ریاضی اور الہٰیات کے مابین ایک مخفی رشتہ: لاڈیسلو کاویس (مترجم: عاصم رضا)

 In ترجمہ
نوٹ:    لاڈیسلو  کاویس (Ladislav   Kvasz)  1962ء میں سلواکیہ کے شہر براٹسلاوا (Bratislava) میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے براٹسلاوا کی کیمینس (Comenius) یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی سے1986ء میں  گریجویٹ کیا  اور 1995ء میں ڈاکٹریٹ کے لیے ’’ سائنسی انقلابات کی زمرہ بندی ‘‘ کے عنوان سے اپنے تحقیقی مقالے کا دفاع کیا  ۔ آج کل  وہ شعبہ ریاضیات  چارلس یونیورسٹی پراگ میں  بطور پروفیسر تدریسی فرائض سرانجام دے رہے  ہیں ۔ 2004ء میں پروفیسر کاویس نے   (The   Invisible   Link   Between   Mathematics   and   Theology)  کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا جو ’’ عیسائی عقیدے  اور سائنس پر تناظرات ‘‘(   Perspectives   on   Science   and   Christian   Faith) نامی جرنل کی جلد نمبر 56، شمارہ نمبر 2  میں شائع ہوا ۔   موضوع کی ندرت  اور اہمیت کے پیش نظر  پروفیسر لاڈیسلو کاویس کے اس مضمون کو   اردو زبان کے قالب میں ڈھالا گیا ہے ۔ انگریزی مضمون کے ملخص (abstract)  اور فاضل مصنف کے حواشی کو چھوڑ کر بقیہ مضمون کا ترجمہ پیش ِ خدمت ہے ۔

تاریخ ِ ریاضی میں  ہم بے شمار موضوعات کو تلاش کر سکتے ہیں جو ریاضی اور الہٰیات کے مابین ایک   بلاواسطہ رشتہ   کا انکشاف کرتےہیں ۔ غالباً  ان میں  سب سے زیادہ معروف نظریہ سیٹ ہے جس کا تعلق   ’امکانی لامتناہی ‘ سے ’واقعاتی لامتناہی ‘ کے مابین ہونے والے تغیر سے ہے ۔  نظریہ سیٹ کے بانیان یعنی برنارڈ بولزانو  اور جارج کانٹر  کی تحاریر  میں ہمیں  الہٰیات کے اثرات  مل جاتے ہیں جن کا تجزیہ نظریہ سیٹ کی تاریخ کو سمجھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

ریاضی اور الہٰیات کی مٹھ بھیڑ  کو آشکار کرنے والا دوسرا موضوع  ریاضیاتی منطق ہے ۔  (جرمن منطقی ) فریگا اور (برطانوی  فلسفی ) برٹرینڈ رسل   ایک طویل روایت  پر  اختتامی  مہر لگا دیتے ہیں جو وجود ِ باری تعالیٰ کے بیشتر دلائل کا تنقیدی جائزہ لینے سے عبارت تھی  ، جس  کے نتیجے میں جدید منطق کے بیشتر اصول دریافت  ہوئے ۔ وضاحت کی غرض سے عمانویل کانٹ کے مقدمہ(تھیسز )  کا ذکر کر دینا ہی کافی ہے جس کے مطابق وجود ایک حقیقی  صفت (یا محمول ) (predicate) نہیں ہے ۔ کانٹ نے اس مقدمہ  کو سینٹ آنسلم    کی پیش کردہ  وجودی  دلیل برائے وجودِ باری پر تنقید کرتے ہوئے مرتب کیا ( کہ وجود ایک حقیقی صفت  نہیں  ہے ۔ اس قضیہ کہ  تمام مثبت اوصاف خدا پر لاگو ہوتی ہیں ،چنانچہ وجود ِ باری ثابت نہیں ہے )۔ ریاضیاتی منطق   میں  کانٹ کا مذکورہ  مقدمہ   وصفی علم الاحصا ء   کی نحوی ترکیب  (syntax)کے اصولوں میں سے ایک ہے ۔  اس اصول کے بموجب   وجود کی صوری تشکیل ، اوصاف(محمولات)  کے بجائےمقداری تعینات  (quantifiers) کے ذریعے ہوتی  ہے ۔تاہم   میرے نزدیک  ، ریاضی اور الہٰیات کے مابین ایسے بلاواسطہ رشتہ  کے علاوہ   ہم  ریاضی پر الہٰیات کے ایک مخفی  اور  عمیق اثر کو بھی تلاش کر سکتے ہیں ۔   یہ مخفی  تاثیرمظاہر کے مابین اس بنیادپر تفریق کرنے والی حدود سے واسطہ رکھتی  ہے کہ ان کو ریاضیاتی بیان دیا جا سکتا ہے یا نہیں ۔

راقم الحروف  زیرِ نظر مضمون کے پہلے حصہ  میں تاریخ ِ ریاضیات سے پانچ ایسی مثالوں کا ذکر  کرتا ہے  جو قدیم اور ابتدائی جدید زمانے کے دوران  اس مضمون میں آنے  والی گہری تبدیلیوں  کو اجاگر کرتی ہیں ۔ ان میں سے  ہر ایک مثال اپنی جداگانہ حیثیت سے تاریخ ِ ریاضیات میں معروف ہے،  تاہم ان سب کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا جائے تو ایک ’’ عمومی اسلوبِ تغیر ‘‘ دکھائی دیتا ہے ۔ان پانچوں میں سے  ہر ایک مثال  کے تحت ،   قدماء  کے نزدیک ریاضیاتی تشریح کو ٹھکرانے والے ایک مظہر کو ریاضیاتی بنا دیا گیا ۔ زیرِ نظر مضمون کا مقدمہ (تھیسز)  ہے کہ موحدانہ  الہٰیات (monotheistic   theology)        نے تخلیق ِ کائنات کرنے والے علام الغیوب  اور قدرتِ مطلقہ کے حامل خدا کے ہمراہ،   ریاضیاتی بنانے کے  اس عمل کو بالواسطہ  متاثر کیا ۔ ’’ وجودیات کو علمیات سے جدا کرتے ہوئے ‘‘ ،  موحدانہ الہٰیات  نے اس امکان کا در کھول دیا جس کے مطابق  ایسے مظاہر کے ساتھ جڑے ہوئے تمام تر ابہام کو   انسانی متناہیت کے نتیجے کے طور پر بیان کیا جائے  نیز غیر مبہم / قطعی (مظاہر)  کی حیثیت سے ان کی تفہیم ہو پائے ۔ پس ان کو  ریاضیاتی  تشریح کا اہل   بنا دیا ۔

فصل اول : ابتدائی عصر جدید  کے دوران  ریاضیاتی دائرے میں ردوبدل

اگر ہم  اس مخفی اور بالواسطہ   عمل کا تجزیہ کرنے کے خواہشمند ہوں جس کے تحت  موحدانہ الہٰیات  نے مغربی ریاضیات  کی پرداخت  کو  متاثر کیا  ، تو قدماء کے آخری زمانے اور سولہویں و  سترھویں صدی    کی ریاضیات  کا  موازنہ کرنا مناسب دکھائی دیتا ہے ۔ موخر الذکر زمانے میں ، زوال اور جمود کی طویل صدیوں کے بعد  مغربی ریاضیات  بالآخر اس علمی درجہ کو پہنچ گئی کہ   اس کا موازنہ ارشمیدس اور اپولونیوس    کی تحقیقات سے متصف ہیلیائی   دور سے ہو پائے  ۔ ان دونوں زمانوں  کے علمِ ریاضی کے موازنے کی صورت میں ہم ایک حیرت انگیز حقیقت کوتلاش کر لیتے   ہیں ۔ سولہویں اور سترھویں صدی کی ریاضیات  ، قدیم روایت کی محض نئے سرے سے  دریافت پر مبنی  نہ تھی ۔وہ (قدیم روایت) تمام تر پہلوؤں میں سولہویں اور سترھویں صدی کی ریاضیات سے مختلف تھی  ۔  میری رائے  میں   اس (فرق) کو ریاضیات پر موحدانہ الہٰیات کے اثرات  سے موسوم کیا جا سکتا ہے ۔ ایسے  پہلوؤں کی بہتر تفہیم کی خاطر ، میں  بنیادی تبدیلی سے گزرنے والے  پانچ تصورات  پر توجہ مرکوز کروں   گا  ۔ ان تصورات میں لامتناہیت ، اتفاق ، نامعلوم ، مکان اور حرکت شامل ہیں ۔

لاتعین  – لامتناہیت (Apeiron – Infinity)

  آج ہم جس شے کو لامتناہی  کہتے  ہیں ، قدیم زمانے میں اس کو  تصورِ لاتعین (Apeiron)   میں شامل کرتے تھے ۔ بلاشبہ ،  ہمارے جدید تصورِ لامتناہیت کے مقابلے میں  تصورِ لاتعین  ایک  وسیع تر معانی کا حامل تھا ۔ اس کا اطلاق  لامتناہی کے ساتھ ساتھ  حدوں سے ماورا (یعنی  مینڈ/باڑ کے بغیر)  غیرمتعین ، مبہم اور غیرواضح اشیاء پر ہوتا تھا  ۔  قدیم  علماء کے مطابق ، لاتعین حدود و قیود سے منزہ ہونے کی وجہ سے   غیرمعین  تھا ۔ ریاضیات کے ایک   متعین ، صریح اور یقینی  علم  ہونے کی وجہ سے   لاتعین کا ریاضیاتی مطالعہ ناممکن تھا  ۔ ماورائے حدود و قیود کا  مطالعہ ، ریاضیات کے واضح اور  روشن تصورات کے ذریعے نہیں ہو سکتا تھا ۔

قدیم کے برخلاف  ، جدید ریاضیات لامتناہی اور غیرمعین  کے مابین   ایک فرق روا رکھتی  ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وہ بے انت (finis) ہے ،   ہم  لامتناہی  کو لائقِ تعین اور غیرمبہم قرار دیکر  ریاضیاتی چھان پھٹک  کے لیے قابل رسائی  فرض کرتے ہیں ۔ خواہ لامتناہی پھیلاؤ کی حامل  ہندسی صورت ہو، لامتناہی    چھوٹی مقدار ہو  یا پھر لامتناہی سیٹ (مجموعہ )  ہو ،  ہم ان سب  کو ریاضیات سے متعلقہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ  لاتعین کا قدیم تصور دو تصورات   میں تقسیم ہو گیا   یعنی محدود معنوں میں لامتناہی کا تصور  ریاضیات کا حصہ بن  گیا  اور غیرِ معین کا تصور،  قدیم زمانے کی طرح جس کی (جدید )  ریاضیات میں کوئی جگہ نہ تھی ۔

تقدیر  – اتفاقیت (Tyche-randomness)

 قدیم اور جدید علم ریاضی کے مابین دوسرا  فرق   تفہیم ِ اتفاقیت  کے ذیل میں  سامنے آتاہے ۔ لاتعین کی مانند    تقدیر کا (قدیم ) تصور بھی  ہمارے  جدید تصورِ اتفاقیت کی بہ نسبت وسیع تر معانی کا حامل تھا ؛ اتفاقی واقعات کے ساتھ  ساتھ یہ (تصور)  عام طور پر  اتفاق  (chance)، قسمت (luck) اور نصیب(Fate)  کو متعین کرتا تھا۔ لہذا  یہ بھی ریاضیاتی چھان پھٹک  کے لیے ناقابل رسائی تھا ۔ تقدیر کا تعلق علم ریاضی  کی بجائے  ایک کاہن کی لیاقت سے جڑتا تھا ۔ عوام الناس   کی نگاہ  سے ان کا نصیب اوجھل رہتا تھا ۔ سولہویں صدی کے بعد  ریاضیاتی ادب کے دائرے میں    جوابازی پر  کتابیں لکھنے کی شروعات ہوئی  اور سترھویں صدی  کے دوران   اسی روایت سے جدید نظریہ احتمال   کا جنم ہوا ۔ قدیم علماء  کے زاویہ نگاہ  کے مطابق ، تقدیر سے متعلق ریاضیاتی نظریہ  اسی طرح مہمل ہے جیسے لاتعین کا ریاضیاتی نظریہ ۔لیکن  تقدیر کے ضمن میں   بھی جدید ریاضیات  نے  انہی خطوط پر نئے راستے کھولے جیسا کہ لاتعین کے باب میں ہوا تھا   یعنی  قدیم تصور کو دو تصورات میں تقسیم کر دیا ۔   پہلا  تصور ِ اتفاقیت  جو نظریہ احتمال کا موضوع بن گیا،   جبکہ  دوسرا تصور ِ نصیب  جو قطعی علوم کی گرفت سے پرے رہا  ۔

عدد  – نامعلوم (Arithmos – unknown)

 تیسری تبدیلی کا تعلق الجبرا  ءکی پیدائش  اور بالخصوص  نامعلوم   کے تصور کے ساتھ ہے  ، جس کو ڈیکارٹ کے زمانے سے(اب تک )   اکثروبیشتر انگریزی حرف ’ایکس ‘ (x)   کے ساتھ بیان  کیا جاتا ہے ۔ الجبراء  کا جنم عربی تہذیب میں ہوا جیسا کہ اس  شعبہ ِ ریاضی کے نام سے ظاہر ہوتا ہے ۔ مغربی تہذیب کی مانند عربی تہذیب  وحدانیت  پر استوار   ہے  ۔ چنانچہ موحدانہ الہٰیات اور جدید ریاضیات کے مابین مخفی رشتے  سے متعلق  میرے دعوی ٰ (تھیسز)  کو آگے بڑھاتے ہوئے الجبراء کی پیدائش کو نظریہ احتمال اور لامتناہی کے ریاضیاتی نظریے کے ظہور کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے ۔

سب سے پہلے  میں اس بات پراصرار   کرنا پسند کروں گا کہ قدیم ریاضی دان   نامعلوم  کے تصور  کی جدید الجبرائی صورت سے واقف نہیں تھے۔  یقیناً، قدیم زمانے میں ماہرین ریاضیات   ، ایک مخصوص عدد کو تلاش کرنے کی غرض سے انواع و اقسام کے عملی مسائل پر کام  کرتے  تھے ۔  یونانی  ماہرین ریاضیات عموماً اس  کو نامعلوم عدد (arithmo)  کہتے تھے ۔ تاہم  مسائل کو حل کرنے کے دوران وہ    صرف اُن معلوم مقداروں کو جو مسئلے کی تشکیل کے دوران مرتب ہوتیں   ، استعمال کرتے ہوئے   تالیفی (کُلی ) انداز میں ایسے مسائل کو حل کرنے کی سعی کرتے تھے ۔ نامعلوم ہونے کی بنا پر نامعلوم مقدار  کو حسابی افعال  میں استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔

الجبرے کا بنیادی خیال  یہ ہے کہ  ایک حرف کو  نامعلوم کا نمائندہ بنا کر ، اسی حرف کو  عام اعداد کی مثل    حسابی معاملات  میں برتا جائے ۔ الجبرائی علامتیت  کا مقصد ہمارے علم میں آنے والی معلوم اور نامعلوم مقداروں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے والی علمیاتی رکاوٹوں پر عبور حاصل کرنا ہے  ۔ چنانچہ الجبرے  میں ہم  معلوم اور نامعلوم دونوں مقداروں  کو مساوی سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ کام کرتے ہیں  ۔  قدیم ریاضیات کے زاویہ نگاہ سے یہ ایک مہمل شے ہے کیونکہ کسی کمیت  کی مقدار  کو نہ جاننے کی صورت میں  ہم اس  کو برتنے والے حسابی افعال کے نتائج  کا تعین نہیں کر سکتے ۔ قدیم  تفہیم کے مطابق ، غیرمتعین  (شے) ریاضیاتی افعال کا موضوع  نہیں بن سکتی  ۔

الجبرے  کی پیدائش ، نامعلوم کے ایک تصور کی تخلیق  پر مشتمل تھی  جس کو اس (تصور)  کی غیرمتعین مقدار کے باوجود اس طور سے استعمال کیا جا سکتا ہے کہ جیسے اس کا حتمی تعین  ہو چکا تھا ۔  مجھے یقین ہے کہ اس تصور کو ان واضح حدود کو عبور کرنے والے تیسرے اہم   تصور کی حیثیت سے لامتناہی اور اتفاقیت کے تصورات کے ساتھ  رکھا جا سکتا ہے  جن سے قدیم (ریاضیاتی ) تفہیم  کے مطابق کائنات ِ ریاضی متصف تھی ۔

خلا – مکان (Kenón-space)

  لامتناہی ، احتمال اور  نامعلوم  کے تصورات   کے ضمن میں  قدیم  سے لیکر  جدید ریاضیات میں    رونما ہونے والے تغیر سے مشابہ ایک تبدیلی  تفہیم ِ مکان کے باب میں  ہے ۔ قدیم تصورِ خلا (Kenón) ، ہمارے جدید تصورِ مکان سے قریب ترین ہے ۔   جوہریت اور ابیقورس کے حمایتیوں  کو چھوڑ کر  قدیم فلاسفہ کے نزدیک ، تصورِ خلا   ایک مشتبہ امر تھا ۔ جہاں کچھ بھی نہیں ہے ، وہاں خلا ہے چنانچہ اسی وجہ سے تصورِ خلا،   مطالعہ کے لائق کسی مخصوص خوبی سے متصف نہیں ہے ۔  حتی کہ  خلا کے وجود کو تسلیم کرنے والے جوہریت پسند حضرات بھی اس کے بارے میں کچھ زیادہ  کہنے کے قابل  نہ تھے۔  چنانچہ  یقینی بات ہے کہ تصورِ خلا ، ریاضیات کا موضوع بننے کے  لیے موزوں  نہیں ہے ۔ ریاضیاتی علم  واضح اور صریح تصورات سے متصف ہے اور تصور ِ خلا کے ضمن میں ایسا   نہ ہونا یقینی  ہے ۔

اس کے باوجود  ابتدائی جدید سائنس کی بنیاد ، مکان کے ریاضیاتی تصور پر استوار  ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر ، نیوٹن    نے مکان ِ مطلق   کو اپنے (سائنسی و فلسفیانہ ) نظام کے بنیادی مقولات میں سے ایک   کی حیثیت سے  اختیار کیا ا ور اس نے اس  (تصور)  کو  صریحاً   ’’ ریاضیاتی ‘‘ مکان سے موسوم کیا  ۔  چنانچہ گذشتہ تینوں مثالوں سے بالکل ملتے جلتے انداز میں    ایک  نئے خطے کو علمِ ریاضی کے دائرے میں داخل کر دیا جاتا ہے ، ایک ایسے خطے کو جو قدیم ریاضی دانوں کےزاویہ نگاہ کی رُو سے دائرہ ریاضی میں داخل ہونے سے انکاری تھا ۔جدید ریاضیاتی تصورِ  مکان ،یونا ن کےقدیمی  تصورِ خلا کی محدودیت پر مبنی ہے جیسا کہ لامتناہیت   اور احتمال ، لاتعین اور تقدیر کی محدود تفہیم و تعریف  پر مبنی تھے ۔ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں  کہ مکان  تین ابعاد کا حامل ، متصل (continuous) اور سمت بند   (orientable) ہے ؛ ہم  بمشکل ہی ان اوصاف کو  تصورِ خلا کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں ۔

حرکت –حرکت  (Kinesis – motion)

  قدیم اور جدید ریاضیات  کے درمیان   تفریق کو ظاہر  کرنے والی آخری مثال کے لیے ، آئیے ہم اپنی توجہ تصورِ حرکت کی جانب کرتے  ہیں ۔ ہمارے جدید تصورِ حرکت(motion) کے مقابلے میں یونانی تصور ِ حرکت(Kinesis) وسیع تر معانی کا حامل ہے ۔  (یونانی تصور) مکان میں جگہ  کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ   بڑھوتری ، عمر رسیدگی اور  رنگت کی تبدیلی  (کے مفاہیم) کو گھیرتا ہے ۔علمِ ریاضی کی  قدیم تفہیم کے مطابق ، لاتعین اور تقدیر کی مانندتصور ِ   حرکت  بھی علم ِ ریاضی کے شکنجے میں گرفتار ہونے سے انکاری  تھا۔  ارسطو نے بیان کیا کہ کیونکر حرکت  کو  ریاضیاتی اصطلاحات میں  پیش کرنا  محال ہے ۔  ایک قدیم عالم کے نزدیک ، لاتعین اور تقدیر کے ریاضیاتی نظریات کی مانند حرکت کا ریاضیاتی نظریہ   بھی مہمل ہو گا  ۔ گلیلیو  کا متعارف کردہ ریاضیاتی  تصورِ حرکت    کئی پہلوؤں سے اوپر  دی گئی مثالوں سے مشابہ ہے  : حرکت کا   وسیع اور عمومی   قدیم تصور   دو تصورات میں تقسیم ہو گیا   ۔ ان میں سے ایک محدود  (تصور)  صرف جگہ  کی تبدیلیوں پر مشتمل  تھا  (یعنی مقامی حرکت )  اور دوسر  ا باقی بچ رہنے والے وسیع تر تصو ر پر مبنی تھا  ۔ گلیلیو  نےصرف  مقامی حرکت کے محدود تصور کی خاطر   ایک ریاضیاتی علم کو وضع کیا ۔

فصل دوم: ریاضیاتی دائرے میں تبدیلی کا ایک مشترکہ انداز

گذشتہ فصل میں راقم الحروف  نے  چند مثالوں کو ایک جگہ پر جمع کیا جو اس بات کو بیان کر رہی تھیں کہ  جدید زمانے کے ابتدائی زمانے  میں چند نئے ریاضیاتی شعبوں (الجبرا ، نظریہ احتمال  اور حرکیات) کی بنیادیں کھڑی ہوئیں نیز لامتناہیت اور مکان سے متعلق ہماری تفہیم میں ایک بنیادی تبدیلی وقوع پذیر  ہوئی ۔ علمِ ریاضی   کے ان پانچ نئے  شعبوں  کا  قدیم ریاضیات  کے ساتھ موازنہ کرنے کی صورت میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ قدیم زمانے میں    ان  تمام شعبوں کو  علمِ  ِ ریاضی  کی گرفت میں آنے سے انکاری  سمجھا جاتا تھے ۔ سولہویں اور سترھویں صدی میں ان شعبوں کے دائرہ ِ ریاضی میں داخلے  کے پس پردہ کئی مشترک عناصر کارفرما   ہیں ۔ ان میں سب سے پہلا (نکتہ )   یہ ہے کہ لاتعین ، تقدیر ، عدد ، خلا اور حرکت کے قدیم یونانی تصورات، ان جدید ریاضیاتی شعبوں کی بنیاد یں کھڑی کرنے والے جدید تصورات یعنی لامتناہیت ، اتفاقیت ، مکان اور حرکت   کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ وسیع تر  تھے  ۔ آج کل ہم لامتناہیت اور غیر متعین ، اتفاقیت اور نصیب ، خلا اور مکان ، حرکت اور تبدیلی کے مابین نہایت سختی سےفرق روا رکھتے  ہیں ۔ چنانچہ وسیع اور مبہم قدیم  تصورات  میں سے  محدود اور مخصوص اجزاء الگ ہوئے   اور (پھر)  وہ محدود تصورات علمِ ریاضی کی گرفت میں آ گئے  ۔

محولہ بالا  بیان کردہ تغیرات  کےحوالے سے  دوسری مشترکہ خوبی یہ ہے کہ  لامتناہیت ، احتمال ، مکان اور حرکت کےنئے محدود تصورات ہنوز کسی درجہ  میں ابہام کے شکار تھے ۔ تاہم   باقی رہ جانے والا یہ ابہام  پرانے  تصورات کے اصلی  ابہام  سے نسبتاً بہت زیادہ کمزور تھا ۔ ابہام  میں ایسی کمزوری  بے حد اہم تھی کیونکہ لاتعین ، تقدیر ، خلا اور حرکت کے ٹھیک  اسی ابہام نے یونانی ریاضی دانوں کواس راستے پر لگایا  کہ وہ  ان تصورات کو علمِ ریاضی  کا موضوع بننے سے انکاری  سمجھیں  ۔ جدید ریاضیات کی کامیابی ٹھیک اسی امر میں ہے کہ اس نے  لامتناہیت ، احتمال ، مکان اور حرکت کے محدود تصورات کےذیل میں رہ جانے والے ابہام  پر قابو پانے کا ایک راستہ دریافت کر لیا ہے ۔

اب  ہم اوپر بیا ن کردہ تبدیلیوں  کے حوالے سے تیسری مشترکہ خوبی کا  رخ کر تے ہیں ۔ پہلے تصور لامتناہیت کو لیتے ہیں   ۔ اگرچہ قدماء کے نزدیک لاتعین    راستہ بھٹکانے اورگمراہی  سے وابستہ  ایک منفی تصور تھا، تاہم    قرون وسطیٰ کےعالم  کے نزدیک     لامتناہیت کا راستہ خدا   کو لیجانے والا ٹھہرا    ۔ خدا ایک لامتناہی ذات ہے تاہم اس کی تمام تر لامتناہیت کے باوجود ، وہ ایک اکمل ذات ہے ۔جوں ہی تصور ِ لامتناہیت کا اطلاق خدا پر    ہوا ، اس نے اپنی دھندلاہٹ اور ابہام کو کھو دیا ۔ الہٰیات نے تصور ِ لامتناہیت کو مثبت ، روشن اور واضح بنا  دیا ۔ تصورِ لامتناہیت میں موجود تمام تر ابہام اور دھندلاہٹ  محض انسانی متناہیت اور نقص  سے تعبیر ہوا  ۔ لامتناہیت فی نفسہ  ایک کلیتاً واضح اور چمکدار تصور کی حیثیت سے موسوم  ہونے کی بدولت  ریاضیاتی چھان پھٹک  کا ایک مثالی موضوع  قرار پائی  ۔

بعینہ تصورِ  اتفاقفیت کے ضمن  میں ، علم ِ خداوندی کا نتیجہ تھا کہ اس تصور کے ابہام نے  اپنی وجودی جہت کو کھو دیا  ہے نیز  گھٹ کرسا دہ   علمیاتی منفیت (epistemological   negativity)بن  کے رہ گیا ۔ خدا ایک پانسہ کے ہر ایک نتیجہ کا علم پہلے ہی سے رکھتا ہے  اور  محض انسانی ذہن کی متناہیت کے سبب یہ علم ہم (انسانوں ) سے پوشیدہ  رہتا ہے ۔ چنانچہ کم از کم خدا کے نقطہ نگاہ سے  ایک اتفاقی واقعہ (random event) ٹھیک طور سے متعین   ہونے کی بنا پر ریاضیاتی چھان پھٹک کے لائق ہے ۔ اب  یہ بات قابل فہم بن جاتی ہے کہ ہر اعتبار سےجبریت سے دوچار  کائنات اور احتمال کی روایتی تعبیر  ایک ہی ذہن کے اندر پیدا ہو سکتی تھی یعنی پیئرے  سمون ڈی لاپلاس (Pierre   Simon   de   Laplace)  کے ذہن میں  ۔  جبریت (determinism) اور اتفاقیت ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں ۔ جبریت اور احتمال ، ایک ہی کائنات کی وجودی اور علمیاتی جہات ہیں ۔  لاپلاس  کے مطابق ، دنیا کلیتاً  متعین (جبریت پر مبنی ) ہے  تاہم انسانی ذہن کے سامنے یہ صرف احتمالی انداز سے کھلتی ہے ۔

وجودی  یقین ( حسابی افعال کے اطلاق کے لیے ناگزیر ہے )اور علمیاتی عدم تعین کے  مابین  اسی طرح کی ملتی جلتی کشمکش   الجبرے میں نامعلوم کے تصور سے موسوم ہے ۔ نامعلوم ہمارے لیے ، متناہی موجودات کے لیے نامعلوم ہے ۔ خدا کے لیے کچھ نامعلوم نہیں ہے ۔ جوں ہی وہ ایک الجبرائی مسئلے کی وضع پر نگاہ ڈالتا ہے ، وہ فوراً سے پیشتر نامعلوم کی مقدار کو دیکھ لیتا ہے ۔ اس کو مساواتوں کے حل نکالنے کی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ عالم الغیب ہونے کی بدولت وہ فی الفور ہی حل کو جانتا ہے ۔  چنانچہ ، نظریہ احتمال کی مانند الجبرے کے ضمن میں  بھی وجودی ابہام جس نے یونانیوں کو اس بات سے روک رکھا تھا کہ وہ اس دائرے کو علمِ ریاضی کی گرفت میں لے آئیں ، ایک  علمیاتی ابہام  میں تبدیل ہو گیا  جو انسانی متناہیت میں جڑیں  رکھنے کی بدولت ریاضیاتی چھان پھٹک سے لاتعلق ہو کر رہ گیا ۔

یہی معاملہ حرکیات کا ہے ۔ وجودی   اعتبار سے  حرکت اکمل ہے اور کلیتاً متعین ہے ۔ حرکت  ہمیں مبہم دکھائی دیتی ہے،  یہ حقیقت محض ہمارے ادھورے پن کا نتیجہ ہے (مثال کے طور پر  ہم  اس بات کا فیصلہ کرنے کے اہل نہیں ہیں کہ آیا   کشش ثقل کی بدولت گرنے والی شے کی آزادانہ  حرکت   ،  سبک رفتار ہے یا نہیں ) ۔ تصورِ مکان اس سے بھی زیادہ واضح تر ہے ۔نیوٹن ’’ عمومی تبصرہ ‘‘ (Scholium   generale) نامی مضمون  کے اندر   مکان ِمطلق  کوعلمِ خداوندی  (Sensorium   Dei)  سے موسوم کرتا ہے ۔ پس ،  کمال ِ خداوندی(God’s   perfection) ہی  اس کو دائرہ ِ ریاضی  کی گرفت میں دینے کے امکان کو پیدا کرتا ہے ۔ انسانوں کے لیے محض اضافی اوراختباری یا تجربی مکان ہی قابل رسائی ہے ۔

فصل سوم: موحدانہ الہٰیات ہی ریاضیاتی دائرے میں تبدیلی کا ماخذ  ہے

خلاصہ یہ ہے کہ قدماء کے لیے وجودیات اور علمیات   ایک وحدت  تھے ۔ وہ دنیا کو اسی طرح تصور کرتے تھے جیسے وہ ان کو دکھائی دیتی تھی ؛ ان کو جو مظہر مبہم اور دھندلا دکھائی دیتا تھا ، وہ اس کو ویسا ہی  سمجھتے تھے ۔ جدید انسان کے نزدیک   وجودیات اور علمیات  کے مابین  ایک بنیادی فرق ہے ۔ خدا ہستی کائنات کو متعین کرتا ہے ، لہذا  یہ واضح اور کامل ہے ۔ دوسری جانب  چونکہ انسانی ذہن کی متناہی قابلیتوں  کی بدولت  ہمارا علم ِ کائنات   متعین ہوتا ہے ، لہذا  یہ مبہم اور غیرواضح ہے ۔ بے شک ، وجودیات اور علمیات کے مابین  یہی فرق    دائرہ ِ ریاضی میں ان اقالیم کاداخلہ ممکن بنا دیتا  ہے  جو ہماری نگاہوں کے سامنے ایک مبہم انداز میں کھلتے ہیں ۔ اگر صرف انسانی متناہیت ہی تمام تر مبہم ادراک سے متصف ہے  یعنی اگر اس کی علمیاتی تعبیر کی جاتی ہے تو وجودیاتی اعتبار سے بھی  ریاضی کے دائرے میں داخلہ ممکن  ہو جاتا ہے ۔

اس سے یہ دکھائی دیتا  ہے کہ  معروف رائے کے برخلاف ،  جدید ریاضیاتی علوم کی پیدائش میں غالباً  موحدانہ الہٰیات  نے اہم ترین کردار ادا کیا   ۔ موحدانہ الہٰیات   کی بدولت  عمومی علمیاتی  پس منظر میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوئی   جس  کے تحت  اس نے علمیات کو وجودیات سے جدا کر دیا ۔ اس جدائی نے آخرکار  جدید ریاضیات  کو بشمول تصور ات برائے لامتناہیت ، احتمال ، نامعلوم ، مکان اور حرکت  کو  جنم دیا ۔ ابتدائی جدیدعلمِ ریاضی اور ہیلیائی  دور کے علمِ ریاضی کے مابین بنیادی اختلافات کو شاید کائناتِ ریاضی کی قطعی  سرحدوں کے  لامتناہیت ، اتفاقیت یا حرکت جیسے مبہم تصورات کے لیے کھلنے سے موسوم کیا جا سکتا ہے ۔یہ ایک بنیادی تبدیلی ہے ، غالباً  نظامِ  اصول متعارفہ(axiomatic   system) کے تصور اور ثبوت (proof) کی دریافت سے لیکر موجودہ زمانہ  کی سب سے اہم ترین  ۔ اوراغلب ہے کہ اس بنیادی تبدیلی یعنی جدیدیت  کی جانب لیجانے والی اس انقلابی  بنیادی پیش رفت کا قریب ترین واسطہ   موحدانہ الہیٰات    سے ہے ۔

لاریب ، تاریخ ِ ریاضیات سے دی جانے والی پانچ مثالوں کو بطور شہادت پیش کرنا  کوئی دوٹوک ثبوت نہیں ہے ۔ میرا مقصد  سائنس اور ریاضیات کی ترقی میں  الہٰیات کے کردار  سے متعلق سوال کو حتمی طور سے طے کرنا نہیں  ہے،  تاہم  اس کے مطالعہ  کی غرض سے  ایک بالواسطہ طریقہ کو تجویز کرنا ہے ۔جیسا کہ   میکس ویبر(Max   Weber) نے جدید سرمایہ دارانہ نظام  کی ترقی میں  پروٹسٹنٹ اخلاقیات  کے کردار کا تجزیہ کیا تھا ، بعینہ   جدید سائنس کی ترقی میں موحدانہ الہٰیات کے کردار کا تجزیہ ممکن ہے   ۔موحدانہ الہٰیات نے  پروٹسٹنٹ اخلاقیات کی مانند  سائنس  کی ترقی کو براہ راست متاثر نہیں کیا ۔ اس کی بجائے صورت احوال (شرائط ) کو تخلیق کرنے میں مدد فراہم کی جس  کے تحت  جدید سائنس کی ترقی ممکن ہوئی ۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search