لوگوں سے بڑھ کر خواب سیانے ۔ مترجم: قیصر شہزاد

 In ترجمہ

یہ مکئی کی فصل اکٹھی کرنے کے دن تھے ، اداس اور سلونے۔
برکھا راہی گاؤں کی حدود سے باہر اپنے کان زمین سے لگائے بھوری گھاس پر لیٹا تھا۔
” کیا کررہے ہو تم؟” کسی راہ گیر نے پوچھا۔
” کون، میں ؟ ” اس نے سر اٹھایا۔ پوچھنے والےکو اس کی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات کسی قریب المرگ مریض جیسے بھیانک دکھائی دیئے،
” بوائی کرنے والے آرہے ہیں۔ اور میں ان کی سانسوں کی آواز سن رہا تھا۔”
راہ گیر ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ لیے چل پڑا۔ تازہ فصل بونے والوں کی آمد کے دن ابھی بہت دور تھے۔۔۔
ایک روز برکھا راہی گاؤں کے بیچوں بیچ سر اٹھائے کھڑا آسمان کو گھورے جار ہا تھا۔
کسی نے پوچھا: ” یہ تم کیا کررہے ہو؟ ”
” کون ،میں ؟” اس کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک آگئی اور سوال کرنے والے پر نظر ڈالتے ہوئے وہ بولا: ” میں نے ایک تیر آسمان کی جانب چلایا تھا جو لوٹ کر نیچے نہیں آیا۔ میں اسی کے انتظا ر میں ہوں۔ ”
وہ آدمی ہنستے ہوئے چل دیا۔ کوئی بچہ بھی بتا سکتا ہے کہ اوپر جانے والا ہر تیر نیچے ضرور گرتا ہے۔
گاؤں کےلوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ جب سے مؔورکھ اس کی بیوی کو لے گیا برکھا راہی کی یہی حالت ہے۔ یہ واقعہ پچھلے گرما کی ضیافتوں کے دوران پیش آیا تھا۔ اوربرکھا راہی ابھی تک اسے بھول نہیں پایا۔
وہ اکثر تنہا بیٹھا عجیب وغریب اور ناخوشگوار گیت بناتا رہتا۔ گانے کے ساتھ ساتھ وہ ہتھیار بھی تیار کرتا جاتا۔
اپنے لیے اس نے نوکدار اَنی والا ایک لمبا نیزہ بنانے کے بعد ایک کمان بھی تیار کرلی۔ ساتھ ساتھ نفرت سے پھنکارتے گیت گاتا گیا۔
بہت سے تیر بنانے، ان کے سروں پر اَنیاں لگانے کے بعد اس نے ان کے پیچھے عقاب کے پَر باندھ دیئے۔پھر اس نے ایک بھدا سا گرز تیار کیا۔ اس کے یہ ہتھیار شدید نفرت کے پیامبر لگ رہے تھے جنہیں وہ تند اور پھنکارتی ہواؤں کے سینے میں بھونکنے کی کوشش کرنے لگا۔اب اس کے گیت بھی ان کا حصہ بن چکے تھے۔
ایک اور راہ چلتا آدمی اس کے پاس آیا۔
” تم سامانِ جنگ کیوں بنا رہے ہو”۔
“کون، میں؟ ” برکھا راہی نے پیٹ کے بل زمین پر لیٹتےاور کسی سانپ کی مانند رینگتے ہوئے پوچھنے والے سےکہا: ” میں چتکبرا سانپ ہوں۔ تمہیں ڈس لوں گا۔ بھاگ جاؤ! ” اور وہ آدمی بھاگ کھڑا ہوا کہ کسی انسان کو سانپ جیسی حرکتیں کرتے دیکھنا کوئی اچھا شگون نہیں۔
او ر پھر ایک رات ہتھیار مکمل طور پر تیار ہوگئے۔ اس رات لوگوں کو اس کے گیتوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
“یہ گیت، جنگ کے متلاشی کے گیت ہیں۔ “وہ سرگوشیاں کرنے لگے۔
صبح ہوئی تو برکھا راہی اپنے ڈیرے سے باہر نکلا۔ عورتیں اس کو دیکھ کر کانپ اٹھیں اور مردحیرت زدہ رہ گئے۔ وہ ساری رات روتا رہا تھا اور اس کی آنکھیں وحشت سے بھری ہوئی تھیں۔
پھر صبح کی خاموشی میں لوگوں کے سامنے اس کی بھرائی ہوئی آواز بلند ہوئی۔ ” میری بیوی کہاں ہے؟ وہ جو میری خدمت کرتی اور میرے گھر کو سکون بخشتی تھی وہ کدھر گئی؟ کوئی مجھے بتادے۔
میں اس کی تلاش میں جارہا ہوں۔بھلے میں اس کی تلاش میں مارا جاؤں اور میری لاش کو کوے نوچیں، میں اسے ڈھونڈ کر رہوں گا۔ ”
یہ سن کر لوگ یوں کانپنے لگے گویا انہوں نے اس کی آواز میں پہلی برفباری سانس لیتی محسوس کرلی ہو۔وہ گو مگو کے عالم میں تھے کہ اس کی آواز پھر سے گونجی:”لوگو ، تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میں جانتا ہوں وہ کہاں ہے ۔ اور میں وہیں جارہا ہوں ۔ ”
وہاں سے وہ سیدھا قبیلے کے سردار کے خیمے کے سامنے پہنچا، خیمے کے اندر سردار موجود تھا اور کھانا کھارہا تھا۔ برکھا راہی پردہ سرکا کر ہلکے سے کھنکارا ۔
” میں کچھ کہنا چاہتا ہوں”۔
” کہو!” سردار بولا۔
” میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔ میں پونکا قبیلے کی بربادی اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں ان کے خلاف جنگ چاہتا ہوں”
سردار دیر تک برکھا راہی کی آنسوؤں سے دھلی آنکھوں میں جھانکتا رہا۔
“جنگ کی راہ چلنا آسان نہیں اس کی منزل عورتوں کے بینوں ، بھوک، دور دراز ویرانوں میں مرے پڑے اور کبھی لوٹ کر نہ آنے والے باپوں کے لیے روتے بلکتے بچوں کے سوا کچھ نہیں۔ یہ راستہ بہت کٹھن ہے۔ ”
اسے کوئی جواب نہ ملا۔
کچھ دیر سوچنے کے بعدسردار نے قبیلے کے سب جتھوں کے سرپنچوں کو بلوالیا ۔وہ لوگ مل بیٹھے اور گہری سوچوں میں گم ہوگئے۔ برکھا راہی بھی ان کے بیچ براجمان تھا۔ اس کا دبلا پتلا چہرہ کسی خون آلود کلہاڑی کی طرح سفاک دکھائی دیتا تھا۔
پھر سردار نے اپنی بات کا آغاز کیا اور اس کے الفاظ خیمے کے اندر پھیلے محسوس ہوئے۔
“ہمارے درمیان بیٹھے اس آدمی کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ عورت سمجھ میں آنے والی شے نہیں۔ کبھی تو وہ برفانی جاڑوں میں طویل اور کٹھن راستوں پر اپنے مرد کی خاطر جان تک دے دیتی ہے۔ اس کے بچوں کو دودھ پلاتے اور ان کی پرورش کرتےجھریوں بھری بوڑھی بن جاتی ہے۔ اور کبھی کسی اور مرد کی خاطر فوراً اسے چھوڑ جاتی ہے۔ ایک مرتبہ میں کسی سیانے سے ملا تھا لیکن اس سوال پر وہ بھی یوں ہی سر ہلاتا تھا جیسے میں اب ہلارہا ہوں۔ تم سب جانتے ہو میں کس عورت کی بات کررہا ہوں۔ ‘سورؔج مکھی ‘ اس شخص کی بیوی تھی۔ جب ہمارے برادر قبیلے پونکا کے لوگ ضیافت اور گپ شپ کےلیے یہاں آئے تھے تب ان کے ساتھ ‘مورکھ’ بھی تھا۔اس نے بس اسے ایک مرتبہ مسکرا کردیکھا اور وہ اس کے ساتھ چل پڑی۔ اب یہ شخص ان لوگوں کے خلاف اعلانِ جنگ کی التجاء کرتا ہوا میرے پاس آیا ہے۔تم لوگ خوب سوچ لو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
ایک سرپنچ بولا: “اگر ان لوگوں نے رات کے اندھیرے میں آکر ہمارے خچر چُرا لیے ہوتے تو میں ضرور اپنا جتھہ اکٹھا کرکے ان پر حملہ آور ہوجاتا۔ ”
دوسرا سرپنچ کہنے لگا ” میں صرف اسی کے خلاف جنگ کی ہامی بھر سکتا ہوں جس نےہمارے باغات تباہ کیے اور فصلیں اجاڑی ہوں۔ ”
تیسرے جتھے کا سرپنچ گویا ہوا:” اگر انہوں نے ہماری توہین کی ہوتی تو میں اپنا چہرہ رنگ کر جنگ کے لیے تیار ہوجاتا۔”
اس کے بعد سکوت چھا گیا جسے کچھ لمحوں بعد سردارنے چند لفظوں سے توڑنے کی کوشش کی: ” یوں کرتے ہیں کہ متبرک پائپ کا دور چلاتے ہیں۔ جنگ کا حامی سرپنچ اس سے کش لے ورنہ ساتھ بیٹھے شخص کو دے دے۔”
پنچایت میں اس وقت دس سرپنچ دائرہ بنائے بیٹھے تھے۔پہلے آدمی نے پائپ کو ہلکے سے چھو کر فورا ً یوں آگے کردیا گویا کسی انگارے کو چھولینے سے اس کی انگلیاں جل گئی ہوں۔ باقی سب سرپنچوں نےبھی یوں ہی کیا۔دسویں شخص نے پائپ برکھا راہی کو تھمایاجس کے منہ سے خشک سانسیں یوں نکل رہی تھی گویا وہ کسی تپتی کھائی سے آرہی ہوں ۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے پائپ پکڑا اور تڑپ کر یو ں منہ سے لگالیا جیسے مدتوں کا پیاسا ٹھنڈے میٹھے پانی کے پیالے کو منہ سے لگاتا ہے۔پھر اس نے چقماق رگڑ کر اسے سلگایا اور اپنے پورے قد کے ساتھ غیظ و غضب کا مجسمہ بن کر کھڑا ہوگیا۔ “دیکھو میں اس پائپ سے کش لے رہا ہوں۔ جب تک سورج باقی ہےمیں تنہا چلوں گا۔ اپنے ساتھ ہوئے ظلم کا بدلہ بھی میں اکیلے ہی لوں گا۔ میں اکیلا راہی ہوں۔مجھے کسی سے کچھ نہیں چاہیے۔ میں سانپ سےرینگنا اور ڈسنا، بارہ سنگھے سے اس کا پھرتیلا پن ، تیزی طراری اور عقا ب سے تیز نگاہی سیکھوں گا اور اپنی جنگ خود ہی لڑوں گا۔ ”
خیمے کے پرسکون جھٹپٹے میں پائپ کے دھوئیں کے مرغولوں کے پار وہ کوئی غیر انسانی مخلوق دکھائی دے رہا تھا۔
“دیکھو دیکھو میں کش لے رہا ہوں۔ اور بالکل اکیلے کیونکہ میرے بھائی بند میرا ساتھ نہیں دینا چاہتے۔ اپنی نفرت لیے میں ویرانوں میں بھٹکتا رہوں گا۔ اور دور دراز کی پہاڑی چوٹیوں کے عقابوں تک کو میرے منہ سے جنگ کے نعروں کے سوا کچھ سنائی نہ دے گا ۔ اب میری کوئی قوم اور کوئی قبیلہ نہیں۔ اپنی ذات میں مَیں خود ایک قبیلہ ہوں ، وہ قبیلہ جو ہمیشہ تنہا چلتا ہے ۔ آئندہ پیدا ہونے والے بچے میرا نام تو سنیں گے لیکن وہ نام الاؤ کے نیلے پڑ جانے اورا رواح کے رخصت ہونےپر نوحہ کرتی ہواؤں جیسا ہوگا۔ میں یہ فراموش کر دوں گا کہ مجھے کسی عورت نے جنم دیا۔ آج سے میں خود کوویرانے میں کسی تپتی چٹان پر جنم لینے والاسنپولیا سمجھ لوں گا ۔ میں سمجھوں گا کہ میں نے ماں کے دودھ کا ذائقہ نہیں چکھا۔ بس دھوپ میں پکا ہوا زہر ہی میری خوراک رہا ہے۔
اور اب میں تنِ تنہا اپنے سفر کا آغاز کرتا ہوں۔”
اگرچہ اب اس کی آواز دھیمی سی فریاد میں بدل چکی تھی لیکن اب بھی اس میں کچھ ایسا ضرور تھا کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ حالانکہ وہ عام لوگ نہیں بلکہ سردار اور بڑے سورما تھے۔
برکھا راہی دور، بہت دور نظریں جمائے خیمے سے باہر نکل گیا۔ رات آرہی تھی اور اسے اس سے ملنا تھا۔وہ پیادہ پا رات کی جانب بڑھتا چلا جا رہا تھا اور اس کے ذہن میں مقدس ہستیوں کے خیالات آرہے تھے۔
کچھ دیر چلتے رہنے کے بعد وہ ایک بلند ٹیلے کے پاس پہنچاجو اپنی بلندی کےباعث مقدس سمجھا جاتا تھا۔
وہ اس کی چوٹی پر پہنچا تو گھاس سے عاری سفید بھربھری چٹانیں تاریک ہوچکی تھیں۔
پھر اس نے پائپ جلا کر متبرک دھواں نکالا کہ اگرچہ وہ اپنا سفر اکیلے طے کرنے کی ٹھان چکاتھا لیکن نیک روحوں کا ساتھ اسے ضرور درکارتھا۔ سب جانتے ہیں کہ آدمی کبھی بھی، کہیں بھی پوری طرح تنہا نہیں ہوسکتا۔
اس لیے اس نے پائپ کی نَے کا رُخ یکے بعد دیگرے جنوب، مشرق اور شمال کی جانب کیا اور دُعا کرنے لگا۔ “ہواؤں کو چاروں اَور پہنچانے والے، میری مدد کر!۔ میں بے یار و مددگار ہوں۔” پھر نَے کو اس نے زمین کی جانب جھکایا : ” زمین کے نیچے بسنے والے مقدس انسان! میں بے یار و مددگار ہوں۔”اس کے بعد اس نے آسمان کی جانب نَے کو پھیرا اور کہنے لگا: “عظیم باپ، تو جو آسمانوں پر رہتا ہے! میں بے یارو مددگار ہوں، میرے بھائی بندوں نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ مجھے یقین ہے کہ تم ضرور میری مدد کروگے۔ ”
اب وہ خود کو پہلے سے زیادہ توانا محسوس کرنے لگا تھا اس لیے اپنے ہتھیار اٹھا ئے وہ جنوب کی سمت چل پڑا ۔ اس کا رخ نبراسکا کے میدانوں میں واقع پونکا قبیلے کے گاؤں کی جانب تھا۔
رات کو ایک ویرانے میں اچانک ایک بھیڑیا اس کے پاس سے گزرا اور تھوڑے فاصلے پر جاکربیٹھ گیا۔ برکھا راہی اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:” میرے بھائی بھیڑیے ! میں جنگ کو جارہاہوں۔ کیا تم مجھے تیزرفتاری اور اُچٹنا سکھا سکتے ہو؟ ۔ ”
بھیڑیا چیختا ہوا ایک کھائی میں اتر کر غائب ہو گیا۔
” مجھے اکیلے ہی چلتے رہنا ہے۔ میرا غم دور کرنے والا کوئی نہیں ! ” اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر سوچا۔
برکھا راہی صبح ہونے تک اپنے درد بھرے گیت گاتا یوں ہی چلتا گیا ۔ اب مرغزار برف کے باعث سرمئی اور بہت وسیع و عریض لگ رہے تھے۔ آسمان سکون سے معمور تھا۔بس دور، بہت دور سے کوّوں کی آواز یں سنائی دے رہی تھیں۔
پچھلے دن سے اس نے کچھ نہ کھایا تھا۔ وہ گیت گاتا ، بالکل تنہا، چلا جارہاتھا ۔ سارا جگ اس کے نغموں سے پُر ہوتا محسوس ہورہا تھا۔
اسی طرح چلتے چلتے ایک بار پھر اس کا رات سے سامنا ہوگیا۔ پھر وہ دونوں ہاتھو ں میں ہاتھ ڈالے چلتے گئے یہاں تک کہ دن بھی ان سے آملا۔
اب نیچے کی جانب اسے نبراسکا کے میدانوں میں واقع پونکا قبیلے کے گھاس پھونس کے جھونپڑوں کا گڈمڈ سا منظر دکھائی دینے لگاتھا۔ کچھ دیر بعد اسے خچروں کے ہنہنانے ، مردوں کے شور اور عورتوں کے ہنسی مذاق کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اس روز گاؤں کے لوگ صبح سویرے کہیں روانہ ہورہے تھے۔ شکار کے دن آچکے تھے اور سب لوگ اسی کی خاطر روانگی اختیار کرنے والےتھے۔
برکھا راہی ٹیلے پر اُگی بھوری گھاس میں چھپا خوشیاں مناتے لوگوں کی گاؤں سے نکلتی قطار کو حسرت سے دیکھتا رہا۔ شکار پر روانگی بڑا پرمسرت موقع ہوا کرتا ہے اور وہ سوچ رہاتھا کہ اس خوشی کا ذائقہ وہ کبھی نہ چکھ پائے گا۔
ان سوچوں سے اس کے چہرے پر لمحہ بھر نرمی نمودار ہوئی مگر پھر فوراً ہی وہ پہلے کی مانند کانٹے دار تیر جیسا ہوگیا کہ اسے اچانک خچر پر مورکھ اور اپنی بیوی سورج مکھی نظر آگئے تھے۔سورج مکھی کا سر پالا لگے مرجھائے پودے کی مانند جھکا ہوا تھا۔ ہنستی کھیلتی عورتوں میں اس کی آواز شامل نہ تھی۔
وہ بھی برکھا راہی کی طرح تنہا مسافر دکھائی دیتی تھی ۔
جب لوگوں کی اژدھے جیسی لمبی قطار مغربی پہاڑیوں کی جانب روانہ ہوچکی تو وہ اٹھا اور تیزی سے ان کا پیچھا کرنے لگاکیوں کہ را ت سے پہلے وہ ان لوگوں کے پہلے پڑاؤ تک پہنچنا چاہتا تھا۔پھر وہ رات سے پہلے وہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
اب وہ خیموں کے سامنے جلتے الاؤ کو رات کے اندھیروں میں بھڑکتے دیکھ رہا تھا ۔ ابلتی کیتلیوں کی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی تو ایک بار پھر اس کی بھوک چمک اٹھی۔ یہ بہت گھریلو سی مہک تھی۔
جب لوگ کھانے سے فارغ ہوچکے اور الاؤ بجھا دیے گئے تو برکھا راہی نے خود کلامی کی:” اب میں اپنی جنگ شروع کرسکتا ہوں لیکن پہلے مجھے ایک خچر درکار ہوگا جو مجھے ان لوگوں سے بآسانی مل جائے گا۔ “یہ سوچتے ہوئے وہ اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے بل وادی کی جانب رینگنے لگا۔ اُن لوگوں نے پہرے کا کوئی بندوبست نہیں کیا تھا کیونکہ سب قبیلوں کے درمیان صلح ہوچکی تھی۔ بس ایک قبیلہ صلح کے معاہدے میں شامل ہونے سے رہ گیا تھا: تن تنہا چلتا قبیلہ!
اب برکھا راہی خچر پر سوار ہو کر روانہ ہوچکا تھا۔اس کا ذہن بہت بڑے بڑے خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔
اس سال شکار ملنے کی زیادہ توقع نہ تھی لیکن پھر بھی قبیلہ جنگلی بھینسوں کی تلاش میں شام کی جانب بڑھتا چلا جارہا تھا۔ ان کے پیچھے پیچھے سائے کی طرح لگا ہوا تھا۔ وہ رات کو رینگتا رینگتا خیموں کےپاس جاتا اور سن گن لینے کی کوشش کرتا کہ لوگ کیا باتیں کررہے ہیں۔ ان لوگوں کی زبان اس کی اپنی بولی سے زیادہ مختلف نہ تھی۔
شکار کی تلاش میں وہ لوگ جگہ جگہ پڑاؤ کرتے ویران جنگلوں میں مارے مارے پھرتے رہے۔
ایک روز ایک بھیڑیے، عقاب اور کچھ کووں نے ریتلے ٹیلوں کے پاس ایک ویران سی جگہ دو آدمی دیکھے۔ ان میں سے ایک کا تعلق پونکا قبیلے سے تھا اور وہ شکار کی تلاش میں نکلے لوگوں میں سے تھا۔ وہ لمبا تڑنگا اور خوب رو جوان تھا اور دھبے دار خچر پر سوا رتھا۔ دیکھنے میں تھا تو دوسرا بھی اسی جیسا وجیہہ لیکن اس کا تعلق کسی اور قبیلے سے تھا اور جس خچر پر وہ سوار تھا اس پر کوئی دھبہ نہ تھا۔پہلے شخص کے سامنے آ تے ہی اس نے ایک زوردارنعرہ بلند کیا۔ وہاں چھائی خامشی میں اس نعرے نے ایک عجیب سماں باندھ دیا تھا اور فوراً ہی دھبے دار خچرکا سوار رخ موڑکر بھاگ نکلا۔ لیکن خچر خواہ کتنا ہی تیز رفتار کیوں نہ ہو تیر سے آگے نہیں نکل سکتا۔چنانچہ اگلے ہی لمحے مفرور ریت پر پڑا تھا۔ اس کا خچر کچھ آگے جاکر ٹھہر گیا تھا کہ وہ بھی تماشا دیکھنا چاہتا تھا۔
اپنی پشت میں پیوست تیر لیے وہ آدمی کراہتا ہوا اٹھا اوردیکھ کر غرایا۔وہ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے لگ رہے تھے۔ لڑائی شروع ہوئی اور وہ دونوں گتھم گتھا ریت پر قلابازیاں کھانےلگے۔
بھیڑیا غرایا، کوے شورمچانےلگے
مگر عقاب خاموشی سے دیکھا کیا۔
تیرکے زخم سے مسلسل رستے خون کے باعث کمزور ہوجانے کے باوجود وہ کسی ریچھ کی ماننداپنا دفاع کررہا تھالیکن دوسرے شخص نے اس کے نرخرے کواپنی آہنی گرفت میں لے لیا اور تب تک نہ چھوڑا جب تک وادی غرغراہٹ اوراکھڑتی سانسوں سے بھر نہ گئی ۔
اس کے بعد بس خاموشی رہ گئی۔
بے داغ خچر والا آدمی اٹھا اور قہقہے لگانے لگا مگر اس کےقہقہوں میں خوشی کا شائبہ تک نہ تھا۔
ا س نے دوسرے آدمی کا لبادہ اتار کر خود پہن لیا ۔ آگ جلا کر اس نے ایک بار پھر متبر ک پائپ سلگایا اور سکوت میں پوشیدہ روحوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا: ” پُرکھوں کی روحو! دیکھ لو، میں اپنے دشمن کو موت کے گھاٹ اتار چکا۔ اب میں اس کادل نذرِ آتش کرکے راکھ کا چڑھاوا تمہیں پیش کروں گا۔”
اس کی یہ للکار بس کووں نے سنی کیونکہ ضیافت کے لالچ میں وہ لوٹ آئے تھے۔ اس نے اپنے دشمن کا دل نکال کر جلایا اوررزمیہ گیت گاتے ہوئے اس کی راکھ بکھیر دی۔
پھر وہ دھبے دار خچر پر سوار ہوا اور مردہ دشمن کے ہتھیا ر اٹھا کر اپنی راہ چل دیا۔
اس کے چلے جانے کے بعد بھیڑیا اور کوے آگئے اور ایک دوسرے پر چیخنے اور شور و غل کرنے لگے۔ ریت پر ضیافت کا سامان سجا تھا اور وہ سب بہت بھوکے تھے ۔
کہتے ہیں اس شام ایک شخص پونکا قبیلے کے پڑاؤ پر پہنچا اور اس خیمے کے سامنے چلا گیا جہاں اوماہا قبیلے کی عورت، سورج مکھی ، کسی کی منتظر تھی۔
آنے والے نے اپنا چہرہ ہرن کی کھال کے ایک ٹکڑے سے چھپا رکھاتھا جس سے صرف اس کی آنکھیں اور منہ باہر تھے۔عورت خیمے کے سامنے آگ پر کچھ پکا رہی تھی۔
” مُورکھ! تم خالی ہاتھ آگئے ، شکار نہیں ملا کیا؟ پر یہ تم نے اپنا چہرہ کیوں چھپا رکھا ہے؟”
“مجھے شکار تو نہیں ملا ، لیکن ٹیلوں پر کچھ ایسا ضرور دکھائی دیا کہ مجھے اپنا چہرہ پوشیدہ کرنا پڑا۔”
سورج مکھی نے آدمی کو غور سے دیکھا ۔ وہ یوں روحوں کو دیکھ آنے والا کوئی شخص لگ رہا تھا۔
” تم بڑی مختلف اور عجیب آواز میں بات کررہے ہو۔ بھلا کیوں؟ ” عورت نے کانپتی آواز میں پوچھا
” اسے’ دیکھ لینے والاہمیشہ کے لیے بدل جایا کرتاہے۔”
حیرت زدہ عورت مرد کےساتھ چپ چاپ کھانا کھانے میں مشغول ہوگئی۔
کھاتے کھاتے وہ شخص اچانک ہنسنے لگا۔ یہ ہنسی کسی خوش باش آدمی کی سی تھی۔
” مورکھ!، تم کس بات پر ہنس رہے ہو؟ ”
”  مجھے جس شے کی شدید طلب اور بھوک تھی ، میں نے اسے پالیا ہے ۔”  یہ کہہ کر وہ خوشی کے گیت گانے لگا ۔عورت نے وجہ پوچھی تو وہ بولا: “ٹیلوں کے پار میں نے جو کچھ دیکھا اسی کی خوشی میں گیت گار ہا ہوں۔”
سورج مکھی کو یہ بات سن کر بہت اچنبھا ہوا مگر وہ کچھ نہ بولی۔ وہ جانتی تھی کہ جس آدمی نے ‘واکنڈا’ {خدا} کو دیکھ لیا ہو اس سے تفصیل پوچھنا جائز نہیں ہوتا۔
پھر وہ شخص اچانک برکھا راہی کوبہت برے الفاظ میں یاد کرنے لگا۔
سورج مکھی نے سر جھکا لیا
اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
” ارے تم اس طرح کیوں کررہی ہو؟ کیا تم ابھی تک اسی کو چاہتی ہو؟ ذرا میری طرف دیکھو، کیا میں اس کی طرح خوبرو نہیں ؟ ” آدمی نے دکھ بھرے لہجے میں پوچھا۔
لیکن عورت کوئی جواب دیئے بغیر روتی رہی۔ سیانے کے بقول، عورتوں کی فطرت سمجھنا آسان نہیں۔
اس رات جب وہ دونوں سو رہے تھے سورج مکھی نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا اورایک چیخ کے ساتھ ہڑبڑ ا کر اٹھ بیٹھی۔ اس کی چیخ سے مرد بھی جاگ گیا۔
“کیا ہوا؟ ” اس نے پوچھا۔
“ایک خواب تھا ۔” عورت نے سسکیاں لیتے ہوئے جواب دیا
“کیسا خواب؟” آدمی نے نرمی سے پوچھا
“بتا نہیں سکتی۔ میں پٹنانہیں چاہتی۔”
“بتادو سورج مکھی، کیا وہ خواب برکھا راہی کےبارے میں تھا؟”
عورت خاموش رہی۔
” ڈرو مت۔ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔”
حوصلہ پاکر عورت بول پڑی۔” میں نے دیکھا کہ میں ایک بچہ اٹھائے ہوئے تھی ، یہ بچہ برکھا راہی کا تھا اور اس کا چہرہ بھی بالکل اسی جیسا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں میرے لیے نفرت بھری ہوئی تھی۔ میں نے اسے دودھ پلانا چاہا تو اس نے مجھےپیچھے دھکیل دیا۔ وہ میرا دودھ پینے سے بالکل انکار کررہا تھا۔ اس کی نفرت بھری نگاہیں کسی تیر کی طرح میرے وجود کے آر پار ہورہی تھیں۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ ”
وہ اس پر جھکا تو اسے لگا وہ اسے مارنا چاہتا ہے۔وہ التجا کرنے لگی: “جہاں سے لائے تھے مجھےوہیں چھوڑ آؤ۔ تم تنومند ہو اور خوبرو بھی تمہیں عورتوں کی کیا کمی۔ مجھے میرے گاؤں پہنچا دو، خواب آدمیوں سے زیادہ سیانے ہوتے ہیں ، انہیں کوئی اور نہیں بلکہ روحیں بھیجتی ہیں۔ میں واپس جانا چاہتی ہوں تاکہ میرا بچہ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور میرا دودھ پینے پر رضامند ہوجائے۔ ”
آدمی فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور سفر کی تیاری میں لگ گیا۔ “میں تمہیں واپس چھوڑنے جارہا ہوں۔خواب آدمیوں سے زیادہ سیانے ہوتے ہیں۔”
دن چڑھنے سے بہت پہلے وہ دونوں گاؤں کی جانب جانے والے بڑے راستے پر رواں دواں تھے۔ آدمی آگے چل رہا تھا اور عورت اپنا سامان اٹھائے اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ لیکن سویرا ہوتے ہیں آدمی نے خاموشی کے ساتھ اچانک اس سے سامان لے کر اپنے کندھو ں پر رکھ لیا۔ لگتا تھا کہ اب اس کا دل نرم ہوچکا ہےلیکن چہرہ پوشیدہ ہونے کے باعث عورت یقین سے کچھ نہیں کہ سکتی تھی۔
راستہ بہت لمبا تھا مگر اب وہ آدمی بہت مہربان ہوگیا تھا۔ وہ مورکھ لگتا ہی نہیں تھا۔ اس نے بالکل کسی عورت کی طرح خیمہ گاڑا اور آگ جلائی۔ بات کرتے ہوئے اس کے منہ سے پھول جھڑ رہے تھے۔
کئی دن یوں ہی سفر کرتے رہنے کے بعدایک رات وہ دونوں اس بھورے ٹیلے کے پاس پہنچ گئے جس کی دوسری جانب عورت کا گاؤ ں واقع تھا۔آدمی نے اس سے کہا: ” سورج مکھی! وہ رہا تمہارا گاؤں، اپنے لوگوں کے پاس چلی جاؤ۔”
عورت ہچکچائی اور گھبراہٹ کے عالم میں کہنے لگی۔” اب وہ مجھے قبول نہیں کرے گا اور میرا خواب ضرور سچ ہوکر رہے گا۔ اتنے لمبے سفر کے دوران مجھے کبھی اتنی ناتوانی محسوس نہیں ہوئی جتنی اب ۔ لگتا ہے کہ میں اپنی ساری طاقت کھو بیٹھی ہوں۔”
آدمی نے جواب دیا: ” کیا برکھا راہی نرم دل نہیں ؟ وہ ضرور تمہیں قبول کرے گا۔ یہ دیکھو! ”
اپنے گاؤں کی جانب آنسوؤں بھری نظروں سے دیکھتی عورت مڑی تو اس نے دیکھا کہ وہ اپنے چہرےسے چمڑے کا نقاب نوچ رہا تھا۔
وہ چیخ اٹھی۔
آدمی نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما اور کہا:
” برکھاراہی تمہیں ضرور قبول کرلے گا
خواب آدمیوں سے زیادہ سیانے ہوتے ہیں۔”

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search