مرزا اطہر بیگ سے انٹرویو۔ مصاحبہ کار: اختر مرزا ۔ مترجم: کبیر علی
[جس طرح اردو زبان میں سیدھا اور بھرپور ناول لکھنے میں قرۃ العین حیدر کا کوئی ثانی نہیں بعینہ پیچدار اور تجرباتی اسلوب میں مرزا اطہر بیگ کا کوئی ثانی نہیں۔ مرزا صاحب کے تین ناول: ”غلام باغ“، ”صفر سے ایک تک“ اور ”حَسن کی صورتحال“ آ چکے ہیں نیز افسانوں کا ایک مجموعہ”بے افسانہ“ چھپ چکا ہے۔ ”حَسن کی صورتحال“ کا انگریزی ترجمہ حیدر شہباز صاحب نے کیا ہے۔ اس سلسلے میں اختر مرزا صاحب نے مرزا اطہر بیگ سے کچھ باتیں کی ہیں، اس انٹرویو کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ انٹرویو کے انگریزی متن کے لیے یہاں کلک کریں۔ مدیر]
سوال: آپ ”حیرت“ میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ آپ کا ناول ”حَسن کی صورتحال“ ایک منشی ، حَسن، کی داستان سے شروع ہوتا ہے جو دفتر تک کے سفر میں اپنے گرد ہونے والی غیر معمولی چیزوں سے متحیر ہے۔ بلکہ، آپ نے تو ناول میں کہا بھی ہے کہ آپ ایک کہانی نہیں لکھ رہے بلکہ ایک ”حیرانیہ“ لکھ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ سارا ناول اس سوال سے جوجھ رہا ہے کہ ہم کیسے حیرت کا تجربہ کرتے اور اسے بِتاتے ہیں۔
جواب: یہ اس لیے ہے کہ میں ہمیشہ حیرت میں رہتا ہوں! اور یہ کوئی استعاراتی بیان نہیں ہے۔ یہ حرفاً درست ہے: میں ہمیشہ حیرت میں رہتا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ارسطو نے کہا تھا کہ فلسفہ حیرت سے شروع ہوتا ہے اور میرا ماننا ہے کہ یہ ختم بھی حیرت پہ ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ مجھے کسی جگہ قرار نہیں۔ میں خود کو کسی ایک جگہ روک نہیں سکتا۔ میں یقینیت کے کسی خیال سے خود کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ میں ایسا کروں بھی کیوں؟ یقینیت مجھے مائل نہیں کر پاتی۔
ایک لحاظ سے میں سے طبیعیات کا بھی طالب علم ہوں۔ جب آپ علمِ کائنات پڑھتے ہیں، تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کائنات کہاں سے آئی۔ بگ بینگ جو 13.7 ارب سال پہلے واقع ہُوا۔ کائنات اس واقعے کی یکجائی اور کثافت سے پیدا ہوئی۔ لیکن پھر اگلا سوال پیدا ہوتا ہے: بِگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ 13.7 ارب سال سے پہلے کیا تھا؟ مذہبی سائنسدان، میرا مطلب ہے کہ کٹر قسم کے سائنسدان، جواب دیں گے کہ یہ ایک لغو سوال ہے۔ یہ ایک مابعدالطبیعیاتی سوال ہے۔ بِگ بینگ سے قبل کوئی مکاں اور زماں نہیں تھے۔ لیکن تصور کریں۔ کیا ہم ایک ایسی صورتحال تصور میں لا سکتے ہیں جب کوئی مکاں اور زماں نہیں تھے؟ کیا آپ حیران نہیں ہیں؟
حیرت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ آپ علم، ادب ، فلسفے کے سفر میں آگے بڑھ ہی نہیں سکتے۔ حیرت ہر لمحے میں ہے۔ اگر کوئی فنکار، یا کوئی سائنسدان ، حیران ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ تخلیقی نہیں ہو سکتا۔ وہ چیزوں کو جوڑ سکتا ہے، انھیں سمجھ سکتا ہے لیکن یہ حیرت ہی ہے جو آپ کو نامعلوم میں گھسنے دیتی ہے۔ اور وہاں آپ پھر سے حیرت میں ہوتے ہیں۔
سوال: حیرت کا سوال یا شاید اس کا تجربہ آپ کو ناول کی فارم سے مسلسل کھیلتے رہنے کی جانب لے جاتا ہے۔ آپ ایک روایتی بیانیہ فارم کی پیروی نہیں کرتے۔ آپ اپنے بیانیے میں سکرین پلے شامل کرتے ہیں، آپ مرکزی پلاٹ سے ادھر ادھر کھسکتے رہتے ہیں، آپ ابواب کے اندر زمان و مکاں کی اکھاڑ پچھاڑ میں لگے رہتے ہیں۔ آپ مختلف سررئیلسٹ تکنیکیں متعارف کرواتے ہیں۔ آپ فارم سے کھیلنا کیوں پسند کرتے ہیں؟
جواب: نہیں، یہ کوئی شعوری فیصلہ نہیں ہے۔ میں اسے لکھنے سے پہلے طے کر کے نہیں بیٹھتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں اس فارم سے کھیلوں گا، اس فارم کو توڑوں گا۔ جب میں لکھنا شروع کر دیتا ہوں تو لکھت یہ طے کرتی ہے کہ فارم کیا ہو گی اور پھر یہ اس سمت میں چل پڑتی ہے۔
ہاں ، یہ سچ ہے کہ میں فکشن کی روایتی سیدھی فارم پہ عمل پیرا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود زندگی سیدھی لکیر نہیں ہے۔ یا ہے؟ سیدھی، مبنی بر تناؤ، یا مائل بہ تناؤ فکشن جس کا منبع ارسطو کی ”شعریات“ ہے اور جس کے پیچھے یونانی ڈراموں کی روایت ہے۔ آپ اس ماڈل سے واقف ہی ہوں گے: خیر اور شر کے مابین تناؤ، اچھا کردار اور بُرا کردار، اور پھر یہ ایک بلند نقطے پر پہنچ جاتا ہے یعنی کلائمکس پر اور پھر یہ حل ہو جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس بیانیے کا واحد امکان یہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں بڑی شدت ہو، یہ تجسس اور کتھارسس کی ایک ضرورت پوری کرتا ہو۔ میں سیدھی فکشن کے خلاف نہیں ہوں، میں اس سے محبت کرتا ہوں، اس سے مزا لیتا ہوں۔ لیکن میرا نکتہ یہ ہے کہ یہ واحد معیار نہیں ہے۔ میں یہ کوشش کر تا ہوں کہ ایسی نثر لکھوں جو کسی بڑے تناؤ اور اسی قسم کی چیزوں کے بغیر ہی دلچسپ ہو۔ کیونکہ آپ کو زندگی میں ایسی صورتِ احوال ملتی ہیں جو کہ بس ہوتی ہیں۔ میری کتاب میں، آپ کو، کہیں نہ کہیں، شاید ایک طرح کا تناؤ مل بھی جائے لیکن یہ خیر اور شر کے باہمی تناؤ جیسا نہیں ہو گا۔
سچ بتاؤں تو کچھ دن پہلے میں اسی بارے میں سوچ رہا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں، میں اس کا فیصلہ نقادوں پر چھوڑتا ہوں، لیکن میں یہ سوچ رہا تھا کہ کہ ہماری کہانیوں کی فارم ، وہ پرانی کہانیاں جنھیں سنتے ہوئے ہم بڑے ہوتے ہیں، بھی اس شدید تناؤ والے ماڈل سے مختلف ہوتی ہیں ۔ مثلاً سند باد کے سات اسفار ۔ اس کا مرکزی کردار مختلف طرح کی صورتِ احوال سے گزرتا ہے۔ ایک آدمی نکل پڑتا ہے اور اس پر مختلف چیزیں بیتنے لگتی ہیں، وہ یہاں وہاں ہر جگہ گھومتا ہے، اور اسی قسم کی چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ قاری کی دلچسپی کو اپنی گرفت میں رکھتی ہے۔
سوال: ”حَسن کی صورتحال“ ایک خاص تاریخی لمحے سے بھی متعلق ہے: 1980کی دہائی کا پاکستان، ضیاء کا پاکستان۔ اس کے اندر پاکستان میں آمریت کے عروج سے بھی معاملہ کیا گیا ہے۔ لیکن آپ سیاست کے متعلق صراحت سے نہیں لکھتے۔ آپ کو اپنے سیاست سے معمور بیانیے کے اندر سررئیلسٹ کھیل کھیلنے میں دلچسپی ہے۔ آپ ادبی ایکٹوزم کے متعلق کیا سوچتے ہیں، یعنی ادیبوں کے ایکٹوسٹ بننے کے متعلق؟ اردو میں ترقی پسند ادیبوں کی تحریک کی بڑی زرخیز روایت رہی ہے، فیض اور ساحر لدھیانوی ایسے لکھاری موجود رہے ہیں۔
جواب: مغربی فلسفوں میں سے مارکسزم پہلا تھا جو یہاں پہنچا۔ ترقی پسند تحریک کسی نہ کسی طرح سے اس سے متاثر تھی۔ اس کا اپنا انداز تھا۔ میں اس کے خلاف نہیں ہوں۔ میں بھی کبھی مارکسزم کا طالب علم تھا۔ ایک وقت تھا جب یہ مجھے بھاتا تھا لیکن وہ وقت گزر چکا ہے۔ مارکسزم اور جدلیاتی مادیت کے ساتھ میرے کچھ مسائل تھے جنھیں میں حل نہ کر سکا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی تھا جب میں وجودیت سے متاثر ہُوا لیکن وہ وقت بھی گزر گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ نظریات یونانیوں کے فراہم کردہ یونیورسل آدمی کے کسی نہ کسی تصور پہ بنیاد رکھتے ہیں، اور ہر نظریہء علم کے پس پردہ مرکزی مفروضہ یہی ہے لیکن یہ حقیقت میں کام نہیں دیتا۔ لوگ ثقافتی قوتوں یعنی کلچر، سماج، نسل وغیرہ کے اس قدر اثر میں ہیں کہ آدمی کی عقلی تعریف سراسرا بکواس معلوم ہوتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ موجودہ وقت کا پیراڈاکس ہے۔ ایک طرف ہم آج سے زیادہ گلوبل کبھی نہ ہوئے تھے یعنی جہاں تک جُڑنے کی بات ہے؛ جبکہ دوسری طرف ہمیں بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا بھی تجربہ ہُوا ہے، نئے قبیلے ابھرے ہیں۔ مجھے یہ بہت دلچسپ معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن میرا ذاتی خیال ہے، خالص ذاتی خیال ، کہ میں اتنا ہی حیرت میں مبتلا ہوں جتنا کہ بچپن میں ہوتا تھا۔ مجھے نہیں معلوم، اور میں یقینیت کا دعویٰ بھی نہیں کروں گا کیونکہ یہ میرے پاس ہے ہی نہیں۔ میں فلسفوں کے ساتھ کھیلتا ہوں، لسانی کھیلوں کے طور پہ ، لفظی کھیلوں کے طور پہ ، اور وجودیاتی کھیلوں کے طور پہ-کھیل سے یہاں مراد کھیل ہی ہے۔ یہ کھیلیں روشن خیالی کے لمحے جنم دے سکتی ہیں، یعنی میری مراد ہے کہ وہ والی روشن خیالی نہیں، کانٹ والی روشن خیالی نہیں، اس کے متعلق میں بات نہیں کر رہا۔ آپ اسے مزا کہہ لیں اور یہ کھیلیں ، یہ مزا ادب کا حصہ بن جاتا ہے ۔
سوال: تو آپ وجود یا سیاست کے یونیورسل فلسفوں سے جُڑنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں؟ یعنی ان معنوں میں کہ ہم انھیں یہاں کس طرح منطبق کرتے ہیں؟
جواب: کہنے کا مطلب ہے کہ اگر میں آپ کو بتانے لگ جاؤں کہ دریدا کیا کہتا ہے یا فوکو کیا کہتا ہے یا لاکاں کیا کہتا ہے، یا کوئی اور آدمی ، یا میں ان لوگوں کا باہمی موازنہ کرنے بیٹھ جاؤں ، جیسا کہ لوگ یہاں کرتے ہیں، تو میں نے کونسا تیر مارا؟ مسئلہ یہ ہے ، میرے لیے تو یہ بہت اہم ہے، اور میں اس کے متعلق کچھ دن پہلے اپنے مترجم حیدر سے بات کر رہا تھا کہ ہماری جامعات کے سماجی علوم کے شعبے مثلا سیاسیات یا نفسیات وغیرہ اگر ان مضامین کی کوئی مقامی اور تخلیقی جہت سامنے نہیں لاتے تو وہ کیا کر رہے ہیں؟
ایک سادہ مثال لیجئے: ترقی پسند طلباء نے ایک طلبا یکجہتی مارچ کیا۔ یہ ملک بھر کا ایک بڑا واقعہ تھا لیکن ہماری جامعات کے شعبہ ہائے سیاسیات کے پاس اس کے متعلق کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ آپ دیکھیں ذرا۔ ہم اس چیز سے کیوں بھاگتے ہیں کہ ہماری گلی میں اور ہمارے سامنے کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ پھر یہ جامعات آخر ہیں ہی کس لیے اگر یہ اپنی چار دیواری سے باہر دیکھ ہی نہیں سکتیں؟ یہ مقامی سیاست اور ثقافت سے میل جول نہیں رکھتیں۔ یہ محض کانٹی نینٹل نظریے یا اینگلو-امریکی نظریے کی جگالی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ یہ سارا مغربی علم ، مغربی نظریہ صَرف کی ایک شے بن چکا ہے۔ عین اسی طرح جس طرح ہمارے سیل فون درآمد شدہ ہیں، ہمارے نظریات بھی درآمد شدہ ہیں۔ دانشور اور لکھاری انھیں ہضم کرتے ہیں اور مناسب موقعوں پر انھیں باہر اگل دیتے ہیں۔
مجھے ایک تخلیقی انداز میں مغربی فلسفے میں دلچسپی ہے یعنی میں اسے اپنے دنیا میں رکھ کر دیکھ سکوں۔ میرا مسئلہ تخلیقیت ہے ، حیرت ہے۔ اگر آپ فلسفہ کر رہے ہیں تو آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نیا ضرور ہونا چاہیے اور جو آپ کے ثقافتی محل وقوع سے جُڑا ہُوا ہو۔ آپ فلسفے میں ایم۔اے کر کے اس سے شناسائی حاصل کر سکتے ہیں، بڑے مغربی فلاسفہ کی باتوں سے واقف ہو سکتے ہیں لیکن خاص اپنی پوزیشن، اپنے کلچر میں رکھ کر فلسفے کو تخلیقی طور پہ بروئے کار لانا کہ کوئی نئی بصیر ت حاصل ہو ایک مختلف کام ہے۔
یہ کام اظہار یا لکھت کی نئی فارمز کی دریافت کا متقاضی ہو گا۔ یہی وہ کام ہے جس کی کوشش میں نے اپنی فکشن میں کی ہے۔ جب میں فکشن لکھ رہا تھا تو میرے دماغ میں کہیں پیچھے یہی چل رہا تھا کہ اظہار کی نئی فارم وضع کی جائے تا کہ میں فلسفیانہ انگ میں جو بھی اپنی فکشن میں کہنا چاہتا ہوں یہ اسے سمیٹ سکے۔ ناول گویا تخلیقی فلسفے کی باربرداری کرے۔میرا خیال ہے کہ یہ مغربی دنیا کی بہ نسبت غیر مغربی دنیا کے لیے کہیں زیادہ اہم ہے۔ ہمارے پاس ہماری اپنی روایتیں ہیں نیز مغرب کی فلسفیانہ روایتیں بھی ہیں جو ہمارے ہاں استعماریت اور پھر اب گلوبلائزیشن اور تیز ترین جُڑت اور اکیڈیمک علم کی صارفانہ صورتوں کے ذریعے پہنچی ہیں۔ میں یہ سب اپنے فکشن میں کیسے کھپا سکتا ہوں؟ اسی سوال کے جواب میں میرا تخلیقی اظہار صورت پذیر ہُوا ہے۔