اپنے دیس کی بازیافت- تحریر: صومیہ شنکر- ترجمہ: اسامہ ثالث
[11 دسمبر 2019ء کو ہندوستانی پارلیمنٹ نے ہندوستان کی شہریت کے حصول کے لیے ایک مذہبی شرط متعارف کروائی۔ اہلِ علم و فکر کا کہنا ہے کہ یہ شرط بھارتی آئین کی روح کے خلاف ہے اور اس کے فرقہ وارانہ مضمرات اب واقعات میں ڈھلتے جا رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے بھارتی مکھ منتری نریندر مودی نے اپنے پچھلے اور موجودہ دورِ حکومت میں تسلسل سے مسلم دشمن اقدامات اٹھائے ہیں تاہم ان کے حالیہ عمل کے بعد بھارتی عوام اور بالخصوص مسلم جنتا کا جو ردِ عمل سامنے آیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ بھارت کے مختلف تعلیمی اداروں سے شروع ہونے والا احتجاج اب شہروں شہروں پھیل گیا ہے۔ ریاستی اداروں نے احتجاج کا جواب بے پناہ بربریت سے دیا اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق 27 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس سلسلے میں بائیں بازو کے ایک امریکی رسالے The Baffler نے مختلف اہلِ فکر سے چار مضامین لکھوائے ہیں۔ ان چاروں مضامین کا اردو ترجمہ جائزہ کے صفحات پہ پیش کیا جائے گا۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون حاضرِ خدمت ہے۔ اصل مضمون کا لنک۔ مدیر]
چند ہفتے پہلے تک بھارتی مکھ منتری ناقابلِ شکست دکھائی دیتے تھے۔ بھارتی عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی پر ملے حوصلے کی وجہ سے مودی سرکار نے مسلمان برادری – جو ملکی آبادی کا پندرہ فیصد ہے – کے خلاف امتیازی پالیسیوں کا نفاذ کیا۔ دائیں بازو کی ہندو تحریک کے رہنما کی حیثیت سے ملک میں مودی اپنے مداحوں کی نظر میں ہندو راشٹراکے پیشوا سمجھے جاتے ہیں– ایسی ہندو ریاست جس میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہریوں تک محدود کر دیا جائے گا۔
ماہ اگست میں مودی سرکار نے ایک آئینی شق منسوخ کر دی جو محصور کشمیر ی ریاست کو ایک خاص درجے کی خودمختاری اور خصوصی حقوق فراہم کرتی تھی۔ اس فیصلے کو مسلم اکثریتی آبادی کی حامل ریاست کا آبا دیاتی تناسب تبدیل کرنے کے طویل المدتی منصوبے کا سنگ بنیاد کہا جا رہا ہے۔ بعدازاں اسی ماہ آسام کی شمالی ریاست میں شہریوں کے قومی کھاتے (National Register of Citizens ) )کا اجراء کیاگیا۔ اس نے انیس لاکھ لوگوں کو ،جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، بھارت کی شہری فہرست سے نکالتے ہوئےانہیں غیر قانونی مہاجر قراد دیا۔ نومبر میں ایودھیا فیصلہ سامنے آیا، جس میں1992 میں ہندو قوم پرستوں کے ہاتھوں بے حرمت ہونے والی بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی۔ مسجد کے انہدام کے بعد وسیع پیمانے پر فسادات رونما ہوئے جو دو ہزار زندگیوں کو نگل گئے جن میں زیادہ تر لوگ مسلمان تھے۔ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ یہ جگہ ان کے بھگوان رام کی جنم بھومی ہے؛ بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے یہ تاریخی فیصلہ مودی کی ہندو قوم پرستانہ اساس کی علامتی فتح قرار پایا ۔ کشمیر کے علاوہ ، ان فیصلوں پر کہیں بھی قابلِ ذکر مزاحمت یا احتجاج نہیں ہوا۔ مودی کو شاید اسی طرح کے نرم ردِعمل کی توقع تھی، اورشاید خوشی بھی، کہ ترمیمی بل برائے شہریت [Citizenship (Amendment) Bill] 12دسمبر کو قانون بن گیا۔ ترمیمی قانون برائے شہریت [Citizenship (Amendment) Act] بھارت کے پڑوسی مسلم اکثریتی ممالک — پاکستان،بنگلہ دیش اور افغانستان– کی ہندو،پارسی،سکھ،بدھ، جین اور عیسائی کمیونٹی کو حقِ شہریت دے گا۔ ایک ایسے خطے میں ،جو فرقہ وارانہ فسادات کی طویل تاریخ رکھتا ہو، مذہبی بنیادوں پر ازسرِنو علاقائی کتر بیونت خطرناک عمل ہے۔ کئی قانونی ماہرین ترمیمی قانون برائے شہریت کو بھارت کے آئین کی کھلی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔
اب کی بار شہریوں کا ردِعمل مختلف رہا۔ اس فیصلہ نے ملک گیر فسادات کو جنم دیا جو گزشتہ دو ہفتوں سے جاری ہیں۔ مودی سرکار کا تشدد اور امتیاز پر مبنی رویہ بین الاقو امی مذمت سے دوچار ہوا۔ اب تک 27 افراد مارے جا چکے ہیں جن کا تعلق سوائے ایک کےان ریاستوں سے تھا جہاں مودی کی بی جے پی کی حکومت ہے۔ اگر یہ شہریوں کے قومی کھاتے (NRC) کے جلو میں نہ آتا تو شاید ترمیمی قانون برائے شہریت کو ایک بےسود مشق ہی باور کیا جاتا ، جس کا مقصد کچھ نہ کچھ مذہبی اقلیتوں کو پناہ دینا ہو ۔ یہ منصوبہ صرف مسلمانوں کو ان کا بھارتی شہری ثابت ہونا مشکل کردے گا جبکہ دیگر اقلیتوں کو ترمیمی قانون برائے شہریت کے چور دروازے سے شہریت دینے کا موجب بھی ہو گا۔ ملکی سطح پر NRC کا نفاذ مودی کی پارٹی کا دیرینہ مضبوط مؤقف رہا ہے جو بی جے پی کے متعدد منشوروں میں نظر آتا ہے۔
ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ سب سے پہلے آسام میں شروع ہوا جبکہ ابھی یہ بل پارلیمنٹ میں پیش بھی نہیں ہوا تھا۔ جن تنظیموں نے دو ماہ قبل ہی این آر سی کی زبردست حمایت کی تھی انہوں نے مشعلیں روشن کئے ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ شروع کر کے ریاست کا پہیہ جام کردیا۔ سموجل بھٹاچاریہ اس تحریک کے سر کردہ رہنماؤں میں سے ہیں اور آسام طلبہ تنظیم کے مشیر بھی ہیں۔ وہ این ار سی پر عمل درآمدکروانے میں بی جے پی کے اہم اتحادی رہے ہیں لیکن بعد میں مودی گروپ سے اس بناء پر علیحدہ ہوگئے کہ انہوں نے خطے کے عشروں پرانے ثقافتی-لسانی مسئلے کو محض مذہب تک محدود کر دیا۔ ”1971 تک ہم نے ہندو مسلم ہر دو قسم کے مہاجرین کو قبول کیا لیکن اس کے بعد ہم دونوں کو اکٹھے جگہ نہیں دے سکتے۔ یہ بات واضح ہو گئی ہے”-ستمبر میں انیس لاکھ مہاجرین کو بے دخل کرنے والی این آر سی فہرست کے منظر عام پر آنے کے کچھ دنوں بعد انہوں نے مجھ سے کہا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سی بی اے کے ذریعے بی جے پی سرکار غیرقانو نی بنگالی ہندوؤں کا ووٹ بنک محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
آسام سمیت دیگر شمالی ریا ستوں کے عوام ، جہاں بعض لوگوں نے پہلے این آر سی کی حمایت کی تھی ، شہریت میں اس اکھاڑ پچھاڑ کو رَد کر چکے ہیں۔ ان کے خیال میں موخرالذ کر پالیسی غیر قانونی بنگالی ہندوؤں کے لئے شہریت کا راستہ ہموار کرے گی۔ جس علاقے میں بی جے پی نے ابتدائی لیکن قابل ذکر انتخابی مرحلے کا آغاز کیا تھا وہاں بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ سروس کی بندش کے ساتھ ساتھ دفعہ 144– جسے ”کرفیو” کا قانون بھی کہا جاتا ہے اور جو عوامی اکٹھ سے روکتا ہے – کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔
ترمیمی قانون برائے شہریت کے خلاف مزاحمت صرف سرحدی علاقوں تک ہی محدود نہیں رہی۔ اس مزاحمت کا آغاز دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہوا پھر دیگر جامعات میں پھیلی اور اس کے بعد چار سو جڑ پکڑ گئی۔ 15 دسمبر کو مظاہرہ جامعہ کی حدود سے باہر نکل گیا۔ بی جے پی سرکار کے زیرسایہ دہلی پولیس نے مظاہرین پر غیرمتوازن طاقت کا استعمال کیا، جامعہ کی لائبریری میں آنسو گیس کے گولے برسائے، طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا اور میڈیا پر انہیں جامعہ کے گیٹ کے باہر مجرموں کی طرح ہاتھ ہوا میں اٹھائے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ سانحہ دارلحکومت میں طویل احتجاجی مظاہروں کا باعث بنا جو بعد میں پولیس کے لاٹھی چارج، پرفشار آب ، اور آنسو گیس سمیت بڑے پیمانے پر گرفتاریوں سے دبائے گئے۔ دہلی کے گردنو اح میں یہ احتجاجی مظاہرے مختلف طلبہ،سیاسی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے گروہوں نے منظم کئے لیکن ان میں جامعہ ملیہ اور اس سے ملحقہ رہائشی علاقے شاہین باغ کے مظاہرے سب سے زیادہ جمے رہے جن میں مسلمان خواتین نے سخت سردی میں جامعہ ملیہ کے طلبہ پر کریک ڈاون اور این آر سی کے خلاف دھرنا دئیے رکھا۔ میں نے احتجاج شروع ہونے کے ایک ہفتہ بعد علاقے کا دورہ کیا۔ یہاں کی دیواریں گاندھی، امبیڈکر اور نہرو کی تصاویر سے مزین ہیں۔ رہائشی علاقوں کی دیواروں پر یہ اشتہارات جا بجا کندہ تھے، ”یہ ملک میرا بھی ہے”، ترمیمی قانون اور NRC کو منسوخ کرو” اور ”ہندو، مسلمان، سکھ ، عیسائی ترمیمی قانون برائے شہریت کے خلاف متحد ہیں”۔ شہر کے دوسرے حصوں میں مَیں نے نوجوانوں کو اندھیرے میں دائرہ بنا کر موبائل کی ٹارچ روشن کئے آئین کے ابتدائی حصے کو پڑھتے پایا جو حکومت کو یاد دہا نی کروارہے تھے کہ ہم ”سیکولر،عوامی، جمہوریت” کے شہری ہیں۔ مورچے، ناکہ جات، بندگلیاں ، انٹرنیٹ کاتعطل اور لاتعداد گرفتاریاں دارلحکومت میں عوام کے احتجاج کو روک نہ پائیں۔
حکومت کے حامیوں نے احتجاجی طلبہ کی کردارکشی کرتے ہوئے انہیں متشدد اور وحشی قرار دیا۔ وزیراعظم نے انتخابی مہم سے خطاب کرتے ہوئےمشرقی ریاست جھار کھنڈ میں کہا ”شر پسند اپنے لباس سے پہچانے جاتے ہیں” (ایک کنایہ جس میں مسلم کمیونٹی کی جانب اشارہ کیا گیا ) ۔
”جب بھی تشدد کا ذکر ہو تو سب سے پہلے ہم (مسلمان) مشتبہ سمجھے جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ کیسے جامعہ ملیہ کے طلبہ پرامن احتجاج کر رہے تھے اور ریاست نےان پر تشدد کا الزام لگا دیا”۔ 16 دسمبر کو دارالحکومت میں انڈیا گیٹ پر احتجاج کرتے ہوئے غربت اور ترقی پر تحقیق سے منسلک چھبیس سالہ سعود احمد خان نے بتایا کہ” ہم ہر روز میڈیا پر یہ دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی جرم تین افراد نے کیا تو ان میں سے مسلمان کے نام کا ڈھنڈورا پہلے پیٹا جائے گا۔ ”
بھارت رواں برس انٹرنیٹ معطلی میں دنیا بھر میں سب سے آگے رہا۔ دنیا کے سب سے بڑے انٹرنیٹ معطل کرنے والے ملک چین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مودی سرکار نے احتجاج شروع ہونے پر کئی ریاستوں میں انٹرنیٹ سہولت منقطع کردی۔ مغربی بنگال، حیدرآباد،تامل ناڈو،بہار، راجھستان اور مدھیا پردیش میں حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نےاحتجاج کیا۔ تاہم بعض قابل ذکر مظاہروں میں ،جیسے اورنگ آباد ریاستِ مہاراشٹر میں، کوئی سیاسی جھنڈا یا رہنما نظر نہ آیا بلکہ صرف تِرنگا اور مختلف مذاہب کے احتجاجیوں کے لباس ہی نظر آئے۔
بھارت میں پولیس صوبوں کا معاملہ ہے۔ صرف ایک صوبے کے سوا باقی سب میں جہاں پولیس نے مظاہرین پر گولیاں برسائیں، تشدد کیا اور حراست میں لیا ، بی جے پی کی حکومت ہے۔ یوگی آدِتیہ ناتھ، ایک انقلابی ہندو قوم پرست سادھو، کی زیر حکومت ریاست اتر پردیش میں، بالخصوص مسلم اکثریتی قصبات و شہروں میں ، بدترین کریک ڈاؤن دیکھنے کو ملا۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کم از کم ستائیس افراد لقمہ اجل بن گئے۔ جن میں ایک آٹھ سالہ بچے سمیت انیس اموات اتر پردیش میں ہوئیں۔ بھارت کی سب سے زیادہ گنجان آباد ریاست اتر پردیش پے درپے فرقہ وارا نہ فسادات کی زد میں رہی۔ اس کی بیس کروڑ آبادی کا بیس فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ نئی دہلی کا راستہ اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنو سے ہو کرجاتا ہے۔ بھارتی سیاست میں اتر پردیش میں کامیابی طاقت کے مرکز نیو دہلی کی طرف سفر کا فیصلہ کن امر سمجھی جاتی ہے۔ بی جے پی نے اس خطے میں پُرجوش انداز سے مقابلہ کیا ہے اور مسلمانوں کے خلاف زہر آلود تقریروں کے لئے مشہور آدتیہ ناتھ کی فتح ریاست کی ممکنہ فرقہ واریت کی علامت تھی۔ اور اس کی ریاست میں مسلمان مظاہرین پر وحشیانہ کریک ڈاؤن اسی سمت میں ایک اور قدم ہے۔
ضلع مظفر نگرمیں ، جہاں 2013 میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹے تھے، انتظامیہ نے نقصان کے ازالہ کے لئے 67 دکانیں، جن میں زیادہ تر مسلمانوں کی ہیں، یہ کہتے ہوئے مقفل کر دیں کہ فسادات گردو نواح کے رہائشی شر پسندوں کی وجہ سے ہوئے ۔ قومی تحفظ ایکٹ(National Security Act)کے تحت ، جو ریاست کو کسی بھی مشتبہ فرد کو گرفتار کر کے ایک سال تک تحویل میں رکھنے کی طاقت فراہم کرتا ہے ، 250 ایسے مظاہرین کو گرفتار کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے کہ جو حکومت کی دانست میں قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
یہ حالات مسلمانوں باشندوں کو ایک ایسی ریاست کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں جو پہلے ہی مسلمانوں سے مخاصمت رکھتی ہے اورایک ایسی پولیس کے رحم و کرم پر جو مسلمانوں سے امتیازی سلوک کرنے کے لیے جانی جاتی ہے۔
اتر پردیش کے متعدد اضلاع میں ذرائع مواصلات اور انٹرنیٹ کی بندش ہے۔ سماجی کارکن و اد اکارہ صدف جعفر سمیت ہزاروں مظاہرین گرفتارہوچکےہیں۔ متعدد مسلمانوں پر اقدامِ قتل کا مقدمہ درج ہے۔ مکمل لاک ڈاؤن اتر پردیش میں ویڈیوز میں پولیس اہلکار براہ راست فائرنگ کرتے، گھروں میں گھس کر چلاتے ، بچوں پر تشدد کرتے،املاک کو نقصان پہنچاتے اور گرفتاریاں کرتے نظر آتے ہیں۔ گرفتاری اور تشدد سہنے والے افراد میں سے بہت سے نابالغ ہیں۔ وکلاء اور سماجی کارکنوں پر مشتمل ایک تنظیم (Indian Civil Liberties Union) کے تخمینے کے مطابق تقریباً ساڑھے پانچ ہزار (5500) افراد حراست میں لئے جا چکے ہیں اور سولہ سو سے زائد افراد صرف اتر پردیش سے گرفتار کئے گئے ہیں۔
سیکولر، کثیرالثقافتی اجتماعات میں قومی جھنڈے لہرا کر آئین کا ابتدائی حصہ پڑھتےاور بھارت کی تکثیری اقدار کے لئے لڑتے مظاہرین کے سامنے بی جے پی کو ہندو قوم پرست ریاست کا خواب چکنا چور ہوتا نظر آتا ہے۔ دہلی اور شاہین باغ جیسے مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں مظاہرین بھارت کی سیکولر ،آئینی اقدار کے تحفظ کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ دوران احتجاج نماز پڑھتے مسلمانوں کے گرد ہندوؤں اور سکھوں نے ہاتھوں کی زنجیر بنا کران کا دفاع کیا۔ فرقہ وارا نہ خطوط پر ووٹ اور حمایت حاصل کرنے کے عادی مودی کواس صورتحال پر شدید جھٹکا لگا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ، مشرق میں جھارکھنڈ اور مغرب میں مہاراشٹرا جیسے پارٹی کے گڑھ میں بی جے پی کی مقبولیت کم ہونا شروع ہو گئی ہے۔ حتیٰ کہ بی جے پی کے موجود اتحاد کے بعض ارکان نے بھی واضح کیا ہے کہ وہ این آر سی کا نفاذ نہیں ہونے دیں گے۔ بین الاقو امی ملامت میں اضافہ ہورہا ہے۔
22 دسمبر کو مودی دارالحکومت میں پارٹی کے زعفرانی پرچم لہراتے بی جے پی کے حامیوں سے خطاب کرنے کے لئے اسٹیج پر تشریف لائے۔ انہوں نے اپنے وزیر داخلہ امیت شاء کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملک گیر این آر سی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ دریں اثناء حکومت نے ایک مشتبہ قسم کا منصوبہ پیش کیا ہے، قومی کھاتہ برائے آبادی – معمول کے باشندوں یا وہ افراد جو کسی خاص جگہ پر چھ مہینے سے زائد مدت سے قیام پزیر ہیں کا قومی کھاتہ-جو، موجودہ شکل میں، قومی سطح کے این آر سی کی تیاری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
اگرچہ مظاہرین کے خلاف ہفتوں کے پرتشدد کریک ڈاؤن کے بعد بھی این آر سی اور سی اے اے کا مستقبل واضح نہیں ہے ، میں نے دہلی کے گرد و نوح میں جتنے بھی مظاہرین سے بات کی وہ این آر سی کی منسوخی تک ہار نہ ماننے پر پر عزم تھے ۔ نئے سال کا آغاز مودی کے CAA-NRC-NPR کے سہ رخی حملے کے خلاف تقریباً ایک سو تنظیموں کےآپسی اتحاد سے ہوا ہے۔ کہا جارہا ہے ،کہ آئین کا ابتدائی جملہ “ہم ، ہندوستانی عوام” ملک بھر میں مظاہرین کے لئے ایک لمحہ فکریہ بن گیا ہے۔