انسانی حقوق کی آفاقیت: نوم چومسکی (ترجمہ: طارق عباس)
حالیہ برسوں میں فلسفۂ اخلاق اور علمِ نفسیات نے انسانی شعور میں موجود اخلاقی وجدان کو دریافت کیا ہے، وہ وجدان جو انسان کو فیصلہ سازی میں اخلاقی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
اس دریافت کا جھکاؤ ایجاد کردہ مثالوں کی جانب زیادہ ہے جو کہ فیصلہ سازی میں اکثر اوقات حیران کُن بین الثقافتی ہم آہنگی عیاں کرتی ہیں۔ یہ مماثلت بچوں اور بڑوں، دونوں میں پائی جاتی ہے۔ اس امر کو واضح کرنے کیلئے میں ایجاد کردہ کی بجائے ایک حقیقی مثال پیش کرتا ہوں جو کہ ہماری توجہ براہِ راست انسانی حقوق کی آفاقیت کے موضوع کی جانب مبذول کرے گی۔
لارنس سمرز ، جو کہ بعد میں بل کلنٹن کے وزیرِ خزانہ اور اب ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر ہیں، 1991 میں ورلڈ بینک کے چیف اکانومسٹ تھے۔ انہوں نے بنک میں ایک میمو کے ذریعے پیغام دیا کہ ایسی صنعتوں کو جو کہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہی تھیں، غریب ترین ممالک میں منتقل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ”صحت کیلئے نقصاندہ آلودگی کے نقصانات کا تخمینہ اس آمدنی سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ آلودگی سے جنم لینے والے امراض و اموات کی بنا پر حاصل نہ کی جا سکی۔ اس اصول کے مطابق مضرِ صحت آلودگی پر مبنی صنعت کاری اُن ممالک میں کی جانی چاہئے جن میں مزدور کی تنخواہ سب سے کم ہو۔ میرا خیال ہے کہ زہر آلود گندگی کو کم تنخواہ والے علاقوں میں منتقل کرنے کے پیچھے ٹھوس معاشی منطق پائی جاتی ہے اور ہمیں اس فیصلے پر مضبوطی سے کھڑے ہو جانا چاہیے۔“
سمرز نے نشاندہی کی کہ اس فیصلے کے خلاف ”اخلاقی دلائل“ یا ”معاشرتی تحفظات“ کا رخ موڑ کر انہیں بنک کی کسی بھی معاشی لبرلائزیشن کی تجویز کے خلاف ایک موثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سمرز کا یہ میمو صحافیوں کے ہاتھ لگ گیا اور شدید ردِ عمل کا نشانہ بنا۔ برازیل کے ماحولیات کے سیکریٹری لٹزن برجر نے سمرز کو لکھا ”آپ کی دلیل مکمل طور پر منطقی لیکن یکسر پاگل پن ہے۔“ جو حضرات لٹزن برجر سے متفق ہیں انہیں ایک واضح اور اہم سوال کا جواب دینا ہوگا۔کہ اگر ایک مطلق منطقی دلیل سے احمقانہ دلائل نکلتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ مسئلہ دلیل کے مفروضے، یعنی ”اخلاقی دلائل“ اور ”معاشرتی تنقید“ کو مسترد کیے جانے، کے ساتھ ہے۔ ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر سمرز کی نشاندہی درست ہے کہ آلودگی پیدا کرنیوالی صنعتوں کی منتقلی کے فیصلے پر تنقید بنک کی کسی بھی معاشی لبرلائزیشن یا مارکیٹ اکانومی کی حوصلہ افزائی (مختصراً ”واشنگٹن کنسنسس“) پر عملدرآمد کی تجاویز کے خلاف بھی استعمال کی جا سکتا ہے تو، خیر جانیں دیں، یہ بات بہت واضح ہے۔ اتنی واضح کہ اس کا بیان کیا جانا ضروری نہیں۔ یہ ایک معنی خیز بات ہے کہ اس استدلال کو، اس کے حامیوں اور مخالفین کی جانب سے عمومی طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔
ایسے سوالات کا جدید معیار انسانی حقوق کی آفاقیت کا اعلامیہ ہے جو کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1948 میں اختیار کیا۔
آرٹیکل 25 کے مطابق ”ہر شخص ایک ایسے معیارِ زندگی کا حق رکھتا ہے جو اُس کی صحت کے لیے مناسب اور اُس کے افرادِ خانہ کیلئے موزوں ہو۔ اور اس معیارِ زندگی میں خوراک، کپڑے، رہائش، طب کی سہولیات، سوشل سروسز، بے روزگاری فنڈ، یا ایسے غیر معمولی حالات جو انسانی اختیار سے باہر ہوتے ہیں مثلاً بیماری، جسمانی محتاجی، بیوگی، بڑھاپا، اور روزی کمانے کے ذرائع کی عدم دستیابی شامل ہیں۔“
کم و بیش انہی الفاظ میں جنرل اسمبلی نے اپنے قوانین اور ”ترقی انسان کا بنیادی حق ہے“کے بین الاقوامی معاہدوں نے اس بات کی توثیق کی۔
یہ امر مناسب حد تک واضح ہے کہ درج بالا انسانی حقوق کی آفاقیت کا معیار ورلڈ بینک کے چیف اکانومسٹ کی خوبصورت منطق کو اگر پاگل پن نہیں تو نہایت غیر اخلاقی قرار دے کر مسترد کرتا ہے، وہ منطق جسے پوری دنیا میں ٹھوس گردانا جا رہا تھا۔
یہاں میں لفظ ”کم و بیش“ پر زور دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ مغرب کچھ قوموں کو ڈھلمل گردانتا ہے کیونکہ وہ انسانی حقوق کے اعلامیے کے کچھ حصوں کو مانتی ہیں اور کچھ کو نہیں۔ البتہ اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ ایک بڑا ڈھلمل دنیا کا سب سے طاقور ملک ہے، ان ممالک کا سردار جو اپنے آپ کو ”روشن خیال“ گردانتے ہیں۔
ایک ماہ قبل، مارچ 2005 میں، امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ جاری کی۔ پولا ڈوبری آنسکی، جو جمہوریت اور بین الاقوامی معاملات کی انڈر سیکریٹری آف سٹیٹ تھی، نے اس رپورٹ میں کہا ”انسانی حقوق کا پرچار ہماری بین الاقوامی پالیسی کی صرف ایک شق ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری بین الاقوامی پالیسی کی بنیاد ہے۔ “
ڈوبری آنسکی ریگن اور بُش اول کے دور میں انسانی حقوق اور انسانی معاملات کی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری تھی۔ اور اس عہدے کے دور میں اُس نے اس بات کو ”افسانوی خیال“ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا کہ ”’معاشرتی اور معاشی حقوق‘ ’انسانی حقوق‘ ہی کا حصہ ہیں۔ “امریکہ اس بات کا کئی بار اعادہ کر چکا ہے اور اسی بنیاد پر ”ترقی انسان کا بنیادی حق ہے“ کے بین الاقوامی معاہدوں کو ویٹو کرتا ہے نیز انسانی حقوق کے اعلامیے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔
حکومت انسانی حقوق کے اعلامیے کو رد کر سکتی ہے لیکن امریکی عوام حکومت سے متفق نہیں ہیں۔ اس کی ایک مثال عوام کا حالیہ بجٹ پر ردعمل ہے، جس کا سروے پروگرام آن انٹرنیشنل پالیسی ایٹیچیوڈ، یونیورسٹی آف میری لینڈ نے کیا۔
عوامی مطالبہ یہ ہے کہ عسکری اخراجات میں واضح کمی لائی جائے نیز تعلیم، میڈیکل ریسرچ، شمسی توانائی اور دیگر ماحول دوست ذرائع توانائی، ٹریننگ، سوشل پروگرامز، اقوامِ متحدہ اور دوسرے امدادی کاموں کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ اور بُش نے امراء کو ٹیکس میں جو چھوٹ دی تھی، اسے واپس لیا جائے۔ عمومی طور پر عوامی رجحان حکومتی بجٹ کی سمت کے بالکل خلاف ہے۔
دولتمند اور طاقتور کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ عوام پالیسی سازی اور اس پر عمل در آمد کے عمل میں کسی بھی صورت حصہ دار بنیں۔ یہ بذات خود ایک قابل تشویش بات ہے اگر ہم انسانی حقوق کی آفاقیت کو نظرانداز بھی کر دیں۔
بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی تجارت اور بجٹ میں بڑھتے ہوئے خسارے پر بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اسی سے منسلک ایک عمل بڑھتا ہوا جمہوریت کا خسارہ ہے، اور یہ رجحان صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ پورے مغرب پر محیط ہے۔
ابھی ابھی بشپ آسکر رومیرو کی پچیسویں برسی گزری ہے جو کہ ”محروم طبقات کی آواز“کے نام سے جانے جاتے تھے، اور پندرھویں برسی اُن چھ لاطینی امریکی ذی فہم دانشوروں کی گزری ہے جو کہ یسوعی پادری تھے۔ یہ دونوں ال سلواڈور سے تعلق رکھتے تھے۔
ان حالات نے وسطی امریکہ کے ممالک میں 1980 کی تباہ کن دہائی کو جنم دیا۔ رومیرو اور ان 6 دانشوروں کا قتل واشنگٹن کے تربیت یافتہ فوجی دستےنے کیا تھا۔ انکے قتل کے ذمہ دار موجودہ حکومت کے چند وزیران یا انکے سیاسی اتالیق ہیں۔
رومیرو نے جب صدر کارٹر کو خط کے ذریعے التجا کی کہ وہ ال سلواڈور کی فوجی جنتا کو مدد نہ بھیجیں کیونکہ ایسا کرنے سے ”لوگوں کو اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑنے میں مزید دشواریوں اور جبر کا سامنا کرنا پڑے گا“، تو اس خط کے معاً بعد رومیرو کا قتل ہو گیا۔ ال سلواڈور میں ریاستی جبر میں اضافہ ہوا، اور اسے ہمیشہ امریکہ کی حمایت اور مغربی ممالک کی خاموش مدد حاصل رہی۔
ایسے ہی سنگدلانہ اقدامات دنیا میں کئی جگہوں پر ان فوجی دستوں کے ہاتھوں سرانجام دیے جا رہے ہیں جنہیں امریکہ نے ہتھیار اور جنگی تربیت فراہم کی ہے۔ ان اقدامات کو امریکہ کے مغربی ساتھی ممالک کی مدد بھی حاصل ہے۔ اس کی ایک جاری مثال، اور اس کی کئی دستاویزی مثالیں موجود ہیں، کولمبیا ہے جو کئی سالوں سے انسانی حقوق کی پامالی کا خطے میں ایک بڑا مجرم ہے اور اس تمام عرصے میں امریکی فوجی امداد بھی حاصل کرتا رہا ہے۔
گزشتہ برس 2004 میں صرف کولمبیا میں مزدور کارکنان کے قتل ہونے کی تعداد پوری دنیا میں قتل ہونے والے کارکنان سے زیادہ تھی۔ اس تعداد میں برتری کا یہ اعزاز کئی سال سے کولمبیا کے پاس ہے ۔ فروری 2005 میں ایک قصبے میں جس نے خود کولمبیا کی خانہ جنگی میں غیر جانبدار قرار دے رکھا تھا، فوج نے ایک اطلاع کے مطابق آٹھ لوگوں کو قتل کر دیا، جن میں تین بچے اور ایک مقامی رہنما بھی شامل تھے۔
میں نے یہ چند گنی چنی مثالیں اس لئے دی ہیں تا کہ ہم اپنے آپ کو یاد دہانی کرا سکیں کہ ہم صرف خیالی آدرشوں پر سیمینار ہی منعقد نہیں کر رہے یا دوردراز کی تہذیبیں، جنہیں ہم نہیں جانتے، کے مطالعہ جات ہی میں مصروف نہیں ہیں۔ ہم اپنے بارے میں بات کر رہے ہیں اور وہ مراعات یافتہ سماج ہمارا موضوع ہے جس کے ہم باسی ہیں۔ اور اگر ہمیں آئینے میں نظر آنے والا عکس پسند نہیں آ رہا تو ہمارے پاس اس عکس کو درست کرنے کے تمام مواقع موجود ہیں۔
سنِ اشاعت: اپریل، 2005
ماخذ: The-Universality-of-Human-Rights