امریکہ بمقابلہ عراق: ایک عاجزانہ تجویز: نوم چومسکی (ترجمہ: طارق عباس)
بُش انتظامیہ کی عراق پر فوجی چڑھائی، بغاوت، یا کسی بھی طریقے سے قبضہ کرنے کی انتھک کوششوں نے مختلف تجزیات کو جنم دیا ہے۔ ان تجزیات کی بنیاد مختلف نظریات پر قائم ہے۔
پہلا تجزیہ کارنیگی انڈوومنٹ برائے عالمی امن، واشنگٹن ڈی سی، سے وابستہ اینے تول لائوین کا یہ مشاہدہ ہے کہ بُش کی جنگی کاوشیں دائیں بازو کی اُس کلاسیکی جدید چند سری حکومت (oligarchy) کی کوششوں سے مماثل ہیں جو کہ مبینہ بیرونی خطرات سے ڈرا کر عوامی بےچینی کا رخ ملکی سالمیت کی فکر کی طرف موڑ دیتی ہیں۔ لائوین کے خیال میں بُش حکومت کا مقصد مطلق فوجی بالادستی کے ذریعے پوری دنیا پر حکومت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا بیشتر حصہ امریکی حکومت کے بارے میں خوف اور شکوک و شبہات کا شکار ہے، اور اس رویے کو بعض اوقات غلط طور پر Anti-Americanism سے بیان کیا جاتا ہے۔
لائوین کی رائے کی تصدیق امریکی جارحیت اور عسکری جنگجوئی کی تاریخ کے مطالعے سے ہو جاتی ہے۔
9/11 کے حملوں کے بعد سے ریپبلیکن پارٹی نے مسلسل اپنے دائیں بازوکے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے مبینہ دہشت گردی کے حملوں کی آڑ لی ہے۔ کانگریشنل انتخابات میں اس حکمتِ عملی کا بخوبی استعمال کرتے ہوئے وہ عوام کی توجہ معاشی صورتحال سے ہٹا کر جنگ پر مبذول کروانے میں کامیاب رہی ہے۔
2004 میں جیسے ہی صدارتی مہم کا آغاز ہوگا، ریپبلیکن پارٹی کی کوشش ہوگی کہ عوام اپنی پنشن، نوکری، صحت کی سہولیات کی دستیابی، اور دوسرے عوامی معاملات کے بارے میں سوالات نہ اٹھائیں۔ بلکہ وہ اپنے دلیر اور نڈر حکمران جارج بُش کی شان میں رطب اللسان نظر آئیں کہ کیسے اُس نے اپنی قوم کو ایک یقینی خطرے سے بچا لیا جواُن کے لئے تباہ کُن ثابت ہو سکتا تھا اور کیسے وہ اُن کو اب اگلے بڑے خطرے سے بچانے جا رہا ہے۔
9/11 کی تباہ کاریوں نے حکمرانوں کو عراق پر حملے کا وہ موقع فراہم کیا جس کی وہ عرصے سے تلاش میں تھے تاکہ عراق کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کر سکیں۔ یہ خلیجِ فارس کے اُن ذخائر کا بڑا حصہ تھے جنہیں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے 1945 میں سٹریٹجک طاقت کے حصول کا ذریعہ اور تاریخِ عالم کا سب سے بڑا خزانہ قرار دیا تھا۔ امریکہ کی معاشی اور عسکری طاقت کا توانائی کے ذخائر پر براہ راست انحصار ہے اور ’’سٹریٹجک طاقت ‘‘ سے مراد دنیا کو قابو میں رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔
(امریکہ کے عراق پر حملے کا) دوسرا تجزیہ یہ ہو سکتا ہے کہ بُش انتظامیہ عراق کو واقعتاً ایک ایسا خطرہ سمجھتی ہے جو اچانک نمودار ہو گیا ہو اور اپنے ہمسائیوں اور امریکہ کی سالمیت کے لیے نقصاندہ ہو۔ اور اس لئے ہمیں یہ یقینی بنانا چاہئے کہ weapons of mass destruction اور ان کو پیدا کرنے کے ذرائع دونوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور صدام حسین کی شکل میں موجود شیطان کو بھی جلد از جلد فنا کر دیا جائے۔ یہ جنگ انہی سردیوں (2002 تا 2003) میں کر لینی چاہئے کیونکہ اگلی سردیوں تک بہت تاخیر ہو سکتی ہے۔ اگر ہم نے مزید دیر کی تو امریکی قومی سلامتی کی مشیر کونڈالیزا رائس کے اندیشے کے عین مطابق عراقی نیوکلیر ہتھیار ہمیں کوئی بڑا نقصان نہ پہنچا ڈالیں۔
(اس اندیشے کی تفصیل کے لیے دیکھیے: ط ع)
فرض کیجئے یہ تفہیم درست ہے۔ اگر مڈل ایسٹ کی ریاستیں صدام سے زیادہ واشنگٹن سے خوفزدہ ہیں، جو کہ بظاہر لگ رہا ہے، تو اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ انکی تفہیمِ حالات کس قدر ناقص ہے۔ اور کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ اگلے برس سردیوں میں امریکی صدارتی انتخاب بھی ہونے جا رہا ہے؟
اگر ہم سرکاری تفہیم کو درست تسلیم کر لیں (کہ عراق واقعتاً ایک شدید خطرہ ہے) تو ہمیں ایک بدیہی سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے: ہم اپنے اعلان کردہ اہداف کیسے حاصل کر پائیں گے؟ ان مفروضوں پر چلتے ہوئے ہم فوراً اس سوال پر آن کھڑے ہوتے ہیں کہ بُش انتظامیہ نے عراق پر حملے کا ایک سادہ سا نعم البدل یکسر نظر انداز کر دیا ہے اور وہ یہ کہ عراق پر ہماری بجائے ایران کو حملہ کرنے دیا جائے۔ اس راستے کو نظر انداز کیا گیا ہے کیونکہ اسے حماقت گردانہ جائے گا، اور شاید ایسا ہے بھی۔ لیکن اس پر غور کیا جانا فکر کے نئے زاویے وا کر سکتا ہے۔
سو ایک عاجزانہ تجویز یہ ہے کہ امریکہ ایران کو عراق حملے پر قائل کرے اور ایک محفوظ فاصلہ رکھتے ہوئے اس کے ساتھ عسکری تعاون کرے۔ یہ تعاون میزائل، بم، اور فوجی اڈوں کی شکل میں کیا جا سکتا ہے۔ ایران اگر ہمارا مہرہ بن جائے تو اس سے کئی فائدے ہو نگے، ایک عراق کی تباہی اور دوسرا یہ کہ دونوں شیاطین بیک وقت ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونگے۔ صدام حسین کا تختہ الٹایا جائے گا، اس کے تباہ کن ہتھیاروں اور انکے ذرائع، اور اس کے حواریوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ امریکہ کو معمولی سا بھی جانی نقصان نہیں ہو گا۔ اگرچہ بہت سی عراقی اور ایرانی جانوں کا ضیاع ہو گا لیکن یہ امر بُش کابینہ کیلئے کوئی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہو گا۔ بُش انتظامیہ کے کئی افراد نے، جو رونالڈ ریگن کے عہد صدارت میں بھی حکومت کا حصہ تھے، نے 1980 میں صدام حسین کے ایران حملے کا بھرپور خیر مقدم کیا تھا، باوجود اس کے کہ یہ انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنا تھا۔
اغلب احتمال ہے کہ صدام حسین کیمیائی ہتھیار کا استعمال کرے گا لیکن ہمارے موجودہ حکومتی عہدیداران نے بغداد کے اس وحشی کی بھرپور حمایت کی تھی جب اس نے ریگن کے دور میں انہی ہتھیاروں کو ایران کے خلاف استعمال کیا تھا۔ اور تب بھی جب اس نے یہ ہتھیار اپنے ہی شہری، یعنی کردوں، کے خلاف استعمال کیے تھے۔ یہ شہری اسی طرح ’اپنے‘ تھے جیسے امریکی صدر اینڈریو جیکسن کے زمانے میں چیروکیز تھے۔ 1
(اٹھارویں صدی کے اوائل میں اینڈریو جیکسن نے مقامی امریکی قبائل، یعنی چیروکیز کو، انکی آبائی زمینوں سے بےدخل کر دیا تھا۔ط ع)
موجودہ حکومت کے ہی عہدیداران تھے جنہوں نے اس وحشی کی مکمل حمایت کی تھی جب کہ وہ بد ترین جرائم کا ارتکاب کر چکا تھا۔ یہاں تک کہ اسے کویت پر حملہ کرنے تک نیوکلیائی، حیاتیاتی اور weapons-of-mass-destruction بنانے میں بھی مدد مہیا کی۔ صدر بُش اول اور امریکی نائب صدر ڈک چینی نے مارچ 1991 میں ’’داخلی استحکام ‘ ‘ کی خاطر صدام کے ہاتھوں اہل تشیع کے قتلِ عام کی مکمل پُشت پناہی کی۔ انہوں نے کُردوں کے خلاف صدام کی حمایت سے بھی تب ہی ہاتھ کھینچا جب عالمی اور داخلی دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا۔
تیسرا فائدہ یہ کہ اقوامِ متحدہ اس ساری کارروائی میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گی۔ دنیا کو یہ بات سمجھانا فضول ہے کہ اقوامِ متحدہ صرف اس وقت فعال ہوتی ہے جب اسے امریکہ کوئی حکم صادر کرے، بصورتِ دیگر عالمی منظر نامے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
چوتھا فائدہ یہ کہ صدام سے جنگ کرنے کا تجربہ اور جنگ کے بعد عراق کو سنبھالنے کی ہماری نسبت زیادہ بہتر قابلیت ایران کے پاس ہے۔ بُش کابینہ کے برعکس، ایران کا صدام حسین کی قتل وٖغارت میں حمایت یا تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری میں مدد کا بھی کوئی سابقہ ریکارڈ نہیں ہے۔ اس بات پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ ایران پر یقین کرنا دانشمندی نہیں ہو گی لیکن ایران سے زیادہ ناقابلِ اعتبار تو بُش انتظامیہ کے وہ افراد ہیں جنہوں نے صدام کے بدترین جرائم کے بعد بھی اُس کی مسلسل حمایت جاری رکھی۔ ایران کے ذریعے حملہ کروانے سے ہم اس خفت سے بھی بچ جائیں گے جسکا سامنا امریکی رہنماؤں کی اندھادھند تقلید سے ہمیں کرنا پڑے گا۔ تقلید کا یہ ڈھب صرف مطلق العنان ریاستوں میں پایا جاتا ہے جسکا ہم بجا طور پر مذاق اڑاتے ہیں۔
پانچواں فائدہ یہ کہ صدام سے چھٹکارے پر عراقی عوام کی اکثریت کہیں زیادہ جشن منائے گی اگر یہ کام امریکہ کی بجائے ایران کرے۔ لوگ بصرہ اور کربلا کی گلیوں میں خوشیاں منائیں گے اور ہم ایرانی صحافیوں کے ساتھ مل کر آزادی دلوانے والوں کی عظمت اور انصاف پسندی کے قصیدے پڑھ سکیں گے۔
چھٹا فائدہ یہ کہ ایران اس اقدام سے عراق میں جمہوری نظام کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ عراق کی زیادہ تر عوام اہلِ تشیع ہے اور ایران کو نئی عراقی حکومت میں انہیں کچھ نمائندگی دلوانے میں امریکہ کی نسبت کہیں کم مشکلات کا سامنا ہو گا۔
عراقی تیل کے ذخائر تک رسائی میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ بالکل ایسے کہ اگر امریکہ اجازت دے تو آج بھی امریکی ادارے ایرانی تیل کے ذخائر تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ عاجزانہ تجویز مبنی بر حماقت ہے کہ ایران عراق کو صدام حسین سے آزادی دلائے۔ اس کا واحد وصف یہ ہے کہ یہ اُن منصوبوں سے کہیں زیادہ معقول ہے جو اس وقت عمل میں لائے جا رہے ہیں۔ لیکن ایسا تب ہوتا جب ہماری حکومت کے ظاہری اور حقیقی مقاصد میں کچھ مطابقت ہوتی۔
سنِ اشاعت: نومبر، 2002
ماخذ: The-United-States-versus-Iraq: A-Modest-Proposal