سائنس کی تعلیم کے لیے فلسفہ کیوں ضروری ہے ؟ سبرینہ سمتھ (مترجم : عاصم رضا)
نوٹ: ڈاکٹر سبرینہ سمتھ ، یونیورسٹی آف نیو ہمپشائر امریکہ میں فلسفہ کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔ زیرِ نظر ترجمہ ، ان کے انگریزی مضمون بعنوان ’’Why-philosophy-is-so-important-in-science-education‘‘ کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالنے کی ایک کاوش ہے ۔ انگریزی تحریر ، آن لائن جریدے (aeon.co)پر 13 نومبر 2017 کو شائع ہوئی ۔ ڈاکٹر سبرینہ فلسفہ ِ حیاتیات ، فلسفہ ِ سائنس ، علمیات ، اخلاقیات جیسے مضامین میں تحقیقات سے دلچسپی رکھتی ہیں ۔
میں ہر سمسٹر میں یونیورسٹی آف نیو ہمپشائر کے آنرز کے طلباء کو فلسفہِ سائنس پر مضامین پڑھاتی ہوں ۔اکثر طلباء یہ مضامین اپنی ڈگری کی عمومی شرائط کو پورا کرنے کی خاطر پڑھتے ہیں ۔ اور ان میں سے بیشتر نے اس سے پہلے کبھی فلسفہ نہیں پڑھا ہوتا ۔
سمسٹر کے پہلے دن ، میں ان کو یہ دکھانےکی کوشش کرتی ہوں کہ فلسفہِ سائنس کس شے کے بارے میں ہے ۔ میں اپنی بات کا آغاز اس نکتے سے کرتی ہوں کہ فلسفہ ان مسائل کو موضوع بناتا ہے جن کو محض حقائق کے بل بوتے پر طے نہیں کیا جا سکتا ، اورفلسفہِ سائنس اسی طریقہ کار کا شعبہ سائنس میں اطلاق سے متعلقہ ہے ۔ بعد ازاں ، میں اس مضمون سے متعلقہ چند مرکزی تصورات کو کھولتی ہوں یعنی استقراء، ثبوت ، اور سائنسی تحقیق کا طریقہ کار ۔ میں ان کو بتاتی ہوں کہ سائنس ، سابقہ مشاہدات کو بروئے کار لاتے ہوئے نامعلوم کے بارے عمومی دعووں کو اخذ کرتے ہوئے استقراء کے ذریعے آگے بڑھتی ہے ۔ تاہم فلاسفہ چونکہ استقراء کوغیرموزوں بنیاد پہ جواز یافتہ گردانتے ہیں لہذا سائنس کے لیے اس کو مشتبہ سمجھتے ہیں ۔
پھر میں اس دشواری کو زیرِبحث لاتی ہوں کہ کس مفروضے کے ضمن میں کون سا ثبوت موزوں ہے، اور اس کا درست فہم کیونکر کسی سائنسی تحقیق کے لیے ناگزیر ہے ۔ میں ان کو واقفیت دیتی ہوں کہ ’سائنسی طریقہ کار‘ مفرد (singular) اور سیدھا سادا (straight-forward) نہیں ہے، (یا ناک کی سیدھا میں نہیں چلتا ہے ) – اور یہ کہ سائنسی منہاج کی ماہیت کے بارے میں بنیادی تنازعات موجود ہیں ۔ آخرِ کار ، میں اس نکتے پر اصرار کرتی ہوں کہ اگرچہ یہ مسائل ’’فلسفیانہ‘‘ نوعیت کے ہیں ، تاہم اس حوالے سے حقیقی نتائج کے حامل ہیں کہ سائنس کیسے بروئے کار آتی ہے ۔
اس نقطہ پر ، مجھ سے اکثر وبیشتر اس طرز کے سوال پوچھے جاتے ہیں ۔ ’’آپ کی تعلیم کیا ہے ؟‘‘ ، ’’آپ نے کہاں سے تعلیم حاصل کی ؟‘‘ اور ’’کیا آپ سائنس دان ہیں؟‘‘۔
غالباً ، وہ ایسے سوالات اس لیے پوچھتے ہیں کیونکہ جمیکا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون فلسفی کی حیثیت سے میں نامانوس شناختوں کا مجسم نمونہ ہوں ، اور وہ میرے بارے متجسس ہوتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بات جزواً درست ہے تاہم میرے خیال میں کچھ اس سے بڑھ کربھی ہے کیونکہ میں نے ایک قدرے زیادہ ٹھیٹھ پروفیسر کے پڑھائے ہوئے فلسفہ ِ سائنس کے مضمون میں ایک ملتے جلتے نمونے کا مشاہدہ کیا ہے ۔ کورنل یونیورسٹی نیو یارک میں آنرز کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ، میں نے انسانی فطرت اور ارتقاء پر ایک مضمون میں بطور اسسٹنٹ کام کیا ۔ جس پروفیسر نے وہ مضمون پڑھایا ، اس نے میری نسبت یکسر مختلف ظاہری تاثر چھوڑا ۔ وہ ساٹھ برس سے زائد عمر کا ایک سفید فام مرد تھا یعنی علمی بالادستی کی ٹھیک ٹھیک تصویر ۔ تاہم سائنس کے بارے اس کے تاثرات کی بابت طلباء متشکک تھے کیونکہ ’’وہ سائنس دان نہیں ہے‘‘ ، جیسا کہ کچھ نے ناپسندیدگی کے ساتھ اظہار کیا ۔
میرا خیال ہے کہ ایسے ردعمل ، سائنس کے مقابلے میں فلسفہ کی قدروقیمت کے بارے تحفظات پر مبنی ہیں ۔ حیرت نہیں ہے کہ میرے بعض شاگرد اس بارے متذبذب ہیں کہ فلسفی ، سائنس کے بارے میں بھی کوئی مفید بات کر سکتے ہیں ۔ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ نمایاں سائنس دان عوام الناس کے سامنے کہہ چکے ہیں کہ فلسفہ ، سائنس سے غیرمتعلق ہے اگر یکسر بیکار اور مبنی بر خطاء نہیں ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ سائنس ، ٹیکنالوجی ، انجیئنرنگ اور ریاضیات پر مشتمل تعلیم ، بشریات کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔
میری کلاس میں بیٹھنے والے بہت سے نوجوان لوگ سوچتے ہیں کہ فلسفہ ایک غیرواضح شعبہ (fuzzy-discipline)ہے جو صرف قیاس آرائی کے معاملات سے وابستہ ہے ، جبکہ سائنس حقائق کو دریافت کرنے ، ثبوت فراہم کرنے اور معروضی صداقتوں کے انکشاف کو موضوع بناتا ہے ۔ مزید براں ، ان میں سے بیشتر یقین رکھتے ہیں کہ سائنس دان فلسفیانہ سوالات کے جواب دے سکتے ہیں تاہم سائنسی معاملات میں فلاسفہ کچھ سروکار نہیں رکھتے ۔
کیونکر کالج کے طلباء فلسفہ کو سائنس سے یکسر الگ اور اس کا ماتحت گردانتے ہیں ؟ میرے تجربے کے مطابق اس کی چار وجوہات ہیں :
پہلی وجہ کا تعلق تاریخی فہم کے نہ ہونے سے ہے ۔ کالج کے طلباء فکری طور پر اس جانب مائل ہوتے ہیں کہ شعبہ جاتی بٹوارے کائنات میں موجود تفریقات کی ہوبہو عکاسی کرتے ہیں ، اور چنانچہ وہ اس بات کو سمجھ نہیں پاتے کہ فلسفہ و سائنس ، نیز ان کے مابین کھینچی جانے والی حدِ فاصل ، متحرک انسانی تخلیقات ہیں ۔آج کل ’سائنس‘ کہلائے جانے والے بعض مضامین ، ایک زمانے میں مختلف عنوانات تلے آتے تھے ۔سائنسی علوم میں سب سے زیادہ مستحکم مضمون طبیعیات ایک زمانے میں ’قدرتی فلسفہ‘ کے دائرے میں آتا تھا ۔ اور موسیقی کو ایک زمانے میں ریاضیات کے تحت رکھا جاتا تھا ۔ سائنس کا دائرہ کار بیک وقت محدود اور وسیع ہوا ہے ، زمان و مکان اور اس جگہ کے ثقافتی تناظرات کی بدولت جہاں سائنس پر کام ہوتا تھا ۔
دوسری وجہ کا تعلق ٹھوس نتائج کے ساتھ ہے ۔ سائنس حقیقی دنیا کے مسائل کو حل کرتی ہے ۔ یہ ہمیں ٹیکنالوجی فراہم کرتی ہے یعنی ایسی اشیاء جن کو ہم چھو سکتے ہیں ، دیکھ سکتے ہیں اور استعمال میں لا سکتے ہیں ۔ یہ ہمیں ویکسین ، جینیاتی تبدیلیوں کی حامل فصلیں اور دردکش ادویات فراہم کرتی ہے ۔ طلباء کی نگاہ میں فلسفہ کوئی مادی شے فراہم نہیں کرتا ۔ تاہم اس کے برعکس ، فلسفے کی زائیدہ حسی اشیاء بہت زیادہ ہیں: البرٹ آئن سٹائن کے فلسفیانہ ذہنی تجربات نے زحل سیارے کے چمکدار دائروں کے مابین واقع تاریک خطے (Cassini)کو ممکن بنایا ۔ ارسطو کی منطق کمپیوٹر سائنس کی بنیادہے جس نے ہمیں لیپ ٹاپ اور سمارٹ فون مہیا کیے ۔ اور ذہن و جسم کے مسئلے پر فلسفیوں کے کام نے نیوروسائیکالوجی کے ابھرنے کے لیے ماحول فراہم کیا اور نتیجتاً انسانی دماغ کی تصویریں لینے والی ٹیکنالوجی (brain-imagining technology)وجود میں آئی ۔ فلسفہ ہمیشہ سے سائنس کے پس منظر میں خاموشی سے کام کر رہا ہے ۔
تیسری وجہ کا تعلق صداقت ، معروضیت اور جانب داری کے ساتھ ہے ۔ طلباء اصرار کرتے ہیں کہ سائنس خالصتاً معروضی ہے اور اس زاویہ نگاہ پر سوال اٹھانے والا یقینا ً فریب خوردہ ہے ۔ کچھ بنیادی مفروضات کے مجموعے کو پس منظر میں رکھ کر تحقیق کرنے والے کو معروضی فرض نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ بلکہ وہ ’نظریاتی‘ (ideological) ہے ۔ لیکن ہم سب ہی ’جانب دار‘ ہیں اور ہماری جانب داریاں سائنسی کے تخلیقی کام کو ایندھن فراہم کرتی ہیں ۔ اس مسئلے کو زیرِ بحث لانا دشوار ہو سکتا ہے کیونکہ سائنس کے عوامی تصور کے اندر معروضیت کی ایک سادہ تفہیم کی جڑیں نہایت گہری ہیں ۔ اس پر بات کرنے کے لیے میں طلباء کو کسی قریبی شے پر ’پیش قیاسی مفروضات کے بغیر‘ نگاہ ڈالنے کی دعوت دیتی ہوں ۔ پھر میں ان سے ان کے مشاہدات کے بارے دریافت کرتی ہوں ۔ وہ توقف کرتے ہیں ۔۔ اور جان لیتے ہیں کہ وہ پرانے تصورات سے اخذ کئے بغیر اپنے تجربات کی تعبیر نہیں کر سکتے ۔ ایک دفعہ جب وہ اس بات کو سمجھ لیتے ہیں، تو سائنس میں معروضیت کے بارے سوال اٹھانے سے متعلق تصور کی موزونیت ان کو مزید اجنبی محسوس نہیں ہوتی ۔
طلباء کی بے اطمینانی کا چوتھا ماخذ یہ ہے کہ وہ سائنس کی تعلیم کو کیا سمجھتے ہیں ۔ کسی آدمی کویہ تاثر ملتا ہے کہ وہ سائنس کو بنیادی طور پر موجود چیزوں – ’’حقائق‘‘ کی فہرست نگاری کا فریضہ سرانجام دینے والی شے سمجھتے ہیں اور سائنس کی تعلیم کو ان حقائق کے بارے آگاہی دینا سمجھتے ہیں ۔ میں ان توقعات کی توثیق نہیں کرتی ہوں ۔ بلکہ ایک فلسفی کی حیثیت سے ، مجھے بنیادی طور پہ اس بات سے دلچسپی ہے کہ ان حقائق کو کیسے منتخب کیا جاتا ہے اور ان کی تعبیر کیسے کی جاتی ہے ، کیونکر بعض کو دوسروں کی نسبت زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے ، کس طریقے سے ان حقائق کو پیش قیاسی مفروضات میں برتا جاتا ہے اور وغیرہ وغیرہ ۔
طلباء اکثر اوقات بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان معاملات پر یہ ردعمل دیتے ہیں کہ ’’حقائق تو حقائق ہیں‘‘۔ تاہم یہ کہنا کہ ایک شے اپنے آپ سے مماثل ہے ، اس شے کے بارے میں کوئی دلچسپ شے نہ کہنے کے مترادف ہے ۔ طلباء اس بات ’’حقائق تو حقائق ہیں‘‘ سے یہ مراد لیتے ہیں کہ ایک دفعہ اگر ہمارے پاس ’’حقائق‘‘ موجود ہوں تو ان کی تعبیر یا ان سے انکار کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے ۔
تاہم وہ ا س طرح کیوں سوچتے ہیں ؟ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ سائنس پر کام ہی اس طور ہوتا ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ سائنس کو عام طور پر ایسے ہی پڑھایا جاتا ہے ۔اگر طلباء کو سائنسی طور سے پڑھا لکھا بننا ہے تو ان کو تکلیف دہ حد تک حقائق اور افعال پر لازماً مہارت حاصل کرنا پڑے گی ، اور ان کے پاس سیکھنے کی خاطر صرف محدود وقت ہوتا ہے ۔ سائنس دانوں پر لازم ہے کہ وہ شبانہ روز تیزی سے وسعت پذیر تجربی علم کے مطابق اپنے مضامین کو تیار کریں ، اور ان کے پاس لیکچر کے دوران ایسے سوالات میں وقت ضائع کرنے کی فرصت نہیں ہوتی جن پر گفتگو کرنے کے لیے شاید وہ مہارت کے حامل نہیں ہیں ۔ غیر ارادی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طلباء اکثر و بیشتر اپنی کلاسوں سے بغیر کوئی آگاہی حاصل کئے واپس آتے ہیں کہ فلسفیانہ سوالات ،سائنسی نظریات و عمل سے متعلق ہوتے ہیں ۔
تاہم معاملات کو اس رُخ پر نہیں جانا چاہیے ۔ اگر درست نظامِ تعلیم کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو میرے جیسے فلسفیوں کو زمانے کے برخلاف کام کرتے ہوئے طلباء کو اس بات پر قائل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ ہمارے پاس سائنس کے بارے کچھ اہم بات کرنے کو ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے سائنس دان ساتھیوں کی مدد درکار ہے جنھیں طلباء سائنسی علم مہیا کرنے والا واحد طبقہ گردانتے ہیں ۔ میں محنت کو صریحاً تقسیم کرنے کی تجویز پیش کرتی ہوں ۔ ہمارے سائنس دان ساتھیوں کو سائنس کی بنیادوں کے بارے تعلیم دیتے رہنا چاہیے تاہم وہ اپنے شاگروں کو اس بات کی وضاحت دیتے ہوئے مدد کر سکتے ہیں کہ سائنس ایسے اہم تصوراتی ، تعبیری ، منہاجی اوراخلاقی مسائل کی سطح کو کھرچتی ہے جن کو زیر ِ بحث لانے کے لیے فلسفی خصوصی مہارت کے حامل ہیں نیز فلسفیانہ معاملات، سائنس سے بہت زیادہ غیرمتعلقہ ہونے کی بجائے اس کے قلب میں پائے جاتے ہیں ۔