مِڈ لائف ”کرائسس“؟ تحریر: عامر منیر

 In تاثرات

نفس انسانی کی بنیادی حرکیات کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش میں تہذیبی اور تاریخی تناظر کی پیدا کردہ پیچیدگیوں کی سب سے عمدہ مثال شاید درمیانی عمر کے بحران midlife crisis کا تصور ہے۔ بیشتر روایتی معاشروں میں روایتی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چالیس سال کی عمر کے بعد انسان ایک ایسی شعوری پختگی کو پہنچ جاتا ہے جس میں زندگی اور دنیا سے متعلق بہت سے حقائق اس پر تجربات کے ذریعے واضح ہو چکتے ہیں، موت ایک نسبتاً واضح اور سامنے کی حقیقت دکھائی دینے لگتی ہے جو دن بدن قریب چلی آ رہی ہے، اور اس مرحلہ عمر کی جسمانی تبدیلیاں اوائل عمری کے منہ زور جذبات سے جنم لینے والے بہت سے تصورات اور عادات کو انقلابی طور پر تبدیل کر دیتی ہیں اور اس کے زاویہ نگاہ میں مجموعی طور پر ایک زیادہ بہتر انسانی، آفاقی اور روحانی رچاؤ کے ساتھ دانش اور فراست در آتی ہے، اسی لئے ان معاشروں میں پختہ عمری کو احترام اور تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، سفید بالوں کو عزت دینے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسلامی تہذیب میں خصوصاً چالیس سال کی عمر کو خاص اہمیت اور تکریم دی جاتی ہے، جس کا ماخذ قرآن حکیم کی یہ آیت کریمہ ہے۔

اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا ۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤ ں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد کو بھی صالح بنا ۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال تو ہم قبول فرما لیتے ہیں اور جن کے بد اعمال سے درگزر کر لیتے ہیں ( یہ ) جنتی لوگوں میں ہیں ۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا ہے ۔ (الاحقاف:15،16)

منجملہ دیگر بہت سے بلیغ اشاروں کے، یہ امر قابل غور ہے کہ اس عمر میں خود انسان پر اپنے والدین کی جدوجہد اور ان مشکلات کی حقیقت کھلنے لگتی ہے جو انہوں نے اسے پالنے پوسنے کے دوران برداشت کیں اور تجربے کے توسط سے ہونے والا یہ ادراک انسانی نفسیات کے لئے بہت گہرے مضمرات رکھتا ہے، بلکہ معاشرتی روایات کے ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہونے کی حرکیات میں بھی اس کا گہرا کردار ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ روایتی معاشروں میں اسے کہیں بھی ایک کرائسس اور بحران نہیں سمجھا جاتا، بلکہ بچپن کے بعد نوجوانی اور اس کے بعد جوانی کی آمد کے مانند انسان کے اگلے مرحلہ عمر میں داخل ہونے کا دور سمجھا جاتا ہے، جو اتنا ہی خوش آئند ہے جیسا کہ اس سے پہلے کے ادوار کی آمد ۔

صرف ایک ایسا کلچر اور ایک ایسا معاشرہ ہی اسے بحران قرار دینے اور سمجھنے پر منتج ہو سکتا ہے جس نے اپنی اقدار اور اپنے اصول اس مسرت، تلذذ اور ولولے excitement کے گرد استوار کر رکھے ہیں جو صرف جوانی کے مرحلہ عمر کا خاصہ ہیں، جو اس مسرت، تلذذ اور ولولے سے پوری زندگی کو متعین کرنے کے لئے کوشاں ہے، صرف یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ روایتی اور مذہبی تصورات سے آزادانہ طور پر زندگی کو متعین کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ایک ایسے کلچر کے لئے یقینا ایک بحرانی دور ہو گا جس میں اس کا پیدا کردہ شخص دیکھتا ہے کہ جن اقدار کو وہ پوری زندگی پر محیط سمجھتا تھا، وہ اس مرحلہ عمر میں بکھر کر ریزہ ریزہ ہو رہی ہیں، اس کی ذات انہیں مزید قبول کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ ایک وسیع تر آفاقی اور انسانی تناظر کی طلبگار ہے جو اس کے ارفع تر انسانی ممکنات کی بہتر نمود کے مواقع فراہم کر سکیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ مذہب / روایت جن کے دامن میں اس کے سوالوں کا جواب اور مشکلوں کا حل ہے، وہ اس کے لئے ایک دشمن، ایک عفریت، ایک راکھشس کی سی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ اسے بتایا گیا ہے کہ یہ اس کی مسرت اور آزادی کے دشمن اور اس پر مسلط ایک زنداں ہیں۔

ایسے شخص کے لئے یقینا یہ مرحلہ عمر ایک بحرانی دور ہو گا جو اس کی شناخت اور استوار ذات کے دھجیاں بکھیرنے اور پرخچے اڑانے کے درپے ہے۔ جبکہ اسی دنیا میں، شاید اس کے ساتھ والے گھر میں آباد تارکین وطن کے کسی گھرانے میں ایک شخص بے فکری کے ساتھ اسی مرحلہ عمر سے گزرتا، اس کی پیدا کردہ تبدیلیوں کو ایک انسانی سادگی کے ساتھ قبول کرتا اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتا، اپنی روایات اور مذہبی احکام پر نسبتاً زیادہ استحکام اور استقلال کے ساتھ عمل پیرا ہو گا، اور یہی مرحلہ عمر اس کی شناخت کو مزید مضبوط اور استحکام اور اس کی ذات کو دانش اور فراست سے معمور یوں ایک نیا روپ دے رہا ہو گا کہ اسے کسی بحران سے گزرنے کا احساس تک نہ ہو۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search