حافظ محمد ایوب دہلویؒ۔ تحریر: ملا واحدی
نوٹ: زیرنظر سطور ملا واحدی کی کتاب ”میرے زمانے کی دہلی“ سے مستعار ہیں ۔
مولانا محمد ایوب مولانا محمد اسحاق رام پوری کے شاگرد ہیں ۔ مولانا محمد اسحاق نے ساٹھ برس لوگوں کو پڑھایا ۔ مدرسہ نذیریہ کے طلباء نے ممکن ہے اُن سے کچھ سیکھا ہو ۔ لیکن مولانا اسحاق کے تمام گھریلو شاگرد میری طرح کورے ہی رہے ۔ میں بھی مولانا محمد اسحاق کا شاگرد ہوں اور مولانا محمد ایوب سے پہلے کا شاگرد ہوں ۔
مولانا محمد ایوب تنہا شخص ہیں جنھوں نے مولانا محمد اسحاق سے پورا فیض پایا اور ایک چیز تو ایسی حاصل کر لی کہ اُس میں مولانا محمد اسحاق پر فوقیت لے گئے ۔ مولانا محمد اسحاق قرآن ، حدیث ، فقہ سب علوم میں یکتا ئے روزگار تھے ۔ لیکن منطق اور فلسفہ و حکمت اُن کا خاص مضمون تھا ۔ منطق اور فلسفہ و حکمت کا اُنھیں اسپیشلسٹ (specialist) کہنا چاہیے ۔ مولانا محمد ایوب نے بھی منطق اور فلسفہ و حکمت میں کمال پیدا کیا ہے ۔
منطقیوں کا دماغ عموماً مذہب کے خلاف جایا کرتا ہے ۔ لیکن مولانا محمد اسحٰق منطق سے اسلام کی تائید کا کام لیتے تھے ۔ مولانا محمد ایوب کی بھی یہی روش ہے اور اس روش پر چلنے کے مولانا محمد ایوب کو مولانا اسحٰق سے زیادہ مواقع ملے ہیں ۔
مولانا محمد ایوب تئیس (23) سال کے تھے جب پہلی دفعہ حکیم علی رضا خاں کی تلاش کرتے میرے ہاں پہنچے ۔ حکیم صاحب کسی مریض کو دیکھنے آئے ہوئے تھے ۔ اُس دن سے 1947ء تک دِلّی میں چھبیس ستائیس برس مسلسل مولانا محمد ایوب مجھ پر کرم فرماتے رہے ۔
مولانا محمد ایوب جب بولتے ہیں تو گھنٹوں بولتے ہیں ۔ اب ساٹھ سال سے اوپر عمر ہے ۔ قریباً چالیس سال سے بول رہے ہیں اور چالیس سال میں بلامبالغہ چھ سات ہزار تقریریں کر چکے ہیں ۔ مشق کا کوئی ٹھکانہ ہے ۔
علمی اور دقیق مضامین ایسی عام فہم زبان میں بیان کرتے ہیں کہ بے پڑھے لکھے مسلمان اور اسلام سے ناواقف غیرمسلم سمجھ لیتے ہیں ۔ دِلّی میں ایک ہندو صوفی ہیں ۔ پنڈت تیلو رام ۔ اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں اُن کا ذکر کر چکا ہوں ۔ پنڈت جی بھی مولانا محمد ایوب کی تقریریں سننے آتے تھے ۔ یکایک آنا بند کر دیا ۔ میں نے سبب پوچھا ۔ ایمان سرکنے لگا تھا اور اس کے لیے دل تیار نہیں تھا ۔
مولانا کی تقریریں سننے سے اسلام کے متعلق کوئی شک شبہ باقی نہیں رہ سکتا ۔ بولنے کی طرح لکھنے کا چسکہ نہیں ہے (نوٹ از مصنف: اب لکھنا بھی شروع کر دیا ہے)۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے امام غزالی (رح ) کا سادماغ عطا کیا تھا ۔ کسی کو اپنی عقل پر گھمنڈ ہو تو وہ مولانا محمد ایوب کی تقریریں سُن لے ، اُسے اپنی عقل کی بے بضاعتی کا پتہ لگ جائے گا ۔ مولانا محمد ایوب کی عقل کی دست رس ہر مدّعی عقل کی دست رس سے آگے ہے ۔ مولانا عقل و عرفان کے سمندر میں اُس تہہ تک پہنچ جاتے ہیں جہاں بڑے بڑے مدعیان ِ عقل نہیں پہنچ سکتے ۔
مجھے مولانا محمد ایوب کی تقریروں سے بے حد فایدہ پہنچا ہے ۔ میں اُن کے اِس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتا ۔ خواجہ حسن نظامی کے ذریعہ اللہ نے مذہب کی طرف متوجہ فرمایا تھا ، مولانا محمد ایوب کی تقریریں سنوا کر ایمان مستحکم کر دیا ۔ مولانا محمد ایوب مجھ سے دس برس چھوٹے ہیں ، لیکن میں انھیں اپنا بزرگ سمجھتا ہوں ۔ میری تحریر میں تھوڑی بہت کوئی بات ہے تو وہ خواجہ حسن نظامی کی پچاس سالہ ہم نشینی کا نتیجہ ہے اور کسی قدر غوروفکر کرنا مجھے آیا ہے تو مولانا محمد ایوب کی چالیس سالہ صحبت سے آیا ہے ۔
مولانا محمد ایوب نے مولویت کو پیشہ نہیں بنایا ہے ۔ دِلّی میں پرانی ساڑھیوں کی تجارت کرتے تھے ۔ کراچی میں بھی کپڑے کی دوکان ہے ۔ دِلّی میں میرے علاوہ حکیم علی رضا خاں اور نواب فیض احمد خاں کے دیوان خانے میں تقریریں کیا کرتے تھے (1)۔ کراچی میں ایک اتوار بیچ جناب اسد ملتانی کے ہاں تقریریں ہوتی ہیں(2) ۔ الحمد للہ میں چالیس سال سے مسلسل یہ تقریریں سن رہا ہوں ۔
1۔ (از مصنف) نواب فیض احمد خاں کا دیوان خانہ حکیم اجمل خاں کے دیوان خانے کے بعد میرے زمانے کی دَلّی کا سب سے اہم دیوان خانہ تھا ۔ اس میں مولانا محمد ایوب کی تقریریں ہی نہیں ہوتی تھیں ، مسلمانوں کی تقدیر کے فیصلے بھی ہوتے تھے ۔ نواب صاحب کے دیوان خانے کے علاوہ میں نے حکیم اجمل خاں ، حکیم رضی الدین خاں ، ہزہائی نس نواب سر امیر الدین احمد خاں والی لوہارو ، نواب احمد سعید خاں طالب ، ڈپٹی اکرام اللہ خاں ، ڈپٹی ہادی حسین خاں اور نواب سلطان مرزا کے دیوان خانے دیکھے ہیں ۔ حکیم واصل خاں کا دیوان خانہ بھی دیکھا ہے ۔ حکیم عبدالمجید کا دیوان خانہ بھی خواب سا یاد ہے ۔ اور حکیم محمد احمد خاں اور حکیم غلام کبریا خاں عرف بھورے میاں کے دیوان خانے تو کل کی بات ہے ۔
ہاں ایک دیوان خانہ اور تھا ۔ محلہ مٹیا محل میں منشی کرم اللہ خاں عرف ننھے خاں کا دیوان خانہ ۔ مولانا الطاف حسین حالی اِس دیوان خانے میں پابندی سے آتے تھے ۔
تقریریں مولانا محمد ایوب میرے ہاں نواب فیض احمد خاں کے ہاں سے زیادہ کیا کرتے تھے ۔ ایک عرصے تک انھوں نے میرے ہاں مسلسل روزانہ تقریریں کی ہیں ۔ لیکن میں اپنے ہاں کے اجتماع کو یا خواجہ محمد شفیع کے ہاں کی اردو مجلس والے اجتماع کو دیوان خانے کی نشست نہیں کہہ سکتا ۔ میرے ہاں کا اجتماع اور اُردو مجلس کا اجتماع اپنے اپنے رنگ کے بے مثل اجتماع تھے ۔ مگر دیوان خانے کی نشست نہیں تھے۔ 2۔ جناب اسد ملتانی بحیثیت شاعر اور ماہر اقبالیات کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے ۔ قدرے غیر معروف حوالہ یہ ہے کہ وہ معروف جاسوسی ناول نگار مظہر کلیم ایم اے کے خالو اور سُسر تھے ۔ راقم الحروف کے سوال پہ مظہر کلیم صاحب نے کہا کہ انھوں نے اپنی ساس اور بیگم دونوں سے مولانا محمد ایوب دہلوی (رح) کے بارے میں سن رکھا ہے ۔ افسوس کہ زیادہ تفصیل حاصل نہیں ہو پائی ۔ از مرتب