امریکی سپنے پر فاتحہ – نوم چومسکی (تلخیص و ترجمہ: طارق عباس)
بِل گیٹس کا مشہورِ زمانہ قول ہے ’’اگر آپ غریب پیدا ہوتے ہیں تو یہ آپ کا قصور نہیں لیکن اگر آپ کی موت بھی کسمپُرسی کی حالت میں ہوتی ہے تو یہ یقیناً آپ کا قصور ہے‘‘۔ بِل گیٹس کے اس قول کے پیچھے کارفرما منطق بظاہر یہی دکھائی دیتی ہے کہ دنیا میں موجود تمام انسان محنت اور کوشش کے ذریعے اپنی غربت کو امارت میں تبدیل کر سکتےہیں۔ لیکن دورِ حاضر کےشائد سب سے بڑے مفکر نوم چومسکی کےمُطابق بِل گیٹس کے اس قول کا اطلاق دورِ حاضر کے انسان پر نہیں ہو سکتا۔ چومسکی کے نزدیک آج کے انسان کے پاس ترقی کرنے کے ذرائع و مواقع مفقود نہیں تو نہایت کمیاب ضرور ہو چُکے ہیں۔ اور جدید دنیا میں انسان امیر سے امیر تر ہو سکتا ہے یا غریب سے غریب تر، لیکن غربت سے امارت کا سفر اب ممکن نہیں رہا۔
اپنی تصنیف”امریکی سپنے پر فاتحہ‘‘ میں چومسکی وہ دس اصول بیان کرتے ہیں جن کے اطلاق سے انسانیت کے آقا ( Masters-of-Mankind ) ہر آنے والے دن کے ساتھ تمام دنیا کی دولت اور resources سمیٹ کر اپنے ہاتھوں میں جمع کر رہے ہیں اور دنیا بھر کے انسان اُن کے اصولوں کی بھینٹ ٖچڑھے ہوئے غلاموں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ اصو ل کیا ہیں اور کیسے ان کا اطلاق ہمارے گرد ان آہنی زنجیروں کا شکنجہ مضبوط کر رہا ہے، ’’امریکی سپنے پر فاتحہ‘‘ کا موضوع ہیں، جس کی تلخیص و ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔
تعارف
چارلس کنڈل برجر نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’مالی تصادم کی تاریخ‘‘ میں سنہ 1600 سے 2012 تک چالیس ایسے واقعات درج کئے ہیں جن سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ مالی بحران ( crisis)کس طرح سے پروان چڑھتا ہے۔ چومسکی کے مطابق سنہ 1929 کے وال سٹریٹ کریش کو بالعموم Great-Depression کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاتا ہے۔ اور یہ امریکی معیشت کی تاریخ کا سب سے ہولناک بحران تھا۔ایسا کریش جس کی مثال ما قبل اور ما بعد دونوں وقتوں میں نہیں ملتی۔
نوم چومسکی اس طرح کے financial کریش کی سب سے بنیادی وجہ super-wealthکو قرار دیتے ہیں۔Super-wealth عدم مساوات پر مُنتج ہوتی ہے اور عدم مساوات معاشرے پر نہایت منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔کیونکہ چومسکی کے مطابق عدم مساوات خلقی طور پر جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے۔
امریکہ میں کچھ آدرش و اقدار معاشرے کے جاوداں پہلو ہیں اور جمہوریت ہمیشہ سے ہی اُن میں سے ایک رہی ہے۔ ایک فقرے میں جمہوریت کا خلاصہ یہ ہےکہ جمہوری نظام میں کسی بھی پالیسی میں عوامی رائے کا ایک گراں قدر حصہ ہوتا ہے۔ اور جو پالیسی عوام اپنی رائے سے متعین کرتی ہے، حکومت اُس کو عمل میں لاتی ہے۔ لیکن super-wealthy جمہوریت کو اپنے لئے زہرِ قاتل سمجھتے ہیں۔ اور ہم عامیوں کیلئے یہ سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ طاقتور طبقہ ہمیشہ سے ہی جمہوریت کو ناپسند کرتا آیا ہے۔ اور اُس کی بنیادی وجہ، جیسا کہ ہم سب کے علم میں ہے، یہ ہے کہ جمہوریت طاقت کی باگ اُن کے ہاتھوں سے چھین کر عوام الناس کے ہاتھوں میں تھما دیتی ہے۔
چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز انہی چند ہاتھوں میں طاقت کو مُرتکز کرتا ہے۔ خصوصاً جب آج کے دور میں الیکشن کے اخراجات کروڑوں ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اور کوئی بھی امیدوار اپنی جیب سے انتخابی مہم کے اخراجات نہیں اٹھا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں عملاً سرمایہ داروں کی جیب میں جا بیٹھتی ہیں اور اپنی کامیاب مہم کیلئے سرمایہ داروں کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ اور جب یہ امیدواران منتخب ہو کر حکومت سنبھالتے ہیں تو سرمایہ داروں کی مدد سے منتخب شدہ یہ کٹھ پتلیاں اُنہی کی ایما پر قوانین اور پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں جس سے دولت کے ارتکاز میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اور ایک spiral کی شکل کا ارتکازِ دولت کا یہ دائرہ مزید سے مزید تنگ ہوتا جاتا ہے۔ اور ملکی محاصل سے متعلق پالیسیاں جیسے انکم ٹیکس، ضابطے، کارپوریٹ گورننس کے قوانین، یہ تمام اس طرز پر تشکیل دیئے جاتے ہیں کہ طاقت اور دولت کا مزید ارتکاز ہو۔ جو کہ نتیجتاً سیاسی طاقت کو مزید مرکوز کرتا ہے۔ اور اسی طرح یہ دورِ فاسد (cycle) قائم و دائم ہے۔
ایڈم سمتھ اپنی کتاب ’’ویلتھ آف نیشنز‘‘ (’’اقوام کی دولت‘‘) میں لکھتے ہیں کہ پالیسی کی مرکزی مقننہ قوتیں وہ حضرات ہیں جو معاشرے کے مالک ہیں۔ سمتھ کے دور میں یہ مالکان تاجر اور پیداواری حضرات تھے، دورِ حاضر میں یہ معمار مالیاتی ادارے اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز ہیں۔ اور انہیں ایڈم سمتھ انسانیت کے آقا (masters-of-mankind) کہتے ہیں۔ یہ آقا اس قول پر یقین رکھتے ہیں کہ ’’ہمارے لئے سب کُچھ اور باقی سب کیلئے کُچھ بھی نہیں‘‘(All-for-ourselves-and-nothing-for-anyone-else) اور اسی منشور کے تحت وہ ایسی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں جو انہیں فائدہ پہنچاتی ہیں اور باقی سب کیلئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ اس مختصر تمہید کے بعد ہم چومسکی کے بیان کردہ اُن دس اصولوں کا جائزہ لیتے ہیں جو اُن کے نزدیک آج کے انسان کے آقا اور آج کا انسان جنکا غلام ہے۔
The-10-Principles-of-Concentration-of-Wealth-and-Power
پہلا اصول: جمہوریت کو کم سے کم تر کر دیا جائے
امریکی تاریخ کا ایک بالادست اصول اربابِ اختیار کی مطلق طاقت اور ادعائیت جبکہ عوام الناس کی آزادی اور جمہوریت کے مابین ایک مسلسل کشمکش ہے۔
چومسکی کے مطابق جیمز میڈیسن جمہوریت کا حامی تھا، وہ اس امر پر یقین رکھتا تھا کہ امریکی حکومت اس طرز پہ بہتر چلائی جا سکتی ہے اگر طاقت دولتمند کےہاتھوں میں ہو۔ کیونکہ دولتمند حضرات زیادہ ذمہ دار ہوتے ہیں اور بہتر طرز پر حکومت کو چلا سکتے ہیں۔ اُس دور میں سینیٹ کا الیکشن نہیں ہوتا تھا بلکہ سینیٹ کے نمائندگان چند دولتمند لوگوں میں سے منتخب کئے جاتے تھے۔
میڈیسن کا کہنا تھا کہ معاشرے کا بنیادی فرض امراء کو غرباء کے عتاب سے بچانا تھا۔ ورنہ غریب سازش کر کے امراء کو ہلاک کر دیں گے جو کہ غلط ہو گا۔
اس کے برعکس ارسطو کی رائے یہ تھی کہ جمہوریت امیر کو غریب کے عتاب سے بچانے کا بہترین حل ہے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم عدم مساوات کو کم سے کم کریں اور ایک فلاحی ریاست تشکیل دیں۔ جبکہ میڈیسن کے نزدیک جمہوریت کی تنزلی واحد حل تھا۔ امریکہ کی تاریخ ان دو رجحانات کے مابین جاری و ساری کشمکش ہے۔
دوسرا اصول: تشکیلِ نظریہ
پاول میمورینڈم: پاول نے چیمبر آف کامرس کو 1971میں ایک خط لکھا جس میں اس نے خبردار کیا کہ تاجروں کا معاشرے پر عمل دخل کم ہوتا جا رہا ہے۔ اور اس منہدم ہوتی ہوئی طاقت کو بحال کرنے کیلئے جلد از جلد لائحہ عمل تیار کیا جانا ضروری ہے۔تاکہ جمہوریت کی اس اٹھتی ہوئی لہر کو روکا جا سکے۔ وہ خاص طور پر اس بارے میں فکر مند تھا کہ نوجوان نسل تیزی کے ساتھ آزاد اور خود مختار ہوتی جا رہی ہے۔ پاول کے مطابق یہ آزادی دراصل انسانیت کے آقاؤں کی ناکامی کے باعث تھی۔ سکول، یونیورسٹی، اور چرچ اپنا ’’کام‘‘ ٹھیک طریقے پر نہیں کر پا رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ نوجوان نسل کی سیاسی سرگرمیوں میں دلچسپی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اور پھر کس طرح سے نوجوان نسل کو ذاتی مفاد کا اسیر اور سیاسی طور پر غیر فعال بنایا گیا، چشم کُشا اور ہوشرُبا داستان ہے۔
سب سے پہلا حملہ تعلیم اور تعلیمی اداروں کے ذریعے کیا گیا۔ ستر کی دہائی کے آغاز سے ہی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کالج کے طلباء کو قابو کرنے کے لئے بہت سے طریقہ ہائے کار عمل میں لائے گئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حیران کُن طور پر کالجز کے طرزِ تعمیر کو باقاعدہ طور پر تبدیل کیا گیا۔ اور عمارات کی تعمیر اس طرز پر کی گئی جہاں ایسی کوئی جگہ موجود نہ ہو جہاں تمام طلباء بیک وقت اکٹھے ہو سکیں، ایسی تمام جگہیں منہدم کی گئیں جو برکلے یونیورسٹی کے Sproul-Hall سے متشابہ ہوں، یہ ایک ایسا ہال تھا جہاں پر طلباء اکٹھے ہوتے اور جہاں یونین کی سطح پر سرگرمیاں تشکیل پاتی تھیں۔
عوام کو قابو میں رکھنے کا دوسرا حربہ کالج کے اخراجات کا اچانک بہت زیادہ بڑھ جانا تھا۔ میرے پاس کوئی دستاویزی ثبوت تو نہیں ہے جس سے میں یہ ثابت کر پاؤں کہ ایسا باقاعدہ منصوبے کے تحت کیا گیا تھا لیکن ہم نتائج بہت واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں؛ کالج کی ٹیوشن فیس بڑھنے سے امریکی نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد حصولِ علم سے خود بخود محروم ہو گئی۔ اور جو کسی نہ کسی طرح کالج کے اخراجات برداشت کر پاتا تھا، کالج سے گریجویٹ ہوتے ہوتے اس پر بھی کم و بیش 100،000امریکی ڈالرز کا قرض چڑھ چکا ہوتا تھا جو کہ اس طالبعلم کو ایک قیدی بنا دیتا تھا۔ اور قرض اس شکل میں ترتیب دیا جاتا کہ طالبعلم اسے ادا کر ہی نہ پائے اور دو دھاری تلوار کی طرح تمام عمر آپ کے سر پر لٹکتا رہے اور آپ بس اس پر سود ادا کرتے کرتےمقید حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو جائیں۔
کم و بیش یہی صورتحال K-12 ایجوکیشن میں دیکھنے میں آتی ہے۔ k-12ایجوکیشن میں جو رجحانات دیکھنے میں آ رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ تعلیم کو میکانکی ہنرُ (mechanical-skills) تک محدود کر دیا جائے۔ تخلیقی صلاحیت اور خود مختاری کو اُستاد اور شاگرد دونوں کیلئے مکمل طور پر کالعدم کر دیا جائے۔ اور اس کو عملی جامہ ’’امتحانات کو مدنظر رکھ کر پڑھایا جانا‘‘، ’’کوئی بچہ (نمبر حاصل کرنے میں) پیچھے نہ رہ جائے‘‘، ’’پہلی پوزیشن حاصل کرنے کیلئے سب کا بھاگنا‘‘ جیسے زہر آلود خیالات کو آدرش قرار دے کر پہنایا گیا ہے۔ یہ تمام طریقے نوجوان نسل کو قابو کرنے میں از حد معاون ثابت ہوئے ہیں۔
تیسرا طریقہ جو عمل میں لایا گیا وہ مفت سرکاری تعلیم کے ختم کرنے کا تھا۔ چارٹر سکول سسٹم کا اجراء اسی مقصد کے تحت عمل میں لایا گیا۔ چارٹر سکولز سرکاری تعلیمی فنڈ کو پرائیویٹ سیکٹر میں کھینچ لانے کا ایک طریقہ ہیں، آپ سرکاری سکول تباہ کر دیں، لوگ وہاں جانا خود بخود چھوڑ دیں گے۔
تیسرا اصول: معیشت کی تشکیلِ نو
1970 کی دہائی سے معیشت کے آقاؤں کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ معیشت کو دو اہم زاویوں سے تبدیل کیا جائے۔
پہلا زاویہ:
مالیاتی اداروں (financial-institutions)، جیسے بنک، انوسٹمنٹ فرمز، انشورنس کمپنیوں کا معیشت میں کردار کلیدی کیا جائے۔ 2007 تک ان مالیاتی اداروں کا کارپوریٹ منافع میں 40 فیصد حصہ تھا، ماضی سے کہیں زیادہ۔
1950 کی دہائی میں امریکی معیشت کا بڑا حصہ پروڈکشن پر مبنی تھا، اور امریکہ دنیا کا عظیم الشان مینوفیکچرنگ سنٹر تھا۔ مالیاتی ادارے تب معیشت کا بہت چھوٹا سا حصہ تھے اور ان کا کردار صرف غیر مستعمل زر کو تعمیری سرگرمیوں کی خاطر منقسم کرنا تھا۔ پھر ریگولیٹری سسٹم تشکیل دیا گیا۔ بنک ریگولیٹ کئے گئے۔ کمرشل اور انوسٹمنٹ بنک علیحدہ علیحدہ کئے گئے۔ ریگولیشن کے اس دور میں کوئی مالیاتی بحران نہیں آیا۔ لیکن 1970 تک آتے آتے یہ سب تبدیل ہو گیا۔ اور 2010 تک امریکی معیشت میں پروڈکشن کا حصہ محض 11 فیصد رہ گیا جبکہ مالیاتی ادارے 21 فیصد تک پہنچ گئے۔
1950 اور 60 کی دہائی میں کسی بھی اہم امریکی کارپوریشن کا ڈایئریکٹر قرین قیاس ہوتا تھا کہ ایم آئی ٹی جیسے ادارے کا کوئی انجینئر ہو گا۔ اور اس کے پاس انڈسٹریل مینیجمنٹ یا اس جیسی کوئی سند ہو گی۔ لیکن آج ڈائریکٹر اور کلیدی عہدیداروں کا انتخاب ان لوگوں میں سے کیاجاتا ہے جو بزنس سکول سے پڑھے ہوتے ہیں اور پیسے سے پیسہ بنانے کی کئی تراکیب اور سازشیں جانتے ہیں۔ یاد رہے کہ ارسطو کے بقول پیسہ بانجھ ہوتا ہے اور خود سے کچھ پیدا نہیں کر سکتا۔ لیکن یہی پیسہ دورِ حاضر میں مزید پیسہ بنانے کا سب سے مؤثر ذریعہ قرار پایا ہے۔
1970 تک آتے آتے امریکہ کا مشہور ادارہ General-Electric پیسے کے ساتھ سٹاک مارکیٹ میں سٹہ کھیل کر زیادہ پیسہ بنا لیتا تھا، بجائے اس کے کہ وہی پیسہ وہ اپنے کارخانے میں لگائے۔ اور آپ کو یہ جان کر بالکل بھی حیرت نہیں ہو گی کہ جنرل الیکٹرک آج بنیادی طور پر ایک مالیاتی ادارہ ہے۔یہ آدھے سے زیادہ منافع، پیسے کو ادھر ادھر پیچیدہ حرکتیں دے کر بناتا ہے۔ اور یہ ماسوائے معیشت کو تباہ کرنے کے کُچھ نہیں کر رہا۔ پیسے کو پیچیدہ حرکات دے کر اسی پیسے سے مزید پیسہ بنانے کو معیشت کی financialization کہتے ہیں۔
دوسرا زاویہ:
آف شور پروڈکشنز– تجارتی سسٹم کی تعمیرِ نو
تجارتی نظام کی تشکیلِ نو اس خصوصی اقدام کے ساتھ کی گئی تھی کہ مزدور طبقہ (ورکنگ کلاس یا لیبر) کے مابین مقابلے کی فضا پیدا کی جائے۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی بھی ادارے کی آمدنی میں سے ورکنگ کلاس کا حصہ کم سے کم ہوتا گیا۔ ایسا اس وقت دُنیا بھر میں ہو رہا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک امریکی مزدور کا چینی مزدور کے ساتھ بھی مقابلہ ہے۔ وہ یوں کہ سرمایہ داروں کے بنائے گئے قوانین کے مطابق سرمایہ دنیا بھر میں باآسانی منتقل ہو سکتا ہے لیکن مزدور طبقہ ایسا نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سرمایہ دار کو اگر امریکہ سے سستا مزدور چین یا کسی بھی تیسری دنیا کے ملک میں مل رہا ہے تو وہ اپنا سرمایہ وہاں منتقل کر دے گا اور کم قیمت میں اپنی مصنوعات تیار کروا لے گا ۔ یوں اس کی قیمت امریکہ کے مزدور کو بے روزگاری کی صورت میں ادا کرنا ہو گی۔ اسی استحصال کی پیش بینی کرتے ہوئے ایڈم سمتھ نے کہا تھا کہ کسی بھی آزاد تجارتی نظام کا بنیادی جزو یہ قانون ہونا چاہئے کہ مزدور طبقہ بھی سرمائے کی طرح دنیا بھر میں منتقل ہو سکتا ہے۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ سستی لیبر کے برعکس کلیدی عہدوں پر فائز افراد کو خصوصی مراعات کے ذریعے مقابلے کی فضا سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ آپ مزدوروں اور ملازمین کو نوکری ختم ہونے کے خوف میں مبتلا رکھیں اور وہ آپ کے مکمل قابو میں رہیں گے۔ وہ معقول اجرت کا تقاضہ کریں گے نہ ہی کارخانوں میں بہتر حالات کی فراہمی کا مطالبہ کریں گے۔
یہ دوطریقہ ہائے کار، ایک financialization اور دوسرا off shoring-of-capital اُس درندہ صفتcycle کا حصہ ہیں جو دولت اور طاقت کے ارتکاز میں مزید سے مزید اضافہ کر رہا ہے۔
چوتھا اصول: شفٹ دا برڈن
1950 اور 60 کی دہائی کو امریکی معیشت کا سنہری دور (گولڈن ایج) کہا جاتا ہے۔ اس دور میں معاشی ترقی ہمہ گیر تھی، اور یہ وہ دور تھا جب بِل گیٹس کا مقولہ قابلِ عمل تھا، یعنی معاشرے کا سب سے غریب طبقہ اور سب سے امیر طبقہ، دونوں ترقی کر سکتے تھے، اور کر رہے تھے۔ مثلاً ایک سیاہ فام امریکی کسی آٹو موبائل بنانے کے کارخانے میں ملازمت کے بل بوتے پر گھر خرید سکتا تھا، کار خرید سکتا تھا، اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ بنیادی طورپر ایک manufacturing-center تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ فکرمند اپنے صارفین کے متعلق تھا۔ 1960 کی دہائی کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ہینری فورڈ نے اپنے تمام ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا تھا تاکہ وہ گاڑیاں خرید سکیں۔ جنرل موٹرز کے مالک نے اسی دور میں کہا تھا، ’’جو جنرل موٹرز کیلئے بہتر ہے وہی اس ملک کے حق میں بہتر ہے‘‘ اور اس کا دوسرا زاویہ بھی ایسے ہی درست تھا کہ ’’جو اس ملک کیلئے بہتر ہے وہی جنرل موٹرز کیلئے بھی بہتر ہے‘‘۔ لیکن آج کی کاغذی معیشت کیلئے یہ بات ایک مکمل طور پر اجنبی مفروضے سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
معاشی ترقی کے اس سنہری دور میں متمول لوگوں پر واجب الادا ٹیکس کا تناسب بہت زیادہ تھا ، اسی طرح کارپوریٹ ٹیکسز بھی بہت زیادہ تھے۔ لیکن اب ٹیکس سسٹم کو یوں تشکیل دیا گیا ہے تاکہ امیر ترین طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کم سے کم کیا جائے اور نتیجے کے طور پر ٹیکس کا یہ بوجھ غریب عوام پر منتقل ہو گیا ہے۔ اب ٹیکس صرف ملازمین کی تنخواہ اور صارفین پر لاگو کیا جا رہا ہے جو کہ ہر ایک کو ادا کرنا پڑے گا جبکہ حاصل شدہ منافع پر کوئی ٹیکس واجب الادا نہیں ہو گا، جو کہ صرف امراء کے طبقے کو جاتا ہے۔ یہ پلوٹونومی یا امیر شاہی کی مکروہ ترین شکل ہے، ایک ایسا معاشرہ جہاں دولت چند ہاتھ قابو میں رکھتے ہیں اور معاشی ترقی ان چند لوگوں کی مرہونِ منت ہو کر رہ جاتی ہے۔ امریکی مالی بحران کے بنیادی ذمہ داران میں سے ایک Goldman-Sachs ہے، اور وہ اب پہلے سے کہیں زیادہ امیر ہو چُکا ہے،کیونکہ حکومتی پالیسیاں انہیں دیوالیہ ہونے کی صورت میں سرکاری مدد (bailout)کی ضمانت دیتی ہیں، اور اسی سرکاری مدد کی کرم فرمائیوں سے اب وہ اگلے مالی بحران کو تشکیل دینے میں مصروفِ عمل ہیں۔ حیران کُن امر یہ ہے کہ General-Electricsکوئی ٹیکس ادا نہیں کر رہی اور بے انتہا منافع بھی کما رہی ہے۔
پانچواں اصول: اتحادِ عمل پر حملہ
آقاؤں کے نقطۂ نظر سے اگر دیکھیں تو آپ بطور ملازم، صرف اور صرف اپنے بارے میں فکر مند ہوں، اور اپنے کولیگز یا باقی کسی شخص کی آپ کو فکر نہ ہونی چاہیے نہ ہی کرنی چاہیے۔ اس کے برعکس ایڈم سمتھ کے معاشی اصول و ضوابط کی تمام تر اساس اس نظریے پر تھی کہ دوسروں سے ہمدردی انسان کی فطرت میں شامل ہے لیکن ہمارے موجودہ آقاؤں کے لئے سب سے اہم امر یہ ہے کہ اپنے غلاموں کے دماغ سے ہمدردی کے اس بیج کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ سالہا سال کی مسلسل کاوشوں کے بعد آقاؤں کو بالآخر اس بنیادی ترین انسانی جذبے کو اپنے غلاموں کے دماغ سے بے دخل کرنے میں کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بدیہی مثال سوشل سیکیورٹی ہے۔ میں ٹیکس کیوں ادا کرتا ہوں، اس لئے کہ میرے ساتھ والے قصبے میں کوئی بیوہ ہے تو اس کے راشن کا بندوبست ہو سکے، بے گھر کو گھر مل سکے، بچوں کو مفت تعلیم مل سکے۔
عوامی فلاح کا سسٹم کیسے تباہ ہو سکتا ہے؟ متمول ترین طبقہ ٹیکس نہیں دے گا، اور وہ سہولیات جو اس ٹیکس پر منحصر ہیں، پیسے کی قلت کی وجہ سے عوام کو میسر نہیں آئیں گی۔ سسٹم کام نہیں کرے گا، عوام خفا ہو گی اور کسی متبادل کا مطالبہ کرے گی۔ یہ کسی بھی سسٹم کو پرائیویٹائز کرنے کا عمومی اصول ہے۔ کنڈر گارٹن سے لے کر اعلی تعلیم تک سرکاری تعلیمی نظام اس وقت شدید حملے کی زد میں ہے۔ اگر ہم سنہری دور کو دیکھیں تو 1950 اور 60 کی دہائی میں تعلیم کا زیادہ تر حصہ مفت سرکاری سکولوں پر مبنی تھا۔ G.I.Bill of rights نے جنگِ عظیم دو کے امریکی فوجیوں کیلئے مفت تعلیم کا بل پاس کرایا اور ان سب نے مفت تعلیم حاصل کی۔
لیکن آج، کالج کی آدھی سے زیادہ فنڈنگ ٹیوشن فیس ادا کئے بغیر ممکن نہیں۔ یہ ایک حیران کُن تبدیلی ہے اور طالبعلم پر خطرناک بوجھ۔یہ امریکی سرکاری سکولز پر ایک حملہ ہے۔ سرکاری سکول انسانی ہمدردی کے جذبے سے دئے گئے عطیات پر چلائے جاتے ہیں۔ میرے پوتے سکول میں نہیں پڑھتے لیکن پھر بھی میں بخوشی ٹیکس ادا کرتا ہوں کہ میرے پڑوسیوں کے بچے سکول جا سکیں۔ یہ ایک فطری اور مثبت انسانی جذبہ ہے، لیکن آقاؤں کیلئے نقصان دہ اور ناقابلِ برداشت، وہ میری سوچ کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ میرے بچے سکول نہیں جاتے تو میں ٹیکس کس لئے ادا کروں؟ سرکاری سکول ہونے ہی نہیں چاہییں، انہیں پرائیویٹ کر دیا جائے۔
سنہری دور کا معاشرہ آج کی نسبت بہت زیادہ غریب تھا لیکن اس دور میں مفت سرکاری تعلیم کو بآسانی یقینی بنایا گیا تھا۔ آج کے متمول معاشرے کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کے پاس مفت سرکاری تعلیم کیلئے وسائل کمیاب ہیں۔ یہ اجتماعی فلاح و بہبود پر ایک شدید حملہ ہے۔یہ امریکی معاشرے کا وہ جوہرِ نایاب ہے جو ہم سے چرا لیا گیا ہے۔
چھٹا اصول: ریگولیٹرز کو ریگولیٹ کریں۔(Run-the-regulators)
جو لوگ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان ہیں ، اُن آڈیٹرز اور انکم ٹیکس افسران کی تقرری بھی یہی مالکان کرتے ہیں جنہوں نے بالآخر ان کمپنیوں کی آڈٹنگ کرنا ہوتی ہے اور ٹیکس لاگو کرنا ہوتا ہے۔اور اب حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ بنک کے lobbyists ہی وہ لوگ ہیں جو مالیاتی ریگولیشنز کے قوانین متعین کرتے ہیں۔ اور ہر مرتبہ ایک عام آدمی کے خون پسینے سے کشید کیا گیا ٹیکس انہی مالیاتی اداروں کو دیوالیہ ہونے کی صورت میں سرکاری مدد (bailout) دینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جنہوں نے مالی بحران کو اولاً جنم دیا تھا۔ ہمارے ہاں نوبل پرائز جیتنے والے ماہر معیشت دان موجود ہیں، لیکن انہیں کبھی بھی معاشی بحران میں مشاورت کیلئے طلب نہیں کیا جاتا۔ کسی مالی بحران میں ہمیشہ انہی لوگوں کو مدد کیلئے بلایا جاتا ہے جو کہ حقیقتاً اُس بحران میں قوم کو ڈالنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ گولڈ مین سیکس اور اس ادارے کے ماسٹر مائنڈ رابرٹ روبن، جو2008 کے معاشی بحران کے ذمہ دار تھے، اب پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں۔ کیا ایسا اتفاقی طور پہ ہوا ہے؟ اس امکان کو تسلیم کیا جا سکتا تھا اگر معاشی منصوبہ بندی ترتیب دینے والے لوگ ان کے علاوہ کوئی اور ہوتے۔
اس کے برعکس ایک عامی کیلئے منڈی کے اصول جوں کے توں رہیں گے۔ صرف ایک اصول عوام کیلئے تبدیل کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حکومت کی طرف سے عام آدمی کیلئے اب کوئی مدد موجود نہیں ہے۔ یہ حقیقت اس بات کی مظہر ہے کہ حکومت اصل میں خود ایک مسئلہ ہے، نہ کہ مسئلے کو حل کرنے اور عوام کی فلاح و بہبودکی فکر کرنے والا ادارہ۔ یہ نیو لبرل ازم کی بد ترین شکل ہے: امیر کیلئے علیحدہ قانون، غریب کیلئے الگ اور متضاد قانون۔
ساتواں اصول: انجینئرنگ الیکشنز
دولت کا ارتکاز سیاسی طاقت کے ارتکاز پر منتج ہوتا ہے۔ خصوصاً تب جبکہ الیکشن کے اخراجات آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں، جو کہ سیاسی پارٹیوں کو سرمایہ داروں کی جیب میں ڈال دیتے ہیں۔
امریکی آیئن کی چودہویں ترمیم کے مطابق ’’کسی بھی شخص کے حقوق باقاعدہ قانونی چارہ جوئی کے بغیر غصب نہیں کئے جا سکتے‘‘ اور اس کے پیچھے یہی امر کارفرما تھا کہ آزاد کردہ غلاموں کی حفاظت کی جا سکے۔ لیکن حیران کُن طور پر یہ ترمیم کبھی بھی آزاد کردہ غلاموں کے تحفظ کیلئے استعمال نہیں کی گئی۔ لیکن ترمیم کے فوراً بعد اسے کاروباری اور سرمایہ دار حضرات کے مفاد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔ یعنی ’’اِن کے حقوق بغیر قانونی چارہ جوئی کے غصب نہیں کئے جا سکتے‘‘۔ نتیجتاً ’’بزنس‘‘ اور ’’کارپوریشن‘‘ دونوں قانون کے تحت ’’persons‘‘ قرار پائے۔ اور ایک کارپوریٹ ادارے کو پرسن کہنا ازحد شرمناک ہے۔ اور ان اداروں کو یہ ’’انسانی‘‘ حقوق ایک صدی قبل سے میسر ہیں۔ اور دورِ حاضر میں ان اداروں کے حقوق انسانی حقوق سے بھی تجاوز کر چُکے ہیں۔
اگر ہم چودہویں ترمیم کو لفظ بہ لفظ لیں تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کے حقوق غصب نہیں کئے جا سکتے جو دستاویزی طور پرکسی ملک کا شہری نہیں ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، اور کسی بھی غیر ملکی کو کسی دوسرے ملک میں انسانی حقوق نہیں دئے جاتے اگر اس کی دستاویزات نا مکمل ہیں۔ لیکن General Electric بغیر کسی قانونی رکاوٹ کے مکمل ’’انسان‘‘ ہے۔ ایک غیر فانی اور لامتناہی طاقت رکھنے والا انسان۔ چودہویں ترمیم کے اس مضحکہ خیز اطلاق سے بنیادی ترین اخلاقیات کی جو دھجیاں اڑائی گئی ہیں وہ ہوشربا ہیں۔
دوسرا خطرناک اور صحت مند انسانی دماغ سے بالاتر قانون جو 1970 میں پاس کیا گیا ، وہ یہ تھا کہ پیسہ ایک form-of-speech ہے۔
ستر کی دہائی کا معروف کورٹ روم ڈرامہ Citizens United اور الیکشن کمیشن کے مابین مقدمہ ہے: جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مالیاتی اداروں کو ’’free-speech‘‘ کا حق حاصل ہے۔ یعنی وہ الیکشن پر جتنا چاہیں پیسہ خرچ کر سکتے ہیں، کیونکہ پیسہ speech کی ہی ایک شکل ہے۔
اس کا نتیجہ غور طلب ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کارپوریشنز کے پاس الیکشن خرید لینے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا مکمل اختیار آ چُکا ہے۔ اور یہ باقی ماندہ جمہوریت پرایک شدید حملہ ہے۔
آٹھواں اصول: Keep-the-rabble-in-line
اپنی تمام تر کمی کوتاہیوں کے باوجود ہمیشہ سے ایک ہی منظم قوت رہی ہے جس نے عوام کی زندگی کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اور وہ یونین ہے۔ اور سرمایہ دارانہ مطلق العنانیت کی راہ میں ہمیشہ سے ہی یہ واحد رکاوٹ کارگر رہی ہے۔
چونکہ یونین ایک جمہوری طاقت کے طور پر سامنے آتی ہے اس لئے یونین کی بقاء پر شدید حملہ کر کے اس کے تصور کو اب کافی حد تک ختم کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ یونین ہی ہے جو ملازمین کے حقوق کے تحفظ کی ضامن ہے، اور اداروں کے مالکان کی ذاتی خواہشات پر مبنی فیصلوں اور اُن کی بادشاہت پر سوال اٹھاتی اور انہیں ملازمین کے حقوق کا پاس رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔امریکی متمول کلاس میں یونین مخالف جذبہ اس قدر پختہ ہے کہ امریکی تاریخ میں کبھی بھی یونین کی پزیرائی نہیں کی گئی۔ یاد رہے کہ امریکہ میں لیبر یونین کی ایک خونی تاریخ ہے۔ مزدوروں کی روایت امریکہ میں بہت مضبوط ہؤا کرتی تھی لیکن 1920 تک آتے آتے یونین کے تصور مکمل معدوم ہو کر رہ گیا۔ جس میں امریکی صدر وڈرو ولسن کے سوشلزم کے خوف کا کلیدی کردار تھا۔
کارپوریٹ مطلق العنانیت میں منظم لیبر کو ایک بہت بڑی رکاوٹ گردانا جاتا ہے۔ کیونکہ یونین اور منظم لیبر ایک طاقتور ممکنہ جمہوری قوت ہوتے ہیں۔ یہ مزدوروں اور ملازمین کو کسی بھی سرمایہ دار کی آمریت کے عتاب سے بچائے رکھتے ہیں۔
صنعتی انقلاب سے دورِ حاضر تک پہنچتے پہنچتے اب پرائیویٹ اداروں میں 7 فیصد سے بھی کم اداروں میں یونین پائی جاتی ہے۔ اور ایلیٹ کلاس اپنے ملازمین کو صرف غلام سمجھنے تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ عملاً انہیں غلام بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ صنعتی انقلاب کے دور میں بھی لیبر کلاس کسی غلام سے مختلف نہیں تھی، فرق صرف یہ تھا کہ لیبر ایک عارضی غلام تھا۔
یونین کا تصور ختم کر دیں، اور مکمل قبضے یا آمریت سے لطف اندوز ہوں۔ اس نشے کی کار فرمائی کو ہم پاکستانی معاشرے میں بھی بآسانی دیکھ سکتے ہیں، جہاں ایک تعلیمی ادارے میں ایک استاد آٹھ گھنٹے روزانہ کام بھی کرے گا اور اگر کسی نامور ادارے میں ملازم ہو گا تو پرائمری سطح پر اس کی تنخواہ دس ہزار روپوں کے لگ بھگ ہو گی، یعنی 333 روپے روزانہ، اور اگر اسے آٹھ گھنٹوں پر تقسیم کیا جائے تو یہ چالیس روپے گھنٹہ بنتی ہے۔ اور اس کے عوض استاد کی عزتِ نفس اپنے مالک یعنی ادارے کے سربراہ کے ہاتھوں، ادارے کے صارفین یعنی شاگرد کے ہاتھوں بری طرح پامال ہوگی، نہ صرف یہ بلکہ استاد سے وہ اضافی کام بھی لیا جائے گا جو کسی بھی درجے میں اس کی ملازمت کا حصہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک عمومی روش ہے جو کہ یونین کی عدم موجودگی کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔
نواں اصول: Manufacture-Consent
جو لوگ انسانی معاملات پر ایک فلسفیانہ نگاہ رکھتے ہیں، یہ امر اُن کو شدید حیرت میں مبتلا رکھتا ہے کہ کتنی آسانی سے انسانیت کا جمِ غفیر چند ہاتھوں کی کٹھ پُتلی بن کر رہ جاتا ہے اور کس طرح تمام انسانیت ان کے آگے سرِ تسلیم خم کئے رکھتی ہے۔ اورتقریباً ایک صدی قبل یہ حقیقت ہمارے مقتدر حضرات پر آشکار ہو چُکی تھی، کہ عوام کو طاقت کے زور پر قابو کرنا آسان نہیں ہو گا۔ لہذٰا عوام کو اپنے شکنجے میں رکھنے کیلئے دوسرے ذرائع باقاعدہ ایجاد کئے گئے۔ اور انہیں قابو میں رکھنے کا مؤثر ترین ذریعہ یہ سامنے آیا کہ لوگوں کی ترجیحات اور رویوں کو ترتیب دیا جائے۔ اور عظیم معاشی اور سیاسی مفکر ویبلن کی نظر میں لوگوں کے جمِ غفیر کو بیک وقت اپنے قابو میں رکھنے کا سب سے بہترین ذریعہ صارفین کے طبقے کی تشکیل (fabrication-of-consumers) تھا۔
اگر آپ لوگوں کی خواہشات کو تشکیل دے سکتے ہیں اور وہ اشیاء جو آپ کی پہنچ میں ہیں، اُن اشیاء کے حصول کو لوگوں کی زندگی کا مقصد بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ بآسانی صارف بن کر آپ کی قید میں آ سکتے ہیں اور بآسانی قابو کئے جا سکتے ہیں۔
1920 میں بڑے اخباروں کے مطابق لوگوں کو مصنوعی اشیاء اور خواہشات کی طرف متوجہ کیا جانا ضروری تھا۔ اور لوگوں کو اپنا ہدف بنانے کا سب سے آسان ذریعہ فیشن تھا۔ انہیں فیشن کی پیروی کرنے پر مصروف کر دیں اور آپ کے، یعنی اربابانِ اختیار کے بال کھینچے جانے سے محفوظ رہیں گے۔ آپ یہ صحیفہ پوری ترقی پسند فکر میں موجود پائیں گے۔ والٹر لپمن نے جمہوریت پر ایک مشہور روشن خیال مضمون لکھا تھا جس میں اُس کا بعینہ یہی کہنا تھا کہ لوگوں کو صارف بنا کر مصروف کر دینا چاہیے تاکہ ’’ذمہ دار‘‘ حضرات صارفین کے ماؤف ازہان کی مداخلت سے بے فکر ہو کر فیصلے کر سکیں۔عوام کی حیثیت تماشائی کی ہونی چاہیے، نہ کہ اراکین کی۔ اگر ہم اصلی جمہوریت چاہتے ہیں تو عوام کو بھیڑ بکریاں بنا کر رکھنا ضروری ہے۔اور اشتہاری صنعت نے عوام کو بھیڑ بکریاں بنانے کو اپنا منشور بنایا اور ایسی تباہی مچائی کہ عوام دیکھتے ہی دیکھتے نوتشکیل شدہ صارف (fabricated-consumer)میں تبدیل ہو گئی۔ اور ایسا نہایت نفاست کے ساتھ کیا گیا۔
نوتشکیل شدہ صارف ہم آج ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں، مثلاً آج ایک نوجوان لڑکی کو کسی دن اگر فراغت میسر ہے تو وہ دوڑتی ہوئی شاپنگ مال کا رُخ کرے گی، کبھی بھی لائبریری نہیں جائے گی۔ نوتشکیل صارف کے فلسفے کے پیچھے صرف اور صرف ایک ہی امر کار فرما ہے، اور وہ یہ کہ ہر شخص کو قابو کیا جائے۔ چومسکی کے مطابق قابو کا یہ پرفیکٹ سسٹم ’dyad‘ پر مبنی ہے یعنی ایک جوڑا یا pair۔ وہ جوڑا آپ اور آپ کا ٹیلی وژن سیٹ ہو سکتا ہے، یا دورِ حاضر میں آپ اور انٹر نیٹ۔ ٹیلی وژن اور انٹر نیٹ پر آپ کو دکھایا جائے گا کہ بہترین زندگی کیا ہوتی ہے، کون کون سی اشیاء کی آپ کو اشد ضرورت ہے، کونسی اشیاء کا استعمال آپ کو دوسروں میں منفرد بنائے گا۔ اور ہم اپنی ساری کوشش اور وقت انہی مشتہر اشیاء کے حصول میں صرف کر دیتے ہیں۔ وہ اشیاء جن کی نہ عموماً ہمیں ضرورت ہوتی ہے، نہ ہمیں چاہیے ہوتی ہیں، لیکن ضرورت اور خواہش کا ایک ایسا فریب ہمیں دیا جاتا ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد ہی ان بے مصرف اور بے کار اشیاء کا حصول بن جاتا ہے۔
منڈی کا بنیادی اصول ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ایک باشعور صارف عقلی فہم کے نتیجے میں خریداری کرے۔ لیکن اشتہاری صنعت کا بنیادی مقصد ہی منڈی کے اس اصول کو بالکل متضاد بنیادوں پر استوار کرنا ہے؛ کہ بےشعور صارف بےعقلی کے نتیجے میں خریداری کرے۔
سنہ 2008 کے الیکشن کے معاً بعد صدر اوباما کو اشتہاری صنعت کی جانب سے بہترین مہم کا ایوارڈ دیا گیا۔اوباما کی پالیسیاں نجی مفادات کو تقویت پہنچا رہی ہیں۔ یعنی انہی پرائیویٹ فرمز کے مالکان کوجو اس اشتہاری صنعت کے sponsors ہیں۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے نفرت کریں اور ایک دوسرے سے خوف زدہ رہیں۔ صرف اپنے مفادات کے بارے میں سوچیں اور کسی دوسرے کیلئے کوئی داخلی اور خارجی ہمدردی نہ رکھیں۔
دسواں اصول: Marginalize-the-population
جس دن ٹیکس ادا کیا جاتا ہے، وہ دن کسی بھی معاشرے کے جمہوری ہونے کا لٹمس ٹسٹ ہوتا ہے۔ اگر ہمارا معاشرہ واقعتاً جمہوری ہوتا تو 15 اپریل کے دن خوشیاں منائی جاتیں اوراس دن کو باقاعدہ منایا جاتا۔ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ دن کسی بھی طرح سوگ منائے جانے سے مختلف نہیں ہوتا۔
ہم کھلی آنکھوں کے ساتھ اُس دنیا کی جانب رواں دواں ہیں جہاں شاید ہماری آنے والی نسل کی بقا بھی ممکن نہ ہو۔ ہم ماحولیاتی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں، بلکہ بھاگ رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کا صرف ایک ممکنہ نتیجہ تصورکریں: Ice-cap کے پگھلنے سے بہت کم شمسی توانائی منعکس ہوتی ہے اور زیادہ توانائی ہمارے کرہ میں داخل ہوتی ہے۔ اور اس پر بجائے پریشان ہونے کے امریکی حکمرانوں کا جوش و جذبہ قابلِ دید ہے، اس وجہ سے کہ انہیں تیل کی کھدائی کیلئے مزید جگہیں میسر ہو نے کا امکان نظر آ رہا ہے۔ یہ ہماری آنے والی نسلوں کیلئے یقینی موت کا پروانہ ہے۔ سطح سمندر کے بلند ہو جانے کے باعث چند سالوں کے اندر اندر بنگلہ دیش کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے بے گھر ہونے کا امکان ہے، اور اس سطح کے بلند ہونے کے نتائج ہم سب کو بھی بھگتنا پڑیں گے۔ اور اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب ہوتا دیکھنے کے باوجود کچھ بھی نہ دیکھ پانے کی ہم انسانوں میں یہ طاقت حیرت انگیز ہے۔
بہت کچھ تبدیل کیا جا سکتا ہے اگر لوگ متحد ہو جائیں۔ اپنے حقوق کیلئے کوشش کریں، جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے، اور اس طرح سے بہت سے محاذوں پر جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ آنجہانی ہاورڈ زِن کے بقول ’’بالآخر جو لوگ اس جبر و استبداد کی زنجیروں کو توڑیں گے وہ ویسے ہی گمنام لوگ ہوں گے جیسا کہ ماضی کے لوگوں کی بے شمار چھوٹی چھوٹی کاوشیں انقلاب پر منتج ہوئیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے ماضی کو بدلا اور ایسے ہی لوگ ہونگے جو ہمارے مستقبل کو استحکام بخشیں گے‘‘۔
(یہ تحریر نوم چومسکی کی کتاب Requiem-for-the-American-dream کی تلخیص اور ترجمہ ہے۔ American-dream ایک معروف اصطلاح ہے جس سے یہ مراد لیا جاتا ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والا ہر شخص کوشش اور محنت سے ایک کامیاب زندگی گزارنے پر قدرت رکھتا ہے۔ جبکہ چومسکی کے مطابق اب کوشش اور محنت کے باوجود خوشحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونا ممکن نہیں رہا۔ چومسکی کی یہ تحریر تمام انسانوں کیلئے بالعموم اور امریکیوں کیلئے بالخصوص اس خواب کے ٹوٹنے پر ماتم ہے)
quote ” گولڈ مین سیکس اور اس ادارے کے ماسٹر مائنڈ رابرٹ روبن، جو2008 کے معاشی بحران کے ذمہ دار تھے”
this seems over-simplification. take a look at this for little more details: http://content.time.com/time/specials/packages/completelist/0,29569,1877351,00.html