یہ پانی ہے – ڈیوڈ فاسٹر ویلس (مترجم: عاطف حسین)
دو چھوٹی مچھلیاں ساتھ ساتھ تیر رہی تھیں کہ انہیں راستے میں ایک بوڑھی مچھلی ملی جس نے سر کے اشارے سے انہیں سلام کرتے ہوئے کہا ’’صبح بخیر بچو! پانی کیسا ہے؟‘‘ دونوں چھوٹی مچھلیاں تیرتے ہوئے تھوڑا سا اور آگے جاتی ہیں پھر ان میں سے ایک دوسری کی طرف مڑ کر پوچھتی ہے’’یار یہ پانی ہے کیا بلا؟‘‘۔
اگر آپ کو پریشانی ہونی شروع ہوگئی ہے کہ اب میں بڑی مچھلی بن کر آپ کو یہ سمجھانا شروع کر دوں گا کہ پانی کیا ہے تو خاطر جمع رکھیے کیونکہ میں بوڑھی دانش مند مچھلی نہیں ہوں۔ اس کہانی کے بیان کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ حددرجہ ظاہر و باہر، حاضر و موجود اور اہم حقائق کو دیکھنا اور ان کے متعلق گفتگو کرنا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ بادی النظر میں یہ ایک فرسودہ قول نظرآتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بالغ زندگی کی کھائیوں میں بسا اوقات فرسودہ اقوال زندگی و موت کے مسئلے جتنے اہم بھی ہوجاتے ہیں۔ اب یہ بات بھی شاید آپ کو مبالغہ یا مہمل تجرید محسوس ہو لہذا آئیے اب ذرا اسے واضح کرکے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جن چیزوں کو میں بلا سوچے سمجھے یقینی سمجھتا ہوں ان کی ایک بہت بڑی تعداد غلط یا محض ایک فریب ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میرے تجربے میں آنے والی ہر چیز میرے اس گہرے یقین کی تائید کرتی محسوس ہوتی ہے کہ میں مرکزِکائنات یا سب سے حقیقی، سب سے واضح اور اہم وجود ہوں۔ سماجی طور پر کراہت انگیز ہونے کی وجہ سے ہم اس فطری اور بنیادی خود پرستی کے بارے میں بات تو کم ہی کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ہم سب کا مسئلہ ہے۔ یہ ہماری پیدائشی وضع ہے اور ہماری تخلیق ہی ایسے ہوئی ہے۔ مثلاً اس پر غور کیجئے کہ آپ کو کوئی ایسا تجربہ کبھی ہوا ہی نہیں جس کے مرکز پر آپ خود نہیں تھے۔آپ کے تجربے میں آنے والا عالم آپ کے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، سامنے موجودٹی وی یا مانیٹر پر ہے۔ دوسروں کے خیالات و احساسات تو کسی نہ کسی طریقے سے آپ تک پہنچانے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن آپ کے اپنے خیالات و احساسات اس قدر حاضر اور فوری ہیں کہ آپ ان کا ادراک خود کرلیتے ہیں۔ لیکن پریشان مت ہوئیے گا۔ میں دردمندی، دگر مرکزیت(other-directedness) یا نام نہاد ’’اخلاقی خوبیوں‘‘ کے بارے میں تبلیغ نہیں شروع کرنے والا۔ یہ اخلاقی خوبی کا مسئلہ نہیں بلکہ اپنی اس فطری و پیدائشی وضع کو بدلنے یا اس سے آزاد ہونے کا مسئلہ ہے جو ہر شے کو میری اپنی ذات کی اسی خود پرستانہ عینک کے ذریعے دیکھتی اور مفہوم دیتی ہے۔
مثال کے طور پر فرض کیجیے یہ ایک عام دن ہے۔ آپ صبح جلدی اٹھتے، اپنے آزمائش سے بھرپور کام پر جاتے اور نو یا دس گھنٹے سخت محنت کرتے ہیں۔ دن کے اختتام پر آپ تھکے ہوئے اور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور بس گھر پہنچ کر ایک اچھا سا کھانا کھاکر، کوئی دو گھنٹے آرام کرکے دوبارہ جلدی سونا چاہتے ہیں کیونکہ کل آپ نے پھر یہی سب کچھ کرنا ہے۔ لیکن پھر آپ کو یاد آتا ہے کہ گھر میں کھانے کی کوئی چیز ہے ہی نہیں کیونکہ اپنے اسی آزمائش سے بھرپور کام کی وجہ سے اس ہفتے آپ کو خریداری کا موقع ہی نہیں ملا۔ اب آپ کو اپنی کار نکال کر سپر مارکیٹ جانا ہے۔ یہ چھٹی کا وقت ہے اور ٹریفک کا بہت رش ہے لہذا آپ کو اسٹور تک پہنچنے میں معمول سے زیادہ وقت لگتا ہے۔ اور جب آپ وہاں پہنچتے ہیں تو مارکیٹ میں سخت رش ہے کیونکہ ظاہر ہے یہ چھٹی کا وقت ہے اور باقی لوگ بھی تھوڑا سا وقت نکال کر سبزیاں دالیں خریدنے آئے ہوئے ہیں۔ مارکیٹ میں مکروہ قسم کی فلوریسینٹ روشنیاں لگائی گئی ہیں اور روح کو تباہ کرنے والی بیک گراؤنڈ موسیقی یا کارپوریٹ پاپ میوزک چل رہا ہے۔ آپ ایسی جگہ پر بالکل بھی ٹھہرنا نہیں چاہتے لیکن ظاہر ہے آپ جلدی جلدی اندر جا کر باہر نہیں آسکتے۔ اسٹور کی پُرہجوم اور ضرورت سے زیادہ روشن راہداریوں میں گھوم گھوم کر اپنی مطلب کی چیزیں ڈھونڈنی ہیں اور دیگر جلدی میں اور تھکے ہوئے ہتھ گاڑیاں لے کر پھرنے والے لوگوں کے درمیان سے اپنی الم غلم سے بھری ہوئی ہتھ گاڑی بچا بچا کر چلنا پڑتا ہے۔ پھر وہاں برف کی طرح ٹھنڈے اور سست رفتار بوڑھے لوگ، موٹے لوگ اور کسی بھی چیز پر توجہ نہ برقرار رکھ پانے والے بچے بھی ہیں جو راستہ روکے کھڑے ہیں جن سے آپ کو اندر ہی اندر دانت پیستے ہوئے مگر شائستگی سے راستہ دینے کی درخواست کرنی پڑتی ہے۔ بالآخر جب آپ اپنے رات کے کھانے کیلئے سب کچھ خرید چکتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ باہر جانے والے صرف چند ہی راستے کھلے ہیں جن پر چھٹی کے وقت کا رش ہونے کی وجہ سے لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ یہ بڑی واہیات اور تاؤ دلانے والی صورت حال ہے لیکن آپ رجسٹر میں اندراج کرنے والی بدحواس خاتون پر اپنا غصہ بھی نہیں نکال سکتے۔
بالآخر آپ قطار میں لگ کر کاوئنٹر پر پہنچتے ہیں، ادائیگی کرتے ہیں، اپنے چیک یا کارڈ کے مشین کے ذریعے تصدیق کا انتظار کرتے ہیں ، پھر آپ کو ایسی آواز میں ’شب بخیر‘ کہا جاتا ہے جو بالکل موت کی آواز ہے۔ پھر آپ اپنی خریدی ہوئی چیزیں پلاسٹک کے گھٹیا تھوتھے تھیلوں میں رکھ کر اپنی ہتھ گاڑی میں رکھتے اور اسے پرہجوم، ناہموار اور گندی پارکنگ میں سے دھکیلتے ہوئے اپنی کار تک پہنچتے اور ان تھیلوں کو اس طرح کار میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ راستے میں یہ چیزیں نکل کر پوری ڈکی میں نہ بجتی پھریں۔ پھر آپ کو رش کے وقت کی، بھاری، سست رفتار ٹریفک اور بڑی گاڑیوں کے درمیان میں گاڑی چلا کر گھر پہنچنا پڑتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے ہی حقیر اور طیش آور کاموں میں انتخاب کا مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ ٹریفک جام، اسٹور کی پر ہجوم راہداریاں اور لمبی لمبی قطاریں مجھے سوچنے کا موقع دیتی ہیں اور اگر میں سوچ سمجھ کر فیصلہ نہ کروں کہ مجھے کیا سوچنا اور کس چیز پر توجہ دینی ہے تو ہردفعہ کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کے موقع پر میں ایسے ہی خستہ حال اور غضب ناک محسوس کروں گا کیونکہ میں اپنی فطری وضع کے مطابق اندر ہی اندر قائل ہوں کہ اس طرح کی صورت حالات کا مرکز میں ہی ہوں۔ میری بھوک، میری تھکن اور میری گھر پہنچنے کی خواہش کی حیثیت مرکزی ہے اور مجھے یہی لگے گا کہ پوری دنیا، ہرکوئی میرے راستے میں حائل ہورہا ہے۔ آخر یہ لوگ کیوں میرے راستے میں حائل ہورہے ہیں۔ دیکھو نا ان میں سے اکثر کتنے کریہہ، بے وقوف، گائیوں جیسے، مردہ آنکھوں والے اور غیرانسانی محسوس ہورہے ہیں۔ ان لوگوں کا قطار میں کھڑے ہو کر اپنے موبائل فون پر اونچی آواز میں باتیں کیے جانا کیسا تکلیف دہ گنوار پن ہے۔ دیکھونا یہ کتنی ناانصافی ہے کہ میں نے پورا دن محنت کی ہے اورکتنا تھکا ہوا اور بھوکا ہوں لیکن میں ان گدھے لوگوں کی وجہ سے گھر پہنچ کر، کچھ کھا پی کر آرام بھی نہیں کرسکتا۔
اگر میری فطری وضع تھوڑی سماجی نوعیت کی ہو تو میں چھٹی کے وقت کی ٹریفک میں پھنسا ہوا ان بڑی بڑی، احمقانہ سڑکیں بند کرنے والی بڑی کاروں اور ٹرکوں پر غصے ہوتا، نفرت سے کھولتا رہوں گا کہ کیسے یہ خودغرضانہ طور پر اپنے چالیس گیلن کی ٹینکیوں کاپٹرول جلا رہے ہیں۔ میں یہ بھی سوچتا رہوں گا کہ مذہبی اور وطن پرستانہ بمپر اسٹیکرز سب سے بڑی اور خود غرضانہ گاڑیوں پر ہی لگے ہوتے ہیں جن کو بدصورت ترین،لاابالی ترین اور جارحانہ مزاج ڈرائیور چلارہے ہوتے ہیں جو ٹریفک جام میں محض بیس فٹ آگے جانے کیلئے فون پر بات کرتے کرتے لوگوں کا راستہ کاٹتے رہتے ہیں۔ میں اپنے بچوں کے بچوں کے بچوں کے بارے میں سوچوں گا جو آئندہ نسلوں کا ایندھن جلانے اور آب و ہوا کا ستیاناس کرنے کی وجہ سے ہم سے نفرت کریں گے۔ میں یہ بھی سوچوں گا کہ ہم سب کتنے بے کار، احمق اور قابل نفرت ہیں اور یہ سب کچھ کتنا بکواس ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
اگر میں اس طرح سوچتا ہوں تو کوئی بات نہیں کیونکہ ہم میں سے بہت سے اسی طرح سوچتے ہیں۔ لیکن اس طرح کی سوچ اتنی آسان اور خودکار ہے کہ دراصل یہ کوئی انتخاب ہے ہی نہیں۔ اس طرح سوچنا میری فطری وضع ہے۔ یہ وہ خودکار اور لاشعوری طریقہ ہے جس سے میں اپنے اس خودکار اور لاشعوری یقین کے مطابق عمل کرتے ہوئے کہ میں ہی دنیا کا مرکز ہوں اور میرے فوری احساسات اور ضروریات کے مطابق پوری دنیا کو اپنی ترجیحات طے کرنی چاہییں اپنی بالغ زندگی کے بیزارکن، غصہ دلانے والے اور پرہجوم حصوں کا تجربہ کرتا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایسی صورت ہائے حالات میں اس سے بہت مختلف زاویوں سے بھی سوچا جاسکتا ہے۔ مثلاً یہ جو گاڑیاں ٹریفک میں میرا راستہ روکے کھڑی ہیں ان کو ہی لیجئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جو لوگ بڑی بڑی گاڑیاں چلارہے ہیں ان میں سے کچھ ایسے ہوں جو کبھی کسی شدید ٹریفک حادثے کا شکار ہونے کی وجہ سے ڈرائیونگ سے ہی ڈرنا شروع ہوگئے ہوں اور ان کے معالج نے انہیں بڑی گاڑی خریدنے کا کہا ہو تاکہ وہ محفوظ محسوس کرسکیں۔ یا یہ جس ٹرک والے نے ابھی ابھی میرا راستہ کاٹا ہے ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ اس کا زخمی یا بیمار بچہ بیٹھا ہوا ہو اور وہ اسے جلد از جلد ہسپتال پہنچانے کی کوشش کررہا ہو۔ گویا ہو سکتا ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ جائز عجلت میں ہو اور وہ میرے نہیں بلکہ میں اس کے راستے میں حائل ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔
میں پھر کہنا چاہوں گا کہ میں کوئی اخلاقی وعظ نہیں دے رہا، نہ ہی یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ کو ایسے سوچنا ’’چاہیے‘‘ اور نہ ہی کسی کو آپ سے ایساــ’غیرخودکار‘ سوچنے کی توقع ہے کیونکہ یہ خاصا مشکل ہے ۔ اس کیلئے خاصی شعوری کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اور اگر آپ بھی میری طرح ہیں تو کئی مرتبہ آپ ایسا نہیں کرپائیں گے یا سرے سے کرنا ہی نہیں چاہیں گے۔ لیکن اگر آپ ایسا سوچنے کا انتخاب کرنے کیلئے درکار شعور رکھتے ہیں تو اکثر اوقات آپ قطار میں اپنے چھوٹے سے بچے پر چیختی موٹی، مردہ آنکھوں والی لحیم شحیم عورت کو مختلف زاویے سے دیکھنے میں کامیاب رہیں گے۔ شاید وہ عام طور پر ایسی نہیں ہے۔ شاید وہ تین راتوں سے جاگ کر ہڈیوں کے کینسر سے مرتے اپنے شوہر کا ہاتھ تھام کر بیٹھی رہی ہے۔ یا پھر یہ شاید وہی خاتون ہے جو موٹر وہیکل ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی ہے اور اس نے کل ہی آپ کی/کے شریک حیات کو سرخ فیتے سے پیدا ہونے والے کسی خوفناک مسئلے سے نجات دلائی ہے۔ ظاہر ہے اس سب کے صحیح ہونے کا امکان کم ہی ہے لیکن یہ ناممکن بھی تو نہیں ہے۔ یہ آپ پر ہے کہ آپ کیا سمجھتے ہیں۔ اگر آپ خودکار طریقے سے پریقین ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے اور کون اور کیا اہم ہے اور آپ اپنی پیدائشی وضع پر ہی چلنا چاہتے ہیں تو آپ ایسے بے معنی اور غیر اذیت بخش امکانات پر غور نہیں کرنا چاہیں گے۔ لیکن اگر آپ نے واقعی ٹھیک سے سوچنا اور توجہ دینا سیکھ رکھا ہے تو آپ کو پتا ہوگا کہ آپ کے پاس دیگر انتخابات بھی ہیں۔ آپ کیلئے بطور ایک خریدار یہ پرہجوم، پرشور، سست رفتار اور جہنم سے مشابہ تجربہ صرف بامعنی ہی نہیں بلکہ ایک مقدس تجربہ بھی بن جائے گا جس کی بنیاد میں وہی طاقت کارفرما ہے جو ستاروں کو جلا بخشتی ہے یعنی دردمندی اور پیار جو تمام چیزوں کی خفیہ بنیاد ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ متصوفانہ باتیں واقعی میں درست بھی ہوں۔ لیکن یہ بہرحال سچ ہے کہ آپ کو یہ فیصلہ کرنے کا موقع مل جائے گا کہ آپ ان چیزوں کو کیسے دیکھتے ہیں۔ یہ آپ کو شعوری فیصلہ کرنے کے قابل بناتا ہے کہ کیا چیز بامعنی ہے اور کیا نہیں۔ آپ خود فیصلہ کرتے ہیں کہ آُپ نے کس چیز کی پرستش کرنی ہے۔
ایک اور چیز بھی ہے جو بالکل درست ہے۔ وہ یہ کہ بالغ زندگی کی روزمرہ کھائیوں میں الحاد نام کی کوئی چیز سرے سے ہے ہی نہیں۔ پرستش نہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ ہر کوئی پرستش کرتا ہے۔ ہمارے پاس صرف یہ فیصلہ کرنے کا انتخاب ہوتا ہے کہ ہم نے کس چیز کی پرستش کرنی ہے۔ چاہے یسوع مسیح ہوں یا اللہ، وکائیوں(Wiccan) کی دیوی ماں ہو یا چار عظیم اصول یا پھر ناقابل فسخ اخلاقی اصولوں کا کوئی مجموعہ۔۔۔ اس طرح کے کسی خدا یا روحانی قسم کی چیز کی عبادت کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کے علاوہ آپ کسی بھی چیز کی پرستش کریں گے تو وہ آپ کو زندہ درگور کردے گی۔ اگر آپ دولت یا مادی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں، اگر آپ کو ان میں اپنی زندگی کا معنی ملتا ہے تو آپ ہمیشہ کمی کے احساس کا شکار رہیں گے۔ اگر آپ اپنے جسم، خوبصورتی یا جنسی مسرتوں کی پرستش کرتے ہیں تو آپ ہمیشہ بدصورت محسوس کرتے رہیں گے۔ جب وقت اور عمر ہاتھ سے نکلنا شروع ہوں گے تو آپ مرنے سے پہلے لاکھوں مرتبہ مریں گے۔ پھر ایک سطح پر آپ یہ سب چیزیں پہلے سے جانتے بھی ہیں۔ یہ سب کچھ اساطیر، ضرب الامثال، مقبول عام محاوروں، کہاوتوں، چٹکلوں، حکایات کی صورت میں مدون کردیا گیا ہے اور ہر عظیم کہانی کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ اصل بات اس سچائی کو روزمرہ شعور کا حصہ بنائے رکھنا ہے۔ طاقت کی پرستش کیجئے اور آپ ہمیشہ کمزور اور خوفزدہ محسوس کریں گے اور خوف سے چھٹکارے کیلئے آپ کو دوسروں پر زیادہ سے زیادہ اختیار کی ضرورت پڑتی رہے گی۔ اپنی عقل کی پرستش کیجئے اور آپ خود کو ہمیشہ بے وقوف اور فراڈیا محسوس کرتے رہیں گے جس کی اصلیت کبھی بھی آشکار ہوسکتی ہے۔ و قس علیٰ ھذا القیاس۔
ان چیزوں کی پرستشش کا خفیہ راز یہ نہیں کہ یہ برائی یا گناہ ہے بلکہ یہ ہے کہ یہ لاشعوری ہے۔ یہ سب پرستشیں پیدائشی وضع کے مطابق ہیں۔ یہ وہ پرستشیں ہیں جن میں آپ روزبروز آہستہ آہستہ غرق ہوتے چلے جاتے ہیں اور روز بروز آپ چیزوں کو دیکھنے اور ان کی قدر طے کرنے میں مرضی کا چناؤ کرنے لگتے ہیں اور آپ کو پتا بھی نہیں چلتا کہ آپ یہ کررہے ہیں۔ اور دنیا آپ کو اپنی پیدائشی وضع پر چلنے سے روکے گی بھی نہیں کیونکہ مردوں، دولت اور طاقت کی دنیا خوف، حقارت، جنجھلاہٹ، خواہشات اور خود پرستی کے ایندھن کے سہارے بڑی خوشی سے گنگناتی ہوئی چلتی رہتی ہے۔ ہماری موجودہ ثقافت نے ان طاقتوں کو کچھ یوں استعمال میں لایا ہے کہ ان سے غیر معمولی دولت، آسائش اور ذاتی آزادی پیدا ہوئی ہے۔ تمام تخلیق کے مرکز پر اپنی کھوپڑی کے برابر ایک سلطنت کے مالک و مختار ہونے کی آزادی۔ یہ آزادی اسی عمل کو جاری رکھنے کی خواہش مند ہے۔ لیکن آزادیاں تو اور طرح کی بھی ہیں اور سب سے قیمتی آزادی کے بارے میں آپ کو کامیابی، جیت اور نمائش کی عظیم دنیا میں کم ہی کچھ سننے کو ملتا ہے۔ سب سے اہم آزادی تو توجہ، شعور، نظم و ضبط، کوشش، دوسروں کا خیال کرنے، ان کیلئے ایثار کا مظاہرہ کرنے اور روزانہ، کئی مرتبہ بے کشش طریقوں سے ایسا کیا جانے کی آزادی ہے۔ یہ اصل آزادی ہے۔ اس کا متبادل غیر شعوری انداز میں پیدائشی وضع پر چلتے رہنا، ’’چوہوں کی دوڑ‘‘ اور کسی لامحدود چیز کے آپ کے پاس ہونے اور پھر کھوجانے کا کچوکے دینے والا مسلسل احساس ہے۔
مجھے پتا ہے کہ یہ باتیں مزیدار، خوش کن اور تحریک دلانے والی محسوس نہیں ہوتیں۔ لیکن جہاں تک میں محسوس کرسکتا ہوں، یہ لفاظی سے بھرپور بکواس سے بڑی حد تک پاک کیا ہوا سچ ہے۔ ظاہر ہے آپ اس کے بارے میں جو چاہیں سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن میری گزارش یہ ہے کہ اسے انگلی ہلاہلا کر باتیں کرنے والی ڈاکٹر لارا کا وعظ سمجھ کر نظرانداز نہ کیجئے گا۔ یہ اخلاقیات، مذہب، عقیدے یا حیات بعدالموت کے متعلق بڑے خیال آفرین سوالات کے متعلق نہیں ہے۔ اصل سچ موت سے پہلے کی زندگی کا ہے۔ یہ تیس سال یا شاید پچاس سال کی عمر تک گولی سے اپنا سر اڑا دینے کی خواہش پیدا ہوئے بغیر پہنچنے کا سوال ہے۔ یہ شعور کا سوال ہے، اصل اور لابدی چیزوں کے شعور کا سوال جو ہمارے اردگرد بالکل سامنے ہی چھپی ہوئی ہیں اور ہمیں بار بار خود کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ ’’یہ پانی ہے، یہ پانی ہے‘‘۔
ماخذ: http://bulletin-archive.kenyon.edu/x4280.html
بہترین سوچ دینے کی ایک بہترین کاوش
عمدہ تحریر کا رواں ترجمہ