مولانا محمد ایوب دہلوی (خاکہ از ملا واحدی)
مولانا محمد ایوب دلّی کے کوچہ قابل عطار کے رہنے والے ہیں ۔ خواجہ حسن نظامی مجھ سے دس برس بڑے تھے ، مولانا محمد ایوب دس برس چھوٹے ہیں ۔ میری ان سے ملاقات شروع ہوئی تو مولانا تئیس (23) برس کے تھے اور میں تینتیس (33) برس کا ۔ اُس وقت ہی مولانا کے علم و فضل کی یہ حالت تھی کہ میں ہی نہیں ، ساٹھ ساٹھ اورستر ستر سال کے پڑھے لکھے بوڑھے اُن کی تقریر سنتے تھے ۔ میرے ہاں اتوار کے اتوار تقریر ہوا کرتی تھی ۔ اس شان کا اجتماع دلّی میں دوسری جگہ نہیں ہوتا تھا ۔
مولانا محمد ایوب 1948ء سے کراچی میں ہیں اور ایک اتوار کو مسٹر اسلم ملتانی (برادر جناب اسد ملتانی مرحوم) کے بنگلے پر اور ایک اتوار کو حکیم محمد سعید ستارۂ امتیاز کی ہمدرد منزل میں پابندی سے تقریر کرتے تھے ۔
مولانا محمد ایوب بحرِ علم کے غواص ہیں ۔ علم کے سمندر میں غوطے لگاتے ہیں اور وہ وہ موتی نکال کر لاتے ہیں کہ سبحان اللہ ، سبحان اللہ ۔ بولنے میں ادق اور ادق مضمون کو پانی کر دیتے ہیں ۔ جاہل سے جاہل کے بھی کچھ نہ کچھ پلّے پڑ جاتا ہے ۔ لکھنے کی مشق نہیں ہے ۔ لکھنے کی مشق کر لیتے تو موجودہ دور کے امام غزالی یا امام رازی ہوتے ۔
میں نے مولانا محمد ایوب کی تقریریں دلّی میں تیس برس سنی ہیں ۔ نو دس مہینے تو مولانا بعد مغرب روزانہ تشریف لاتے رہے اور بارہ بارہ اور ایک ایک بجے تک تقریر فرماتے رہے اور میں جو نو بجے سونے کا عادی ہوں ، وفورِ شوق میں نو دس مہینے نیند قربان کرتا رہا ۔ پھر مولانا انتیس سال اتوار کے اتوار آئے ۔ درمیان میں بھی غیر معمولی مضمون سوجھ جاتا تھا تو انھیں مجھے سنائے بدوں چین نہیں آتا تھا ۔
مولانا مولویت کی روٹی نہیں کھاتے ۔ کراچی میں بھی چمڑے کے سوٹ کیس وغیرہ کی دکان ہے ۔ دلّی میں پرانی ساڑھیوں کی تجارت کرتے تھے ۔ کلکتے سے استعمال شدہ ساڑھیاں منگاتے تھے جنہیں مِل والے مشین کی صفائی کے لیے اور ٹوپیاں بنانے والے ٹوپیوں کے استر کے لیے خریدتے تھے ۔ ملازم نہیں ہوتا تھا تو قابل عطار کے کوچے سے ، ٹوپیوں کا بازار ااور دریبہ کلاں جو پون میل دور ہے ، مولانا ساڑھیوں کی گٹھڑی کندھے پر دھر کر آپ بھی پہنچا دیتے تھے ۔ راستے میں مضمون سوجھ جاتا تو گٹھڑی دکان دار کے ہاں پھینکتے اور مضمون سنانے میرے ہاں آ جاتے ۔ میں نے مولانا کے علم سے بہت فائدہ اٹھایا ہے ۔ کراچی میں بھی مولانا نے میرے ہی کوارٹر سے تقریروں کا آغاز کیا تھا ، مگر میرا کوارٹر چھوٹا تھا ۔ اُس کے برآمدے میں سامعین ٹھس کر بیٹھتے تھے ۔ میں نے پڑوس میں پیرزادہ لطیف الرحمن صدیقی سے کہا کہ وہ اپنے ہاں مولانا کی تقریر کا انتظام کر دیں۔ صدیقی صاحب کا کوارٹر میرے کوارٹر سے اونچے درجے کا تھا ۔ صدیقی کے ہاں سے اسد ملتانی مولانا کو اپنے بنگلے پر لے گئے ۔ وہاں سے اسد صاحب کی زندگی تک تو جاتا رہا اور چند مہینے اور گیا اسلم ملتانی کے بنگلے پر ۔ پھر بڑھاپے نے ہمت توڑ دی ۔ جانا چھوڑ دیا ۔
میں مولانا محمد ایوب کو اپنا مربی کہتا ہوں ، اس وجہ سے کہ خواجہ حسن نظامی نے مجھے دین کی طرف متوجہ کیا تھا ، دین سے واقف میں مولانا محمد ایوب کے ذریعے ہوا تھا ۔ واقف کیا ، واقفیت کی ایک چھینٹ پڑ گئی ہے ۔ خواجہ صاحب کی صحبت میں تھوڑا بہت لکھنا سیکھ لیا ۔ مولانا کی صحبت میں تھوڑا بہت سوچنا آ گیا ۔ خواجہ صاحب کے برابر تو نہیں ، مگر پھر بھی مولانا کو مجھ سے غیرمعمولی تعلق ہے ۔ دلّی میں مولانا نے میرا وہ زمانہ دیکھا ہے جو بگڑ جانے کے بعد کا ہے ، تاہم خاصا تھا ۔ کراچی پہنچ کر اُتنابھی نہ رہا ۔ یہاں 1948ء میں میرے دو چھوٹے بچے ، ایک لڑکی اور ایک لڑکا ، الگ الگ سکولوں میں پڑھتے تھے ۔ انہیں پہنچانے اور لینے مجھے خود جانا پڑتا تھا ۔ ایک دن یہ ڈیوٹی کرتے مولانا نے دیکھ لیا ۔ مولانا اس سے اتنا متاثر ہوئے کہ میں بیان نہیں کر سکتا ۔
ایک مرتبہ میرا چھوٹا سا کوارٹر بھی مجھ سے چھننے لگا ۔ مولوی عزیز الحق اُن دنوں ڈپٹی سیکرٹری تھے اور میری مشکل کا حل اُن کے اختیار میں تھا ۔ مولوی عزیز الحق مولانا ایوب کے معتقد تھے ۔ میں نے اپنے لڑکے علی مقتدیٰ واحدی سے کہا کہ تم مولانا کی خدمت میں حاضر ہو اور اُن سے سفارش کرواؤ ۔ مولانا نے فورا ً اسد ملتانی مرحوم کو بلوایا اور اُن کی کار میں مولوی عزیز الحق کی کوٹھی پہنچے اور فرمایا، ”مجھے معلوم نہیں کیا قصہ ہے ۔ قصہ اسد صاحب اور مقتدیٰ سے پوچھیے ۔ میں تو بس اتنا بتانے آیا ہوں کہ میں واحدی صاحب کی پریشانی برداشت نہیں کر سکتا“۔ مولانا صاحب کا یہ معصومانہ فقرہ میرے دل پر نقش ہے۔ لیکن اس فقرے سے بڑھ کر اُن کا اصلی احسان وہی ہے کہ انہوں نے مجھے دین سے روشناس کیا۔ ساٹھ برس سے میں دینی کتابیں پڑھ رہا ہوں ۔ اُن کتابوں میں وہ جان نہیں ہے جو مولانا کی تقریروں میں ہے ۔