سلیم احمد – نظیر صدیقی

 In یاد نگاری

سلیم احمد ریڈیو اور ٹیلی وژن کی دُنیا میں ڈرامہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور شعر وادب کی دنیا میں نقاد اور شاعر کی حیثیت سے۔اُن کی تنقیدوں میں جھگڑے بہت ہیں،کہیں غالبؔ سے،کہیں سرسیدؔ سے،کہیں حالیؔ سے،کہیں اقبالؔ سے،کہیں ترقی پسندوں سے،کہیں اسلام پسندوں سے ،بظاہر وہ ایک بت شکن معلوم ہوتے ہیں لیکن ایک مرتبہ مجھے اُن کی کسی تحریر میں محسوس ہوا کہ وہ نقاد سےزیادہ نوحہ خواں ہوۓ جاتے ہیں۔میں نے انہیں اپنا یہ تاثر لکھ بھیجا۔جواب میں اُنہوں نے جو خط بھیجا میرے نزدیک وہ ایک ایسا خط ہے جو نقاد سلیم کو سمجھنے میں ایک نہایت قیمتی مدد کی حیثیت رکھتا ہے۔

اُنہوں نے لکھا :

‘نظیر پیارے۔بہت بہت پیار۔کبھی کبھی تم سچ مچ بہت اچھے لگنے لگتے ہو۔تمہارایہ خط بہت مزے کا تھا اور میں نے کئی بار پڑھا۔یہ بات تم نے بہت اچھی لکھی کہ میں اب نقاد سے زیادہ نوحہ خواں ہونے کا تاثر دینے لگا ہوں۔مجھے نہیں معلوم تمہیں میری کن تحریروں سے یہ اندازہ ہوا؟کیا تم ان تحریروں کی نشاندہی کر سکتے ہو؟یہ بڑی ذہانت کا اندازہ ہے جو تم نے لگایا ہے۔شاید میں بیمار ہوں۔اور مایوس ہوں۔یا شاید میری خودرحمی نے نوحہ خوانی کی صورت اختیار کر لی ہے۔بہرحال کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے اتنی ذہانت اور سچائی سے ایک ایسی بات کہی جو میرے احساس  میں موجود تھی اور جسکی میں تصدیق کر سکتا ہوں۔یار میں نے یہ کب کہا کہ سیدھی سادھی باتیں بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتیں۔کہا ہو تو مجھے یاد نہیں۔میں تمہیں کند ذہن تو نہیں سمجھتا۔سمجھتا تو کہہ دیتابلکہ میں تو یہ کہتا ہوں نظیرسیدھی سادھی باتوں کا بادشاہ ہے۔سیدھی سادھی باتوں کا مطلب وہ حقائق ہیں جو بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتے ہیں۔جن کے بغیر کوئی تعمیر ہو ہی نہیں سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب مثلاً وہی باتیں جو تم نے غالبؔ پرمیرے خیالات کی تنقید کرتے ہوۓ لکھی ہیں،یہ سب صحیح باتیں ہیں۔اچھی باتیں ہیں،منطقی باتیں ہیں۔زیادہ تعریف کروں تو کہہ سکتا ہوں کہ سائنٹیفک باتیں ہیں۔(اس سائنٹیفک کی ایسی تیسی)مگر یہ سب اوپری باتیں ہیں۔میں اپنی روح کی گہرائیوں سے جانتا ہوں کہ میں عہدِ جدید سے خوش نہیں ہوں۔اُس نے مجھے توڑ دیا ہے اور میرا دُشمن بن کر خود میرے اندر بیٹھا ہوا ہے۔میں حالیؔ سے لڑا۔ترقی پسندوں سے لڑا۔رومان پرستوں سے لڑااور غالبؔ سے لڑا۔مگر میں کسی سے نہیں لڑا۔میں تو اپنے آپ سے لڑنے میں مصروف ہوں اس لیے کہ جن عناصر سے میں لڑ رہا ہوں اور جو میرے اندر موجود ہیں میں جانتا ہوں کہ وہ غیر تخلیقی اور غیر انسانی ہیں۔اب اس لڑائی میں میں اپنے مورچوں کا بس جائزہ لیتا ہوں اوراپنے دشمن کے کمزور پہلوؤں کو بھی دیکھتا ہوں۔غالبؔ کہتا ہے دین بزرگان خوش نکرد۔فراقؔ صاحب صاحب کہتے ہیں ہر بانیٔ مذہب لا مذہب ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ بغاوت کے لمحے میں کی ہوئی تعمیمات ہیں۔غالبؔ اور فراقؔ اور سو برس میں پیدا ہونے والے تمام باغی مع نظیر صدیقیؔ کے ایسی ہی تعمیمات سے پیدا ہوۓ ہیں۔یہی تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ غالب نے باغیوں کی ہمت افزائی کی ہے اور وہ باغیوں میں پہلا باغی ہے۔یہ غالبؔ کی بھی تعریف ہے اور فرازؔ کی بھی اور تمہاری بھی۔مگرپیارے اس بغاوت کادور گزر چکا۔یہ بغاوت اپنا کام کر کے اب اپنے آخری مراحل طے کررہی ہے اب یہ مردہ اور آؤٹ آف ڈیٹ ہے۔اب اس میں کوئی انسپائریشن نہیں۔اب یہ گندے انڈے کی طرح کوئی بچہ پیدا نہیں کر سکتی۔اب بغاوت کے خلاف بغاوت کی ضرورت ہے۔

تم میرے مسئلے کو اس طرح سمجھنے کی بجاۓ اوپری اور منطقی اور سائنٹیفک باتیں جھاڑنے لگتے ہو۔معروضی باتیں کیا ہوتی ہیں؟سائنس بڑی معروضی ہےلیکن سائنس انسان نے پیدا کی ہےاور میں جانتا ہوں کہ اگر انسان ویسا نہیں رہے گا جیسا وہ ہے تو اُس کی سائنس بھی ایسی نہیں رہے گی۔پیارے اپنے باطن میں اُتر کر دیکھو کہ نظیر صدیقی کے اصل مسائل کیا ہیں۔وہ ادیب بننا چاہتا ہے۔ایک تخلیقی انسان کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتا ہے۔مگر اُس کا ماحول اُسے کامیاب ہونے نہیں دیتا۔یہ ماحول کیا ہے؟یہ وہ قوتیں ہیں جو اُسے اندراور باہر سے توڑ رہی ہیں۔ان قوتوں کو سمجھو۔ان کا تجزیہ کرو۔اور پھر اپنے وجود کی سچائی کے لیےان سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔اب میں نوحہ خوانی کی بجاۓ رجزخوانی پر اُتر آیا ہوں۔اچھا بھائی میں میدانِ جنگ میں ہوں تو نوحہ خوانی بھی کروں گا۔رجز خوانی بھی کروں گا۔زخموں سے کراہوں گابھی اور چیخوں اور تڑپوں گا بھی۔اور اپنے زخموں پر پٹیاں باندھ کر تیراندازی بھی کروں گا۔تم نے مجھے تنقید کاصحیح فرض یاددلایا ہے۔کیا میں نقاد کہلانا چاہتا ہوں۔لعنت ہو مجھ پر۔میں تو صرف اپنے وجود کا حال لکھنا چاہتاہوں چاہے وہ تنقید ہویاشعر ہو یا ڈرامہ ہویاکچھ ہو ۔اور بس’ــ۔

 

تویہ ہیں وہ سلیم احمد جن کے لکھنے کا مقصد وہ نہیں تھاجوانہیں پرکھتے وقت ہم نے پیشِ نظر رکھا یا عموماً پیشِ نظررکھتے ہیں۔اگر اُن کی تنقید یا شاعری یا ڈرامے کو اس تناظر سے نہ دیکھا گیاتو اُسے صحیح طورپر سمجھنا ممکن نہ ہو گا۔باقی باتیں پھر کبھی۔

۲،دسمبر۱۹۸۳

 

ماخذ :روایت

سنِ اشاعت : ۱۹۸۷

مرتب: محمدسہیل عمر

Recommended Posts
Comments
  • سجاد خالد
    جواب دیں

    سلیم احمد خود شناس تو تھے ہی لیکن اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر سچے تخلیق کار کی کیفیت اس سے ملتی جلتی ہوتی ہے خواہ اسے معلوم ہو یا نہ ہو۔

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search