پروٹسٹنٹ عقائد اور سرمایہ دارانہ شعور: میکس ویبر (تاثرات: طارق عباس)
تعارف:
زیرِ نظر کتاب ( The Protestant Ethic and the Spirit of Capitalism ) کو بیسویں صدی کے اعلیٰ ترین اذہان اور شعبۂ سماجیات کے بانیان میں شمار کئے جانے والے مفکر میکس ویبر کی اہم ترین تصانیف میں شمار کیا جاتا ہے۔ ویبر بذات خود اور اُن کی مذکورہ تصنیف دونوں ہی اپنی گہرائی اور گیرائی کے اعتبار سے معروف ہیں لیکن چونکہ متن کا جہانِ معنی اپنی مکمل دریافت کے لئے قاری کے فہم اور وسعتِ مطالعہ دونوں کا متقاضی ہوتا ہے لہذاٰ ذیل میں پیش کیا گیا تبصرہ راقم کے ناقص فہم اور محدود علم، دونوں کے باعث، اپنی نوعیت میں نہایت مبتدیانہ اور شاید سادہ فکری پر مبنی ہے۔ پر یہ امید رکھنا بے جا نہ ہو گا کہ اس کتاب کی اہلِ علم احباب سے شناسائی و تعارف نہ صرف گفتگو کے ایک نئے سلسلے کے آغاز میں معاون ہو گی بلکہ ہمارے اپنے سماجی رویوں کو سمجھنے کے بھی بہت سے در وا کرے گی۔
پس منظر:
کتاب کے مشمولات کے ذکر سے پہلے راقم اس کے پس منظر پر کچھ عرض کرنا چاہے گا۔ میکس ویبر کارل مارکس کے نظریات سے بہت زیادہ متاثر تھے، بالخصوص اس تصور سے کہ جدید سرمایہ دارانہ معاشرہ غیر شخصی (Depersonalization) اور بیگانگی (Alienation) سے مملو ہے۔ لیکن مارکس نے ان رویوں کی جو توجیہات بیان کی تھیں ویبر اُن سے کلیتاً اتفاق نہیں کرتے تھے اور نہ ہی وہ مارکس کی پرولتاری انقلاب کی پیشین گوئی پر ایمان رکھتے تھے۔جہاں مارکس کے نزدیک انسانی رویے (Depersonalization اور Alienation) سرمایہ دارانہ نظام کا نتیجہ تھے، وہاں ویبر کے نزدیک انسانی رویوں (جن کا ذکر ذیل میں ہے ) کا نتیجہ سرمایہ دارانہ نظام تھا۔ ویبر کا سماجی تجزیہ جدید انسان کے مشینی، غیر شخصی اور بیگانگی پر مبنی رویوں کی یک لفظی توجیہ کرتا ہے، اور وہ ہے عقلیت پرستی (Rationalization)۔اور اس توجیہ کو وہ نہایت وضوح سے بیان فرماتے ہیں۔
ویبر کے نزدیک سرمایہ دارانہ معاشرے کی فیصلہ کُن خصوصیت اُس کا Work Ethic ہے (جسے ویبر Spirit of Capitalism کا نام دیتے ہیں) جو جدید معیشت کو چلانے کیلئے ایندھن کا درجہ رکھتا ہے اور جس کا واحد مقصد دولت اور منافع کا حصول ہے۔ ویبر کے مطابق یہ Work Ethic چار اجزاء کا مجموعہ ہے: عقلیت (Rationality)، شمار پذیری (Calculability)، انفرادی خود ضابطگی (Individual Self-Regulation)، اور نفع (Gain)
مارٹن لوتھر، جان کیلون اور کیلون ازم(Martin Luther, John Calvin, and Calvinism)
رومن کیتھولک چرچ اپنے پیروؤں سے ایک راہبانہ زندگی کا مطالبہ کرتا تھا اورروزمرہ کے کام کاج کو وقت کا ضیاع گردانتا تھا جبکہ اس کے برعکس Protestantism کے پیروؤں سے یہ توقع رکھی جاتی تھی کہ وہ اپنی دنیاوی ذمہ داریاں بطریق احسن انجام دیں۔ ویبر کے نزدیک Protestantالہیاٰت اور عقائد متعین کرنے میں جرمن عالم دین مارٹن لوتھر کاکردار کلیدی تھا۔ لوتھر وہ پہلا شخص تھا جس نے دنیاوی زندگی کی ذمہ داریاں انجام دینے کو بھی زندگی کا حصہ قرار دیا تھا۔ لوتھر کے مطابق مذہبی عقیدہ the calling کی حقیقت یہ تھی کہ روزگار کمانا اور عبادت ہم معنی ہیں۔ (مارٹن لوتھر دراصل روایت کا منکر تھا۔ اور یہاں اس نے the calling کو خود سے معنی پہنائے اور عیسائیوں کی دینی روایت میں جو معنی چلے آ رہے تھے انہیں یکسر رد کر دیا اور ایک نیا جہانِ معنی ’دریافت‘ کیا۔ ضمناً عرض ہے کہ جس طرح ویبر کا آہنی پنجرہ آج ہم انسانوں کی آماجگاہ ہے بعینہ اسی طرح مارٹن لوتھر کی فکربھی تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے اور دبستانِ شبلی و فراہی اُس کے ورثا ہیں)۔ لوتھر کے افکار دو دہائیوں کے اندر اندر جڑ پکڑ گئے اور غالباً تاریخ کے سب سے بارسوخ مصلح جان کیلون کی سرپرستی میں انہیں پنپنے کا مزید موقع ملا۔
Roman Catholic اور Protestants کا جوہری فرق
اپنی کتاب میں ویبر مغربی معاشرے کے قبائلی روایات اور مذہبی فرائض کے علمبردار ہونے سے لے کر ایک مکمل غیر مذہبی (Secular) اور مالی مفادات کے پیرو معاشرے میں تبدیل ہونے کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور ویبر کا معرکۃ الآراء کارنامہ یہ ہے کہ اس تبدیلی کی وجہ وہ مذہب کو قرار دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کے نزدیک مذہب صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) کے بنیادی محرکات میں سے تھا۔
ویبر نے اس امر کا بغور مشاہدہ کیا کہ سرمایہ دارانہ نظام Protestant ممالک میں پھیلا جبکہ Roman Catholic ممالک سرمایہ دارانہ نظام سے نسبتاً محفوظ رہے تھے۔ اُن کے نزدیک اس کی وجہ سے تھی کہ Catholic تعلیمات اپنے لوگوں کو حال پر قانع اور روایات سے جڑے رہنے کی تعلیم دیتی تھیں جبکہ اس کے برعکس Protestant تعلیمات اپنے پیروکاروں کو تبدیلی کا درس دیتی تھیں۔ ویبر کی والدہ کا مذہب بھی Protestantism تھا اور وہ اُس کے فرقہ Calvinism سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس فرقہ کے عقائد کے مطابق انسان کے جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ اُس کی پیدائش سے قبل کر دیاجاتا ہے۔ اور اپنی اس اٹل تقدیر کو وہ قبل از موت نہیں جان سکتا۔ ویبر کے مطابق اس عقیدے نے Calvinists کو بہت بے چین کر ڈالا تھا۔ اور وہ نہ صرف یہ جاننے کے خبط میں مبتلا ہو چلے تھے کہ بعد از موت ان کا مقدر کیا ہے بلکہ اخروی نجات اُن کا واحد مقصد بن چُکا تھا۔انہیں اپنے حال میں رہتے ہوئے یہ جاننا تھا کہ موت کے بعد اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اس روحانی پس و پیش کا ’حل‘ Calvinists نے یہ عقیدہ متعین کر کےنکالا کہ ’’خدا جن پر بعد از موت مہربان ہو گا انہیں وہ اسی دنیاوی زندگی میں اخروی کا میابی کا نشان دکھائے گا، اور وہ نشانی دولت ہو گی‘‘۔ یعنی اگر آپ دولتمند ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ خدا کی جانب سے آپ کو اشارہ ہو گا کہ آخرت میں جنت آپ کا مقدر ٹھہرے گی وگرنہ نہیں۔ اور ویبر کے نزدیک یہ عقیدہ دولت کی بے لگام جستجو پر منتج ہوا۔
جہاں مارکس کے نزدیک سرمایہ دارانہ نظام ایک قدرتی اور ناگزیر امر تھا وہاں ویبر کے نزدیک اس نظام کے محرکات سماجی عوامل تھے۔ ویبر کے مطابق اشیائے صرف اور خدمات (Goods and Services) کی اپنی مالیت یا حیثیت سے زائد قیمت پر فروخت سرمایہ دارانہ نظام سے ہی خاص نہیں ہے۔ تاریخ بھر میں ایسا ہوا ہے کہ لوگوں نے منافع کی غرض سے اشیاء کی خرید و فروخت کی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ جو امر تاریخی اعتبار سے خاص ہے وہ منافع کا فی نفسہ مقصد (Pursuit of profit becoming an end in itself) بن جانا ہے۔
The Iron Cage of Rationality
صنعتی انقلاب سائنس اور انجینئرنگ میں ترقی کے باعث وجود پذیر ہوا لیکن اپنے ساتھ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا جہیز بھی لایا۔ یہ نظام لوگوں سے خالصتاً عقلی بنیادوں پر فیصلے کی توقع رکھتا ہے، ایسے فیصلے جن کی بنیاد صرف اور صرف بہتر کارکردگی (Efficiency) اور خرچ و نفع (cost-benefit analysis) کا تجزیہ ہو۔وپبر کے مطابق اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام کے بہت سے مادی فوائد سامنے آئے لیکن سماجی اعتبار سے یہ تباہ کُن ثابت ہوا، روایتی سماجی اقدار کی جگہ عقلیت پرستی نے لے لی جس سے ویبر کے مطابق انسانوں میں مایوسی (Disenchantment) پیدا ہو گئی، یعنی اُن کی زندگیوں کا ایک جادوئی اورلطیف حصہ جمع تفریق کی نذر ہو کر رہ گیا ۔ یعنی اب انسان کے تمام تر سماجی رویوں کا محوِ نظر مالی نفع تھا۔ اور ان عقلیت پر مبنی رویوں کو ویبر آہنی پنجرہ (Iron Cage) کہتے تھے۔ ویبر کے مطابق یہ آہنی پنجرہ وہ سماجی دباؤ ہے جو ہر انسان دوسروں کی جانب سے خود پر اور خود سے بھی خود پر محسوس کرتا ہے۔اور یہ دباؤ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اعمال کی انجام دہی کی بنیاد محض مفاد ہو۔مثلاً ہم میں سے بہت سے لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم ایک corporate rat race میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے پیشے میں آگے سے آگے بڑھنے کی مسلسل تگ و دو ہماری زندگیوں کا محور ہے۔یہ آہنی پنجرہ اس نوعیت کا ہے کہ یہ انسانوں کو ایک غیر مرئی قید خانے میں مقید رکھے ہوئے ہے۔ویبر کے مطابق ہمارے معاشرے میں محنت اور روزگار کمانے، ان دو ’اقدار‘ پر اس قدر زور دیا جاتا ہے کہ یہ دو اقدار ہمارے تمام اعمال پر حاوی ہو چُکے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ ہمارے تمام افعال عقلیت پرستی کے تابع ہو چُکے ہیں۔
سوچئے کہ جب آپ کسی سماجی محفل میں یا تقریب میں کسی سے ملتے ہیں تو بالعموم آپ کا پہلا سوال کیا ہوتا ہے: ’’آپ کرتے کیا ہیں؟‘‘ ہمارے سرمایہ دارانہ معاشرے میں ہماری پہچان ہمارا روزگار اور بالواسطہ یا بلاواسطہ ہماری آمدنی بن چُکے ہیں۔معاشرہ ہمیں مجبور کر دیتا ہے کہ ہم اپنی تمام ترجیحات میں ’’پریکٹیکل‘‘ ہو جائیں۔ اور یہی توقع ہم خود بھی دوسروں سے رکھتے ہیں۔
سلبِ انسانیت (Dehumanization)
ویبر اس امر پر فکر مند تھے کہ انسانی معاشرہ ایک مشین اور انسان اس مشین کا ایک پرزہ بن کر رہ گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ، جس نے صنعت و حرفت پر مبنی ایک مثالی معاشرے کا دعویٰ کیا تھا، صرف کام اور اس کے نتیجے میں پیسہ (work and money) اس کا منشور بن چکا تھا۔ قوانین و ضوابط پر مبنی معاشرہ نہ صرف انسان کے صلاحتیں محدود کر ڈالتا ہے بلکہ اس کی انسانیت کو بھی سلب کر لیتا ہے جسے ویبر Dehumanization کہتے ہیں۔ اور لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک بے جان اور سخت گیر قوانین پر مبنی معاشرے میں جی رہے ہیں۔ چونکہ عقلیت پرستی (Rationalization) کا بنیادی مقصد کام کو باکفایت طریق پر انجام دینا ہوتا ہے اس وجہ سے فرد کسی بھی سرمایہ دار ادارے میں کام کرتے ہوئے اپنی انفرادیت کھو بیٹھتا ہے۔ اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کی خواہش کی جگہ بہتر نوکری کے حصول کا دیوانگی کی حد تک جنون، زیادہ سے زیادہ تنخواہ اور بلند معاشرتی مرتبے کا تعاقب لے لیتے ہیں۔اور یوں آپ کی تخلیقی صلاحیت (Creativity) سے زیادہ حیثیت آپ کی کارکردگی (productivity) حاصل کر لیتی ہے۔ اور ویبر کے نزدیک یہ ڈس انچانٹمنٹ اس مادی حصول کی قیمت ہے جو انسان کو سرمایہ دارانہ نظام سے حاصل ہوئے ہیں۔
جہاں تک سلبِ انسانیت کے ظہور کا تعلق ہے تو وہ ویبر کے بعد مسلسل بہت سی صورتوں میں دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اور اس کی ان گنت مثالیں ہم اپنے ارد گرد بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا یہ جا نہ ہو گا کہ ہم اسی آہنی پنجرے میں قید ہیں جس کا ویبر ایک صدی قبل ادراک کر چکے تھے۔ ویبر نے یہ پیشین گوئی کی تھی (جو حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی) کہ عقلیت پرستی کے نتیجے کے طور پر سرمایہ دارانہ معیشت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اس کے مظاہر ہمارے سامنے ہیں: یہ rational calculation ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم گلی محلے سے دکانوں کا انتقال سپر سٹورز اور شاپنگ مالز میں ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اور مشین سے مال تیار کرنے کا عمل (manufacture) اور کلرکی نوکریاں (clerical jobs) زیادہ سے زیادہ تیسری دنیا کے ممالک میں منتقل ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ تاکہ لاگت کم سےکم اور منافع زیادہ سے زیادہ حاصل ہو۔
The pursuit of profit
مارکس کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام کا منشور زیادہ سے زیادہ منافع ہے۔ لیکن ویبر یہاں ضمنی اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے یہ عمل دیکھنے میں آیا ہے کہ اپنی صلاحیت یا خدمات یا اشیائے صرف کو لوگوں نے زیادہ منافع کی غرض سے بیچا ہے لیکن جدید سرمایہ دارانہ نظام کے منافع میں فرق یہ ہے کہ یہاں منافع کا حصول فی نفسہ ایک مقصد بن گیا ہے (The pursuit of profit has become an end in itself) ۔ منافع فی نفسہ مقصد بن جانے کی مثالوں سے جدید دنیا بھری پڑی ہے۔ اور اس کی ایک چھوٹی سی مثال بین الاقوامی بنک HSBC ہے جس نے 2013 میں22.6 ارب ڈالر کا منافع کمایا۔ اور ایک رپورٹ کے مطابق اگر صرف اس ایک سال کا منافع اس بنک کے دنیا بھر میں موجود ملازمین میں برابر تقسیم کر دیا جاتا تو وہ اپنی بقیہ زندگی بغیر ملازمت کئے گھر بیٹھ کر گزار سکتے تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسا سوچنا دیوانے کا خواب ہے۔ HSBC اور اس طرح کے بیسیوں ادارے اس منافعے کی دوبارہ سےسرمایہ کاری (investment) کرتے ہیں اور مزید منافع کماتے ہیں۔ اور جیسے کہ ہم پہلے ذکر کر چُکے ہیں، ویبر کے نزدیک دولت کی اس بے لگام جستجو کا بیج Protestantعقیدے کا بویا ہوا ہے جو آج ایک تناور درخت بن چُکا ہے۔