دنیا کی آخری رات – رے بریڈ بری (مترجم: عاطف حسین)
’’اگر تمہیں پتا ہو کہ آج دنیا کی آخری رات ہے تو تم کیا کرو گی؟‘‘
’’کیا مطلب؟ کیا تم سنجیدہ ہو؟‘‘
’’ہاں، میں سنجیدہ ہوں‘‘۔
’’مجھے نہیں معلوم۔ میں نے کبھی اس بارے میں نہیں سوچا‘‘ ۔ اس نے چاندی کے چائے دان کی ہتھی اپنی طرف گھماتے ہوئے اور دونوں پیالیاں پرچوں میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔
اس نے اپنے لیے مزید کافی انڈیلی۔ پس منظر میں دو چھوٹی چھوٹی لڑکیاں مہمان خانے کے قالین پر بیٹھی لالٹینوں کی سبز روشنی میں بلاکوں سے کھیل رہی تھیں۔ شام کی ہوا میں کشیدہ کافی کی خوشگوار مہک پھیلی ہوئی تھی۔
’’بہتر ہو گا کہ اب تم اس بارے میں سوچنا شروع کردو‘‘ اس نے کہا۔
اس کی بیوی نے پوچھا ’’تم سنجیدہ تو نہیں ہو؟‘‘۔
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’کوئی جنگ ہونے لگی ہے؟‘‘
اس نے نفی میں سرہلا دیا۔
’’ہائیڈروجن یا ایٹم بم؟‘‘
’’نہیں‘‘۔
’’حیاتیاتی ہتھیاروں کی جنگ؟‘‘
اس نے اپنی کافی کو آہستہ آہستہ ہلاتے ہوئے اور اس پر نگاہیں مرکوز کرتے ہوئے کہا ’’ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں۔ فرض کرو، یہ محض کسی کتاب کو بند کرنے کے نتیجے میں ہوجائے تو؟‘‘۔
’’میرا نہیں خیال کہ مجھے کچھ بھی سمجھ آرہی ہے‘‘۔
’’سمجھ تو سچ یہ ہے کہ مجھے بھی کچھ خاص نہیں آرہی۔ یہ محض ایک احساس ہے جو کبھی تو مجھے بہت خوفزدہ کرتا ہے اور کبھی بالکل نہیں‘‘۔ اس نے ایک نظر لڑکیوں پر ڈالی جن کے سنہری بال لالٹین کی روشنی میں چمک رہے تھے اور پھر آواز پست کرتے ہوئے بولا ’’میں نے تمہیں پہلے نہیں بتایا مگر یہ چار راتیں پہلے ہوا تھا‘‘۔
’’کیا ہوا تھا؟‘‘
’’میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔ میں نے ایک خواب دیکھا کہ سب کچھ ختم ہونے جارہا ہے۔ ایک نامانوس اور مبہم آواز نے مجھے آگاہ کیا کہ دنیا پر سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ میں نے اگلی صبح اس بارے میں کچھ زیادہ نہیں سوچا لیکن دن بھر کام پر بھی یہ احساس میرے ساتھ ہی رہا۔ پھر میں نے سہ پہر میں سٹین ولس کو کھڑکی سے باہر تکتے پا کر پوچھا کہ ’کیا سوچ رہے ہو سٹین‘ تو اس نے کہا کہ ’میں نے کل شب ایک خواب دیکھا ہے‘ ۔ مجھے فوراً ہی سمجھ آگئی کہ اس نے کیا خواب دیکھا ہوگا لیکن میں نے اس سے اظہار نہیں کیا بلکہ اس کی پوری بات سنی۔
’’اسے بھی یہی خواب آیا تھا؟‘‘
’’ہاں۔ پھر میں نے اسے بتایا کہ میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے۔ اسے بالکل بھی تعجب نہیں ہوا بلکہ میرے خواب کے بارے میں جاننے کے بعد وہ خاصا مطمئن نظر آیا۔ پھر ہم نے یوں ہی دفتر میں مٹر گشت شروع کردیا۔ یہ گشت ہم نے کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا۔ ہم نے بس یوں ہی چلنا شروع کردیا اور ہر جگہ لوگ ہمیں اپنے سامنے کی چیزوں کی بجائے اپنی میزوں، ہتھیلیوں یا کھڑکی سے باہر کے مناظر کو گھورتے نظر آئے۔ میں نے اور سٹین نے ان میں سے کئی ایک سے بات بھی کی‘‘۔
’’ان سب نے بھی یہی خواب دیکھا تھا؟‘‘۔
’’ہاں۔ سب نے بالکل یہی خواب دیکھا تھا‘‘۔
’’کیا تمہیں اس خواب کی سچائی پر یقین ہے؟‘‘
’’اتنا یقین مجھے کبھی کسی اور چیز کی سچائی کے بارے میں نہیں رہا‘‘۔
’’اور یہ سب کب ہوگا؟ میرا مطلب ہے دنیا کب رکے گی؟‘‘
’’ہمارے لیے رات کے کسی پہر۔ اور پھر جس جس علاقے میں رات اترتی جائے گی وہاں سب کچھ رکتا چلا جائے گا۔ گویا پوری دنیا میں یہ عمل مکمل ہونے میں چوبیس گھنٹے لگیں گے‘‘۔
کچھ دیر وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے اور کافی کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ پھر انہوں نے اپنی اپنی کافی اٹھائی اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ پینے لگے۔
’’کیا ہم واقعی اس کے حقدار ہیں؟‘‘ بیگم نے پوچھا۔
’’بات مستحق ہونے یا نہ ہونے کی نہیں ہے۔ بس بات بن نہیں سکی۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نے کوئی بحث نہیں کی۔ کیوں؟‘‘۔
’’میرے پاس بحث نہ کرنے کی ایک وجہ ہے‘‘۔ اس نے جواب دیا۔
’’وہی وجہ جو دفتر میں بھی ہر آدمی کے پاس تھی؟‘‘۔
بیگم نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’میں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مجھے خواب کل رات آیا تھا۔ ہمارے بلاک کی تمام خواتین آپس میں اس بارے میں باتیں کررہی ہیں‘‘۔ اس نے شام کا اخبار اٹھا کر میاں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’لیکن اس میں اس بارے میں کوئی خبر نہیں ہے‘‘۔
’’جب ہر کوئی جانتا ہی ہے تو اخبار میں لکھنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘۔ اس نے بیگم کے ہاتھ سے اخبار لیا اور کرسی پر آرام سے بیٹھتے ہوئے پہلے بچیوں کو اور پھر بیگم کو دیکھا ’’تم خوفزدہ نہیں ہو؟‘‘۔
’’بالکل بھی نہیں۔ حتیٰ کہ بچیوں کیلئے بھی نہیں۔ میں ہمیشہ سوچا کرتی تھی کہ میں موت سے بہت خوفزدہ ہوں گی لیکن میں بالکل خوفزدہ نہیں ہوں‘‘۔
’’وہ جذبہ بقاء جس کے بارے میں سائنسدان بہت بات کرتے ہیں وہ آخر کہاں ہے؟‘‘۔
’’مجھے نہیں معلوم۔ لیکن ہم منطقی چیزوں کیلئے زیادہ پرچوش نہیں ہوتے۔ اور ہمارا یہ انجام بالکل منطقی ہے۔ ہم انسان جس طرح کی زندگی گزار رہے تھے اس کی وجہ سے یہی ہونا تھا‘‘۔
’’لیکن ہم دونوں نے کچھ زیادہ بری زندگی بھی نہیں گزاری۔ کیا خیال ہے؟‘‘
’’نہیں۔ لیکن کچھ زیادہ اچھی بھی نہیں گزاری۔ اور میرے خیال میں یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ ہم نے کچھ خاص نہیں کیا لیکن باقی دنیا بہت سے برے کام کرتی رہی ہے‘‘۔
مہمان خانے میں بچیاں اپنے ہاتھوں سے بلاکوں کو گراتے ہوئے ہنس رہی تھیں۔
’’میرا خیال تھا کہ جب یہ وقت آئے گا تو لوگ گلیوں میں چیختے پھر رہے ہوں گے‘‘۔
’’میرا نہیں خیال۔ حقیقی چیزوں کے بارے میں لوگ نہیں چیخا کرتے‘‘۔
’’ایک بات بتاؤں۔ مجھے تمہارے اور بچیوں کے علاوہ کسی چیز کی یاد نہیں آئے گی۔ مجھے شہر، گاڑیاں، فیکٹریاں اور کام کبھی بھی پسند نہیں رہا۔ بس تم تینوں۔ لہذا میں تم تینوں کے علاوہ کسی چیز کو یاد نہیں کروں گا۔ یا شاید پھر موسم کی تبدیلی، گرم موسم میں ٹھنڈے پانی کے ایک گلاس یا پھر نیند جیسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی یاد کروں۔ ویسے ہم ان حالات میں کیسے یہاں بیٹھ کر یہ باتیں کیے جارہے ہیں؟‘‘۔
’’اس لیے کہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں‘‘۔
’’ہاں۔ یہ تو ہے۔ کچھ اور کرسکتے ہوتے تو ضرور کرتے۔ میرا خیال ہے تاریخ میں آج پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ سب کو آخر کار پتا چل گیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی آخری شب کیا کررہے ہوں گے‘‘۔
’’میں سوچ رہا ہوں کہ باقی لوگ اس وقت کیا کررہے ہوں گے اور اگلے چند گھنٹوں میں کیا کریں گے‘‘۔
’’ جو کچھ ہمیشہ کرتے ہیں یعنی فلم دیکھنے جائیں گے، ریڈیو سنیں گے، ٹی وی دیکھیں گے، تاش کھیلیں گے، بچوں کو سلائیں گے اور خود سوجائیں گے‘‘۔
’’ہمیشہ کی طرح ۔۔۔۔۔۔ ایک لحاظ سے یہ بھی ایک قابل فخر بات ہے‘‘۔
’’ہم مکمل برے بھی نہیں ہیں‘‘۔
کچھ دیر خاموش بیٹھے رہنے کے بعد انہوں نے مزید کافی انڈیلی۔
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ آج ہی کیوں ہونے جارہا ہے؟‘‘
’’کیونکہ ۔۔۔ ‘‘
’’پچھلے دس سالوں میں کسی رات، پچھلی صدی میں، پانچ صدیاں پہلے۔۔ یاپھر دس صدیاں پہلے کیوں ایسا نہیں ہوا؟‘‘
’’شاید اس لیے کہ آج سے پہلے کبھی 30 فروری 1953 کا دن نہیں آیا۔۔۔ شاید یہ دن تاریخ کے باقی تمام دنوں سے زیادہ اہم ہے۔۔۔ شاید آج کے دن پوری دنیا میں چیزیں جس حالت میں ہیں اسکی وجہ سے۔۔۔‘‘
’’آج رات سمندر کی دونوں جانب محو پرواز کچھ ایسے بمبار بھی ہوں گے جو دوبارہ کبھی خشکی نہیں دیکھ پائیں گے‘‘۔
’’ آج جو کچھ ہونے جارہا ہے اس کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے‘‘۔
’’چلو خیر‘‘ وہ بولا ’’اب کیا کریں۔ برتن دھولیں؟‘‘۔
انہوں نے بڑی توجہ سے برتن دھوئے اور بڑی نفاست سے انہیں رکھا۔ ساڑھے آٹھ بجے بچیوں کو بستر میں لٹا کر انہیں الوداعی بوسہ دیا گیا، ان کے بستروں کے قریب چھوٹا سا چراغ جلایا گیا اور پھر ہلکی سی درز چھوڑ کر دروازہ بند کردیا گیا۔
باہر آکر میاں نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور تھوڑی دیر اپنا پائپ ہاتھ میں سبھالے کھڑا رہنے کے بعد بولا ’’میں سوچ رہا ہوں۔۔۔‘‘۔
’’کیا؟‘‘۔
’’یہ کہ دروازہ مکمل بند کردیں یا اسی طرح ہلکی سی درز چھوڑ دیں کہ اگر بچپیاں پکاریں تو ہم سن سکیں؟‘‘۔
’’میں یہ سوچ رہی ہوں کہ کیا بچیوں کو بھی پتا ہوگا؟ کسی نے ان سے ذکر کردیا ہو تو؟‘‘۔
’’نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ہم سے ضرور پوچھتیں‘‘۔
پھر وہ بیٹھ کر اخبار پڑھتے، ریڈیو پر موسیقی سنتے اور آتش دان کے پاس بیٹھ کر انگاروں کو گھورتے رہے۔۔ ساڑھے دس بجے، پھر گیارہ اور ساڑھے گیارہ۔ انہوں نے ان باقی تمام لوگوں کے بارے میں سوچا جنہوں نے آج کی شام اپنے اپنے خاص انداز میں گزاری ہوگی۔
آخر کار اس نے ’’چلو پھر‘‘ کہا اور اپنی بیگم کا ایک طویل بوسہ لیا۔
’’ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے ہی رہے ہیں‘‘۔
اس نے بیگم سے پوچھا ’’تم رونا چاہتی ہو؟‘‘۔
’’نہیں۔ میرا نہیں خیال‘‘۔
انہوں نے پورے گھر کا چکر لگا کر روشنیاں بجھائیں، کھڑکیاں دروازے مقفل کیے اور اپنی خوابگاہ میں چلے گئے۔ انہوں نے رات کی خنک تاریکی میں کپڑے بدلے۔ اس نے بستر پر سے غلاف ہٹایا اور ہمیشہ کی طرح اسے احتیاط سے طے کرکے ایک کرسی پر رکھا اور لحاف ہٹاتے ہوئے بولی ‘’چادریں کس قدر خوشگوار، صاف اور اچھی ہیں‘‘۔
’’میں تھکا ہوا ہوں‘‘۔
’’ہم دونوں ہی تھکے ہوئے ہیں‘‘۔
وہ بستر پر دراز ہوگئے۔
’’ایک منٹ‘‘ اس کی بیگم نے کہا۔
اس نے اپنی بیگم کے بستر سے اٹھ کر گھر کے پچھلے حصے میں جانے کی آوازیں سنیں۔ اور پھر دروازے کی کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔ چند لمحوں بعد وہ واپس آگئی اور بولی ’’میں نے باورچی خانے کا نل کھلا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اب بند کرکے آئی ہوں‘‘۔
اس صورت حال میں یہ بات کچھ ایسی مزاحیہ تھی کہ وہ ہنس پڑا۔
وہ بھی اس کے ساتھ ہنس پڑی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی حرکت مزاحیہ ہی تھی۔ بالآخر انہوں نے ہنسنا بند کیا اور اپنے بستر میں لیٹ گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام رکھے تھے اور ان کے سر آپس میں جڑے ہوئے تھے۔
تھوڑی سی دیر کے بعد وہ بولا ’’شب بخیر‘‘۔
’’شب بخیر‘‘ اس کی بیوی نے جواب دیا اور پھر کچھ توقف کے بعد نرمی سے ’’میرے پیارے‘‘ کا اضافہ کیا۔