شاک ڈاکٹرائن: ناؤمی کلائین (تعارف: سہیل مجاہد، محمد عثمان)

 In تاثرات
تعارف:درج ذیل تحریر ناؤمی کلائین کی کتاب (The      Shock      Doctrine:      The      Rise      of      Disaster      Capitalism) کاتعارفی خلاصہ ہے۔ ناؤمی کلائین  کینیڈا سے تعلق رکھنے والی مصنف، سماجی کارکن اور فلم میکر ہیں اور آج کل امریکہ کیRutgers      University میں  میڈیا، ثقافت اور حقوق نسواں کے شعبے کی چیئرمین ہیں۔ آپ سرمایہ داری نظام، عالمگیریت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے انسانیت پر کئے جانے والے استحصال اور ماحول کی تباہی کی سخت ناقد ہیں اوران موضوعات پر کئی کتابوں کی مصنف ہیں۔
اِس کتاب میں مصنفہ نےشاک ڈاکٹرائن کے نام سے ایک نئی اصطلاح کو متعارف کروایا ہے۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ سامراجی ممالک پوری دنیا میں مصنوعی بحران پیدا کرکے یا قدرتی طور پر پیدا شدہ بحرانوں کی آڑ  میں استحصالی معاشی پالیسیاں نافذ کرتے ہیں جس سے عوام کی زندگیاں دوبھر ہوجاتی ہیں اور چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع میں دن دگنا رات چگنا اضافہ ہوجاتاہے۔ان بحرانوں (مثلاً جنگ، فوجی بغاوت، دہشت گردوں کے حملے، معاشی منڈی میں گراوٹ اور سیلاب، سمندری طوفان جیسی قدرتی آفات وغیرہ) کے دوران لوگوں کی توجہ غیر ضروری اور سطحی موضوعات میں الجھائی جاتی ہے تاکہ  وہ   استحصال کرنے والی پالیسیوں کا جائزہ نہ لے سکیں اور ان کی مخالفت نہ کرسکیں۔موقع ملنے پر یہی کام تیسری دنیا  کے ممالک کی حکومتیں اور سرمایہ دار طبقات اپنے معاشرے میں کرتے ہیں۔  آج پوری دنیا” کرونا “نامی  وباء  کے نتیجے میں جس بحران سے گزر رہی ہے،  اُس میں جہاں ایک طرف کروڑوں لوگ بیروزگار ی کا شکار ہوکر غربت کی دلدل میں دھنس رہے ہیں، وہیں دوسری طرف جیف بیزوس جیسے چند عالمی سرمایہ داروں کی دولت میں ہوشربا اضافہ بھی  ہورہا ہے۔  پاکستان کے سرمایہ دار بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا تے ہوئے نہ صرف حکومت سے پرکشش مراعات حاصل کررہے ہیں بلکہ بڑے پیمانے  پر محنت کشوں کو نوکریوں سے بھی نکال رہے ہیں اور کوئی ریاستی ادارہ انہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔ سرمایہ دار مالکان کی کوشش یہی ہے کہ آئندہ  اپنی فیکٹریوں  میں مزدور وں کو روزانہ اجرت کی بنیاد پر رکھا جائے تاکہ کم سے کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ کام لیا جاسکے اور مزدور طبقے کو حاصل رہی سہی مراعات بھی چھین لی جائیں۔

کیا  آپ نے  غور کیا ہے کہ آج کل میڈیا قدرتی آفات، تنازعات اور معاشی بحرانوں کی طرف اِتنا متوجہ کیوں ہے؟   اِس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ   اِن آفات، تنازعات اور بحرانوں پر مبنی خبریں میڈیا ہاؤسز  کے منافعوں میں اضافہ کرتی ہیں لیکن دوسری طرف یہ خبریں  معاشی سیڑھی کے  سب سے اوپر موجود اشرافیہ کےلئے بھی  انتہائی  سودمند  ہیں۔ کینیڈین  مصنف اور سماجی کارکن ناؤمی کلائن نے 2007ء میں  شائع ہونے والی اپنی کتاب The      Shock      Doctrine:      The      Rise      of      Disaster      Capitalism میں اسی مسئلے پہ بحث کی ہے۔

 ان کی کتاب کے تعارف میں ہم درج ذیل اہم نکات پر بات کریں گے۔

  • معاشی مداخلت اور بجلی کے جھٹکوں کےذریعے علاج میں کیا مشترک ہے؛
  • آزاد منڈی (free      market) کی معیشت نے کس طرح چلی کو معاشی طور پردنیا کے  ناہموار ترین ممالک میں سے ایک  میں تبدیل کردیا؛
  • عراقی حکومت کو کس طرح کھلی ڈکیتی کے ذریعے اپنی 95فی صد آمدنی سے محروم کردیا گیا۔

شاک ڈاکٹرائن کی اصطلاح   کا تاریخی پس منظر:

علمِ نفسیات کی پوری تاریخ میں سائنس دانوں اور ماہرین ِتعلیم نے اس  سوال  پر غوروفکر کیا ہےکہ نفسیاتی مصائب میں مبتلا افراد کا علاج کیسے کیا جائے۔بیسویں صدی کے وسط تک  نفسیاتی علاج کے بیشتر طریقے نفسیاتی توڑ پھوڑ  کم کرنےاور مریض کوتندرست بنانے  پر مرکوز تھے۔ لیکن سی آئی اے نے تفتیشی عمل میں نفسیاتی جھٹکوں کے ذریعے افراد کی شخصیت کومکمل تبدیل کرنے کی کوشش کی۔  ڈاکٹر ایون کیمرون ( Dr.      Evan      Cameron) نے  (علم نفسیات کا منفی استعمال کرتے ہوئے )جھٹکوں سے علاج(Shock      Therapy)  کے ذریعے فرد  کو نفسیاتی طور پر مجروح کرنا اور پھر نئے سرے سے اس کی ذہنی تشکیل کرنے کا طریقہ وضع کیا۔

 سی آئی اے  کی مالی امداد سےڈاکٹر کیمرون نے  کئی تفصیلی تجربات کئے جن میں کسی انسان کو بجلی کے جھٹکوں سے گزارا جاتا جس سے اسےنفسیاتی  دورے پڑنے لگتے۔ کیمرون نے   تجربات کے دوران محسوس کیا کہ ایسے لوگ  پہلےاپنا ذہنی توازن کھو  کر بچگانہ حرکات کرتے اور پھر مستقل الجھاؤ اور لاتعلقی  کی ذہنی کیفیت میں چلے جاتے۔ کیمرون کا خیال تھا کہ اس حالت میں یہ  لوگ’خالی تختی‘   کی مانند ہوجاتے ہیں جس کے اوپر اپنی مرضی کا کچھ بھی لکھ کر ان  کو نئی اور بہتر انسانی شناخت دی جاسکتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ شناخت کی تبدیلی کایہ فارمولہ کامیاب نہ ہوسکا۔  ،  کیمرون  نے ان قیدیوں سے انکی شناخت تو چھین لی لیکن  انہیں نئی شناخت نہ  دی جا سکی۔

 کیمرون نےمطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے  اپنا طریقہ کار بدلنے کی بجائے  اپنے تجرباتی مریضوں پرتشدد، ذہنی الجھاؤ، طویل تنہائی ، برقی جھٹکوں  اور احساسات  کو مفلوج کرنیوالی ادویات کا استعمال خوفناک حد تک بڑھا دیا۔ اسی دوران سی آئی اے  کو شاک تھیراپی یعنی جسمانی اور ذہنی جھٹکوں کے ذریعے معلومات اگلوانے اور انسانوں کو اپنا فرمانبردار بنانے کا خیال آیا۔ شدید تنہائی میں انسانی حواس کو معطل کرنا اور وقت کے شعور کو مسخ کر کے(قید میں موجود انسان کو وقت کا احساس نہ ہونے دینا کہ وہ کب سے قیدمیں ہے اور باہر کی دنیا کیسی ہے)انسانوں کوپریشان کرنے کے عمل نے قیدیوں میں ہوش و حواس برقرار رکھنا ناممکن بنادیا جس سے سی آئی اے کے تفتیش کاروں کو قیدیوں سے معلومات نکلوانے میں مددملی۔مزیدبرآں، قیدِ تنہائی کے ساتھ تیز روشنی اور اونچی آواز میں موسیقی  کے استعمال سے بھی انسانوں کو ذہنی طور پہ مفلوج کرکے معلومات اگلوانے  میں کامیابی ملی۔  ان تمام تجربات اور معلومات کو کیوبرک مینول (Kubark      Manual) نامی دستاویز میں جمع کردیا گیا تاکہ مستقبل میں اس دستاویز کےذریعےجدید(اور وحشیانہ )   تفتیشی طریقہ کار  (مہذب زبان میں تشدد) میں مدد اور راہنمائی لی جاسکے۔

شاک ڈاکٹرائن کا طریقہ واردات:

شاک ڈاکٹرائن کا طریقہ وارات  درج ذیل ہے۔

الف۔ معاشرے میں کسی قدرتی بحران کا انتظار کیا جائے یا پھر مصنوعی بحران پیدا کیا جائے۔

ب۔ خطرے اور خوف کی فضا پیدا کرکے صورت حال کو غیر معمولی قرار دے دیا جائے۔

ج۔ انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں پر پابندیاں لگائی جائیں۔

د۔ سرمایہ دارانہ طبقات کے مفادات پر مبنی پالیسیوں کو جلد از جلد نافذ کردیا جائے۔

کسی بھی قسم کی ہنگامی صورت حال یامعاشی بحرا ن کے دوران حکمران طبقات گھبرائی ہوئی عوام کو یہ بیانیہ بیچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ سماجی تحفظ کے پروگرام ختم کرنا اور  نجی سرمایہ دار شعبے کو بڑے بڑے امدادی پیکج دینا انتہائی ضروری ہے ورنہ دوسری صورت میں پورا معاشی اور سماجی ڈھانچہ تباہ ہوجائے گا۔

کھلی منڈی کی معیشت کے ماہرین نے معاشی جھٹکوں سے علاج کی تکنیک مرتب کی تاکہ بحران کے دنوں میں تکلیف دہ معاشی اصلاحات کو بالجبر نافذ کیا جاسکے۔ایک بحران زدہ اور تباہ حال معاشرت کی کوکھ سےنئےعالمی نظام کےقیام کاخیال نیا نہیں ہے، البتہ ایسے ممالک، جو کھلی منڈی سے تعاون کرنے کو تیار نہ ہوں،ان  کی معیشت کو تباہ کر نا اور  تعمیرنو کے نام پہ ان کا استحصال کرناسامراجی حکمت عملی کا  ایک نیا طریقہ ہے۔ شاک تھیراپی کے نظریے سے متاثر ہو کرملٹن فرائیڈمین (مشہور امریکی ماہرِ معاشیات جسے  1976 میں نوبل انعام دیا گیا) اورشکاگو سکول آف اکنامکس میں ان کےساتھیوں نےمعاشی شاک تھیراپی کا نظریہ دیا جس کے ذریعےمختلف ملکوں میں  بے رحم اور عوام کے لئے تکلیف دہ معاشی پالیسیاں نافذ کی گئیں۔  شکاگوبوائز (Chicago      Boys) کے نام سے مشہور اِن معیشت دانوں کی نظرمیں اچھی حکومت وہ ہےجو کم سے کم اختیارات کی مالک ہو اور ظاہر ہے کہ اِس اصول کا گہرا تعلق معاشی منڈیوں سے بھی ہے۔  اس لئے انہوں نےکھلی منڈی پر مبنی سرمایہ داری ( Free      Market      Capitalism) کی حمایت کی جو بقول انکے  جمہوریت، امن اور ِاستحکام کی ضامن ہے۔

 تاہم، اس سارے عمل کے دوران اُن کویہ احساس ہو چکا تھا کہ عوام نئی معاشی پالیسیوں کو آسانی سے قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ اپنےمعاشی  حقوق (یونین سازی کاحق اور سماجی تحفظ کے اداروں پر حکومتی وسائل کا استعمال) کسی صورت کھونا نہیں چاہیں گے۔ ایسے میں ان معیشت دانوں کےسامنےواحدحل معاشی شاک تھیراپی کی صورت میں سامنے آیا ۔اس کے بعد مختلف ممالک میں آفات اورمعاشی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جھٹکوں اور غیر یقینی کیفیت سے فائدہ اٹھا کر وہاں نئی معاشی پالیسیاں نافذ کی گئیں۔ آگے چل کر شگاگو بوائز نے اس امر کو یقینی بنایا کہ وہ سماج میں آنے والے بحرانوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ اس امر کوممکن بنانے کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ بین الاقوامی سطح پر زیادہ سے زیادہ معیشت دانوں کو اپنا ہم خیال بنایا جائے۔

انہوں نے لاطینی امریکہ کے تعلیمی اداروں  اور شکاگو یونیورسٹی میں طلبا کے باہمی تبادلے کا پروگرام شروع کیا تاکہ لاطینی امریکہ کے طلبا اپنے ملکوں میں  واپس جا کر کھلی منڈی اور سرمایہ دارانہ نظام کے معجزاتی فوائد بتا کراُن کے لئے  عوامی رائے عامہ  ہموار کرتے رہیں اور(قدرتی یا مصنوعی طور پر پیدا کردہ )بحرانوں کے دوران معاشی اصلاحات کوبآسانی  نافذ کرتے رہیں۔  شگاگو بوائز کی حکمت عملی کے پیچھےیہ مرکزی نظریہ کارفرما تھا  کہ اگر لبرلزم کی معاشی پالیسیاں تیزی  اور سختی سے لاگو کی جائیں تو ان کی مخالفت کرنا ناممکن ہوتا جائےگا۔

عوام دشمن معاشی اصلاحات  کےنفاذ کے لئے آمریت اور ریاستی جبر کے ہتھکنڈے:

 بیشتر اوقات شاک تھیراپی  پر مبنی معاشی اصلاحات کو آمریت پر مبنی ریاستی جبر  کے ذریعے تقویت دی گئی۔ کسی ملک میں معاشی نظام کی تبدیلی (اور کھلی منڈی کے فروغ)کے لئے محض معاشی بحران پیداکر کے وہاں کی  عوام کو تابع نہیں کیا جا سکتا بلکہ عوامی غصے کو کچلنے  کیلئے حکمرانوں کوبعض اوقات جمہوری حقوق معطل کرنے جیسے سخت اقدامات بھی کرنے پڑتے ہیں۔ عوام کے غم و غصے کی بنیادی وجہ کھلی منڈی کی معیشت کے نفاذ اور بچت (austerity      measures)کے نام پر سماجی تحفظ کے اداروں  کی نجکاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیروزگاری ہوتی ہے۔

 2003ء میں عراق پہ فوجی حملے کے بعد عبوری حکومت کا قیام عوام کے  جمہوری حقوق کی معطلی کی واضح مثال ہے۔امریکہ نےعراقی عوام سےصدرصدام حسین کو ہٹانے کے بعد شفاف انتخابات کروانے کا وعدہ کیا تھا مگر جب سرکردہ عراقی راہنماؤں نے عراقی تیل کی صنعت کی نجکاری سے انکار کردیا تو امریکی منتظم پال بریمر(Paul      Bremer) نے ان کو اختیارات سے محروم کرنے کے لئے(امریکہ کی وفادار) عبوری حکومت قائم کی اور یہ کہتے ہوئے کہ ’عراقی عوام ابھی جمہوری انتخابات  کے لئے تیار نہیں‘ ، انتخابات منسوخ کردیئے۔

اِسی طرح جنوبی امریکہ کے جنوبی علاقے (ارجنٹائن، یوراگوئے، چلی) جو کہ شکاگو بوائز کے تجربات اور نظریاتی جنگوں کا مرکز تھے، میں لوگوں کے اکٹھا ہونے  اور سیاسی اختلاف رائے کے اظہار پر مکمل پابندی لگادی گئی۔  کھلی منڈی پر تنقید کرنے والوں کے منہ بالجبر بند کرکے عوام کو غیرمقبول معاشی اصلاحات قبول کرنے پر مجبور کیاگیا۔وہاں کی حکومتوں کےذریعےوسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کی گئی تاکہ لوگ تشددکی دہشت سےخوفزدہ ہوکراپنے معاشی حقوق سے پیچھے ہٹ جائیں۔

اسکی سب سے خوفناک مثال جنوبی ا مریکہ کے ملک چِلی (Chile)  کی ہے جہاں ایک فوجی آمرجنرل آگسٹے پنوشے نےاپنےدورِ اقتدار کے ابتدائی زمانے  میں  تشدد سے 3200 لوگوں کو مروایا یا غائب کروا دیا، 80 ہزار لوگوں کو جیلوں میں ڈالا اور دو لاکھ لوگوں کو مجبوراً ملک چھوڑنا پڑا۔ مجموعی طور پر جنوبی امریکہ کے جنوبی خطے میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو ایسی جیلوں میں ڈالا گیا جہاں تشدد اور جبر کے ذریعے ان کی قوتِ ارادی کو توڑا گیا۔ جبروتشدد کایہ عمل کسی پاگل آمرکی ذہنی اختراع نہیں تھا بلکہ (شکاگو بوائز کی پیش کردہ پالیسیوں کے ما تحت) لوگوں کو اپنا فرمانبردار بنانے کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔

معاشی  شاک تھیراپی کے  کامیاب نفاذ کےلئے ضروری ہے کہ سیاسی اور نظریاتی مخالفین کو مکمل طور پر خاموش یا ختم کردیا جائے۔ سیاسی مخالفین معاشی شاک تھیراپی کا  براہ راست ہدف نہیں ہوتے، لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والے معاشی اقدامات اتنے تکلیف دہ اور نامقبول ہوتے ہیں کہ حکومتوں کی مجبوری بن جاتی ہےکہ وہ کسی بھی قسم کی عملی یا نظریاتی مخالفت کو وحشیانہ جبر کے ذریعے مٹا دیں ۔ ایسے ممالک جہاں قومی خودارادیت اور مزدوروں کی یکجہتی کی مضبوط تاریخی روایت موجود ہو،  وہاں کی حکومتوں کو ان غیر مقبول اور استحصالی معاشی پالیسیوں پر عملدرآمد کروانے پر  بہت سی رکاوٹوں اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔  ان خطرات میں سب سے اہم خطرہ ایک منظم اور ملک گیر عوامی بغاوت کا موجود ہونا ہے ،جس کا خاتمہ ضروری ہوتا ہے۔  مثلا ًعراق میں  باغیوں سے لڑائی کے نام پر امریکہ اور اس کی حلیف افواج نے عراقی عوام کو بلا امتیاز  قید، تشدد اور وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا، تاکہ ناجائز امریکی قبضے  کے خلاف کوئی منظم مقامی مزاحمت سامنے نہ آسکے۔ 

اس عوامی بغاوت سے بھی زیادہ  خطرناک وہ نظریاتی مخالفین ہوتے ہیں جو کہ عوام میں قابض حکمران طبقات کے خلاف نفرت اور بیزاری پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی امریکہ میں بڑی تعداد میں بائیں بازو کے دانشور، راہنما اور کارکن جیلوں میں ڈالے گئے، مار دئیے  گئے یا  پھر جلاوطن کر دئیے  گئے۔1976ء میں پنوشے کی زیرقیادت، چلی میں کی جانے والی معاشی اصلاحات کے دوران 80 فی صد سیاسی قیدی مزدور اور کسان تھے ۔ یہی حال ارجنٹائن کا تھا جہاں قید اور تشدد کا نشانہ بننے والوں میں اکثریت یونین مزدوروں اور کاشتکاروں کی تھی جو زرعی اصلاحات اور سماجی تحفظ کے منصوبوں کا مطالبہ کررہے تھے۔

جنوبی امریکہ میں ریاستی تشدد ، جبری گمشدگیاں او رسرکاری سرپرستی میں قتل اتنا عام ہوگئے تھے  کہ لوگوں کے ذہنوں میں دہشت اور خوف بیٹھ گیا تھا جس کے نتیجے میں لوگوں نے احتجاج کرنا چھوڑ دیا۔اس طرح نیولبرل معاشی اصلاحات  کے نفاذ کا عمل کامیابی سے جاری رہا۔ حکومتوں  کو سیاسی میدان میں کسی قسم کی خاطر خواہ مزاحمت کا سامنا نہیں تھا اور وہ سیاسی مخالفین  کو بآسانی دہشت گرد قرار دے کر اُن کے خلاف کاروائی کرسکتی تھیں اور مخالف نظریات رکھنے والوں کو پراپیگنڈا کے زور پر بدنام کرواسکتی تھیں۔سیاسی تبادلہ خیال اور سیاسی عمل کی گنجائش ختم ہوجانے کی وجہ سے لوگوں کے پاس استحصالی معاشی اصلاحات اور جابر حکمرانوں کو قبول کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔

1970ء کی دہائی میں نافذ کی گئی  معاشی شاک تھیراپی  کے نتیجے میں انسانی آبادیوں میں غربت، پسماندگی اور خوف و ہراس کا غلبہ قائم ہوا۔ معاشی جھٹکوں کا یہ عمل (Economic      Shock      Therapy) لوگوں کو اپنی روائتی سوچ بدلنے او ر کھلی منڈی پر مبنی معیشت کو قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے۔معاشی اصلاحات کے اس عمل کو  کامیاب بنانے کے لئے ارجنٹائن میں  معاشی جھٹکوں اور ریاستی بربریت کا  بیک وقت استعمال کیا گیا۔ لیکن ان معاشی جھٹکوں کے انتہائی بھیانک معاشرتی نتائج ظاہر ہوئے۔ ریاستی اداروں کی نجکاری، بچت کے نام پر عوامی فلاح کے منصوبوں کی کٹوتی اور مزدوروں کے تحفظ  کے لئے بنائے گئے قوانین کے خاتمے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری پیدا ہوئی۔ اِسی طرح  بنیادی ضرورت کی اشیا (پانی، روٹی، گھی) کی  قیمتوں پر حکومتی کنٹرول ختم  کرنے سے  مزدوروں کی محنت  کی کمائی بے وُقعت ہونے لگی اور مہنگائی ، بھوک اور غربت کےطوفان نے جنم لیا۔

ارجنٹائن کے حکمران  Juan      Perón  نے عوام کے ذہنوں میں خوف اور دہشت پھیلانے کا نسبتاً  مخفی  اور بالواسطہ طریقہ اپنایا۔  اپنے عوام  کو خفیہ ٹھکانوں میں رکھ کے تشدد اور قتل کے بعد غائب کرکے ایسی مثالیں قائم  کی گئیں  تاکہ بقیہ لوگ عبرت حاصل کریں اور ریاستی پالیسیوں پر اختلاف یا  احتجاج کی ہمت نہ کریں۔ اگرچہ قتل ہونے والوں کی تعداد کم تھی، لیکن  پھر بھی عوام میں یہ تاثر پیدا کرنے کے لئے کافی تھی کہ نبو لبرل معاشی اصلاحات کے نفاذ کے لئے حکومت کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ اس جبر و تشدد کے نتیجے میں عوام میں ایک خاص  قسم کا خوف اور یاسیت پیدا ہوئی۔ لوگ  استبدادی حکومتوں کے خلاف  کسی بھی قسم کا احتجاج کرنے کے حوالے سے یا تو خوفزدہ ہوچکے تھے یا  پھر اُن کے مالی حالات اس حد تک خستہ ہوچکے تھے کہ اُن کے لئے روح اور جسم کا رشتہ بحال رکھنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔

درج بالا مثالیں واضح کر رہی ہیں کہ چونکہ معاشی شاک تھیراپی کا طریقہ کار اصلاحات نافذ کرنے کے لئے کافی نہیں ہے، اس لئے بیشتر حکومتیں ریاستی جبر اور تشدد کو بھی اس عمل کو کامیاب بنانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ معاشی جھٹکوں پر مبنی پالیسیوں کا فائدہ کسے ہوتا ہے؟ اگلے حصے میں ہم دیکھیں گے کہ اس ضمن میں کچھ طبقات فائدہ اٹھانے والے اور کچھ دوسرے خسارہ پانے والے ہوتے ہیں۔

شاک ڈاکٹرائن  سے فائدہ اور نقصان اٹھانے والے طبقات:

 معاشی اصلاحات کا یہ عمل انتہائی دولت مند افراد اور کثیر القومی(ملٹی نیشنل) کمپنیوں کے لئے فائدہ مند  اور بقیہ عوام کے لئے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔ معاشی شاک تھیراپی کے ذریعے اشیائے ضرورت  کی قیمتوں پر حکومتی  کنٹرول ختم کرنا، قومی اداروں کی نجکاری اور غیرملکی کمپنیوں کے کاروبار کو غیرمشروط اجازت جیسے اِقدامات کا  اثربراہ راست عام آدمی  پہ پڑتا ہے۔مثلاً چلی میں پنوشے کے دورِ حکومت میں کی  جانے والی معاشی اصلاحات کے پہلے مرحلے  میں بےروزگاری کی شرح  20فی صد تک پہنچ گئی، جوچلی کی تاریخ کی بلندترین شرح تھی۔1982ءمیں معاشی اصلاحات  کے اگلے مرحلے کے نافذ ہونے کے بعد یہ شرح30 فی صد  تک پہنچ گئی جب کہ اسی دوران معیشت کا مجموعی حجم 15 فی صد تک کم ہوچکا تھا۔

شکاگوسکول آف اکنامکس کی نگرانی میں نافذ کردہ ان بے رحم  معاشی پالیسیوں کے دیرپا اثر کو نظر انداز کرناآسان کا م نہیں، جن کے نتیجےمیں 2006ء میں چلی معاشی طور پر ناہموارترین معاشروں کی درجہ بندی میں آٹھویں نمبر پر پہنچ گیا۔

معاشی بحران کے دنوں  میں حکومتوں اورمقامی کمپنیوں کے لئے اپنی  بقا کو قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔  چونکہ معاشی بدحالی کی وجہ سے عوام کی قوتِ خرید ختم ہوچکی ہوتی ہے، اس لئے  کمپنیوں کو اپنی اشیا بیچنے کے لئے خریدار تلاش کرنے پڑتے ہیں۔  مثال کے طور پر عراق پر قبضے  کے بعد امریکہ نے عراقیوں کو اپنی تیل کی صنعت کی نجکاری کرنے پر بندوق کی نوک پر مجبور کیا۔اس کے بعد عراقیوں سے ایسی قانون سازی کروائی گئی جس کے تحت بیرونی کمپنیوں اپنا 100 فی صد منافع بیرون ملک لے کر جاسکتی تھیں اور ان پر  حاصل کردہ منافع کی عراق میں دوبارہ سرمایہ کاری  کرنے کی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ اِس کے علاوہ   ان کمپنیوں پر ٹیکس کی شرح بھی 45 فی صد سے کم کر کے محض 15 فی صد کردی گئی۔ان اقدامات سےعراقی معیشت کو کتنا بڑا دھچکا لگا،  اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ عراقی حکومت کی آمدن کا 95 فی صد حصہ تیل کی پیداوار سے منسلک تھا، یعنی دوسرے لفظوں  میں آپ نے عراقی حکومت اور عوام کو اپنی آمدنی کے 95 فی صد حصے سے محروم کردیا۔

مالی امداد کے نام پر کھلی منڈی کی شرائط کا نفاذ:

 1980ء کی دہائی میں مغربی سامراجی  اقوام نے یہ سبق سیکھا کہ  ترقی پذیر ممالک کو مالی امداد سے محروم کرکے انہیں اپنی منڈیوں کو  مغربی کمپنیوں کے لئے کھولنےپر مجبور کی  جاسکتا ہے۔اگرچہ  آئی ایم ایف اور دیگر مغربی مالیاتی ادارے دنیا میں مالی استحکام قائم رکھنے کا دعوی کرتے ہیں مگر 1980 کی دہائی میں مشرقی یورپ اور ایشیا کے لئے  اُن کی نافذکردہ پالیسیاں ایک مختلف اور بھیانک کہانی سناتی ہیں۔ مغربی مالیاتی اداروں نے کمزور معیشتوں کو سہارا دینے کی بجائے انہیں  تباہ ہوتا ہوا  دیکھنے کو ترجیح دی۔۔مثال کے طور پر اَسّی کی دہائی کے آخری سالوں میں   پولینڈ میں (بائیں بازوکی) نئی حکومت آئی جس نے خود کو پچھلی حکومتوں کی طرف سے لئے گئے  قرضوں  کےبوجھ تلے دبا پایا۔ الیکشن مہم میں اصلاحات  سے متعلق وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حکومت کو مالی وسائل کی ضرورت تھی۔  چنانچہ پولش حکومت  نے امداد کے لئے مغربی مالیاتی اداروں سے  رابطہ کیالیکن ان اداروں نے کسی بھی قسم کی امداد مہیا کرنے سے انکار کردیا کیونکہ نئی حکومت ان اداروں کی تجویز کردہ نیو لبرل اصلاحات کرنے پر راضی نہ تھی۔   پولینڈ کی حکومت کو قومی اداروں کی نجکاری،  سٹاک مارکیٹ کھولنے اور بجٹ میں عوامی منصوبوں میں  کٹوتی پر مجبور کیا گیا جو کہ اُس کے انتخابی وعدوں کے بالکل برعکس عمل تھا۔

اِسی طریقے سے  ایشین ٹائیگرز(انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ملائشیا، ہانگ کانگ، سنگاپور، تائیوان، جنوبی کوریا وغیرہ) کو1997ء کے معاشی بحران کے دوران  جب مالی امداد کی ضرورت پڑی تو  آئی ایم ایف نے ان معیشتوں کو بچانے کی  کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ سادہ الفاظ ميں ان کا طرز عمل” معیشتوں کو تباہ کرنے والی  آگ کو جلنے دو“ جیسا تھا۔ مالی امداد، جس کی اُن اقوام کو شدید ضرورت تھی، کو روکے رکھنے سے مغرب نے اِن ممالک کے مالی مسائل کو مزید مشکل بنایا اور مالی امداد کے حصول کے لئے آئی ایم  ایف اور امریکہ کی پیش کردہ شرائط ماننے پر مجبور کردیا۔  مثال کے طور پر آئی ایم ایف نے نے جنوبی کوریا  کو اس شرط پر مطلوبہ رقم دینے پر آمادگی کا اظہار کیا کہ وہ سرکاری نوکریوں میں 50 فیصد کمی کردے گا۔ 

اِ ن تمام پالیسیوں کا لازمی نتیجہ بڑے پیمانے پر بیروزگاری، تنخواہوں میں کمی اورمقامی صنعتوں کی کمزوری  و خاتمے کی صورت میں سامنے آیا۔

عراق جنگ کی مثال:

عراق میں فوج اور تعمیرات کی نجکاری کے ذریعے امریکہ نے بڑی کمپنیوں کو بے انتہا دولتمند بنادیا۔  بڑے کاروباری اداروں اور حکومتوں کا گٹھ جوڑ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،  تاہم عراق میں تعمیرنو کے کام میں حکومت سے اتنے بڑے پیمانے پر ڈالر کمانے کی  مثال اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی۔ بش انتظامیہ نے ڈھیلے ڈھالے انداز میں حکومت چلانے کو ترجیح دی۔ مینجمنٹ کی زبان میں اسے ” Hollow      Shell      Model      Organization “ کہا جاتا ہے،  جس میں  مرکزی حکومت صرف اہم فیصلہ سازی اور رقوم کی ترسیل کے اختیارات اپنے پاس رکھتی ہے جب کہ باقی تمام عملی کا م مختلف پرائیویٹ کمپنیوں کے سپرد ( outsource)کردیتی ہے۔  اِس حکمت عملی کے نتیجے میں تعمیرات اور کان کنی کے شعبے سے وابستہ چند کمپنیوں نے ہوشربا منافع کمایا۔ یہاں تک کہ فوجی اور دفاعی  امور کو بھی نجی شعبےکے حوالے کردیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ تنصیبات کی حفاظت کا ذمہ نجی ٹھیکیداروں کو دیا گیا بلکہ فوجی آپریشن، چھاپے، گرفتاریاں، جیلوں کی حفاظت اور  تفتیش جیسے امور بھی نجی دفاعی کمپنیوں کو ٹھیکے پر دے دئیے گئے۔ 

حکومتی نظم ونسق کا یہ ڈھیلا ڈھالا ماڈل(Hollow      Shell      Model)  کارپوریٹ شعبے کے لئے انتہائی کشش رکھتا ہے۔  مثال کے طور پر، 2003ء میں بش انتظامیہ نے  نجی کمپنیوں کومختلف منصوبوں کےلئے327 ارب ڈالر  کے ٹھیکے دئیے ۔اسی طریقے سے بش کے دورِ اقتدار میں  پینٹاگون نے  سالانہ270 ارب ڈالر(137 ارب ڈالر اضافہ) نجی ٹھیکوں پر خرچ کئے۔ تعمیرِنو  اور دفاع کے نام پر دئیے گئے ان ٹھیکوں میں سے زیادہ تر بغیر کسی بولی   (tendering      process)کے براہ راست مَن پسند کمپنیوں کو جاری کئے گئے۔

اِن کمپنیوں کے منافعوں کو بڑھاوا دینے کے لئے  اِحتساب اور پوچھ گچھ (Audit      &      Accountability)   کا عمل بھی معطل کردیا گیا۔  مثال کے طور پہ عراقی کی  عبوری انتظامیہ(Coalition      Provisional      Authority)،  امریکی انتظامیہ اور Custer      Battles نامی   امریکی  کمپنی کے درمیان تعمیرِ نو کے ٹھیکوں میں گھپلوں کی تحقیقات کے لئے ایک عدالتی جنگ کا آغاز ہوا۔ عراق کی عبوری انتظامیہ نے  عدالت میں ثابت کردیا کہ امریکی کمپنی نے دھوکہ دہی اور جعلی رسیدیں بناکر حکومت سے رقوم حاصل کی ہیں۔ لیکن کمپنی کو اس بنا پر کوئی سزا نہ دی جاسکی کہ کمپنی پر عراقی قانون نافذ العمل نہیں تھا اور امریکی  قانون کے مطابق کمپنی کو انصاف کےکٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا تھا۔

مختصرا ًیہ کہ عراق کی تعمیر نو کے نام پر  مغربی ممالک کی بڑی کاروباری کمپنیوں نے لا محدود منافع اور فوائد  حاصل کئے۔

قطرینہ طوفان کی مثال:

یہی معاملہ قطرینہ نامی سمندری طوفان کے دوران پیش آیا۔ اس طوفان نے امریکی شہروں مسی سیپی اور نیو ارلینز کو متاثر کیا۔ اس طوفان کی شدت مسی سیپی میں زیادہ تھی اور نیو اورلینز پہنچتے پہنچتے کم ہو چکی تھی۔ اس سے تحفظ کے لئے نیو اورلینز کے سمندری بند کافی ہونے چاہیے تھے، لیکن ان کی دیکھ بھال میں ملٹری انجینئرنگ ڈویژن کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ بند ٹوٹ گئے۔ اِس لاپرواہی کے پیچھےسیاہ فام لوگوں کی جان و مال کے تحفظ سے متعلق امریکی سماج کا حقارت آمیز رویہ، نسلی اور طبقاتی تعصب اور  نیو لبرل ماڈل کی عوامی  سہولیات کے لئے فراہم کئے جانے والے مالی وسائل پر کٹوتی جیسے اقدامات چھپے ہوئے تھے۔ اِس قدرتی آفت کے دوران ہنگامی صورت حال سے نپٹنے والے امریکی ادارے عوام کو کسی قسم کی سہولیات اور تحفظ دینے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر ناکام رہے۔ پانی سے بچنے کے لئے لوگ اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر حکومتی امداد کا انتظار کرتے رہے لیکن پانچ دن تک انہیں خوراک اور صاف پانی پہنچایا نہ جاسکا۔  جن لوگوں کے پاس وسائل موجود تھے وہ پہلے ہی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکے تھے۔

اِس انسانی المیے کا شکار سیاہ فام عوام کو فاکس نیوز اور دیگر کارپوریٹ میڈیا ہاؤسز نے لٹیرا اوربدمعاش بنا کر پیش کیا جن سے  قریبی علاقوں میں رہنے والے سفید فام اور خوشحال لوگوں کو خطرہ لاحق تھا۔ پولیس نے مختلف مواقع کےدوران سیاہ فام لوگوں پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں کئی مقامی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ بعد میں پولیس کا یہ عمل قانون سے ماورا ثابت ہوا اور  شہری انتظامیہ کو ہلاک شدگان  کے خاندانوں کو ہرجانے کی رقم ادا کرنا پڑی۔ دوسری طرف سفید فام شدت پسند گروہ اسلحہ لے کر”سیاہ فام لوگوں کو شکار کرنے کے مواقع تلاش کرتے ہوئے“ شہر میں گھومتے رہے ۔

پولیس، فوج اور بلیک واٹر جیسی نجی سیکیورٹی کمپنیوں کا عوام کی جانب رویہ َہتک آمیز اور غیر انسانی تھا۔ شہر خالی کروانے کے لئے لوگوں کو بندوق کی نوک پر بسوں میں بھرا گیا۔ اکثر اوقات بچوں کو ان کے والدین سے جدا کردیا گیا۔ یوں تو  اس قدرتی آفت کے دوران ریاست کا اپنے شہریوں کی طرف طرز عمل پریشان کن تھا ہی، لیکن آفت کےٹل جانے کے  بعد ریاست کی پالیسیاں زیادہ ہولناک تھیں۔

 اسی دوران کھلی منڈی کے مشہور زمانہ معیشت دان ملٹن فرائیڈ مین  کا وال سٹریٹ جنرل میں مضمون چھپا جس میں اس نے  سمندری طوفان کے نتیجے میں سکولوں اور گھروں کے ویران ہونےکا ذکر کرتے ہوئے اِسے تعلیمی نظام میں جوہری تبدیلیاں کرنے کے لئے ایک نادر موقع قرار دیا۔ اِسی طرح ریپبلکن پارٹی کے رکنِ کانگریس رچرڈ بیکر نے اِسے سرکاری ہاؤسنگ سکیموں کے خاتمے کا ایک قدرتی اور خوش آئند عمل قرار دیا۔ کچھ ماہ کے اند ر اندر عوامی رہائشی سہولتوں کو ختم کرکے ان کی جگہ مہنگے اور  عالیشان بنگلے تعمیر کردئیے گئے  جو عام لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر تھے۔ 

ماحولیاتی آلودگی اور ریاستی غفلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اِس انسانی المیے سے تیل اور گیس کی صنعت نے بھی خوب فائدہ اٹھایا۔ تعمیر نو کے نام پر مزدوروں کی  کم سے کم اجرت اور ماحولیات کے تحفط سے متعلق  قوانین  کو معطل کردیا گیا جس کا براہ راست فائدہ تیل اور گیس کی کمپنیوں کو ہوا۔  ان کمپنیوں کو ماحولیاتی تحفظ سے متعلق پالیسیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آئل ریفائنریاں تعمیر کرنے  اور سمندر میں ڈرلنگ کی اجازت دے دی گئی۔    دوسری طرف نیو اورلینز کے بیشتر سکولوں کو نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا جس کے نتیجے میں عام لوگوں کے لئے تعلیم کا حصول مشکل ہوگیا۔  

سرکاری وسائل کو نجی شعبے  کی ملکیت میں دینے کی اِس بہتی گنگا میں تعمیر نو اور سیکیورٹی کے شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں نے خوب ہاتھ دھوئے ، جنہیں بغیر بولی اور نگرانی کے اربوں ڈالر کے ٹھیکے دئیے گئے۔ اِسی دوران عوامی سہولیات  اور ترقیاتی سکیموں سے متعلق بجٹ میں 40 ارب ڈالر سے زائد کی کٹوتی کی گئی جِس کا براہ راست اثر کم آمدنی والے نچلے طبقے پر پڑا او راُن کی زندگیاں پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہوگئیں۔  

اختتامیہ:

پالیسی سازی اور انقلابات کا عمل اتنا سادہ نہیں ہے جتنا نظر آتا ہے۔ بات چاہےبراعظم جنوبی امریکہ کی جابرانہ حکومتوں کی ہو، جنوب مشرقی ایشیامیں بڑے پیمانے پر  کی جانے والی نجکاری کی ہو یا عراق کو تباہ کرکے اس کی تعمیرِ نو کی ہو، حکومتوں اور  معاشی پالیسیوں میں اہم تبدیلیاں صرف عوام کی خواہشات کے مطابق وقوع پذیر نہیں ہوتیں، بلکہ اس میں  نئی منڈیوں کی تلاش کےلئے سامراجی اقوام اورملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ایک اہم مشورہ:

اگر آپ واقعی جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت کی بنائی ہوئی پالیسیوں کی قوتِ محرکہ کیا ہے، تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ تلاش کیا جائے کہ ان پالیسیوں سے فائدہ  اور منافع کون حاصل کرے گا۔آج کی دنیا میں کاروبار اور سیاسی نظریات  کو جدا کرنا ناممکن ہوچکا ہے، اس لئے زیادہ امکان یہی ہوتا ہے کہ ان پالیسیوں کے اثرات کارپوریٹ میڈیا میں پیش کئے گئے شور شرابے سے کہیں زیادہ گہرے اور پیچیدہ ہوں گے۔

دیگر اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کریں:

اپنے ملک کی تاریخ کو گہرائی میں سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ دیگر اقوام کی تاریخ کا بھی بغور مطالعہ کریں۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی معاشرہ باقی دنیا سے کٹ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہر ملک کی کوشش یہی  ہوتی ہےکہ وہ  بین الاقوامی سطح پر اپنا مثبت تاثر (امیج )قائم کرے۔ تاریخ کی درست اور جامعیت پر مبنی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم مختلف اور متضاد ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اُس کی بنیاد پر اپنی تجزیاتی صلاحیت کو مضبوط اور گہرا بنائیں۔ 

ماخذات:

https://lifeclub.org/books/the-shock-doctrine-naomi-klein-review-summary

https://www.theguardian.com/us-news/2017/jul/06/naomi-klein-how-power-profits-from-disaster

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search