اسلام اور فنون لطیفہ از مولانا محمد ایوب دہلوی
نوٹ: جناب ڈاکٹر محمد خورشید عبداللہ صاحب کے توسط سے مولانا ایوب دہلوی ؒ کی اس گفتگو تک رسائی میسر ہوئی ۔ ہمارے فاضل دوست کبیر امام نے اس علمی جوہر کو قلمبند کیا جب کہ قوسین اور قوسین کے اندر لکھی جانے والی انگریزی تراکیب نیز رموز اوقاف ، اقتباسات کی باہمی تقسیم (پیراگرافس) اور مختصر تبصروں کی ذمہ داری مدیرِ گوشہ یعنی عاصم رضا کے سر ہے۔
ایک تو اعمال ہیں اور ایک عقائد ہیں۔ اعمال کی دو، عقائد کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ عقائد ہیں جو عقل سے سمجھے جا سکتے ہیں اور ایک وہ عقائد ہیں جو عقل سے نہیں سمجھے جا سکتے۔ اور اعمال جتنے بھی ہیں وہ سب عقل میں نہیں آ سکتے۔ یہ گویا تقسیم تین (طرح کی) ہیں ۔ بعض عقائد مذہب کے، عقل کے مطابق ہیں اور عقل سے سمجھے جا سکتے ہیں۔ اور بعض عقائد ایسے ہیں جو عقل سے قطعی نہیں سمجھے جا سکتے، صرف نقل کرنے والے کی صداقت پر ان کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اب رہ گئے اعمال، تو اعمال کے متعلق (یہ بات ہے کہ) کوئی عمل عقلی نہیں ہے۔ بالکل نئی چیز ہے یہ۔ آپ کے ریکارڈ میں آجائے گی۔ یہ تصویر اور گانے کے سلسلے کا گویا مبداء ہو گیا۔ آئندہ ٹائم پر تصویر کا بھی مضمون آ جائے گا۔ پہلے اصولی چیز آپ سمجھ لیں۔
آپ نے خیال فرمایا ، بعض عقائد تو ایسے ہیں جو عقل سے ثابت ہیں اور بعض عقائد ایسے ہیں جو نقل سے ثابت ہیں (یعنی) ناقل کی نقل پر موقوف ہیں اور اعمال جتنے ہیں وہ غیر عقلی ہیں۔ اور جن لوگوں نے عمل کو عقلی طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے وہ تھوڑی دیر تک مفید رہتے ہیں اور جب ان کی گہرائی میں جائیں، تو وہ ختم ہو جاتے ہیں ، ثابت نہیں ہو سکتے ۔ مثلاً ، جو ’’بینّات ‘‘ ہیں جیسے صدق اچھی چیز ہے، کذب بری چیز ہے اور وہ تصویر کا مسئلہ تو اتنا نہیں ہے ۔ معاملات کے متعلق دیکھیے کہ چوری بُری چیز ہے ، معاملہ اچھی چیز ہے۔ جو بالکل ’’بینّات ‘‘ ہیں وہ عقل سے نہیں ثابت ہو سکتے۔ آ گیا ناں آپ کی سمجھ میں کہ کذب بری چیز ہے ، یہ (بات) عقل سے نہیں ثابت ہو سکتی۔ صدق اچھی چیز ہے، یہ (بات) عقل سے نہیں ثابت ہو سکتی۔
ہمارے ہاں کے متقدمین ائمہ نے اِس کو جو ہے عقلی چیز سمجھا، اور پھر ان کے شاگردوں نے اور بعد کے لوگوں نے۔ اِس کو عقلی سمجھتے رہے کہ یہ عام دنیا سب مانتی ہے۔ یہ سب فضول بات ہے، غلط (ہے) ۔
عقلی ہونے کے معنی پہلے سمجھ لیں کہ کیا ہیں ۔ مبتداء اور خبر جن سے قضیہ اور جملہ مرکب ہوتا ہے، اِن دونوں کے تصور کرتے ہی اِن دونوں میں جو نسبت ہے اُس نسبت کا یقین ہو جائے ۔ جیسے آگ گرم ہے، اب ’آگ‘ تو مبتداء ہے، یہ subject ہے اور ’گرم ہے‘، یہ predicate ہے ، یہ خبر ہے اُس (مبتداء) کی۔ تو آگ اور گرم ان دونوں کا جب آپ تصور کریں گے تو ’’آگ گرم ہے‘‘ کے جو معانی ہیں، ’ہے‘ (is) کی جو نسبت ہے اِن دونوں کے درمیان میں ، اُس کا آپ کو یقین ہو جائے گا ۔ سورج روشن ہے ، تو سورج اور روشنی کا تصور ہوتے ہی فوراً اِن دونوں کے درمیان جو نسبت ہے اُس نسبت کا یقین ہو جائے گا اور وہی مقصد ہوا کرتا ہے ۔ تمام علوم میں، ہر علم میں ، یہی مقصد ہوتا ہے۔
اب صدق اچھی چیز ہے ۔ حَسن ہے ۔ صدق کا اور حَسن کا جب تصور کریں ، تو (یہاں) ’ہے‘ کے معانی نہیں آتے ۔ جیسے آگ ، گرمی ، برف ، ٹھنڈک ، سورج اور روشنی میں آتے ہیں ۔ اِس طرح صدق اور اچھائی ، کذب اور برائی کے درمیان کی نسبت جو ہے ان دونوں کے تصوروں سے تو لازم نہیں ہے ۔ تو (صدق کا حسن) عقلی نہ رہا یعنی وہ بدیہی چیز نہ رہی ۔ ظاہر چیز نہیں رہی ۔ دلیل کوئی ہے نہیں ، کسی دلیل سے صدق کی اچھائی ثابت نہیں ہو سکتی ۔
اِس لیے کہ مقصود جو ہے، وہ راحت ہے ۔ یہ ایسی چیز ہے کہ مقصود اور راحت کا تصور کرتے ہی آپ کو یقین ہو جائے گا کہ آسائش مقصد ہے ۔ مقصود تو موضوع ہوا ، ’ ’مبتداء‘‘ ۔ اور راحت جو ہے یہ اس کی “خبر‘‘ ہوئی ۔ مقصود اور راحت کا جو تصور آپ کریں گے ، تو فوراً اس کی نسبت جو ہے دونوں کے درمیان ، اُس کا آپ کو یقین ہو جائے گا ۔ یہاں تک کہ کم عمر کا بچہ بھی سمجھ جائے گا ۔
تو صدق جو ہے وہ ہو سکتا ہے کہ راحت کے خلاف ہو۔ مثلاً ایک شخص قرض دار ہے اور اس کے لیے وارنٹ لے کر آجائیں لوگ ۔ تو یہ واقعہ سچا ہے لیکن اُس کی طبیعت اس کو قبول نہیں کرتی ۔ یہ واقعہ (دیکھیے کہ) ، نعوذباللہ، کسی کا کوئی عزیز کسی جگہ پر فنا ہو جائے اور اس کی خبر آئے ، تو اس خبر کی تصدیق کو دل کبھی نہیں چاہے گا ۔ (بلکہ) تکذیب کو چاہے گا ۔ تو کیا کرے گا؟ دعا کرے گا ، یہ خبر جھوٹی ہو ۔ اس وقت کذب مقصود ہو گیا کیوں کہ اصل مقصد تو راحت ہے ناں ۔ فارمولا اول جو ہے صرف راحت ہے اور کوئی شے مقصود نہیں ہے ۔ وہ راحت کی بحث میں آج اس وقت نہیں کر سکتا ، ٹائم نہیں ہے ۔ اس کے لیے دو گھنٹے چاہییں کم سے کم ، تب جا کے یہ مضمون سمجھ میں آئے گا ورنہ نہیں آنے کا ۔ ویسے ایک بیان سا ہو جائے گا ۔
صدق اچھی چیز ہے۔ اِس پر کیوں کہ اکثر مفاد اور راحتیں موقوف ہیں۔ اس بنیاد پر رائے عامہ نے اس کو تسلیم کر لیا ہے۔ بغیر دلیل کے کیوں کہ دلیل تو خلاف آ گئی ناں اس کے کہ کبھی صدق جو ہے غیر مطلوب ہے ۔ جیسے نبی کی جان بچانی ہے ۔ شرعاً دلیل لے لیجیے ۔ عقلاً تو میں نے آپ کو مثال دی خبرِ مرگ کی ۔ شرعی چیز (یہ ہے) کہ اگر نبی ہو کسی محفل میں اور دشمن اس کی تلاش میں ہوں اور پوچھیں ، تو اس وقت جھوٹ بولنا فرض ہے اور نبی کی جان بچانی جھوٹ بول کر، سب سے بڑی صدیقیت ہے ۔ جھوٹ بولنا اس وقت فرض اور سچ بولنا اس وقت حرام نہیں ، کفر نہیں ، بلکہ بڑے سے بڑا کفر ہے ۔ ابوجہل سے بھی بدتر ہے وہ شخص جو بتا دے کہ ہاں یہاں نبی موجود ہے ۔ تو شرعاً بھی وہ (صدق) اچھی چیز نہیں ہے اور عقلاً بھی وہ اچھی چیز نہ رہا ۔ مفادِ عامہ کے پیش ِنظر اس کو تسلیم کر لیا ہے کہ صدق اچھا ہے۔ اکثر چوں کہ مفاد وابستہ ہیں ، نظامِ عالم موقوف ہے اس پر ، اس بنیاد پر تسلیم کر لیا ہے ، ورنہ وہ عقلی چیز نہیں ہے ۔ اسی طرح کذب بری چیز نہیں ہے عقلاً ۔ یہ الگ چیز ہے کہ شرعاً اسے کیوں حرام کیا ۔اسی چیز کے سمجھانے کے لیے آپ کے سامنے میں نے یہ تمہید پیش کی ۔
جیسے کہ اب یہ خط (line) ہے۔ اِسے آپ جتنی دور تک چاہیں ، بڑھا سکتے ہیں ۔ دو نقطوں (points) کے درمیان خط ملا سکتے ہیں ۔ مفادِ عامہ انجیئنری کے اور اکثر صنعتوں کے اِس علم پر موقوف ہیں، Euclid ( یعنی اقلیدسی علم ہندسہ) پر ۔ اس لیے انجیئنروں نے اور مہندسوں نے اس کو عوام کے مفاد کے پیش نظر اس اصول کو تسلیم کر لیا ہے ورنہ یہ دلیل سے اب تک نہیں ثابت ہوا ۔ بلکہ غلط ہے ۔ میں نے اس کی تغلیط کر دی ہے ، ثابت نہیں ہو سکا ۔ (نوٹ: دھیان رہے کہ مسلمانوں کے ہاں کروی علم ہندسہ نامی مضمون موجود رہا ہے جس کو فن تعمیر میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ نیز مسلمان اہل علم غیر اقلیدسی جیومیٹری سے بھی واقف تھے، از مدیر) ۔
آپ کی سمجھ میں آ گیا ناں کہ دو نقطوں کے درمیان خط ملا سکتے ہیں ۔ یہ (خط) تب ملا سکیں گے آپ جب نقطہ ایک دوسرے کے بالکل مقابل ہو ۔ جب ارن ( یعنی not-parallel ہوں یا نقاط خمیدہ ہوں، از مدیر) ہو گا ، تو ہرگز ان نقطوں میں سیدھا خط نہیں بننے کا ۔
جیسے شطرنج کے خانے ہیں ۔ جیسے یہ گھوڑا (knight) ہے، تو گھوڑا جہاں سے اٹھ کر جائے گا ، وہ تیسرا خانہ ہو گا ۔ (دو خانے ایک طرف خواہ افقی یا عمودی، اور ایک دوسری سمت میں، از مدیر) تین خانے ہو گئے ۔ ہر خانے کو آپ نقطہ تصور کریں ، اِن دونوں نقطوں میں خطِ مستقیم نہیں ملنے کا کبھی ، ٹیڑھا ہو جائے گا (یعنی انگریزی حرف L کی شکل بن جائے گی، ازمدیر) ۔ یہ وزیر (queen) کے خانے ہیں ، یہ رُخ (rook) کے خانے ہیں، یہ فیل (bishop) کے خانے ہیں ۔ ان میں تو ملے گا (یعنی ان سب کی چال کے مطابق نقاط کے مابین سیدھا خط لگایا جا سکتا ہے ، از مدیر) ۔ مگر گھوڑے کے تین خانوں کو نہیں ملے گا ۔ اس لیے اس کا نام ڈھائی چال رکھا ہے ، شاطروں نے ، علمائے شطرنج نے ۔ بہت بڑا علم ہے شطرنج کا ۔ اب میں ارتھمیٹک (arithmetic) نہیں جانتا تو اچھی طرح سمجھ بھی نہیں سکتا اس کو ۔ ویسے کھیلنے کے لیے کھیل لیتے ہیں۔ ہے اس کے اندر بڑا علم ۔ (نوٹ: یہاں ارتھمیٹک سے مراد بنیادی حساب ہرگز نہیں ہے ۔ غالباً، ہمارے مولانا یہاں قدیم طریقے پہ ریاضی کی ایک شاخ کا نام لے رہے ہیں ۔ آج کل اس شعبے کو number theory کہتے ہیں ، از مدیر)
تو دلیل سے ثابت نہیں ہوا ۔ اسی طرح خط کو جو ہے اپنی سیدھ میں بڑھا سکتے ہیں۔ یہ بھی گویا کلیہ نہیں ہے ، ثابت نہیں ہوا (یعنی postulate ہے نہ کہ تھیورم ، از حروف کار) ۔ اس لیے کہ یہ خط جو ہے یہ سطح کی انتداب ہے ۔ تو یہ لمبائی جو ہے، لائن کہاں نہیں جا سکتی؟ کسی جگہ جا کر ٹھہر جائے گی۔ تو اب یہاں سے جب ہم خط کھینچیں گے تو فلک الافلاک تک پہنچے گا ، آگے نہیں جائے گا ۔ نہ خلا ہے نہ ملاء ہے ۔ وہاں قابلیت ہی نہیں ہے کہ خط کھینچ سکے ۔ یہاں سے جو خط کھینچیں گے ، کرۂ ارض جو ہے یہ مرکز ہے ، یہاں سے جو خط کھینچیں گے تو اب اوپر کو جو سطح ہے عالم کی وہاں تک لے جا سکتے ہیں بس۔ آگے نہیں جا سکتے۔ تو تمہارا یہ کہنا کہ جتنی دور تک چاہیں بڑھا سکتے ہیں ، یہ غلط ہو گیا ۔ کیوں کہ دُوری ہے ہی نہیں ۔ (یہاں مولانا زمین مرکز بمقابلہ شمس مرکز تصور کا حوالہ دے رہے ہیں لیکن دھیان رہے کہ دونوں تصورات کے تحت علم ہندسہ یعنی جیومیٹری استعمال کی جائے تو بھی دلیل درست ہے ، از مدیر) ۔
اگر دلیل سے یہ ثابت ہوتے تو جہاں دلیل سے اور مسائل مہندس نے ثابت کیے ہیں وہاں اس کو بھی ثابت کرتا لیکن اس نے نہیں ثابت کیا ۔ اور اگر یہ ظاہر ہوتے، جیسے آگ گرم ہے ، ایسا بیّن مسئلہ یہ ہوتا ، تو جس طرح اس نے بارہ علمِ متعارف بیان کیے ہیں۔ یعنی ( از مدیر : غالباً انگلیوں کی مثال دیتے ہوئے) یہ کیا ہیں ؟ یہ (ایک ہاتھ کی) بھی چار (4) ، یہ (دوسرے ہاتھ کی) بھی چار (4)، دونوں برابر ہو گئے ناں ۔ جب یہ دونوں برابر ہیں تو اس میں اگر برابر کی مقدار ملا دیں دونوں میں ، تو مجموعہ بھی برابر ہو گا ۔ (یعنی) اس میں بھی ایک ملائیں گے ، اس میں بھی ایک ملائیں گے ، تو اب یہ بھی برابر ہو گئے ۔ یہ اس کا نام علم ِ متعارف ہے ۔ بدیہی مقدمہ ۔
اگر یہ (مسئلہ) بدیہی ہوتا تو بدیہات میں شامل کرتا ۔ بڑی اچھی بات ہے ۔ اور اگر نظری ہوتا تو غور طلب ہوتا ۔ تو جہاں غور طلب مسائل اس نے لکھے ہیں ، شکلیں بنائی ہیں ، وہاں اسے بھی شکل سے ثابت کرتا ۔ لیکن دونوں باتیں نہیں ہیں ۔ تو صرف معلم کے حُسنِ ظن سے اس کو تسلیم کر لیا ہے ۔ اور اس کی وجہ کیا ہے ۔ وہ یہ ہے جو میں نے بتائی کہ اکثر نظام عالم کا اس پر موقوف ہے اور مفید تو ہوتی ہی ہیں یہ شکلیں ۔ اس لیے اس کو تسلیم کر لیا گیا ۔
اسی طرح سے صدق اچھی چیز ہے ۔ اسے تمام پبلک میں تسلیم کر لیا گیا ۔ اکثر مفاد اس پر موقوف ہے ۔ بعد میں شرائع نازل ہوں گے ، ایک الگ چیز ہے ۔
شریعت کا اصول یہ ہے کہ اگر پبلک (عوام) مشترکہ مسودہ خالق کے سامنے پیش کردے تو وہ بغیر کسی وجہ کے اُس پر دستخط کر دیتا ہے ۔ یعنی ساری خلقت مل کے، جو چاہے ، پیش کر دیں مسودہ ، تو خالق ِ تصویر جو ہے اس کو منظوری دیدے گا ۔ انکار نہیں کرنے گا ۔ یہ اصول ہے پہلا کہ تمام خلق جس چیز پر متفق ہو ، بس ان کا اتفاق کرنا ہی میرے دستخطوں کا کرنا ہے۔ میری منظوری ہے۔ سارے عالم کا جس چیز پر اتفاق ہو گیا ہے کہ یہ مفید چیز ہے۔ اس لیے اس کو تسلیم کر لیا شریعت نے، اس کو داخل کر لیا دینی احکام میں ۔ بہت سے مسائل اسی قسم کے ہیں کہ عام پبلک نے تسلیم کر لیا۔ اس کو مواعظِ حسنہ کہتے ہیں کہ عام مسلّمہ ۔
اب رہ گیا یقینیات جو ہیں ان کے لیے لازم ہے دلیل سے سمجھانا، جیسے خدا وحدہ لاشریک ہے ، خدا کی صفات ہیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ مرسلِ رسول ہے ، رسولوں کا بھیجنے والا ہے اور رسول سچے ہیں اور قیامت آئے گی ۔ یہ جو نظری مسائل ہیں ان نظری مسائل کے لیے کچھ دلائل عقلی ہوں گے اور باقی کسی چیز کے لیے عقلی دلیل نہیں ہونے کی ، نبی کا کہنا کافی ہو گا ۔
جب یہ ثابت ہو جائے گا کہ نبی من جانب اللہ ہے اور نبی سچا ہے یعنی یہاں دو مقدمے ہیں ۔ یہ بھی سمجھ لیں آپ باریکی ۔ نبوت کے معانی یہ ہیں ، من جانب اللہ ہونا ۔ سچا تو غیر نبی بھی ہو سکتا ہے ۔ سچی بات جو کہے گا وہی سچا۔ اُس نے دعوی کیا کہ میں من جانب اللہ ہوں اور وہ ایسی بات کہے جو عقل میں نہ آئے ، تب بھی تسلیم کرنی پڑے گی۔ اور جو محض خالی سچا ہے، نبی نہیں ہے، تو اس کو دلیل بیان کرنی پڑے گی۔ میں اگر کوئی بات کہوں گا اور اگر وہ سچی ہے تو سچائی کی دلیل بیان کرنی پڑے گی۔ اُس کو (یعنی نبی کو) دلیل کی ضرورت نہیں، خالی من جانب اللہ ہونا کافی ہے۔
اور بعض عقائد اس قسم کے ہیں کہ جو دلیل سے ثابت نہیں ہیں ، محض نبی کے کہنے پر اور نقل پر موقوف ہیں۔ وہ عقل سے کبھی نہیں سمجھ میں آئیں گے جیسا کہ چالیس پچاس ساٹھ برس گناہ کیا اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہا کفر کر کے۔ یہ کیا چیز ہے، کچھ بھی نہیں ۔ سو سال کی بھی ہو تو کچھ نہیں ۔ سو سال کے کفر کرے اور چوبیس گھنٹے اور پھر ہمیشہ جہنم میں رہے ، تو وہ سزا عقل میں نہیں آتی ۔ یا یہ کہ ساری عمر کفر کیا اور ایک آن میں ایمان لے آیا اور پھر مر گیا ایمان پر ، تو ہمیشہ ہمیشہ راحت ہو ۔ یہ عقل میں نہیں آتا ۔ یہ نبی کے نقل پر موقوف ہے ۔ یہ جنت اتنی بڑی چیز ہے ، دوزخ ایسی چیز ہے ، ملائکہ ہیں وغیرہ وغیرہ ، یہ سب نبی کے بیا ن پر موقوف ہیں ۔ اگر نبی کی تصدیق کر لی کہ یہ سچا ہے، تو اس بنیاد پر اس کی اِن باتوں کی بھی تصدیق کر لی ۔ کبھی اگر آپ اس کے متعلق پوچھیں گے کہ اس میں کیا حکمت ہے ، کیا دلیل ہے ، تو وہ دلیل نہیں بیان کی جائے گی۔ اور جو بیان کرے گا وہ غلط بیان کرے گا، وہ ثابت نہیں ہونے کا۔
اب رہ گئے اعمال کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو ، امر و نہی ۔ امر و نہی جو ہے وہ کہیں عقلی نہیں ہے ۔ بس یہ ہے بات سمجھنے کی ضروری کہ عبادات اور معاملات جو ہیں ، یہاں زندگی کا گزارنا ، یہ عقل پر موقوف نہیں ہے ۔
یعنی مسئلہ سمجھ میں آگیا ناں ۔دلیل تو اب بیان کروں گا۔ بات سمجھ میں آگئی ۔
آپ نماز پڑھیں ، کوئی اس کے مفاد کا عقلی علم نہیں ہے ۔ آپ زکوۃ دیں ، خیرات کریں ، غریبوں کی خدمت کریں، جو نمایاں چیزیں ہیں ان کے اندر بھی کوئی حسن نہیں ہے عقلاً۔ چہ جائیکہ ، ایسی عبادتیں ہوں جن کے اندر ظاہری (فائدہ) نہیں ہیں جیسے حج ہے ۔ وہاں تو کوئی خوبی نہیں ، مشقت ہی مشقت معلوم ہوتی ہے ۔ نماز ہے ، اُس میں بھی اٹھنا بیٹھنا مشقت ہی مشقت معلوم ہوتی ہے ۔ روزے میں بھی مشقت ہی مشقت معلوم ہوتی ہے ۔ صرف خیرات ایک ایسی چیز ہے جس میں ظاہری فائدہ معلوم ہوتا ہے لوگوں کا ۔ باقی حقیقت میں وہ بھی فائدہ نہیں ہے کیونکہ دوسروں کے فائدے سے اپنے آپ کو کیا فائدہ ؟ کوئی فائدہ نہیں ۔ اگر دوسروں کو فائدہ پہنچانے سے ہم کو کوئی فائدہ نہیں ، یہاں عقل کے اندر، یعنی خدا کہہ رہا ہے کہ میں فائدہ دوں گا اس کے پلٹے میں ، وہ دوسری چیز ہے ۔ لیکن عقل نہیں بتاتی کہ دوسرے کے فائدے سے ہو ۔ بلکہ اگر یہ عقلی صورت ہوتی ، تو جتنے جانور ہیں وہ کبھی کسی دوسرے جانور کو نہ کھاتے ۔ زور آور دوسروں کو ہلاک کر دیتے ہیں ۔ ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاتی ہے ۔ تو (اعمال) عقلی چیزیں نہیں ہیں ۔
اب اس کو آپ سمجھیں، غور کریں کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ کیا بات ہے۔
جتنے بھی یہ عمل ہیں ، یہ سب یا حرکت ہے یا سکون ۔ یہ حرکت کی ، یہ اب سکون ہے (غالباً مولانا نے ہاتھ سے حرکت اور سکون کا اشارہ کیا ، از مدیر ) ۔ دونوں عمل ہیں ۔ نماز ہے، وہ بھی حرکت ۔ بیان ہے ،وہ بھی حرکت ۔ سکون کوئی چوری نہیں کی ، ساکن ہوں۔ برا کام نہیں کیا ، ساکن ہوں ۔ اعمال جو ہیں وہ حرکت اور سکون کا نام ہیں ۔ (علاوہ ازیں) جتنے بھی اعمال ہیں ، بھئی یہ ذرا باریک بات ہے غور کرنے کی بات ہے ، وہ سب کے سب جو ہیں اِن تین اصولوں پر آن کر ٹھہرتے ہیں ۔ ہر حرکت کا مقصد کھانا پینا اور شادی کرنی ہے ، اکل و شرب اور جماع ۔ ان تینوں لذتوں کے واسطے کل حرکتیں ہو رہی ہیں یعنی جو بھی کام انسان کرر ہا ہے وہ اپنی راحت کے لیے کر رہا ہے ناں ۔ (نیز) راحتیں اور لذتیں ، یہ صرف تین چیزیں ہیں ؛ کھانا پینا اور یہ ضمنی چیزیں ہیں ۔ کپڑا مکان ضمن میں ہیں ۔ وہ راحت نہیں ہیں بلکہ دافعِ مضرت کے لیے ہیں ۔ کپڑے پہننے سے کچھ مضرت دور ہو جاتی ہے ۔ مکان سے مضرت دور ہو جاتی ہے ۔ اگر جنگل میں رہے گا ، ایسے گھر بنایا نہیں ، توتکلیف میں رہے گا ۔ بہرحال مقصد سب کا یہی راحت ہے ۔
بہت بڑی بات ہے ، بہت غور کرنے کی بات ہے کہ تینوں باتیں جانوروں میں مشترک ہیں ۔ کوئی فرق نہیں ہے ۔
وہ بھی انھی تین چیزوں کے خواہش مند ہیں ۔ ان کی کل حرکتیں بھی اسی لیے ہو رہی ہیں اور آپ کی کل حرکتیں بھی اسی لیے ہو رہی ہیں ۔ اب جب دونوں کا مقصد ایک ہو گیا، تو انسان مثل ِ جانور کے ہو گیا ۔ کوئی فرق نہ رہا ۔ بلکہ بدتر ہو گیا جانور سے کہ اس کو زیادہ مشقت کرنی پڑتی ہے اپنا مقصد حاصل کرنے میں اور ان کو زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑتی یا بے مشقت ان کو وہ مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں ۔ اب پیاس لگی تو آپ کو دِقت ہے ۔ صراحی کا پانی پیئں گے ، نل کا یا کنوئیں کا وغیرہ وغیرہ ۔ اور وہ جہاں بھی ، نالی میں پانی ہے اپنی ضرورت پوری کر لیں ۔ گے تو وہ آسائش میں رہ گئے ۔ آپ اپنی نظر میں کہہ رہے ہیں وہ گندہ ہے۔ گندہ وندہ کیا چیز ہے؟ وہ تو وہم ہے۔ گندہ وندہ کچھ نہیں ہے ۔ ہر وہ شے جو پیاس بجھائے وہی مقصد ہے ۔ تو زیادہ پابندی ہو گی انسان (کے ساتھ) ، زیادہ بدتر ہو گیا جانور سے ۔ یعنی عقل بتا رہی ہے یہ گندہ ہے، تو عقل کی بنا پر انسان جانور سے اور زیادہ بدتر ہو گیا ۔ کیوں کہ مقصد تو صرف یہی ہے ناں کہ دنیا کی زندگی بسر ہو جائے ۔ تو دنیا کی زندگی بسر کرنے میں بہت بڑی اکثریت جو تقریباً کلیت ہے ، بغیر عقل کے (بسر) کر رہی ہے ۔ عقل نہیں ہے اکثریت میں ۔ بہت چھوٹی سی چیز ہے انسان اور باقی تمام جتنے حیوان ہیں، بغیر عقل کے زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر عقل سے بھی وہی مقصد حاصل ہوا جو بے عقل ہو رہا ہے ، تو عقل کا ہونا ، نہ ہونے کے برابر ہو گیا ۔ بلکہ زیادہ بُرا ہو گیا ۔ بڑی بدنصیبی کی بات ہے کہ (انسان) عقل کا بوجھ لاد کر اس حیات کے پُل پر سے گزرا اور وہ (یعنی حیوانات) اس پہاڑ بوجھ کو اتار کر گزر گئے سب ۔ تو عقل جو ہے وہ بھی کافی نہ رہی ۔
صرف اتنی بات بتائے گی عقل ضرور کہ انسانی زندگی میں اور جانور کی زندگی میں فرق ہے۔ فرق مقصد میں نہیں ہونے کا ، اشیاء میں کوئی فرق نہیں ہونے کا یعنی یہ کہ وہ بھی کھانا کھاتے ہیں ، آپ بھی کھانا کھاتےہیں ۔ وہ پیتے ہیں ، آپ بھی پیتے ہیں ۔ ان کو مادہ کی ضرورت ہے ، آپ کو بھی مادہ کی ضرورت ہے ۔ ٹھیک ہے ناں؟ ضرورتیں تو برابر ہو گئیں ۔ ان ضرورتوں کی جو کیفیت ہے صرف ان کیفیتوں میں فرق ہے اور باقی کہیں فرق نہیں ہے کہ آپ اس طرح سے پئیں ، منھ ڈال کر نہ پئیں ، اِس جگہ سے پئیں ، اس جگہ سے نہ پئیں ، اس وقت یہ فعل کریں ، اس وقت نہ کریں ۔ مجمع میں یہ فعل نہ کریں ، تنہائی میں یہ فعل کریں ۔ فعل میں دونوں برابر ہیں ۔ جانوروں کے لیے یہ پابندی نہیں ہے۔ وہ چاہیں مجمع میں کریں خواہ انسانوں کا مجمع ہو یا ان کی جنس ہو یا اور (کسی) اور جانور کی جنس ہو، ان کے لیے ممانعت نہیں ہے۔ ہر جگہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔
معلوم ہو گیا کہ انسان کا کام ان مقاصد کے حاصل کرنے کی جو کیفیتیں ہیں، ان کیفیتوں کے لیے ہے اور باقی کچھ نہیں ہے ۔ اور وہ کیفیتیں جو ہیں، معلوم نہیں۔ ناممکن ہے کہ معلوم ہو کہ کیوں کر کھائیں، کیوںکر جماع کریں، کیوں کر پانی پئیں۔ پانی تو ضرور پئیں گے۔ ضرورت ہے اس کی لیکن کس طرح پئیں ؟ پانی پینے کے اندر کوئی شے ایسی نہیں ملتی کہ جس سے پتہ چل جائے کہ اس کو اِس طرح پئیں۔ اس کیفیت کے بتانے واسطے انبیاء آئے ہیں۔ نبی کے بھیجنے کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ وہ ایسا طریقہ زندگی (جینے کا) بتا دیں کہ جس سے انسان اور جانور کی زندگی کا فرق معلوم ہو جائے۔ جب نبی آن کر بتائے گا اور وہ عقل سے معلوم نہیں ہو سکتی، تو ان احکام کی جو نبی بتائے گا کہ یہ کیفیت یوں ہے، یہ یوں ہے، ان کی کوئی عقلی وجہ نہیں ہونے کی اور نہ کوئی مصلحت ہو گی کہ کس مصلحت کی بنا پر کیا۔
جیسے فقہاء اور مجتہدین نے شراب کو حرام کر دیا اور وجہ اس کی نشہ بتایا ۔ حالاں کہ یہ بالکل عقل کے خلاف ہے ۔ یہ میں کہہ رہا ہوں ، مجھ سے پہلے کسی نے نہیں کہا ۔ وہ اس بات کو سمجھے نہیں کہ نشے میں ہرج کیا ہے ؟ نشے میں تو غفلت ہے ناں۔ غفلت ِ تامہ نیند میں موجود ہے۔ اگر دنیا سے بے خبر ہو جانا اور حقائق کی تمیز کا باقی نہ رہنا عیب ہوتا، تو نیند حرام ہو جاتی ۔ نیند حرام نہیں ہے ، تو معلوم ہو گیا کہ اس عالم سے بے خبری اور نشہ ، یہ بری چیز نہیں ہے اور انھوں نے یہ وجہ نکال لی اُس کی (یعنی شراب کے حرام ہونے کی علت، از مدیر) ۔ اب شراب (موجود) ہے ، تو اس کے اجزاء (کی تحلیل) کر لیجیے ۔ ایک تو اس میں پانی ہے ، تو انھوں نے کہا کہ پانی حرام نہیں ہے۔ کیونکہ پانی اگر حرام ہوتا تو سبھی جگہ حرام ہو جاتا ، کھانے وقت پینے وقت ۔ رنگ ہے ، رنگ حرام نہیں ہے ۔ انگور ہے ، انگور حرام نہیں ہے ۔ گیہوں ہے ، گیہوں حرام نہیں ہے ۔ جَو ہے ، جَو (حرام) نہیں ہے ۔ ہر ہر جزو کی تحلیل کر لیجیے کہ یہ حرام ، یہ حرام ، یہ حرام ۔ تمام اجزاء کو نکالنے کے بعد ہر جزو جو ہے ، حلال سے مل گیا آن کے، تو معلوم ہو گیا کہ اُن میں سے کوئی شے حرام نہیں ہے سوائے اِس چیز کے کہ اُس میں سے ایک چیز نکلی ، نشہ ۔ تو کہا، یہی حرام ہے۔ اِسی کی وجہ سے اللہ نے حرام کیا ہے ۔ یہ طریقہ ہوتا ہے قیاس کا نکالنے کا یعنی ہمارے ہاں کا یعنی مذہبی لوگوں کا۔ ویسے عقلی علم کا اور طریقہ ہے ، دوسرا۔
اب میں نے کہا کہ یہ بات جو ہے ، یہ بھی صحیح نہیں ہے ۔ اس لیے کہ نشہ علت ہے ہی نہیں حرمت کی ۔ کیوں کہ نشہ کے معنی بے خبر ہونا اور بے تمیز ہونا ، تمیز کا باقی نہ رہنا ۔ اور یہ چیز نیند کے اندر بہت زیادہ موجود ہے ۔ بڑی عجیب بات ہے جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں ۔ یہ (نشہ) علت حرمت کی ہو ہی نہیں سکتی کیوں کہ جہاں بے تمیزی ہو ، وہاں حرمت ہونی چاہیے ۔ نیند میں بے تمیزی ، کامل استغراق ہے اس لیے وہاں حرمت ہونی چاہیے ۔ اور وہاں حرمت ہے نہیں ، تو معلوم ہو گیا کہ یہ علت نہیں ہے ۔ محض حکم ہے ۔ صرف حکم ہے ، کوئی وجہ نہیں یعنی (شراب میں ) کوئی عیب نہ نکلے ۔ وہ (یعنی خدا) کہے حرام ۔ کہو ، ٹھیک ہے ۔ ختم (بات)۔
کیا ہرج ہے اگر اللہ کا نام بکرے پر نہ لیا جائے اور پھر ذبح کیا جائے؟ (یا) نام لے کر ذبح کیا جائے ؟ نفسِ بکرے میں کیا فرق پڑتا ہے ؟ کوئی بھی فرق نہیں پڑتا ۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ ’زوجت‘، میں نے تیرے سے نکاح کر لیا ۔ اس لفظ سے اُس فعل میں کیا فرق پڑتا ہے؟ زنا اور نکاح میں کچھ بھی فرق نہیں ہے ۔ ایک ہی شے ہے ۔ صرف حکم ہے کہ یوں کہہ کے کرو تو حلال اور یوں کہہ کے نہ کرو تو حرام ۔ تو وہاں علت کیا نکلے گی ؟ وہاں مصلحت کیا نکلے گی ؟ جن لوگوں نے مصلحتیں بیان کی ہیں انھوں نے بے جا مشقت کی ہے ۔
کوئی فائدہ نہیں ہے، کوئی مصلحت نہیں ہے ، کوئی علت نہیں ہے ۔ جس کو چاہا اس نے حرام کر دیا ۔ جس کو چاہا اس کو حلال کر دیا ۔ جو صحیح العقل آدمی ہے وہ اِس بات کو خوب سمجھتا ہے کہ مالک جو چاہے سو کہے ۔ جو چاہے سو کرے ۔ اس کا حکم بجا لانا چاہیے۔ (حکم) ہوا ہے ناں کہ آدم کو سجدہ کرو ۔ بھلا اس میں کیا مصلحت تھی سجدہ کرنے میں ؟ آج تک کوئی عقل مند نہیں بتا سکتا تھا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے میں (کیا مصلحت تھی)۔ فرشتوں سے سجدہ کرایا اور شیطان نے نہیں کیا ۔ خدا کا کچھ نہیں بگڑا اور اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ۔ یہ سب محض حکم ہے ۔ اس لیے اعمال کے لیے کوئی مصلحت نہیں ہے ۔ باقی فقہاء نے ہر چیز کی کچھ مصلحتیں بیان کی ہیں تو وہ کچھ دور چلتی ہیں ۔ آگے جا کے وہ رہ جاتی ہیں ۔
٭٭٭
اب تصویر، گانے کے متعلق آپ نے کہا ، تو گانے کے متعلق میں نے ایک نئی بات ایجاد کی ہے، بیان کی ہے۔ آج میں ٹکڑے کو بیان کر دیتا ہوں اس سے آپ کو سہولت ہو جائے گی ۔ پہلے چند ابتدائی باتیں سمجھ لیں آپ، تب سمجھ میں آئے گا ۔
جو شے ایسی ہے کہ جس کا ہونا ضروری ہے۔ شے کے معنی بھی آپ سمجھ گئے اور ضروری کے معانی یہ ہیں کہ جدا نہ ہو سکے ۔ جدا نہ ہو سکنا ، یہ معنی ضروری کے ہیں ۔ فقہاء کے ہاں معانی اور ہیں۔ یہاں عقلی معنی میں ہیں یعنی امتناع انفکاک (inseparable)، جدا نہ ہو سکنا جیسے آگ کے لیے گرم ہونا ضروری ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ گرمی آگ سے جدا نہیں ہو سکتی ۔
ایسی شے جس کے لیے وجود ضروری ہے، اس کے معانی یہ ہوئے کہ وجود اس شے سے جدا نہیں ہو سکتا ۔ اس کو واجب الوجود (necessary being) کہتے ہیں، جو خالق ِ عالم ہے ۔ (نوٹ: موجود، ممکن و محال اور واجب الوجود بطور خالق کا تصور قرون وسطی کے مسلم اور عیسائی کلام و فلسفہ میں موجود تھا ۔ عہد جدید کی سائنسی لفظیات میں واجب الوجود بطور خالق عالم کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ از مدیر)
اب ایک ایسی شے ہے جس کا نہ ہونا ضروری ہے یعنی عدم ضروری ہے ۔ عدم اس سے جدا نہیں ہو سکتا یعنی دائماً معدوم رہے گی ۔اس کو محال کہتے ہیں ، ممتنع کہتے ہیں ۔
اور ایک ایسی شے ہے کہ اس کا ہونا اور نہ ہونا دونوں ضروری نہیں ہیں یعنی دونوں جدا ہو سکتے ہیں۔ کبھی ہو گی ، کبھی نہیں ہونے کی ؛ کبھی وجود جدا ہو جائے گا، کبھی عدم جدا ہو جائے گا۔ وجود جدا ہو گا، فنا ہو جائے گی۔ عدم جدا ہو گا، موجود ہو جائے گی۔ (مثلاً) یہ ساری کائنات، اس کی یہی شان ہے۔
ساری کائنات دو قسموں کی ہے : ایک تو ایسی شے ہے اس کے اندر جو دوسری شے کو لیے ہوئے ہے؛ اور ایک ایسی شے ہے جو دوسری شے میں ہے۔ حامل اور محمول ، ایک لینے والی اور ایک وہ شے جو لی گئی ہے ۔ جیسے لمبائی ہے، یہ دوسری شے میں ہو گی ، لمبے میں ۔ لمبا جو ہے، اُس میں لمبائی ہو گی ۔ تو لمبا لمبائی ، چوڑا چوڑائی ، گہرا گہرائی ، سفید سفیدی اور سفید چیز جس میں سفیدی ہو گی ۔ ساری کائنات کو آپ دیکھ لیجیے، انھی دو قسموں میں منحصر ہے ۔ ایک کا نام جوہر ہے ، ایک کا نام عرض ہے ۔ جو لیے ہوئے ہے اس کا نام جوہر ہے اور جس شے کو لیے ہوئے ہے اس شے کا نام عرض ہے ۔جتنی چیزیں بھی ہیں : قیام ،رکوع ،اٹھنا، بیٹھنا (وغیرہ وغیرہ) ۔
یہ جوہر(essence) وہ شے ہے کہ جب وہ کائنات میں پائی جائے، تو وہ کسی محل میں نہ ہو ۔ عرض وہ ہے جب وہ کائنات میں پایا جائے ، تو وہ کسی شے میں ہو ۔ یہ معنی عرض کے ہیں۔ یہ Aristotle (ارسطو) کا علم ہے۔ (نوٹ: اس ساری بحث میں ارسطو کے مقولات عشرہ استعمال ہو رہے ہیں۔ جب کہ جدید انسان کانٹ کے بارہ اور چارلس پرس کے ثلاثہ مقولات سے بھی واقف ہے ۔ از مدیر) ۔
اب عرض کی دس قسمیں ہیں (یہاں تسامح کا امکان ہے ، از مدیر) ۔ ایک قسم کا نام ’کم ‘ (quantity) ہے ۔ ’کم ‘ اس عرض کو کہتے ہیں جو قسمت (divisibility) اور نسبت (relation) کے قابل ہو یعنی تقسیم ہو سکے اور ایک ٹکڑے کو دوسرے ٹکڑے سے نسبت دی جا سکے کہ یہ اُس کا اتنا ہے یا اتنے گنا ہے ۔ قسمت بھی اس میں متحقق ہو اور نسبت بھی۔ جب قسمت ہو گی، تو نسبت ظاہر ہے ۔ اب ’کم ‘کی دو قسمیں ہیں : ایک ساکن ہے اور ایک متحرک ہے ۔ پھر ان میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک متصل (continuous) ہے ، ایک منفصل (discrete)ہے۔ گویا’کم ‘کی چار قسمیں ہو گئیں : کمِ ساکن منفصل ، کم ِساکن متصل ، کمِ متحرک منفعل ، کم ِمتحرک منفعل ۔
کم ساکن متصل کہتے ہیں مقدار کو ۔ یہ خطوط وغیرہ ،صفحہ اور جس میں نسبتِ جوہری نہیں ، نسبتِ تعلیم ( ہوتی ہے)۔ جیسے آپ نے موم لیا ، موم گول ہے، تو اس کو آپ نے بدل دیا ، بدل کے ایک لمبی بتی بنا لی ۔ وہ موم جتنا تھا، اتنا ہی رہا۔ وزن میں کوئی تغیر نہیں ہوا ، شکل بدل گئی ۔ یہ جو شکل ہے پوری کی پوری، نسبتِ تعلیم ۔ یہ خطہ، نقطہ ، سطح ، یہ کمِ ساکن متصل اس کا نام ہے۔ (یہ ایسی شے ہے کہ ) علیحدہ نہیں ہے اس سے، اپنے محل سے جدا نہیں ہو سکتا یعنی کہیں نہیں ملنے کا ۔ کہیں آپ دیکھ لیں۔ لمبائی کہیں آپ کومل جائے، کہیں نہیں ملے گی۔ گہرائی کہیں مل جائے، کہیں نہیں ملنے کی۔ گہرائی، کنوئیں میں ملے گی؛ اونچائی، مینار میں ملے گی۔ یہ تھی مقدا۔ جس علم میں مقدار کے حالات بیان کیے جاتے ہیں اس کو علم ِ ہندسہ (geometry) کہتے ہیں۔
کم ساکن مفصل عدد (number) کو کہتے ہیں ۔ یہ ایک ہے ناں، تو وہ ’ایک ‘جسے آپ کہہ رہے ہیں وہ اس کے ساتھ چمٹا ہوا نہیں ہے ۔ عقل اعتبار کر رہی ہے ۔(اب) دو ہو گئے ۔ ‘دو’ بھی کوئی چیز ہے ناں؟ ایک یہ چیز ہے ، ایک یہ چیز ہے ۔ یہ دو ہیں ، ان کو آپ نے کہا ناں ، یہ دو ہیں ، تو’دو‘(کا عدد) اور چیز ہے ۔ (جب کہ) یہ ’چیزیں ‘ (جن کی طرف ’دو‘ کا اشارہ ہو رہا ہے، از مدیر) اور چیزیں ہیں ۔ وہ جو ’دو‘ہے وہ عدد ہے ، وہ ساکن ہے اور منفصل ہے، اس سے جدا ہے’دو‘ عدد سے ۔
اب کم متحرک ، وہ بھی دو قسم کا ہے : ایک متصل ، ایک منفعل ۔
کمِ متحرک متصل وہ ہیئت کرۂ ہے کہ وہ ہیئت اس سے جدا نہیں ہو سکتی ؛ ہیئت افلاک ۔ علم ہیئت جس میں یہ تمام کواکب ، نجوم وغیرہ یہ سب آجاتے ہیں ۔
کم ِمتحرک منفصل گلے کی آواز ہے اُس کو نغمہ کہتے ہیں ۔ گلُو کی جو (تان) اے اے اے ، دیکھا ہو گا آپ نے ۔ یہ کم متحرک منفصل ہے ۔ جتنے بھی عرض ہیں ان سب میں کمزور ہے یہ ’کم‘ (یعنی )عرض ِکم ۔ سفید کے مقابلے میں ، سیاہ کے مقابلے میں ، یہ کمزور ہے ۔ یہ چار ’کم‘ہو گئے ناں ؟ چار قسم کی کمیتییں ، ان چاروں ’کموں‘میں سب سے کمزور یہ ہے، نغمہ (یعنی کم ِ متحرک منفصل) ۔ اور جتنے عرض ہیں وہ سب جوہر سے کمزور ہیں کہ بغیر جوہر کے وہ متحقق ہی نہیں ہونے کے ۔جوہر ان سب سے قوی ہے ۔ تو جواہر اور اعراض میں سب سے کمزور نغمہ ہوا ۔
اب جوہر کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ایک جوہر تو وہ ہے جو اپنی پیدائش اور فعل دونوں میں مادے کا یا سبب کا یا اجزاء کا محتاج نہیں ہے ۔ اس کا نام رکھا ہے ان فلسفیوں نے عقل ۔ ہمارے ہاں اُس کو فرشتہ کہتے ہیں، مَلک کہ پیدا کرنے میں اُسے کسی سامان اور مسالے کی ضرورت نہیں تھی کہ اس سامان کو جمع کر کے پھر اس کو بنایا ہو ۔ یہی معنی فطرت میں محتا ج ہونے کے ہیں ۔ اور عمل میں محتاج ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہم کولکھنا ہو ، تو قلم کے بغیر نہیں لکھ سکتے ۔ تو وہ عمل میں بھی محتاج نہیں ہے عقل ۔ یعنی فرشتہ عمل میں بھی محتاج نہیں ہے کسی آلے کا اور اوزار کا ۔ اور فطرت میں، پیدائش اور خلقت میں بھی محتاج نہیں ہے مادے کا اور اسباب کا اور اجزاء کا ۔
اب دوسرا وہ جوہر ہے جو پیدائش میں محتاج نہیں ہے مادے ، اسباب اور اجزاء کا ۔ لیکن فعل میں محتاج ہے ، کام کرنے میں محتاج ہے ۔ اُس جوہر کا نام ہے نفس ۔ روح جسے کہتے ہیں ،روح انسانی کہ یہ بغیر جسم کے کام نہیں کر سکتی ، بدن کے (بغیر) ۔ پیدا جب یہ ہوئی تھی، تو پیدا کرنے میں کسی سامان کی ، مسالے کی وغیرہ وغیرہ کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ جمع ہوں تب جا کے روح پیدا ہو ۔ وہ من امر رب ہے ۔ خلقت میں محتاج نہیں ہے ، فعل میں محتاج ہے روح انسانی ۔ تو روح انسانی ساری کائنات سے افضل ہے ، جتنے ممکنات ہیں اُن سب سے افضل ہے ۔ ساری کائنات سے اشرف اور افضل ہے انسان ۔ انسان جو ہے اصل میں تو وہ روح ہی ہے ناں۔ یہ جسم اس کا آلہ ہے ۔ (اور جسم) اتنی بری چیز ہے کہ وہ (روح اگر) ہٹ جائے یہاں سے، تو پاخانہ اور پیشاب یہاں چوبیس گھنٹے پڑا رہے ہر شخص کے گھر میں لیکن یہ دو گھنٹے بھی رکھنے کے قابل نہیں ، فوراً اس کو زمین کے اندر ٹھونسا جائے ، جانوروں کی دعوت کی جائے ،یا جلایا جائے ،یا نظروں سے پوشیدہ کر دیا جائے ۔ اتنی بری چیز ہے یہ (جسم) ۔ یہی ہو رہا ہے ناں یہاں پر۔ ابتدائے آفرینش سے یہی ہو رہا ہے ۔ تو اتنی ناقدر چیز ہے ۔ بغیر بچھونے کے ، بغیر کسی چیز کے ، تنگ و تاریک جگہ میں پھینک دیتے ہیں اس کو کہ اتنی کراہت و نفرت کے قابل چیز ہے ۔ آدمی اپنے آپ کو یہ سمجھ رہا ہے ، تو یہ انجام ہے ۔
بہرحال نفس انسانی تمام کائنات سے اشرف ہے اور کمِ متحرک منفصل یعنی نغمہ ساری کائنات سے کم تر ہے ۔(اب) کم تر اور ادنیٰ ترین چیز اشرف اور اعلیٰ ترین چیز میں تاثیر کرے ، تو یہ کتنی اس کی بدنصیبی ہے ، رذالت اور کمینگی ہے ۔ یعنی یہ گانا جو ہے ، یہ تاثیر روح میں کرتا ہے ناں، تو گانے جیسی ادنیٰ ترین چیز ایسی اشرف اور اعلیٰ چیز میں مؤثر ہو، تو یہ بالکل عقل کے خلاف ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اُس روح انسانی میں تو جو اس کا خالق ہے وہی تاثیر کر سکتا ہے۔ اور ساری کائنات میں یہ (انسان ہی) تاثیر کرے گا۔ اس لیے گانا تو عقلاً ہی ناجائز ہے۔ ویسے خدا کو اختیار ہے کہ وہ اسے جو جائزقرار دے دے جو عقل کے مطابق ہو اور جو عقل کے خلاف ہو (یعنی) خلافِ عقل کو جائز قرار دے دے اور مطابقِ عقل کو ناجائز قرار دے دے ۔ یہ اس کو حق ہے ۔ اس بنیاد پر یہ (نغمہ ) گویا (حرام ہے )۔ یہ میں نہیں کہہ رہا۔ یہ اللہ کو علم ہے کہ کیوں حرام کیا ہے ۔ کیونکہ یہاں سوال کیوں کا ہے ہی نہیں ۔ اس نے جو چاہا کہہ دیا ۔
ویسے میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ یہ تو عقل میں بھی نہیں آتا ۔
اسی طرح جو لوگ چاہتے ہیں تصویر کے متعلق ، تو تصویر کے متعلق بھی چونکہ مسئلہ جو ہے عملی ہے ، عمل سے تعلق ہے اس کا ۔ عمل کے ضمن میں حسن و قبح عقلی نہیں ہیں ۔ اشیاء کا، چیزوں کا ،اعمال کا ،اچھائی اور برائی جو ہے عقلی نہیں ، شرعی ہے ۔ یعنی نبی بتائے گا تب معلوم ہو گا کہ یہ اچھا ہے ۔ نہیں بتائے گا، تو کچھ بھی معلوم نہیں ہو گا ۔ کیونکہ وہ حرکت ہے اور حرکت ایک مکان کو چھوڑ کر دوسرے مکان میں آنے کا نام ہے ۔ جسم کا ایک ہیئت کو چھوڑنا اور دوسرے ہیئت میں پہنچنا ، اس پہنچنے کا نام حرکت ہے ۔ پھر دوسرے سے تیسرے میں پہنچنا ، تو یہ ایک پہنچنا ، دوسرے میں پہنچنے کے بالکل مساوی ہے ۔ تو پتا نہیں چل سکتا کہ کون سا برا ہے اور کون سا اچھا ہے۔ وہ جو اچھائی اور برائی ہو گی وہ انجام کے اعتبار سے ہو گی ۔ اور اس کا انجام ہے سکون اور سکون نام ہے موت کا ، تو موت کے بعد ان حرکات کا پتا چلے گا کہ کون سی حرکت صحیح تھی اور کون سی غلط تھی۔ یہاں نہیں پتہ چل سکتا۔ اس لیے تصویر کے متعلق کچھ نہیں بتا سکتے کہ اس میں کیا عیب ہے، کیا خرابی تھی کہ جس کی بنیاد پر حرام کی یعنی عقل نہیں بتا سکتی ۔ شرع نے بتایا ۔
اس کی تشریح ان لوگوں نے یہ کی کہ ایک تو یہ شبیہ تھی اور مشبہ تھی بت پرستی کے۔ کیونکہ نبی سب خدا پرستی کی تعلیم کے لیے آئے تھے اور تصویر عموماً بت پرستی کی طرف لے جاتی تھی اس لیے تصویر جاندار کی قطعاً ممنوع قرار دے دی گئی ۔ اور دوسری وجہ فقہاء نے نکالی ہے ، وہ یہ ہے کہ فارمولا یاد رکھیے کہ ہر کام وہ حلال ہے ، اور وہ حرام ہے کہ جس کام کو انسانی زندگی میں دخل ہے ۔ وہ تو عام حلال ہے اور جس کو انسانی زندگی میں دخل نہیں ہے خواہ وہ اس کے لیے عبث ہو یا مضر ہو ، دونوں صورتوں میں حرام ہے ۔ یعنی نہ مفید ہے نہ مضر۔ مسلنا ، پٹھا توڑنا ، یہ کرنا ، وہ کرنا ، یہ عبث فعل ہیں ۔ اس کو انسانی زندگی میں دخل ہی نہیں ہے ۔ یہ جتنے عبث افعال ہیں یا جتنے مضر افعال ہیں ان کو حرام قرار دیا۔
انسانی زندگی میں تصویر کو کوئی دخل نہیں ہے ۔اس لیے کہ انسانی زندگی جو ہے وہ تبادلۂ اعمال کا نام ہے ۔ میں دن بھر محنت کرنے کے بعد ، آپ نے جو دن بھر محنت کی ہے ، اس محنت سے بدلہ کروں گا ۔ اپنی محنت آپ کو دے دوں گا ۔ آپ کی محنت میں لے لوں گا ۔ میں کپڑا بناتا ہوں ، آپ کو کپڑے کی ضرورت ہے ۔ آپ کو میں نے کپڑا دے دیا دن بھر محنت کر ۔کے آپ غلہ بناتے ہیں، مجھے کھانے کی ضرورت ہے ، پلٹے (بدلے) میں آپ نے کھانا دے دیا ۔ (چنانچہ) تبادلہ صحیح ہو جہاں ، وہ کام تو ہیں صحیح اور باقی جہاں تبادلہ صحیح نہ ہو سکے، یا محال ہو، ان سب صورتوں کو حرام قرار دے دیا ۔
یہ فقہاء نے اس کی وجہ گھڑی ہے جو میں نے آپ کے سامنے بتا دی یعنی ان کی بات کو اپنے زبان میں بیان کر دیا۔ انھوں نے تو اس طریقے پر نہیں بیان کیا کیونکہ انسان کی زندگی موقوف ہے شراکت پر ، جلاہی کے کام پر ، زراعت پر ۔۔ ان تینوں چیزوں میں بیلنس قائم کرنے پر ، اس کا نام خلافت ہے جسے آپ حکومت کہتے ہیں ۔ یہ ووٹنگ ووٹنگ کا قصہ چل رہا ہے آپ کے یہاں کا۔
چار اصول ہیں یہ انسان کی زندگی کے ، تو ان چاروں اصولوں کے جو جزئیات ہیں وہ سب صحیح ہیں۔ مثلاً کپڑا ہو نہیں سکتا جب تک سوئی نہ ہو ، سوئی ہو نہیں سکتی جب تک لوہار کا کام نہ ہو اور یہ سلسلہ کہیں تک بھی جائے ، وہ سب جائز ہو جائیں گے ۔ تصویر کو ، سود کو ، بھیک کو ، ان میں سے کسی میں بھی دخل نہیں ہے کسی کی زندگی میں ۔ اس لیے ان سب کو حرام قرار دے دیا ۔ شاید کوئی وضاحت عقلی طریقے پر نہ پہنچے آپ کے کانوں میں ۔ سود میں بھی یہی حال ہے ، تصویر میں بھی یہی حال ہے ، بھیک میں بھی یہی حال ہے ، چوری میں بھی یہی حال ہے ۔
جس فعل سے کسی دوسرے کی زندگی میں (فائدہ نہ ہو) ، جو فعل میرا دخیل نہ ہو اور مفید نہ پڑے دوسرے کی زندگی کے لیے ۔ وہ فعل حرام ہے۔ ان میں سے ایک چیز تصویر بھی ہے ۔