9/11 اور نیک نیتی کا نظریہ: نوم چومسکی (ترجمہ: طارق عباس)
(عرضِ مترجم: نوم چومسکی اس امر کے سخت خلاف ہیں کہ شخصیات کو اُن کی آراء سے زیادہ اہمیت دی جائے اور چند گنے چُنے لوگوں کو stars کے درجے پر فائز کر دیا جائے۔ اُن کا ماننا ہے کہ personality-cult لوگوں کو ہمیشہ حقیقی مسائل سے دور رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اور میڈیا اس personality-cult کے تصورکو استعمال کر کے لوگوں کو زمینی حقائق سے بے خبر رکھنے میں بہت کامیاب ثابت ہوا ہے۔یہ امر ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ’’ ایئر ٹائم‘‘ کا بیشتر حصہ ان شہرت یافتہ شخصیات کے بارے میں gossips, تشدد سے بھرپورجرائم کی خبروں، یا پھر کھیلوں کے متعلق مضحکہ خیز قسم کی معلومات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں ہمارے پاس سوچنے سمجھنے کے لئے وقت بھی قطعاً میسر نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا دور ہے جہاں غور و فکر، سوچ بچار، ایک ایسی luxury یا باقاعدہ عیاشی بن چکے ہیں جس کی ہم میں سے بیشتر لوگ استطاعت نہیں رکھتے۔
ان سب کے باوصف چومسکی اپنی پوری توانائی اس کوشش میں صرف کر رہے ہیں کہ ہم غور و فکر کا آغاز کریں، چاہے ابتدائی سطح پر ہی سہی۔چومسکی کی Op-Ed سیریز بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ زیرِ نظر تحریر چومسکی کی Op-Ed سیریز کا دوسرا مضمون ہے جس کا ترجمہ جائزہ پر شائع کیا جا رہا ہے۔ یہ امر یہاں قابلِ ذکر ہے کہ چومسکی کی Op-Ed سیریز کا مجموعہ گوانتا نامو بے جیل کی لائبریری میں ban کر دیا گیا تھا۔ )
ترجمہ
انسانی معاملات کو سمجھنا سہل نہیں ہے، بلکہ کچھ صورتوں میں تو یہ natural-science سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ فطرت انسان کو اس کے سوالات کا جواب آسانی سے مہیا نہیں کرتی مگر کم ازکم اسکے فہم کی راہ میں دانستہ رکاوٹیں نہیں ڈالتی۔ انسانی معاملات میں یہ امر اشد ضروری ہے کہ ہم اُن رکاوٹوں کو پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں جو کہ مختلف نظامِ معنی (doctrinal-systems)سے پیدا ہونے والی استبدادی قوتوں نے ہمارے فہم کی ہر سرحد پر کھڑی کر رکھی ہیں۔کبھی کبھار طاقت کےاس جبر کی موجودگی کا کھلے بندوں اقرار بھی کر لیا جاتا ہے۔ مثلاً ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سیموئل ہنٹیگن نے 1981 میں، جبکہ چالیسویں امریکی صدر رونالڈ ریگن کی ریپبلکن حکومت سرد جنگ کو بڑھاوا دے رہی تھی، روسی خطرات کے مقاصد (یہاں مقاصد سے پروفیسر کی مراد یہ ہے کہ وہ خطرات جو حقیقتاً موجود نہیں ہیں لیکں عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے ان کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے) کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے لئے جنگ لڑنے یا امریکی فوجی مداخلت کو عوام میں قابلِ قبول بنانے کیلئے اُنہیں اس غلط فہمی میں رکھنا ضروری ہے کہ ہم واقعی سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، اور Truman-Doctrine (ٹرومین نظریے کے مطابق امریکہ ہر اس ملک کو عسکری مدد فراہم کرے گا جسے سوویت یا اشتراکی قوتوں سے خطرہ لا حق ہو گا۔ مترجم) سے لے کر اب تک امریکہ اسی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔‘‘
مقتدرہ قوت کا اصل الاصول ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ لا حق فرضی خطرے کے پس منظر میں موجود دشمن کو ایک شیطانی قوت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ کبھی کبھار یہ درجہ بندی درست بھی ہوتی ہے لیکن اس کے با وجود ان ’’شیاطین‘‘ کے خلاف اعلانِ جنگ یا طاقت کے استعمال کا محرک شاذ ہی ان قوتوں کی جانب سے سر زد ہوا کوئی جرم ہوتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال عراقی صدر صدام حسین ہے، جو کہ ایک بے یار و مددگار ہدف تھا، اور جسے امریکی سالمیت کو لاحق ایک شدید خطرہ بنا کر پیش کیا گیا، اسے 9/11 میں ملوث قرار دیا گیا اور یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ قریب ہے کہ وہ دوبارہ امریکہ پر حملہ آور ہو گا۔
1982 میں رونالڈ ریگن کی حکومت نے صدام کے عراق کو ان ریاستوں کی فہرست سے خارج کر دیا تھا جو امریکہ کے خیال میں دہشت گردی کی معاونت کر رہے تھے وہ اس لیے کہ اس مطلق العنان ، ظالم، جابر، اور غاصب فرمانروا کو عسکری اور مالی تعاون مہیا کیا جا سکے۔یہ مدد اس سفاک، سنگ دل، اور بے رحم حکمران کے بد ترین مظالم اور اس کی ایران کے ساتھ جنگ کے بعد تک جاری رہی تھی۔ اور اس مدد میں Weapons-of-mass-destruction کی تیاری کیلئے درکار تمام سہولیات بھی شامل تھیں ۔ جارج آرویل کے الفاظ میں ’’it-wouldn’t-do‘‘ اگر عراق کے ساتھ یہ معاہدہ خاموشی (tacit-agreement) کے ساتھ نہ کیا گیا ہوتا (ایسا معاہدہ جو دو اداروں کے مابین ہو لیکن اس معاہدے میں حامی بھرنے والی پارٹی اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کرتی کہ وہ واقعتاً یہ فعل سر انجام دے گی، اسے قانون کی اصطلاح میں general-tacit-agreement کہا جاتا ہے۔ جیسے امریکہ نے صدام کی عسکری مدد نہ یہ کہہ کر کی کہ وہ اپنی عوام پر مظالم ڈھائے اور نہ ہی اس نے یہ مدد ان مظالم کو عمل میں لانے کی حامی بھر کے قبول کی۔
بقول عدم
سننے والوں پہ منحصر ہے عدم
خامشی میں صدا بھی ہوتی ہے
مترجم)
اس طرح کی غیر تحریری پالیسیاں دو فوائد رکھتی ہیں، ایک یہ کہ ہم نہ صرف دوسرے کو شیطان ثابت کرتے ہیں بلکہ نتیجتاً خود فرشتہ بھی ثابت ہو جاتے ہیں۔ بالخصوص تب جبکہ ہم کسی قوت کے خلاف کسی عظیم اصول نیز اپنے دفاع کی آڑ میں جارحانہ پالیسی اپنانا چاہتے ہوں۔ جاپان کے شہنشاہ ہیروہیٹو نے اگست 1945 میں ہتھیار ڈالنے کے بعد اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے امریکہ اور برطانیہ کے خلا ف جنگ کا قدم جاپان کی حفاظت اور مشرقی ایشائی توازن برقرار رکھنے کے مخلصانہ جذبے کے تحت اٹھایا تھا۔ ہمارا یہ ارادہ ہرگز نہیں تھا کہ ہم دوسرے ممالک کی سالمیت کو نقصان پہنچائیں یا اپنی سرحدی حدود کو توسیع دیں۔‘‘
عالمی سطح کے جرائم کی تاریخ اس طرح کے مضحکہ خیز بیانات سے پُر ہے۔ جب 1935 میں نازی ازم کے گہرے بادل چھا چُکے تھے تب مارٹن ہائیڈیگر نے کہا تھا کہ جرمنی کو اب چاہئے کہ وہ اقوامِ عالم کو فکری گمراہی سے بچانے کی خاطر سرحدی حد بندیوں کی پروا کیئے بغیر پیش قدمی کرے ۔ نازی دستور کے تحت جرمنی میں جو روحانی توانائیوں کا احیاء ہوا ہےان توانائیوں کو استعمال میں لا کر جرمنی دنیا کو امریکہ اور روس کے لاتعلق عوام کے ہاتھوں نیست و نابود ہونے سے بچا سکتا ہے۔
وہ افراد تک اس مرض سے مغلوب ہو جاتے ہیں جن کی دانش، فہم و فراست، اور ایمانداری روزِ روشن کی طرح ہم سب پر عیاں ہے۔ایک مثال جان سٹوورٹ مِل کی دی جا سکتی ہے؛ جب برطانیہ، برِ صغیر اور چین میں اپنے جرائم کے عروج پر تھا (اور مِل کوبرطانوی استعمار کے جبر اور استبداد کا بخوبی علم بھی تھا)، تب مِل نے Humanitarian-Intervention پر ایک کلاسک مضمون لکھا۔ جس میں اس نے برطانوی حکومت کے اس”کارِ عظیم “ کی حمایت کرتے ہوئے اسے پوری قوت کے ساتھ قدم بڑھانے کا مشورہ دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ برطانوی ’’کارِ عظیم‘‘ پر پسماندہ ذہنیت کے یوروپی لوگ توہین آمیز طعن و تشنیع کریں گے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ برطانیہ دنیا کی ایک منفرد طاقت اور ایک ایسی قوم ہے جو بغیر کسی ذاتی منفعت کے، دیگر ملکوں میں قیامِ امن اور فراہمیٔ انصاف کی خاطر ہر طرح کی قیمت ادا کرتی ہے۔
تاریخ اس طرح کے زعمِ پارسائی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ امریکہ کا ایک مستقل خیال یہ ہے کہ مسائل سے دوچار ملکوں کو جمہوریت اور (امریکی برانڈ کی) آزادی برآمد کی جائے۔
میڈیا اور دانشور دونوں کی نظر میں امریکی خارجہ پالیسی دو متضاد تناظر رکھتی ہے۔ ایک Wilsonian-Idealism ہے جو بلند اقدار پر استوار ہے اور دوسرا Realism جسکی بنیاد یہ ادراک ہے کہ اعلی مقاصد اور بلند اقدار کے بھی کچھ محدودات ہیں ۔
ان دونوں میں سے کارفرما جھکاؤ جو بھی ہو، مؤرخ آرنو میٔر کی بات میں پنہاں صداقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ 1947 سے لیکر اب تک امریکہ ریاستی دہشت گردی اور بدمعاشی کا مرتکب رہا ہے اور اُس نے ’’ جمہوریت، انصاف اور آزادی‘‘نام کے آدرشوں کی آڑ میں دنیا کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔
آزاد قومیت (Independent-Nationalism)( چومسکی کی مراد یہ ہے کہ ایسی اقوام جو اپنی بقا کیلئے غیر ملکی (خصوصاً طاقتور مغربی) قوتوں پر منحصر نہ ہوں۔مترجم) کا تصورہمیشہ سے ہی امریکہ کا کُل وقتی دُشمن رہا ہے۔بالخصوص تب جبکہ یہ تصور(ہنری کسنجر کے الفاظ میں ایک) ’’ وائرس‘‘ بن کر دنیا میں پھیلتا ہؤا محسوس ہو۔ اس وائرس کا ادراک امریکی حکومت کو تب ہوا جب اُس نے جمہوری اشتراکیت کو چِلی میں Salvador-Allende کی حکومت میں پنپتا ہوا پایا، اور 1970 میں Salvador چِلی کے صدر منتخب ہوئے۔ اس ’’متعدی وائرس‘‘ سے چھٹکارا امریکہ کیلئے ہر حال میں ضروری تھا۔ اور پھر یہی ہوا؛ گیارہ ستمبر 1973 (جو کہ لاطینی امریکہ میں First-9/11 کہلاتا ہے) کو، چِلی کے آرمی جنرل Augusto-Pinochet کی افواج نے چِلی کے صدارتی محل پر حملہ کر دیا، Allende نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اور حراست میں آنے سے قبل ہی اپنی جان لے لی۔اور یوں لاطینی امریکہ کی سب سے قدیم اور روشن جمہوریت کی شمع گُل ہوئی۔
پنوشے نے حسبِ توقع ایک وحشیانہ دورِ حکومت کا آغاز کیا۔ اس ’’فرسٹ 9/11‘‘ میں سرکاری ذرائع کے مطابق 3200 اموات ہوئیں جبکہ حقیقی تخمینہ اس سے دو گنا اموات کا ہے۔امریکی تناسب میں یہ اموات 50,000 سے 100,000 بنتی ہیں۔جمہوری تختہ الٹنے کے اس جابرانہ اقدام میں جن لوگوں کو ہولناک اور وحشت انگیز جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اُن کا تخمینہ 30,000 کے لگ بھگ ہے۔ اور یہ تعداد امریکی تناسب کے مطابق سات لاکھ بنتی ہے۔
پنوشے کی آمریت اور اسکی ابتدائی کامیابی کو واشنگٹن کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس نے اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے کے اندر اندر لاطینی امریکہ کے دوسرے امریکی حمایت یافتہ فوجی آمروں کے ہاتھ تھامے اور ان سب نے مل کرOperation-Condor کے نام پر لاطینی امریکہ میں تباہی مچا دی۔
یہ اورا س طرح کے دوسرے بہت سے اقدامات امریکہ کی ’’ترویجِ جمہوریت‘‘ کی مثالیں ہیں۔اور اب ہمیں ہدایت دی جا رہی ہے کہ ہم مان جائیں کہ امریکہ افغانستان اور عراق میں بھی اسی قسم کی جمہوریت کو فروغ دینے کی کوششوں میں سرگرمِ عمل ہے۔
ڈیفنس سائنس بورڈ۔ DSB (پینٹاگون کا ایک مشاورتی ادارہ) کی 2004 کی رپورٹ کے مطابق مسلمان ہماری آزادی اور طرزِ معاشرت سے نہیں بلکہ ہماری پالیسیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ رپورٹ ہمیں مزید یہ بتاتی ہے کہ امریکہ کا اسلامی ممالک میں کئے گئے اقدامات کو جمہوریت کے فروغ کا مبداء قرار دینا منافقانہ اور خودغرضانہ ہے۔ مسلمانوں کے خیال میں عراق اور افغانستان میں امریکی مداخلت جمہوریت کی بجائے مزید تباہی اور بربادی پر منتج ہوئی ہے۔
ڈیوڈ گارڈنر نے جولائی 2005 میں فائننشل ٹائمز میں شائع مضمون میں DSB کی اسی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ’’عموماً عرب اس بات کو زیادہ قرینِ قیاس سمجھتے ہیں کہ جمود کو توڑنے والا اسامہ بن لادن تھا نہ کہ جارج بش۔ کیونکہ 11/9 کے حملوں نے مغربی طاقتوں اور انکے کٹھ پتلی عرب آمروں کو یہ باور کرا دیا کہ کسی بھی ایسے سیاسی گروہ کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو اُن کی پالیسیوں سے شدید نفرت پالتا ہو۔‘‘
یہ امر ہمارے لئے بالکل حیران کُن نہیں ہونا چاہئے کہ امریکہ ماضی اور حال کی دوسری طاقتور ریاستوں کی طرح ہی کی ایک ریاست ہے جو بظاہر اعلی اخلاقی مقاصد اور بلند انسانی اقدار کی علم بردار ہے مگر حقیقت میں اپنے اقتصادی اور سیاسی مقاصد کو پورا کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔ عراق میں ہونے والی تباہی کو بھی اگر ہم ’’اعلی اخلاقی مقاصد‘‘اور’’نیک نیتی‘‘ جیسے خوشگوار نعروں کا لبادہ پہنا کر خود فریبی میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں تو یاد رہے کہ یہ خود فریبی ان اقدامات کو مزید مؤخر کرنے میں معاون ثابت ہو گی جو وقت کی اشد ضرورت ہیں۔