ جاتی ڈوریوں سے انہیں اساسی تصورات سے جوڑا جاتا ہے۔ حوالہ جاتی وسائل کا اصل مقصد دقائق کو حقائق سے متعلق رکھنا ہے، اور شعور و عمل کے خردلی پہلوؤں کو اساسی تصور سے  جڑے ہوئے دکھانا ہے۔ بخشی صاحب نے اپنی تدقیق سے جو ریزگاری جمع کی ہے اس پر ہمارا سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ کس اساسی تصور سے جڑی ہوئی ہے اور اس کے اسالیب و قرائن کیا ہیں؟ اور یہی وہ سوال ہے جس کا سامنا کرنے کی وہ کوئی انسانی جرأت خود میں نہیں پاتے۔

ضمیمہ چہارم :استعماری جدیدیت، ہمارا تاریخی تجربہ اور علمی توسیط کا مسئلہ

ایک اساسی تہذیبی تصور کے طور پر جدیدیت کے فکری اور علمی تعینات، اور عملی تلازمات ایک کارِ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ معاملہ جدیدیت کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ہر اساسی تہذیبی تصور انہی احوال سے دوچار ہوتا ہے۔  ہر اساسی تہذیبی تصور علم اور عمل میں بیک وقت متعدد تناظروں کو جنم دیتا ہے جو جائز طور پر باہم مخاصمت کی حالت میں بھی موجود رہتے ہیں۔ ایک وجودی تصور کی حیثیت سے جدیدیت کا بیان مکمل ہو گا لیکن اس کی علمی تعریف ہمیشہ  غیرحتمی، نَمائی اور نمود آور رہے گی۔ سمندر کے پانی کی تعریف خود سمندر کی تعریف نہیں ہوتی۔ جدیدیت علم اور عمل کو جنم دیتی ہے اور ان کی معرف (definer) ہے، لیکن ان میں پوری کی پوری کھپ نہیں جاتی۔ دوسرے لفظوں میں یہ ہیئت شعور، فعلیت شعور اور حاصلات شعور کو متعین کرتی ہے، ان سے متعین ہوتی نہیں ہے۔ شعور کے ساتھ ساتھ جدیدیت انسانی عمل کی ایک پوری تقویم پیدا کرتی ہے جو فطرت اور تاریخ میں مؤثر ہے۔ اس لیے جدیدیت ایک تصور (idea) بھی ہے اور صورت حال (condition) بھی ہے۔ ان دو پہلوؤں کی وجہ سے جدیدیت کا مبحث زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔

جدیدیت کے بارے میں ایک بات جو بڑی حد تک یقین سے کہی جا سکتی  ہے، وہ اپنے ہی دعوے کے مطابق اس کا مغربی الاصل اور خود زا (sui         generis) ہونا ہے۔ جس طرح حق خود اپنا تعارف ہے، اسی طرح جدیدیت بھی اپنا تعارف خود ہی ہے۔ اس کا اپنے pure ہونے یعنی محضیت کا دعویٰ بھی یہیں سے ہے۔ یہ اپنا تعارف اور تعریف خود ہی ہے، جسے علمی زبان میں کہا گیا ہے کہ جدیدیت اپنی normativity اپنے اندر سے پیدا کرتی ہے۔ جدیدیت کسی ماقبل مذہبی یا ثقافتی روایت، کسی ماقبل تصور یا عمل، کسی ماقبل عقیدے یا وہم وغیرہ کا کوئی پرتو بھی اپنی شناخت، تعریف اور تعین میں قبول نہیں کرتی۔ بخشی صاحب نے دونوں ہاتھوں سے علمی جینیات اور طریقیاتی منہج کے موچنے کٹکٹاتے ہوئے نیم فہمیدہ متون سے کچھ پشم ضرور اکٹھی کی ہے، لیکن اس کا جدیدیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

مذہبی ذہن، مذہب دشمن علم اور عمل کو جن تناظرات میں دیکھتا ہے وہ بنیادی طور پر اقداری ہیں، binaries  میں کام کرتے ہیں، اور قطعی جائز ہیں۔ ایک اساسی تصور اور عمل کے طور پر جدیدیت کا کوئی علمی اور عملی پہلو ایسا نہیں ہے جس پر مذہبی ججمنٹ موجود نہ ہو یا سامنے نہ لائی جا سکتی ہو،  لیکن اس کی نوعیت اقداری ہے، علمی یا فکری یا تجزیاتی نہیں ہے۔ مسلم شعور کا بڑا مسئلہ اسی وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ وہ اپنے ہدایتی ایقانات اور مدرکات کو نہ صرف یہ کہ علمی اور فکری محاضرات میں سامنے نہیں لا سکا بلکہ ان کے امکانی اسالیب کے بارے میں بھی فکرمند نہیں ہے۔ مذہبی آدمی کی اس نارسائی نے ہدایت کو غیراہم بنانے کے ساتھ ساتھ امکانِ علم کو مخدوش کر دیا ہے۔ دوسری طرف جدید انسان کا عقلی شعور صدیوں سے اُدھلاہٹ کے احوال کی گرفت میں ہے، اور اس پر اقداری کلامِ نرم و نازک کوئی اثر نہیں کرتا۔ جدیدیت کی پیدا کردہ صورتحال اور اس کے پیدا کردہ علوم کی تفہیم مذہبی ذہن کے لیے ایک urgency کا مطالبہ رکھتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی اقداری پوزیشن سے دستبردار ہو جائے۔ ایسی صورتحال میں یہ موقف اختیار کرنا کہ مذہبی ذہن جدیدیت پر ہدایتی ججمنٹ کے ساتھ ساتھ خود جدیدیت کے پیدا کردہ علمی آلات و اسالیب سے لاتعلقی اختیار کرے محض دھونس ہے۔ جدیدیت چونکہ اپنے علمی اور عملی مظاہر میں صرف یورپی جغرافیے تک محدود نہیں رہی بلکہ دنیا کے ہر معاشرے اور ہر کلچر کو بالجبر تبدیل کرنے کے قابل ہوئی ہے، لہٰذا مغلوب اور محکوم معاشروں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ جدیدیت کے پیدا کردہ آلات و اسالیب استعمال کرتے ہوئے جدیدیت سے کوئی معاملہ کرنے کا حق نہیں رکھتے ایک غیرعلمی اور غیرانسانی رویہ ہے۔ علم کی شرطِ اول ہی عموم اشتراک ہے۔ ہاں اگر مغربی علوم بخشی صاحب کے الہامات ذاتی ہیں تو ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں، اور یہ بات انہیں واضح طور پر کہنی چاہیے۔ ہم اصلاً ایک مسلط کردہ تنقید اور جبری صورتحال سے معاملہ کرنے کا پورا انسانی حق اور اختیار رکھتے ہیں۔ اپنے اقداری موقف کو باقی رکھتے ہوئے جدیدیت کے استیلا کو علم میں زیر بحث لانا مزاحمت کا پہلا قدم ہے، اور اسے مانگے کی تنقید قرار دینا تاریخ کے جبر کو normalize کرنا ہے۔

جدیدیت کی بحث کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ مغربی جدیدیت ہمارا براہ راست تہذیبی تجربہ نہیں ہے۔ برصغیر میں ہمارا براہ راست تاریخی تجربہ ایک مسخ شدہ استعماری جدیدیت ہے جس کی بنیادی تفہیم، مغربی جدیدیت کی تفہیم کو مستلزم ہے۔ میں بخشی صاحب کے آلام و آزار کو خوب سمجھتا ہوں جب وہ فرماتے ہیں کہ منہج فکر یا طریقیاتی تناظر میں تصورات کی بحث اپنی اساس میں لسانیات ہی کی بحث سے جنم لیتی ہے۔ جدیدیت جیسے غیرمقامی سیاسی اور سماجی اور تصورات دوسری زبانوں اور دوسرے معاشروں تک پہنچتے پہنچتے اپنی اصل سماجی اشتقاقیات سے کٹ جاتے ہیں۔ یوں ترجمہ صرف لسانی اعتبار سے ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقلی نہیں بلکہ تہذیبی اور سماجی اعتبار سے بھی اپنی اصل سے ایک فاصلے پر ہٹ جانے کا مظہر ہوتا ہے ۔۔۔ اس کے برعکس وہ طریقیاتی منہج جو مسلسل مطالعے اور متون پر اٹل مہر لگا دینے کے معاملے میں قدرے تشکیک سے کام لیتے ہیں سماجی تصورات کی لسانی تاریخ یعنی اصل مقامیت میں رکھ کر ان کے معانی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ معانی بعینہٖ اجنبی تہذیبوں میں کسی تاریخی مقامیت پر منطبق نہیں ہوتے لہٰذا ان تصورات کی قدرے بدلی ہوئی اور متبادل شکلیں سامنے آتی ہیں۔ بخشی صاحب سمجھتے ہیں کہ سارا مسئلہ میلے میں گم شدہ ان کے کھیس کا ہے، اور معاملہ لسانیاتی مباحث اور صحت تراجم تک محدود ہے۔ میرا خیال ہے کہ ’معالجاتی‘ صاحب کے کرشماتی ظہور کے بعد تراجم کی صحت کا مسئلہ تو حل ہو ہی جائے گا، اور لسانیاتی مباحث کا فَیل ان کے طلبا بھگتاتے رہیں گے۔ اگر ہم مان بھی لیں کہ ہماری تفہیم جدیدیت ان دو گانہ امور پر ناقص ٹھہری ہے، تو ہم یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ انہیں استعماری جدیدیت کی اس قدر پردہ داری کیوں مطلوب ہے؟ ہمارا سوال بہت سادہ اور بنیادی ہے کہ کیا مغربی جدیدیت مغلوب معاشروں میں استعماری اور استشراقی منصوبے کے طور پر  اپنی مزعومہ اقدار اور ’سفید فام کی تہذیبی ذمہ داری‘ کے طور پر ”بعینہٖ“ ظاہر ہوئی ہے یا اس میں کچھ ارادی کھانچے پیدا کیے گئے، کچھ پہلو منتقل نہیں کیے گئے اور کچھ نئے شامل کئے گئے؟ اور یہ کہ کیا مغربی جدیدیت انسان پرستی اور انسانیت کی جن تنویری اقدار کی علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی رہی ہے، ان کے عین برعکس استعماری جدیدیت کے طور پر وہ محکوم و مغلوب معاشروں میں انسان اور انسانیت کو مٹانے ہی کے منصوبے پر کاربند تو نہیں رہی ہے؟ مغربی جدیدیت اور استعماری جدیدیت کو تساوی میں دیکھنا دکھانا مغربی سماجی اور سیاسی علوم کی بنیادی سرگرمی رہی ہے۔ ہمارے نزدیک اس بنیادی سوال کو صرف اکیڈیمک مقالوں کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا۔ مسخ شدہ استعماری جدیدیت سے ہم متداول اور اپنی اضافہ کردہ اور معروف شرائط پر معاملہ کرنے کا پورا پورا حق رکھتے ہیں، کیونکہ اس کی حیثیت ہمارے براہ راست تاریخی تجربے کی ہے، اور ہم سے یہ مطالبہ نہیں کیا جا سکتا کہ ہم اپنے تاریخی تجربے سے دستبردار ہو جائیں۔

اس حوالے سے دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے تاریخی تجربے کی علمی توسیط کیونکر ممکن ہو سکتی ہے؟ اگر بخشی صاحب مغرب میں جدیدیت کی فکری تصریفات اور علمی تشکیلات میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ہمیں اس طرح کی اکیڈیمک اسکالرشپ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہم صرف یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اس کارِ علمی میں انہوں نے زمین سے جڑے ہونے اور ایک خاص جغرافیائی اور ثقافتی مقامیت کی اہمیت پر جو زور لگایا ہے تو کیا وہ مغلوب جغرافیے، زمین سے جڑت اور محکوم مقامی انسانیت کو کوئی گنجائش دینے کے لیے تیار ہیں؟ ہماری گزارش یہ ہو گی کہ جبر کے علاوہ کسی بنیاد پر بھی ہمارے اس حق پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا کہ ہم مغرب کے پیدا کردہ جدید وسائل اور اپنی خانہ زاد کوشش سے اپنے تاریخی تجربے کی توسیط نہ کریں۔ بخشی صاحب اپنے ثقافتی رویوں، علمی قضایا اور ان کے انتاجات میں استشراقی اور استعماری روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔

ہم اس بات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں کہ استعماری جدیدیت کی علمی توسیط کے حاصلات استدلالی ڈھانچوں کے مطابق ثقہ ہوں، لیکن ان کے صرف متداول ہونے کی شرط محض دھونس ہے۔ ہم ایسے علمی مباحث کو جبر کا تسلسل سمجھتے ہیں جو ہمارے تاریخی تجربے کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھتے اور ان کی تحقیر کرتے ہیں یا ان کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہم یہ درست نہیں سمجھتے ہیں کہ برصغیر میں استعمار اور استشراق کے اساسی مواقف کو غیر تنقیدی انداز میں قبول کر لیا جائے۔ ہم اسے ایک بدیہی امر خیال کرتے ہیں کہ استعماری جدیدیت کے تحت ہمارا تاریخی تجربہ اس تجربے سے قطعی مختلف ہے جو مغربی جدیدیت کے حامل معاشروں میں سامنے آیا ہے۔ ہمارے ہاں ایسٹ انڈیا کمپنی اور راج کی تقریباً دو سو سالہ موجودگی، اس کی منظم غارت، سیاسی جبر اور ہمارے ملی اور دینی شعور سے فکری کھلواڑ کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس امر پر فیصلہ کہ اہل مغرب نے استعماری جدیدیت برصغیر میں متعارف کرا کے اور جدید معاشی اور سیاسی ادارے قائم کر کے ہم پر احسانات کیے ہیں، صرف اور صرف جائز علمی تجزیے اور تعین کے بعد ہی سامنے لایا سکتا ہے۔ غلبہ تاریخی حقیقت یقیناً ہے، لیکن علمی دلیل نہیں ہے۔ اس پس منظر میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ بخشی صاحب کے ہاں تو استعماری جدیدیت محذوف ہے، تو ہمیں فاؤسٹ کی مثال پھر یاد آ جاتی ہے کہ علم کارِ مرداں ہے، دوں فطرت لوگوں کا کام نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب۔

اس مضمون کی پہلی قسط کے لیے یہاں کلک کریں۔
اس مضمون کی دوسری قسط کے لیے یہاں کلک کریں۔
Recommended Posts
Showing 4 comments
  • Zaid sarfraz
    جواب دیں

    اتنا گھبرانے کی کیا ضرورت ہے. آزادی اظہار رائے کا دور ہے. کمنٹ سیدھا پوسٹ ہونا چاہیے یہ کیا کہ پہلے مدیر صاحب کی نظر کرم سے گزرے گا اور پھر پوسٹ ہو گا.

    • admin
      جواب دیں

      well, the moderation policy is there indeed, and its needed because tons of spam comments can attack an essay otherwise.

  • زید سرفراز
    جواب دیں

    معذرت خواہ ہوں. پہلے ایک کمنٹ لکھا شاید وہ مجھ سے درست پوسٹ نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے مجھے لگا کے شاید کوئی ایسی پالیسی ہے.

  • زید سرفراز
    جواب دیں

    گفتگو اور مکالمہ معاشرے کے اہم اجزاء میں سے ہے. لفظ سے تعلق ختم ہونے والے خلا کو ہمیشہ تشدد پر کرتا ہے. تنقید سے ہی آرگومنٹ آگے بڑھتا ہے. ورنہ وہ آرگومنٹ ایک جامد اور عجائب گھر کی چیز بن جاتا ہے جس سے زندہ لوگوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search