ایک اوکھا، انوکھا دکاندار۔ تحریر: مشتاق احمد یوسفی
نوٹ: زیرِنظر سطور مشتاق احمد یوسفی صاحب کی کتاب شام ِ شعریاراں سے مستعار ہیں۔
فقر و استغناءکا تذکرہ *مولانا ایوب دہلوی* کے ذکر کے بغیر بالکل ادھورا رہے گا۔ میں نے مولانا کو اپنے عزیز دوست میاں فضل حسن کے ہاں دیکھا اور گھنٹوں بڑے شوق اور ادب سے سنا۔ وہ ان کے ہاں اتوار کے اتوار تشریف لاتے تھے۔ فضل صاحب ان کے فرمودات بڑے عقیدت اور باقاعدگی سے ریکارڈ کرتے۔ حکیم سعید صاحب کے پاس بھی ان کی باتیں بیسویں کیسٹوں پر محفوظ تھیں، جن کے کچھ حصے چھپ چکے ہیں۔ دور ہو یا قریب، کہیں بھی جانا ہو، میں نے مولانا کو ہمیشہ پیدل ہی آتے جاتے اور دسمبر اور جنوری میں بھی صرف ململ ہی کے کرتے میں دیکھا۔ دقیق سے دقیق نقطے کو باتوں ہی باتوں میں بہت سہل اور سجل پیرائے میں بیان کردیتے۔ جتنی رسان سے وہ سمجھاتے اتنی ہی آسانی سے بات سمجھ میں آجاتی۔ جس موضوع پر گفتگو کرتے اس کے اختتام پر فوراً اٹھ کھڑے ہوتے۔ چائے، مشروبات، کھانے اور کسی بھی قسم کے تواضع سے پہلے ہی بعجلت رخصت ہوجاتے۔
بندر روڈ کے آخری سرے پر میری ویدر ٹاور کے نزدیک مولانا کی ”لیدر گڈس“ (چمڑے کے سامان) بالخصوص سوٹ کیسوں کی دکان تھی۔ وہ صبح گیارہ بجے خود دکان کھولتے اور فروختنی اشیاءکو ڈسٹر سے جھاڑ پھونک کر ترتیب سے سجاتے۔ جیسے ہی اتنی بکری (فروخت) ہوجاتی کہ دن کا خرچ نکل آئے، وہ فوراً تالا لگا کے اپنی beat (معمول کا گشت) پر نکل جاتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ پوری طرح دکان کھلنے سے پیشتر ہی بوہنی دن کی دال روٹی جوگے ہوجاتی تو وہ ڈسٹر پھینک پھانک کر دکان کا شٹر گرا دیتے! اکثر و بیشتر دو تین گھنٹے ضرور لگ جاتے۔ آج اور صرف آج کی حاجت و ضروریات سے زیادہ بکری و منافع کے وہ طالب تھے نہ قائل۔فقر و قناعت کی اس کٹھن روش پر درجہءکمال تک قائم رہنا اسی حالت میں ممکن ہے کہ وہ بندے کو خیرالرازقین کی حکمت رزاقی پر کامل یقین ہو۔ ان کی عظمت و برگزیدگی کے تو سب ہی قائل تھے لیکن ان کے اہل خانہ اور لواحقین کے توکل اور نہفتہ عظمت پر شاید و باید ہی کسی کی نظر گئی ہو! سلام ہو ان پر۔
مولانا کو جب اور جہاں بھی دیکھا، ایسا ہی لگا کہ بہت جلدی میں ہیں۔ جس عاجلانہ و فقیرانہ شان سے آئے ہیں، اسی طور کہیں اور جانے کی جلدی ہے۔ مولانا نے ساری زندگی اسی وضع و نہج پر گزاری اور پایان عمر بھری بزم کو حسن سماعت میں گم چھوڑ کر جہاں جانا تھا، اسی طور شتابی چلے گئے۔