معاشرے کی میکڈونلڈائزیشن:جارج رٹزر (تاثرات: طارق عباس)
جارج رٹزر (George Ritzer) نیویارک امریکہ کے ایک متوسط گھرانے میں 1940 میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک ٹیکسی ڈرائیور اور والدہ بطور سیکریٹری ملازمت کرتی تھیں۔ رٹزر کا کہنا ہے وہ ان تھک محنت کے بعد اس مقام پر پہنچے ہیں جس پر وہ آج ہیں۔اُن کی شروع سے یہ خواہش رہی تھی کہ وہ اس لوئر مڈل کلاس زندگی سے چھٹکارا پا سکیں جس میں اُن کا بچپن اور لڑکپن گزرا۔ انہوں نے 1974 میں چونتیس برس کی عمر میں امریکہ کی ایک نامور جامعہ یونی ورسٹی آف میری لینڈ میں ملازمت اختیار کی اور اب وہ وہاں کے ایک معروف اور معتبر پروفیسر ہیں۔ آپ نے بہت سے سماجی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے لیکن زیرِ تبصرہ کتاب (Mcdonaldization of Society) آپ کی عالمی وجہِ شہرت ہے۔
پس منظر:
بیسویں صدی کے نامور اور شہرۂ آفاق مفکراور ماہر سماجیات میکس ویبر کے مطابق روایتی معاشرے سے جدید معاشرت کی جانب shift کی فیصلہ کُن وجہ زندگی کے بہت سے بنیادی پہلوؤں کا اقداری اور روایتی نہج سے تنظیمی اور عقلی جہتوں پر استوارہو جانا تھا۔ ویبر کے اسی موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے جارج رٹزر کے مطابق یہ تنظیمی رجحان اور عقلیت پرستی ترقی کے زینے طے کر کے ایک نئی سطح پر پہنچ چکا تھا۔ اور بالخصوص یورپ اور شمالی امریکہ اس کا شکار ہوئے تھے۔ اپنی تصنیف The McDonaldization of Societyمیں رٹزر کہتے ہیں کہ عقلیت پرستی کا ایک وسیع تر رجحان McDonalds کی فاسٹ فوڈ chains میں سب سے زیادہ وضوح کے ساتھ دیکھنے میں آتا ہے۔
تعارف:
دنیا بھر میں میکڈونلڈ کی 35000 سے زائد شاخیں 100 سے زائد ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ اور قطع نظر اس کے کہ وہ کس ملک اور کس شہر میں واقع ہیں، آپ کو اس کی ہر شاخ پر حیران کر دینے والی بے نقص و بے عیب یکسانیت اور reliability دیکھنے کو ملے گی۔ آپ کو ذائقے اور experience کی شناسائی اپنی بھرپور کاملیت میں نظر آئے گی۔ کبھی ایسا نہ ہو گا کہ آپ کو کسی ایک برانچ پر کسی دوسری برانچ سے مختلف ذائقہ کھانے کو ملے۔ رٹزر اس ’کامیابی‘ کی وجہ ویبر کے Rationalization کے تصور کو قرار دیتے ہیں اور میکڈونلڈ میں اس تنظیمی اور عقلی مظہر کو میکڈونلڈائزیشن ( McDonaldization )کا نام دیتے ہیں۔ رٹزر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ادارے کے طریقہ ہائے کار اور رجحانات امریکی معاشرے کے کم و بیش ہر سیکٹر میں نہایت سرعت کے ساتھ سرایت کر رہے ہیں۔
رٹزر کے مطابق میکڈونلڈائزیشن کا phenomenon پانچ اجزاء کا مجموعہ ہے:
1۔ Efficiency
2۔ Calculability
3۔ Predictability
4۔ Control
5۔ Ultimate irrationality of formal rationality
ان پانچ اجزاء کی تفصیل میں جانے سے قبل یہ اعادہ یہاں ضروری ہے کہ رٹزر کی تحقیق اگرچہ اوریجنل ہے لیکن اس کی بنیاد مکمل طور پر ویبر کی فراہم کردہ ہے اور اس امر کے وہ خود بھی اقراری ہیں ۔ رٹزر کا کہنا ہے کہ میکڈونلڈائزیشن کے یہ پانچ اجزاء ہمارےانفرادی اور اجتماعی سماجی ڈھانچے کو اپنی لپیٹ میں لیتے جا رہے ہیں ۔ رٹزر کا یہ دعویٰ دراصل ویبر کے مقدمے ہی کی توسیع ہے۔ ویبر کہتے ہیں کہ Rationalization کا عمل ایک مرتبہ شروع ہو جانے کے بعد خود کار طریقے سے پھیلنا شروع ہو جاتا ہے اور اس کا پھیلاؤ تب تک جاری رہتا ہے جب تک کہ یہ سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ مارکیٹ کی دوڑ میں آگے نکلنے کیلئے ایک ادارہ ترقی کرتے ہوئے ادارے کے اصول و ضوابط کی پیروی کرتا ہے اور یوں سارا معاشرہ عقلیت کا محتاج ہو کر رہ جاتا ہے۔ رٹزر اس کی کئی مثالیں دیتے ہیں جیسے میکڈونلڈ سے دس برس بعد 1965 میں قائم کی جانےوالی فاسٹ فوڈ کمپنی Subway اور بچوں کے کھلونے اور کپڑوں کی فروخت کا ادارہ Toys“R”Usاور ایسے بہت سے دوسرے اداروں نے ارادی طور پر میکڈونلڈ کا نمونہ اختیار کیا ہے کیونکہ یہ اقتصادی اعتبار سے نتیجہ خیز ہے۔
آئیے اب میکڈونلڈائزیشن کے پانچ اجزاء کا جائزہ ڈاٹ پی کے پہ ترتیب وار جائزہ لیتے ہیں۔
Efficiency
ایفیشینسی (فعالیت) سے رٹزر یہ مراد لیتے ہیں کہ میکڈونلڈ اپنی اعلی قیادت سے لے کر ملازمین حتیٰ کہ گاہکوں تک کو ایک دفتری ضابطے کا پابند بناتاہے۔ مثلا ً میکڈونلڈ میں برگرز کی تشکیل (assemblage)، انہیں تیار کرنے کا طریقۂ کار (Cooking)، اور انہیں گاہکوں کو فروخت (Distribution) کئے جانے کا طریقہ ایک خود کار assembly-line کے مشابہ ہے۔ اور ایسا اس لئے ہے کہ یہ سب سے efficient طریقہ ہے۔ اس efficiency میں نہ صرف برگر کی تیاری شامل ہیں بلکہ وہ جگہ بھی باقاعدہ گنتی میں شمار کی جاتی ہے جہاں برگرز تیار کئے جاتے ہیں۔ ریسٹورینٹ کا اندرون اس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے جو ملازمین اور گاہک دونوں کیلئے efficient ہو۔ ملازمین کو standardized norms ، قوانین، دستور، اور operational procedures کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔
Calculability
اس سے مراد اشیاء کا گنا جا سکنا (count) اور مقدار کا تعیین (quantification) ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ میکڈونلڈ میں مقدار (quantity) کو کوالٹی پر ترجیح دیے جانے کا رجحان ہے۔جیسے ہم Big Mac کا اشتہار تو دیکھیں گے لیکن ذائقے کو بہتر بنانے کے اعتبار سے کوئی بھی تشہیری مہم ہم شاذ ہی دیکھتے ہیں۔ اور رٹزر کے مطابق میکڈونلڈ میں ملازمین کے لئے اپنی ذمہ داریاں ایک معین وقت میں پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس سے افعال کی بروقت انجام دہی کے ساتھ ساتھ ادارے میں ایک پیداوارانہ (productive) سوچ اور ثقافت کو اجاگر کرنے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔
Predictability
چاہے آپ صبح کے وقت میکڈونلڈ جائیں چاہے رات گئے، آپ ایشیا میں ہوں یا یورپ میں، آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ کو میکڈونلڈ میں کیسا ذائقہ ملے گا اور مینیو کہاں پڑا ہو گا، آرڈر کس طرح کرنا ہے، کہاں بیٹھ کر کھانا ہے، کہاں ادائیگی کرنی ہے۔ یہ McDonaldized اداروں کی سب سے واضح نشانی ہے۔
Control
کنٹرول کا براہ راست تعلق ٹیکنالوجی سے ہے۔ ادارے کے ملازم کا اشیائے خورد کے خوش ذائقہ (یا بد ذائقہ) ہونے میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ جس مشین پر برگر تیار کئے جاتے ہیں، ملازم اور گاہک دونوں پر حاوی ہوتی ہے۔ نہ گاہک یہ تقاضا کر سکتا ہے کہ اسے ذائقے میں فلاں تبدیلی چاہئے نہ ملازم کے پاس اس تقاضے کو عمل میں لانے کا کوئی ذریعہ موجود ہوتا ہے۔ نہ گاہک یہ کہہ سکتا ہے کہ ’’یار ذرا جلدی بنا دینا‘‘، نہ ملازم خود ’’جلدی سے بنا کے‘‘ بقیہ وقت موبائل فون چلانے میں صرف کر سکتا ہے۔ کیونکہ برگر کی تیاری کا وقت مشین طے کرتی ہے۔
رٹزر کی یہ بھی پیشین گوئی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایسی ٹیکنالوجی جو انسانوں سے زیادہ predictable اور controllable ہو گی وہ انسانوں کی جگہ آ براجمان ہو جائے گی۔
Ultimate irrationality of formal rationality
آخر میں رٹزر بتاتے ہیں کہ ہمیں اس بظاہر سود مند عقلیت پرستی (Rationalization) کی کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔وہ خود کو ویبر کا مقروض سمجھتے ہیں جنہوں نے یہ سمجھنے میں ان کو مدد فراہم کی کہ عقلیت پر مبنی نظام معماتی طور پر غیر عقلی اثرات اور غیر متوقع نتائج پر ختم ہوتے ہیں۔ Irrationality کا مطلق اظہار گاہک اور ملازمین دونوں پر Dehumanizing Effects کی صورت میں ہوتا ہے۔ ان کے مشاہدے کے مطابق میکڈونلڈ کے ملازمین ایک بے دماغ (mindless) پروڈکشن سسٹم کا حصہ ہوتے ہیں اور بہت تھوڑی تنخواہ کے عوض انہیں بہت سخت حالات میں کام کرنا ہوتا ہے۔ملازمین کیلئے اپنی انفرادیت کے اظہار یا work environment میں کوئی جدت پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جس سے ملازم کے اندر عدم اطمینان اور بیگانگی جنم لیتی ہے ۔ رٹزر یہی وجہ بتاتے ہیں کہ میکڈونلڈ میں سٹاف مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے کیونکہ کوئی ملازم اس شدید یکسانیت سے مملو ادارے میں کام کر کر کے تبدیلی کے چند لمحوں کا خواہاں ہوتا ہے، یوں نئے ملازمین بھرتی ہوتے رہتے ہیں اور پرانے رخصت ہوتے جاتے ہیں۔
Dehumanizing Settings and Circumstances
رٹزر کہتے ہیں کہ گاہکوں کا طویل قطاروں میں غیر صحت مندانہ خوراک (fast food) خریدنے اور کھانے کیلئے کھڑا ہونا Dehumanizing Settings and Circumstances کی ایک مثال ہے۔ علاوہ ازیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس رفتار سے میکڈونلڈ میں کھانا تیار ہوتا ہے وہ اس امر کو محال بنا دیتا ہے کہ وہاں اعلی معیار کی اور صحت مندانہ خوراک فروخت کی جا سکے کیونکہ ایسی خوراک کی تیاری میں زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔
رٹزر کی اس تحقیق اورمیکڈونلڈائزیشن کے phenomenon کا سب سے تکلیف دہ پہلو رٹزر اور برطانوی ماہرین سماجیات ڈینس ہائس اور رابرٹ وائن یارڈ کا اعلی تعلیمی اداروں (ہائر ایجوکیشن) پر اس کا اطلاق ہے ۔ دونوں ماہرین رٹزر کی تحقیق کے اثرات کی اعلیٰ تعلیمی ڈھانچے میں موجودگی اپنے مضامین کے مجموعے The McDonaldization of Higher Education میں واضح کرتے ہیں۔ہائس کا دعویٰ ہے کہ اعلیٰ تعلیم جو ایک دور میں روایتی اقدار کی بنیاد پر وجود میں آئی، اب کالج سے لے کر یونی ورسٹی اور پوسٹ گریجویٹ ایجوکیشن تک میں standardization, calculability اور اس طرح کے دوسرے غیر انسانی عناصر کا شکار ہو چکی ہے۔اور چونکہ طالبعلم تعلیم ایک خاص ’مقصد‘ کے تحت حاصل کر رہے ہوتے ہیں اس لئے تعلیم اپنے اقداری مقاصد سے خود بخود محروم ہو جاتی ہے۔